(Last Updated On: )
شہر کے اس علاقے میںآنے سے وہ گریز کرتا تھا۔ کافی بھیڑ ہوتی تھی۔ اکثر ٹریفک جام ہو جاتا، سواریاں رینگنے لگتیں۔ شہر کا مرکزی ریلوے اسٹیشن بھی اسی علاقے میں تھا۔ اسٹیشن پر تو’’حیدرآباد‘‘ کے بورڈ لگے تھے لیکن وہ ’’نام پلی‘‘ کہلاتا تھا۔ اکثر باہر سے آنے والے کنفیوز ہو جاتے۔ ایک بار ابّا کے دوست نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا یہ کیا نام ہوا’’نام پلی‘‘………!!
’’یہ نام ہماری ملی جلی تہذیب کی علامت ہے‘‘ ابّا نے سنجیدگی سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا تھا۔’’عبد اللہ قطب شاہ کے دیوان سلطنت رضا قلی کا خطاب’’نیک نام خاں‘‘ تھا۔ یہ علاقہ ان کی جاگیر تھا۔ عوام نے ان کے خطاب سے ’’نام‘‘ لیا اور تلگو کا لفظ پلّی جوڑ دیا۔ ’’نام پلی‘‘……..!! شہر میں ایسے کئی محلے ہیں۔ تاریخی شہروں کا اپنا ایک الگ کردار ہوتا ہے‘‘ ابّا کے دوست کھسیانے ہو گئے تھے انھو ںنے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ابّا اتنا سنجیدہ ہو جائیں گے۔’’سر کار چاہے کسی نام کے بور ڈ لگا دے عوامی نام نہیں بدلتے…‘‘
سہ راہے سے وہ درگاہ کے راستے پر مڑ گیا۔ بے پناہ ہجوم تھا۔ دونوں جانب لاج تھے۔ معمولی درجے کی ہوٹلیں، چائے کے علاوہ لقمی کباب، سموسے، عثمانیہ بسکٹ، چاول کے ساتھ دال فری ملتی تھی۔ دوسری جانب آٹو رکشا کے رپیرنگ سینٹر تھے یہاں ڈینٹنگ کی جاتی تھی۔ نمبر پلٹیں بنائی جاتیں۔ اکثر ڈرائیور آٹو کے عقبی حصے پر اپنے ذوق کا کوئی شعر لکھوا لیتے۔ کچھ ’’ماں کی دعا‘‘ پر ہی اکتفا کر لیتے۔ اندرونی حصے میں دونوں جانب اداکاروں و اداکاراؤں کی تصویری لگوائی جاتیں۔
وہ اسکوٹر سے اتر گیا او راسکوٹر کا ہینڈل تھا مے پیدل چلنے لگا۔ سامنے درگاہ کا باب الداخلہ تھا۔ اس نے اسکوٹر حفاظت میں رکھوا دیا۔ ایک ہجوم تھا۔ جمعرات کا دن تھا۔ درگاہ کے احاطے میں قدم رکھتے ہی وہاں بیٹھے فقیر آوازیں لگانے لگے’’جوتا یہاں چھوڑ کے جاؤ صاب‘‘…….اس نے جوتے بھی رکھوا دیے۔ فرش پر ننگے پیر چلنے میں بڑا تکلف ہو رہا تھا۔ بڑا گندہ فرش تھا۔ اس کی نفاست پسند طبیعت پر بہت بار گزر رہا تھا۔ آگے بڑھتے ہی ایک شور بلند ہوا۔’’صاب پھول چاہیے……؟ ہر دکان دار اسے اپنی طرف ہلا رہا تھا۔ وہ گھبرا گیا۔’’مجھے حضت قبلہ سے ملنا ہے‘‘ اس نے ایک شخص سے کہا۔ اس نے عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔’’انوں تو مغرب کے باد چ ملیں گے، آپ پہلے پھولاں چڑھا کے آئیے‘‘ اس نے اس کے ہاتھوں میں پورا پیکیج تھمادیا۔ اگر بتیاں، نقل کا پیکٹ، پھولوں کی چادر……! جتنے پیسے اس شخص نے مانگے اس نے دے دئیے۔ مزار کے اطراف کافی لوگ تھے۔ ہر مذہب کے افراد تھے۔ پورا احاطہ عود او رلوبان کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ مزار کے قریب کھڑے باریش آدمی نے وہ ساری چیزیں لے لیں۔ مزا رپر چادر چڑھادی، اگر بتیاں سلگا دیں وہ ایک طرف چپ چاپ کھڑا رہا۔ کچھ لوگ بڑی عقیدت سے فاتحہ پڑھ رہے تھے کچھ لوگ مزار کا غلاف زرا سا ہٹا کر ماتھا ٹیک رہے تھے۔ اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے آنکھیں موند لیں۔
’’مجھے مکان واپس دلوا دیجئے‘‘ یہی ایک جملہ وہ بار بار دہرانے لگا…….قریب سے اذان کی آواز آئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ ’تبرک لے لو میاں‘‘ باریش آدمی نے نُقل کا کھلا ہوا پیکٹ او رپھول کی پیتاں اسے پکڑ ا دیں۔ وہ جلدی سے باہر آگیا۔ اذاں کی آواز سن کر وہ سارا ہجوم مسجد میں سمٹ آئے گا اس نے سوچا اور تیزی سے مسجد میں داخل ہو گیا۔ ادھر اُدھر سے کچھ لوگ آگئے۔تین چار صفیں بنیں۔ مزار کے اطراف بے پناہ ہجوم تھا۔ خود اس نے کتنے عرصہ بعد با جماعت نماز پڑھی تھی اسے یاد بھی نہیں تھا ۔ نماز کے بعد اس نے وہی دعا دہرائی’’وہ مکان واپس دلوا دیجئے، میرے پروردگار۔ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ مالک۔‘‘ اس نے گڑ گڑا کر دعا کی……جب مسجد سے سب نکل گئے تو اس نے ایک شخص سے پوچھا’’حضرت قبلہ کہاں ہیں؟اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ ایک اونچا چبوترا تھا۔ وہاں کچھ فقیر دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔ چلم کے کش لگا رہے تھے۔ ان ہی میں حضرت قبلہ بھی تھے ۔ نورانی چہرہ‘ نیم واآنکھیں ، لمبی داڑھی، کندھوں تک بالوں کی لٹیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ قریب سے انھیں دیکھنے لگا۔
الکلّ فی الکلّ…….ولایت عبارت از فنا و بقا است‘‘
وہ دھیرے دھیرے کہہ رہے تھے۔ وہ سب کسی ذکر میں مصروف تھے۔ حضرت قبلہ نے ایک لمبا کش بھرا……اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔فقیروں میں سے کوئی نہیں اٹھا۔ ایک طرف تیز قدموں سے چلنے لگے جہاں قوالی ہو رہی تھی۔ قوال عجیب کیفیت میں یہ شعر بار بار دہرارہا تھا۔
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم پہ اس شو قے کہ پیش یارمی رقصم
قوالی سننے والوں نے ان کے لیے راستہ بنایا۔ وہ اگلی صف میں قوالوں کے روبرو بیٹھ گئے۔ قوالوں نے ادب سے سلام کیا۔ محفل میں جان پڑ گئی۔ قوالی سننے والوں میں سے کسی پروجد کی کیفیت طاری ہو جاتی وہ جھومنے لگتا۔ حضرت قبلہ کا ہاتھ چھوا کر قوالوں کو نذرانہ پیش کیا جا رہا تھا۔ وہ وہیں بیٹھ کر حضرت قبلہ کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ کافی رات تک قوالی چلتی رہی۔ حضرت قبلہ اٹھے تو ان کے پیچھے مریدوں کا حلقہ بھی چلا۔ وہ تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنے مکان میںچلے گئے۔ وہ منھ دیکھتا رہ گیا۔
(۲)
ذہن پر عجیب سے اثرات تھے۔ ایک کھوئی کھوئی سی کیفیت تھی۔
بیوی نے دروازہ کھولا۔’’بہت دیر کر دی‘‘
’’وہاں ‘‘ اس کا موڈ دیکھ کر بیوی نے کچھ نہ کہا۔
’’کھانا کھائیں گے؟‘‘
’’ہاں‘‘ اس نے تبرک کا پیکٹ میز پر رکھ دیا۔ بیوی کھانا گرم کرنے چلی گئی۔
منھ ہاتھ دھو کر وہ ڈائننگ ٹیبل پر آگیا۔
’’کیا ہوا۔ ملاقات ہوئی‘‘ اس کی ماں نے سوال کیا۔
’’نہیں۔ بڑا عجیب ماحول ہے۔ کبھی کسی درگاہ پر حاضری نہیں دی نا۔‘‘
ا س نے ماں کو ایک ایک تفصیل بتائی۔ وہ بڑی توجہ اور عقیدت سے سنتی رہیں۔
’’اس طرح ان سے ملنا تو مشکل ہے۔ تم ان کے خاص مریدوں کے ذریعے پہنچو۔‘‘ امی نے مشورہ دیا۔ امی سید انی تھیں۔ نانا بہت بڑے عالمِ دین تھے۔ امی کو سیدانی ہونے پر ناز تھا اور ابّا کو مغل ہونے پر……اونچا قد، اونچی آواز، نسبتاً بھدّی ناک، شخصیت میں ایک دبدبہ تھا۔ وہ کہتے تھے ان کے آباو اجداد او رنگ زیب کی فوج کے ساتھ دکن آئے تھے۔ امی کی چہرے پر ایک نرمی تھی۔ لیکن نہ تو اس کا قد بہت اونچا تھا او رنہ آواز بھاری……پھر بھی دکن کے سانو لے لوگوں سے وہ الگ لگتا تھا۔ لیکن اس نے خود کو کبھی مقامی لوگوں سے برتر نہیں سمجھا او رنہ ابّا کی طرح تیموری نسل سے ہونے پر فخر کیا۔ اب تو’’بابر کی اولاد‘‘ ایک گالی بن گئی ہے۔ تانا شاہ جیسے خدا ترس، نفیس، بادشاہ سے منسوب لفظ تانا شاہی منفی معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ مسخ شدہ تاریخ لفظوں کو کیسے بے حرمت کر دیتی ہے۔ اس نے سوچا۔
’’بیٹا ما یوس نہیں ہوتے‘‘امی نے اسے سوچ میں غرق دیکھ کر کہا، کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔
کھانے کے بعد وہ لیٹ گیا۔
کیا ہوا؟ اس کی بیوی نے پوچھا
’’ملاقات نہیں ہو پائی۔ بڑا عجیب ماحو ل ہے‘‘
’’پھر کیا سوچا؟‘‘
’’اگلی جمعرات دوبارہ جاوں گا‘‘
’’یعنی ایک ہفتہ بعد؟ کل ہی کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
’’دیکھوں گا…..‘‘ اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ اس کی بیوی کو ہر کام کی جلدی ہوتی تھی۔ اس کی آنکھوں سے نیند اُڑ گئی ۔ اس نے کبھی کچھ پانے کے جدو جہد نہیں کی تھی۔ زندگی میں جو بھی مل گیا اسی پر قناعت کر لی۔ ابھی اس نے میٹرک ہی پاس کیا تھا کہ ابّا کا اچانک انتقال ہو گیا۔ ابّا پروفیسر تھے ۔ بہت بڑا کوارٹر تھا اپنا ذاتی مکان کرائے پر اٹھا کر وہ یونیورسٹی کو ارٹر ز میں آگئے تھے۔ ابّا کی موت کے بعد اسے ملازمت دی گئی۔ اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر وہ کلرک بن گیا۔ وہ بڑے کوارٹر سے چھوٹے کوارٹر میں آگئے۔ اس بنگلے کے بڑے سے صحن میں امی نے امردو، آم ، انار او رلیمو کے پیڑ لگائے تھے۔ ہر موسم میں ترکاریاںبھی اگاتیں۔ گلاب کی کیاریاں چمیلی او رجوہی کی بیلیں بھی تھیں۔ اس چھوٹے سے کوارٹر میں امی نے ایک پودا بھی نہیں لگایا۔ سب کچھ بدل گیا۔ لوگوں کی نظریں، معیار زندگی ، دوست، رشتہ دار، ملنے جلنے والے۔ زندگی میں کوئی رومانس نہیں، مستقبل سنوارنے کا کوئی بڑا خواب نہیں۔ امی نے شادی کر دی۔ اپنی بیوی سے اسے کوئی شکایت نہیں تھی۔ اچھی لگتی تھی وہ۔ شادی کے ایک برس بعد ایک لڑکا……دوسرے برس ایک لڑکی……قدرت نے خود ہی فیملی پلاننگ کر دی۔ بچوں کی بہتر پڑھائی کے لیے بڑے اسکولوں کے چکر نہیں کاٹے۔ ڈونیشن کے لیے قرض نہیں لیا۔ یونیورسٹی کے اسکول میں داخلہ دلوایا جس نے جیسا پڑھ لیا پڑھ لیا۔ لڑکی نے انٹر پاس کیا تو امی نے کہا کہ اس کی شادی کر دی جائے۔ لڑکی خوب صورت تھی۔ ایک خوش حال گھرانے کے انجینئر سے شادی ہو گئی۔ اپنے میاں کے ساتھ خوش تھی۔ لڑکے نے گریجویشن کے بعد خلیجی ملک جانے کی خواہش کی۔ پرویڈنٹ فنڈ سے قرض لے کر اسے بھیج دیا۔ ملازمت ملنے کے بعد اس کی بھی شادی کر دی۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ وہیں رہتا تھا۔ شاید بچت نہیں ہوتی تھی اس لیے وہ پیسہ بھی نہیں بھتیجا تھا۔ اس نے کبھی مطالبہ بھی نہیں کیا۔ کبھی اس کی بیوی اپنے بیٹے سے کاسمٹکس اور دوسری چیزیں منگوا کر وہ ارمان پورے کر لیتی جو وہ جوانی میں نہ کر سکی تھی۔ آج کل باقاعدگی سے بیوٹی پارلر بھی جانے لگی تھی ۔ زندگی کے مراحل آسانی سے طے ہو گئے کوئی بڑا مسئلہ، کوئی سنگین بیماری، کوئی اڈونچر، کوئی بڑا خواب کچھ نہ تھا۔ زندگی جس حال میں ملی اس نے قبول کر لی۔
اب ایک پے چیدہ مسئلہ سامنے تھا۔ اگلے برس اس کاریٹائرمنٹ تھا۔ اب یونیورسٹی کوارٹر چھوڑ کر شہر میں رہنا پڑے گا۔ آبائی مکان پر کرایہ دار قابض تھا ۔ ابّا نے وہ مکان کرائے پر اٹھایا تھا۔ اب ا ن کی دوسری یا تیسری نسل اس گھر میں تھی۔ ابّا کی زندگی میں تو وہ لوگ قانون کے مطابق کرائے میں اضافہ بھی کرتے رہے اور کرایہ بھی پہنچاتے رہے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے انھوں نے کرایہ بڑھانا چھوڑ دیا۔مکان خالی کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔ کرایہ دینا بند کر دیا۔ اس نے اپنے ہر دوست سے مشورہ کیا۔ ایک طریقہ تو یہ تھا کہ وہ کیس کر دیتا۔ لیکن برسوں مقدمہ چلتا۔پیسہ بھی کافی خرچ ہوتا۔ غنڈوں سے کام لیا جا سکتا تھا۔ لیکن غنڈے بھی سمجھوتے کے نام پر کافی پیسہ اینٹھ لیتے یا اسے کمزور دیکھ کر خود قابض ہو جاتے، یاوقت بے وقت پیسوں کا مطالبہ کرنے لگتے۔ سیاست دانوں کا اثر رسوخ استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن وہ تو غنڈوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ کئی بار اس نے کرایہ داروں کو سنجیدگی سے سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ کہتے تھے کہ وہ خود ہی مکان خرید لیں گے لیکن قیمت وہ نہیں دینا چاہتے تھے جو مارکٹ کی قیمت ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا جیسے جیسے وظیفے کے دن قریب آتے جا رہے تھے پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ شہر میں کرائے کا گھرلینا او راس کا کرایہ ادا کرتے ہوئے زندگی گزارنا مشکل تھا۔ اپنے ذاتی مکان کا حصول زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے گا اس نے کبھی سوچا نہ تھا……اس کا ڈپریشن بڑھتا جا رہا تھا۔ کبھی اسے محسوس ہو تا جسے وہ اپنا ذہنی توازن کھودے گا۔
کسی نے اسے بتایا کہ اس کا کرایہ دار اس درگاہ کے مرشد کا بہت بڑا معتقد ہے۔ اس نے سوچاوہ حضرت قبلہ کے سامنے مسئلہ رکھے گا ممکن ہے وہ ان کی بات مان لے۔ لیکن آج کا ماحول دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ حضرت قبلہ سے ملنا آسان نہ تھا۔
(۳)
دوسرے روز وہ پھر درگاہ پہنچا۔ کل کی طرح ہجوم نہ تھا۔ پھول والوں نے اسے دیکھ کر ویسا ہی شو رمچایا۔ اس نے پھو ل خریدے۔ پھول چڑھائے فاتحہ پڑھی آج کم لوگ تھے۔ نہ فقیر دائرہ بنائے بیٹھے تھے، نہ قوالی ہو رہی تھی۔ اس نے حضرت قبلہ کے بارے میں پوچھا اس کو ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ دالان میں مخصوص لوگ تھے جہاں وہ بیان فرمارہے تھے۔ وہ دروازے میں جوتوں کے قریب بیٹھ گیا۔
’’علم دو ہیں……ایک علم ظاہر ہے جو مخلوق پر اللہ کی محبت ہے اور دوسرا علم باطن ہے جو علم نافع ہے۔ صوفیا اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ علم کااظہار عام لوگوں پر نہ کیا جائے۔کم فہم لوگ غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں۔ سالک جب تک کسی شیخ طریقت کا دامن نہ پکڑ ے او رحواسِ باطنی کو ترقی دے کر عالم روحانی کی طرف اپنے کو رجوع نہ کرے او رماسو االلہ قطعِ تعلق کر کے ارادت اختیار نہ
کرے یہ علم اسے حاصل ہونے کا نہیں…….
وہ سر جھکائے سنتا رہا۔ اذاں کے ساتھ بیان ختم ہوا۔ وہ حضرت قبلہ سے ملنے کی ہمت ہی نہ کرسکا۔ بعض لوگوں نے عجیب نظروں سے دیکھا لیکن کچھ پوچھا نہیں۔ نماز کے بعد وہ بے مقصد گھومتا رہا۔
(۴)
’’امی میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا…….‘‘ اس نے ماں سے مرشد کی باتیں سنائیں۔’’یہ سب تصوف کی باتیں ہیں۔ ہمارے ابّا کہتے تھے تصوف میں یہودیوں کے ’’زہاد‘‘ عیسائیوں کی رہبا نیت’ ایرانیوں او رمجوسیوں کے افکار، زرتشت کی تعلیمات ویدانت کا فلسفہ سب ایک دھارے میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘وہ امی کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ امی نے باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن نانا کی چہیتی بیٹی تھیں اس طرح کی بہت سی باتیں یاد تھیں۔ انھوں نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’ایک روز حضرت نظام الدینؒ اولیاء اپنی خانقاہ کی چھت پر کھڑے تھے نیچے دیکھا کہ کچھ ہندو اپنے خاص قاعدے سے بتوں کی پوجا کر رہے ہیں انھوں نے اس پر بغیر کسی ناگواری کا اظہار فرمائے یہ مصرع پڑھا۔
ہر قومے راست راہے دینے وقبلہ گا ہے
امیر خسرو نے سنتے ہی کہا
من قبلہ راست کروم برطرفِ کج کلا ہے
’’امی کیا میں بیعت کر لوں؟‘‘
’’تمھیں یہ خیال کیو ں آیا؟‘‘
’’وہ تو کہتے ہیں سالک جب تک کسی شیخ طریقت کا دامن نہ پکڑے علم حاصل ہونے والا
نہیں‘‘
’’تم علم حاصل کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’وہ باتیں اچھی تو لگتی ہیں‘‘
’’سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا…..‘‘ کافی رات تک وہ جاگتا رہا۔ اس نے عجیب ساخواب دیکھا ۔ طوفانی بارش ہو رہی ہے۔ چاروں طرف اندھیرا ہے۔ طوفانی ہواؤں اور تیز بارش میں ایک خیمہ روشمن ہے۔ دونوں بزرگ چراغ کی روشنی میں تلاوت کر رہے ہیں ۔ اس کے جسم پر بادشاہ کا لباس ہے وہ بزرگوں سے کہہ رہا ہے’’آپ جیسی برگزیدہ ہستیاں موجود ہوں او رمقصد میں ناکامی ہو تعجب ہے؟‘‘ وہ بزرگوں سے اصرار کر رہا ہے۔ وہ انکار کر رہے ہیں ان بزرگوں نے کہا کہ وہ ایک ٹھیکری لے آئے وہ کچھ لکھ کر دیں گے……وہ سارے میدان میں ٹھیکری ڈھونڈر ہاہے۔ کہیں ٹھیکری نہیں ملتی۔ اچانک زور سے بجلی چمکی۔ وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ حواس بحال ہوئے۔ اب ایسے خواب ہی نہیں آتے جن سے بشار تیں ہوں……آفس سے وہ سیدھا درگاہ چلا گیا۔ آخری کنارے پر اس نے اپنی جگہ بنالی تھی جہاں اس پر حضرت قبلہ کی نظر پڑ سکتی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھ گیا۔ حضرت قبلہ نے اس کی موجودگی کو شاید محسوس ہی نہیں کیا۔ ’’بیعت؟‘‘ وہ کہہ رہے تھے۔ کیا تمھیں کر بلا یاد نہیں؟‘‘وہ کتنا خوف زدہ ہو کر دعا کرتے تھے کہ وہ ہمارے فرزندوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اس انجام گاہ میں ہماری صبح ہماری شام کے مقابلے میں کیا حقیقت رکھے گی ہم خدا کی نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہیں اور اس کی ڈالی ہوئی مصیبتوں پرصبر کرتے ہیں۔‘‘
’’کبھی کسی مصلحت کے لیے بیعت مت کرو۔ جب تمھارا دل نہ چاہے…..دل کیا ہے……انھوں نے کہا تھا میرا دل ہر صورت اجاگر ہے، ہر نیوں کی چراگاہ ہے۔ راہبوں کی پناہ گاہ…….بتوں کا دیول، زائرین کے لیے کعبہ ہے۔ توریت کی تعلیم ہے۔ قرآن کی آیات ہے۔‘‘
وہ کشمکش میں پڑ گیا۔ کہیں اس کی طرف اشارہ تو نہیں، کہیں وہ بیعت کے لیے منع تو نہیں کر ر ہے ہیں؟ آج بھی وہ اپنی بات کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ کتنے جمعرات آئے ، جمعہ آئے اور چلے گئے۔ نہ بیعت ہوئی۔ نہ کبھی وہاں وہ کرایہ دار نظر آیا۔ لیکن وہ روزانہ وہاں جانے کا عادی ہو گیا۔ اسکوٹر والا چپ چاپ اسکوٹر رکھ لیتا۔ وہ مخصوص فقیر جو توں کی حفاظت کرتا۔ پھول والا پہلے سے اس کا پیکٹ تیار کر دیتا۔ وہاں سب اسے اچھی طرح جاننے لگے تھے اس نے خود کو حالا ت پر چھوڑ دیا۔ وہ اب حضرت قبلہ سے اپنا مدعا بیان نہیں کرے گا۔ اس فیصلے کے بعد اسے اس تذبذب سے چھٹکارا مل گیا تھا جس میں وہ ان کے سامنے بیٹھتے ہی مبتلا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ایک سکون سا محسوس ہونے لگا تھا۔ حضرت قبلہ ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے۔ غیب کا علم صرف عالم الغیب کو ہے۔ کسی اور کو نہیں…….
(۵)
امی کو بزرگانِ دین کی دعاؤں پر پورا یقین تھا۔
’’بیٹے دعا کے لیے کہو……اللہ نیک بندوں کی دعائیں سنتا ہے……‘‘ امی نے گولکنڈہ کی فتح کا پورا قصہ پھرسے سنایا۔ ’’بادشاہ دونوں بزرگوں کے آگے سر جھکائے کھڑا ہے انھوں نے اس سے ایک ٹھیکری منگوائی اس پر کویلے سے کچھ لکھا او رکہاں وہاں لنگر خانے کے پاس ایک چمار بیٹھا ہے اس کو دے کر جواب لے آؤ۔اس خطرناک طوفانی رات میں بادشاہ ٹھیکری لے کر چمار کے پاس پہنچا۔ چمارنے ٹھیکری واپس کر دی۔ اس نے وہ ٹھیکری بزرگوں کی خدمت میں پیش کی۔ بزرگوں نے مایوسی سے کہا، اب کچھ نہیں ہو سکتا،۔ بادشاہ گڑ گڑانے لگا۔ دونوں نے اس کے شدید اصرار پر اسی ٹھیکری پر رُک رُک کر کچھ لکھا او رکہا اسی چمار کو دے آؤ۔ بادشاہ پھر چمار کے پاس پہنچا۔ ٹھیکری دی۔ چمار کی آنکھیں غیض و غضب سے سرخ ہو گئیں وہ بار بار اس تحریر کو پڑھتا رہا اور بڑ بڑا تا رہا۔ چمار جذبات سے مغلوب ہو کر کانپنے لگا۔ اس کے ہاتھ سے ٹھیکری چھوٹ گئی۔ اس نے دامن جھاڑا
او راٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کہہ رہا تھا’’جب مشیت ایزدی یہی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ پچاس برس اس قلعے کے دامن میں گوشہ نشین رہا آخر جیتے جی یہاں سے اٹھنا پڑا‘‘ پھر وہ بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا’’جاؤ ان سے کہہ دو کہ وہ چلا گیا‘‘ وہ چمار نہیں اس زمانے کے قطب تھے جو ابو الحسن تانا شاہ کی سلطنت کی حفاظت کر رہے تھے ان کے جانے کے بعد قلعہ فتح ہو گیا……..‘‘ابا ان باتوں کو نہیں مانتے تھے۔ اسے یاد آیادہ کہتے تھے۔ دراصل قطب شاہی جنرل عبد اللہ خاں پنی نے عذاری کی تھی او رقلعہ کادروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ایسے موقع پر امی مسکرا کر کہتیں’’روحانی معاملات مورخین کی دسترس میں نہیں ہوتے۔ اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘‘ بات سچ بھی تھی۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ قصہ زندہ تھا۔ آج بھی یہ درگاہ اقتدار کے خواہش مندوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے منسٹر یہاں حاضری دیتے تھے۔
(۶)
ایک روز وہ رات دیر گئے گھر لوٹا تو اس کی بیوی جاگ رہی تھی۔ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی شاید لڑکے سے انٹرنیٹ پر بات کر رہی تھی۔ کمپیوٹر کے اسکرین سے نکلتی رنگین شعاعوں کا عکس اس کے چہرے ، گردن او رگریباں سے جھانکتے سینے پر پڑ رہا تھا۔ اس کی بیوی اسے خوب صورت لگی۔ بعض عورتیں ایک عمر کو پہنچنے کے بعد خوب صورت لگتی ہیں۔ اس کی بیوی بھی اب پہلے سے زیادہ خوب صورت نظر آتی تھی۔ کئی افرادِ خاندان نے اس کا اظہار بھی کیا تھا……اسے خود بھی اس کا شدید احساس تھا۔ کتنے دن ہو گئے اس نے اپنی بیوی کی طرف نظر بھر کے نہیں دیکھا تھا۔
’’کیا ہوا۔ بہت دیر کر دی‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’ہاں یوں ہی بیٹھ گیا تھا۔‘‘
’’کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ تقدیر میں ہوگا تو وہ مکان واپس مل جائے گا‘‘
’’پھر روزانہ کیوں چکر کاٹ رہے ہو۔ گھر میں ہی بیٹھے بیٹھے تقدیر بدلنے کا انتظار کیو ںنہیں کرتے؟‘‘ بیوی نے تلخی سے کہا
اس کے جی میں آیا کہ کوئی سخت جواب دے۔ لیکن امی کی بات یاد آگئی’’بیٹا حضرت علیؓ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ اس کے ہاتھ میں روٹی تھی اس نے پوچھا اس روٹی کا کھانا اس کی تقدیر میں ہے یا نہیں؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا’’اگر وہ کھائے گا تو اس کی تقدیر میں ہے ورنہ نہیں‘‘ وہ چپ ہو گیا۔ بیوی نے طنزیہ انداز میں مسکرا کر اس کی طرف دیکھا…….
تھوڑی دیر پہلے اس کا دل چاہتا تھا کہ بیوی کی گود میں سر رکھ کر اپنا جی ہلکا کرے۔ سارے جذبات ہوا ہو گئے وہ عجیب سی کشمکش میںتھا۔ مکان کا حصول ، دنیا کے لیے بھاگ دوڑ سب کچھ حقیر سا لگ رہاتھا۔ دنیا کی بے ثباتی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے صرف حضرت قبلہ کے یہاں سکون ملتا تھا۔ کہیں کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ شام ہوتے ہی ایک انجانی طاقت اسے وہاں کھینچ لاتی۔ ان کی باتیں ذہن میں گونجا کرتیں۔ جس طرح عالمِ محسوسات یعنی عالم جسم کے لیے دل کی طرف جو حواسِ خمسہ کے پانچ دروازے ہیں اسی طرح عالم ملکوت یا عالم روحانی کی طرف بھی دل کا ایک دروازہ ہے۔ حضرت قبلہ کی شخصیت اس دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ترک کرو۔ ترک دنیا…..ترکِ ذات، ترکِ عقبیٰ او رآخرمیں ترک مولا۔ ترکِ ترک، ترک علائق ترک آرزو او رسب سے آخر میں شئے کا ترک…….!! حضرت قبلہ کی باتیں کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ اس نے بیوی کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا او رکروٹ بدل کر سو گیا۔
(۷)
اس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی بیوی کو بیٹے کے پاس بھیج دے گا اور کسی چھوٹے سے مکان میں اپنی ماں کے ساتھ رہ لے گا۔ گھر ملے یا نہ ملے وہ حضرت قبلہ سے بیعت کر کے ساری زندگی ان کی خدمت میں گزار دے گا۔ وہ اپنے آپ سے بے خبر رہنے لگا۔ چہرے پر اچھی خاصی داڑھی نکل
آئی تھی۔ بال بھی بڑھ گئے تھے۔ سہولت کی خاطر وہ ڈھیلا ڈھالا لباس پہننے لگا تھا۔ درگاہ میں سب اسے جاننے لگے تھے۔ کبھی وہ فقیروں کے حلقے میں بیٹھ کر چلم کے کش لگا لیتا۔ کبھی قوالی ختم ہونے تک بیٹھا رہتا۔ نہ اس نے کبھی حضرت قبلہ سے اپنا مدعا بیان کیا نہ انھو ںنے کبھی اس کی جانب توجہ کی۔ طرح طرح کے لوگ ان سے ملنے آتے اپنی حاجتیں بیان کرتے ان سے دعا کرنے کے لیے کہتے۔ لیکن وہ حالات پر قانع وصابر ہو گیا۔ان تبدیلیوں کے باوجود اس کی طبیعت میں نفاست تھی۔ داڑھی او رسر کے بال تراشا کرتا۔ لباس صاف ستھرا اور خوشبو میں بسا ہوا۔خاندان بھر میں اور دوستوں میں یہ بات مشہو رہو گئی تھی کہ وہ فقیروں جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ اسے کسی کی باتوں کی پرواہ نہیں تھی۔
ایک دن روز کی طرح وہ حضرت قبلہ کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے’’فقیر وہ ہے جس کے پاس کوئی چیز نہ رہے اور اگر اس وقت ہے توپھر نہ رہے وہ حاجت مند بھی نہ ہو۔ جو کچھ اسے نصیب ہو ا سی پر قناعت کرے۔ خدا سے طلب کرنے کی ممانعت ہے یہاں تک بہ وقت مرگ وہ جنت کی دعا نہ کرے اس کی سب سے افضل دعا ہے اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ مسکین کی موت دے او رمسکینوں کے ساتھ قیامت میںاٹھا……‘‘ادھر دیکھو انھوں نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا’’ان کے ایک ہاتھ میں پانی کا لوٹا ہے دوسرے ہاتھ میں جلتی مشعل……..وہ دوزخ کو ٹھنڈا اورجنت کو جلا ڈالنا چاہتی ہیں اس لیے کہ گناہ یا نیکی کا تصور، خوف و لالچ کے زیر اثر نہ رہے‘‘…….محفل برخواست ہو گئی۔ وہ سب کھڑے ہو گئے۔ حضر ت قبلہ نے اسے اشارے سے روکا۔ وہ ٹھہر گیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
پتہ نہیں کیا خطا ہو گئی۔ وہ سب کے سب ایک ایک کر کے باہر نکل گئے۔ حضرت قبلہ رہ گئے۔انھوں نے اسے قریب بلایا۔ اسے سینے سے لگا کر بھینچا۔ پشت تھپتھپائی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوراو ںہو گئے۔ جیسے خشک ترخی ہوئی زمین پر پانی کی بوندیں گری ہوں۔ سوندھی سی خوشبو پھیل گی۔ جیسے قلعہ کی پرانی فصیل کو چیر کر بڑ کا درخت نکل آیا ہو۔ وہ کپکپانے لگا۔ وہاںسے نکل کر وہ سیدھے گھر کی طرف گیا۔ پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ جیسے وہ تیر رہا ہو۔ کوئی قوت اسے گھر کی جانب دھکیل رہی تھی۔ وہ اسی کیفیت میں گھر پہنچا……..اس کی بیوی نے پُر جوش انداز سے اس کا استقبال کیا۔
’’آج تو کمال ہو گیا۔ یہ دیکھئے، یہ دیکھئے‘‘ اس کی بیوی خوشی کے مارے چیخ پڑی ہماری گھر کی چابی…….کرایے دار نے ہمارا گھر خالی کر دیا او ریہ چابی دے گیا…….کمال ہو گیا ۔ ہے نا…..؟‘‘
اس نے خالی نظروں سے بیوی اور ماں کی طرف دیکھا…….وہ لوگ کچھ کہہ رہے تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ نہ خوشی کی کیفیت تھی نہ حیرت کی……..وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔ ایک خلا…….سینے میں دل کی جگہ کوئی ہلکی پھلکی شے تھی۔ دھواں، روئی کا گالا، کوئی ملائم شئے جو تیزی سے پگھل رہی تھی۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔جیسے ایک شور تھما ہو۔ وہ اوپر ہی اوپر اٹھتا جا رہا تھا۔
’’اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ…….‘‘
اس کے منھ سے بے اختیار نکلا…….او رآنسو بہنے لگے۔
٭٭٭