مادھو یہ سب چپکا سنا کیا اور کچھ نہ بولا۔ پر جو کوئی احوال اس سے پوچھتا تو نظریں نیچی کر درد دل سے وہ ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتا۔ یہاں تک اپنے معشوق کی تصویر میں مصروف تھا کہ نہ کچھ کسی کی بات سنتا تھا نہ کہتا۔ جیسے جوگی اپنے گرو کے دھیان میں رہتا ہے ویسے ہی یہ بھی اپنے دھیان میں اس کی دوستی کی مالا پھیرتا تھا اور منتر کی جگہ اس کا نام جپتا۔ بیت ؎
عاشق کو اس کے یارو کوئی کچھ کہا کرے
پر وہ اسی کے نام کی ثمرن جپا کرے
تب گیان متی نے اس سے کہا: “اے بیراگی! برہ کے بس میں ہو کر گو سکھ کی دولت سب چھوڑی پر دل کھول کر بولو اور اپنے درد کی باتیں کہو۔ کیوں چپکے ہو؟ تمھیں اسی کی قسم ہے جس کی جدائی میں یہ حال بنایا ہے اور سکھ آرام گنوایا ہے۔ حجاب کو اڑا دو اور خاموشی کا پردہ اٹھا دو”۔
مادھو اس کی قسم مان کر جدائی کا احوال اور کام کندلا کی دوستی کا قصہ کہنے لگا۔ پھر اس طرح سے کہ ایک دم کہتا اور ایک پل روتا۔ کنول سی آنکھوں کو آنسوؤں سے دھوتا۔ سچ ہے دکھ کی باتیں جس کے آگے دکھیا کہتا ہے اس کو بھی دکھ کا اثر ہو جاتا ہے اور سکھ جاتا رہتا ہے۔ دکھ کے سمندر میں وہی گرتا ہے جس کے دل کو دکھ کی لاگ ہوتی ہے۔
غرض کہ اس کی پیڑ سکھیوں کے بھی دل کو لگ گئی اور برہ کی تپ سے سب کی گات جلنے لگی اور تمام بدن پسیجنے۔ آنسؤں سے انگیا اور آنچل بھیگے۔
صدقے جائیے اُن کے جو بیگانے درد کو اپنا کر جانتے ہیں اور پھٹے منہ اُن کا ہے جن کے دلوں میں پرائی پیڑ اثر نہیں کرتی، جیسے پانی پتھر میں نہیں بھدتا۔
پھر گیان متی نے کہا: “ہم راجا بکرم کی لونڈیاں ہیں۔ تمھارے ڈھونڈنے کو ہم سب کو بھیجا ہے اور تمھارے دکھ سے وہ آپ بھی دکھ میں ہے۔ بہتر اب یہ ہے آؤ راجا پاس چلو تمھارا مقصد پورا ہوگا”۔
یہ سب کچھ سمجھا کر اُسے حضور میں لائیں اور عرض کیا: “یہ وہی برہمن درد مند ہے کہ جس کے دکھ سے آپ کو بے چینی تھی”۔
تب راجا نے برہمن جان کر اس کی بہت سی تعظیم و تواضع کی اور اپنے پاس بٹھایا اور منہ اس کا تک رہا کہ سر سے پاؤں تلک برہ کی اگن میں جلتا ہے اور محبت کے سوز سے گلتا۔
کہنے لگا: “کام دیو بھی کیا مورکھ ہے جو کندن سی دیہ کو نیہ کی آگ سے جلا کر راکھ کر ڈالتا ہے”۔
پھر بولا: اے باہمن دیوتا! جو کچھ کہو اس کو بجا لاویں۔ زہے نصیب ہمارے کہ تم نے ہمیں درسن دیا۔ سچ کہو کہاں سے تم آئے ہو؟ اور کیا تمھارا نام ہے؟ اور کس کے عشق سے دولت دنیا چھوڑ کر فقیری اختیار کی؟ پر خاطر جمع رکھو کہ ایشور تمھارا مطلب پورا کرے گا۔
تب کہنے لگا کہ “میرا نام مادھو نل ہے۔ بید سنگیت، بیا کرن، سا مدرک، جوتش، رس، گیتا کوک کاویہ، آگم نپگل ان سب کو پڑھا ہوں اور بین مردنگ سے لے دنیا میں جتنے باجے ہیں سب کو بجاتا ہوں۔ راگ راگنی کو بھی ساتھ دانست کے گاتا ہوں۔ تمام جانوروں کی بولی سمجھتا ہوں۔ جہاں کے گر اور بدیا سے ماہر ہوں اور پوہ پاوتی نگری، جہاں کا راج راجا گوبند چند کرتا ہے، وہاں کا رہنے والا ہوں۔ پہلے تو راجا نے میرا بہت سا آدرمان کیا۔ پھر دیس نکالا دیا۔ میں اداس ہو کر وہاں سے جا بجا سیر کرتا ہوا کام وتی نگر میں آیا، جہاں کا راجا کام سین ہے کہ جس کا وصف جن و بشر کرتے ہیں اور اس شہر میں کام کندلا نام ایک کنچنی رہتی ہے۔ وہ سنگیت کے علم میں ایک ہے اور شکل و شمائل میں نیک۔ چاند اس کے منہ سے شرمندہ اور سورج اس کی چمک کو لگ نہیں سکتا۔ ایک ذرہ آنکھیں مہری لگ رہی ہیں۔ اس کے روپ سے عقل، چترائی اور گن سب کے سب جاتے رہے۔ اے راجا! جس دم مَیں دنیا میں پیدا ہوا تھا اُسی دم ہما نے میرے دل کی لوح پر عشق لکھ دیا تھا۔ اُسی میں اس کو ایک دم بھولتا نہیں ہوں اور اسی کا تصور آٹھ پہر رہتا ہے۔ جدھر دیکھتا ہوں وہی نظر آتی ہیں۔ غرض اُس کی صورت نے میری آنکھوں میں آن کر جی نکال لیا اور دل میں گھر کیا۔ سدا میرے نین اس کے درشن کو ترستے ہیں اور جی ملنے کو تڑپتا ہے۔ حیف ہے کہ بھگوان نے مجھے پر نہ دیے، اگر ہوتے تو اس کے پاس اُڑ کر پہنچتا”۔