جب اُن نے تمام اپنا درد دل کا کہا، ساری مجلس راجا کی بھیچک رہ گئی۔ بلکہ جتنے پنڈت گنی اور دانا تھے، وے بھی حیرانی سے منھ دیکھ کر اس کا رہ گئے۔ راجا بھی حیرت میں آیا پر اُن نے اتنا کہا کہ “پنڈت جی! تم سب کے سردار ہو اور سب گنوں سے خبردار۔ جس کو چاہو بات میں موہ لو۔ ایسا کون ہے جو تم کو موہے ٹک۔ ایک سمجھو کہ دل مانند لعل کے ہے اور جان کو اس سے سکھ ہے۔ غیر کے ہاتھ ایسے جواہر کو دے کر دکھ لینا اچھا نہیں”۔
تب مادھو نے کہا: سنیے مہاراج! من تو جوں توں اپنے اختیار میں بھی رہ سکتا ہے پر یہ آنکھیں بڑی ذوتی ہیں کہ اس کو بگانے بس کر کے جی کو بے چین کر دیتی ہیں۔ انھیں آنکھوں نے میرے دل کو بھی کام کندلا کے بس میں کردیا اور اُسی کے بچھڑنے سے میرا ان پانی چھوٹا ہے اور پل پل میں درد اُس کی جدائی کا بڑھتا ہے۔ چت کے اندر جو آگ ہے اس کا سوز اسی میں رہتا ہے اور یہ اگن جس کو لگتی ہے وہی سہتا ہے۔
تب راجا نے کہا: تم اتنے بڑے گنی ہو کر، حیف ہے، کسی سے دوستی کرو اور اُس کی محبت میں مرو۔ راجا رائے جتنے ہیں سب تمھاری قدر بوجھتے ہیں اور چرن تمھارے پوجتے ہیں۔ اپنے تئیں دیکھو! اور اسے سنتے ہو! بیسوا مال و دولت ہی تلک ہے آشنا مفلسی میں کسی سے نہیں کرتی وفا۔ اُس کی آنکھ ادھر ہے اور دل ادھر۔ کسی سے لگاوٹ کسی سے رکھائی، کہیں بھولا پن کہیں چترائی۔ ایک دم میں یار ایک پل میں بیزار۔ اس کی دوستی پر مت تپیاؤ اور بیسوا کی صحبت سے باز آؤ۔ بیت ؎
کسو سے اشارہ کسی سے ہے بات
کسی سے ہے چشمک کسی سے ہے گھات
تب مادھو نے کہا: “اے راجا! تو اگر اسے میری آنکھوں سے دیکھے تو ان باتوں کا مطلب دھیان نہ کرے۔ راجا! جو چیز جس کو بھاتی ہے وہ اس کی آنکھوں میں سہاتی ہے۔ وہ رو برو نہ ہو اگر تو بستی اجاڑ آوے نظر۔ اگرچہ دریا اور سمندر بہتے ہیں پر پپیہا سوات کی بوند ہی کو تکتا ہے۔ دن رات پانی میں رہتی ہے سیپی پر پیاسی ہی نیسان ہے پانی کے قطرے کی۔ ہر چند تارے آسمان پر بے شمار ہیں پر چکوریں چاندنی کی ہیں بے قرار۔ مچھلی بن پانی بے تاب ہو اور بھنورا بغیر کنول کے خراب۔ کام کندلا بن مادھو کا یہ کچھ ہے حال۔ عشق ہوا ہے جنجال اے راجا جلد سنبھال!”
تب تو راجا بولا: “اس بیسوا کی دوستی سے باز آ۔ میرا کہنا مان! تو باہمن تیرے وہ لائق نہیں ہے”۔
تب کہا اس نے: “میں تو ابھی چھوڑ دوں۔ پر کیا کروں کہ دل میرے بس میں نہیں۔ مہاراج! کام کندلا نے میرا مال و دولت، دل و جان لیا اور اس کے بدلے برہ کا دکھ دیا۔ جب تلک آنکھوں میں ہے جان اور تن میں ہے سانس تب تک نہ چھوڑوں گا اس سے ملنے کی آس۔ جب تک نہ مروں گا اور دوزخ بہشت میں نہ جاؤں گا، پپیہے کی طرح کام کندلا ہی کا نام جپوں گا۔ کیونکہ جو کوئی خام خیال رکھتا ہے اور بو الہوس ہوتا ہے وہ دوستی کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ جن نے اگلے جنم میں ثواب کے کام کیے ہیں وہی دوستی کی راہ میں قدم رکھتا ہے۔ انسان تو سب ہی ہیں پر آدمی وہی ہے جس کو عشق ہو۔ اور عاشق نہ ڈوبتا ہے نہ جلتا ہے۔ غرض کسی طرح مرتا نہیں۔ جس کے دل میں عشق کی گرمی ہے صاحب معرفت وہی ہے۔ بدن مانند خانۂ تاریک کے ہے اور محبت اس میں مثل چراغ کے۔ بیت ؎
سینے ميں اپنے یوں ہے یہ دل کا داغ روشن
جیسے اندھیرے گھر میں ہووے چراغ روشن
جب محبت دل میں یار کی باتوں سے آتی ہے تب ایسی باتیں ظہور میں آتی ہیں”۔
آخر مادھو کی باتوں سے راجا اور تمام مجلس کے لوگ رونے لگے اور جو کوئی یہ احوال سنتا تھا اس کے دیکھنے کو آتا تھا۔ پر جو اس کو دیکھتا تھا اس کا دکھ اسے بھی ہوتا تھا۔ تمام اجین میں جا بجا یہی چرچا تھا۔ جہاں چار رنڈی مرد بیٹھتے تھے تو یہی مذکور کرتے کہ اس شہر میں اک بیراگی آیا ہے، بہت خوبصورت اور چترا ہے۔ لیکن سکھ اور چین تج کر دوستی کے عہد سے رات دن صندل سے بدن پر راکھ ملتا ہے اور آہوں کا دھواں اس کے منہ سے نکلتا ہے۔ غرض اس کی خستہ حالی سن سن اور دیکھ دیکھ ہر ایک سر دھنتا تھا اور دریغ سے ہاتھ ملتا۔