ہم اہلِ “زاویہ“ کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جب ہم میز کے گرد جمع ہو رہے تھے تو ہم دریاؤں، پانیوں اور بادلوں کی بات کر رہے تھے اور ہمارے وجود کا سارا اندرونی حصہ جو تھا وہ پانی میں بھیگا ہوا تھا اور ہم اپنے اپنے طور پر دریاؤں کے منبعے ذہنی طور پر تلاش کر رہے تھے کیونکہ زیادہ باہر نکلنا تو ہمیں نصیب نہیں ہوتا۔ جغرافیے کی کتابوں یا رسالوں ، جریدوں کے ذریعے ہم باہر کی دنیا کے بارے معلوم کرنا چاہتے ہیں اور معلوم کر بھی لیتے ہیں۔ دریاؤں کی باتیں جب ہو رہی تھیں تو میں سوچ رہا تھا کہ دریا بھی عجیب و غریب چیز ہیں اور ان کو کیسے پتہ چل جاتا ہے، نہ ان کا کوئی نروس سسٹم ہے نہ دماغ ہے پھر کس طرح سے دریا کو پتہ چل جاتا ہے کہ سمندر کس طرف ہے اور اسے ایک دن جا کے ملنا ہے، بغیر کسی نقشے کے۔ دریا بغیر کسی سے پوچھے رواں دواں ہے اور کہیں اگر اس کے دو حصے ہو جاتے ہیں تو دونوں چکر کاٹ کے مل کے پھر سمندر ہی کی طرف محوِسفر رہتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے دریا کی کوئی شاخ کسی ایسے مقام پر رک جاتی ہے جہاں بہت ہی سنگلاخ چٹان ہو اور وہ شاخ اس سے سر ٹکراتی ہے اور وہاں سر پھوڑتی ہے کہ مجھے مت روکو، مجھے جانے دو اور سنگلاخ چٹان اسے کہتی ہے کہ میں تو سوا کڑوڑ سال سے یہاں کھڑی ہوں، میں کیسے ایک طرف کو ہٹ جاؤں۔ وہ بھی ( دریا کی شاخ) ضدی ہوتی ہے اور کہتی ہے اگر تو مجھے نہیں گزرنے دے گی تو میں بھی یہاں کھڑی ہوں، چناچہ دریا کے اس پانی کے ساتھ جو اس سنگلاخ چٹان کے ساتھ ٹکرا کر رک جاتا ہے کپڑے پڑ جاتے ہیں، وہاں بھینسیں آجاتی ہیں، گوبر جمع ہونے لگتا ہے، بدبودار اور مُتعَفَّن پانی گزرتا ہےاور اس کا وہ حصہ جو سفر پر رواں دواں تھا اور ایسی سنگلاخ چٹان آنے پر راستہ چھوڑ کے دوسری طرف سے گزر جاتا ہے وہ دریا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے، بالکل اسی طرح سے انسانی زندگی ہے جہاں انسان ضد میں آکر رکتا ہے، لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو پھر اس کے آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے جو بھی مقامات ہیں، مسدود ہو جاتے ہیں۔ آج سے بہت عرصہ پہلے، میرے خیال میں سو ڈیڑھ سو برس قبل کی بات ہے، لکھنؤ (بھارتی شہر) کے قریب ایک قصبہ “سندیلہ“ ہے وہاں کے لڈو اور شاعر مشہور ہیں۔ وہ شاعر بڑے اعلٰی پائے کے ہیں۔ لکھنؤ میں بھی بڑے شاعر تھے لیکن سندیلے کے شاعر اصلاح دیتے تھے اور اس کی اجرت وصول کرتے تھے۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ سندیلے میں بہت زبردست Drought یعنی خشک سالی ہو گئی اور وہاں کے نواب اور چھوٹی چھوٹی راج دھانیاں تمام کی تمام سوکھے ( خشک سالی) کا شکار ہو گئیں۔ اس قدر صورتِ حال خراب ہوئی کہ زمین کا کلیجہ خشکی سے پھٹنے لگا۔ جگہ جگہ پر پھٹی ہوئی زمین کے آثار نظر آنے لگے۔ ڈھور ڈنگر ( مویشی) مرنے لگے اور ان کے بڑے بڑے پنجر اور سینگ جگہ جگہ پڑے نظر آتے۔ پرندوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ گئے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے، لوگوں نے آ کر “ مکھیا“ سردار کے پاس شکایت کی۔ وہ مکھیا لڑکھڑاتا نواب کے پاس گیا کہ حضور لوگ گاؤں چھوڑ کر جانا چاہ رہے ہیں لہٰذا نمازِاستسقاء پڑھی جانی چاہئے کیونکہ اس طرح تو گاؤں ہی خالی ہو جائے گا۔ چناچہ نمازِ استسقاء ادا کی گئی لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا جس سے لوگوں کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ہندوؤں نے کہا کہ ہم اپنا“ ناکوس“ بجا کر اور بھجن گا کر بھگوان کو راضی کرتے ہیں شاید وہ بارش بھیج دے۔ انہوں نے اپنا پورا زور لگایا لیکن کچھ نہ ہوا۔ جب ڈھور ڈنگروں کے ساتھ انسان بھی مرنے لگے تو اس علاقے کی طوائفیں ( وہ سارے اترپردیش میں مشہور تھیں) اپنا چھوٹا سا گروہ لے کر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ جَنتا ( عوام) پر بہت کڑا اور برا وقت آیا ہے اور اس برے وقت میں ہم سب ماؤف ہو گئے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ایک بات آتی ہے اگر ہمیں اس کی اجازت دی جائے تو ہم شاید اس علاقے اور آپ لوگوں کی مدد کر سکیں۔ نواب صاحب نے کہا کہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ طوائفوں نے کہا کہ ہم بھی ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر کھلے میدان میں جا کر بیٹھیں گی اور ہم بھی کچھ گِریہ و زاری کریں گی لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی آدمی اس طرف نہ آنے پائے۔ ان کی وہ شرط منظور کر لی گئی۔ وہ اپنے قیمتی گھروں اور سونے چاندی کے زیورات اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا، اپنے بالا خانوں پر چھوڑ کر سیڑھیاں اتریں۔ انہوں نے سفید رنگ کی نیلی “کنی” والی دھوتیاں باندھی ہوئی تھیں۔ جیسے کلکتے والی خواتیں پہنتی ہیں۔ خاص طور پر جیسے مدر ٹریسا پہنتی تھیں۔( ایک چرواہے نے آنکھوں دیکھا حال بتایا تھا حالانکہ کسی مرد کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی) وہ جب اس مخصوص جگہ پر آئیں تو انہوں نے گڑگڑا کر اللہ سے درخواست کی اے خدا تو جانتا ہے ہمارے افعال کیسے ہیں اور کردار کیسا ہے اور ہم کس نوعیت کی عورتیں ہیں۔ تو نے ہمیں بڑا برداشت کیا ہے۔ ہم تیری بڑی شکر گزار ہیں لیکن یہ ساری مصیبت جو انسانیت پر بڑی ہے یہ ہماری یہ وجہ سے ہے۔ اس علاقے میں جو خشک سالی آئی ہے وہ ہماری موجودگی سے آئی ہے اور اس ساری خشک سالی کا “کارن“ ہم ہیں۔ ہم تیرے آگے سجدہ ریز ہو کر دل سے دعا کرتی ہیں کہ بارش برسا اور ان لوگوں اور جانوروں کو پانی عطا کر، تاکہ اس بستی پر رحم ہو اور ہجرت کر کے جانے والے پرندوں کو واپس آنے کا پھر سے موقع ملے اور وہ یہاں خوشی کے نغمے گائیں۔ چرواہا کہتا ہے کہ جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو اتنی گِھر کے سیاہ گھٹا آئی اور وہ چشمِ زدن میں بارش میں تبدیل ہو گئی اور ایسی زبردست موسلادھار بارش ہوئی کہ سب جل تھل ہو گیا اور وہ عورتیں اس بارش میں بھیگیں اور ان کی بغلوں میں چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں تھیں جنہیں لے کر وہ ایک طرف کو نکل گئیں۔ پھر کسی نے نہ ان کا پوچھا اور نہ ہی ان کا کوئی پتہ چلا کہ کہاں سے آئیں تھیں اور کہاں چلی گئیں۔ انہیں زمین چاٹ گئی یا آسمان کھا گیا لیکن ساری بستی پھر سے ہری بھری ہو گئی۔ ان طوائفوں کے گھروں کے دروازے کھلے تھے، لوگوں نے ایک دو ماہ تو جبر کیا لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا قیمتی سامان چرانا شروع کر دیا اور تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان کے گھروں سے بڑی دیر تک ایسی قیمتی چیزیں برآمد ہوتی رہیں اور اناڑی چور اور پکے چور کئی سال تک وہاں سے چیزیں لاتے رہے۔ ان کی یہ Sacrifice، ان کی یہ قربانی اور لوگوں کے ساتھ محبت اور تال میل اور گہری وابستگی کو جب میں آج کے تناظر میں دیکھتا ہوں اور آج میں اپنا اخبار پڑھتا ہوں تو مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ ہم جو پڑھے لکھے لوگ ہیں جو ان (طوائفوں) سے بہت آگے نکل کر پانی پر جھگڑا کرتے ہیں کہ اس صوبے نے میرے اتنے قطرے پانی کے چھین لئے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں نے تجھے اتنے قطرے زیادہ دے دئے۔ ان بیبیوں جیسی بلکہ بازاری بیبیوں جیسی کام کی بات نہیں کرتا اور ایسی کوئی بات کسی کے دل میں نہیں آتی اور کوئی بھی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ یہ پانی جو اللہ کی عطا ہے اور جو ہم کو جس قدر بھی مل رہا ہے اس کو بانٹ کے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ جب بھی ایسی خبریں دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں اور دل میں ان طوائفوں سے منسوب اس کہانی کا پس منظر آجاتا ہے، تو میں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہم جو بہت اچھے بھلے اور پاکیزہ لوگ ہیں ان طوائفوں کی قربانی کے جذبے کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں۔ تو مجھے ہر طرف سے چہروں پر نفی کے آثار ملتے ہیں کہ نہیں ……! ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم کیسے اس Source کو ڈھونڈ سکیں اور پانی کے اس منبعے تک پہنچ سکیں جو ہماری روحوں کی آبیاری کرے لیکن یہ ہو نہیں پاتا۔ اس کی طرف ہم جا نہیں سکتے۔
بہت ممکن ہےکہ میرے پیارے مہمانوں (حاضرینِ زاویہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میں سے کوئی مجھے تھوڑی سی Guidance اس حوالے سے عطا کرے کہ کس طرح سے ہم اس منزل تک پہنچ سکیں جس منزل تک وہ پاکیزہ بیبیاں ایک ہی فیصلے پر پہنچ گئیں۔
(پروگرام میں سوال و جواب کا سیشن شروع ہوتا ہے)
اشفاق صاحب سوال کرتے ہیں۔ شہزاد صاحب وہ بیبیاں ایک ہی فیصلے پر پہنچ گئیں۔ اس حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟
شہزاد صاحب:- آپ نے یہ جو سوال اٹھایا ہے یہ آپ کے لئے بھی بہت مشکل سوال ہے اور ہم سب کے لئے بھی مشکل ہے۔ اصل میں جو کہانی آپ نے بیان کی، اس کے جو معانی میرے ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم سب اپنے اپنے گناہوں اور اعمال کی ذمہ داری قبول کریں اور پھر اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنی ہی اصلاح کریں بلکہ کسی بہت بڑی قربانی کے لئے تیار ہو جائیں اور یہ گلہ نہ کریں کہ کس کو کتنا پانی ملا اور کس کو کتنا پانی نہیں ملا۔ اس سے ایک ایسی بارش ہو سکتی ہے جو ہم سب کو سیراب کردے۔
اشفاق احمد صاحب:- ہماری اس محفل میں ڈاکٹر توفیق صاحب بھی موجود ہیں۔ ان کے پاس بھی بڑے مریض آتے ہیں اور یہ بڑے نیکی کے کام کرتے ہیں۔ ان سے بھی پوچھا جائے کہ ہم میں کس طرح سے وہ جذبہ پیدا ہو جو آپ میں ہے کیونکہ میں نے آپ کو لگن اور محنت سے کام کرتے دیکھا ہے جبکہ اس کے برعکس ہم رکتے اور گھٹتے ہیں۔ ہم بھی پھیلنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر توفیق:- میرا خیال ہے کہ ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں اور ایک دوسرے سے جو توقعات ہم رکھ رہے ہیں، ان توقعات کا دائرہ بھی جانچیں اور ایک دوسرے کو چیزیں دینے کی ہمت بھی رکھیں۔ صرف لینے پر ہی مُصِر نہ رہیں۔ جب یہ سارے جذبے ہم میں آ جائیں گے تو ہم مل بیٹھ کر پانی کے قطروں کو جو بھی ہمارے پاس ہیں ، ان کو خوش اسلوبی سے بانٹ لیں۔
اشفاق احمد:- پروین اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
پروین صاحبہ:- میں سمجھتی ہوں کہ میرا جو زاویۂ نظر ہے وہ یہ ہے کہ جیسے توفیق صاحب نے فرمایا کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں گے تو ہم قطرے بانٹیں گے مجھے یہ نہیں لگتا کہ میں اور آپ اس میں قصور وار ہیں یا (یہ) کہ ہم لوگ اپنی سطح پر غلطی پر ہیں۔ ہمیں ان عناصر کے مذموم مفادات کو پِن پوائنٹ کرنا ہو گا جو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور فوائد کے لئے اس طرح کی بانٹ یا اس طرح کی بندر بانٹ ہم کو سکھاتے ہیں۔ اگر ہم میں حُبُّ الوطنی کا جذبہ بیدار ہو جائے اور ہم سمجھیں کہ اتفاق اور محبت سے ہی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ وہ بیبیاں جن کی مثال دی گئی ہے وہ متحد ہو کر جنگل میں گئی تھیں اور ان کے دل میں درد تھا اور انہوں نے اپنا ذاتی فائدہ چھوڑ دیا تھا تب وہ مسئلہ حل ہوا تھا۔ ہمارے اوپر جو بھی مسائل آرہے ہیں وہ پانی کے ہوں یا اناج کے اس میں Vasted Interest کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔
اشفاق احمد:- چونکہ پانی کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ گلیشیئر کو پگھلا کر اپنے آئندہ مصارف کے لئے پانی حاصل کریں گے تو مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ ہم ناران جا رہے تھے کہ ہمیں یہ کہہ کر روک دیا کہ گلیشئیر کی کیفیت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو ایک دو دن یہاں بالاکوٹ میں قیام کرنا پڑے گا۔ بالا کوٹ میں تب ایسا کوئی ہوٹل نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ ممتاز مفتی صاحب بھی تھے۔ وہ کہنے لگے یار ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ مسافر مسجد میں وقت گزارتے تھے تو چلو کسی مولوی صاحب سے پوچھتے ہیں۔ ہم پانچ آدمی تھے مولوی صاحب کے پاس گئے۔ ان سے کہا کہ آپ کیا ہمیں مسجد میں رہنے کی اجازت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں جی کیوں نہیں۔ ادھر برآمدہ ہے، صف ہے، مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ایسی کوئی دری نہیں جو میں آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا۔ ہم نے کہا نہیں اس کی ضرورت نہیں ہمارے پاس Sleeping Bags ہیں۔ مولوی صاحب بھی وہ سلیپنگ بیگ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ یہ بڑی مزیدار چیز ہے کہ آدمی اس کے اندر گھس جائے اور سکون سے سو جائے۔ ہم ایک دو دن وہاں ویسے ہی سوتے رہے۔ ابھی ہمیں آگے جانے کی کلیئرنس نہیں مل رہی تھی۔ وہ مولوی صاحب بھی عجیب و غریب آدمی تھے۔ ان کے گھر کے دو حجرے تھے۔ ہم سے کہنے لگے ( ممتاز مفتی ان کے بڑے دوست ہو گئے) میرے ساتھ چائے پئیں وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے اور جس کمرے میں ہمیں بٹھایا اس میں ایک صندوقچی تھی بیٹھ کر جس پر وہ لکھتے تھے اور باقی صف بچھی ہوئی تھی۔ ممتاز مفتی تھوڑی دیر ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگے مولوی صاحب آپ کا سامان کہاں ہے، تو وہ کہنے لگے آپ ہم کو بتاؤ آپ کا سامان کدھر ہے؟ ممتاز مفتی کہنے لگے میں تو مسافر ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا میں بھی تو مسافر ہوں۔ کیا جواب تھا۔ اس طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب کا ایک خادم تھا، وہ اذان دیتا تھا۔ اس نے واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ اندر آکر کبھی ایک اور کبھی دوسری جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا۔ میں سمجھا کہ اسے کوئی خارش کا مرض لاحق ہو گا یا ایک “جھولے“ کا مرض ہو جاتا ہے اسے وہ ہو گا۔ وہ بار بار جیب دیکھتا تھا۔ اس سے مجھے بڑا تجسس پیدا ہوا۔ میں نے کہ مولوی صاحب آپ کا یہ خادم کیا بیمار ہے؟ کہنے لگے نہیں، اللہ کے فضل سے بہت صحت مند، بہت اچھا اور نیک آدمی ہے۔ میں نے کہا جی یہ ہر وقت جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولتا رہتا ہے۔ کہنے لگے جی یہ اللہ والا آدمی ہے اور خدا کے اصل بندے جو ہیں وہ ہر وقت جیبوں کی تلاشی لیتے رہتے ہیں کہ اس میں کوئی چیز تو نہیں پڑی جو اللہ کو نا پسند ہو۔ میں نے کہا ہم تو بڑے بدنصیب ہیں اور اس شہر سے آتے ہیں جہاں ناپسند چیزیں ہم جیبوں میں ہی نہیں دل کے اندر تک بھرتے ہیں اور بہت خوش بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح کے آدمی یا کردار جب پیدا ہونے لگیں گے تو پھر ظاہر ہے کچھ مشکلات دور ہوں گی اور یہ کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے اور ایک دوسرے کو جاننے کے لئے ہمیں شاید وقت درکار ہو یا ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگ ویسے نہ نظر آتے ہوں جیسے نظر آنے چاہئیں یا وہ Level ہم نے Create ہی نہ کیا ہو جو بڑے مہذب ملکوں نے کیا ہوا ہے یاجو ہمارے سامنے اور دیکھتے دیکھتے چائنا نے Create کر لیا ہے۔ ہمارے چودہ کروڑ افراد ایک طرف ہیں اور ہم جو مراعات یافتہ لوگ ہیں ہم نے انہیں خود سے الگ کیا ہوا ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی گہری کھائی ہے جو کبھی تو پانی سے بھر جاتی ہے اور کبھی سوکھ جاتی ہے، پانی سے خالی ہو جاتی ہے۔ اب اس مکالمے میں ہم عطاءالحق قاسمی سے پوچھتے ہیں کہ ہم وہ کونسا راستہ پکڑیں جس میں ہم لوگوں کو آسانیاں عطا فرمائیں اور یہ معاشرتی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں یہ پیدا نہ ہوں۔
عطاء الحق قاسمی:- اشفاق صاحب! آپ نے جو حقائق بیان کئے ہیں اور جو حکایت بیان کی ہے وہ اس قدر دلچسپ ہے اور اس میں اتنے معانی پوشیدہ ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ میں آپ ہی کی بات کو دھرانا چاہتاہوں کہ ہم 14کروڑ عوام سب بہت اچھے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کو چاہئے کہ اپنے آپ کو بُرا سمجھیں اور جاکر ان ہی بازاری عورتوں کی طرح گِریہ زاری کریں تب شاید ہمارا مسئلہ حل ہو جائے۔
اشفاق احمد:- عاصم قادری آپ بھی کچھ فرمائیں۔
عاصم قادری:- لوگ ایثار و قربانی کی شیئرنگ اور مل بانٹنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم لوگ ہر گھنٹہ ہر منٹ ایک ایسی بے یقینی اور غربت کی طرف چلتے چلے جا رہے ہیں جہاں پر سوچ کی Maturity ہم سے بہت دور ہے اور ہم میں چھین کے کھالینے کی حس بیدار ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اس مسئلے کو جو مسئلہ ہر دن ہمیں غربت اور بے یقینی کی جانب گھسیٹتا چلا جا رہا ہے اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اشفاق احمد:- ہمارے درمیان نیلم احمد تشریف رکھتی ہیں۔ وہ اس عہد کی بہت معتبر نوجوان افسانہ نگار اور قلم کار ہیں، اس سلسلے میں جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں ان کی بابت ان سے پوچھتے ہیں۔
نیلم احمد:- اشفاق صاحب کی بیان کرہ حکایت سے دو باتیں میرے ذہن میں آئیں۔ ایک یہ کہ جن خواتین کا انہوں نے تذکرہ کیا، انہیں معاشی طور پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن پھر بھی ان کے دل میں ایک مقصد تھا جس کی وجہ سے انہوں نے خدا سے دعا کی اور وہ ایک عظیم تر مقصد تھا۔ دوسری بات جو پانی کی ہے یہ مسئلہ روز اخباروں میں آتا ہے اور اس سے ہم کافی افسردہ بھی ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب میں Tolerance کی کمی ہے۔ برداشت کا مادہ شاید کم ہو گیا ہے اور ایک دوسرے کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی کافی کم ہے اس لئے اگر ہم میں سے کچھ قطرے کسی کو زیادہ مل جائیں یا کچھ کم تو ہم لوگ واویلا مچا دیتے ہیں جبکہ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اگر ایک صوبے کو پانی ملے گا اور دوسرے کو نہیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ سارے ملک کو پانی ملے گا اور فصلیں پیدا ہوں گی تو سب ہی خوشحال ہوں گے۔ (عطاءالحق قاسمی درمیان میں بولتے ہیں)
اشفاق صاحب اس حوالے سے ایک بہت ضروری بات میں کہنا چاہ رہا ہوں اور وہ اخباروں کے کردار کے حوالے سے ہے۔ اخبار اس ایشو کو جس طرح سے اٹھاتے ہیں میں سمجھتا ہوں، وہ بالکل قومی مفاد میں نہیں ہے۔ سیکرٹریوں کی جو میٹنگز ہوتی ہیں، یہ بات وہیں تک رہنی چاہئے جبکہ اس کے برعکس یوں لگتا ہے کہ دو صوبوں کی صف آراء ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال قطعاً قومی مفاد میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اخبارات کو اپنا کردار بہت احتیاط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔
اشفاق احمد:- آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اور گھوم پھر کر بات پھر اسی مرکز پر آ جاتی ہے کہ جب تک ہم میں تعلیم کا فقدان رہے گا اور جب تک تعلیم یافتہ لوگوں کی تربیت درست انداز، خطوط اور سطح پر نہیں ہو گی اس وقت تک ہم ایسی الجھنوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور اس میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو صاحبانِ اختیار و اقتدار ہیں اور جن کے ہاتھ اور قبضے میں لوگوں کی زندگیوں کی قدرت ہے ان کو دوبارہ اپنے آپ کو بھی درست کرنا چاہئے اور اس تعلیم کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اس حوالے سے تربیت کی واقعی ضرورت ہے۔ تربیت حاصل کرنے کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ میں تو اکثر ایک ہی بات کہا کرتا ہوں کہ جب تک آپ اپنے 14کروڑ بھائیوں کو ان کو عزتِ نفس نہیں لوٹائیں گے آپ پوری طرح سے بٹے رہیں گے اور کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ان کو ان کی عزت لوٹا دیجیئے اوران کو سلام کیجیئے۔ آپ کے گھر دانوں سے بھر جائیں گے اور آپ کی “چاٹیاں” مکھن سے لبریز ہو جائیں گی۔
آپ سے اجازت لوں گا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
پاکستان کی آواز فورمز سے لیاگیا
ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد
صالحہ رشید کی رپورٹ پریاگ راج ۹؍ نومبر ، پریس ریلیز ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو...