بازل منیزہ بی کو تو کہہ چکا تھا لیکن اپنے لیئے پریشان بھی ہوگیا تھا کیونکہ جہاں تک اسے عاریہ کے بارے میں پتا تھا عاریہ نے کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا تو عاریہ کو کھانا بھی نہیں بنانا آتا ہوگا۔ وہ خود کلامی کے انداز میں بولا۔
اگر اسکو کھانا نا بنانا آتا ہوا تو؟ میرا پیٹ تو گیا۔ اپنی غیر ہوتی حالت کو سوچتے ہوئے اس نے بے ساختہ جھرجھری لی۔ اور اتنی دیر میں منیزہ بی بازل کو کھانے کیلئے بولانے آئیں۔
بازل بیٹا آجاؤ کھانا لگ گیا ہے۔ وہ محبت بھرے لہجے میں کہہ رہیں تھیں۔ منیزہ بی بازل کی آیا تھیں۔ بازل کے گھر کی ساری بھاگ دوڑ انہیں کے ہاتھ میں تھی وہ ملازموں سے بہت اوپر تھی بازل کیلئے۔بازل انہیں اپنی ماں کی جگہ سمجھتا تھا۔بازل انہیں کے سامنے پیدا ہوا تھا اور انہی کے ہاتھوں میں پلا تھا۔ بازل کی ماں کے انتقال کے بعد بازل انکے اور قریب ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ہر بات انہی سے کرتا تھا۔ بازل اثبات میں سر ہلاتا انکے پیچھے چل دیا لیکن کھانے کے بارے میں جو وہ سوچ رہا تھا عاریہ اسکے برعکس کر رہی تھی۔ جب وہ ڈائنگ روم میں داخل ہوا تو اسکا استقبال کھانے کے مزیدار خوشبو نے کیا جس نے اسکی بھوک اور بڑھا دی تھی اور وہ حیران کن سا کھانے کو دیکھ رہا تھا جس کی پرزنٹشن بتا رہی تھی کے کھانا کسی ایکسپرٹ نے بنایا ہے۔ بازل کھانے کو اور عاریہ کو دیکھتے ہوئے تیز آواز میں خانسامہ کو بلانے لگا ۔
حیدر کہاں مر گئے ہو۔ ادھر آؤ۔ خانسامہ ایک آواز پر ہی دوڑا آیا تھا۔
جی سر آپ نے بلایا ؟ وہ ڈرتے ہوئے بول رہا تھا کیونکہ جب بھی بازل ملازموں پر چیختا تھا تو اسکا ایک ہی مطلب ہوتا تھا کے آج وہ بندہ یا تو دنیا سے جائے گا یا نوکری سے۔ بازل ایک دم دھاڑا تھا۔
میں نے بکواس کی تھی نا تم سے کے تم کسی بھی کام میں اسکی مدد نہیں کرو گے پھر یہ سب کیا ہے؟ وہ غصہ میں نہیں تھا لیکن آواز اونچی کر ہی جا رہا تھا۔
سس سر میں نے انکی کوئی مدد نہیں کی۔ یہ سب انہوں نے خود کیا ہے۔ میڈم کی کوکنگ اور پریزنٹشن دیکھ کر میں خود حیران ہوں۔ خانسامہ اپنی بات مکمل کر کے چپ ہو گیا تھا کے اسی میں اسکی بہتری تھی۔
ٹھیک ہے تم جاؤ۔ بازل تحکمانہ انداز میں گویا ہوا۔ خانسامہ سر ہلاتا چل دیا۔ پھربازل عاریہ سے گویا ہوا۔
ادھر آؤ۔ بازل نارمل لیکن سخت لہجے میں کہہ رہا تھا۔ عاریہ اسکی طرف آگئ۔
بیٹھو۔ عاریہ بغیر کچھ کہے بیٹھ گئی۔
کھانا شروع کرو۔ بازل کی نظریں اب عاریہ کے چہرے پر تھیں جو کے کنفیوز لگ رہی تھی کے کھا لے یا نہیں کہی وہاں سب کے سامنے ہی انسلٹ نا کر دے۔
وہ دراصل مجھے بھوک نہیں ہے۔ عاریہ بہت ہمت جمع کر کے ایک ہی سانس میں بولی اور بازل جو اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا اسکے چہرے پر سختی آگئی اور وہ چیختے ہوئے بولا۔
کھانا کھاؤ میں نے تمہاری مرضی نہیں پوچھی تم یہاں میری باتیں ماننے کیلئے ہو نا کے اپنی راۓ دینے کیلئے سمجھی تم اب کھاؤ۔
بےساختہ آنسو اسکے رخسار پر گر گئے وہ بلکل شفاف موتی جیسے لگ رہے تھے۔ بازل نے ایک نظر اسے دیکھا اور نظریں نیچے کرتے ہوئے سختی سے بولا۔
میرے سامنے ہرگز آنسو نا بہانا ورنہ وہ کروں گا کے آنسو بھی آنکھوں میں آنے سے پہلے کانپ جائیں گے۔
عاریہ نے آنسو پونچے اور کھانا کھانے لگی وہ جتنا بازل کو سمجھی تھی اسے کوئی بعید بھی نہیں تھی کے وہ عاریہ کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا تھا اسکو تکلیف دینے کیلئے۔ بازل اپنا کھانا ختم کر کے کمرے میں چلا گیا تھا اور عاریہ کھانا کھاتے کھاتے مختلف سوچوں میں غلطاں تھی کے منیزہ بی آئی اور عاریہ کو دیکھتے ہوئےمسکرا کے گویا ہوئی۔
بیٹی چلو کھا بھی لو اب کیا ٹھنڈا کر کے کھاؤ گی۔ اوووو تم رو رہی ہو؟ مت رو تم پلیز۔ بازل دل کا برا نہیں ہے بس حالات نے اسے ایسا بنا دیا ہے۔ تم بھی تو سمجھو نا اسنے اپنے عزیز از جان رشتے کھو دیئے اور اب اپنا بچا بھی۔ تم اگر چاہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن اسکے لیئے شرط ہے ایک۔ وہ افسردگی سے بول رہی تھیں۔
میں نے بھی تو اپنا بچا کھویا ہے اور کیسی شرط؟ وہ متجسس ہوئی تھی۔
صبر سے کام لو اور ہمت مت ہارنا۔ وہ شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی چلی گئی تھیں۔ اور عاریہ انکی پیٹھ کو دیکھتے سوچ رہی تھی کے اس گھر میں کوئی تو تھا جسے عاریہ کا احساس تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل بیڈ پر بیٹھا ہوا اپنے کام میں مگن تھا جب عاریہ اپنے کام ختم کر کے کمرے میں آئی اور آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے بیڈ کے قریب آکر تکیہ اٹھایا اور مڑی ہی تھی کے بازل اسکا ارادہ بھانپ کر ایک جست میں اسکے سامنے آیا اور عاریہ کو بیڈ پر دھکا دیا۔ عاریہ کے اوسان خطا ہونے لگ گئے تھے۔ وہ بازل سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی تھی اور بازل اسکی توقعات پر پورا اتر رہا تھا۔ بازل اسکی اوپر جھکتے ہوئے گویا ہوا۔
تم کیا سمجھ رہی ہو یہاں پر آکر تمھاری زندگی آسان ہو جائے گی۔ ناں ناں بے بی تم نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر میرے بچے کی جان لی تاکہ مجھے تکلیف دے سکو۔ میں تکلیف میں ہوں تو تم سکون میں کیسے رہ سکتی ہو۔ وہ حقارت سے کہہ رہا تھا اور عاریہ کی سسکیاں، چیخیں اور آنسو اسکے لیئے مسرت کا باعث بن رہے تھے۔ ہمارے ماشرے کا علمیہ یہی ہے بیوی کے حقوق دینا نہیں چاہتے لیکن اپنے حقوق چھوڑنا نہیں چاہتے۔ جب بازل عاریہ کو تڑپا چکا تو اپنی شرٹ پہنتا بیڈ کی دوسری سائیڈ پر چلا گیا اور کروٹ لے لیا اور عاریہ اپنے آنسو صاف کرتی اٹھ گئی اور واشروم چلی گئی اور وہاں جا کر بند ہوگئی۔ وہ جب باہر آئی تو بازل سوچکا تھا وہ ایک بے بس نظر بازل پر ڈالتی ہوئی اسکے ساتھ والی سائیڈ پر لیٹ گئی۔ عاریہ پرسوچ نظروں سے چھت کو گھور رہی تھی۔
میں نے اس شخص سے محبت کی اور یہ شخص میری روح کو میرے جسم کو زخمی کرتا رہتا ہے۔ اسے میری محبت کی اور میری زرا پرواہ نہیں تو میں کیوں رہو اسکے ساتھ؟ صرف اسکی نفرت اور ظلم برداشت کرنے کیلئے؟ نہیں میں کمزور تو نہیں ہوں جو اسکے ظلم برداشت کروں مجھے یہاں سے چلے جانا چاہئے۔ اس وقت سب سو رہے ہیں میں آرام سے نکل سکتی ہوں۔ عاریہ یہ ارادہ کرتے ساتھ ہی اٹھی اور اپنا فون اٹھا نے لگی جو بازل نے اس سے لے کر اپنی سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔ عاریہ نے اپنے فون پر ہاتھ رکھا ہی تھا کے بازل نے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے کھینچا اور وہ بازل کے اوپر گری۔ بازل اسکے کان کے پاس جا کر انتنائی گھٹیا انداز میں بولا۔
میری قربت کو اتنا مس کر رہی تھی؟ ویسے اچھی بات ہے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے دور نہیں رہنا چاہئے۔ عاریہ اسکی آنکھوں میں چھپی حیوانیت سے واقف تھی۔ وہ اسکوں منٹلی ٹاچر بھی کر رہ تھا۔ اس قسم کی گفتگو سے۔ اس سے پہلے کے بازل کچھ کرتا عاریہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی اٹھ گئی۔ وہ اسکی باتوں سے واقع ہی پریشان ہو گئی تھی اور اٹھتے ہوئے گویا ہوئی۔
مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہاری قربت حاصل کرنے کا سمجھے۔ مجھے گھن آتی ہے خود سے جب تم میرے قریب ہوتے ہو۔ مجھے نفرت ہونے لگی ہے تم سے۔ تم جیسا گھٹیا انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ عاریہ غصہ میں بول گئی تھی اور بازل اٹھتا ہوا اسکے قریب آیا اور ایک جھٹکے سے عاریہ کے بال مٹھی میں جکڑے اور اسے زمین پر دھکا دیتا ہوا آلماری کے پاس گیا اور بلٹ نکلتا ہوا واپس آیا اور عاریہ کو مارتے ہوئے چیختے ہوئے گویا ہوا۔
کیا بکواس کر رہی تھی؟ مجھ جسا گھٹیا انسان اب تمہیں بتاتا ہے کے گھٹیا پن کہتے کسے ہیں۔ وہ جنونی انداز میں عاریہ کومار رہا تھا اور عاریہ کی چیخیں بھی اسکو روک نہیں رہیں تھی۔ جب بازل تھک گیا تو عاریہ پر نظر ڈالتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ عاریہ کی سفید کمیز پر جگہ جگہ خون کے دھبے تھی جو کے بازل کی حیوانیت کا پتا دے رہے تھے۔ عاریہ وہی پر بے ہوش ہو گئی تھی۔ بازل جب صبح کمرے میں آیا تب بھی اس نے عاریہ کو اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ تیار ہوتا بغیر ناشتہ کیئے آفس کیلئے نکل گیا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شہیر شاہ جب آفس پہنچے تو انہیں پتا چلا کے بازل انکی ایک کمپنی کو ٹیک آور کر چکا ہے۔ شہیر شاہ کے ہاتھ میں اب کچھ بھی نہیں بچا تھا بیٹی تو وہ کھو ہی چکے تھے اب بزنس میں بھی اتنا بڑا نقصان۔ وہ غصہ سے پاگل ہو رہے تھے اور خود کلامی کے انداز میں بول رہے تھے۔
بازل خان میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں تمہیں اپنے کیئے کا حساب دینا ہو گا۔ ابھی تم مجھے جانتے نہیں ہو۔ میں وہ ہوں درندہ ہوں جو تمہیں وہاں پر لے جا کر موت دو گا جہاں سے تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شہیر شاہ کو دھوکہ دے کر تم نے اپنی بربادی کو آواز دی ہے۔ شہیر شاہ جیسے ہی پلٹے تھے انکی نظر دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑے بازل پر پڑی وہ انکی حالت سے محفوظ ہوتا ہوا بولا۔
یہ کیا سسر جی اتنا غصہ؟ آپکی صحت کیلئے اچھا نہیں ہے۔ اس عمر میں ہارٹ اٹیک سے مرنا جا نہ کیونکہ ماروں گا تو میں نا آپکو سسر جی۔ خیر اگر چاہتے ہو کے میں تمہاری بیٹی کو اور تکلیف نا دوں تو میرے باپ کے شیرز مجھے واپس کرو۔ وہ عاریہ کی تصویریں دیکھاتے ہوئے بول رہا تھا جس میں عاریہ زمین پر بے سود پڑی ہوئی تھی اور اسکی کمیز خون الودہ تھی۔ شہیرشاہ اسکو دیکھ کر ہواس کھو گئے تھے اور بازل پر جھپٹتے ہوئے اسکے گریبان کو پکڑتے ہوئے چیخے۔
تمہاری جرات کیسے ہوئی میری بیٹی کے ساتھ ایسا جانواروں جیسا سلوک کرنے کی۔ ہو کون تم؟ جان لے لوں گا میں تمہاری۔ وہ ہازیانی اندازمیں چیخ رہے تھے۔
ہاہاہا سوچنا بھی مت سسر جی بھول کیوں جاتے ہو تمہاری بیٹی میرے گھر میں ہے اور جہاں تک رہی بات سلوک کی تو وہ میری بیوی ہے میں جو دل کرے کروں تم روک نہیں سکتے اور آخری بات میں محمد عدیل خان کا بیٹا ہوں۔ محمد بازل عدیل خان جس کے باپ کو تم نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ وہ نفرت سے کہتا اپنا گریبان چھوڑاتا وہاں سے نکل گیا کے اب روکنا اور غصہ ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
منیزہ بی جب کمرے میں داخل ہوئی تو عاریہ بے سود پڑی تھی انہوں نے گھر میں موجود ڈاکٹر کو بلا کر عاریہ کا ٹریٹمنٹ کروایا تھا۔ بازل کے گھر میں ہر وقت ایک ڈاکٹر موجود رہتا تھا۔
منیزہ بی انکو یہ دوائیاں دے دیں اور زیادہ سے زیادہ رسٹ کروائیں۔ یہ زخم کچھ دن تک ٹھیک ہوجائیں گے۔ وہ پروفیشنل مسکراہٹ اچھالتے ہوئے چلے گئے۔ اور منیزہ بی عاریہ کو دیکھ کر دکھ سے سوچ رہیں تھی کے بازل انتقام کی آگ میں کیا سے کیا بنتا جا رہا ہے۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...