اتنے میں صبح ہوئی اور سورج نکلا۔
سب سکھیاں اس کے پاس گئیں۔ کام کندلا کسمسائی ہوئی سیج پر لیٹی تھی۔ انیندی آنکھیں جھپکی جاتی تھیں اور بات بات میں جنباہیاں (جماہیاں) آتی تھیں۔ بدن میں طاقت نہ تھی، ایسی نچڑ گئی تھی جیسے بھنورا کنول کا رس پی لیتا ہے اور وہ کمھلا جاتا ہے۔ پوشاک اور سنگار کی یہ حالت تھی کہ تمام چولی چسکی ہوئی، انگیا مسکی ہوئی، مانگ بگڑی ہوئی، زلفیں بکھری ہوئی۔ ہونٹوں پر دانتوں کے نشان اور چھاتی پر انگلیوں کے اور کنچن سے دیہ پر نقش زیور کے۔ جب سکھیاں اٹھا کر لے چلیں تو متوالی سی چلنے لگی کہ قدم رکھتی تھی کہیں اور پڑتا تھا کہیں۔ جوں توں سنبھال کر باہر لائیں اور بٹھلایا۔ پھر کوئی بال الجھے ہوئے ہاروں میں سے سلجھانے لگی اور کوئی زیور سنوارنے، کوئی گلاب چھڑکنے، کوئی خراش سینے پر زعفران گھس گھس لگانے۔
ندان اشنان کے واسطے تالاب پر لے گئیں تو چکوا چکوی نے یہ جانا کہ چاند نکلا، وہ اس دھوکے سے جدا ہونے لگے اور پھول کنول کے مندنے اور کلیاں نیلوفر کی کھلنے لگیں۔ پھر اس کے بدن میں خوشبو ابٹن مل کر، نہلا دھلا باہر لائیں۔ پانی کی بوندیں اس کے چمپئی رنگ پر یوں لگتی تھیں جیسے چمپا کے پھول پر شبنم اور ہر ایک لٹ سے قطرہ پانی کا گرتا ہوا نظر آتا تھا جیسے سانپ منہ سے موتی اگلتا ہے۔ گھونگر والے بال چھوٹے چھوٹے اس کے ماتھے پر یوں تھے جیسے جھنڈ بھنوروں کا اور قطرے پانی کے ان سے ایسے ٹپکتے تھے جیسے وہ کنول کا رس پی کر اگلتے ہیں۔ غرض کہ بال سکھا، بدن پونچھ، پوشاک پہن، سولہ سنگار بارہ ابھرن کر، سکھیوں سے باہم یہ مشورہ کیا “آج مادھو کو یہاں اور بھی کس طرح رکھا چاہیے۔ اب کا بچھڑا ہوا پھر دیکھیے کب ملے۔ مثل مشہور ہے ندی ناؤ سنجوگ، کت اودھو کت لوگ”۔
تب سکھیوں نے کہا کہ “کام کندلا! تمھارے سکھ سے ہمارا سکھ ہے اور تمھارے دکھ سے ہمارا دکھ۔ جو کچھ کہو قبول ہے”۔
پھر یہ بات ٹھہرا مادھو کے پاس آکر کہا کہ “تجھ بن مجھے صبر و قرار نہیں۔ یہی جی چاہتا ہے کہ ایک پل تجھے نہ چھوڑوں”۔
تب سکھیوں نے بھی کہا کہ “سچ ہے اس کی ایسی ہی حالت ہے۔ کیا کرے سب کو چھوڑ کر تیری ہوئی۔ سو تو چپکا بیٹھا ہے۔ بہتر اس سے یہ ہے جو دل میں ہو سو کہہ۔ یقین کر جان جن کی روحیں ملی ہوئی ہوتی ہیں، وہی باہم دگر یہاں بھی ملتے ہیں اور بدون وہاں کی ملاقات کے یہاں ملاقات نہیں ہوتی۔ بیت ؎
ازل سے روحیں ملیں تھیں جو مل گئیں باہم
نہ ہوتا ورنہ کبھو دوستی کا یہ عالم
غرض جو ہو سو ہو۔ آج تو اور بھی نہ جا!”
یہ سن مادھو نے کام کندلا سے کہا کہ “ہمیں رخصت کر اور اپنے پر آفت مت لا! یہ خبر جو راجا تلک پہنچے تو خدا جانے تیرا کیا حال ہو۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ باز آ اس بات سے در گزر کہ انجام اس کا خرابی و پشیمانی ہے۔ اس اندیشے کے مارے جاتا ہوں و الّا مجھے بھی کسی طرح سے تیری دوری گوارا نہیں۔ میں یاد ایک پل نہ بھولوں گا ؎
جدائی تری کس کو منظور ہے
زمیں سخت اور آسماں دور ہے
بس تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ مجھے جانے دے”۔
تب کام کندلا نے کہا: “ہنوز تو نہیں گیا تس پر میری حالت تباہ ہے۔ اگر جائے گا تو مر ہی جاؤں گی ؎
نہ ہوئی غم سے کسی آن رہائی مجھ کو
جو رسوائی خرابی ہو سب گوارا ہے لیکن آج کی رات اور بھی رہ جا کہ پھر پھولوں کی سیج پر ہم بستر ہووں اور دل کی حسرتیں کھوویں”۔