سیاسی موقع پرستی اس کا ایک سامنے کا اور کلبیت زدہ جواب ہے۔ مگر اس سے ایک اور، زیادہ بنیادی، سوال پیدا ہوتا ہے۔ سیاسی موقع پرستی نے اسے اپنے لیے کارآمد کیوں سمجھا؟
سرکاری طور پر پیش کی گئی تین وجوہات یہ ہیں: (۱)چین، (۲)پاکستان، اور (۳)مغرب کی منافقت کی پردہ دری۔
اگر انھیں جوں کا توں مان کر ایک ایک کر کے پرکھا جائے تو یہ تینوں وجوہات کسی حد تک چکرا دینے والی ہیں۔ میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ یہ تینوں حقیقی اِشوز نہیں ہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارے پرانے افق پر نئی بات صرف ایک ہے، اور وہ ہے ہندوستان کی موجودہ حکومت۔ ہمارے وزیرِ اعظم نے بیزار کن حد تک بناوٹی انداز میں امریکی صدر کے نام اپنے خط میں لکھا (اگر یہی کچھ لکھنا تھا تو خط لکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟) کہ ایٹمی آزمائشیں کرنے کے ہندوستان کے فیصلے کی وجہ “سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال” تھی۔ آگے چل کر اس خط میں چین کے ساتھ ۱۹۶۲کی جنگ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ “پچھلے پچاس سال میں ہمیں تین بار (پاکستان کی طرف سے) جارحیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور پچھلے دس سال سے ہم… خاص طور پر جموں اور کشمیر میں… دہشت گردی اور مسلح بغاوت کا سامنا کر رہے ہیں جسے اُس کی پشت پناہی حاصل ہے۔”
چین کے ساتھ جنگ پینتیس برس پرانی بات ہو چکی۔ سوائے اس کے کہ اس کے برعکس کسی بات کو ریاستی راز کی طرح ہم سے چھپایا جاتا رہا ہو، ہمارا تو یہی اندازہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کسی قدر بہتر ہوے ہیں۔ ایٹمی آزمائشوں سے چند روز پہلے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل فُو کوان یو ہندوستانی چیف آف آرمی اسٹاف کے مہمان تھے۔ ہم نے جنگ کا پتا دینے والی کوئی آوازیں نہیں سنیں۔
پاکستان کے ساتھ تازہ ترین جنگ ستائیس برس پہلے لڑی گئی تھی۔ ہاں، کشمیر میں یقیناً سخت اضطراب کا ماحول ہے اور بلاشبہ پاکستان شعلوں کو خوش ہو ہو کر ہوا دے رہا ہے۔ لیکن شعلوں کو ہوا دینے کے لیے یہ بھی تو ضروری ہے کہ شعلوں کا وجود ہو۔ لکڑیاں چٹخ رہی ہیں اور جلنے کو تیار ہیں۔ کیا ہندوستانی ریاست ذرا بھی ایمان داری کے ساتھ خود کو کشمیر کی صورتِ حال سے بری الذمہ قرار دے سکتی ہے؟ کشمیر ہی نہیں، آسام، تری پورہ، ناگالینڈ __ پورا شمال مشرقی خطہ __ جھاڑکھنڈ، اُتراکھنڈ، اور آگے چل کر پیش آنے والے دوسرے مسائل، یہ سب کسی گہرے مرض کی علامات ہیں۔ اور اس مرض کو ایٹمی میزائلوں کا رخ پاکستان کی طرف کر کے حل نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کے مسئلے کو بھی ایٹمی میزائلوں کا رخ پاکستان کی طرف کر کے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بےشک ہم الگ الگ ملک ہیں، لیکن ہمارے آسمان، ہماری ہوائیں، ہمارے دریا مشترک ہیں۔ کسی خاص دن ایٹمی دھماکے سے ہونے والے اثرات کہاں تک پہنچیں گے، اس کا انحصار اُس دن چلنے والی ہوا کے رخ اور بارش پر ہو گا۔ لاہور اور امرتسر میں محض تیس میل کا فاصلہ ہے۔ اگر ہم نے لاہور پر بم گرایا تو پورا پنجاب آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اگر کراچی پر بم گرایا تو گجرات اور راجستھان __ بلکہ بمبئی بھی __ جل اٹھے گا۔ پاکستان کے خلاف کسی ایٹمی جنگ کا مطلب خود اپنے خلاف جنگ ہو گا۔
جہاں تک سرکاری طور پر بیان کیے جانے والے تیسرے سبب __ مغربی منافقت کی پردہ دَری __ کا تعلق ہے، اس کی مزید پردہ دری کیسے ممکن ہے؟ دنیا کے کس معقول آدمی کو اس باب میں کسی قسم کا شک ہے؟ مغرب کی قوموں کی تاریخ دوسروں کے خون سے اسفنج کی طرح بھری ہوئی ہے۔ نوآبادیت، نسلی تفریق، غلامی، نسلی تطہیر، جراثیم کی جنگ، کیمیائی اسلحہ __ یہ سب اُنھیں کی ایجاد ہیں۔ اُنھوں نے قوموں کو تاخت و تاراج کیا، تہذیبوں کو تباہ کیا، پوری پوری انسانی آبادیوں کو ہلاک کیا۔ وہ لوگ دنیا کے اسٹیج پر بالکل ننگے، لیکن ہر قسم کی شرم سے عاری، کھڑے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ دولت، سب سے زیادہ غذا اور سب سے بڑے بم ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو ہم سب کو ایک عام دن کے اوقاتِ کار کے اندر اندر مٹا ڈالیں۔ میرا تو خیال ہے مغرب کے طرزِ عمل کو منافقت نہیں بلکہ دیدہ دلیری کہنا چاہیے۔
ہمارے پاس کم دولت اور کم غذا ہے اور ہمارے بم بھی ان کے مقابلے میں چھوٹے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس دوسری ہر طرح کی دولت ہے __ مسرت سے بھرپور، شمار نہ کی جانے والی دولت۔ ہم نے اپنی اس دولت کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ہمارے خیال کے بالکل برعکس ہے۔ ہم نے اس کو گروی رکھ دیا ہے۔ اس کو بیچ ڈالا ہے۔ اور کون سی شے حاصل کرنے کے لیے؟ ٹھیک اُن لوگوں کے ساتھ ایک معاہدے میں شریک ہونے کے لیے جن سے نفرت کا ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ وسیع نظر سے دیکھا جائے تو ہم انھیں کا کھیل، انھیں کے بتائے ہوے طریقے سے کھیلنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ ہم نے ان کی شرائط اور کھیل کے قواعد کسی چوں چرا کے بغیر مان لیے ہیں۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنا تو اس کے مقابلے میں کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا۔
مجموعی طور پر، میرے خیال سے یہ کہنا درست ہو گا کہ منافق ہم خود ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے ایک ایسا موقف ترک کر دیا جسے کسی طرح اخلاق پر مبنی کہا جا سکتا تھا: یہ کہ ہمارے پاس ٹیکنولوجی ہے، اگر ہم چاہیں تو بم بنا سکتے ہیں، لیکن ہم بم نہیں بنائیں گے۔ کیوں کہ ہم بموں پر یقین نہیں رکھتے۔
ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے اب اپنی اس بےتاب تمنا کا اظہار کر دیا ہے کہ ہمیں بھی سپر پاور ملکوں کے کلب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ (اور جب ہمیں اس کلب میں شامل کر لیا جائے گا تو ہم بڑی خوشی سے کلب کا دروازہ بند کر لیں گے اور دنیا میں امتیازی سلوک کے خلاف لڑنے کے تمام اصولوں پر لعنت بھیج دیں گے۔) ہندوستان کے لیے سپرپاور کے طور پر تسلیم کیے جانے کا مطالبہ اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا فٹ بال کے ورلڈکپ کے فائنل میں کھیلنے کا مطالبہ کرنا، صرف اس بنا پر کہ ہمارے پاس بھی گیند ہے؛ چاہے ہم نے فائنل کے لیے کوالیفائی نہ کیا ہو، اور ہمارے یہاں فٹ بال زیادہ نہ کھیلی جاتی ہو، اور ہمارے پاس فٹ بال کی ٹیم بھی نہ ہو۔
جب ہم نے اس میدان میں اترنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو بہتر یہ ہو گا کہ اس کھیل کے قواعد سیکھنے سے آغاز کریں۔ اور ان میں پہلا قاعدہ یہ ہے: اپنے سے بڑے کھلاڑیوں کو تسلیم کرو۔ بڑے کھلاڑی کون ہیں؟ وہی جن کے پاس زیادہ دولت ہے، زیادہ غذا ہے، زیادہ بم ہیں۔
دوسرا قاعدہ یہ ہے: ان کے مقابلے میں اپنی حیثیت کا تعین کرو۔ یعنی اپنی پوزیشن اور صلاحیتوں کا ایمان داری سے جائزہ لو۔ شمار کی جا سکنے والی چیزوں کے اعتبار سے اس جائزے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے:
ہم تقریباً ایک ارب انسانوں پر مشتمل قوم ہیں۔ ترقی کے لحاظ سے یو این ڈی پی کے انسانی ترقی کے انڈیکس میں شمار کیے گئے ۱۷۵ملکوں میں ہمارا نمبر ۱۳۸واں ہے۔ ہماری آبادی میں ۴۰کروڑ لوگ ناخواندہ ہیں اور انتہائی مفلسی کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ۶۰کروڑ سے زائد لوگ بنیادی سینی ٹیشن کی سہولتوں سے اور ۲۰کروڑ سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
اس طرح سرکاری طور پر بیان کیے گئے تینوں اسباب، ایک ایک کر کے، بالکل بےاصل ٹھہرتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو ملا دیا جائے تو ایک مسخ شدہ منطق سامنے آتی ہے۔ اور اس کا تعلق “اُن” سے نہیں، “ہم” سے ہے۔
ہمارے وزیرِ اعظم نے امریکی صدر کو جو خط لکھا اس کے کلیدی الفاظ “suffered” اور “victim” ہیں۔ یہی اس خط کا لب لباب ہے۔ یہی ہمارا کھانا اور پانی ہے۔ ہم خود کو ستم رسیدہ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ خود کو بے یار و مدد گار محسوس کرنا ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں ایک قوم کے طور پر اپنے وجود کا اس قدر خفیف احساس ہے کہ ہمیں مسلسل ایسے دشمنوں کی ضرورت رہتی ہے جن کے مقابلے میں رکھ کر ہم خود کو بیان کر سکیں۔ ہماری مروّجہ سیاسی دانش مندی کا مطالبہ ہے کہ ہماری ریاست کو تباہ ہونے سے بچنے کے لیے ایک قومی مظہر کی ضرورت ہے، اور کرنسی کو چھوڑ کر (اور ہاں، مفلسی، ناخواندگی اور الیکشنوں کو بھی چھوڑ کر) ہمارے پاس کوئی قومی مظہر نہیں ہے۔ یہی اصل قصہ ہے۔ یہی وہ راستا ہے جس پر چل کر ہم بم تک پہنچے ہیں۔ اپنے وجود کی تلاش میں۔ اگر ہمیں یہاں سے واپسی کا راستا چاہیے تو چند تکلیف دہ سوالوں کے ایمان دارانہ جواب تلاش کرنے ہوں گے۔ میں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ ایسا نہیں کہ یہ سوال اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھائے گئے۔ مگر ان سوالوں کے جواب ہم منھ ہی منھ میں بڑبڑاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انھیں کسی نے نہیں سنا ہو گا۔
کیا ہندوستانی شناخت نام کی کسی چیز کا وجود ہے؟
کیا ہمیں واقعی اس کی ضرورت ہے؟
کون مستند ہندوستانی ہے اور کون نہیں ہے؟
کیا ہندوستان خود ہندوستانی ہے؟
کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟
خود کو “ہندوستانی تہذیب” پکارنے والی کسی تہذیب کا وجود کبھی رہا ہے یا نہیں؟ آیا ہندوستان کبھی ایک ہم آہنگ تہذیبی وجود کبھی رہا ہے، ہے یا کبھی بن سکے گا؟ ان سوالوں کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ برصغیر میں صدیوں سے آباد لوگوں کے مختلف کلچروں کے مابین پائے جانے والے امتیازات پر زور دیتے ہیں یا مماثلتوں پر۔ ایک جدید قومی ریاست کے طور پر ہندوستان کی جغرافیائی حدبندی پہلی بار ۱۸۹۹میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے کی گئی تھی۔ ہمارا ملک، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں، برطانوی ایمپائر کے اہرن پر، تجارت اور انتظام کے نہایت غیر جذباتی اسباب کے تحت، ڈھالا گیا تھا۔ لیکن پیدا ہوتے ہی اس نے اپنے پیدا کرنے والوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔ تو پھر، کیا ہندوستان ہندوستانی ہے؟ یہ ایک دشوار سوال ہے۔ صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہم قدیم لوگ ہیں جو ایک جدید ملک میں رہنا سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جو بات ایک حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان ایک مصنوعی ریاست ہے __ ایک ایسی ریاست جسے حکومت نے، نہ کہ عوام نے، تخلیق کیا ہے۔ اسے نیچے سے اوپر کی جانب نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف قائم کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے باشندوں کی اکثریت (آج بھی) کسی نقشے پر اس ملک کی سرحدیں پہچاننے سے قاصر ہے، اور یہ بتانے سے کہ اس ملک کے کس حصے میں کون سی زبان بولی جاتی ہے یا کون سے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس ملک کی آبادی کے بیشتر لوگ اس قدر غریب اور غیر تعلیم یافتہ ہیں کہ اپنے ملک کی وسعت اور پیچیدگی کا سرسری سا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ دیہات میں رہنے والی زراعت پیشہ، مفلس اور ناخواندہ آبادی کا ریاست میں قطعی کوئی حصہ نہیں۔ اور کیوں ہو، کیسے ہو، جب کہ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ ریاست ہوتی کیا شے ہے؟ ان کے نزدیک ہندوستان محض ایک پُر شور نعرہ ہے جو الیکشن کے دنوں میں سنائی دیتا ہے۔ یا پھر سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے لوگوں کی بھیڑ جو رنگ برنگے کپڑے پہنے “میرا بھارت مہان” گایا کرتے ہیں۔
جن لوگوں کو ہندوستان کے ایک واحد، واضح اور ہم آہنگ شناخت پیدا کرنے سے دل چسپی ہے (بلکہ زیادہ درست یہ کہ جن کا مفاد اس عمل سے وابستہ ہے) وہ سیاست دان ہیں جن پر ہماری قومی سیاسی پارٹیاں مشتمل ہیں۔ اس کی وجہ جاننا نہایت آسان ہے؛ وہ اس شناخت پر خود قابض ہونا چاہتے ہیں۔ اس شناخت سے اپنی شناخت کو وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی قومی شناخت موجود نہیں ہے تو انھیں اس کو اختراع کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور ان سے کہنا ہو گا کہ اسے ووٹ دیں۔ یہ ان سیاست دانوں کا قصور نہیں؛ ان کے پیشے کی مجبوری ہے۔ یہ خرابی ہمارے مرکزی حکومتوں کے نظام میں مضمر ہے۔ یہ ہماری برانڈ کی جمہوریت کا پیدائشی نقص ہے۔ جاہل لوگوں کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی، ملک اتنا ہی غریب ہو گا اور سیاست دان اتنے ہی اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوں گے، اور قومی شناخت کیا ہونی چاہیے اس کے بارے میں ان کے خیالات اتنے ہی بد ہیئت ہوں گے۔ ایسی صورتِ حال میں ناخواندگی محض افسوسناک نہیں بلکہ باقاعدہ خطرناک ہے۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے لیے “قومی شناخت” کی کوئی قابلِ قبول صورت وضع کرنا دانش اور بصیرت رکھنے والے افراد کے لیے بھی نہایت دشوار کام ثابت ہوتا۔ ہر ہندوستانی شہری اگر چاہے تو خود کو کسی نہ کسی قسم کی اقلّیت کا حصہ قرار دے سکتا ہے۔ ہندوستان کی آبادی کو تقسیم کرنے والی یہ لکیریں افقی، عمودی، تہہ در تہہ، مدوّر، نیچے سے اوپر، اندر سے باہر اور باہر سے اندر جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ جب کوئی آگ لگائی جاتی ہے تو وہ ان میں سے کسی بھی لکیر کے ساتھ چلتی ہوئی کہیں بھی پہنچ سکتی ہے اور بے پناہ سیاسی توانائی خارج کر سکتی ہے۔ بالکل ویسی توانائی جیسی ایٹم کو پھاڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔
گاندھی نے اِسی توانائی کا استعمال کرنا چاہا تھا جب انھوں نے جادو کا چراغ رگڑ کر رام اور رحیم کو انسانی سیاست میں داخل ہونے اور برطانیہ کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ یہ ایک نازک، شاندار اور پُر تخیل جدوجہد تھی لیکن اس کے مقاصد سادہ اور واضح تھے، ہدف بالکل غیر مبہم اور سامنے تھا اور اُس ہدف کے چہرے پر سیاسی گناہ کی علامت بھی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ اُن حالات میں اس توانائی کو اپنا مرکز آسانی سے دستیاب ہو گیا۔ مشکل یہ ہے کہ اب حالات بالکل بدل چکے ہیں، مگر جن بوتل سے باہر ہے اور اندر واپس جانے کو تیار نہیں۔ (اسے اندر بھیجا جا سکتا ہے، لیکن کوئی اسے اندر بھیجنے پر آمادہ نہیں، کیوں کہ یہ سب کے لیے کارآمد ثابت ہوا ہے۔) درست کہ اس نے ہمیں آزادی دلوائی، لیکن اسی کے باعث تقسیم ملک کے وقت فسادات بھی پیش آئے۔ اور اب، پہلے سے کہیں گھٹیا سیاست دانوں کے ہاتھوں میں، اسی جِن نے ہمیں ہندو ایٹم بم کا تحفہ دیا ہے۔
لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ گاندھی اور قومی تحریک کے دوسرے رہنماؤں کو وہ دانش حاصل نہ تھی جو ماضی کے تجربات سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں جان سکتے تھے کہ ان کی اختیار کردہ حکمت عملی کے آخری، طویل میعادی اثرات کیا ہوں گے۔ ان کو اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ صورت حال یوں پلک جھپکتے میں قابو سے باہر ہو جائے گی۔ وہ نہیں جان سکتے تھے کہ جب وہ یہ مشعل اپنے بعد آنے والوں کے ہاتھ میں دیں گے تو کیا ہو گا، اور نہ یہ کہ وہ ہاتھ کس قدر بد دیانت ثابت ہوں گے۔
زوال کا اصل آغاز اندرا گاندھی سے ہوا تھا۔ یہ وہی تھی جس نے بوتل کے اس جن کو مستقل سرکاری مہمان کا درجہ دیا۔ اسی کے ہاتھوں یہ زہر ہماری سیاسی شریانوں میں داخل ہوا۔ اسی نے ہماری مخصوص قسم کی سِفلہ موقع پرستی کو ایجاد کیا۔ اُسی نے دکھایا کہ کس طرح فرضی دشمن اختراع کیے جاتے ہیں، کیسے اُن خیالی ہستیوں پر آگ برسائی جاتی ہے جنھیں خاص اسی مقصد کے لیے احتیاط سے گھڑا گیا ہو۔ وہی تھی جس نے دریافت کیا کہ لاشوں کو کبھی دفن نہ کرنے کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں؛ وہ جب چاہتی ان متعفن ڈھانچوں کو باہر نکال کر پرانے زخم تازہ کر دیتی تھی۔ اُس نے اور اس کے بیٹوں نے مل کر ملک کو گھٹنوں کے بل جھکا دیا۔ ہماری نئی حکومت کے لیے صرف اتنا کام باقی رہ گیا کہ وہ ہمیں ٹھوکر مار کر اوندھا گرا دے اور ہماری گردن کلھاڑے کی زد پر رکھ دے۔
بعض اعتبار سے بھارتیہ جنتا پارٹی ایک ایسا عفریت ہے جسے اندرا گاندھی اور کانگریس نے تخلیق کیا۔ یا اگر آپ اتنے سفاک ہونا نہیں چاہتے تو یہ کہہ لیجیے کہ یہ وہ عفریت ہے جس نے اُن سیاسی خلاؤں اور فرقہ وارانہ شکوک میں خوراک اور پرورش پائی جنھیں کانگریس نے پیدا کیا اور بڑھایا تھا۔ اُس نے انتظامی سیاست کو ایک نئے رنگ میں رنگ ڈالا۔ جب اندرا گاندھی سیاست دانوں اور ان کی پارٹیوں کے ساتھ درپردہ کھیلوں میں مصروف تھی، تب اُس نے عام لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کانونٹ اسکولوں کے سے انداز کی خطابت تیار کر رکھی تھی جس میں پِٹے ہوے بلند بانگ الفاظ کی ریل پیل تھی۔ اس کے برخلاف بی جے پی نے اپنی آگ سیدھے سڑکوں پر اور لوگوں کے گھروں اور دلوں میں بھڑکانے کا انتخاب کیا۔ وہ دن دہاڑے وہی سب کچھ کرنے کو تیار ہے جو کانگریس صرف رات میں کرنا پسند کرتی ہے۔ جو باتیں پہلے ناقابلِ قبول سمجھی جاتی تھیں (مگر اس کے باوجود کی جاتی تھیں) ان کو جائز بنانے کو تیار ہے۔
یہاں شاید منافقت کے حق میں ایک کمزور سا مقدمہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ کیا کانگریس کی منافقت سے، اس حقیقت سے کہ وہ لوگ اپنے شرمناک افعال کھلم کھلّا نہیں بلکہ چوری چھپے انجام دیتے ہیں، یہ معنی نکالے جا سکتے ہیں کہ کہیں احساسِ جرم کی کوئی ہلکی سی رمق موجود ہے؟ گزری ہوئی شائستگی کی خفیف سی جھلک؟
درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔
یہ میں کیا کر رہی ہوں؟ امید کے ذرا ذرا سے چیتھڑوں کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہوں؟
یہ سب کچھ جس طرح پیش آیا ہے __ بابری مسجد کے ڈھائے جانے کے سلسلے میں بھی اور ایٹم بم بنانے کے معاملے میں بھی __ اس کی اصل یہ ہے کہ کانگریس نے بیج بوئے اور فصل تیار کی، پھر بی جے پی منظر پر نمودار ہوئی اور اس نے یہ مہیب، تیّار فصل کاٹ لی۔ یہ دونوں __ کانگریس اور بی جے پی __ رقص کے ساتھی ہیں، ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹے ہوے۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ ایک دوسرے سے اختلافات کا کتنا ہی اظہار کیوں نہ کریں۔ ان دونوں نے مل کر ہمیں یہاں، اِس دہشت ناک مقام پر پہنچا دیا ہے۔
وہ قہقہے لگاتے، ہنگامہ کرتے نوجوان جنھوں نے بابری مسجد کو مسمار کیا تھا وہی ہیں جن کی تصویریں ایٹمی آزمائشوں کے اگلے دن اخباروں میں شائع ہوئیں۔ یہ وہی تھے جو سڑکوں پر ہندوستان کے ایٹم بم کی خوشی منا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ کوک اور پیپسی کے کریٹ خالی کرتے ہوے “مغربی کلچر” کی مذمت بھی کرتے جا رہے تھے۔ میں ان کی منطق سے چکرا کر رہ جاتی ہوں: کوک تو مغربی کلچر ہے، اور ایٹم بم غالباً ایک قدیم ہندوستانی روایت ہے؟
ہاں، میں نے یہ بات سن رکّھی ہے __ کہ بم کا ذکر ویدوں میں موجود ہے۔ ممکن ہے ہو، لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو شاید وہیں کہیں کوک کا ذکر بھی دکھائی دے جائے گا۔ تمام مذہبی متنوں کی یہی تو بڑی خوبی ہے۔ آپ ان میں جو چاہیں تلاش کر سکتے ہیں، بشرطے کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کو کس شے کی تلاش ہے۔
لیکن ویدوں کے بہت بعد ۱۹۹۰کی دہائی میں واپس لوٹتے ہوے: سفید فام اندازِ فکر کے قلب میں داخل ہو کر ہم نے مغربی سائنس کی بدترین ایجاد کو سینے سے لگا لیا۔ لیکن ان کی موسیقی، ان کی غذا، ان کا لباس، ان کا سنیما اور ان کا ادب ہمارے احتجاج کا ہدف بنا ہوا ہے۔ اسے منافقت نہیں کہا جاتا۔ یہ مزاح ہے۔
یہ ایک ایسا مذاق ہے جو کسی کھوپڑی کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ لے آئے۔
ہم دوبارہ اُسی دُخانی جہاز پر سوار ہیں۔ ناتسی ایس ایس کی مستند آریائی اور مستند ہندوستانی شناخت کے جہاز پر۔
اگر استناد دوست (یعنی قوم دشمن) تحریک کا چلایا جانا لازمی ہے تو حکومت کو تاریخ کا درست علم اور حقائق کی صحیح پہچان تو ہونی چاہیے۔ اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو پھر کیوں نہ ٹھیک سے کیا جائے۔
سب سے پہلی بات یہ کہ اس خطّے کے اصل رہنے والے ہندو نہیں تھے۔ ہندومت قدیم ضرور ہے، لیکن انسان اس زمین پر ہندومت کے پیدا ہونے سے پہلے بھی موجود تھا۔ ہندوستان کے آدی واسی قبائلیوں کا دعویٰ اِس سرزمین پر بسنے والے تمام دوسرے گروہوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ اور ان اصل باشندوں کے ساتھ ریاست اور اس کے کارندوں نے کیا سلوک کیا؟ انھیں کچلا گیا، دھوکا دیا گیا، ان سے ان کی زمین چھین لی گئی اور انھیں فالتو چیزوں کی طرح سامنے سے ہٹا کر کونے میں پھینک دیا گیا۔ مستند ہندوستان کے سلسلے میں چلائی جانے والی کسی تحریک کا صحیح نقطۂ آغاز یہ ہو گا کہ ان کو وہ عزت واپس دی جائے جو کبھی ان کو حاصل تھی۔ غالباً ہماری حکومت یہ واضح اعلان کر سکتی ہے کہ دریائے نرمدا پر سردار سرووَر ڈیم جیسے ڈیم اور نہیں بنائے جائیں گے اور انسانی آبادیوں کو ان کے مقام سے نہیں ہٹایا جائے گا۔
مگر ظاہر ہے، یہ بات ناقابلِ تصور ہو گی۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ عملی طور پر ناممکن ہے۔ کیوں کہ آدی واسیوں کی دراصل کوئی اہمیت نہیں۔ ان کی تاریخ، ان کے رسم و رواج، ان کے دیوی دیوتا سب فالتو چیزیں ہیں۔ ان کو چاہیے کہ اپنی ان چیزوں کو قوم کی وسیع تر بھلائی کے لیے قربان کرنا سیکھیں (اُسی قوم کی بھلائی کے لیے جس نے ان سے ان کا سب کچھ چھین لیا ہے۔)
چلیے، ان کا قصہ تو یوں پاک ہوا۔
رہیں باقی چیزیں، تو میں ایک جامع عملی فہرست تیار کر سکتی ہوں کہ کن کن چیزوں پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور کن کن عمارتوں کو ڈھایا جانا چاہیے۔ مکمل فہرست تیار کرنے کے لیے تھوڑی سی تحقیق درکار ہو گی، لیکن چند تجاویز تو میں بغیر تیاری کے بھی پیش کر سکتی ہوں۔
وہ لوگ اپنے کام کا آغاز ہماری غذا میں شامل بیرونی اشیا کو خارج کر کے کر سکتے ہیں: مرچ (میکسیکو)، ٹماٹر (پیرو)، آلو (بولیویا)، کافی (مراکش)، چائے، سفید شکر اور دارچینی (چین)… اس کے بعد وہ غذا تیار کرنے کے طریقوں کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔ مثلاً دودھ اور شکر والی چائے (برطانیہ)۔
تمباکو نوشی کا تو ظاہر ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تمباکو شمالی امریکا سے آیا تھا۔
کرکٹ، انگریزی زبان اور جمہوریت پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ کرکٹ کی جگہ کبڈی یا کھوکھو کو دی جا سکتی ہے۔ میں کوئی جھگڑا کھڑا نہیں کرنا چاہتی اس لیے انگریزی کا متبادل تجویز کرتے ہوے مجھے ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ (اِطالوی؟ … آخر یہ زبان ہم تک زیادہ محبت بھرے راستے سے پہنچی ہے۔ شادی سے نہ کہ امپریلزم سے۔) جہاں تک جمہوریت کے نمودار ہوتے ہوے، اور بظاہر سب کے لیے قابلِ قبول، متبادل کا سوال ہے، اس کا ذکر پہلے (اسی مضمون میں) آ چکا ہے۔
وہ تمام اسپتال جن میں مغربی طب کے طریقے استعمال یا تجویز کیے جاتے ہیں، بند کر دینے چاہییں۔ تمام قومی اخبارات کی اشاعت روک دینی چاہیے۔ ریلوے لائنوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ ایرپورٹ بند کر دینے چاہییں۔ اور ہمارے تازہ ترین کھلونے __ موبائل فون __ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا ہم اس کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ یا مجھے اس کے سلسلے میں استثنیٰ کی تجویز پیش کرنی چاہیے؟ اسے غالباً “یونیورسل” کے خانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ (اس خانے میں صرف بنیادی ضرورت کی اشیا رکھی جائیں گی؛ موسیقی اور ادب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔) یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے امریکی یونیورسٹیوں میں بھیجنا یا اپنا پروسٹیٹ نکلوانے کے لیے خود امریکا جانا قابلِ سزا جرم ہو گا۔
عمارتوں کو ڈھانے کی مہم راشٹر پتی بھون سے شروع کی جائے اور رفتہ رفتہ اسے شہروں سے دیہاتوں تک پھیلایا جائے اور راستے میں آنے والی ان تمام یادگاروں (مسجدوں، گرجا گھروں اور مندروں) کو تباہ کر دیا جائے جو اُس زمین پر تعمیر کی گئیں جو کبھی قبائلی یا جنگلی زمین تھی۔
یہ ایک طویل، بہت طویل فہرست ہو گی۔ اسے تیار کرنا ہی برسوں کا کام ہے۔ اور اس کی تیاری میں مجھے کمپیوٹر کی مدد بھی حاصل نہیں ہو گی، کیوں کہ ظاہر ہے یہ تو کوئی مستند ہندوستانی طریقہ نہیں ہو گا۔
میں مذاق کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتی، صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہوں کہ یہ راستا جہنم میں جانے کے شارٹ کٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “مستند ہندوستان” یا “اصل ہندوستانی” نام کی کسی شے کا وجود نہیں ہے۔ ایسی کوئی خدائی کمیٹی نہیں ہے جو ہندوستان یا ہندوستانیت کے کسی ایک روپ کو منظور شدہ روپ قرار دے کر یہ طے کر دے کہ اسے یہی ہونا چاہیے۔ کوئی مذہب، کوئی زبان، کوئی ذات، کوئی علاقہ، کوئی شخص، کوئی کہانی، کوئی کتاب ایسی نہیں جو ہندوستان کی واحد نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ ہاں، ہندوستان کے بارے میں مختلف وِژن ہیں، اور ہو سکتے ہیں، اور ہندوستان کو دیکھنے کے مختلف طریقے ہیں __ ایمان دارانہ، بد دیانت، حیران کن، لغو، جدید، روایتی، مردانہ، زنانہ۔ ان پر بحث کی جا سکتی ہے، ان پر تنقید ہو سکتی ہے، ان کی تعریف ہو سکتی ہے، ان پر طنز کیا جا سکتا ہے، لیکن ان میں سے کسی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، نہ ان میں سے کسی کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کو دھمکا کر خاموش بھی نہیں کرایا جا سکتا۔
ماضی کے خلاف زہر اگلنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ ماضی ان واقعات پر مشتمل ہے جو پیش آ چکے ہیں۔ یہ وہ باب ہے جو بند ہو چکا۔ جو راستا مستقبل کی طرف جاتا ہے اس کی سمت بدلنے کے لیے ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ ماضی کی جن چیزوں سے ہمیں محبت ہے اُن کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ جن چیزوں سے ہمیں نفرت ہے اُن کو تباہ کرنے کی کوشش کریں۔ ہماری اس سفاک، مجروح دنیا میں بھی حُسن موجود ہے __ پوشیدہ، شدید اور فراواں۔ وہ حُسن جو بلا شرکت غیرے ہمارا اپنا ہے اور وہ حُسن بھی جسے ہم نے وقار کے ساتھ دوسروں سے حاصل کیا ہے، اسے بڑھایا ہے، نئی اختراعات کر کے اسے سنوارا ہے، اسے اپنایا ہے۔ ہمیں حُسن کو تلاش کرنا ہو گا، اس کی پرداخت کرنی ہو گی، اس سے محبت کرنی ہو گی۔ بم بنا کر اس کو صرف تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس بم کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ بم ہمیں دونوں صورتوں میں تباہ کر ڈالے گا۔
ہندوستان کا ایٹم بم اُس حکمراں طبقے کی جانب سے حتمی غداری کا فعل ہے جس نے اپنے عوام کو دھوکا دیا ہے۔
ہم اپنے سائنس دانوں کو تعریف کے کتنے ہی ہاروں سے لاد دیں، ان کے سینوں پر کتنے ہی تمغے آویزاں کر دیں، حقیقت یہی ہے کہ بم بنانا بہت آسان کام ہے، چالیس کروڑ عوام کو تعلیم دینا اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔
رائے عامہ کے جائزے ہم سے یہ ماننے کی توقع کرتے ہیں کہ اس مسئلے پر قومی اتفاقِ رائے موجود ہے۔ اب تو یہ سرکاری موقف ہو گیا ہے __ ہر شخص بم سے محبت کرتا ہے (چناں چہ بم ضرور اچھی چیز ہے۔)
جو شخص اپنا نام تک نہیں لکھ سکتا، کیا اس کے لیے ایٹمی اسلحے کے بارے میں نہایت بنیادی، سادہ ترین حقائق تک کو سمجھ پانا ممکن ہے؟ کیا کسی نے اُس شخص کو اطلاع دی ہے کہ ایٹمی جنگ کا جنگ کے اُس تصور سے ذرا سا بھی تعلق نہیں جو قدیم زمانے سے اُس تک پہنچا ہے؟ کہ اس جنگ کا شجاعت اور عزت کے تصورات سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا کسی نے اس کو یہ سمجھانے کی زحمت اٹھائی ہے کہ تھرمل بلاسٹ، ریڈیو ایکٹو اثرات اور ایٹمی موسمِ سرما کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیا اُس شخص کی زبان میں ایسے لفظ ہیں جن کی مدد سے افزودہ یورینیم، فِسِل مٹیریل اور کرِیٹیکل ماس کے تصورات کو بیان کیا جا سکے؟ یا اُس کی زبان فرسودہ ہو گئی ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی؟ کیا وہ کسی ٹائم کیپسول میں بند، دنیا کو اپنے آس پاس سے گزرتا دیکھنے اور کچھ نہ سمجھ پانے، کسی شے سے رابطہ قائم نہ کر سکنے پر مجبور ہو چکا ہے، صرف اس لیے کہ اُس کی زبان اُن بھیانک چیزوں کو نام دینے سے قاصر ہے جنھیں بنی نوعِ انسان نے ایجاد کیا ہے؟ کیا اس شخص کے وجود کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا ہم اس کے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو ذہنی طور پر پسماندہ افراد کے ساتھ کرتے ہیں؟ کیا اُس کے سوالوں کا جواب ہم آیوڈین کی گولیاں کھانے کے مشوروں اور ان قصّے کہانیوں سے دیں گے کہ کس طرح بھگوان کرشن نے پہاڑی کو انگلی کی نوک پر اٹھا لیا تھا اور کس طرح ہنومان کے ہاتھوں لنکا کی تباہی رام اور سیتا کی نیک نامی قائم رکھنے کے لیے ناگزیر تھی؟ کیا ہم اُس کی اپنی ان خوب صورت اور پُر تخیل کہانیوں کو اُسی کے خلاف ہتھیاروں کے طور پر استعمال کریں گے؟ کیا ہم اسے صرف الیکشن کے وقت اس کے کیپسول سے باہر نکالیں گے، اور جب وہ ووٹ ڈال چکا ہو گا، اس سے ہاتھ ملا کر عوامی دانش کے بارے میں تھوڑی بہت بکواس کر کے اسے دوبارہ کیپسول میں ٹھونس دیں گے؟
ظاہر ہے، میں کسی ایک فرد کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ میں ان کروڑوں لوگوں کی بات کر رہی ہوں جو اس ملک میں رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ زمین اُن کی بھی ہے۔ اُن کو بھی مسئلے کے تمام پہلوؤں سے واقف ہو کر اس کی قسمت کے فیصلے میں شریک ہونے کا پورا حق ہے، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کسی نے اُن کو کسی بات کی اطلاع نہیں دی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی چاہے بھی تو ایسا نہیں کر سکتا۔ درحقیقت ایسی کوئی زبان ہی وجود نہیں رکھتی جس میں اُن کو یہ ہولناک باتیں سمجھائی جا سکیں۔ ہندوستان کی اصل دہشت ناک حقیقت یہی ہے۔ طاقت پر قابض افراد اور طاقت سے محروم لوگ اپنے اپنے مداروں میں ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے راستے ایک دوسرے کو قطع نہیں کرتے، ان کی کوئی چیز مشترک نہیں ہے __ نہ زبان، نہ ملک۔
وہ لوگ کون ہیں جنھوں نے رائے عامہ کے یہ جائزے مرتب کیے ہیں؟ وزیرِ اعظم کون ہوتا ہے یہ فیصلہ کرنے والا کہ کس کی انگلی ایک بٹن دبا کر ہماری ہر محبوب شے کو __ ہماری زمین، ہمارے آسمانوں، ہمارے پہاڑوں، ہمارے میدانوں، ہمارے دریاؤں، ہمارے شہروں اور گاؤوں کو __ لمحے بھر میں نیست و نابود کر دے؟ کون ہوتا ہے وہ ہمیں یہ تسلّی دینے والا کہ کوئی حادثہ رونما نہیں ہو گا؟ اُسے کیا پتا؟ ہم اُس پر کیوں اعتبار کریں؟ اُس نے کون سا ایسا عمل کیا ہے کہ وہ ہمارے اعتبار کا اہل بن سکے؟ کیا ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی کبھی ایسا کوئی کام کیا ہے کہ ہم ان پر اعتبار کر سکیں؟
ایٹم بم انسان کے ہاتھوں وجود میں آنے والی سب سے زیادہ جمہوریت دشمن، قوم دشمن، انسان دشمن، اور شیطانی چیز ہے۔
اگر آپ مذہب پر یقین رکھتے ہیں تو یاد رکھیے کہ ایٹم بم انسان کی طرف سے خدا کو دیا جانے والا چیلنج ہے۔
اس چیلنج کے الفاظ بالکل سادہ ہیں: تُو نے جو کچھ بنایا ہے اسے ہم تباہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اگر آپ مذہبی نہیں ہیں تو اس کو یوں دیکھ سکتے ہیں:
ہماری دنیا چار ارب ساٹھ کروڑ سال پرانی ہے۔
اور یہ محض ایک سہ پہر میں تباہ کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭