میری عمرچالیس سے تجاوز کر چکی ہے۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ آگے کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔ در اصل میں شادی کے انسٹی ٹیوشن پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ سماج میں شادی کی بڑی اہمیت ہے، ہو گی۔ مذہب بھی اس پر خاص زور دیتا ہے، دیتا رہے۔ مگر میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ شادی کے نام پر مرد کے گلے میں گرہستی کی رسی باندھ دی جاتی ہے تاکہ کولہو کے بیل کی طرح گھومتا رہے اپنے ہی گھر پریوار کے گرد۔ مجھے ایسی بندش منظور نہیں۔ میں تو ایک آزاد پرندے کی طرح ڈال ڈال اڑنا چاہتا ہوں، پات پات چہکنا چاہتا ہوں۔ شادی کے بغیر تو آپ رہ سکتے ہیں مگر عورت کے بغیر کیونکر رہ سکتے ہیں۔ کسی دانش ور نے کیسی بلیغ بات کہی ہے کہ عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہے مگر عورت کے بغیر زندگی بسر کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ میں نے بھی شادی نہیں کی مگر میں کنوارا بھی نہیں ہوں۔ عورت ہمیشہ میری دسترس میں رہی ہے بلکہ مزید صراحت سے کہوں تو میرے ’تصرف‘ میں رہی ہے۔
میں ایک مشہور کمپنی میں اونچے عہدے پر فائز ہوں۔ پانچ اعداد میں تنخواہ وصول کرتا ہوں، شہر کے صاف ستھرے علاقے میں ایک عمدہ فلیٹ ہے میرا۔ ایک شاندار کار بھی ہے میرے پاس۔ اکیلا آدمی ہوں۔ دِکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ جب عورتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ میں کنوارا ہوں تو بطورِ خاص وہ مجھ پر مہربان ہونے لگتی ہیں۔ کنواری لڑکیاں تو بس یوں سمجھئے پکے پھل کی طرح ٹپک پڑنے کو بیتاب رہتی ہیں۔ اب گِریں تب گِریں۔
پچھلے بیس برس میں کچھ نہیں تو درجن بھر عورتیں میری دوست بنیں، میرے ساتھ رہیں، خوب گھلی ملیں اور پھر جدا ہو گئیں۔ بعض نے شادی کے لیے اصرار کیا مگر میں پہلے ہی جتا دیتا تھا کہ میں شادی وادی کے پھیرے میں نہیں پڑنے والا۔ ساتھ رہو، کھاؤ پیو، موج مستی کرو اور اپنی راہ لو۔ بعض نے مجھے بے حد متاثر بھی کیا۔ ان سے علاحدہ ہوتے ہوئے تکلیف بھی بہت ہوئی مگر میں اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوں۔ کسی ایک عورت کے ساتھ بندھ کر رہنا میرے بس کی بات نہیں۔ دودھ پینے کے لیے گائے پالنا ضروری تو نہیں۔
پچھلے بیس برس میں صرف نتاشیا تھی جس کے ساتھ میں نے متواتر تین سال گزار دیے۔ اف! کیا لڑکی تھی نِتاشیا۔ تھی تو سانولی سلونی، بہت خوبصورت تو نہیں تھی بس قبول صورت کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کا بدن! قیامت تھا قیامت۔ کپڑے ایسے چست پہنتی تھی کہ جسم کی ایک ایک گولائی اجنتا ایلورا کا نظارا پیش کرتی تھی۔ وہ ہر اتوار کو صبح فلیٹ پر آ جاتی اور پھر رات دیر گئے تک میرے ساتھ رہتی۔ اس روز میں نہ ہوٹل جاتا نہ کلب، پورا دن نتاشیا کے ساتھ گھر ہی پر گزار دیتا۔ فلیٹ میں وہ صبح سے شام تک سراپا نیوڈ ماڈل بنی میرے ارد گرد منڈلاتی رہتی اور مجھے بھی سارا دن کپڑوں سے بے نیاز رہنے پر مجبور کرتی۔ مختصر یہ کہ اتوار کے دن میرا فلیٹ باغِ عدن بن جاتا اور ہم دونوں آدم اور حوّا کی طرح برہنگی کا لباس پہنے جنّت کے مزے لوٹتے۔
نتاشیا کے پیار کرنے کے انداز بھی نرالے تھے۔ پہلے تو وہ کسی بچے کی طرح میرے سر میں تیل ڈالتی۔ پھر اپنی نرم انگلیوں سے مالش کرتی۔ مالش کے بعد زبردستی پورے بدن کا مساج کرتی، مساج کیا کرتی، گُدگُدا، گُدگُدا کر میرا دم نکال دیتی۔ جب میں ہنس ہنس کر بے حال ہو جاتا تو مجھے کھینچ کھانچ کر باتھ روم میں لے جاتی۔ شاور کے نیچے خوب مل مل کر نہلاتی، تولیے سے بدن کا پور پور خشک کرتی۔ کھانے کی میز پر خود میری گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتی اور مجھے کھانا کھلاتی۔ ہاتھ سے نہیں منہ سے، جیسے گوریا اپنے بچوں کو چوگا چگاتی ہے۔ بستر پر تو ہر لمحہ مچھلی کی طرح تڑپتی اور پھسلتی رہتی۔ اف! کیا لڑکی تھی، نتاشیا۔۔۔‘‘‘
’’چِر۔۔۔ چِر۔۔۔ چِر۔۔۔ ر۔ ر۔ ر۔ ر‘‘
’لیجئے، بریک نہ لگاتا تو ابھی ایکسی ڈینٹ ہو گیا ہوتا۔ میں بھول ہی گیا کہ گاڑی چلا رہا ہوں اور میرے دونوں ہاتھ نتاشیا کے کاندھوں پر نہیں گاڑی کی اسٹیئرنگ پر ہیں۔
تین مہینے ہو گئے نتاشیا مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ بہت روئی تھی آخری دن مجھ سے لپٹ کر۔ میں بھی آبدیدہ ہو گیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار کسی عورت سے بچھڑتے ہوئے میرے دل کے کسی گوشے میں کچھ چٹختا سا محسوس ہوا تھا۔ اس نے تین برسوں میں مجھے بہت سکھ دیا تھا۔ اتنا سکھ شاید کوئی شادی شدہ عورت تیس برس میں اپنے مرد کو بھی نہیں دے سکتی۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ کہتی تھی۔ ’’زندگی بھر تمہارے چرن دھو کر پیتی رہوں گی۔ کبھی تمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔ مجھے بیوی نہیں اپنی داسی سمجھ کر اپنا لو۔‘‘
مگر میں بھی کیا کرتا۔ میرے ہاتھ میں شادی کی لکیر ہی نہیں ہے۔ البتہ عورتیں ڈھیر ساری ہیں۔ آخری دن وہ ایک لمحے کے لیے بھی مجھ سے جدا نہیں ہوئی۔ سینے سے یوں چمٹی رہی جیسے مجھ سے الگ ہوتے ہی کافور بن کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔ رو رو کر میرا سینہ بھگوتی رہی۔ جب روتے روتے تھک جاتی تو دیوانوں کی طرح میرے ہونٹ، رخسار، پیشانی چومنے لگتی۔ بلکہ سر سے پاؤں تک پورے بدن کو بوسوں سے شرابور کر دیتی۔ سچ پوچھئے تو اس کے اس والہانہ پیار نے شام ہوتے ہوتے مجھے زیر کر ہی لیا تھا۔
لیکن ایک بات ایسی ہو گئی کہ سب کچھ الٹا پلٹا ہو گیا۔
میں نے نتاشیا کو سینے سے چمٹاتے ہوئے کہا۔
’’نتاشیا! تم مجھے بہت چاہتی ہو نا۔۔۔؟‘‘
’’اپنی جان سے زیادہ۔۔۔‘‘
’’پھر میری ایک بات سنو!‘‘
’’کہو۔۔۔‘‘
’’ایک ہفتے بعد تمہاری شادی ہو رہی ہے نا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’تم شادی کر لو۔ تمہارے شادی کر لینے سے ہماری محبت تھوڑی نا ختم ہو جائے گی۔ شادی کے بعد بھی ہم اسی طرح ملتے رہیں گے۔ میرے گھر کا دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں، میں سوائے تمہارے کسی دوسری عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا۔‘‘
’’شٹ اپ۔۔۔‘‘
وہ چیخ پڑی، اور کسی ٹپّا کھائی گیند کی طرح میری گود سے اچھل کر کھڑی ہو گئی۔
’’یعنی شادی کسی اور سے رچاؤں اور ہوس تمہاری پوری کروں۔۔۔ تم نے آج میری محبت کو گالی دی ہے۔ میرے پیار کے منہ پر تھوکا ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اس قدر ذلیل انسان ہو۔ بلکہ تم انسان ہی نہیں ہو۔ میں تمہارے ساتھ سونے کی بجائے کسی کتے کے ساتھ سوجاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ یو سن آف دی بچ۔۔۔ بلڈی سوائن۔۔۔‘‘
وہ گالیاں دے رہی تھی۔ گالیاں دیتے دیتے روتی جا رہی تھی۔ اور روتے روتے کپڑے پہن رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک وہ اس قدر برہم کیوں ہو گئی۔ آخر میں نے ایسی کونسی بات کہہ دی۔۔۔ جو وہ اپنے آپے سے باہر ہوئی جا رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں سچویشن کو سمجھتا، سمجھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا، وہ کپڑے پہن کر اپنی بکنی میرے منہ پر مارتی ہوئی بولی۔ ’’لو۔۔۔ اسے زندگی بھر چاٹتے رہو۔۔۔ تم اسی قابل ہو۔‘‘
اور دروازہ کھول کر فلیٹ کے باہر نکل گئی۔ میں تو کئی منٹ تک ننگ دھڑنگ بستر پر بے حس و حرکت پڑا رہ گیا۔ میرے حواس ہی مختل ہو گئے تھے۔ تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا۔ اس دن کے بعد سے مجھے نتاشیا پھر کبھی نہیں ملی۔ اف! کیا لڑکی تھی نتاشیا۔۔۔ وہ تو خیر مجھے جی جان سے چاہتی ہی تھی۔ اب غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا لگ رہا ہے، شاید میں بھی اس سے پیار کرنے لگ گیا تھا۔ اسی لیے تو اس کے چلے جانے کے بعد سے میرے اندر عورت کی خواہش ہی سرد پڑ گئی تھی۔ وہ جو ہمہ وقت لہو میں ترنگیں اٹھا کرتی تھیں اب دور دور تک ان کا پتا نہیں تھا۔ طبیعت پر عجیب سی پژمردگی چھائی رہتی۔ میں دفتر سے سیدھا گھر آ جاتا، منہ ہاتھ دھونے کے بعد ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتا۔ اور دیر رات تک اوٹ پٹانگ قسم کے پروگرام اور سڑی بسی فلمیں دیکھتا رہتا اور جب نیند آتی وہیں لڑھک کر سوجاتا۔ اتوار کا دن تو قیامت کی طرح گزرتا۔ نتاشیا کی اس قدر یاد آتی کہ بے چین ہو کر دیوانوں کی طرح کمرے میں گھنٹوں ٹہلتا رہتا۔ کبھی اس کی بکنی کو اپنے چہرے پر ملتا، کبھی اپنے سینے سے لگاتا، اس کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہتے۔
’’لو اِسے زندگی بھر چاٹتے رہو، تم اسی قابل ہو۔‘‘
کبھی کبھی میرے آنسو بھی نکل آتے۔ اگر کوئی مجھے اس حال میں دیکھ لیتا تو یقیناً پاگل سمجھتا۔ میں اندر سے اس قدر بجھ گیا تھا کہ لوگ جب قہقہے لگا رہے ہوتے مجھے مسکرانا بھی دوبھر معلوم ہوتا۔
تبھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ میرے لہو میں مدھم پڑتے چراغ ایک بار پھر لو دینے لگے۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ چن چولی سے اچانک روشن علی آ گیا۔ آپ روشن علی کو نہیں جانتے۔ روشن علی پہلے ممبئی میں ہی رہتا تھا۔ میری اس کی کالج کے زمانے سے آشنائی تھی۔ بڑا دل پھینک، شوخ مزاج اور باتونی قسم کا شخص ہے۔ لڑکیوں کو تو چٹکیوں میں پٹا لیتا تھا۔ کالج کے زمانے میں اس کی بیک وقت کئی کئی گرل فرینڈز ہوا کرتی تھیں۔ مجھے بھی لڑکیوں کی لت در اصل اس کی صحبت میں ہی پڑی تھی۔ بلکہ پہلی بار بچو بھائی کی واڑی میں جمنا بائی کا گانا سننے مجھے وہی لے گیا تھا۔ اور اس کی ترغیب پر ہی پہلی بار میں عورت کے جسم کی لذت سے آشنا ہوا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ چند دنوں میں ہی میں ان گلیوں کا ایسا شناور ہو گیا کہ دوسروں کی رہنمائی کرنے لگا۔
کالج سے فارغ ہونے کے بعد روشن علی کسی کاروبار میں لگ گیا۔ البتہ کبھی کسی بار یا ہوٹل میں، کبھی بچّو بھائی کی واڑی میں اس سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ اسی زمانے میں وہ ممبئی سے چن چولی منتقل ہو گیا۔ معلوم ہوا اس نے وہاں ایک ہوٹل اور بہت بڑا فارم ہاؤس بنوایا ہے۔ شروع شروع میں وہ مجھے کبھی کبھی فون کر لیا کرتا تھا۔ اس نے فون پر بتایا تھا کہ اب اس نے آوارہ گردی کرنا اور اِدھر اُدھر منہ مارنا ترک کر دیا ہے اور ایک شریف آدمی کی طرح صرف اپنی منکوحہ بیویوں پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہے۔ اور یہ کہ آج کل وہ کثرتِ ازواج کے مزے لوٹ رہا ہے۔ وہ اکثر مجھے چن چولی آنے کی دعوت دیتا اور میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس کی دعوت ٹالتا رہتا۔ اس روز تقریباً سات آٹھ برس بعد اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے تو میں اسے پہچان ہی نہیں سکا۔ اس کا پورا حلیہ ہی بدل گیا تھا۔ پہلے وہ کلین شیو رہتا تھا اور اس کے بال سلیقے سے جمے رہتے اور اکثر وہ رنگین شرٹ اور جینس وغیرہ پہنے رہتا۔ مگر اب اس کے چہرے پر خشخشی داڑھی اگ آئی تھی۔ سر کے بال آدھے سے زیادہ اڑ چکے تھے اور پیشانی تالو سے جا ملی تھی۔ آنکھوں پر سنہری فریم کی عینک تھی اور بدن پر کریم کلر کا قیمتی سفاری تھا۔ قدرے موٹا ہو گیا تھا۔ کل ملا کر اس کی شخصیت خاصی رعب دار لگ رہی تھی۔ مجھے اپنی جانب اجنبی نظروں سے گھورتے دیکھ کر اس نے ڈپٹ کر کہا۔
’’یار! کیا گھور رہے ہو۔ پہچان نہیں پا رہے ہو کیا؟ ارے گھامڑ میں روشن علی ہوں روشن علی۔۔۔‘‘
میں نے تپاک سے اسے گلے لگایا اور خوش دلی سے بولا۔
’’یار! اچانک اس طرح، بغیر اطلاع دیے، بغیر فون کیے۔ اور پھر تمہارا حلیہ، پہلے دیو آنند لگتے تھے اب ایک دم سے انوپم کھیر لگ رہے ہو۔‘‘
میں نے اس کے نیم گنجے سر کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا۔
’’میرا تو حلیہ بدلا ہے۔ مگر تم نے اپنا یہ کیا حال بنا رکھّا ہے۔ کچھ لیتے کیوں نہیں؟‘‘
اس کے اس اشتہاری ریمارک پر ہم دونوں ہنس دیے۔ میں نے ہنستے ہنستے ہی کہا۔
’’مجھے کیا ہوا ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’کیا خاک ٹھیک ہو۔ یہ اترا ہوا چہرہ، آنکھوں کے گرد حلقے، بڑھا ہوا شیو، پورے دیو داس لگ رہے ہو دیو داس۔۔۔ دلیپ کمار والے دیو داس۔‘‘
فلموں سے مثالیں تراشنا ہمارا پرانا مشغلہ تھا۔
’’چھٹی کا دن ہے، آرام کر رہا ہوں یار۔‘‘
’’بکو مت، مجھے آدم گنجڑی نے فون پر سب بتا دیا ہے۔‘‘
آدم پھُکنیا ہمارا کالج کا ساتھ تھا۔ چرس کی سگریٹیں پھونکنا اور کوٹھوں کے چکر لگانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ گھر جائیداد ورثے میں ملی تھی اس لیے روزی روٹی کی فکر نہیں تھی اسے۔
’’ایک نتاشیا کے چلے جانے سے اتنا غم کھانے کی کیا ضرورت۔ اس دنیا میں عورتوں کا کال ہے کیا؟‘‘
نِتاشیا کا ذکر آتے ہی میں ایک دم چپ ہو گیا۔
’’دیکھا دکھتی رگ پر انگلی رکھتے ہی کیسا چہرہ اتر گیا۔‘‘
’’ایسا کچھ نہیں ہے۔ تم تو جانتے ہو ادھر کی ادھر کرنا آدم پھکنیا کی پرانی عادت ہے۔‘‘
’’آدم کو مارو گولی، مگر تمہاری یہ اڑی اڑی رنگت بتا رہی ہے کہ تم اندر سے دکھی ہو۔ چلو میرے ساتھ، چن چولی کی کھلی ہوا میں چند روز رہو گے تو سب بھول جاؤ گے۔‘‘
روشن علی سے ہمدردی کے بول سن کر میرے اندر کچھ پگھلنے سا لگا۔ مگر میں نے چہرے پر کوئی بھاؤ آنے نہیں دیا۔ پھیکی ہنسی ہنس کر بولا۔
’’آؤں گا کسی روز۔ مگر ابھی نہیں۔ دفتر میں آج کل بہت کام ہے۔‘‘
روشن علی نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور ایک آنکھ دبا کر بولا۔
’’نتاشیا کو بھی بھول جاؤ گے ایسے ایسے نظارے ہیں وہاں۔‘‘
میں نے بے دلی سے کہا۔
’’نہیں یار، پتا نہیں کیوں اب اس چوہا بلّی کے کھیل سے جی اوب گیا ہے۔‘‘
’’تو پھر میری طرح کوئی پرمننٹ بندوبست کر لو۔‘‘
’’او نو۔۔۔ شادی تو خیر کرنا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا کرو گے۔۔۔ سنیاس لے لو گے؟‘‘
’’نہیں ایسی بات نہیں۔ بس ایک فیز آیا ہے۔ اس سے نکل جاؤں تو سوچوں گا۔‘‘
’’میری ایک بات سنو! یہ فیز ایک عورت کی وجہ سے آیا ہے۔ تمہیں ایک عورت ہی اس فیز سے نکال سکتی ہے۔ اگر تم کہو تو اس کا انتظام ہو سکتا ہے۔‘‘
’’مگر میں نے کہا نا۔۔۔ میں شادی۔۔۔‘‘
’’شادی کی بات نہیں عورت کی بات ہے۔ صرف عورت، جو بیوی کی طرح تمہارے ساتھ رہے مگر بیوی ہونے کا دعوی نہ کرے۔ بولو یس۔۔۔؟‘‘
’’ایسی عورت کہاں ملے گی یار۔۔۔!؟؟
میں نے بے کسی کی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔
’’ملے گی۔ تم ہامی بھرو، کل ہی ایسی عورت کا انتظام ہو جائے گا۔‘‘
میں اچانک سنجیدہ ہو گیا۔
’’یار روشن! در اصل میں ایسی ہی عورت چاہتا ہوں۔ معشوقاؤں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تھک چکا ہوں میں۔ مجھے اب واقعی ایسی ہی عورت چاہیے جو دن میں ایک نرس کی طرح میرا خیال رکھے اور رات کو بسترپر آکٹوپس کی طرح مجھ سے چمٹی رہے۔‘‘
’’مگر تم پر حق نہ جتائے۔‘‘ روشن علی نے درمیان میں میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ہاں مجھ پر حق نہ جتائے۔ اس کے باوجود میں اسے وہ سب دوں گا جو اس کا حق ہے۔‘‘میں نے آگے بات مکمل کر دی۔
’’میں سمجھ گیا۔ تمہیں مل جائے گی ایسی عورت۔۔۔ مگر اس کے لیے کچھ دام خرچ کرنے ہوں گے۔‘‘
’’دام۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’کتنے۔۔۔؟‘‘
’’وہ تو عورت پر منحصر ہے۔‘‘
’’کوئی جھمیلہ تو نہیں؟‘‘
’’کیسا جھمیلہ۔ یہ دنیا ایک بازار ہے، یہاں ہر چیز بِکاؤ ہے۔‘‘
’’کب تک مل جائے گی؟‘‘
’’کچھ دن صبر کرو۔ میں تمہیں فون کر دوں گا۔‘‘
روشن علی مجھے صبر کی تلقین کر کے چلا گیا۔ کیا واقعی اسے ایسی عورت مل جائے گی جیسی میں چاہتا ہوں۔ ایک نسائی پیکر تصور میں ابھرنے لگا جس کے نقش خاصے دھندلے تھے۔
دوسرے دن آدم گنجڑی مل گیا۔ میں نے پہلے تو اسے خوب پھٹکار سنائی کہ روشن علی کو میرے اور نتاشیا کے بارے میں بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے حسبِ معمول میری بات کو چرس کے دھوئیں میں اڑا دیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ روشن علی کل آیا تھا اور اس نے مجھ سے کوئی عورت دلانے کا وعدہ کیا ہے تو آدم گنجڑی اچھل پڑا۔ بولا۔
’’اگر اس نے وعدہ کیا ہے تو ضرور پورا کرے گا۔ تم نہیں جانتے بہت پہنچا ہوا شخص ہے وہ۔ میں گیا تھا نا دو سال پہلے اس کے فارم ہاؤس پر۔ کیا ٹھاٹ ہیں یار اس کے۔ اور عورت! عورت تو وہاں گاجر مولی سے زیادہ سستی ہے۔ دیکھنا، وہ اپنا وعدہ پورا کر کے رہے گا۔‘‘
میں کچھ نہیں بولا۔ کچھ دن اور گزر گئے۔ روشن علی نے جانے کے بعد کوئی فون نہیں کیا۔ لیکن جانے کیوں مجھے بھی یقین تھا کہ اسے ایسی عورت ضرور مل جائے گی۔ اور جب بھی ایسا خیال آتا دل کے کسی انجان گوشے میں ایک مہتابی سی چھوٹتی۔
نتاشیا کی یاد اب کافی دھندلا گئی تھی۔ اس کی شادی ہو چکی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ چلی گئی تھی۔ نتاشیا کے جانے کے بعد دو تین سابقہ محبوباؤں نے اپنی خدمات پیش کیں مگر میں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ سچ پوچھئے تو ایک ہی طرز کا کھانا کھاتے اکتا گیا تھا میں۔ سوچا روشن علی کو فون کروں۔ مگر پھر خیال آیا کہ خواہ مخواہ اتاولے پن کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں۔ اگر بندوبست نہ ہوا ہو تو اسے بھی شرمندگی ہو گی۔ امید و بیم کی کشمکش میں ڈیڑھ مہینے گزر گئے۔ روشن علی کے وعدے پر سے یقین اٹھنے لگا تھا کہ اچانک کل صبح روشن علی کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ حسبِ منشا عورت مل گئی ہے اور وہ اس عورت کے ساتھ ممبئی گوا روڈ پر اپنے فارم ہاؤس میں میرا انتظار کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ایک لاکھ کا ایک چیک بھی لیتے آنا۔ مگر چیک پر کسی کا نام مت لکھنا۔ میں نے فوراً تیاری شروع کر دی۔ ایک لاکھ کا بیرر چیک لکھا۔ بینک سے کچھ رقم نکالی۔ دفتر میں چھٹی کے لیے فون کر دیا۔ اور آج صبح گاڑی لے کر روشن علی کے بتائے ہوئے پتے پر روانہ ہو گیا۔
روشن علی نے کہا تھا۔ کار سے تقریباً چار گھنٹے میں چن چولی پہنچ جاؤ گے۔ چن چولی پہنچ کر کسی سے بھی ’آرام گھر فارم ہاؤس‘ پوچھ لینا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ بارہ بج رہے تھے۔ میں صبح نو بجے چلا تھا۔ تین گھنٹے ہو گئے تھے۔ ایک آدھ گھنٹے میں چن چولی پہنچ جاؤں گا۔
ایک بار پھر ایک انجانا، ان دیکھا نسائی پیکر تصور میں ابھرنے لگا۔ نگاہوں میں ایک قوسِ قزح سی کھنچنے لگی، کبھی تصویر اس قدر دھندلی کہ محض ایک پرکشش ہیولے کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ کبھی اس قدر واضح کہ ہر نقش دامنِ دل کو کھینچتا سا محسوس ہوتا۔ لہو میں جل ترنگ سے بجنے لگے۔ اسٹیئرنگ پر انگلیاں تھرکنے لگیں، ہونٹ خود بخود سکڑنے لگے اور منہ سے سیٹی کی آواز کسی فلمی دھن میں ڈھلتی چلی گئی۔ ویسے تو میں ہمیشہ خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اس وقت میری خوشی عروج پر تھی۔ میری کار تو سڑک پر دوڑ رہی تھی مگر میری روح آسمانوں میں پرواز کر رہی تھی۔ میں نے مخمور نگاہوں سے اپنے اطراف نگاہ ڈالی۔ موسم بھی میری طرح مست خیز ہو گیا تھا۔ آسمان پر بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دھیرے دھیرے یوں تیر رہے تھے جیسے بے شمار جوڑے بانہوں میں بانہیں ڈالے فلور ڈانس میں مصروف ہوں۔ ہوا کبھی گالوں کو تھپتھپاتی، بالوں سے اٹھکیلیاں کرتی گزر رہی تھی۔ سڑک کی دونوں جانب درختوں کا سلسلہ سا چلا گیا تھا جن کی پھنگیاں آپس میں سر جوڑے سرگوشیاں سی کرتی معلوم ہو رہی تھیں۔ درختوں سے پرے تا حد نظر دھان کے کھیت ہی کھیت دکھائی دے رہے تھے۔ فصل کھڑی ہو رہی تھی مگر پودوں میں ابھی بالیاں نہیں آئی تھیں۔ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پودے لہلہاتے ہوئے ایک طرف کو یوں جھک جاتے جیسے کسی کی نادیدہ انگلیاں ان میں کنگھی کر رہی ہوں۔ اگر کوئی اور وقت ہوتا تو میں کچھ دیر رک کر اس دلکش نظارے سے ضرور لطف اندوز ہوتا۔ مگر اس وقت جلد از جلد ’آرام گھر‘ پہنچنے کا خیال ہر منظر سے زیادہ دلکش تھا۔
چن چولی پہنچ کر کسی سے ’آرام گھر‘ کا پتا پوچھنے کی نوبت نہیں آئی۔ دائیں جانب لبِ سڑک ہی ایک بڑا سا بورڈ لگا تھا جس پر ’آرام گھر‘ لکھا تھا اور تیر کا نشان بنا تھا۔ میں نے بغیر کسی سے پوچھے دائیں جانب گاڑی موڑ دی۔ یہ ایک نیم پختہ پتلی سی سڑک تھی۔ جس کی دونوں جانب سرکنڈوں اور کروندوں کی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ کہیں کہیں جامن اور کاجو کے درخت بھی نظر آ جاتے تھے۔ سڑک ہر دو چار فرلانگ کے بعد ایک طرف کو مڑ جاتی تھی۔ یعنی اگر کوئی ہیلی کوپٹر سے سڑک کا نظارہ کرتا تو اسے یوں لگتا جیسے ایک بڑا لمبا سانپ جھاڑیوں کے درمیان سے رینگتا جا رہا ہے، اور میری سرخ رنگ کی ٹویوٹا۔ وہ تو بالکل ہی کسی بیر بہوٹی سے مشابہ نظر آتی۔ روشن علی کے مطابق واقعی پندرہ بیس منٹ کے بعد ہی میری کار ’آرام گھر‘ کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ ہارن کی آواز سن کر چوکیدار نے دروازہ کھولا اور سلام کر کے ایک طرف کو ہٹ گیا۔ میں کار اندر لیتا چلا گیا۔ سامنے بنگلے کا پورچ نظر آ رہا تھا۔ کار جیسے ہی پورچ میں داخل ہوئی میں نے دیکھا بنگلے کے دروازے پر روشن علی کھڑا مسکرا رہا تھا۔ میں کار کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔ روشن علی نے آگے بڑھ کر گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ ’’خوش آمدید۔۔۔ راستے میں کوئی دقّت تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’بالکل بھی نہیں۔۔۔‘‘
’’چلو منہ ہاتھ دھولو۔۔۔ کھانا لگ گیا ہے۔‘‘
کھانے کی میز پر صرف ہم دونوں ہی تھے۔ میں نے دزدیدہ نگاہوں سے اِدھر ادھر دیکھا، مگر مجھے وہاں سوائے اس نیپالی بٹلر کے کوئی نظر نہیں آیا جو دوڑ دوڑ کر ہمیں گرم گرم پھلکے کھلا رہا تھا۔ کھانے کے دوران ہم دونوں زیادہ تر کچھ موسم کی اور کچھ موجودہ سیاست کی باتیں کرتے رہے۔ کھانے کے بعد روشن علی مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر یہ کہتا ہوا اندر چلا گیا کہ ’ ’تم تھوڑی دیر آرام کر لو۔ میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔‘‘
میں ڈرائنگ روم میں ڈنلپ کے گداز صوفے پر پسر کر بیٹھ گیا۔ چار گھنٹے کی ڈرائیونگ سے قدرے تھکن محسوس ہو رہی تھی تس پر کھانا بھی کچھ زیادہ ہو گیا تھا۔ میری آنکھیں خود بخود مندنے لگیں۔ پھر پتا نہیں مجھے کب جھپکی آ گئی۔
نیند میں بھی عجب دھکڑ پکڑ چلتی رہی۔ کبھی گھنگھروؤں کی آواز آتی اور بیس سال پہلے کی وحیدہ رحمان چھم چھم بھاگتی ہوئی دکھائی دیتی۔ کبھی کسی گانے کی آواز آتی اور محل کی مدھو بالا جھولے پر جھولتی نظر آتی۔ تبھی کسی آہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ سامنے روشن علی کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے تم تھک گئے ہو۔ آج یہیں میرے گیسٹ روم میں رک جاؤ، کل صبح چلے جانا۔‘‘
میں نے کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا۔ ساڑھے تین بج رہے تھے۔
’’نہیں بھائی! رات میں رکنے کا سوال ہی نہیں۔ کل ایک ضروری میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے۔ مجھے تم چار بجے تک رخصت کر دو تو بہتر ہے۔‘‘
پھر میں نے قدرے جھجھکتے ہوئے کہا۔
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ تمہاری مطلوبہ رقم کا چیک لے آیا ہوں۔‘‘
’’ارے چیک کی کوئی بات نہیں۔ وہ تو مل ہی جائے گا۔ پہلے مال تو دیکھ لو۔‘‘
روشن علی نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔
اگر چہ میں عورت کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں میں سے نہیں ہوں، تاہم جانے کیوں اس وقت روشن علی کا عورت کو ’مال‘ کہنا اچھا نہیں لگا۔ شاید اس لیے بھی کہ وہ جو کوئی بھی ہو عنقریب میری ملکیت میں آنے والی تھی۔ میرے مال کو کوئی اور مال کہے میں یہ کیسے گوارا کر سکتا تھا۔ اتنے میں اندر کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایک عورت دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور سیاہ دوپٹا جس پر سنہری رنگ کی گوٹ تھی اس کے گلے میں پڑا تھا۔ اس کا رنگ کھلتا ہوا تھا جو سیاہ رنگ کے لباس میں مزید کھل اٹھا تھا۔ عمر پچیس تیس کے آس پاس ہو گی مگر بدن کا کساؤ لباس کی بندشوں سے بغاوت کرتا نظر آ رہا تھا۔ چہرے کے نقوش خاصے دلآویز تھے۔ اس کا گلا اور ہاتھ زیوروں سے عاری تھے البتہ کانوں میں دو بندے لٹک رہے تھے جن کے موتی دو جگنوؤں کی مانند جل بجھ رہے تھے۔ وہ ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی پلکیں کھلی ہوئی تھیں مگر آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ اندر رو رہی تھی یا سورہی تھی۔
میں نے روشن علی کی طرف دیکھا، وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے میرے تاثرات جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا۔
’’کیسی ہے؟‘‘ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ میں نے بھی منہ سے کچھ کہنے کی بجائے آنکھیں جھپکا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ عورت چند لمحے رکی رہی پھر روشن علی کا اشارہ پا کر الٹے قدموں لوٹ گئی۔
میں نے جلدی سے اپنا بریف کیس کھولا اور ایک لاکھ روپئے کا چیک روشن علی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔
’’تم نے نام لکھنے کے لیے منع کیا تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ اس نے چیک لیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ایک لاکھ روپے ایک طرح سے بانو کا مہر بھی ہے اور کنیا دان بھی۔ یہ رقم اس کے نام پر بینک میں جمع کر دی جائے گی۔‘‘
’’کون بانو؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’وہی جو ابھی آئی تھی۔‘‘
’’اوہو! مگر یہ بانو ہے کون؟‘‘
’’تمہیں آم کھانے سے مطلب، پیڑ گننے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’پھر بھی جس کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہنا ہو، اس کے بارے میں کچھ تو جانکاری چاہیے۔‘‘
’’ہُم۔۔۔‘‘ روشن علی نے ایک لمبی ہنکاری بھری۔ پھر بولا۔
’’بانو۔۔۔ میری بیوی تھی۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ مجھے جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
’’تھی۔۔۔ اب نہیں ہے۔ میں نے اسے طلاق دے دی ہے۔ تم جب تک اسے رکھنا چاہو رکھو۔ جب چھوڑ دو گے میں دوبارہ اس سے رجوع کر لوں گا۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔‘‘
روشن علی اتنے اطمینان سے یہ سب کہہ رہا تھا جیسے وہ اپنی بیوی کا نہیں بلکہ اپنی کسی سیکنڈ ہینڈ کار کا سودا کر رہا ہو۔ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
’’مگر تم نے ایسا کیوں کیا روشن علی! کوئی دوسری عورت بھی تو مل سکتی ہے۔‘‘
’’بانو بھی تو عورت ہی ہے۔‘‘
’’مگر مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے۔‘‘
’’کیا ٹھیک نہیں لگ رہا ہے۔ میرا بانو کو طلاق دینا یا اسے تمہارے حوالے کرنا۔‘‘
’’یار روشن علی، سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔ وہ تمہاری بیوی ہے۔‘‘
’’ہے نہیں تھی۔۔۔ چاہو تو تم بھی اسے بیوی بنا کر رکھ سکتے ہو۔‘‘
وہ ایک لمحے کو رکا پھر جلدی سے بولا۔ ’’خیر یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے کہ تم اسے کس طرح رکھنا چاہتے ہو۔ میرا اس میں دخل دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘
روشن علی کی باتیں سن کر مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ روشن علی سے کیا کہوں، میں عجیب مخمصے میں تھا۔ میری زندگی میں کئی عورتیں آئیں اور گئیں مگر اس طرح کی سودے بازی سے کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ روشن علی اس قسم کا لین دین بھی کر سکتا ہے۔ جی میں آیا یکلخت انکار کر دوں مگر دوسرے ہی لمحے بانو کا پرکشش سراپا اور خوبصورت چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ مجھے خاموش دیکھ کر روشن علی بولا۔
’’اگر تمہیں میری باتوں سے اتفاق نہیں ہے تو تم اپنا چیک واپس لے سکتے ہو۔‘‘
’’نہ۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’پھر کیا بات ہے؟‘‘
’’تم نے مجھے کنفیوزڈ کر دیا ہے روشن علی! میں فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں۔‘‘
’’میں نے تمہارے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے بانو کا انتخاب کیا تھا۔ تم جیسی عورت چاہتے تھے، مجھے یقین ہے بانو اس پر کھری اترے گی۔ ویسے آگے تمہاری مرضی۔۔۔‘‘ روشن علی اٹھ کر اندر جانے لگا۔ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے۔
میں لپک کر اس کا راستہ روکتا ہوا بولا۔ ’’تم تو ناراض ہو گئے۔‘‘
’’پھر کیا کروں۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اور تم خواہ مخواہ بحث کیے جا رہے ہو۔‘‘
’’اچھا بابا۔۔۔ مجھے منظور ہے بس۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے اس کے دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔
’’تم پر کوئی جبر نہیں۔۔۔‘‘ اس کی خفگی برقرار تھی۔
’’کہہ دیا نا۔۔۔ مجھے منظور ہے، آئی ایم سوری۔۔۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ ’’تم رکو، میں بانو کو لے کر آتا ہوں۔‘‘
روشن علی اندر چلا گیا۔
میں نے اس سے معافی تو مانگ لی تھی، مگر میرے اندر اب بھی ایک اتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔ بچپن میں تتلیاں پکڑ کر ماچس کی ڈبیا میں بند کرنے کا شوق تھا مجھے۔ جب کوئی تتلی ڈبیا میں گھٹ کر مر جاتی تو میں بہت دکھی ہوتا اور عہد کرتا تھا کہ اب کوئی تتلی نہیں پکڑوں گا۔ مگر پھر کہیں سے کوئی رنگین تتلی اڑتی ہوئی آتی اور میں اس کے پیچھے بھاگنے لگتا۔ اس وقت بھی کچھ ویسی ہی عجیب و غریب کیفیت سے دوچار تھا میں۔۔۔ میں اسی ادھیڑ بن میں بے چینی سے ٹہلنے لگا۔ اچانک ایک کوندا سا لپکا۔ مجھے روشن علی کے الفاظ یاد آئے۔ ’ ’تم جب تک اسے رکھنا چاہو رکھو۔ جب چھوڑ دو گے میں دوبارہ اس سے رجوع کر لوں گا۔‘‘
دھت تیری کی۔۔۔ اتنی صاف بات میری سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی تھی۔ یک بیک میرا سارا کنفیوژن ختم ہو گیا اور مجھے ایسی راحت محسوس ہوئی جیسے سخت حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا در آیا ہو۔
اتنے میں روشن علی باہر نکلا۔ اس کے پیچھے بانو بھی تھی۔ اس کے کاندھے سے ایک چھوٹا سا شولڈر بیگ لٹک رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں ایک پنجرا جھول رہا تھا۔ پنجرے میں ایک پہاڑی مینا اضطراب کے عالم میں گول گول گھوم رہی تھی۔ دونوں میرے قریب آئے۔ میں مینا کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ روشن علی بولا۔
’’بانو کو بہت عزیز ہے۔ اس کے ساتھ ہی رہے گی۔ کوئی حرج تو نہیں۔؟‘‘
’’نہیں، اس میں کیا حرج ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا اور بانو کی طرف دیکھا۔ وہ مینا کی طرف متوجہ تھی۔
ہم تینوں باہر نکلے۔ روشن علی میرے قریب آیا اور سرگوشی کے سے انداز میں بولا۔ ’’اطمینان رکھو، تمہیں مایوسی نہیں ہو گی۔‘‘
پھر اس نے مڑ کر بانو کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں سمجھا روشن علی اس آخری لمحے میں شاید کچھ جذباتی ہو جائے گا۔ آخر بانو اس کی بیوی تھی۔ مگر اس کے چہرے پر کوئی ملال نہیں تھا۔ بانو نے ایک بار گردن اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ پھر پرس سے کالا چشمہ نکال کر آنکھوں پر چڑھا لیا۔ میں سمجھا شاید وہ اپنے آنسو چھپانا چاہتی ہے۔ مگر اس کا چہرہ بھی جذبات سے یکسر عاری تھا۔ میں حیران تھا کہ اس کا شوہر اسے دوسرے مرد کے حوالے کر رہا تھا۔ اس کا سودا ہو رہا تھا، وہ بیچی جا رہی تھی، مگر وہ بالکل لاتعلق دکھائی دے رہی تھی۔ جیسے یہ ساری کار روائی کسی اور کے ساتھ ہو رہی ہو۔
میں دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ہاتھ بڑھا کر کار کا اگلا دروازہ کھولا۔ بانو چپ چاپ میری بغل میں آ کر بیٹھ گئی۔ مینا کا پنجرہ اپنی گود میں رکھ لیا۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہاتھ اٹھا کر روشن علی کو ’الوداع‘ کہا۔ روشن علی بھی ہاتھ ہلا رہا تھا۔ مگر بانو نے ایک بار بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ پنجرے پر منہ رکھے مینا کو پچکار رہی تھی۔ میاں بیوی کا یہ رشتہ میری سمجھ سے بالا تر تھا۔
چنچولی تک نیم پختہ سڑک کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ممبئی گوا روڈ پر آ گئے۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ پانچ بج رہے تھے۔ اگر کہیں رکے بغیر سفر جاری رکھا جائے تو نو بجے تک ممبئی پہنچا جا سکتا تھا۔ میں نے کار کی رفتار بڑھا دی اور کنکھیوں سے بانو کی طرف دیکھا۔ وہ مینا کے پنجرے پر جھکی ہوئی تھی اور مینا پنجرے میں لٹکتے جھولے پر الٹی لٹکی جھول رہی تھی۔ اس نے دوپٹے کے نصف حصے سے اپنے کان اور سر کو لپیٹ لیا تھا۔ باقی نصف حصہ اس کی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ ڈھلتے سورج کی روشنی میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا اور کانوں میں پڑے بندے دو چنگاریوں کی مانند سلگ رہے تھے۔ آنکھوں پر سیاہ چشمہ ہنوز لگا ہوا تھا۔
میں نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کہا۔
’’بڑا پیارا پرندہ ہے۔ کہاں سے خریدا تھا؟‘‘
اس نے گردن ترچھی کر کے میری جانب دیکھا۔ اور پھر دوبارہ پنجرے پر جھک گئی۔ مجھے اس کی خاموشی گراں گزرنے لگی تھی۔ میں نے قدرے لگاوٹ کے انداز میں کہا۔
’’کیا تم میرا نام بھی نہیں پوچھو گی بانو!‘‘
مگر اس کی خاموشی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ اسی طرح پنجرے پر جھکی رہی۔ مجھے اپنی ہتک سی محسوس ہونے لگی۔ میں نے طیش میں آ کر کار کی رفتار مزید بڑھا دی۔ اب کار ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔ سامنے سڑک پر ایک گڈریا مویشیوں کا ریوڑ ہانکے لیے جا رہا تھا۔ راستہ تنگ تھا اس کے باوجود میں رفتار کم کیے بغیر کاوا کاٹ کر آگے نکل گیا۔ بانو پنجرے سمیت میری گود میں آ گری۔ مینا پنجرے میں بری طرح پھڑپھڑائی اور شور مچانے لگی۔ میں نے رفتار کم نہیں کی۔ بانو پھر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ بولی اب بھی نہیں۔ البتہ آنکھوں سے چشمہ اتار لیا۔ میں نے جھنجھلا کر زور سے بریک لگائے۔ گاڑی چرچراتی ہوئی سڑک کے کنارے رک گئی۔ بانو ایک ہاتھ سے پنجرے کو سینے سے لگائے، دوسرے سے ہینڈل تھامے بیٹھی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا۔ ’ ’تم بولتی کیوں نہیں؟ کیا تم گونگی ہو؟‘‘ اس نے زخمی نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ مینا مسلسل شور مچا رہی تھی۔ وہ کچھ دیر اسے پچکارتی رہی۔ پھر اچانک پنجرے کا دروازہ کھول کر مینا کو باہر نکالا۔ اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے چہرے کے قریب لائی، اسے چوما اور دوسرے ہی لمحے کھڑکی سے باہر ہوا میں اچھال دیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’’یہ کیا کیا؟‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور دور فضا میں اڑتی مینا کو دیکھتی رہی جواب دھیرے دھیرے ایک متحرک نقطہ بنتی جا رہی تھی۔
٭٭٭
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...