وہ اپنے نشیمن رئیل اسٹیٹ ایجنسی کے آفس میں بیٹھا کسی کسٹمر کی فائل الٹ پلٹ رہا تھا، اس کا نوکر بابو اسٹول پر بیٹھا کسی اخبار میں چھپا معمہ حل کرنے میں منہمک تھا۔ اتنے میں ایک سیاہ رنگ کی کوالیس آفس کے سامنے آ کر رکی۔ کار سے تین لوگ اترے۔ ان کا لباس، حلیہ بظاہر عام لوگوں جیسا ہی تھا مگر ان کے چہروں کا سپاٹ پن جس سے قدرے کرختگی مترشح تھی ان کے سخت گیر رویے کی غمازی کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا، دوسرے کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور تیسرے کے بائیں گال پر زخم کا گہرا نشان تھا۔ انہوں نے گردن اٹھا کر آفس کے سائن بورڈ پر نگاہ ڈالی۔ مونچھوں والے نے چشمے والے کی طرف دیکھا، چشمے والے نے گردن کو خفیف سی جنبش دی اور دونوں آفس میں داخل ہو گئے۔ وہ جس کے بائیں گال پر زخم کا گہرا نشان تھا، پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے دائیں بائیں ایک اچٹتی مگر چوکنّی نگاہ ڈالتا ہوا باہر ہی رک گیا۔ دونوں کے آفس میں داخل ہوتے ہی بابو ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے فائل پر سے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ دونوں اس کی میز کے سامنے کھڑے اسے گھورنے لگے۔
’’یس۔۔۔؟‘‘ اس نے فائل بند کر دی اور ان کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
’’محمد علی کون ہے؟‘‘ سیاہ چشمے والے نے استفسار کیا۔
’’میں ہوں۔۔۔ مگر آپ لوگ؟‘‘
’’یہ آفس تمہارا ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔ مگر آپ؟‘‘
چشمے والے نے سرد لہجے میں کہا۔ ’’پولس۔‘‘
پولس کا نام سنتے ہی محمد علی جھٹکے سے کھڑا ہو گیا۔
’’بیٹھیے۔‘‘ اس نے سامنے پڑی خالی کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔‘‘ سیاہ چشمے والا اسی خشک لہجے میں بولا۔
’’کہاں؟‘‘
’’پولس چوکی۔۔۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’چلو۔۔۔‘‘ مونچھوں والا میز کے پیچھے پہنچ کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
’’مگر کیوں؟‘‘ اس کے لہجے میں ہلکا سا احتجاج تھا۔
’’انکوائری۔۔۔‘‘
’’کس سلسلے میں؟‘‘
’’بم بلاسٹ۔۔۔‘‘
’’اوہو،۔۔۔‘‘ اس نے پر تشویش لہجے میں ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’پوچھئے کیا پوچھنا ہے؟‘‘
’’یہاں نہیں۔۔۔ پولس چوکی میں۔‘‘
’’مگر یہ میرے دھندے کا ٹائم ہے۔۔۔ میں شام کو پولس چوکی آ جاؤں گا۔‘‘
’’چلو، تھوڑی دیر میں واپس آ جانا۔۔۔‘‘ چشمے والا بولا۔
’’مگر سر! اس وقت۔۔۔‘‘ اس نے پھر کچھ کہنا چاہا۔ تبھی مونچھوں والاس کے کاندھے پر ہلکا سا دباؤ ڈالتا ہوا قدرے سختی سے بولا۔ ’’چلو۔۔۔‘‘
محمد علی نے قدرے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’چلتا ہوں، آپ کاندھے پر سے ہاتھ ہٹائیے۔‘‘
مونچھوں والے نے چشمے والے کی طرف دیکھا۔ چشمے والے نے لمحے بھر کے توقف کے بعد گردن کو ہلکی سی جنبش دی۔ مونچھوں والے نے اس کے کاندھے پر سے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا بابو کی طرف مڑا جو پریشان سا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔
’’اگر مسٹر عثمانی آئیں تو انہیں سلور پارک کا فلیٹ دکھا دینا۔‘‘
بابو نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ منہ سے کچھ بولا نہیں۔
وہ ان کے ساتھ آفس سے باہر آ گیا۔ اس نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کی دکان والے اپنی اپنی دکانوں کے دروازوں میں کھڑے انہیں تجسس آمیز دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ شاہین بک ڈپو والے سید صاحب کی آنکھوں میں تجسس کی پرت کے نیچے ہلکی سی خوف کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی۔
وہ کوالیس میں آ کر بیٹھ گیا۔ چشمے والا سامنے ڈرائیور کی بغل میں بیٹھ گیا۔ مونچھوں والا اور وہ جس کے بائیں گال پر زخم کا گہرا نشان تھا دونوں پچھلی سیٹ پر اس کے دائیں بائیں اس سے سٹ کر بیٹھ گئے۔ ان کے اس طرح چپک کر بیٹھنے سے ان کے پسینے کی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ اسے وحشت سی ہونے لگی۔ وہ ان سے ذرا سرک کر بیٹھنے کے لیے کہنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں ہوئی۔ کار میں بیٹھنے تک اس کا ذہن کسی بھی وسوسے سے پاک تھا مگر اب، اس بند کوالیس میں ان دو پولس والوں کے درمیان یوں سکڑ سمٹ کر بیٹھنے کے بعد اس کے ذہن میں ایک موہوم سا اندیشہ کسی سنپولے کی طرح رینگنے لگا۔ کوالیس پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ اس نے دائیں بائیں چور نگاہوں سے دیکھا۔ مونچھوں والا اور گال پر زخم کے نشان والا دونوں سامنے نظریں جمائے ساکت و صامت بیٹھے تھے۔ اتنے میں اس کا موبائل بجا۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا مگر اس سے پہلے کہ وہ موبائل پر بات کرتا، سامنے کی سیٹ پر بیٹھے چشمے والے نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’ ’نہیں۔ تم فی الحال موبائل پر بات نہیں کر سکتے۔‘‘
چشمے والے کا جملہ پورا ہونے سے پہلے اس کے دائیں بیٹھے مونچھوں والے نے اس کے ہاتھ سے موبائل اچک لیا۔
’’یہ غلط ہے۔۔۔‘‘ اس نے مزاحمت کی۔ جواب میں کسی نے کچھ نہیں کہا۔ تینوں خاموش تھے۔ مونچھوں والے نے اس کے موبائل کا سوئچ آف کر کے اپنے پاؤچ میں ڈال لیا۔ وہ پریشان ہو گیا۔ اسے صریحاً اپنی ہتک محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے دبے لہجے میں خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں ایک عزت دار شہری ہوں۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ آپ مجھے پوچھ تاچھ کے لیے لے جا رہے ہیں۔ میں بنا حیل حجت کے آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔ میں آپ کے ساتھ پورا تعاون کر رہا ہوں۔ پھر اس طرح میرا موبائل چھین لینے کا مطلب؟ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتے۔ مجھے اپنے گھر فون کرنا ہے۔ پتا نہیں چوکی میں کتنی دیر لگے۔ میرے گھر والے پریشان ہو سکتے ہیں۔۔۔‘‘
اس نے دیکھا وہ تینوں اسی طرح خاموش بیٹھے تھے۔ ان پر اس کی تقریر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ ان کے چہرے اس قدر سپاٹ تھے کہ لگتا تھا انہوں نے اس کی تقریر کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ اس نے اپنی آواز میں قدرے اعتماد پیدا کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
’’سن رہے ہیں آپ لوگ؟ میں اپنے گھر فون کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
گال پر زخم کے نشان والا غرّایا۔ ’’اے! ایک بار کہہ دیا نا تو ابھی فون نہیں کر سکتا۔‘‘
’’مگر کیوں؟ میں فون کیوں نہیں کر سکتا؟ اب مجھے شبہ ہونے لگا ہے کہ آپ لوگ پولس والے ہیں بھی یا نہیں۔۔۔؟‘‘
مونچھوں والے نے اسے گھور کر دیکھا اور نہایت حقارت سے بولا۔
’’تو۔۔۔ تُو اب ہم سے پولس والا ہونے کا ثبوت مانگے گا؟‘‘
’’کیا مجھے نہیں مانگنا چاہیے؟مجھے اس کا پورا حق ہے۔ بتائیے آپ لوگ کون ہیں؟ اور مجھے کہاں لے جا رہے ہیں؟‘‘
آگے بیٹھا چشمے والا دفعتاً مڑا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سخت لہجے میں بولا۔
’’اے چُپ! ایک دم چُپ!!!۔۔۔ اب چوکی آنے تک تو ایک لفظ نہیں بولے گا۔‘‘
وہ چپ ہو گیا۔ بلکہ اچھا خاصا سہم گیا۔ کیوں کہ اب وہ لوگ تو تکار پر اتر آئے تھے۔ خفا ہونے پر ہاتھ بھی چھوڑ سکتے تھے۔ اس نے اپنے حواس بحال رکھے اور چہرے سے کسی بھی قسم کا تاثر ظاہر ہونے نہیں دیا۔ اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ اب وہ چوکی آنے تک کچھ نہیں بولے گا۔ اس نے اندازہ لگا لیا کہ ان لوگوں کے منہ لگنا، ذلت اٹھانے کے سوا کچھ نہیں۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور سیٹ کی پشت سے ٹک کر آنکھیں بند کر لیں۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد کار رکی۔ وہ تینوں نیچے اترے۔ اسے بھی اترنے کو کہا گیا۔ وہ چپ چاپ نیچے اتر آیا۔ یہ ایک ویران جگہ تھی۔ ان کی کوالیس ایک پرانی دو منزلہ عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔ جس پر دیوناگری میں ’نیشنل ہائے وے پولس چوکی‘ لکھا تھا۔ پاس ہی ایک پولس وین اور ایک جیپ گاڑی کھڑی دکھائی دی، عمارت کی بائیں جانب قبرستان تھا اور دائیں طرف فاصلے فاصلے سے اکّا دُکّا عمارت نظر آ جاتی تھی۔ چاروں طرف ایک منحوس سنّاٹا سا پھیلا تھا۔ قریب و دور کوئی متنفس دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ پولس اسٹیشن تو اس کے گھر سے بہت دور ہے۔ اس کے محلے میں بھی تو ایک پولس اسٹیشن تھا پھر اسے اس دور افتادہ پولس اسٹیشن کیوں لایا گیا؟ اس کے ذہن میں اب سوالات ڈراؤنی شکلیں اختیار کرتے جا رہے تھے۔ پچھلے کچھ دنوں سے متواتر نشر ہونے والی ٹی۔ وی کی خبریں اور اخباروں کی سرخیاں اس کے ذہن میں ہیجان پیدا کرنے لگیں۔
عمارت میں داخل ہوتے ہیں جو منظر اسے نظر آیا وہ اس کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ یہ ایک ہال نما بڑا سا کمرہ تھا جس میں کم از کم پچیس تیس افراد جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، فرش پر اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے بدن قمیص کُرتے سے بے نیاز تھے اور ان کی ننگی پیٹھیں پسینے سے تر تھیں۔ ایک پولس انسپکٹر اپنے سامنے میز پر ایک رجسٹر کھولے ایک ایک کا نام اور پتا پوچھ پوچھ کر رجسٹر میں لکھتا جا رہا تھا۔ چشمے والا سامنے زینے کی طرف بڑھ گیا۔ مونچھوں والا اور گال پر زخم کے گہرے نشان والا اسے گھیرے میں لیے ہوئے اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ زینہ طے کرنے کے بعد وہ لوگ ایک گلیارے سے گزرنے لگے جس کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے تھے۔ کمروں کے دروازے باہر سے مقفل تھے مگر اس نے ان میں سے بیشتر کمروں میں کچھ آہٹیں محسوس کیں۔ شاید اندر کچھ لوگ بند تھے۔ کون تھے یہ لوگ؟ اس کے ذہن میں مختلف جرائم پیشہ افراد کی خوفناک شکلیں ابھرنے لگیں۔
گلیارے کے اختتام پر وہ لوگ ایک کمرے کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ کمرے کے دروازے میں تالا نہیں تھا۔ مونچھوں والے نے دروازہ کھولا اور وہ لوگ کمرے میں داخل ہو گئے۔ کسی نے ہاتھ بڑھا کر کوئی بٹن دبایا۔ ’چٹ‘ کی آواز آئی، کمرے کی چھت میں لٹکا ہوا ایک زرد بلب روشن ہو گیا۔ اس نے بلب کی ملگجی روشنی میں دیکھا کمرہ تقریباً خالی تھا۔ البتہ کمرے کے بیچ میں دو کرسیاں رکھی تھیں۔ کمرے کی میلی غلیظ دیواریں ایک دم ننگی تھیں، جن کا پلاسٹر کسی جذامی کے بدن کی طرح جگہ جگہ سے جھڑ گیا تھا۔ کسی دیوار میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ بلب کی دھندلی روشنی میں چھت سے لٹکتے ہوئے مکڑی کے جالے صاف نظر آ رہے تھے۔ چشمے والا اس کی طرف مڑا اور کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔ ’’بیٹھو!‘‘ وہ چپ چاپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ چشمے والا اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مونچھوں والا اور گال پر زخم کے نشان والا چشمے والے کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ چشمے والے نے اپنا چشمہ اتارا اور اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ کمرے میں پھیلی دھندلی روشنی میں بھی اس کی آنکھیں سانپ کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ اسے چند لمحوں تک گھورتا رہا پھر سانپ ہی کی طرح پھُپھکارا۔
’’ایک بات دھیان سے سنو! ہم لوگ کرائم برانچ والے ہیں۔ سچ اگلوانا ہمارا پیشہ ہے۔ اس کے لیے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس لیے اچھا یہی ہے کہ ہمارے سوالوں کے صحیح صحیح جواب دو۔‘‘
اسے گھبراہٹ سی ہونے لگی مگر اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’پوچھئے۔‘‘
’’کیا محمد علی تمہارا اصلی نام ہے؟‘‘
وہ اس عجیب سوال پر چونکا اور سوالیہ انداز میں بولا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘
’’تم سے جو پوچھا جائے اس کا جواب دو۔ فالتو بات نہیں۔‘‘ سانپ آنکھوں والا غرّایا۔
اسے ہر بار نئے سرے سے ذلت کا احساس دلایا جا رہا تھا۔ مگر ضبط کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بولا۔ ’’ہاں۔۔۔ یہ میرا اصلی نام ہے۔‘‘
’’تم کہیں کسی اور نام سے بھی کام کرتے ہو؟‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔۔۔‘‘ اس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔
’’ہاں یا نہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنے اضطراب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’تم گیارہ جولائی کی شام کو کہاں تھے؟‘‘
وہ سمجھ گیا کہ اسے گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’’میں اپنے آفس میں تھا۔‘‘
سانپ آنکھوں والا تھوڑی دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر گال پر زخم کے نشان والے کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا۔ ’’پاؤچ۔۔۔‘‘
گال پر زخم کے نشان والے نے اپنے ہاتھ میں دبا پاؤچ اسے دے دیا۔ اس نے پاؤچ سے ایک شناختی کارڈ نکالا اور اسے دکھاتا ہوا بولا۔
’’یہ آئیڈنٹیٹی کارڈ تمہارا ہے؟‘‘
اس نے کارڈ کو غور سے دیکھا۔ اس پر اسی کی تصویر چسپاں تھی۔ اس نے جلدی سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ یہ کارڈ میرا ہی ہے۔ مگر یہ آپ کے پاس۔۔۔‘‘
’’یہ ہمیں اسی جگہ ملا ہے جہاں بلاسٹ ہوا تھا۔‘‘
اسے لگا اس کا قد گھٹتے گھٹتے مٹھی بھر رہ گیا ہے اور وہ ایک جالی دار پنجرے میں کسی چوہے کی طرح پھنس گیا ہے۔ اور وہ تینوں جادو کے زور سے خونخوار بلّوں کی شکل میں اسے گھیرے کھڑے ہیں اور ان کی تیز غراہٹوں سے اس کے لہو کی گردش تھم گئی ہے۔ اس نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’اس روز دھماکے کی آواز سن کر سینکڑوں لوگ پٹریوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ میں بھی آفس بند کر کے پٹری کے پاس پہنچ گیا تھا۔‘‘
کہتے کہتے اس کی آنکھوں کے سامنے وہ بھیانک منظر گھوم گیا۔ چرمرائے ہوئے فولادی ڈبّے جن سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔ اِدھر ادھر بکھرے ہوئے خون میں لت پت انسانی اعضا اور لاشیں، زخمیوں کی کراہیں، لوگوں کی چیخ و پکار۔۔۔ اس نے ایک جھُرجھُری سی لی۔ سانپ آنکھوں والا کہہ رہا تھا۔ ’’آگے بولو۔۔۔؟‘‘
’’لوگ زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر ہاتھ گاڑیوں، آٹو رکشاؤں اور ٹیکسیوں میں ڈال ڈال کر ہسپتال کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ میں بھی اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور زخمیوں کو اٹھانے میں لوگوں کی مدد کرنے لگا۔ اسی افراتفری میں شاید میرا پاکٹ وہیں کہیں گر گیا ہو گا۔ جس میں میرا آئیڈنٹیٹی کارڈ بھی تھا۔‘‘
وہ دم لینے کو رُکا۔ اس نے اِدھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’پانی۔۔۔‘‘
اس کی درخواست پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ تینوں ایک ٹک اسے گھور رہے تھے جیسے اس کے بیان کی صداقت کو نظروں کے ترازو میں تول رہے ہوں۔ پھر سانپ آنکھوں والے نے اسے ایک پاکٹ دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا پاکٹ۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ اس میں میرا سیزن ٹکٹ بھی ہے۔‘‘
’’تم دبئی میں کتنے برس تھے؟‘‘ سانپ آنکھوں والا اس کی بات اَن سنی کرتا ہوا بولا۔
دبئی کے نام پر وہ چونکا۔ اس کا مطلب انہوں نے اس کے بارے میں اچھی خاصی معلومات اکٹھا کر لی ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔
’’دس برس۔۔۔‘‘
’’وہاں کیا کرتے تھے؟‘‘
’’سروس۔۔۔ ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں سیلز مینیجر تھا میں۔۔۔‘‘
’’وہاں تم اس سے ضرور ملے ہو گے؟‘‘
’’کس سے؟‘‘
’’خیر۔۔۔ تم نے اسے وہاں کبھی دیکھا تو ہو گا؟‘‘
’’کس کو۔۔۔؟‘‘ اس نے پھر اپنا سوال دوہرایا۔
’’جانے دو۔ ویسے ایک بات بتا دوں، تم جتنا چالاک بننے کی کوشش کرو گے، اتنا ہی نقصان اٹھاؤ گے۔‘‘
’’پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’چھوڑو۔۔۔ تم دُبئی سے کب لوٹے؟‘‘
’’پانچ برس ہو گئے۔‘‘
’’اس کا مطلب، ترانوے کے بم بلاسٹ کے موقع پر تم دُبئی میں تھے۔‘‘
’’ہاں تھا۔ وہیں ٹی۔ وی پر میں نے وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر دیکھا تھا۔‘‘
’’یہ اسٹیٹ ایجنسی کب سے چلا رہے ہو؟‘‘
’’تین برس سے۔۔۔‘‘
’’پتا چلا ہے کہ تم یہاں اپنی ایجنسی کی آڑ میں حوالے کا دھندا بھی کرتے ہو؟‘‘
’’کیسا حوالہ؟‘‘ دھیرے دھیرے جیسے اس کے گرد پھندا کستا جا رہا تھا۔
’’دبئی سے تمہارے پاس روپیہ آتا ہے اور پھر تم وہ روپیہ یہاں کچھ لوگوں میں تقسیم کرتے ہو؟‘‘
’’یہ جھوٹ ہے۔۔۔‘‘ وہ تقریباً چیخ بڑا۔ ’’میرے بارے میں کسی نے آپ کو غلط اطلاع دی ہے۔ میں نے دبئی میں نوکری کر کے جو روپے کمائے تھے انہیں روپیوں سے یہ آفس خریدا ہے۔‘‘
’’اچھا بتاؤ تمہارا تعلق کس گروہ سے ہے؟ سیمی سے؟ جیشِ محمد سے، لشکرِ طیبہ سے یا پھر سیدھے القاعدہ سے؟‘‘
’’میرا تعلق کسی سے بھی نہیں ہے۔‘‘ اس کی آواز روہانسی ہو گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ اب شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ انہوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، اس کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں اور اسے کسی وحشی جانور کی طرح مار گرانے کے لیے انہوں نے اپنی بندوقیں تان لیں ہیں اور بندوقوں کی نالیاں اسی کی جانب اٹھی ہوئی ہیں، اس نے دھیرے دھیرے گردن اٹھائی۔ سرخ سرخ آنکھوں سے تینوں کو دیکھتا ہوا رُک رُک کر بولا۔
’’آپ لوگ خواہ مخواہ مجھ پر شک کر رہے ہیں، دھماکے کی آواز سن کر سینکڑوں لوگ وہاں پہنچے تھے، ان میں میں بھی تھا۔ اسے میری بدقسمتی سمجھئے کہ میرا پاکٹ وہاں گر گیا۔ صرف وہاں آئیڈنٹیٹی کارڈ کے ملنے سے یہ کیسے ثابت ہو جاتا ہے کہ میں۔۔۔‘‘
بولتے بولتے وہ رُک گیا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ اس نے قدرے جوش سے کہا۔ ’’وہاں میں نے ایک آدمی کی جان بھی بچائی تھی۔ اسے ہسپتال پہنچایا تھا۔ آپ چاہیں تو اس سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ وہ مہاتما گاندھی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔‘‘
’’کیا نام ہے اس کا؟‘‘
’’پرمود سوناونے ْ‘‘
’’دیکھا جائے گا۔‘‘ سانپ آنکھوں والا لا پرواہی سے بولا۔ اور کرسی سے اٹھ گیا۔ پھر اچانک اس کی کلائی کی گھڑی کی طرف انگلی اٹھا کر بولا۔ ’’اِسے اتارو۔۔۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اتارو۔۔۔ واپسی پر تمہیں تمہارا موبائل اور گھڑی مِل جائے گی۔ چلو اتارو۔۔۔‘‘
’’اس نے چپ چاپ گھڑی اتار کر انہیں دے دی۔ مونچھوں والے نے اس سے گھڑی لے لی۔ پھر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوا بولا۔ ’’دبئی کی لگتی ہے۔‘‘
اس پر تینوں بے ڈھنگے پن سے ہنس دیے۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ تینوں دروازے کی طرف مڑ گئے۔ وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ سانپ آنکھوں والا اس کی طرف مڑا۔ ’’تم یہیں رُکو گے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
ابھی تمہاری انکوائری پوری نہیں ہوئی۔۔۔‘‘
’’تو پوری کر لیجئے نا۔۔۔ آپ مجھے اس طرح یہاں نہیں روک سکتے۔‘‘
’’ایسا کرنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے۔‘‘ سانپ آنکھوں والا سفّاکی سے مسکراتا ہوا بولا۔
’’یہ غیر قانونی ہے۔ میں کوئی چور اچکّا نہیں ہوں۔ آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے پوچھئے اور مجھے اپنے گھر جانے دیجئے۔۔۔‘‘
وہ تینوں کمرے سے باہر نکل چکے تھے۔ وہ ان کے پیچھے لپکا مگر تب تک دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس نے دروازے پر دو ہتھڑ مارے اور حلق کے بل چیخا۔ ’’مجھے۔۔۔ کم سے کم اپنے گھر پر ایک فون تو کر لینے دیجئے۔ دیکھئے۔۔۔ میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔‘‘ مگر باہر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ تینوں جا چکے تھے۔ وہ تھوڑی دیر تک دروازے کو یونہی پیٹتا رہا۔ پیٹتے پیٹتے اس کے ہاتھوں میں درد ہونے لگا۔ بالآخر اس نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ معاً اس کے پیٹ میں ایک گولا سا اٹّھا۔ اس کے سینے میں غبار سا بھر گیا۔ وہ غبار کسی بپھری موج کی مانند اس کی آنکھوں کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی۔ اس نے جلدی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور مڑ کر دوبارہ اسی پرانی کرسی پر آ کر ڈھیر ہو گیا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسی بے بسی محسوس نہیں کی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کسی نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے گہرے کنویں میں پھینک دیا ہے اور وہ ڈوبتا جا رہا ہے، گہرے۔۔۔ اور گہرے۔۔۔ ہاتھ پیر مارنا چاہتا ہے مگر مار نہیں سکتا۔ شاید اب وہ کبھی سطح آب پر نہیں آ سکے گا۔ کیا یہی سیلن زدہ تاریک کمرہ اس کا مقبرہ بننے والا ہے؟ ہاں، بن بھی سکتا ہے۔ وہ چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے پورے اختیارات ہیں۔ یہ اختیارات انہیں کب ودیعت کئے گئے تھے کسی کو نہیں معلوم۔ کس نے ودیعت کیے تھے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم۔۔۔ مگر یہ سچ ہے کہ یہ اختیارات ان کے پاس تھے۔ ان کے چہروں کی کرختگی سے، ان کی جارحانہ گفتگو سے، ان کی متکبرانہ حرکات و سکنات سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ان کے پاس یہ اختیارات ہیں۔ انہیں اختیارات کی بدولت انہوں نے اسے حراست میں لیا تھا۔ وہ کسی بھی وقت، کسی بھی حال میں، کسی بھی جگہ، کسی کو بھی حراست میں لے سکتے تھے۔ جواز۔۔۔؟ جواز تو وہ پیدا کر سکتے تھے۔ جواز پیدا کرنا ان کے لیے مشکل کام نہیں تھا۔ بلکہ جواز پیدا کرنا ایک طرح سے ان کی پیشہ ورانہ مہارت کی کسوٹی سمجھا جاتا تھا۔ ان سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد ایک جگہ انہیں اس کا شناختی کارڈ ملا تھا۔ اس سے بڑا جواز انہیں اور کیا چاہیے۔
یک بیک اسے اپنا گھر یاد آیا، گھر کے افراد یاد آئے، بوڑھی ماں کا جھریوں بھرا شفیق چہرہ، بیوی کی پیار بھری مسکراہٹ، اس پر جان چھڑکنے والی جوان بہن، ہمیشہ فرسٹ آنے والا اس کا ہونہار بیٹا۔۔۔ عزیز رشتے دار، دوست و احباب، سب لوگ بے حد پریشان ہو گئے ہوں گے۔ شام تک انتظار کرنے کے بعد بابو نے آفس بند کر دیا ہو گا اور آفس کی چابی گھر پر لے جا کر دیتے ہوئے بتا دیا ہو گا کہ پولس اسے ساتھ لے گئی ہے۔ بیوی نے فوراً موبائل پر فون کیا ہو گا اور جواب نہ ملنے پر کس قدر پریشان ہوئی ہو گی۔ جب ماں کو معلوم ہوا ہو گا کہ پولس اسے لے گئی ہے تب اس کی حالت دگرگوں ہو گئی ہو گی۔ بہن کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہوں گے۔ شام کو بیٹا اسکول سے لوٹا ہو گا تو سب کو پریشان دیکھ کر بہت گھبرایا ہو گا۔ بیوی نے یقیناً اپنے بڑے بھائی کو فون پر بتایا ہو گا۔ بیچارے دمے کے مریض دوڑے دوڑے آئے ہوں گے۔ بہن کو تسلّی دی ہو گی۔ ماں کی ڈھارس بندھائی ہو گی۔ کسی کو ساتھ لے کر انکوائری کے لیے پاس کی پولس چوکی بھی گئی ہوں گے مگر جب وہاں کہا گیا ہو گا کہ ایسی کسی گرفتاری کا انہیں کوئی علم نہیں تب انہیں کس قدر مایوسی ہوئی ہو گی۔ واقعتاً اب یہ سوال اسے بھی بری طرح ستانے لگا تھا کہ انکوائری کے لیے اسے اپنے ہی علاقے کی پولس چوکی کی بجائے اس دور افتادہ، ویران پولس اسٹیشن کیوں لایا گیا ہے؟ آخر کیا ارادہ ہے اِن کا؟ کیا کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ اس کے ساتھ؟ اس خیال سے بے شمار کن کھجورے اس کے دماغ میں رینگنے لگے اور اس کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی۔
اس نے ہتھیلی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور کمرے میں چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ کمرہ زرد مٹیالی روشنی سے بھرا ہوا تھا اور چاروں طرف ایک ہیبت ناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دیواروں کا پلاسٹر ادھڑا ہوا تھا اور ادھڑے ہوئے پلاسٹر کی جگہ عجیب عجیب شبیہیں نظر آ رہی تھیں۔ کہیں دو پہلوان نما شخص کسی مظلوم کو آرے سے چیر رہے تھے، کہیں کسی بُل ڈوزر کے نیچے بے شمار انسان اس طرح دبے کچلے نظر آ رہے تھے کہ ان کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں اور زبانیں باہر نکل آئی تھیں۔ کہیں دو گِدھ انسان کی لاش پر ٹھونگیں مار رہے تھے، کوئی نیزہ بردار نیزے کی انی پر کسی مقتول کا سر اٹھائے دیوانہ وار رقص کر رہا تھا، کہیں ہڈیوں کا کوئی ڈھانچہ کاندھے پر صلیب اٹھائے گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا جہاں وہی گدلا سا بلب لٹک رہا تھا۔ اسے لگا بلب سے پھوٹتی یہ زرد روشنی ہی ہے جو کمرے کی ویرانی کو مزید وحشت خیز بنا رہی ہے۔ اس نے دونوں پیر سکوڑ کر کرسی پر رکھ لیے اور گھٹنوں میں منہ ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے سوچا اسے اس طرح اپنا حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ یہ صرف لاک اپ ہے۔ وہ اسے لاک اپ میں زیادہ دیر تک نہیں رکھ سکتے۔ اسے اپنا وکیل دوست انعام دار یاد آیا۔ وہ انعامدار کو اسی وقت فون کر کے بلائے گا۔ اس نے موبائل کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ تبھی اسے دھچکا لگا۔ اس کا موبائل تو انہیں لوگوں کے پاس ہے۔ اس نے مایوسی سے گردن ہلائی۔ تو کیا اب نجات کی کوئی صورت نہیں۔ اسے لگ رہا تھا وہ ایک ایسی سرنگ میں داخل ہو گیا ہے جس کا دہانہ بتدریج تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یکایک اس اندھی سرنگ میں ایک جگنو ساچمکا۔ اسے پرمود سوناونے یاد آیا، جس کی اس نے جان بچائی تھی۔
جب وہ زخمیوں کو اٹھانے میں لوگوں کی مدد کر رہا تھا وہاں اسے پرمود بھی زخمی حالت میں دکھائی دیا تھا۔ وہ سر سے پاؤں تک خون میں لت پت تھا۔ اس کے کپڑے جھلس کر چیتھڑوں کی شکل میں اس کے بدن پر جھول رہے تھے۔ وہ لپک کر اس کے قریب گیا اور اسے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے بعد میں دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ کر لٹک گئی تھی۔ دو آدمیوں کی مدد سے اس نے اسے اٹھا کر آٹو رکشا میں ڈالا اور تُرنت ہسپتال کی طرف بھاگا۔ اب وہ مہاتما گاندھی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ وہ کوکن کا رہنے والا تھا مگر اس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک ساؤتھ انڈین لڑکی سے شادی کر لی تھی اسی لیے وہ یہاں شانتی نگر میں ایک فلیٹ لے کر رہ رہا تھا۔ یہ فلیٹ اسی نے اسے دلایا تھا۔ اس نے اس کا لون بھی پاس کرا دیا تھا۔ پرمود اس کا بڑا احسان مند تھا۔ مکان لینے کے بعد بھی وہ اکثر اس سے ملنے اس کے آفس آ جاتا تھا۔ ابھی پچھلی بقر عید پر ہی تو وہ اس کے یہاں بریانی کھانے آیا تھا اور آنے والی دیوالی پر اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دے گیا تھا۔ پرمود اس کی بے گناہی کی گواہی دے سکتا ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں پرمود سے رابطہ قائم کرنا ہو گا۔۔۔ مگر کس طرح؟ اس کا موبائل چھِن چکا ہے اور یہ لوگ اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔
وہ کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ کبھی اپنے دونوں ہاتھ بغل میں دبا لیتا، کبھی پیچھے باندھ لیتا یا پھر اپنی انگلیوں کو چٹخانے کی کوشش کرتا جنہیں اس دوران وہ کئی بار چٹخا چکا تھا۔ جب ٹہلتے ٹہلتے تھک کر کرسی پر بیٹھا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا کہ اسے کمرے کے باہر کچھ آہٹ سنائی دی۔ اس کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ متوحش نظروں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ تبھی اچانک دروازہ کھلا۔ دروازے میں اسے ایک کالا بھجنگ شخص دکھائی دیا۔ وہ اس قدر سیاہ فام تھا کہ اس کا چہرہ اندھیرے کا ایک حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ البتہ اس کے بڑے بڑے سفید دانت اس کے ہونٹوں سے باہر جھانک رہے تھے اور ان دانتوں کی چمک ہی اس کے چہرے کے خدوخال کو نمایاں کر رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’چلو!صاحب نے بلایا ہے۔‘‘
وہ لپک کر باہر آ گیا جیسے اسے خدشہ ہو کہ ذرا بھی دیری ہوئی تو دروازہ دوبارہ بند ہو جائے گا۔
باہر نکلتے ہی ہوا کے ایک لطیف جھونکے نے اس کا استقبال کیا اور اسے قدرے راحت کا احساس ہوا۔ باہر اس تنگ راہداری میں بھی ایک زرد بلب روشن تھا جس کی روشنی اتنی کم تھی کہ بمشکل زینہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس سیاہ فام کے ساتھ ٹٹول ٹٹول کر زینہ اترنے لگا۔ سیاہ فام آگے تھا اور اسے بار بار تیز چلنے کی تاکید کر رہا تھا۔ وہ گرتا پڑتا سیاہ فام کے پیچھے چلتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں عمارت سے باہر آ گئے۔ سامنے تاروں کی چھاؤں میں اسے ایک کار کھڑی ہوئی دکھائی دی۔ شاید صبح والی کوالیس تھی۔ وہ چوں ہی کار کے قریب پہنچے دروازہ کھلا اور ساتھ ہی سیاہ فام شخص نے پیچھے سے اس کی بانہہ پکڑ کر اسے کار میں تقریباً دھکیل دیا۔ کار میں اندھیرا تھا۔ وہ گرتے گرتے بچا۔ ساتھ ہی شراب کا ایک تیز بھپکا اس کے نتھنوں سے ٹکرایا۔ اندر کچھ پرچھائیاں سی نظر آ رہی تھیں۔ وہ اندازاً ایک کونے میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں کسی نے اس سے پوچھا۔ ’’کیسے ہو؟‘‘ اس نے فوراً پہچان لیا، یہ سانپ آنکھوں والے کی آواز تھی۔ اس نے مری مری آواز میں کہا۔ ’’ٹھیک ہوں سر!‘‘
جوں ہی کار اسٹارٹ ہوئی، اس نے جلدی سے کہا۔
’’سر! مجھے ہائی وے پر اتار دیجئے، میں وہاں سے رکشا یا ٹیکسی لے لوں گا۔‘‘
کوئی کچھ نہیں بولا، لمحے بھر کے توقف کے بعد اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’تھوڑا پانی مل جاتا تو۔۔۔‘‘
’’یا لا پانی پازا‘‘(اِسے پانی پلاؤ) سانپ آنکھوں والے نے مراٹھی زبان میں کسی کو حکم دیا۔ اس کے بغل میں بیٹھے شخص نے پانی کی ایک بوتل اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے بوتل دینے والے کو غور سے دیکھا۔ اندھیرے میں بھی اس کی بڑی بڑی مونچھوں کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے پاس ہی ایک پرچھائیں اور نظر آئی۔ وہ یقیناً وہی ہو گا جس کے گال پر زخم کا گہرا نشان تھا۔ بوتل ہاتھ میں لینے کے بعد وہ چند لمحوں تک سوچتا رہا کہ اسے پانی پینا چاہیے یا نہیں۔ مگر پیاس اتنی شدید تھی کہ اس نے بالآخر بوتل کو منہ سے لگا لیا۔ اگرچہ پانی ٹھنڈا نہیں تھا مگر چند گھونٹ حلق سے اترتے ہی اسے قدرے طمانیت کا احساس ہوا۔ اس کا خوف دھیرے دھیرے زائل ہو رہا تھا۔ جیسے غبار چھٹ رہا ہو۔ اس نے سانپ آنکھوں والے سے پوچھا۔ ’’اس وقت ٹائم کیا ہوا ہے سر؟‘‘
’’اس وقت تمہارا ٹائم بہت خراب چل رہا ہے محمد علی!‘‘سانپ آنکھوں والے نے استہزائیہ انداز میں جواب دیا۔ اس پر سب ہنسنے لگے۔ اسے سانپ آنکھوں والے کے جواب سے زیادہ ان سب کی ہنسی بُری لگی۔ مگر وہ چپ رہنے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔
’’محمد علی! تمہاری فیملی میں کون کون ہے؟‘‘ سانپ آنکھوں والا پوچھ رہا تھا۔
اس سوال پر وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ وہ اس کی فیملی کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہے؟اگر پوچھ رہا ہے تو اسے جواب دینا چاہیے یا نہیں؟جواب دینا ہی ہو تو کیا جواب دے؟ اسے خاموش دیکھ کر سانپ آنکھوں والا بولا۔
’’اچھا، جانے دو۔۔۔ یہ بتاؤ اگر تمہیں کچھ ہو جائے تو تمہاری فیملی کی ذمہ داری کس کے سر ہو گی؟
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی۔ ’’آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘
اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
جواب دینے کے بجائے اس سے پھر پوچھا گیا۔ ’’تمہارا کوئی بیٹا ویٹا ہے؟‘‘
اس کی رگوں میں خون منجمد ہونے لگا۔ ساتھ ہی آنکھوں میں بیٹے کی صورت گھوم گئی۔ ’’آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ اس نے پھر وہی سوال دوہرایا۔
’’جو پوچھا جائے اس کا جواب دو۔‘‘ سخت لہجے میں کہا گیا۔
’’ہے۔۔۔‘‘
’’اس سال ایس ایس سی میں ہے۔‘‘
’’بھائی، باپ۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی فیملی میں کمانے والے تم اکیلے ہو؟‘‘
اس کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ مگر اس نے اپنے بکھرتے حواس کو ایک بار پھر مجتمع کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھئے، مجھے آپ کی باتوں سے ڈر لگ رہا ہے۔ آخر آپ میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتے؟ میں ایک سیدھا شریف آدمی ہوں۔ آپ میرے محلّے میں کسی سے بھی میرے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ پڑوسیوں پر بھروسا نہ ہو تو پرمود سے پوچھئے۔ میں نے اس کی جان بچائی تھی۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ ذرا سوچئے! اگر بم بلاسٹ میں میرا ہاتھ ہوتا تو میں وہاں سے فرار ہونے کی بجائے پرمود کی جان کیوں بچاتا؟ اسے ہسپتال لے کر کیوں جاتا؟‘‘ بولتے بولتے وہ ایک دم چپ ہو گیا۔ اسے لگا وہ کچھ زیادہ جذباتی ہو گیا ہے۔ کار میں کچھ دیر سنّاٹا چھایا رہا۔ پھر سانپ آنکھوں والے کی ٹھہری ہوئی آواز آئی۔
’’مسٹر علی! ہو سکتا ہے تم سچ بول رہے ہو۔ مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا؟‘‘ اس نے اتاولے پن سے پوچھا۔
’’ہم گاندھی ہسپتال گئے تھے پرمود کا بیان لینے۔ مگر پرمود بیان دینے کے قابل نہیں ہے۔ وہ کوما میں ہے۔‘‘
’’کوما میں۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اس نے دانت پر دانت جما کر امڈتے طوفان کو روکا اور تقریباً ڈوبتی آواز میں بولا۔ ’’پھر۔۔۔؟‘‘
’’پھر کیا۔۔۔ ہمیں اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘‘
’’ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘‘اس نے دوہرایا پھر بولا۔۔۔ ’’کب تک؟‘‘
’’ڈاکٹر کہتا ہے کوما پیشنٹ کا کچھ ٹھیک نہیں۔ ہو سکتا ہے دو تین دن میں ہوش آ جائے۔ دو تین مہینے بھی لگ سکتے ہیں یا دو تین برس بھی یا پھر اسی حالت میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘
سانپ آنکھوں والا بول رہا تھا مگر اسے اس کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے لگا وہ گہرے پانیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اب وہ آخری کنگورا بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا جس پر نظریں جمائے وہ ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ آنکھوں کے سامنے تِرمِرے سے اڑنے لگے۔ اس نے پوچھنا چاہا۔۔۔
’’ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں۔‘‘
مگر ایک اندیش ناک خیال نے اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا اور الفاظ ہونٹوں تک آنے سے پہلے ہی حلق میں پھنس کر رہ گئے۔
٭٭٭
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...