ایک دن کا ذکر ہے کہ راجا بکرماجیت اس کا ہاتھ پکڑ، رات کے وقت اپنے محل میں لے گیا اور اس جڑاؤ محل میں سونے کے چراغ ہر طرف ایسے روشن تھے جیسے ستارے۔ اس سبب سے اس مندر کی جوت مانند کیلاس کے تھی اور اقسام کی خوشبویاں مہک رہیں تھیں۔ فرش ریشمی زعفران سے چھڑکا ہوا جا بجا بچھا تھا اور قرینے سے ایک سنگاسن بھی دھرا تھا۔ راجا برہمن کو لے کر اس پر بیٹھا اور جس گن بدّیا اور علم و ہنر کی بات پوچھی، مادھو نے بے تامل اس کا جواب دیا۔ تب راجا نے اٹھ کر اس کے پاؤں دھو کہا کہ میں تمھارا چیلا ہوں۔ جو مانگو سو دوں۔
تب مادھو نے کہا: اگر آپ کو میری خوشی منظور ہے تو کام کندلا کو مجھے دلوا دیجیے کہ جس کی خاطر میں نے تن من دھن سب کھویا اور دل کا لہو آنکھوں سے رویا۔ پھر بے اختیار یوں کہنے لگا: اللہ مجھے پر دے تو اڑ کر دیکھوں۔
تب راجا نے دل میں غور کی کہ اس کا دھیان سوائے اس کے کسی طرف نہیں۔ اگر میں اس کو زبردستی رکھوں تو خوب نہیں۔ کیونکہ اس کے فراق میں اس کی جان جاوے گی اور مجھ پر ناحق ہتیا ہو وے گی۔ بہتر یہی ہے کہ جسے یہ چاہتا ہے اسے دلا دیجیے۔
یہ اپنے جی میں ٹھہرا اور دیوان عام میں آ، پردھان کو یاد فرما، حکم کیا کہ ہمارے ملک میں ڈھنڈھورا پٹوا دو اور جابجا شقے طلب کر کے لکھ بھیجو۔ اس نے بہ موجب راجا کے حکم کے کیا۔ چنانچہ راجا دیس دیس اور رسالہ دار وغیرہ چھوٹے بڑے نوکر اپنی اپنی تیاری کر، مستعد لڑائی کے ہو، حضور میں آن کر حاضر ہوئے۔
تب راجا نے شہر کے باہر، ندی کے کنارے جا، ڈیرہ کیا۔
تمام فوج کا محلہ دیکھا تو بیس لاکھ سوار اور نو ہزار فیل نشین تھے۔ رتھوں کا اور پیادوں کا شمار نہ تھا، پھر ہاست بازار کی تو کیا گنتی؟
غرض اسی فوج سے کام وتی نگری کو چلا اور زمین ہلنے لگی اور سیس ناگ مارے بوجھ کے کانپنے اور راجا دسوں دسا کے مارے دہشت کے تھرتھرانے لگے۔ گھوڑوں کے سموں سے ایسی دھول اڑتی تھی کہ آسمان زمین ایک نظر آتے تھے اور راجا جس کے ملک کی طرف گذرتا تھا وہ بھینٹ لے کر آن ملتا۔ لیکن سواری کے وقت آپ پیچھے ہوتا اور مادھو کو آگے رکھتا۔
دھن ہے ایسے ساکے بند راجا کو کہ جس نے پرایا دکھ دور کرنے کو اپنا دیس چھوڑا اور برہمن کے واسطے گھر بار، سکھ چین، سب کچھ تجا۔ کوچ بہ کوچ چلا جاتا تھا۔
غرض چند روز کے عرصے میں اس مقام پر پہنچے کہ وہاں سے کام وتی نگری چالیس کوس رہ گئی تھی۔ ڈیروں داخل ہو راجا نے اپنے دل میں کہا: “دیکھوں وہ عورت کیسی ہے جس کے فراق میں یہ مرتا ہے۔ وہ بھی اس کے درد ہجر میں گرفتار ہے یا نہیں”۔ یہ سوچ کر گھوڑے پر سوار ہو، تمام لشکر بھیڑ بنگاہ کو چھوڑ، شہر کی طرف اکیلا چلا مگر ایک خواص ساتھ ہو لیا۔ غرض پہر دن چڑھتے چڑھتے شہر میں داخل ہو اور لوگوں سے کام کندلا کا پتہ پوچھتا ہوا اس کے دروازے پر پہنچ، گھوڑے پر سے اتر حویلی میں جایا چاہتا تھا کہ دربان نے دوڑ کر خبر کی کہ “ایک شخص ڈیوڑھی میں کھڑا ہے شکل اس کی راجوں کی سی ہے۔ پر معلوم نہیں کہ راجا ہے یا کوئی بڑا آدمی”۔
یہ سن کر ایک چیری جلدی سے اپنے ساتھ راجا کو اپنے گھر لے گئی اور چتر ساری میں بٹھایا۔ اتنے میں وہاں دیکھتا کیا ہے کہ ایک عورت نہایت شکیل و حسین ہے لیکن تن بدن کی اسے اپنے خبر نہیں۔ کپڑے میلے، برا حال جی نڈھال، مادھو ہی مادھو کرتی ہے۔ پل پل میں چھپ چھیجتی جاتی ہے اور مورچھا گت چلی آتی ہے۔ لہو گوشت پوست سوکھ رہا ہے۔ کندن سا مکھڑا پیلا پڑ گیا ہے۔ ناچنا گانا بجانا سب کچھ بھولی ہوئی ہے۔ سانس ہی دم بہ دم کی اس کو سولی ہے لیکن اس حال میں بھی اسی کا خیال رکھتی ہے۔
بہتیری راجا نے دوستی کی باتیں کیں پر ان نے آنکھ بھی اس سے نہ ملائی اور ایک بات کا بھی جواب نہ دیا۔ مگر آنکھوں میں آنسو بھر بھر لائی اور پی پی گئی۔ آخر راجا نے جھنجھلا کر کہا کہ اتنا گھمنڈ کسی کو مناسب نہیں۔ اس کو زر سے کام ہے۔ اعلیٰ و ادنیٰ سے کیا مطلب؟
بس ہر ایک سے چاہیے کہ لگاوٹ کرے اور اپنے بس میں کرے۔
تب کام کندلا بولی: تم ایسی باتیں نہ کہو۔ میں نے اپنا جی اس باہمن کو دچھنا دیا ہے اور آنکھوں نے میری دیکھنا تج کر برت لیا ہے۔ میں بولتی اسی سے ہوں جو میرے من میں بستا ہے اور اس کے دیکھنے سے آنکھوں میں ٹھنڈک ہوتی ہے۔ میرا تو من، دھن جی وہی لے گیا ہے۔ اس کے بن مجھے سارا جگ سونا لگتا ہے۔ کسی بات کی مجھے سرت نہ رہی۔ گن روپ چھوڑ کر باؤلی ہو گئی۔میری آنکھیں ادھر ہیں وہ ہے جدھر۔ پھر کس طرح سے کروں کسی پر نظر!
راجا اس کا روپ دیکھ اور حال سن اپنے جی میں کہنے لگا: یہ اس پر جان دیتی ہے، وہ اس پر جی دیتا ہے۔ اس کی جدائی سے وہ لٹ گیا اور اس کے بیوگ سے یہ لٹ گئی ہے۔ ایک کا من دوسرے سے لگ رہا ہے۔ ہر ایک کی آنکھوں کو ہر ایک کا دھیان بندھ رہا ہے۔ آٹھ پہر میں ایک پل نہیں سوتے۔ نسدِن جدائی کی پیڑ سے ہیں روتے۔ برہ کی ریت دونوں میں برابر پائی جاتی ہے۔ حالت ان کی ایک سی نظر آتی ہے۔ ان کی پیت کی ایسی ہے نیک جیسے نظروں کی راہ ہے ایک۔ مالتی لگی ہے بھونرے کے رس میں اور اس باس میں ہے لگا۔ برہ کی سول من ہر ایک کا سہہ نہیں سکتا۔ اس عورت کی جان اس مرد کے تن میں ہے اور اس کی جان اس کے بدن میں۔ پھر سمجھا کہ ان کی کپٹ کی نہیں ہے پیت ان دونوں میں وہ دیکھی جو سنی ہے دوستی کی ریت۔ اگر ان کی محبت جھوٹی ہوتی تو دونوں کے دل کا چین برہ کی پیر نہ کھوتی۔ ایسی چاہت پر جان مال سب گنوا دیجیے اور برہ کا درد اپنے دل پر لیجیے۔ جن میں کپٹ پردہ نہیں وہ دور ہوں یا نزدیک پر رہتے ہیں ملے۔ اس طرح کی پیت پر تن من دھن سب واریے۔
ندان راجا نے اس گھر کی دیرینہ بڑی بوڑھیاں جو تھیں، ان سب کو بلا کر پوچھا: “کس کے واسطے اس کی سدھ بدھ گئی ہے اور کس کی محبت و الفت کی برہ کے بس میں پڑی ہے؟”
تب سکھیاں اس کا احوال رو رو کر بیان کرنے لگیں کہ “ایک مادھونل نام بم بیٹا تھا۔ اس کی برہ کی آگ میں جلتی ہے۔ وہی مسافر اسے ٹھگ گیا اور اس کے دل و جان کو اسی کا دھیان لگ گیا۔ کبھی بے ہوش ہوتی اور کبھی ہوش میں آ رہتی ہے۔ پپیہے کے سے بچن۔ لہو اس کا برہ کی آگ سے سوکھ گیا ہے اور سفید پڑ گیا ہے بدن۔ نہیں معلوم وہ بمنہیٹا موہن روپ بن آیا تھا یا اندر تھا کہ اسے چھل گیا، یا کام دیو تھا کہ اس نے دیکھا۔ اس کی چاہت میں اس کی یہ حالت ہے کہ کسی سے بیان ہو نہیں سکتی۔ برہ کی ٹھنڈی سانسیں لے لے اپنی جان دے رہی ہے۔ رات بھر اس کی آنکھ جھپکتی اور دن کو بے تابی سے تڑپتی۔ غرض ہر وقت اس کے عشق میں دکھ بھرتی ہے اور جیتے جی مرتی ہے۔ دوست کے بیوگ سے یہ آنکھوں سے آنسو بہاتی ہے اور مریچ کر اپنے تئیں خاک میں ملاتی ہے”۔
یہ سن کر راجا نے واسطے آزمائش کے یہ کہا کہ “مادھونل کو ہم نے جوگی کے بھیس اجین نگری میں بیوگ بھرا دیکھا تھا۔ ندان بیوگ کی سول سے بہت دکھ پاکے مر گیا”۔
جب یہ بات راجا نے تمام کی، کام کندلا نے ایک پچھاڑ کھائی اور مانند پنگلا کے تمام ہوئی ؎
دوست کے مرنے کا جب حال جدائی میں سنا
آہ اس درد سے کھینچی کہ ہوئی جان ہوا
سکھیوں نے جو آکر دیکھا تو اس کے دانت بیٹھ گئے ہیں اور زبان اینٹھ گئی ہے اور آنکھیں مچ گئی ہیں۔ پھر ایک نے نبض پر جو ہاتھ رکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ برسوں سے موئی پڑی ہے۔
وہیں بال بکھرا ڈاڑھیں مار مار سب کی سب رونے لگیں اور یوں کہنے: “چنبیلی بھونرے کی جدائی میں سکھ کے پانی بن سوکھ گئی اور دکھ کا کانٹا کھا کر جھڑ گئی۔ پر اس کی برہ کا درد نہ سہہ سکی”۔