الغرض کام کندلا بھی اس کی چترائی دیکھ کر اپنے دل میں کہنے لگی: “یہ شخص بڑا ہی صاحب کمال ہے اور راگ تال سر سے خبردار۔ جو کچھ آگے حضور میں راجا کے کرتب کرتی تھی اس کی بھلائی اور برائی کا کوئی معلوم کرنے والا نہ تھا۔ بہتر یہ ہے اب جو کچھ کیجیے سوچ سمجھ کر کیجیے کہ یہ محظوظ ہو”۔
اس بات کو دل میں ٹھہرا کر، پوشاک باریک صندل کے عطر میں بسا کر پہنی اور خوب سا بناؤ سنگار کیا بلکہ گہنا پھولوں کا بھی پہن لہا۔ بیت ؎
کیا کیا کروں اب وصف میں اس چرخ بریں کا
ہے بدر کہ کوکب ہے کوئی چرخ بریں کا
اور اپنے سماجی ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ “آراستہ ہو اور اپنے اپنے ساز ملاؤ”۔
تب انھوں نے مردنگ کنگری، بین بانسری، روز بین اُپنگ، سر منڈل گن، تنتی تال، کرتال، منہ چنگ، دائرہ رباب، جل ترنگ اور چنک امرٹ، کنڈلی بناگ، مین کھرج، رکھب گندھار، مدھم پنجم، دھیوت نکھاد ان ساتوں سروں کو موافق دستور کے باندھا پھر کام کندلا راجا کے حضور سب سمیت آئی اور ساتھنیں اس کی راگ الاپ، گیت چھند، پر بند گیت دوھرا، بش پد گانے لگیں اور کام کندلا موافق بولوں کے بھاؤ بتانے، بھویں موڑ، تان توڑ مادھو سے آنکھیں لڑانے۔ بیت ؎
وہ نگاہیں جو چار ہوتی ہیں
برچھیاں ہیں کہ پار ہوتی ہیں
غرض کہ جو کچھ یہ کرتب کرتی تھی سو مادھو معلوم کرتا تھا۔ اتنے میں اور ہنر کیا کہ شیشہ پانی کا بھرا ہوا سر پر رکھا اور منہ سے موتی پرونے لگی اور بٹے ہاتھ سے اچھالنے کہ ایک بھنورا کچ کی بھٹنی پر آبیٹھا اور عطر کی بو جو پائی تو وہیں جم کر ڈنک مارنے لگا۔ اس کی کچھ کی کچھ حالت ہو گئی۔ اس بات کو مادھو کے سوا کسی نے معلوم نہ کیا۔
تب کام کندلا نے یہ دل میں کہا کہ “اگر ہاتھ سے دور کرتی ہوں تو بٹا گرتا ہے، جو سر کو جھکاتی ہوں تو شیشہ، جو ٹھہروں تو تال جاتا ہے”۔
یہ سمجھ کر دم کو روک، بھٹنی کی راہ سے نکالا اس میں ایک بارگی جوں گرم ہوا بھنورے کو لگی اڑ گیا۔
یہ ہنر مادھو نے دریافت کر چاروں طرف نگاہ کی۔ دیکھا تو کسی نے معلوم نہ کیا بلکہ راجا بھی مورکھ ہے کہ اس نے بھی اس کی چترائی اور گن کی خوبی دریافت نہ کی۔
تب مادھو نے جو کچھ اسباب راجا نے دیا تھا، سب کا سب کام کندلا کے حوالے کیا۔ پھر تو ہر ایک کی پیار کی نظر ہر ایک پر پڑنے لگی لیکن سیری دیدار سے طرفین کو نہ تھی۔ چوری کے دیکھنے سے جی کیونکر بھرے اور دل بے تاب صبر کس طرح کرے؟ آنکھیں ہی رسوا کرتی ہیں اور پہلے لذت بھی یہی اٹھاتی ہیں۔ پیچھے دل مزہ اٹھاتا ہے نداں پرائے ہاتھ جاتا ہے۔ سچ ہے کہ نین بڑے لالچی، بیری اور ڈھیٹ ہوتے ہیں، نہ ان کو شرم نہ حیا نہ کسی کی جان و آبرو کا دھیان ذرا۔
غرض یہاں تک دیکھا دیکھی ہوئی کہ ہر ایک کے لوح دل پر ہر ایک کی صورت نقش ہو گئی اور جی دونوں کے مل گئے۔ مادھو اشاروں میں اس کی تعریف کرتا تھا اور وہ آنکھوں سے سلام کرتی تھی۔ وہ اس پر بہ دل ہو گیا تھا مبتلا اور یہ اس کے جی سے ہو گئی تھی شیدا۔ غرض کام دیو نے عجب کام کیا کہ بھری مجلس دونوں کو بدنام کیا۔
نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
یکایک کھل گئیں دونوں طرف سے دل کی کل جھڑیاں
آخر اس کے سب اسباب دینے سے راجا نے برہم ہو کر کہا کہ “میں نے تجھے دو لاکھ روپے کی جنس اور مال مع خلعت بخشا سو تو نے اس بیسوا کو دے ڈالا اور آپ پھر بھکاری کا بھکاری ہو گیا۔ فقیر ہمارے سامنے کیا ہمت جتاوے۔ اکثر ہوتا ہے کہ بھیک مانگے اور نہ پاوے۔ تجھ غریب فقیر کو ہرگز یہ حرکت مناسب نہ تھی۔
معلوم ہوا کہ تو بڑا نادان ہے پر یہ تو بتا وہ کون سا ہنر انوکھا دیکھا تھا تو نے جس پر ایسی بخشش کی؟”
تب تو مادھو نے کہا: سنو راجا! ہرن حیوان ہے اور سدا بن میں بستا ہے لیکن جب میر شکار راگنی بہروپ کی گاتا ہے تب وہ بے سدھ ہو جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے اور اسی حالت میں ہرنی سے کہتا ہے: اب کیا کریں؟ اس بدک کو کیا دیں، ہمارے تو پاس کچھ نہیں۔ تب وہ کہتی ہے جو کچھ دینے کا نہیں تو جان دے۔ غرض وہ میر شکار کی بندوق کی گولی کھاتا ہے اور اپنی جان گنواتا ہے۔ صد آفرین اس ہرن پر کہ جس نے راگ پر ریجھ کر جان دی۔ سچ ہے کہ اگلے راجوں نے بھی بڑی بڑی ہمتیں کیں ہیں لیکن ہرن کی ہمت و بخشش کو کوئی نہیں پہنچتا۔
تب راجا بولا: “معلوم ہوا کہ تجھے مال و دولت کی پروا نہیں، اس ہنر کو پھر بیان کر!”
تب اس نے کہا: “تیری مجلس ساری کوڑھ ہے اور کسو کو اس فن میں اچھے برے کی تمیز نہیں۔ میں اس کا ماہر ہوں۔ اگر حد سے زیادہ محظوظ ہوں تو جان تلک بھی دے گذروں”۔ وہ سب کیفیت مفصل بیان کی۔ تب راجا نے کہا: “کیا ڈھیٹ ہے کہ چپکا نہیں رہتا۔ جی میں ایسا غصہ آتا ہے ایک تلوار ماروں کہ دو ٹکڑے ہو جاوے پر بامنھ سمجھ کر کچھ نہیں کہتا اور بدنامی سے بھی ہوں ڈرتا”۔
تب مادھو نے کہا: “جو تو مجھے مارے تو بھوت بن کے تجھ ہی کو لگوں اور دونوں جہاں میں بھی تجھے روسیاہی ہو۔ اے راجا! جو ہتیا برہمن کی کرتا ہے وہ پھر جنم کوڑھی کا لیتا ہے گو وہ ہزار تیرتھ اور ہوم کرے پر ہتیا نہیں جاتی”۔
راجا نے یہ سن کر اس سے کہا کہ “ماں باپ اور برہمن کے مارنے سے بڑا گناہ ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت برا ہے۔ یہ بہتر ہے کہ تو میرے ملک سے نکل جا اور اپنے عمل بھر میں جس کے یہاں سنوں گا اس کا زن و فرزند کولھو میں پلواؤں گا”۔
پھر حکم کیا کہ “اس کو نکال دو اور منادی شہر میں کر دو کہ اسے جو کوئی اپنے گھر میں رکھے گا اس کی کھال کھینچ بھس بھر دوں گا”۔
مادھو نے کہا: “اگر یہ ہے تو تیرے شہر میں کون رہے گا۔ میں نے تو مسافری اختیار کی اور کمال بھی رکھتا ہوں۔ جہاں جاؤں گا وہاں میری قدر و منزلت ہوگی، ہمیشہ ہمنشیں راجوں کا رہا ہوں، مال و دولت کی کبھی پروا نہیں رہی”۔
یہ بات سن راجا محل میں گیا اور مادھو دل میں یہ سوچنے لگا، جب ساعت بد آتی ہے کچھ کہہ کر نہیں آتی بلکہ سمجھی بھی نہیں جاتی۔ اگر اُتر سے قطب تارہ دکھن میں ہو جاوے، یا سورج پورب چھوڑ پچھم سے نکلے، یا آگ کی تاثیر سرد ہو جاوے، یا پہاڑ پر کنول پھولے یا سمندر تھاہ ہووے یا گنگا اُلٹی بہے یا بال و پر پہاڑ کے نکلیں، یہ ہووے تو ہو، پر قسمت کا لکھا نہیں مٹتا اور تقدیر سے کچھ بس نہیں چلتا۔ جیسے کرم کے لکھے سے رام بن بن پھرا اور روان نے خویش و قوم سمیت سمیت سب کچھ گنوایا اور پنڈوؤں کا راج گیا۔ راجا نل بھیک مانگتا تھا۔ یہی طالع کروڑ طرح سے آدمی کا سوانگ بناتے ہیں اور اس کو رتبے سے گراتے ہیں۔ ہر چند کہ اپنی خستہ حالی کسی کو گوارا نہیں پر مقدر سے کچھ چارہ نہیں۔