اتنے میں کام کندلا اُٹھ کر آئی اور کہنے لگی: “تو کیوں اس قدر متردد و متفکر ہے۔ میں تو تیرے علم و ہنر کی خریدار اور سمجھنے والی ہوں۔ تو میرے گن بدیا کا جاننے والا ہے جیسے بھنورا کنول کی خوبی کو جانتا ہے اور ڈاڈو (مینڈک) درخت کی جڑ میں رہتا ہے پر درخت کو نہیں پہچانتا۔ ویسے ہی ناچنے اور تھرکنے کے لطف کو اندھا نہیں دیکھتا اور روپ کروپ میں فرق نہیں کر سکتا۔ پھر ایسے مقام پر افسوس عبث ہے، آؤ میرے گھر چل کر رہو! میں تمھاری خدمت کروں گی اور مجھے الفت و محبت کی باتیں سکھاؤ! آتش شوق کو بجھاؤ! شربت وصال محبت کے پیاسے کو پلاؤ! اپنے بیمار الفت کی کر دوا۔ میں عاشق تیری تو عاشق میرا۔ تو چاند میں چکور، میں کنول تو بھونرا۔ آ بس کے رس لے۔ میں صدف تو نیساں، گوہر مراد سے مجھے بھر دے!”
تب مادھو بولا: “دنیا میں سدا یکساں پیار اخلاص نہیں رہتا۔ وہاں دوستی کیجیے جہاں ایک سی رہے ورنہ کون درد فراق سہے۔ کیا فائدہ جو دو دن ملے اور رات دن آتش ہجر سے جلے۔ دوستی کا انجام اضطرابی ہے اور طرفین کی اس میں خانہ خرابی ہے۔ نہ بیٹھے قرار نہ کھڑے چین، ایک سی بے کلی رہتی ہے دن رین ؎
ہر ایک مو تن کا لگتا ہے خار
یوں کٹتی ہے عاشق کی لیل و نہار
جب اپنا نہ ہو گلبدن ہم کنار
تو پہلو میں ہیں موئے تن خار خار
یہ سمجھ کر دل کہیں نہیں لگاتے۔ تو جان لے کہ عاشق مانند تلوار کے ہے۔ جس کسو کو اس کا زخم کاری لگے وہ بچتا نہیں اور عاشق آگ کا شعلہ ہے کہ جس کو لگے جلا ہی دے۔ اس کے سوز سے پتنگ واقف ہے کہ جو شمع کو دیکھ کر رہ نہیں سکتا اور وصل کا مزہ جلنے میں ہی ہے اٹھاتا”۔
یہ سن کر کام کندلا تحمل نہ کر سکی اور بے اختیار اٹھ کر کہنے لگی: “پریم پریت کے مزے سکھاؤ! اور اخلاص پیار کی باتیں بتاؤ! اب اندیشہ کچھ نہ کرو! اُٹھو ہمارے گھر چلو!”
یہ سن مادھو کام کندلا کے ساتھ چلا اور سکھیاں بھی ساتھ ہولیں۔
القصہ حویلی میں لے جا، ہاتھ پاؤں دھلا، مسند پر بٹھایا اور سکھیوں نے پھولوں کی سیج کی تیاری کر کے در و دیوار پر گلاب چھڑک دیا اور عطردان، پاندان، پھولوں کی چنگیروں کو دھوم دھام سے آراستہ کر جا بجا اپنے قرینے سے رکھا۔ پھر ایک سکھی نے مادھو کو لے جا اسی سیج پر بٹھایا۔ وہاں اس کا عالم دیکھ کام دیو شرمندہ ہوا۔ اُدھر کام کندلا نے بھی سولہ سنگار بارہ ابھرن کرکے اور بھی جواہر پہنا اور کہنے لگی: “سنو سکھیو! پیم پیت کی پہیلیاں مجھے سکھاؤ کہ اب تک نادان اچپلی ہوں۔
اس کی لذت سے چنداں واقف نہیں ہوں۔ باتیں صحبت داری کی نہیں آتیں۔ نہ یہ ڈھب آتا ہے کہ جس سے مرد فریفتہ و گرویدہ ہووے۔ دیکھیے پہلی ملاقات ہے، کیا ہو۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ سب باتوں میں چترا ہے اور کوک سنگیت کا ماہر، چودہ بدیا کا جاننے والا۔ یوں تو علم کوک کا میں بھی جانتی ہوں، پر اس کے سوا کچھ اور بھی مجھے سکھاؤ۔ کیونکہ مادھو کے دیکھے سے جی سہما جاتا ہے۔ تم سب کو اپنا جان کر پوچھتی ہوں”۔
تب سکھیوں نے کہا: “کوک کی ریت تم بھی خوب سمجھتی ہو۔ سب گھاتیں جانتی ہو اور کام دیو کے انگ پہچانتی ہو۔ جس جگہ ٹھکانا کام کا جانو اس جگہ ہاتھ مت لگانے دینا اور اس کے بدن میں جس جگہ ہو وہاں کی مچھیاں لینا”۔
یوں سمجھا بجھا مادھو کے پاس بھیجا۔ وہ اس روپ سے اسے دیکھ کر اور بھی ریجھ گیا اور وہیں کام دیو نے آ گھیرا۔ آہستہ آہستہ اس کے پاس جاکر پلنگ پر لے آیا۔ پھر دونوں چترائی کی باتیں کرنے لگے۔ شہوت و جوانی میں بھرے ہوئے، خوبی سگھڑائی میں گھڑے عیش کی حالتوں میں بس کر محو ہوئے۔ شہوت کی آگ کی تاب نہ لائے۔ جس طرح سے کہ کوک کی ریت تھی اسی طرح سے ہم بستر ہوئے اور وہ رات خوشی خورّمی سے کاٹی۔ پر جو جو کہ عمل میں لائے کسی نے دریافت نہ کیا۔ غرض جہاں ہوا کا نہ ہو گذر اور چاند سورج کی نہ پڑے نظر وہاں کی حالت کوئی کیا بیان کرے مگر سکھیوں کو کلا کی سی آواز معلوم ہوتی تھی۔