پھر یوں ہوا کہ ساڑھے تین ہزار برس کے بعد یک لویہ نے ایک غریب دلت کے گھر دوبارہ جنم لیا۔ اتفاق سے اس بار بھی اس کے باپ کا نام ہرنیہ دھنش ہی تھا مگر اب کے ہرنیہ دھنش جنگل میں نہیں شہر میں رہتا تھا اور ایک مل میں مزدوری کرتا تھا۔
یک لویہ جب پانچ برس کا ہوا تو ہرنیہ دھنش نے اسے ایک میونسپل اسکول میں داخل کر دیا۔ یک لویہ بے حد ذہین تھا۔ پڑھائی میں ہمیشہ سب سے آگے رہتا۔ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ہائر سیکنڈری سائنس میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کر لی۔ اسی دوران سناتن میڈیکل کالج کے فارم نکلے۔ یک لویہ نے فارم پر کر کے روانہ کر دیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا داخلہ ہو جائے گا اور جلد ہی اس کا دیرینہ خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔
پندرہ دن بعد اسے انٹرویو کا بلاوا آ گیا۔ یک لویہ دل میں امید اور وشواس کی جوت جگائے کالج پہنچا۔ کالج میں امیدواروں کی کافی بھیڑ تھی۔ وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اسے حیرت ہوئی کہ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، چند منٹ بعد ہی چپراسی نے اس کا نام پکارا۔ وہ اپنی فائل بغل میں دبائے، دھڑکتے دل کے ساتھ پرنسپل کے کیبن میں داخل ہوا لیکن یہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کہ سامنے پرنسپل کی اونچی کرسی پر گرودیو دروناچاریہ براجمان تھے۔ یک لویہ بہت گھبرایا۔ تبھی دروناچاریہ کی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’آؤ یک لویہ!۔۔۔ آؤ۔۔۔‘‘
یک لویہ نے بوکھلا کر پرنام کیلئے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔
’’کہو یک لویہ! کیسے ہو؟‘‘ دروناچاریہ پوچھ رہے تھے۔
’’اچھا ہوں سر!‘‘اس نے مسمسی صورت بنا کر کہا۔ پھر ایک اندیش ناک خیال سے گھبرا کر بولا۔ ’’سر آپ نے مجھے پہچان لیا۔۔۔؟‘‘
’’تمہیں ہم کیسے بھول سکتے ہیں یک لویہ!‘‘ دروناچاریہ کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ یک لویہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ان کے لہجے میں کیا تھا۔۔۔ ہمدردی۔۔۔ خوشی۔۔۔ یا طنز۔۔۔ دروناچاریہ پوچھ رہے تھے۔ ’’تمہارے پتا ہرنیہ دھنش کیسے ہیں؟‘‘
’’کشل منگل ہیں۔۔۔‘‘
’’کیا کرتے ہیں آج کل وہ؟‘‘
’’مل میں مزدوری کرتے ہیں سر!‘‘
’’اوہو! مزدوری کرتے ہیں اور بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ڈاکٹر بننا تو میری اِچھا ہے سر!‘‘
’’ہُم۔۔۔‘‘ دروناچاریہ برابر مسکرائے جا رہے تھے۔ ’’ہم جانتے ہیں تم شروع سے کافی کریزی رہے ہو۔ تمہاری اِچھائیں ہمیشہ تم سے دو قدم آگے چلتی ہیں۔‘‘
’’سر! بس آپ کی کرپا کا ابھیلاشی ہوں۔‘‘
’’یک لویہ!‘‘ دروناچاریہ گمبھیر آواز میں کہہ رہے تھے۔ ’’کیا ہر جنم میں تم ہمیں اسی طرح دھرم سنکٹ میں ڈالتے رہو گے؟‘‘
یک لویہ نے بوکھلا کر دروناچاریہ کی طرف دیکھا۔ دروناچاریہ اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یک لویہ ان کی تیکھی نظروں کی تاب نہ لا سکا اور نگاہیں جھکا لیں۔ دروناچاریہ کہہ رہے تھے۔ ’’اس کالج میں سب اونچے گھرانے کے لڑکے آتے ہیں۔ ان کا کھان پان، رہن سہن، بات چیت سب کی ایک شان ہوتی ہے۔ یہی اس کالج کی پہچان ہے۔ یہ اونچی اڑان بھرنے والے پرندوں کا نشیمن ہے۔ تم اس بلندی تک پہنچنے کی کیسے سوچ سکتے ہو یک لویہ! تم میونسپل اسکول سے پڑھ کر آئے ہو۔ پچھڑی بستی میں رہتے ہو اور ذات سے۔۔۔‘‘ دروناچاریہ رک گئے۔ یک لویہ کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے گڑگڑاتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔
’’سر! اگر آپ کی کرپا درشٹی ہوئی تو میں آسمانوں کو بھی چھو سکتا ہوں۔ اس بار بڑی آشا لے کر آیا ہوں۔ نراش مت کیجئے۔‘‘
دروناچاریہ ایک ٹک اسے دیکھتے رہے۔ اچانک ان کے چہرے کے عضلات نرم پڑ گئے۔ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے۔ ’ ’خیر۔۔۔ خواب دیکھنے کا حق سب کو ہے۔ تمہیں بھی ہے لیکن تم میں ایک خوبی اور بھی ہے۔‘‘ یک لویہ انہیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’تم میں خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھنے کی ہمت بھی ہے۔‘‘ یک لویہ کانپ گیا۔ دروناچاریہ کہہ رہے تھے۔
’’زمانہ بدل گیا ہے۔ سمے کے ساتھ زمانے کے مولیہ بھی بدل جاتے ہیں۔ جو ورتمان کا ساتھ نہیں دیتا اسے آنے والا کل بھی ٹھکرا دیتا ہے۔ ہم بھی سمے کی دھارا کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اس لیے ہم تمہیں بی۔ سی کوٹے سے سیٹ دینے کے پابند ہیں یک لویہ!‘‘
’’تھینک یو سر!‘‘ یک لویہ کی بانچھیں کھل گئیں۔ ’’میں آپ کا یہ اپکار زندگی بھر نہیں بھولوں گا سر!۔‘‘اس کا لہجہ احسان مندی کے جذبے سے سرشار تھا۔
’’نہیں یک لویہ! اس میں اپکار کی کوئی بات نہیں۔ پچھلے جنم میں ہم نے تمہیں دھنر ودیا سکھانے سے منع کیا تھا جس کے کارن اتہاس ہمیں آج تک کوس رہا ہے۔ اب تمہیں ششیہ بنا کر اپنے دامن سے اس داغ کو مٹانے کا ہمیں ایک موقع ملا ہے۔ ہم اس موقع کو کھونا نہیں چاہتے۔‘‘
’’آپ مہان ہیں سر!‘‘ یک لویہ نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے لجاجت سے کہا۔
دروناچاریہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’ ’جاؤ۔۔۔ کوشش کرو کہ اس کالج نے جو ماپ ڈنڈ بنائے ہیں اس پر کھرے اتر سکو۔‘‘
یک لویہ دروناچاریہ کے احسان مندی کے بوجھ سے دبا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو چھلچھلا آئے۔ اس نے کانپتی آواز میں صرف اتنا کہا۔
’’سر! آپ اجازت دیں تو میں ایک بار آپ کے چرن اسپرش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
دروناچاریہ مسکرائے۔ یک لویہ نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے۔ دروناچاریہ مسکراتے رہے مگر ان کے ماتھے کی سلوٹیں کم نہیں ہوئیں۔
آخر کار سناتن میڈیکل کالج میں یک لویہ کا داخلہ ہو گیا اور وہ اپنا مختصر سا سامان لے کر کالج کے ہوسٹل میں منتقل ہو گیا۔ پڑھنا تو اس کا من پسند مشغلہ تھا ہی۔ اب تو اس کے سامنے کالج کے معیار کو قائم رکھنے کی چنوتی بھی تھی۔ وہ کوئی لیکچر ناغہ نہیں کرتا تھا۔ اسے کھیل کود اور تفریح سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد وہ سیدھے لائبریری چلا جاتا وہاں اس وقت تک پڑھتا رہتا جب تک لائبریری کے بند ہونے کا وقت نہ ہو جاتا۔ لائبریری سے نکل کر سیدھا میس میں جاتا۔ کھانا کھاتا۔ کھانے کے بعد دوسرے طلبہ کیرم وغیرہ کھیلنے بیٹھ جاتے۔ بعض سگریٹیں پھونکنے کے لیے باہر نکل جاتے مگر وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ جاتا۔ دروازہ بند کر لیتا اور دوبارہ پڑھنے میں جٹ جاتا۔ کالج کے ساتھی پڑھائی کے اس جنون کی وجہ سے اسے ’کاکروچ‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ لیکن پروفیسر اس سے خوش تھے کیونکہ کلاس روم میں ہر سوال کے جواب کے لیے سب سے پہلے ہاتھ وہی اٹھاتا تھا۔
کبھی کبھی کلاس روم سے ہوسٹل آتے جاتے اسے پرنسپل دروناچاریہ بھی نظر آ جاتے۔ وہ ان کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتا۔ دروناچاریہ گردن ہلا کر مسکرادیتے۔ شروع شروع میں کالج کے بعض لڑکے اس کے پڑھاکو پن کی وجہ سے اس سے الرجک تھے مگر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک غریب دلت گھرانے سے آیا ہے تو ان پر اس کی اصلیت آشکار ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے کہ بے چارہ گانٹھ کا کچا ہے بھلا موج مستی کرنا اس کی قسمت میں کہاں؟ نہ وہ دوسرے لڑکوں کی طرح بیئر باروں یا ڈسکو اڈوں کی سیر کر سکتا ہے نہ چرس اور حشیش کی سگریٹیں پھونک سکتا ہے۔ نہ اس کے پاس نت نئے فیشن ڈیزائن کی قیمتی پتلونیں، شرٹس ہیں کہ لڑکیاں اس کی طرف راغب ہو سکیں، نہ اس کے پاس کوئی موٹر بائک یا کار ہے کہ وہ اپنی کسی گرل فرینڈ کو لے کر ڈیٹ پر جا سکے۔ ایسے میں کتابوں میں سرگڑانے کے علاوہ وہ کیا کر سکتا تھا۔ دھیرے دھیرے لڑکوں نے اس کی طرف دھیان دینا ہی چھوڑ دیا۔ ایک طرح سے یہ یک لویہ کے حق میں اچھا ہی ہوا کہ اب اسے کوئی پریشان نہیں کرتا تھا۔ اس نے پوری دلجمعی سے خود کو پڑھائی کے لیے وقف کر دیا۔ اسے اب نہ کھانے کی سدھ رہتی نہ سونے کی۔ بس جب دیکھو کتابوں میں منہمک رہتا۔ پریکٹیکل میں بھی اس کے انہماک کا یہی عالم تھا۔ پریکٹیکل کے دن وہ سب سے پہلے لیبارٹری میں داخل ہوتا اور سب سے آخر میں باہر نکلتا۔
ایک دن دروناچاریہ نے رات میں اچانک ہوسٹل کا وزٹ کیا۔ ان کے ساتھ ہوسٹل کے وارڈن مسٹر گوکھلے بھی تھے۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ بہت سے لڑکے اپنے اپنے کمروں میں روشنی گل کر کے سوچکے تھے۔ جب دروناچاریہ مختلف کمروں کا معائنہ کرتے ہوئے یک لویہ کے کمرے کے پاس پہنچے تو دیکھا اس کے کمرے میں روشنی ہو رہی تھی۔ وارڈن نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر بعد یک لویہ نے دروازہ کھولا۔ سامنے پرنسپل اور وارڈن کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ ہکلاتے ہوئے بولا۔
’’نم۔۔۔ نمسکار۔۔۔ س۔۔۔ سر۔۔۔‘‘
پرنسپل اور وارڈن کمرے میں داخل ہوئے۔ وارڈن نے یک لویہ سے پوچھا۔
’’تم نے لائٹ آف نہیں کی؟‘‘
’’میں پڑھ رہا تھا سر!‘‘ یک لویہ کی گھبراہٹ برقرار تھی۔
’’مگر جانتے ہو نا کہ دس بجے تک سب کو سو جانے کا آرڈر ہے۔ پھر تم کیوں جاگ رہے تھے؟‘‘
’’سر! مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اس لیے۔۔۔‘‘
دروناچاریہ کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ سنگل بیڈ کا چھوٹا سا کمرہ تھا۔ انہوں نے دیکھا بیڈ کے سرہانے کتابوں کی ڈھیری بنی ہے۔ دو ایک کتابیں بستر پر بھی پڑی تھیں۔ پھر ان کی نظر اچانک بیڈ کے سرہانے دیوار پر پڑی۔ انہوں نے حیرت سے دیکھا کہ دیوار پر ان کا بڑا سا پورٹریٹ آویزاں ہے۔ انہوں نے یک لویہ کی طرف دیکھا جو اب بھی قدرے گھبرایا ہوا تھا اور رک رک کر وارڈن کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔
’’ایک منٹ مسٹر گوکھلے!‘‘ دروناچاریہ نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
پھر یک لویہ سے مخاطب ہوئے۔ ’’تم نے یہ ہمارا پورٹریٹ یہاں کیوں لٹکا رکھا ہے؟‘‘
یک لویہ گردن جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ وارڈن نے کہا۔
’’یک لویہ! پرنسپل صاحب تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں۔‘‘
یک لویہ نے ڈرتے جھجکتے نظریں اٹھائیں۔ ایک نظر پورٹریٹ پر ڈالی۔ پھر نظریں جھکائے جھکائے بولا۔
’’سر! وہ آپ کی ایک فوٹو مجھے مل گئی تھی۔ میں نے اپنے ایک آرٹسٹ دوست سے یہ پورٹریٹ بنوایا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
یک لویہ چپ کھڑا اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کرید رہا تھا۔
’’بولو۔۔۔ یک لویہ! ہم تمہارا جواب سننا چاہتے ہیں۔‘‘
یک لویہ کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ اس نے لرزتی آواز میں دھیرے سے کہا۔
’’سر۔۔۔ میں روزانہ اس کی پوجا کرتا ہوں۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ دروناچاریہ نے حیرت سے کہا۔ انہوں نے وارڈن کی طرف دیکھا۔ وارڈن بھی حیرت زدہ سا کبھی پورٹریٹ کو تو کبھی یک لویہ کو دیکھ رہا تھا۔
’’پوجا کرتے ہو۔۔۔ ہماری؟‘‘ دروناچاریہ کے لہجے میں استعجاب برقرار تھا۔
یک لویہ نے منہ سے کوئی جواب دینے کی بجائے اثبات میں صرف گردن ہلا دی۔
’’مگر کیوں؟‘‘
’’سر! آپ نے ایڈمیشن کے سمے کہا تھا کہ ہمارا گرو ششیہ کا رشتہ بہت پرانا ہے، میں آپ کا نام لے کر ابھیاس شروع کرتا ہوں تو سب کچھ ترنت یاد ہو جاتا ہے، اس لیے۔۔۔‘‘
’’اس لیے تم ہماری پوجا کرتے ہو۔‘‘ دروناچاریہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
’’جی۔۔۔‘‘ یک لویہ نے گردن جھکا لی۔
’’مگر پوجا تو صرف ایشور کی کی جاتی ہے۔‘‘
یک لویہ نے ادب سے دونوں ہاتھ جوڑے اور وہ پرارتھنا دوہرانے لگا جو وہ اسکول کے زمانے سے پڑھتا آیا تھا۔
’’گرو برہما، گرو وشنو، گرو ردے اومہیشورا۔۔۔ گرو ساکشات برہما۔۔۔‘‘
یک لویہ آنکھیں بند کیے پرارتھنا دوہرا رہا تھا اور دروناچاریہ اسے حیرت سے دیکھے جا رہے تھے۔ جب یک لویہ پوری پرارتھنا دوہرا چکا تب دروناچاریہ چونکے۔ چونک کر کھسیانی ہنسی ہنس کے بولے۔ ’’یک لویہ، تم پاگل ہو۔‘‘
وارڈن یک لویہ کی اس ادا سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے بھیگی آواز سے کہا۔ ’’رہنے دیجئے سر! کرنے دیجئے اسے پوجا۔ اسے منع مت کیجئے۔ اس کی شردھا کو ٹھیس پہنچے گی۔ اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ ایسی شردھا رکھنے والے چھاتر آج کل کہاں ملتے ہیں سر۔۔۔ جو وہ کرتا ہے اسے کرنے دیجئے۔‘‘
دروناچاریہ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر یک لویہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر تمہیں اس سے آنند ملتا ہے تو ہم تمہیں منع نہیں کریں گے۔‘‘
’’تھینک یو سر!‘‘ یک لویہ نے جھک کر دروناچاریہ کے چرن چھوئے۔ دروناچاریہ نے آشیرواد کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ وارڈن نے پیار سے یک لویہ کا گال تھپتھپایا اور دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔
وقت کی مسافت میں صدیاں غبار بن کر اڑ جاتی ہیں۔ پھر پانچ برس کا عرصہ ہی کیا!پلک جھپکتے پانچ برس بیت گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے امتحانات بھی ختم ہو گئے اور ایک دن رزلٹ بھی آ گیا، مگر اس رزلٹ نے سناتن میڈیکل کالج کے درو دیوار کی جڑ بنیاد ہلا دی۔ یک لویہ کے بارے میں سب کو اندازہ تھا کہ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گا مگر یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ وہ پورے کالج میں اول نمبرسے کامیاب ہو گا۔ سناتن میڈیکل کالج کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایک پچھڑی ذات کے لڑکے نے اعلیٰ ذات کے ہونہار سپوتوں کو شرمسار کر دیا تھا۔ سب کی گردنیں جھک گئیں۔ ان کے جذبۂ افتخار کو ٹھیس لگی تھی۔ کالج کی حرمت داغدار ہوئی تھی، اس کی امتیازی شان کو بٹا لگ گیا تھا۔
دوسری طرف رزلٹ کی خبر ملتے ہی یک لویہ کے محلے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سبھوں نے ہرنیہ دھنش کے گھر کو گھیر لیا۔ لوگ یک لویہ زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ مٹھائی تقسیم کر رہے تھے۔ لڑکے تالیاں بجا رہے تھے۔ پورے محلے میں جشن کا سا ماحول تھا۔ آخر ان کی برادری کا ایک لڑکا ڈاکٹر بن گیا تھا۔ ان کی گلی کے ایک نوجوان نے وہ کارنامہ انجام دیا تھا جس کی کلپنا وہ سپنے میں بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سب خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ شام تک پورے محلے میں اسی طرح دھما چوکڑی مچتی رہی۔
دوسرے دن یہ لویہ کالج پہنچا۔ اس نے سوچا رزلٹ شیٹ لے کر وہ سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے آفس میں جائے گا اور ان کے چرن چھو کر ان سے آشیر واد لے گا۔ جب وہ رزلٹ شیٹ لینے آفس کلرک مشرا جی کے پاس گیا تو انہوں نے اسے مبارکباد دی اور بولے۔
’’یک لویہ بابو! آپ کی رزلٹ شیٹ تو پرنسپل صاحب کے پاس ہے۔ انہوں نے آپ کو آفس میں بلایا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے آپ کو رزلٹ شیٹ دینا چاہتے ہیں۔‘‘
یک لویہ خوش ہو گیا۔ وہ ’’تھینک یو مشرا جی‘‘ کہتا ہوا پرنسپل کے کیبن میں داخل ہو گیا۔ دروناچاریہ فون پر کسی سے بات کر رہے تھے، اسے دیکھ کر اندر آنے کا اشارہ کیا۔ یک لویہ ایک طرف ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ پرنسپل نے فون پر بات ختم کی اور ریسیور کو کریڈل پر رکھتے ہوئے بولے۔
’’ارے یک لویہ، تم کھڑے کیوں ہو۔ بیٹھو۔۔۔‘‘
’’نہیں سر، میں ٹھیک ہوں۔‘‘
ارے بھئی، اب تم ڈاکٹر بن کر ہماری رینک میں آ گئے ہو۔ بیٹھو، بیٹھو۔‘‘
یک لویہ جھجکتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔ دروناچاریہ اسے تھوڑی دیر تک غور سے دیکھتے رہے پھر مسکرا کر بولے۔ ’’آخر تمہاری اِچھا پوری ہو گئی، یک لویہ!‘‘
’’سر!سب آپ کی کرپا ہے۔‘‘
دروناچاریہ نے میز پر رکھی رزلٹ شیٹ اٹھائی۔ اس پر نظر ڈالی پھر بولے۔
’’تم نے نمبر تو کمال کے لیے ہیں یک لویہ! سناتن کالج کی پچھلے دس سالوں کی ہسٹری میں کسی نے اتنے اچھے نمبر نہیں لیے۔‘‘
’’تھینک یو سر!‘‘
’’یک لویہ! جانتے ہو ہم نے تمہیں آفس میں کیوں بلایا ہے؟‘‘
یک لویہ استفہامیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے رزلٹ شیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’یک لویہ یاد ہے جب ہم ہوسٹل میں تمہارے کمرے میں آئے تھے تو تم نے دیوار پر ہمارا پورٹریٹ لگا رکھا تھا۔‘‘
’’یس سر‘‘ یک لویہ نے جلدی سے گردن ہلا دی۔
’’اور تم نے کہا تھا کہ تم روزانہ اس پورٹریٹ کی پوجا کرتے ہو، کیونکہ تم ہمیں اپنا گرو مانتے ہو۔‘‘
’’یس سر، مجھے سب یاد ہے۔‘‘
’’پھر تو تم یہ بھی جانتے ہو گے یک لویہ کہ شکشا پوری کرنے کے بعد گرو کو گرو دکشنا دی جاتی ہے۔ یہ ہماری پرمپرا ہے۔‘‘
’’یس سر۔۔۔‘‘ یک لویہ کو اچانک محسوس ہوا کہ کچھ انہونی ہونے والی ہے۔ دروناچاریہ کی آواز اور ان کا لہجہ بدل گیا تھا۔ جیسے ان کے کنٹھ سے کسی اور کی آواز نکل رہی ہو۔
ان کے لہجے میں ایسی دھار تھی کہ اسے اپنے بھیتر کوئی شئے کٹتی سی محسوس ہوئی۔
دروناچاریہ کی آواز پھر گونجی۔ ’’تو یک لویہ! تم ہمارے لیے گرو دکشنا میں کیا لائے ہو؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ یک لویہ اب پوری طرح بوکھلا گیا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ یک لویہ تمہاری شکشا پوری ہو چکی ہے۔ اب تم گرو دکشنا میں ہمیں کیا دینے والے ہو؟‘‘
’’سر، آپ آگیہ دیجئے، اپنی جان بھی نچھاور کر سکتا ہوں۔‘‘
’’یک لویہ!‘‘ دروناچاریہ پرسکون لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’یہ ایک وڈمبنا ہے کہ اتہاس نے ہمیں پھر اسی استھان پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہم ہزاروں وَرش پہلے کھڑے تھے۔ اس سناتن پرمپرا کے انوسار جس نے ہمیں گرو ششیہ کے رشتے میں باندھ دیا تھا۔ ہم تم سے وہی گرو دکشنا طلب کرتے ہیں جو تم نے پچھلے جنم میں ہمیں بھینٹ کی تھی۔‘‘
’’سر۔۔۔!‘‘ یک لویہ حیرت اور خوف سے چیخ پڑا۔
’’ہاں، یک لویہ ہمیں گرو دکشنا میں تمہارے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا چاہیے۔‘‘
یک لویہ کانپ گیا۔ اس کا رنگ ہلدی کی مانند زرد پڑ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے پرنسپل کی طرف دیکھ رہا تھا مگر اب وہاں پرنسپل کہاں تھے۔ اس کے سامنے پرنسپل کی کرسی پر جو شخص بیٹھا تھا وہ تو کوئی اور ہی تھا۔ ماتھے پر بڑا سا تلک، سر منڈا ہوا، گدی کے پیچھے بڑی سی چوٹی۔ اس کی ویش بھوشا بھی بدل گئی تھی۔ ریشمی دھوتی، گلے میں جنے او، ہاتھوں میں باہوتران۔ کانوں میں جگ مگ کرتے رتن جڑت کرنا بھوشن۔
اسے لگا وہ ایسی ویش بھوشا میں اس سے پہلے بھی کسی ویکتی کو دیکھ چکا ہے۔ اس کی یادداشت میں ایک جھماکا ہوا اور اسے یاد آ گیا کہ اس نے ساڑھے تین ہزار برس پہلے جب وہ گرو دروناچاریہ سے ملنے راج محل کے رنانگن میں گیا تھا اور ان سے دھنر ودیا سکھانے کی پرارتھنا کی تھی تب وہ اسی ویش بھوشا میں ملے تھے۔
اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں تھی۔ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف گھوم چکا تھا۔ تاریخ پوری سفاکی کے ساتھ ایک بار پھر اس سے خراج طلب کر رہی تھی۔ اسے ایک بار پھر اتہاس کے ماتھے پر اپنے لہو سے تلک لگانا تھا۔ اسے اس روایت کی لاج رکھنی تھی جس سے اس کی ذات منسوب ہو گئی تھی۔ اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔ پیچھے ہٹنا بزدلی تھی اور وہ اپنے دامن پر بزدلی کا داغ لے کر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ماضی کے دھندلکے سے ایک بار پھر وہی منظر ابھر رہا تھا۔ جب اڑنے سے پہلے اس کی قسمت کے پر کتر دئیے گئے تھے۔ وہی جنگل، وہی بھیل پتر اور وہی راج گرو۔۔۔ اس نے لمحہ بھر توقف کیا۔ دو قدم آگے بڑھا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر دروناچاریہ کو پرنام کیا اور بجلی کی سرعت کے ساتھ ٹیبل پر رکھا قلم تراش چاقو اٹھا کر ایک جھٹکے سے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو کھیرے کی طرح کاٹ کر اپنے جسم سے الگ کر دیا۔
اس واقعہ کو گزرے کئی برس بیت گئے۔ پرنسپل دروناچاریہ اب ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے پیشِ نظر دورانِ ملازمت ہی سرکار نے شہر کی سب سے پاش کالونی میں انہیں ایک بنگلہ الاٹ کر دیا تھا۔ وہ نوکروں کی ایک پوری ٹیم کے ساتھ اسی بنگلے میں سکونت پذیر تھے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اپنی تیس سالہ ملازمت کے دوران انہوں نے سناتن میڈیکل کالج کو ایسی سربلندی عطا کر دی تھی کہ آج اس کا شمار ملک کے بہترین کالجوں میں ہوتا تھا۔ اپنی ذہانت، علمیت، اصول پسندی اور خوش انتظامی کے سبب انہیں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی جانب سے درجنوں ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا جا چکا تھا۔ ان کی پر جلال شخصیت کے سامنے بڑے سے بڑا آدمی بونا نظر آتا تھا اوار اچھے اچھوں کی زبان گنگ ہو جاتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے چاہنے والوں کا حلقہ مزید وسیع ہو گیا۔ اب انہیں ملک اور بیرون ملک مختلف دانش گاہوں اور یونیورسٹیوں میں میموریل لیکچرس اور توسیعی خطبات کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ جہاں جاتے لوگ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے اور ان کے لیکچر نہایت شوق اور توجہ سے سنتے۔ کیونکہ ان کے لیکچروں میں میڈیکل سائنس کی دنیا میں آئے دن ہونے والی ایجادات اور انکشافات کی تفہیم و تشریح کے علاوہ خود ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتا تھا۔ ان کی فکر و نظر، علم و دانش اور نکتہ سنجی کا ایک زمانہ لوہا مانتا تھا۔
سب کچھ ان کی مرضی اور منشا کے مطابق تھا مگر کبھی کبھی ایک خلش انہیں بے چین کر دیتی۔ یک لویہ نے جس بے جگری سے اپنا انگوٹھا کاٹ کر ان کے قدموں میں ڈال دیا تھا وہ منظر ان کی یادداشت میں خنجر کی طرح گڑ گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ انہیں اس واقعہ کا کوئی ملال تھا۔ یا اس واقعہ کا ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ تھا۔ البتہ یک لویہ کی اس ترت پھرت کار روائی نے انہیں ایک حیرت خیز صدمے سے دوچار کیا تھا۔ انہیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ یک لویہ اتنی سہجتا سے ان کے مطالبے کو عملی جامہ پہنا دے گا۔ اصل میں انہوں نے گرو دکشنا کا پانسہ اس لیے پھینکا تھا کہ وہ یک لویہ کو ایسی آزمائش میں ڈالنا چاہتے تھے جس سے وہ کبھی عہدہ بر آ نہ ہو سکے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے مطالبے پر یک لویہ گھبرا جائے۔ ان سے دیا کی بھیک مانگے، روئے، گڑگڑائے، تب وہ اس پر ترس کھاتے ہوئے ایک شانِ استغنا کے ساتھ بخشش کا فرمان جاری کر دیں تاکہ وہ عمر بھر اس خجالت آمیز احساس کے ساتھ زندہ رہے کہ وہ ان کے مطالبے کو پورا کرنے کا اہل نہیں ہے۔ وہ اس پر ترس کھا کر اپنی پر غرور انا کو ایک بار پھر آسودہ کرنا چاہتے تھے جو ساڑھے تین ہزار برس سے ان کے نفس میں اسی طرح کنڈلی مارے بیٹھی تھی۔ بھلا انہیں اس کے انگوٹھے سے کیا لینا دینا تھا۔ وہ اس کا انگوٹھا نہیں۔۔۔ اس کی خود داری، خود اعتمادی اور عزم و حوصلے کو ہمیشہ کے لیے خصی کر دینا چاہتے تھے وہ اسے تاحیات اپنے انگوٹھے کے نیچے دبائے رکھنا چاہتے تھے مگر پانسہ الٹا پڑ گیا اور اس نے خود اپنا انگوٹھا کاٹ کر انہیں عمر بھر کے لیے حیرانی کی ایک ایسی اندھی گپھا میں دھکیل دیا جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ انہیں سجھائی نہیں دیتا تھا۔
اس واقعہ کے بعد یک لویہ اچانک غائب ہو گیا۔ اس کی تلاش میں جب ان کے کارندے اس کے گھر گئے تو چالی محلّے والوں نے بتایا کہ یک لویہ اور اس کے گھر والے کسی سے کچھ بتائے بغیر راتوں رات کہیں چلے گئے۔ کہاں؟ کسی کو نہیں معلوم۔۔۔ بس یہی بات دروناچاریہ کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن تھی کہ آخر یک لویہ اچانک کہاں چلا گیا ہو گا؟ اپنا انگوٹھا گنوانے کے بعد یقیناًاسے احساس ہو گیا ہو گا کہ اب وہ ڈاکٹری پیشے کا اہل نہیں رہا۔ ممکن ہے دل برداشتہ ہو کر اس نے خود کشی کر لی ہو یا ممکن ہے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کر لیا ہو۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کسی دور افتادہ گمنام مقام پر کوئی معمولی نوکری کر رہا ہو۔ یا پھر۔۔۔ جب کوئی بات ٹھیک سے سجھائی نہیں دیتی تو وہ سوچنے لگتے۔ انہیں اس کے بارے میں اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ اپنے ذہن سے اس کے خیال کو جھٹک کر دوسرے کاموں میں لگ جاتے۔
دروناچاریہ کو ریٹائرڈ ہوئے دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ایک دن وہ اپنے اسٹڈی میں بیٹھے اپنے لیکچر کے نوٹس تیار کر رہے تھے۔ کل ایک میڈیکل کانفرنس میں انہیں شریک ہونا تھا۔ وہ کانفرنس انہیں کی صدارت میں منعقد ہو رہی تھی۔ کانفرنس میں مختلف شہروں سے کئی نامی گرامی ڈاکٹر شریک ہو رہے تھے۔ بیرونِ ملک سے بھی کئی مندوبین کی آمد متوقع تھی۔ انہوں نے نوٹس مکمل کرنے کے بعد ایک انگڑائی لی اور ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹک کر آنکھیں بند کر لیں اور پاؤں پھیلا کر سستانے لگے۔ ابھی چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت انہیں یہ گھنٹی بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ وہ تھوڑی دیر تک یوں ہی آنکھیں بند کیے پڑے رہے۔ گھنٹی متواتر بجتی رہی۔ آخر انہوں نے آنکھیں کھول دیں اور پڑے پڑے ہی آلس کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘ انہوں نے بھرائی آواز میں کہا۔
’’پرنام سر!‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’کون؟‘‘ ان کی بھوئیں سکڑ گئیں۔
’’سر! آپ نے شاید مجھے نہیں پہچانا۔‘‘
ان کے ماتھے کے بل مزید گہرے ہو گئے۔ وہ ایسی بے تکلفی کے عادی نہیں تھے۔ ویسے آواز انہیں جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ انہوں نے قدرے درشت لہجے میں پوچھا۔
’’کون ہیں آپ؟‘‘
’’سر میں یک لویہ بول رہا ہوں۔ آپ کا ایکس اسٹوڈنٹ، یک لویہ ہرنیہ دھنش۔‘‘
’’یک لویہ۔۔۔؟‘‘ وہ یک بیک سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان کی پیشانی کے بل ڈھیلے پڑ گئے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
’’کہاں سے بول رہے ہو؟‘‘انہوں نے اپنے لہجے کو حتی الامکان پرسکون بناتے ہوئے پوچھا۔
’’یہیں شہر میں ہوں سر!‘‘
اگرچہ ان کے ذہن میں ایک ہیجان برپا تھا لیکن وہ خاموش رہے۔
’’سر! میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
دروناچاریہ چند لمحے تک کچھ سوچتے رہے۔ دس برس سے جس کا خیال انہیں رہ رہ کر ہانٹ کرتا رہا تھا، آج وہ ان سے مخاطب تھا۔ جواب نہ پا کر دوسری طرف سے پھر آواز آئی۔
’’اگر آپ کی اِچھا نہ ہو تو کوئی بات نہیں سر، پھر کبھی۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔‘‘ دروناچاریہ نے ریسیور رکھ دیا۔ ان کا تجسس اضطراب میں بدلتا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے، دس برس بعد اچانک یہ کہاں سے وارد ہو گیا؟ کہاں تھا اتنے برس؟ کیا کرتا رہا؟ انگوٹھے کے بغیر اس کے شب و روز کیسے گزرے؟ ایک کے بعد ایک سوال ان کے ذہن پر دستک دے رہے تھے مگر کسی بھی سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر اسٹڈی میں ٹہلنے لگے۔ ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا تھا۔ یک لویہ سے متعلق دس برس پہلے کی باتیں انہیں یاد آنے لگیں۔ کئی منظر ابھرے، ہر منظر ایک فلیش کی طرح چمک کر معدوم ہو جاتا۔ آخری منظر یاد آتے ہی وہ ٹہلتے ٹہلتے رک گئے۔ کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ پورا کمرہ سرخ رنگ سے بھر گیا تھا۔ ’کھچ کھچ‘ کی آواز کے ساتھ چاروں طرف سے بے شمار انگوٹھے کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ یک لویہ کے چہرے کے نقوش ان کے تصور میں ابھرنے لگے۔ حیرت انگیز طور پر اس کا چہرہ پرسکون تھا۔ آنکھوں میں درد کا شائبہ تک نہ تھا۔ نہ چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ الٹا وہ مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔ لیجئے میں نے تو آپ کی آگیہ کا پالن کر دیا۔ اب آپ کیا کریں گے؟ سچ مچ اس کے بعد وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکے۔ اس نے انہیں کچھ کرنے کا موقع ہی کہاں دیا تھا۔۔۔ اور اب دس برس بعد۔۔۔
اتنے میں نوکر نے آ کر اطلاع دی کہ کوئی ان سے ملنے آیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے ایک وزیٹنگ کارڈ ان کی طرف بڑھا دیا۔ وزیٹنگ کارڈ پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر یک لویہ ہرنیہ دھنش۔۔۔ نیچے لکھا تھا، فزیشین اینڈ سرجن، ساتھ ہی کئی ڈگریاں درج تھیں۔ پتا لندن کا تھا۔ دروناچاریہ چکرا گئے۔ نوکر حکم کے انتظار میں کھڑا انہیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے ہڑبڑا کر کہا۔
’’انہیں۔۔۔ بٹھاؤ، ہم آ رہے ہیں۔‘‘
نوکر چلا گیا۔ دروناچاریہ نے ایک بار پھر غور سے کارڈ کو دیکھا۔ کارڈ پر بالکل صاف صاف حرفوں میں ڈاکٹر یک لویہ ہرنیہ دھنش۔ فزیشین اینڈ سرجن لکھا ہوا تھا۔ اور نیچے چونٹیوں کی قطار کی طرح ڈگریوں کی لائن تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ بڑبڑائے۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے واش روم میں گئے۔ ہاتھ منہ دھویا، آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ ایک تھکا تھکا سا جھریوں دار چہرہ انہیں گھور رہا تھا۔ آج پہلی بار انہیں محسوس ہوا وہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔
تیار ہو کر جب انہوں نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا تو انہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایک لمبی مسافت طے کر کے آئے ہیں۔
ڈرائنگ روم میں کوئی پاؤں پر پاؤں رکھے صوفے پر نیم دراز اخبار پڑھ رہا تھا۔ ان کے قدموں کی آہٹ سن کر وہ چونکا۔ ان پر نظر پڑتے ہیں یکلخت کھڑا ہو گیا۔ انہیں اسے پہچاننے میں قدرے دقت ہوئی مگر وہ سچ مچ یک لویہ ہی تھا۔ پہلے کافی دبلا پتلا تھا۔ لیکن اب جسم متناسب ہو گیا تھا۔ اس کے سانولے رنگ پر کریم کلر کا سوٹ بہت کھِل رہا تھا۔ جس پر نیلے رنگ کی ٹائی اس کی شخصیت کو مزید جاذب بنا رہی تھی۔ اس کے سیاہ چمکیلے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے اور آنکھوں پر سنہری فریم کی خوبصورت عینک تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب آسودہ سی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ ان نے دونوں ہاتھ جوڑ کر انہیں پرنام کیا۔ ان کی نظریں اس کے ہاتھوں کو ٹٹولنے لگیں مگر وہ جو دیکھنا چاہتے تھے وہ نہیں دیکھ سکے کیونکہ اس کے دونوں ہاتھوں میں دستانے تھے۔ یک لویہ نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے۔ دروناچاریہ عادتاً صرف ہاتھ اٹھا کر رہ گئے۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ دروناچاریہ اب بھی بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ یک لویہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ کیسے ہیں سر!‘‘
’’آں۔۔۔ اچھا ہوں۔‘‘ دروناچاریہ نے چونک کر کہا۔ پھر سنبھل کر بولے۔
’’اور تم؟۔۔۔ کہاں تھے اتنے برس؟‘‘ اس کا وزیٹنگ کارڈ اب بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر وزیٹنگ کارڈ پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا۔ ’’یہ کارڈ تمہارا ہی ہے نا؟‘‘
یک لویہ مسکرا رہا تھا۔ ’’یس سر۔۔۔‘‘
’’میں کل منعقد ہونے والی کانفرنس میں لندن کے ڈیلی گیشن کے ساتھ آیا ہوں سر! کل کانفرنس کے بعد مجھ سے درخواست کی گئی ہے کہ میں ایک اوپن ہارٹ سرجری کا ڈِمانسٹریشن کروں جسے تمام چینلز پر بیک وقت ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔‘‘
’’بٹ ہاؤ اِز اِٹ پاسِبل؟‘‘ دروناچاریہ نے ایک بار پھر دزدیدہ نگاہوں سے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا جو اب بھی دستانوں میں چھپے تھے۔ یک لویہ نے ایک لمحہ توقف کیا پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا نہایت اعتماد سے بولا۔
’’سر! زندگی شطرنج کا کھیل ہے۔ شطرنج میں ایک بار مات کھانے والا دوسری بازی کھیلتے ہوئے زیادہ چوکس رہتا ہے۔ اس لیے ایک ہی چال سے کسی کو دوبارہ مات نہیں دی جا سکتی۔ ماضی میں آپ نے ایک چال چلی اور مجھے مات دے دی تھی۔ ساڑھے تین ہزار برس کے بعد آپ نے پھر وہی چال چلی اور یہیں آپ مات کھا گئے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ دروناچاریہ کے لہجے میں خوف، تجسس اور حیرت کی ملی جلی کیفیت تھی۔
’’سر! آپ نے سناتن پرمپرا کے انوسار گرو دکشنا میں مجھ سے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا مانگا تھا۔ سو میں نے دے دیا۔ مگر آپ کو شاید نہیں معلوم کہ میں یسیاری ہوں۔ میں اپنے سارے کام بائیں ہاتھ سے کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ سرجری بھی۔۔۔ میرے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا آج بھی سلامت ہے۔‘‘
دروناچاریہ آنکھیں پھاڑے حیرت اور تشویش سے اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے یک لویہ کے سر پر اچانک سینگ نکل آئے ہوں۔
اس کے بعد انہیں یاد نہیں کہ یک لویہ کب تک ان کے پاس بیٹھا رہا اور اس نے ان سے کیا باتیں کیں۔ جب وہ رخصت لے کر چلا گیا تو وہ اٹھے۔ تھکے تھکے قدموں سے اسٹڈی میں گئے اور وہ تمام نوٹس جو انہوں نے کل کے صدارتی خطبے کے لیے تیار کیے تھے، پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیے۔
٭٭٭