’’جاؤ۔۔۔‘‘ حوالدار نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔
وہ چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے وہی خونخوار چہرے والا جیلر بیٹھا کوئی فائل الٹ پلٹ رہا تھا، جِسے اس نے بار ہا قیدیوں کے بیرکس کا دورہ کرتے، قیدیوں کو گالیاں دیتے اور کبھی کبھی بے دردی کے ساتھ ان پر لات گھونسوں کی بارش کرتے دیکھا تھا۔
سامنے دو کرسیاں رکھّی تھیں مگر وہ کمرے میں ایک طرف ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا۔ جیلر نے اس کی طرف کوئی توجّہ نہیں دی۔ وہ اسی طرح فائل پر جھُکا رہا۔ میز کے بائیں کونے میں ایک ٹیلیفون رکھا تھا۔ دائیں طرف کی دیوار پر ایک پُرانے طرز کی پنڈولم گھڑی آویزاں تھی، جس کی ہلکی ہلکی ٹِک ٹِک یوں معلوم ہو رہی تھی جیسے وقت قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہو۔ جیلر کے ٹھیک پیچھے دیوار پر مہاتما گاندھی کی تصویر آویزاں تھی جس میں وہ اپنے پوپلے منہ سے ایک مشفقانہ ہنسی ہنس رہے تھے۔ گول شیشوں والی عینک کے پیچھے ان کی آنکھوں میں بچّوں کی سی معصومیت تھی۔ معاً جیلر نے فائل پر سے گردن اٹھائی۔ اس پر ایک بھر پور نگاہ ڈالی اور بولا۔ ’’صابر حسین ولد جابر حسین شیخ یہی نام ہے نا تمہارا؟‘‘
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔‘‘ اس نے حیرت سے جیلر کی طرف دیکھا۔ جیلر کے چہرے سے درشتگی مفقود تھی جو عموماً اس کے چہرے کو غضبناک بنائے رکھتی تھی۔ آواز میں بھی قدرے مُلائمت کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’تمہاری ہسٹری شیٹ میرے سامنے رکھّی ہے۔‘‘ جیلر نے میز پر رکھّی فائل پر اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا باپ ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ تین برس پہلے سال بھر تک بیمار رہنے کے بعد وہ مرگیا۔ تم اس وقت بی۔ کام کے فائنل ایئر میں تھے۔ تم نے فائنل ایگزام دینے سے پہلے کالج چھوڑ دیا۔ تم تین برس سے بیکار ہو۔ تم ڈرگ ایڈکٹ ہو۔ شراب بھی پیتے ہو۔ تمہیں جوئے کی بھی لت ہے۔ پچھلے سال ایک جوئے کے اڈّے پر پولس کی ریڈ پڑی جس میں تم پکڑے گئے۔ تمہاری ماں جیل میں تین بار تم سے مِلنے آئی تھی مگر تم نے اس سے مِلنے سے انکار کر دیا۔ وجہ؟ نہیں معلوم۔‘‘ وہ گردن جھُکائے کھڑا تھا اور جیلر کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح اس کی کیس ہسٹری دُہرا رہا تھا۔ جیلر خاموش ہو گیا۔ اس نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ جیلر پان پراگ کا پیکٹ پھاڑ رہا تھا۔ پان پراگ پھانکنے کے بعد اس نے خالی پیکٹ کو مسل کر پاس کے ڈسٹ بِن میں ڈال دیا اور منہ چلاتا ہوا اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے نظریں جھُکا لیں۔ جیلر نے پان پراگ کو منہ میں گھولتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو، تم ایک پڑھے لکھّے نوجوان ہو۔ تم نے اپنی پڑھائی ادھوری کیوں چھوڑی، مُجھے نہیں معلوم۔۔۔ تمہیں ڈرگس اور جوئے کی عادت کیسے پڑی؟ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ تمہارے ایک شناسا نے تمہاری ضمانت دینی چاہی تو تم نے منع کر دیا۔ وجہ، نہیں معلوم۔۔۔ تمہیں چھ مہینے کی جیل ہو گئی۔ پانچ مہینے پورے ہو چکے ہیں۔ جیل میں تمہارا برتاؤ اچھا تھا۔ اسی بنا پر میں نے تمہاری ایک مہینے کی سزا معاف کرنے کی سفارش کی تھی جو منظور ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے چونک کر حیرت سے جیلر کی طرف دیکھا۔ جیلر مسکرا رہا تھا۔ اگر چہ اس کے کرخت چہرے سے اس کی مسکراہٹ ہم آہنگ نہیں ہو رہی تھی تاہم اسے اس گھڑی اس کی مسکراہٹ بہت بھلی لگی۔ جیلر کہہ رہا تھا۔
’’میں نے تمہیں اِسی لیے بلایا ہے اس وقت دس بج رہے ہیں، گیارہ بجے تمہیں رہا کر دیا جائے گا۔ تمہاری رہائی کے کاغذات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ یہ تمہاری رہائی کا پروانہ ہے۔‘‘ جیلر نے ایک کاغذ دکھاتے ہوئے کہا۔ پھر ایک پوٹلی کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ ’’اس پوٹلی میں تمہارے کپڑے اور تمہارا دوسرا سامان ہے۔ جاؤ کپڑے بدل لو۔‘‘ اس نے پوٹلی اٹھائی اور گردن جھکائے ہوئے باتھ روم میں چلا گیا۔ جیل کا باتھ روم اس قدر گندہ تھا کہ جب بھی اس میں جاتا اسے ابکائی سی آنے لگتی مگر آج اسے باتھ روم کی گندگی گراں نہیں معلوم ہوئی۔ اس نے باتھ روم میں ہاتھ منہ دھونے کے بعد جیل کا لباس اتارا۔ پوٹلی کھولی اور اپنے کپڑے پہنے۔ پوٹلی میں ایک رو مال بھی تھا جس میں اس کی گھڑی، موبائل فون اور پاکٹ بندھا ہوا تھا۔ موبائل کا سوئچ آف تھا۔ اس نے پاکٹ کھول کر دیکھا اس میں ستّر روپئے کے نوٹ تھے۔ دو چار روپیوں کی ریزگاری بھی تھی۔ اس نے پاکٹ اور موبائل کو جیب میں رکھ لیا اور گھڑی کلائی پر باندھ لی۔ گھڑی بند تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ چھوٹ جائے گا مگر چھوٹ کر کہاں جائے گا؟ چمپا کے کوٹھے پر؟ پُجاری کے جوا خانے میں؟ وہ تو پولس ریڈ کے بعد شاید بند ہو گیا ہو گا۔۔۔ ماروتی کے دارو اڈّے پر؟ اکبر، جانی، راجو، کُمار، پینٹل، غوث، ساونت یا پھر۔۔۔ گھر؟ گھر کے تصور کے ساتھ ہی ماں کا روکھا سوکھا غمزدہ چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ ماں کو دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا۔ آخری بار عدالت میں دیکھا تھا۔ جب جج نے اسے چھ ماہ کی سزا سنائی تھی۔ سپاہی اسے ہتھکڑیاں لگائے عدالت سے باہر لے جا رہے تھے۔ تب ماں عدالت کے باہر ایک ستون کی آڑ میں کھڑی رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے اور وہ منہ میں پلّو ٹھونسے غالباً ہچکیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کا آنچل سر سے ڈھلک گیا تھا اور اس کے کھچڑی بالوں والا سر کھُل گیا تھا۔ ماں گھر میں بھی ہمیشہ سر پر پلّو ڈالے رہتی تھی، یہ اس کی پرانی عادت تھی اور آج اسے اس طرح ننگے سر دیکھ کر اسے چوٹ سی لگی مگر اس کا چہرہ پتھر کی سِل کی طرح سپاٹ ہی رہا، اس نے اِس سے پہلے اسے اس حال میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ باپ کی موت پر بھی وہ اس طرح بلک کر نہیں روئی تھی، نہ گریہ کیا تھا نہ سینہ کوبی کی تھی، نہ چیخی نہ چلائی۔ بس رشتے محلّے کی چند عورتوں کے درمیان ایک کونے میں بیٹھی چپ چاپ آنسو بہاتی رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے ذہنی طور پر باپ کی موت کو بہت پہلے قبول کر لیا تھا۔ دو برس سے باپ کا علاج چل رہا تھا، پچھلے برس سے تو وہ بالکل ہی بستر سے لگ گیا تھا۔ کمپنی سے ملا ہوا پیسہ تھوڑا تھوڑا کر کے ختم ہو رہا تھا۔ ماں نے گھر میں سِلائی کا کام شروع کر دیا تھا، وہ کسی نہ کسی طرح گھر کا خرچ چلا رہی تھی۔ اسی میں باپ کی دوائیاں بھی آ جاتی تھیں۔ اس وقت وہ بی۔ کام کے سیکنڈ ائیر میں پڑھتا تھا۔ وہ جوں توں پاس ہو کر تھرڈ ائیر میں گیا۔ اسی سال باپ کا انتقال ہو گیا۔ باپ کے مرنے کا اسے کوئی خاص صدمہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ پچھلے برس بھر سے وہ باپ کو تِل تِل مرتا دیکھتا رہا تھا۔ اسے باپ سے کوئی خاص لگاؤ تو کبھی نہیں رہا مگر بیماری کے دنوں میں‘ شروع شروع میں اس کی حالتِ زار پر اسے ترس آ جاتا تو دو گھڑی اس کے پاس بیٹھ کر اس کا سر یا پاؤں دبا دیا کرتا تھا مگر جس دن اسے معلوم ہوا کہ اسے ایڈز ہے اسی دن سے اس نے اس کے پاس جانا چھوڑ دیا تھا۔ اسے باپ سے نفرت ہو گئی اور یہ نفرت دن بدن شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ مرنے سے تین دن پہلے باپ نے اسے اپنے پاس بلایا۔ نہایت نحیف آواز میں بولا۔ ’’بیٹا! میں تو جا رہا ہوں۔ اپنی ماں کا خیال رکھنا۔ اس نے بہت دُکھ اٹھائے ہیں اب تم ہی اس کا۔۔۔‘‘ رقّت آمیز نقاہت کے سبب باپ اپنا جُملہ پورا نہ کر سکا۔ ماں، باپ کے سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ اس نے باپ کو غور سے دیکھا۔ وہ جس گدڑی میں لپٹا پڑا تھا وہ کس قدر میلی تھی۔ اس کا پورا جسم گدڑی کے اندر تھا۔ صرف گردن گدڑی کے باہر تھی۔ سر کے بال اڑ گئے تھے۔ چہرہ کسی چھوہارے کی مانند سوکھ گیا تھا۔ گالوں کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں۔ ڈھیلوں میں بس دو جگنو سے جل بجھ رہے تھے۔ وہ اس وقت کسی دوسری دنیا کی عجیب الخلقت مخلوق معلوم ہو رہا تھا، عجیب الخلقت اور کریہہ المنظر۔ اس نے نفرت سے اپنا منہ پھیر لیا۔ باپ نحیف آواز میں کہہ رہا تھا۔
’’میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت کرنے لگے ہو، میں اِسی قابل ہوں۔ مجھے خود اپنے آپ سے نفرت ہو گئی ہے۔ میں نے دو بار مرنے کی کوشش کی۔ ہر بار تمہاری ماں آڑے آ گئی۔ میں کیا کروں؟ مگر اب میرے دن پورے ہو چکے ہیں۔ میں اپنے گناہوں کی پوٹلی لیے اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں تم لوگوں کا گنہ گار ہوں۔ میں نے تم لوگوں کو اتنی تکلیف دی ہے کہ معافی بھی نہیں مانگ سکتا۔‘‘ باپ کی آواز پھر اس کے حلق میں پھنس گئی۔ اس نے پلٹ کر اسے ناگواری سے دیکھا۔ باپ کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور اس کی دھندلی آنکھیں مزید دھندلا گئی تھیں۔ وہ مڑ کر تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔
اس رات ماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ تیرے باپ ہیں صابر۔‘‘
’’ہاں۔ ہیں۔ پھر۔۔۔؟‘‘
’’ان کا آخری وقت ہے۔ انہیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہے۔ انہیں معاف کر دے۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ وہ ایک رنڈی باز شخص ہے۔ میرے دل میں اس کے لیے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس نے اپنی عیاشی کے لیے ہماری خوشیوں کا سودا کیا ہے۔ اسے اسی طرح تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔‘‘ اس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔
وہ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد جیل کا لباس بغل میں دبائے جیلر کے آفس میں آ گیا۔ جیلر کسی فائل پر جھُکا ہوا تھا۔ اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور گردن کو خفیف سی جنبش دے کر دوبارہ فائل پر جھک گیا۔ اس نے جیل کے کپڑوں کی پوٹلی وہیں ایک طرف رکھ دی اور ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔
’’بیٹھو!‘‘ جیلر نے گردن اوپر اٹھائے بغیر کہا۔
وہ جھجھکتا ہوا ایک کُرسی پر ٹِک گیا۔ جیلر دو ایک منٹ تک فائل کے اوراق الٹتا پلٹتا رہا۔ پھر فائل بند کر کے میز کی دراز سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ’ ’اس میں تمہاری پانچ مہینے کی مزدوری کے پیسے ہیں۔ ایک سو اسّی روپے۔ اِدھر اِس واؤچر پر دستخط کر دو۔‘‘
اس نے خاموشی سے واؤچر پر دستخط کر دیے اور روپیوں کا لفافہ اٹھا لیا۔
’’گِن لو۔۔۔‘‘ جیلر نے کہا۔
’’ٹھیک ہے سر!۔۔۔ آپ نے میرا اتنا خیال رکھّا۔۔۔ تھینکس۔۔۔ اس دوران مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کر دیجئے۔‘‘
’’یہاں غلطیوں کو معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کا بھگتان ہوتا ہے۔ تم نے یہاں کوئی غلطی نہیں کی اسی لیے تو تمہاری سزا کم ہوئی ہے۔ دیکھو! تم کوئی عادی مجرم نہیں ہو، مجھے امید ہے کہ ان پانچ مہینوں میں جو کچھ تم پر بیتی، اس سے سبق لو گے اور کوشش کرو گے کہ دوبارہ یہاں آنے کی نوبت نہ آئے۔ تم جا سکتے ہو۔۔۔‘‘
اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور کرسی سے اٹھ گیا۔
جیل کے گیٹ سے باہر نکلنے کے بعد اس نے ایک گہری سانس لی اور چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ سڑک پر موٹریں دوڑ رہی تھی۔ سامنے چورا ہے پر ٹریفک کا سپاہی سیٹی بجاتا ہوا، ٹریفک کو کنٹرول کر رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر راہ گیروں کی آمد و رفت جاری تھی۔ وہ اپنی پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔ ایک خالی ٹیکسی اسے کے پاس سے گُزری مگر اس نے اسے رکوانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چلتا رہا۔۔۔ چلتا رہا۔۔۔ وہ کہاں جا رہا تھا؟ وہ کہاں جانا چاہتا تھا؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ بس وہ چلتا رہا۔۔۔ چلتے چلتے جب کافی دیر ہو گئی تو ایک بس اسٹاپ پر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بس آئی۔ کچھ لوگ لپک کر بس میں سوار ہو گئے۔ مگر وہ ایک طرف خاموش کھڑا رہا۔۔۔ دوسری بس آئی۔۔۔ کچھ اور لوگ بس میں سوار ہو گئے۔۔۔ وہ کھڑا رہا۔۔۔ تیسری بس آئی۔۔۔ اور باقی لوگ بھی اس بس میں سوار ہو گئے۔ اس نے چونک کر ارد گرد دیکھا۔ بس اسٹاپ پر اب وہ اکیلا کھڑا تھا۔ اتنے میں چوتھی بس آئی اور وہ غیر ارادی طور پر بس میں سوار ہو گیا۔ بس میں کافی سیٹیں خالی تھیں۔ وہ ایک ونڈو سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ کنڈکٹر آیا۔ اس نے نوٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لاسٹ اسٹاپ۔‘‘ کنڈکٹر ٹکٹ دے کر آگے بڑھ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سیٹ کی پشت سے ٹک گیا۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے تصور میں یکے بعد دیگرے کئی منظر ابھرے۔ باپ کا جنازہ، چمپا کا کوٹھا، پُجاری کا جوا خانہ، ماروتی کا دارو اڈہ، پولس کی ریڈ، عدالت کا کمرہ، جیل کی کوٹھری، ماں کا روتا بلکتا چہرہ۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے سارے منظر فیڈ آؤٹ ہوتے چلے گئے البتہ ماں کا آنسوؤں سے تر چہرہ نگاہوں میں نقش ہو کر رہ گیا۔ اسے یاد نہیں آتا کہ اس نے کبھی ماں کو کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا ہو۔ وہ باپ کی موجودگی میں ہمیشہ سہمی سہمی اور بدحواس سی رہتی۔ بار بار سر کے پلّو کو اس طرح درست کرتی جسیے پلّو سر سے سرکتے ہی کو ئی ناشدنی ہو جائے گی۔ باپ کی ایک آواز پر وہ خود کار کھلونے کی مانند حرکت میں آ جاتی اور سارے کام چھوڑ کر تُرت پھُرت اس کا حکم بجا لاتی۔ اس کا حکم بجا لانے میں ذرا سی بھی تاخیر ہوتی تو باپ گھر سر پر اٹھا لیتا اور ماں بوکھلا کر کسی وحشت زدہ ہرنی کی طرح گھر بھر میں دوڑتی پھرتی۔ بارہا ایسا ہوا کہ ماں اسے کھانا پروس رہی ہے یا اس کے شرٹ میں بٹن ٹانک رہی ہے یا اس کے سر میں تیل ڈال رہی ہے۔ بیڈ روم سے باپ کی گرجدار آواز آتی اور ماں اس کا ادھورا کام چھوڑ کر پلّو درست کرتی ہوئی باپ کے پاس دوڑ جاتی۔ اس وقت اسے اپنے باپ پر بے حد غصہ آتا اور جب ماں کافی دیر تک لوٹ کر نہیں آتی تو اسے باپ سے زیادہ ماں پر غصہ آتا اور وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہتا۔ رفتہ رفتہ اس کے دل سے باپ کا احترام اٹھتا گیا۔ ساتھ ہی ماں کے لیے بھی دل میں ایک کڑواہٹ بھرتی گئی۔ باپ کی موت کے بعد ماں کی آنکھوں سے ہمہ وقت جھانکتی وحشت ضرور کم ہوئی مگر اس کے چہرے پر جمی ہوئی مستقل اداسی کی گرد صاف نہیں ہوئی۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے بھی ماں کی کوئی دلجوئی نہیں کی۔ بلکہ دن بدن اس کی بد دماغی، تلخ مزاجی اور خود سری میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ باپ کی زندگی میں ہی چوری چھپے سگریٹیں پینے لگ گیا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد سگریٹوں کے ساتھ چرس کے کش بھی لگانے لگا۔ پھر جانے کب پینٹل اور غوث کی صحبت میں اس نے دارُو پینا شروع کر دیا۔ ایک دن شراب کے نشے میں وہ راجو کے ساتھ چمپا کے کوٹھے پر چلا گیا۔ پھر تو کوٹھے کا ایسا چسکا لگا کہ وہ ہر دو تین دن کے بعد چمپا کے کوٹھے پر نظر آنے لگا۔ چمپا کو بھی وہ کچھ زیادہ ہی بھا گیا تھا۔ اس لیے اسے عام گاہکوں کے مقابلے میں خاص ’رعایت‘ حاصل تھی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چمپا خود اسے فون کر کر کے بلانے لگی۔ کبھی کبھی چمپا اپنی ’نائکہ‘ کی چوری سے اس کی جیب میں کچھ روپئے بھی رکھ دیتی۔ اسی دوران اسے جوئے کی لت بھی پڑ گئی اور وہ کمار کے ساتھ پُجاری کے اڈے پر جانے لگا۔ جس دن جیت جاتا ’چمپا‘ کے کوٹھے پر دل کھول کر روپے لٹاتا۔ ایک دن اس نے اتنے روپئے جیتے کہ چمپا پر نوٹوں کی بارش سی کر دی۔ ’نائکہ‘ نے خوش ہو کر پوری رات چمپا کو اس کے حوالے کر دیا۔ چمپا نے بھی اس رات اس پر لذتوں کے ایسے بھید کھولے جن سے وہ ابھی تک نا آشنا تھا۔ جس دن ہار جاتا، کئی کئی دن چمپا کے کوٹھے کا رُخ نہ کرتا، جوئے کی لت بھی شدید شکل اختیار کر چکی تھی۔ اب وہ پیسوں کے لیے ماں سے بھی زور زبردستی کرنے لگا۔ ماں سِلائی کر کے جوں توں گھر چلاتی تھی۔ اس کی ناجائز فرمائشیں کہاں سے پوری کرتی۔ وہ گھر کی چیزیں بیچنے لگا۔ سب سے پہلے باپ کی گھڑی اور دو انگوٹھیاں اس کے ہاتھ لگیں۔ ماں کے پاس سونے کی چار چوڑیاں تھیں۔ ایک دن انہیں بیچ آیا۔ باپ کے تین چار سفاری سوٹ تھے، انہیں بھی چِندی بازار میں اونے پونے داموں بیچ دیا۔ گھر میں تانبے اور پیتل کے برتن تھے، انہیں ٹھکانے لگایا۔ ماں ہر بار رو رو کر اسے روکتی اور سمجھاتی رہی مگر اس کے سر پر تو جنون سوار تھا۔ وہ چیخ کر کہتا۔
’’ان بیکار پڑی ہوئی چیزوں کا آخر فائدہ ہی کیا؟ جب پیسے آئیں گے نئی چیزیں خرید لیں گے۔‘‘ وہ اسے روتا سسکتا چھوڑ کر باہر نکل جاتا۔
آخر ایک ایک کر کے گھر کا سارا اثاثہ بِک گیا اور اس دِن۔۔۔
اس دن وہ صبح سے ہی گھر میں آنکھیں بند کیے اوندھے منہ پڑا تھا۔ اب گھر میں کوئی ایسی شئے نہیں بچی تھی جسے بیچ کر وہ اپنا شوق پورا کرتا۔ پتا نہیں اسے اندر سے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ آج اس کی ’لک‘ ضرور اس کا ساتھ دے گی۔ بس کہیں سے کچھ روپئے مل جائیں۔ آج وہ تاش کے ایسے ہاتھ دکھائے گا کہ اگلی پچھلی کسر پوری ہو جائے گی۔ صبح وہ ماں سے پیسے مانگ چکا تھا۔ اس نے اپنا خالی بٹوہ اس کے آگے ڈال دیا تھا۔ چمپا سے بھی کچھ ملنے کی توقع نہیں تھی۔ وہ خود ایک ہفتے سے بیمار چل رہی تھی اوراس کا دھندہ بند تھا۔
گھر میں سناٹا تھا۔ رہ رہ کر صرف ماں کی سلائی مشین کی گھر گھر سُنائی دے رہی تھی۔ اس نے اوندھے پڑے پڑے آنکھیں کھول دیں۔ ماں اپنی دستی مشین پر کوئی کپڑا سی رہی تھی۔ اس کا پلّو اس کے سر سے سرک گیا تھا۔ اور اس کے خشک کھچڑی بال کسی پرندے کے گھونسلے کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اس کی آنکھوں پر موٹے شیشے کی عینک تھی اور وہ سر جھکائے کپڑا سینے میں محو تھی۔ وہ پڑے پڑے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ کمرہ اس کی ماں کی مانگ کی طرح ہی اجڑا اجڑا لگ رہا تھا۔ کمرے میں فرنیچر کے نام پر ایک پرانا صوفہ تھا جس پر وہ خود لیٹا تھا۔ ایک طرف دو خستہ حال کرسیاں پڑی تھیں جن میں سے ایک کے ہتھے اکھڑ گئے تھے۔ ایک ٹی۔ وی باکس تھا جو مرمت کے انتظار میں دھول کھا رہا تھا۔ ماں کی یہ ہاتھ مشین۔۔۔ ہاتھ مشین کا خیال آتے ہی اس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ دل زور سے دھڑکا۔۔۔ اس نے مشین کو غور سے دیکھا۔۔۔ تھی تو پُرانی۔۔۔ مگر دو چار سو تو کوئی بھی دے سکتا تھا۔ اس نے ماں کو دیکھا۔۔۔ وہ اسی طرح سر جھکائے مشین پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ ہرگز نہیں مانے گی۔۔۔ اگر اس نے مشین کا نام بھی لیا تو شاید وہ جان ہی دے دے۔ ویسے وہ خود بھی اتنا تو سمجھتا ہی تھا کہ اسی مشین کی بدولت گھر میں چولہا جل جاتا ہے۔ اس نے مشین کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور خالی خالی نظروں سے ماں کو دیکھتا رہا۔ اچانک اس کی نظر اس کے خالی گلے پر پڑی اور پھر کوئی خیال بجلی کی سرعت سے اسے کے ذہن میں کوند گیا۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ ماں نے کپڑا سیتے سیتے گردن اٹھا کر ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ وہ اٹھ کر بیڈ روم میں آیا۔ پلنگ کی بغل میں گودریج کا پُرانا کباٹ تھا۔ اس نے ہینڈل گھمایا۔ کباٹ کھل گیا۔ وہ کباٹ کے خانے ٹٹولنے۔ کباٹ کے ایک خانے میں اس کے اپنے کپڑے سلیقے سے گھڑی کئے ہوئے رکھے تھے۔ نیچے کے خانے میں ماں کے کپڑے تھے۔ تیسرے خانے میں کچھ پرانے کپڑے ٹھنسے پڑے تھے۔ ٹٹولتے ٹٹولتے آخر اسے ماں کے کپڑوں کے خانے میں کپڑوں کی تہوں کے نیچے دبا ہوا سرخ رنگ کا ایک بکس مل گیا۔ بکس کو کھولا۔۔۔ اس کی توقع کے مطابق باکس میں ماں کا منگل سوتر موجود تھا۔ اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس نے منگل سوتر کو ایک رو مال میں لپیٹ کر پتلون کی جیب میں رکھ لیا۔ خالی باکس کو دوبارہ کپڑوں کی تہوں کے نیچے اسی جگہ رکھ دیا۔ کباٹ کا دروازہ بند کر کے جوں ہی پلٹا تو دیکھا سامنے ماں کھڑی اسے گھور رہی تھی۔ وہ سٹ پٹا گیا۔ ماں نے بھرائی آواز میں کہا۔ ’’آخر تو نے اسے ڈھونڈ ہی لیا۔ وہی ایک چیز تو باقی رہ گئی تھی۔‘‘
وہ کچھ نہیں بولا۔ پتلوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے گردن جھکائے چپ چاپ کھڑا رہا۔ ’’وہ میرے سہاگ کی نشانی ہے صابر!‘‘ ماں تڑپ کر بولی۔
’’سہاگ کی نشانی؟ جب سہاگ ہی نہیں رہا تو سہاگ کی نشانی کو سینے سے لگائے رکھنے کا کیا مطلب؟‘‘
’’جو بھی ہو۔ تو اسے جوئے میں نہیں ہار سکتا۔ اسے واپس رکھ دے۔‘‘
’’نہیں ماں۔ آج آخری بار مجھے منع مت کرو۔ آج میں نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ آج میں ضرور جیتوں گا، چلو تم کہتی ہو تو اسے بیچوں گا نہیں، گروی رکھوں گا اور جیتنے کے بعد چھڑا لوں گا۔ دیکھنا میں آج ضرور جیتوں گا۔‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ ’’صابر ضد نہ کرو۔‘‘ ماں دونوں ہاتھ پھیلائے دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ وہ ماں کی بانہہ پکڑ کر اسے جبراً ایک طرف ہٹاتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔
پیچھے سے ماں ملتجی آواز میں چیخ رہی تھی۔
’ ’صابر!۔۔۔ صابر!۔۔۔ تجھے قسم ہے۔۔۔ رک جا۔۔۔ رک جا۔۔۔‘‘
پچھواڑے کے دروازے سے نکلتے نکلتے اس نے سنا ماں کی چیخ ایک درد ناک الاپ میں بدل گئی تھی۔۔۔
’’لاسٹ اسٹاپ۔۔۔‘‘کنڈکٹر کی آواز پر وہ چونک پڑا۔ پوری بس خالی ہو چکی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور بس سے نیچے اتر گیا۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شالیمار بس ڈپو کے پاس کھڑا ہے۔ یہاں سے اس کا مکان زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ تذبذب میں پڑ گیا۔ کیا کرے؟ گھر جائے کہ نہ جائے؟کیا وہ ماں سے نظریں ملا سکے گا؟ کیا ماں اس کے سلوک کو بھول گئی ہو گی؟ وہ جیل میں تین بار اس سے ملنے آئی اور اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ آخر کیوں؟ وہ کس سے خفا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں وہ اپنے باپ کی بے اعتدالیوں اور زیادتیوں کا بدلہ ماں سے لے رہا ہو۔ اور ماں۔۔۔؟ وہ تو تب بھی برداشت کر رہی تھی اور اب بھی کر رہی ہے۔ کیا اس کی قسمت میں صرف برداشت کرنا لکھا ہے؟ ہر زیادتی کو۔۔۔ ہر ایک کی زیادتی کو۔۔۔ اسے اپنے سینے میں کچھ پگھلتا سا محسوس ہوا۔ اچانک اسے ٹھوکر لگی اور وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اس گلی میں داخل ہو گیا تھا جس کے آخری نکڑ پر اس کا مکان تھا۔ مکان کے سامنے کا ورانڈا دور سے نظر آ رہا تھا۔ اس کے باپ نے ان کے لیے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر چار کمروں کا ایک چھوٹا سا مکان ضرور بنوا دیا تھا۔ مکان کا دروازہ بھِڑا ہوا تھا۔ تھوڑے سے پس و پیش کے بعد وہ دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے آگے بڑھا۔ معاً یہ سوچ کر رک گیا کہ وہ اکثر مکان میں پچھواڑے کے راستے سے داخل ہوتا تھا۔ وہ گھوم کر مکان کے پچھواڑے آیا۔ کمپاؤنڈ کا گیٹ کھلا تھا۔ وہ اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک خستہ حال عورت کپڑے سکھا رہی تھی۔ آہٹ پا کر پلٹی۔ اس نے دیکھا وہ عورت اس کی ماں کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ کس قدر کمزور ہو گئی تھی وہ۔ ماں نے اپنی پیشانی پر ہتھیلی رکھ کر دھوپ سے بچتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
’’کون ہے؟‘‘ اس کے حلق سے ایک مری مری سی آواز نکلی۔ اس کے جسم کی طرح اس کی آواز بھی کس قدر کمزور تھی۔ وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔ اپنی جگہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی۔ غور سے دیکھا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔ صابر؟۔۔۔ تُو۔۔۔‘‘
اس کے لہجے میں کیا تھا؟۔۔۔ حیرت؟۔۔۔ غصہ؟۔۔۔ پیار؟۔۔۔ یا کچھ بھی نہیں۔
وہ اسی طرح بت بنا کھڑا رہا۔ وہ اسے چندھیائی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ گویا پہچان لینے کے بعد بھی پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ ہونٹ کانپ رہے تھے جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر کہنے سے قاصر ہو۔ وہ نظریں چرانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔ کیا بولے۔۔۔؟ کیا وہ تمام الفاظ گونگے ہو چکے ہیں جو ایک ماں اور بیٹے کے درمیان ترسیل کا کام کرتے ہیں۔ اتنے میں ماں کے ہونٹوں سے ایک آہ سی نکلی۔ اس نے ساڑی کا پلو آنکھوں سے لگایا۔ اپنے ہاتھ میں تھامے گیلے کپڑے کو پھیلا کر سامنے رسی پر ڈالا پھر اس کی طرف مڑی اور کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولی۔
’’دیکھ! تیرے کپڑے کتنے میلے ہو گئے ہیں۔۔۔ لا، دھو دُوں۔۔۔؟؟
اس نے حیرانی سے پہلے ماں کی طرف دیکھا پھر گردن نیوڑھا کر اپنے کپڑوں کو دیکھا۔ تب اسے پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی اس کے کپڑے کس قدر میلے ہو گئے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...