(Last Updated On: )
وہ جوان ……….جب روشن الاؤ کے قریب آیا تو دیکھنے والوں کو محسوس ہوا جیسے قیمتی سیاہ پتھر کا کوئی مجسّمہ حرکت میں آ گیا ہو۔ اس کے خدوخال تراشیدہ تھے اور آبنوسی بدن کی چمک الاؤ کے لپکتے شعلوں میں نامانوس رنگ تشکیل دے رہی تھی۔ چاندنی رات تھی ساحلی ہواؤں میں خنکی تھی اور کچھ ایسا سرور بھی کہ جیسے کائنات کے کئی عناصر ہم رکاب و ہم ذات ہو گئے ہوں۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ اُس جوان کے جسم کے اطراف ایک اَن دیکھا ہالہ ہے جو آشکار تو نہیں لیکن کشش ایسی کہ آس پاس کھڑے جوان، بزرگ بے اختیار کھنچتے ہوئے اس کے قریب آ رہے تھے۔ اُس میدان کے درمیان ایک جسیم ڈھول رکھا ہوا تھا جس کی طولانی غیر معمولی تھی اس پر قرمزی غلاف چڑھا ہوا تھا جس کی ریشمی جھالریں ہوا کی ہتھیلیوں سے سرکتی جا رہی تھیں، ڈھول کے دونوں سرے اونٹ کی کھال سے منڈھے ہوئے تھے۔
ایک خمیدہ، عمر رسیدہ غالباً نوّے کے سن کا ہو گا، آگے آیا اُس نے ڈھول کے قریب جا کے اگر بتّی سلگائی جس کی خوشبو ایک تبّرک کی طرح فضا میں پھیلنے لگی، پھر اس نے اپنی پوری قوت جمع کر کے ڈھول پر تھاپ دی، بس اسی لمحے جنوبی سندھ کی ہوائیں وجد میں آ گئیں، چند نوجوان بے تابانہ بڑھے اور ڈھول کو اپنے گھیرے میں لے لیا، ایک نے اپنا سر آسمان کی جانب اٹھایا اور ڈھول کے چمڑے پر رک رک کر ہلکی تھاپ دینے لگا، پھر یکلخت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے دَروبست سے ایسی ضرب ماری کہ وہاں موجود لوگوں کے دلوں کے تار کھنچ کے اُس ڈھول کی تھاپ سے جڑ گئے۔ دور نزدیک کھڑے قدم آگے کو اُٹھے اور ساون بھادوں کے موروں کی طرح بدمست ہو کے پہلے دھیرج دھیرج پھر وارفتگی سے جھومنے ناچنے لگے ساتھ ہی ڈھولکیا کے ہاتھ سے پڑتی تھاپ آوازہ توازہ کستی……….رمزو رموز کھولتی درجہ بدرجہ بڑھنے لگی اور وہ زنگی جوان جو اپنے غیر مرئی حسن سے اِس ہجومِ نا تراشیدہ پر پہلے ہی سحر پھونک چکا تھا اب میدان میں یوں تھا کہ جیسے آگ کا الاؤ تو بس ٹھنڈی راکھ ہو اصل الاؤ تو اس کی اپنی ذات ہو۔ جیسے جیسے اس کے قدموں کا گھماؤ پھراؤ بڑھ رہا تھا بے بیان حرارت و حرکت ہجوم میں سرایت کرتی جا رہی تھی …….. زنگی جوان اردو سندھی سرائیکی الفاظ کے مرکب سے ایک گیت کی بُنت کر رہا تھا، ساتھ ہی گیت کو سُر بھی دیتا جا رہا تھا وہ جادو کا کوئی منتر سا پھونک رہا تھا کہ واقعی یہ اس کی آواز ہی تھی جو انسانی حسّیات کو جسموں سے کھینچ کے ایسی تجسیم دے رہی تھی کہ سرکش ساحلی ہواؤں کے پار گمشدہ زمانے کسی ماورائی رستے سے نکل کے آئے اور گزرتے ہوئے وقت میں تحلیل ہو گئے۔ رفتہ رفتہ ہجوم کے سبھی بزرگ جوان بچے ہم آواز اور ہم رقص ہونے کی کوشش کرنے لگے لیکن جو یکساں عمل انہیں ایک مالا میں پُرو رہا تھا وہ ان کے آنسوؤں کی لڑی تھی جسے گاتے ناچتے اور ایک دوسرے کو پیار سے دیکھتے ہوئے وہ بہا رہے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے اجنبی ساحلوں کی ریت پر کالے نایاب موتی ایک دھاگے میں پروُ دیئے گئے ہوں دنیا کے کسی پردے کیا ٓڑ لے کر وہ اپنے سوختہ و بریدہ سینے شگاف کر کے ان میں بند اپنے رازوں بھرے بستے کھول رہے تھے، وہ بستے جنہیں وہ اپنے کندھوں پر کبھی نہ لٹکا سکے جن میں کسی بھولے بچھڑے کا خط نہ تھا لیکن ہجر زدہ حیاتِ رائیگاں کے بوجھ سے بھرا یہ بستہ ان کے سر کی طرح روحوں کو بھی سرنگوں کئے رکھتا تھا۔ یک بیک وہ دو دھڑوں میں منقسم ہوئے کہ جیسے صحرا میں دو بھٹکتے قافلے ناگہاں روبرو ہو جائیں اور حیرانگی وسراسیمگی سے ایک دوسرے سے بھٹک جانے کا مدّعا پوچھیں بس یونہی وہ گیت ہی گیت میں ایک دوسرے کے سامنے اپنے اپنے غم کے قرینے نبھانے لگے۔
او …..میرے بھائی کیا تو بھی غلام ابنِ غلام ہے؟
ہاں میرے بھائی میں بھی اُسی غلام منڈی میں بکا ہوں
جہاں میرے پرکھوں کے سودے ہوئے تھے
او …..میرے بھائی تجھے اپنا گمشدہ قبیلہ یاد ہے؟
ناں میرے بھائی مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں ڈھور ڈنگر ہوں یا انسان
اپنے پرکھوں کی مہجورو مقہور تاریخ کو یاد کرنے اور کروانے والا یہ شیدی غلام سارنگ تھا … رات سرد ہو رہی تھی اندھیرا گہرا … گیت کے سُرتال ان سب کے دلوں میں نیزے کی اَنی کی طرح چبھ رہے تھے لیکن جسموں کی لچک ترت پھرت ایسی تھی جیسے وہ آزاد پرندے ہوں اور گمشدہ ساحلوں کو پا لینے کے بعد اونچی اڑان بھر بھر کے ساحلی پانیوں میں غوطے مار رہے ہوں یک بیک ان میں سے کسی نے دہکتے الاؤ سے انگارے اچھال کے ان کی طرف کچھ اس طرح پھینکے کہ ان ناچتے پرندوں کے تھرتھراتے پیروں تلے آ کے بچھ گئے۔ آن کی آن میں ان کے ناچتے قدموں تلے ننگے تلوں سے وہ دہکتے انگارے ٹھنڈے ہو گئے ……..فضا میں سرخ انگارے اچھلتے رہے زمین پر پڑتے رہے ناچتے موروں جیسی مستی والے شیدی جو ان بچے بوڑھے رقصاں رہے۔ یہ زمین و آسمان یہ ساحل یہ ہوائیں انہیں حیرت سے تک رہی تھیں مگر وہ یہاں نہیں تھے سب کے سب کونجوں کے بھیس میں افریقہ کے سفید ساحلوں پر اتر چکے تھے۔
وہ ساحلِ غلامان تھا جہاں آج بھی اپنی جڑوں پر موجو دتناور درختوں کے موٹے تنوں پر زنگ آلود لوہے کی کڑیاں لٹک رہی تھیں اور ہواؤں کے زور سے بج رہی تھیں۔ وسطی افریقہ کے پُر امن ساحلی قصبوں سے اغواء کئے جانے والے یہ بے گناہ مرد و زن اور بچے دنیا کے ٹھگوں اور مقّدرات کی کج روی کے مابین ہونے والی سازش کا شکار ہو کے دربدری کی نذر ہوئے تھے ایک ہی گھر کا کوئی فرد مغرب کی اندھیری گلیوں میں بکاؤ مال بنا تو کوئی دوسرا فرد عربیہ کے عیاشوں کے ہتھے چڑھا تھا۔
ان کے علاقوں میں جاہ و منصب پر فائز سرداروں اور حاکموں کو ہمہ وقت یہ خطرہ لاحق رہتا تھا کہ ان کے مفتوح اہل جاہ قبائل بدلتے وقت کی کسی چال کو استعمال میں لا کے انہیں نیست ونابود نہ کر دیں۔ ظلم کے بطن میں خوف پلتا ہے اپنی نیستی کا خوف ظالم کو ظلم کے داؤ پیچ سکھاتا ہے۔ سو وہاں ایسا ہی ہوا تھا کہ ساحلوں پر لنگر انداز جہازوں سے برآمد ہونے والے اغیاروں نے اور وہاں کے اہلِ جاہ سرداروں نے ساز باز کر لی تھی ……حاکموں کو مفتوح قبائل کے معصوم لوگوں سے نجات بھی درکار تھی اور ان کے دام بھی …… پہلے ان کی بستیوں پر شب خون مارا جاتا یوں کہ ارد گرد کے جنگلوں میں آگ لگا دی جاتی تھی جب آگ بھڑکتی پھیلتی خوابیدہ قبائل کے گھروں کے دروازوں تک جا پہنچتی اور وہ جان بچانے کی بھگدڑ کی نذر ہو جاتے تو رات کے اندھیروں اور لپکتے شعلوں کے بیچ اہلِ منصب قبائل کے گماشتے انسانی جسموں کی تجارت کرنے والے دلّالوں کو اشارا کر دیتے تھے وہ ان بے سمت بھاگتے لوگوں کو گھیر کریا ورغلا کر ساحل پر لنگر انداز جہازوں کی طرف ہانکتے ہوئے لے جاتے پھر ان غلام منڈیوں میں انھیں بیچ دیتے جو مغرب سے لے کر عربیہ کے مشرقی ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھیں ان ساحلوں پر ایستادہ قدیم تناور درختوں سے لٹکتی لوہے کی موٹی کڑیوں میں پھنسی زنجیروں سے کئی نسلوں کے معصوم انسانوں کو غلام بنانے کے لیے قطار اندر قطار باندھا جاتا رہا تھا وہ ایسی سازش کی زد میں آتے چلے گئے تھے جو مغرب کے سفاک تاجروں کی منڈیوں سے لے کر عیاش شیخوں کی خوابگاہ تک پھیلی ہوئی تھی۔
سارنگ نے اپنے دادا سے تین چار صدیوں پر محیط اس داستانِ غلامان کو سنا تھا اور حسبِ توفیق یہی جانا تھا کہ دنیا میں بس دو ہی قبیلے ہیں ایک ظالم کا دوسرا مظلوم کا … باقی سب زیبِ داستاں ہیں۔
٭٭٭
بختاں نام کی اُس لڑکی کی پیشانی پر نسلوں کی غلامی کا اندھیرا تھا وہ شیدی اللہ وسایا کی مرحومہ بیوی کی پہلی اور آخری نشانی تھی۔ اللہ وسایا اسی کو دیکھ دیکھ کے جیتا تھا اس کا تعلق شیدی غلام سارنگ کی طرح وسطی افریقہ کے اُن قبائل سے تھا جن کی اکثریت مسلمان خاندانوں پر مشتمل تھی ان کے دریا، پہاڑ، لسانی و قبائلی پس منظر مشترکہ تھے بردہ فروشی کی منفعت بخش تجارت نے ان کے گھروں کی عزّتوں اور جانوں کو ایک ہی طرح سے برباد کیا تھا۔ دونوں کا خاندان ماضی میں وسطی افریقہ کے شکست خوردہ قبائلی جنگ بازوں پر مشتمل تھا پھر یہ شکست خوردگی ان کے مقدروں سے یوں جڑ گئی کہ وہ آزادی کے خواب دیکھنے کے قابل بھی نہ رہے لیکن قانونِ قدرت ہے کہ تخمِ خواب کی آبیاری سوکھی زمینوں پر ہی ہوتی ہے۔
شیدی اللہ وسایا، بڑے رئیس کے پالتو جانوروں کا خدمت گار تھا۔
بختاں بڑے رئیس کی اکلوتی چہیتی بیٹی شہزادی کی لونڈی تھی۔ لونڈیاں تو بہت تھیں لیکن بختاں کا ستواں ناک نقشہ، اکہرا تراشیدہ بدن اور تانبے جیسی رنگت، بڑے رئیس کو کاٹھیاواڑی گھوڑیوں کی یاد دلاتی تھی جو خوبصورتی اور پھرتی میں لاجواب ہوتی ہیں لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی بیٹی شہزادی، بختاں کو اپنے قریب رکھتی ہے لہٰذا بڑے رئیس کا اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ شہزادی کو اپنے اردگرد لونڈیوں کا جھمگٹ اور موُرچھل کے گھماؤ جھلاؤ کی ٹھنڈی ہوا بہت پسند تھی وہ بختاں کی ہم عمر تھی یعنی بائیس برس کی جوان جہان۔ لیکن جب وہ اپنی عمر کے بیس برس منہا کر کے دو برس کی بچی جیسی حرکتیں کرتی تو غلاموں اور لونڈیوں کی ہمت نہ تھی کہ سراٹھا کے حیرت سے اسے دیکھ بھی لیتے ایسے میں بڑے رئیس کے چہرے پر کھیسانی ہنسی کے بیچ دکھ کی مٹتی بنتی سلوٹیں اس کے کسی کامدار کو نظر آ جاتیں تو وہ اپنی چاپلوسی بڑھا دیتا تا کہ رئیس کے دکھی دل پہ پھایا رکھ سکے۔ شہزادی کی ذہنی کجی پیدائشی نہیں تھی اِس کا پس منظر وہ حادثہ تھا جو بڑے رئیس اور رئیسانی کی سوجھ بوجھ کے بعد پیش آیا تھا۔
بختاں نے ایک ڈھوبرے میں پانی بھرا اور دوسرے ٹھیکرے میں پودوں کے دانے، بیج اور مونگ پھلی بھر کے لائی پھر انھیں شہزادی کے خاص مور کے آگے رکھ دیا مور نے تیزی سے بڑھ کے اپنی ڈیڑھ انچ لمبی چونچ ہلکورے لیتے پانی میں ڈبو دی۔
” دیکھ بختاں … کتنا پیاسا تھا میرا محبوب موریا……” شہزادی نے باغ میں پڑے جھولے میں جھولتے ہوئے کہا اور بہت محبت سے مور کو دیکھنے لگی وہ پچیس سال کا جوانِ رعنا مور تھا دو فٹ لمبا اور جسیم بدن کا۔ وہ ایک ادا سے اپنے چھوٹے سے منہ کو ڈھوبرے کی طرف لے جاتا اور چونچ بھر بھر کے پانی پیتا۔ تازہ پانی سے سیر ہو کے جب وہ شہزادی کی طرف مڑا تو خوشی سے اپنی بھدّی آواز میں پیھو پیھو پکارنے گا اس کے سر پر رکھا تاج ہوا سے اڑ رہا تھا۔ اپنی غیر معمولی خوبصورتی کی وجہ سے وہ دوسرے موروں کے درمیان الگ سے پہچانا جاتا تھا بالکل ایسے جیسے شیدی جہانیاں، جوان مردوں کے درمیان کھڑا الگ سا دکھائی دیتا تھا۔ شہزادی کا یہ ریگستانی مور شیدی جہانیاں کی طرح بانکا، نخریلا اور بے خوف تھا اُسی کی طرح غلامی میں بھی اک طرزِ شاہانہ رکھتا تھا۔ شہزادی اسے نگاہ بھر بھر کے تکتی پھر بھی دل کی پیاس نہ بجھتی تھی۔ مور کی گردن، سر اور چھاتی سنہری اور ارغوانی رنگوں سے مزیّن تھی یوں لگتا تھا جیسے نیلے رنگ کی کرنیں پھوٹ رہی ہوں۔ اس کے پَروں پر تانبا رنگ کے حاشیے بنے تھے جو شہزادی کو شیدی غلام جہانیاں کی تانبے جیسی رنگت والی آنکھوں کی یاد دلاتے تھے مور کے کندھوں پر سفید لکیر دکھائی دیتی تھی جیسے شیدی جہانیاں خدمتگاری کے وقت کندھے پر سفید صافہ ڈالے رکھتا تھا۔ اس کی گہری بھوری چونچ غلام جہانیاں کے بستہ لبوں کی یاد دلاتی تھی۔ نجانے ایسی کیا بات تھی کہ شہزادی جب بھی کھوئی کھوئی نظروں سے مور کو دیکھتی تو وہ بیقرار ہو جاتا اور پھر اسے خوش کرنے کے لیے ناچنے لگتا یا پھر شہزادی کو ایسا لگتا تھا۔ اس وقت بھی مور نے اپنی نیلی لمبی چمکدار دُم کو جھٹکا دیا اور پھر اک سر سراہٹ والی آواز سے اس کی دُم پنکھے کی طرح کھل کے پھیل گئی رنگوں کا ایک مسحور کن منظر خشک رتیلی زمین پر اترآیا۔ اس کی تھرکتی دم نے تمام عالم پر رنگ ہی رنگ چھڑک دئیے اور پَروں کے پنکھے نے جیسے ریگستانی زمین کو ڈھانپ کے گل و گلزار کر دیا۔ مور کی مضبوط ننگی ٹانگیں صرف سفنوں سے ڈھکی ہوئی تھیں شہزادی نے ان کو رنگین چھلّوں اور گھنگھروؤں سے بھر دیا تھا۔ مورناچ رہا تھا اور لونڈیاں اس کے جھڑتے پَر زمین سے چن رہی تھیں شہزادی گم سم سی ہو کے اس کا ناچ دیکھ رہی تھی یکا یک اس نے مٹر کے مورچھل سے ہوا دیتی لونڈیوں کی طرف دیکھا تو بختاں کو اپنی سوچوں میں گم پایا۔ شہزادی نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور بولی۔
“دیکھ بختاں … میرے مور یا کو دیکھ … یہ میرا عاشق ہے میں اس کی عاشق … ہم میں کون محب ہے کون محبوب … نہیں معلوم … در اصل یہ فرق تو ہمارے درمیان سے مٹ چکا ہے … یہ میرے لیے ناچتا ہے میں اس کے لیے جھومتی ہوں … اس میں کسی کھوئے ہوئے کی روح ہے جو مجھ سے باتیں کرتی ہے اس کا کلام صرف میں سمجھ سکتی ہوں … “
پھر یکلخت وہ چونکی اور اس کے اندازِ نگاہ میں تغیرّ سا آیا اس نے نظر جما کے بختاں کو دیکھا پھر طنز سے ہنسی اور بولی۔
” بختاں … تو کیا جانے عشق کیا ہے …؟تجھ جیسوں نے یہ نعمت چکھی ہی نہیں …” ایسا کہتے کہتے وہ یک دم اپنے ہی اندر ٹھٹھک گئی پھر ایک انجانے اضطراب میں مبتلا ہوئی۔ جھولے سے اتر کے اس نے زمین پر گول گول چکّر کاٹنے شروع کر دیئے بالکل مور کی طرح …… یکدم وہ رتیلی زمین پر دھپ سے بیٹھ گئی اس نے بیتابی سے اپنی مٹّھی میں نیم گرم ریت بھری پھر زور سے ایک چیخ ماری ریت کو سر پر ڈالتے ہوئے وہ مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے اور سسکنے لگی اور بولی … “بختاں … بھلا کیسے میں نے یہ کہہ دیا کہ تجھے کیا معلوم کہ عشق کیا ہے … تجھ جیسوں کو بھی معلوم ہوتا ہے بالکل ایسے جیسے جہانیاں کو معلوم تھا … ہاں اسے معلوم تھا … مجھ سے زیادہ اسے معلوم تھا کہ عشق کیا ہے …! “
شہزادی پر ہذیانی کیفیت طاری ہوتے دیکھ کے لونڈیاں اس کی طرف لپکیں لیکن وہ ماہی بے آب کی طرح ان کے بازؤوں سے پھسل کے نکل گئی اور دوڑنے لگی سب اس کے پیچھے دوڑ رہی تھیں اس کا رخ اُس بھٹّی کی جانب تھا جو کب سے سرد تھی لیکن آج بھی شہزادی کے اندر انگارہ سی دہکتی تھی اور ہر لمحے اسے سلگاتی تھی۔ اس میں دھکیلا جانے والا شیدی جہانیاں چار برس پہلے جل کر بھسم ہو چکا تھا اس کے مضبوط جسم کی ہڈیاں اس دہکتی بھٹّی کے بجھ جانے کے بعد بھی نہیں نکالی گئی تھیں بس اتنا ہوا تھا کہ اس بھٹّی کو دوبارہ نہیں سلگا یا گیا تھا اور اس واقعے کا ذکر ہر کسی کے لیے ممنوع قرار پایا تھا لیکن شہزادی پر جب بھی دورہ پڑتا وہ بھٹّی کے پاس جانے کی کوشش کرتی اور جو پہنچ جاتی تو بھٹّی کی راکھ نکال کر منہ اور سر پر ملتی رہتی روتی رہتی۔ بڑے رئیس نے کئی بار بھٹّی کو بند کروانا چاہا لیکن بلکتی روتی شہزادی نے ایسا اسے نہیں کرنے دیا وہ بڑے رئیس سے ہزار وعدے منتّیں کرتی کہ پہلے کی طرح اب کبھی وہ بھٹّی کے اندر اتر نے کی کوشش نہیں کرے گی بڑا رئیس اس کی حالت پر آنسو بہاتا انہیں چھپاتا پھر مان جاتا تھا۔ وہ ایک سفاک اور خود غرض انسان تھا لیکن شہزادی اس کی اکلوتی اولاد اور واحد کمزوری تھی اسے شیدی جہانیاں کو جلتی بھٹّی میں دھکیل کر مارنے کی پشیمانی نہیں تھی لیکن یہ دکھ ضرور تھا کہ اب تک کوئی طبیب اس کی بیٹی کا علاج نہیں کرپایا تھا اسے یہ بتانے کی جرأت کوئی نہیں کر سکتا تھا کہ عشق لاعلاج مرض ہے۔
رئیس شہزادی کو علاج کی غرض سے بڑے شہر کے ہسپتالوں تک بھی لے کر گیا نیلی پیلی گولیوں نے کوئی اثر نہیں دکھایا انھیں کھا کے بس وہ دن رات سوئی رہتی تھی۔ البّتہ ان ہسپتالوں کے چکر کاٹ کے وہ اتنا جان سن پایا تھا کہ شہزادی کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہے وہ کبھی بھڑک اٹھے گی کبھی بجھ جائے گی اس کی شخصیت میں تغیرّ آتا رہے گا بس جسم یا دماغ پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے اور جب ذہنی نقائص کے سبب وہ اپنی طبعی عمر کے خلاف اپنے اعمال وافعال میں بچگانہ دکھائی دے تو اسے ایسا کرنے دیا جائے۔
بڑے رئیس نے اپنے ہر دکھ کا علاج بہلاوے میں ڈھونڈا تھا اس کے بہلاوے کے بڑے حلیے بہانے تھے لیکن شہزادی بظاہر اس کے نسب کی ہو کے نسبِ عاشقی سے وابستہ نکلی تھی سو اس کا من اب کسی اور عشق میں پھنسانا لازمی تھا ایسا عشق جو بڑے رئیس کی شان میں کمی نہ لا سکے یہ بس اتفاق ہی تھا کہ شہزادی بچپن سے رنگین موروں کی دیوانی تھی جب بڑے رئیس نے یہ حسین ریگستانی مور شہزادی کے لیے منگوایا تو اسے دیکھتے ہی شہزادی کو پہلا خیال جہانیاں کا آیا بالکل اسی کی طرح ٹھہر ٹھہر کے چلتا تھا پھر دھیرے دھیرے شہزادی کو مور کی چال ڈھال کے ساتھ اس کے تیور اور ادائیں بھی جہانیاں سے مماثل لگنے لگیں۔ جہانیاں کا جلا جسم راکھ بن کے ہر شے میں حلول کر گیا تھا گویا یہ ایسا جلوۂ جاناناں تھا جو چہار سمت بکھر گیا تھا اب کوئی منظر اس سے خالی نہیں رہا تھا لیکن مور کے آنے کے بعد حیرت انگیز طور پر شہزادی کے زاویہ نگاہ میں اک تغیرّ سا آیا اب اس کے لیے جہانیاں کا عکس ہر سمت بکھرنے کی بجائے فقط مورکے وجود میں ڈھل چکا تھا۔
پھر ایک صبح اس نے بختاں کو خوشخبری سنائی کہ اس نے ایک خوبصورت خواب دیکھا ہے در اصل حقیقت، خواب کے وسیلے سے اس پر منکشف ہوئی ہے کہ غلام جہانیاں زندہ ہے جلتی بھٹّی میں جب اسے دھکیلا جا رہا تھا تو وہ پھرتی سے وہاں سے سرک گیا تھا بھاگ گیا تھا یاچھپ گیا تھا اور پھر بڑے رئیس کے ڈر سے مور بن گیا تھا اب بہت ہوشیاری سے فقط شہزادی کے لیے اس حویلی میں واپس آ گیا ہے یہی وہ مور ہے جو در حقیقت جہانیاں ہے۔
بڑے رئیس کو اس کی عزت پر بّٹہ لگانے والے شیدی جہانیاں سے متعلق اپنی بیٹی کا خواب پسند تو نہیں آیا لیکن یہ امر باعثِ سکون قلب تھا کہ شہزادی کا دل مور سے لگنے کے بعد اس کے دماغی دوروں میں کمی آ گئی تھی پھر بھی یہ حقیقت اسے مشتعل کرتی تھی کہ مور عشق کی علامت بن کے بڑے رئیس کو شیدی جہانیاں کی جرأت عشق بھولنے نہیں دیتا تھا۔ اسے یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ کوئی طبیب اس کی چہیتی بیٹی کو دماغی یا نفسیاتی مریضہ کہے البتہ ایک وفادار کا مدار نے جب ایک وید جی کو پیش کیا تو اس کے بعد بڑے رئیس کو کچھ قرار سا آیا۔ وید نے بتایا کہ یہ جو شہزادی کو اپنے سر پر مور کی طرح سو آنکھیں اگُی ہوئی نظر آتی ہیں یا کھو یا ہوا عشق مور میں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے تو یہ دماغی مرض کی علامتیں نہیں ہیں بلکہ شہزادی پر علم کی دیوی سر سُوتی کا سایہ ہے اور دیوی سر سوتی کا چہیتا پرندہ مور ہے شہزادی کی مور سے روحانی وابستگی اس بات کی علامت ہے کہ شہزادی علم و دانش سے مالا مال ہے اور وہ روح کے بھیدوں تک جا پہنچی ہے۔
٭٭٭٭
وہاں گھانس پھونس کی جھونپڑیوں اور چھپروں کی قطاریں تھیں۔ صبح کا ذب کا وقت تھا کہ کھپ کے ایک جھونپڑے پر دستک ہوئی۔ اللہ وسایا باہر آیا۔ سارنگ سر جھکائے کھڑا تھا۔
” بابا…تجھ سے بات کرنی ہے ……دن کی روشنی پھیل گئی تو بات کرنی مشکل ہو جائے گی”…وہ بولا
اللہ وسایا نے چاروں طرف گھبرا کے دیکھا پھر بولا … “کوئی دیکھ نہ لے …اندر آ جا…اب تجھ سے کیسی غیریت…”
بختاں ہڑ بڑا کے اٹھ بیٹھی تھی سارنگ نے ایک نظر بختاں پر ڈالی پھر چٹائی پر بیٹھ گیا اور بہت دھیمی آواز میں بولنے لگا … ” بابا…تُو مجھے اور بختاں کو یہاں سے جانے کی اجازت دے دے …ورنہ بڑے سائیس کے لوگ ہمیں مار ڈالیں گے۔ “
” ہاں … اب تو یہ بات چہار سو پھیل گئی ہے کہ تو بختاں سے شادی کرنا چاہتا ہے … بڑے سائیں کو یہ بات پسند نہیں آئی ہے وہ بہت خفا ہے ” اللہ وسایا کے چہرے پر فکر واندیشے کے سائے منڈلائے۔
“بڑا سائیس ہم سے ہمیشہ خفا ہی رہے گا چاہے ہم اپنی جان ہی کیوں نہ دے دیں … وہ کبھی یہ رشتہ نہیں ہونے دے گا…ہم غلاموں کی عورتیں بیچی جاتی ہیں بیاہی نہیں جاتیں …” سارنگ غصے اور جوش سے بولا۔
” بیٹا …ہم سائیں کا مقابلہ کیسے کریں گے …ہمارے تو اپنے شیدی نسل کے لوگ اس کے غلام ہیں وہ اسی کا حکم مانیں گے اپنوں ہی کے ہاتھوں ہمیں مروا دیا جائے گا” اللہ وسایا نے حسرت سے بختاں کو دیکھا۔
” وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے گھروں میں بھی آزاد انسان پیدا ہوں … ہماری قوم دنیا بھر میں غلامی اور بھوک کی علامت ہے …آزادی کا پرندہ ہماری زندگیوں میں پَر بھی نہیں مار سکتا لیکن غلامی کا طوق اتارنے کے لیے کسی کو تو ہمت دکھانی ہو گی…تو پھر میں اور بختاں ہی کیوں نہیں …ہمارے پاس ہماری محبت کی طاقت ہے جو ہم ایک دوسرے سے حاصل کریں گے …” سارنگ اپنے مضبوط ارادے سے اللہ وسایا کو ڈھارس دے رہا تھا لیکن اللہ وسایا نے بڑے سائیں کے تیور دیکھے تھے وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بھاگنے والا غلام، مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔
اللہ وسایانے ایک بار پھر اپنی چہیتی بیٹی کو پیار سے دیکھا اور سوچا کہ اس کی خوشی سب سے بڑھ کے ہے لیکن اس کی زندگی سے بڑھ کے نہیں پھر سارنگ کو مخاطب کر کے بولا۔
” بیٹا … ازل سے طاقتور، کمزور کو کسی نہ کسی بہانے استعمال کرتا آیا ہے یہی غلامی ہے ایسا وہاں بھی ہوتا ہے جہاں لوگ غلام نہیں پکارے جاتے بظاہر آزاد کہلاتے ہیں ہم تو پھر بڑے سائیں کا نمک کھاتے ہیں ہمیں اس کے حکم پر اپنی خوشی قربان کرنی ہو گی۔ “
سارنگ کے چہرے پر جوشیلے خون کی دھاریں اچھلیں وہ غصّے سے سرخ ہو گیا لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے بولا… ” ہم کوئی جو گی براگی رو گی بھو گی نہیں ہیں جو خود کو اذیت پہچانے کو عبادت سمجھیں … یہ تو لاریبی فرمان ہے کہ جندجان امانت ہے بس اللہ کی… کسی کو کیا حق ہے کہ ہمیں غلام بنائے …”
” بات الجھتے دیکھ کے بختاں آگے کو سرکی اور بولی… سارنگ…تو نے ایسی باتیں پہلے کبھی کیوں نہیں سوچیں …”
” اس لیے کہ سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے کسی کا سامنے ہونا ضروری ہے کیا تُو میرے فیصلے کے خلاف ہے …… “اس نے حتمی لہجے میں کڑک کے پوچھا۔
اللہ وسایا نے گھبرا کے جھگی پر لہراتی چق کو دیکھا پھر بولا …سارنگ بیٹا …تم دونوں اگر ہمت کر بھی لو تو بھلا جاؤ گے کہاں …؟ان جھوکوں کی چھوٹی بڑی تمام آبادیاں، یہاں پانی کے نخلستان اور ٹوبے … سب بڑے رئیس کی ملکیت ہیں … وہ بہت جلد تمہیں ڈھونڈ نکالے گا…”
سارنگ کا غصّہ کم ہونے لگا وہ نرمی سے بولا … ” بابا یہاں سے دور ایک بڑا قبرستان ہے پہلے ہم وہاں چھپیں گے پھر خطرہ کم ہوتے ہی لمبا سفر پکڑ کے بڑے شہر چلے جائیں گے …”
بختاں اک لمحہ کو لرزی اور نم دیدہ ہو کے اس نے اللہ وسایا کو دیکھا ” میرا بابا …یہ تو ہمارے پیچھے اکیلا رہ جائے گا…ظلم سہنے کو…”
” بابا بھی ہمارے ساتھ چلے گا”…سارنگ نے فیصلہ دیا۔
” نا… میرے بچے نا…میں یہیں رہ کے تمہاری حفاظت کے لیے جو کچھ کر سکا کروں گا……”
” تو کیا … تُو راضی ہے بابا…؟؟”بختاں کی آواز میں غم اور خوشی کا امتزاج تھا۔
” اس دنیا کی کسی شے کی تقسیم میں انصاف نہیں ہے میری بچی۔ اس بر باد دنیا میں آباد رہنے کا حق ہم جیسوں کو ہے ہی نہیں …پھر بھی سارنگ کا حوصلہ مجھے بڑھاوا دے رہا ہے … اصل بات میرا راضی ہونا نہیں ہے تم دونوں کا زندہ اور خوش رہنا ہے …” اب اللہ وسایا نے اپنے دل کو خوف سے خالی پایا…
٭٭٭٭
بڑے سائیں کے غلاموں، پالتو جانوروں اور پرندوں کی تعداد حیران کن تھی پھر بھی اس کا دل نہ بھرتا تھا۔ سرخی مائل بھوری رنگت والے فربہ چکور تھے جو مرغ کی طرح صبح وشام آوازیں نکالتے تھے۔ ریتیلے رنگ کے بھورے تیتر تھے چاق و چوبند۔ زمین پر بھاگتے نرم آوازوں والے یہ معصوم پرندے اکثر سائیں کے دسترخوان کی زینت بنتے غلاموں کے نصیب میں تو بس پوسی اور پھنڑی کے ساگ تھے چہچہاتی آوازوں کے لیے اس نے سندھی مینائیں پال رکھی تھیں جو چمکدار سیاہ رنگت کی تھیں لیکن سائیں کا پسندیدہ پرندہ عقاب تھا۔ یہ عقاب لاگر نسل کا تھا کشادہ سینہ، چھاتی پر تنگ دھاریاں اور زردپاؤں۔ آنکھوں کی پتلیاں زنگی ہڑ جیسی تھیں جو ایک ہی ساعت میں چہار اور گھوم جاتیں جن میں ہمیشہ تکبّر اور خود پسندی کی خُو جا گتی رہتی لا گر عقاب کی پسندیدہ خوراک سائیں کے پالتو کبوتر، تیتر اور فاختائیں تھیں اُس کی ناز برداریاں اور خدمتگاریاں پہلے شیدی جہانیاں کرتا تھا اس کے مرنے کے بعد سارنگ کے حصے میں یہ کام آیا۔
محبت سے وابستگی میں شہزادی کو اپنے مور میں جہانیاں کا جلوہ نظر آتا تھا لیکن بڑے سائیں کو اپنے اندر دبے کسی نامعلوم خوف کے سبب سارنگ میں لاگر عقاب کی مماثلت نظر آتی تھی آنکھوں کی وہی رنگت، دماغ کا وہی سر پھراپن جارحانہ تیور۔ سائیں اگر عقاب اور سارنگ کو یک نگاہ دیکھ لیتا تو اندر ہی اندر جیسے لرز سا جاتا تھا ظالم آدمی کو اس کا ظلم کمزور کر دیتا ہے …سارنگ اپنے کام میں مہارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اس لیے بڑا سائیں اس کے کام سے خوش تھا اگرچہ وہ اس کا اظہار کرنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن جب مخبروں نے اطلاع دی کہ سارنگ غلاموں جیسی تابعداری کم اور لاگر عقاب جیسی بہادری زیادہ رکھتا ہے اور اب بختاں سے شادی کرنے کا ارادہ کر چکا ہے تب بڑا سائیں غیض وغضب کی آگ میں جھلسنے لگا اس نے اپنی آگ بجھانے کے لیے ایک اور بھٹّی سلگانے کا منصوبہ بنایا جس میں غلام سارنگ کو دھکیلا جا سکے لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا تھا۔
٭٭٭٭
پرندوں کے پنجروں سے کچھ فاصلے پر پالتو جانوروں کا باڑہ تھا۔ جس میں تھرپار کر نسل کے گھٹّے ہوئے بدن کے تناور بیل اور گائیں تھیں، سفید اور کبود رنگ کی…… یہ جانور دودھ اور ہل کے کام کے لیے لاثانی تھے جیکب آباد کے شمال سے داجل نسل اور بھاگناڑی نسل کی جسیم گائیں منگوائی گئی تھیں۔ ریگستانی علاقے کی یہ گائیں خود کو موسمی تغیرّات سے محفوظ رکھنا جانتی تھیں یہ طاقتور مضبوط جوڑوں والی گائیں تھیں ان کے سینگوں کے درمیان ابھراؤ خوبصورت لگتا تھا موٹے سینگ، سیدھی پشت کی گوشت سے بھرپور دودھ کے لحاظ سے عمدہ گائیں سہولت سے پَل رہی تھیں اور اللہ وسایا ان کا خدمت گار تھا کہ ایک دن…حسبِ معمول اُس نے کھل نبولہ، چوکر گندم، خشک بھوسہ ملا کے گائیوں کے آگے رکھ دیا یہ سوچ اس کے دماغ کو جکڑے ہوئے تھی کہ سارنگ کی ضد اور سائیں کا ظلم کیا انجام لائے گا وہ دیکھ نہ پایا کہ سبز چارے کی قلت کے سبب اس نے زیادہ مقدار میں خشک چارہ ملا دیا تھاجس میں پھپھوندی لگی ہوئی تھی۔ داجل نسل کی ایک گائے نے خوراک دیر سے ملنے کے سبب چارہ زیادہ مقدار میں کھا لیا۔ اللہ وسایا اپنے خیالوں کی یلغار سے نپٹ رہا تھا اس لیے اس نے نہ ہی گائے کو پانی پلایا اور نہ اس کی بگڑتی حالت پر غور کیا۔ اگلے دن گائے نے سست ہو کے جگالی کرنا بند کر دی اور علیحدہ جاکے کھڑی ہو گئی جب اللہ وسایا اس کے قریب آیا تو اس نے غور کیا کہ گائے اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی اللہ وسایا نے پریشان ہو کے اسے ہلانے جلانے کی کوشش کی ایسے میں رئیس کے خاص کامدار کی نظر اس پر پڑ گئی آناً فاناً بڑا رئیس سر پر کھڑا تھا گائے زمین پر گر چکی تھی دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دم توڑ دیا۔ کامدار نے پر جوش انداز سے اللہ وسایا کی غفلت پر طعنہ زنی شروع کر دی سائیں نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا اور اللہ وسایا سے وضاحت طلب کی۔ وہ اٹک اٹک کے بولا۔
“سرکار یہ تو آپ جانتے ہی ہیں بارشوں کے نہ ہونے سے سبزچارے کی قلّت تھی گائے نے خشک چارہ زیادہ کھا لیا شاید اس کے معدے کا منہ بند ہو گیا …”
بڑے سائیں نے چارے پر نگاہ ڈالی اور پھپھوندی والا چارہ دیکھ کے سیخ پا ہو گیا…
” بدبخت غلام”…سائیں نے ایک لات اللہ وسایا کے پیٹ پر رسید کی… ” تو نے میری گائے کو یہ کیا کھلا دیا تھا اس چارے میں تو پھپھوندہے۔ “
اللہ وسایا چکّرا سا گیا اس کی غفلت پکڑی گئی تھی اب سوالوں کی بوچھاڑ تھی۔
“کیا تو نے خوراک میں خوردنی نمک شامل کیا تھا؟”
اللہ وسایا سوچ میں پڑ گیا اس نے ایسا کیا تھا یا نہیں اسے ہر گز یاد نہ آیا بس اس نے کامدار کو طنزیہ ہنسی ہنستے دیکھا۔
” تو نے اسے دست آور دوا کیوں نہیں دی؟”
“بڑے سائیں دوا دی تھی …” اللہ وسایا اپنے حواس میں آیا… “نیم گرم پانی میں دوا ملا کے اسے پلائی تھی وہ تکلیف میں تھی پی نہیں رہی تھی …”
” اور تُو نے زبردستی کی ہو گی دوا معدے کی بجائے سانس کی نالی میں چلی گئی ہو گی میری سجیلی صحت مندگائے تڑپ تڑپ کے مر گئی…” سائیں نے چارے کو غصّے سے ٹھوکر ماری “جی سائیں بالکل ایسا ہی ہوا تھا”…اب کے کامدار چہک کے بولا……
” جان کا بدلہ جان ہے اللہ وسایا”… بڑا سائیں زور سے گرجا۔
٭٭٭٭
رات پوری طرح نہیں اتری تھی کہ اللہ وسایا کے جھونپڑ پر کسی نے اپنی دونوں ہتھیلیاں عجلت سے بجا ڈالیں اللہ وسایا جو صبح کا ڈرا ہوا تھا لرزتا ہوا چق اٹھا کے باہر آیا۔ بڑے سائیں کا خاص کامدار دانت نکو سے کھڑا تھا…
” اللہ وسایا…میں نے بڑے سائیں سے تیری جاں بخشی کی سفارش کر دی ہے۔
تُو خوش ہو جا” … اس نے احسان جتاتے ہوئے کہا۔
اللہ وسایا نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
” ہاں یار…تو ہمارا شیدی بھائی بند ہے تجھے اکیلا تھوڑا چھوڑیں گے …… ” اس نے اللہ وسایا کے گلے میں باہیں ڈالیں اور کچھ دور لے جا کے اسے کھڑا کیا پھر میٹھے رسیلے لہجے میں بولا … “دیکھ اللہ وسایا… بیٹیاں باپ پر قربان ہو جانے کے لیے پیدا ہوتی ہیں …”
” کیا مطلب؟” اللہ وسایا نے کامدار کا بازو جھٹکے سے علیحدہ کیا۔
” مطلب تو کوئی نہیں … بس بات سمجھنے کی ہے … بڑے سائیں کا قدیمی یار ہے کوئی… جس نے تیری بختاں کو کئی بار حویلی میں دیکھا ہے بڑے سائیں کا ایک بڑا مشکل کام اس نے شہر میں کیا ہے اب تحفہ مانگ رہا ہے …تیری بیٹی بختاں کو… یعنی رئیس نے تحفے میں دینا ہے اپنے قدیمی یار کو …”
“چپ کر بد بخت”… اللہ وسایا دھاڑا
کامدار نے بپھرکے اسے دیکھا اور غّرایا … ” غلام نخرے نہیں کیا کرتے حکم بجالاتے ہیں اللہ وسایا…”
” وہ کوئی بھیڑ بکری نہیں میری بیٹی ہے …” اللہ وسایا غصے اور بے بسی سے رو دیا کامدار نے پنیترا بدلا اور اس کے قریب آکے نرمی سے سرگوشی کی۔
” وہ تیری بیٹی کو پسند کرتا ہے شاید نکاح ہی کر ڈالے۔ “
رات کے اندھیرے میں اللہ وسایا نے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کی وہ کامدار کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار نہیں چاہتا تھا اس کی خاموشی دیکھ کے کامدار کا حوصلہ بڑھا اور وہ بولا… “بڑے سائیں کو اپنی داجل گائے کے مرنے کا بہت غم ہے۔ سزا تو تجھے ملنی ہے ہو سکتا ہے تجھے جلتی بھٹی میں زندہ جھونک دیا جائے یا پھر ہو سکتا ہے داجل گائے کی طرح تڑپا تڑپا کے مارنے کے لیے تجھے زہر پلا دیا جائے میرا مشورہ تو یہ ہے کہ تُو اپنی جان بھی بچا لے اور معافی تلافی کی خاطر بیٹی بھی دے دے وہ شہر جا کے عیش کرے گی بڑے سائیں کا یار بہت مال دولت والا ہے۔ “
٭٭٭٭
پیلو اور لئی کے پیڑوں سے ہواچھن چھن کے آ رہی تھی۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے زمین کے سوکھے پن کو دیکھ کے لہراتے ہوئے بچ بچ کے گزر رہے تھے ریگستانی زمین برسات کو ترس رہی تھی سارنگ کے کندھے پر ہمیشہ کی طرح ایک پٹکا تھا جسے اس نے کمر سے لپیٹ کے دائیں بازو سے نکال کے بائیں کندھے پر ڈالا ہوا تھا۔ پٹکے تلے اس نے ایک سوتی بنڈی پہنی ہوئی تھی۔ اپنا کام پورا کر کے اس نے روٹی مانی کھائی اور دس بارہ فٹ اونچے لئی کے درخت تلے کٹھڑا ڈال کے بیٹھ گیا جب سے اس نے اللہ وسایا سے اپنے اور بختاں کے بیاہ کی بات کی تھی تب سے اس کا ذہن محفوظ منصوبے کاتنے کی چرخی بنا ہوا تھا اس نے سوچا وہ اور بختاں اگر رات کے وقت بھاگیں تو زیادہ مناسب ہو گا ریگزار ٹھنڈا ہو گا اور گرد باد کا ڈر نہیں ہو گا لیکن رات کو سانپ بچھو کے کاٹنے کا ڈر؟ اور رستے بھٹک جانے کا اندیشہ؟؟ پھر وہ آپ ہی آپ ہنسا اور اس نے سوچا کہ ایک بڑے خطرے سے نکل جانے کے لیے چھوٹے خطرے تو مول لینے پڑتے ہیں۔
لئی کے درخت کے مہین پتے گچھوں کی صورت لہرا رہے تھے ہوا حدّت سے بھری ہوئی تھی اچانک ماچھی نصیر کو اُس نے اللہ وسایا کے جھونپڑ کی طرف تیز تیز قدموں سے آتا ہوا دیکھاشیدی سارنگ اپنے کٹھڑے سے اٹھا اور اس کی جانب لپکا۔ جب تک وہ اس کے قریب پہنچتا ماچھی نصیر، شیدی اللہ وسایا کو جھونپڑ سے باہر بلا چکا تھا سارنگ بھی جاکے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ماچھی نصیر کا سانس پھولا ہوا تھا وہ بہت دور کہیں سے دوڑتا ہوا آیا تھا اس نے خوفزدہ نظروں سے اردگرد دیکھا پھر شیدی اللہ وسایا کے قریب آکے سرگوشی میں بولا۔
” بڑے سائیں کو تمہارے ارادوں کی پوری خبر ہے۔ اس نے چھ سات بندے مقرر کر دیئے ہیں کہ وہ سارنگ کو جان سے ختم کر دیں اور بختاں کو اٹھا کے اس کے پاس لے آئیں پھر وہ سارنگ کی طرف مڑا اور اس سے مخاطب ہوا ” تم نے جو کرنا ہے ہشیاری سے کر گزرو، بھاگ کر کسی گوپے میں چھپ جاؤ، کسی کھائی میں اترو یا یوں کرو کہ علاقے سے باہر ایک ویران پرانا قلعہ ہے ایک ٹیلا بھی ہے بس کہیں بھی چلے جاؤ…اس ریگستان سے نکل جاؤ یہاں کی ریت قبروں کو بھی کھا جاتی ہے۔ “
٭٭٭٭
بختاں لال گاچ کی مٹی سے نہا دھو کے آئی تو صحرائی پودے کرینہ کے سرخ پھول جیسی لگ رہی تھی اس نے اخروٹ کے چھلکے سے دانت چمکائے تھے اس کے ہونٹ کھلتے بادامی رنگ کے لگ رہے تھے اس کے جسم پر علاقائی کڑ ھائی سے سجا کرتہ تھا اور سوسی کی گھیردار شلوار۔ وہ اپنے گانے گہنے نکال کے بیٹھی ہوئی تھی حسین خوابوں کی روشنی سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اللہ وسایا جھونپڑی میں داخل ہوا تو عجلت اور گھبراہٹ اس پر طاری تھی اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی جس میں ستو، چنے اور کھجی بندھی ہوئی تھی وہ پوٹلی اس کے آگے رکھتا ہوا بولا …
” جلدی کر بختاں … دل میں وسوسے اٹھ رہے ہیں …… “
بختاں نے اپنے پاؤں میں کڑے ڈالے گلے ہاتھ اور کان کے زیور پہنتے ہوئے وہ بولی۔
” بابا… پہلے تو یہ طے تھا کہ ہم رات کے اندھیرے میں نکلیں گے اتنی جلدی میں فیصلہ کیوں بدلا …؟ابھی تو سورج سوا نیزے پر ہے …”؟
” سو وہ تو ہے میری بیٹی … لیکن رئیس کے لوگ کلہاڑیاں، چھریاں، ٹوکے لیے تیار بیٹھے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں گھیر لیں … تم دونوں کو ابھی بھاگنا ہو گا …”وہ تشویش سے بولا۔
” بابا … ایسا نہ ہو کہ اُس پار بھی دکھ کا ناگ کنڈلی مارے بیٹھا ہو”۔ بختاں کے لہجے میں اندیشے تھے اللہ وسایا نے بڑھ کے اسے گلے لگا لیا دونوں باپ بیٹی رونے لگے جھونپڑی کی چق اٹھی تو سارنگ تیزی سے اندر آیا اور بولا……
” بابا … ہواؤں کا کچھ پتہ نہیں …سمندری ہوا اور ریت کے بگولے بن رہے ہیں کہیں یہ رفتار نہ پکڑ لیں …”
اللہ وسایا نے بڑھ کے سارنگ کے کندھے پرپیار سے ہاتھ رکھا اور بولا۔
” فکر نہ کر میرے بچے … میں جانتا ہوں ایک طرف گردو غبار کا طوفان ہے اور زمین آگ کا گولہ بنی ہوئی ہے اور دوسری طرف رئیس کے خونی شکاری تم دونوں کے خون کی بوسونگھتے پھر رہے ہیں بس اب فیصلہ ہو چکا ہے تم دونوں بخت سے بھڑِ جاؤ …شاید کوئی شبھ لمحہ تمہارے ہاتھوں کو تھام لے …”
ایسا کہتے کہتے اس نے بختاں کا ہاتھ بہت پیار سے پکڑا اور سارنگ کے ہاتھ میں دے دیا اس کی آنکھیں ڈبڈبا نے لگیں وہ بولا … ” کسی باپ نے اپنی بیٹی کو اس طرح تو رخصت نہیں کیا ہو گا لیکن میں مجبور ہوں …”
سارنگ نے بڑھ کے اللہ وسایا کو گلے سے لگا لیا … ” بابا میں تو کہتا ہوں تو بھی چل۔ ” “نہیں بیٹا… جو میں چل پڑا تو رئیس اور خونخوار ہو جائے گا میں تمہارے ساتھ تیز دوڑ بھی نہیں سکوں گا میری سست رفتار کی وجہ سے تم دونوں پھنس سکتے ہو……”
” بابا رئیس کا سارا قہر تجھ پر ٹوٹے گا …وہ بہت ظلم کرے گا تجھ پر……… ” بختاں روتے ہوئے بولی۔
” اللہ بیلی ہے بس تم دونوں خیریت سے نکل جاؤ …رئیس کے بندے تیار بیٹھے ہیں ان کے مخبر ابھی جھونپڑپٹی سے دور ہیں رات تک وہ خونی قریب آ جائیں گے میں جانتا ہوں ان سے صبر نہیں ہو گا وہ رئیس سے انعام لینے کی خاطر تمہیں وقت سے پہلے گھیر لیں گے ابھی تو وہ اس دھوکے میں ہیں کہ تمہیں رات کو بھاگنا ہے ان کی غفلت سے فائدہ اٹھاؤ اور ایسے وقت میں نکل جاؤ جس کا اُنھیں گمان بھی نہ ہو…”
اللہ وسایا نے دونوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
٭٭٭٭
گھنے اور طویل سرکنڈوں کے جھنڈ تھے جن کے بیچوں بیچ وہ خاموشی سے سر جھکائے چھپتے چھپاتے چل رہے تھے سارنگ کے ہاتھ میں کھانے کی پوٹلی تھی بختاں نے اپنے کچھ کپڑے ساتھ لے لیے تھے۔ جانا کہاں تھا؟ منزل کدھر تھی؟ رستہ کونسا تھا؟ سب سوال بے معنی تھے سب سے پہلے حیاتی کے پرندے کو شکاریوں سے بچانا تھا۔ سورج قہر بر سا رہا تھا اس کی شعاعیں عموداً پڑ رہی تھیں گرم مرطوب ہوا تھی شدید گرمی اور دم گھوٹنے والا حبس …بختاں نے جو پہلی دعا کی وہ یہ تھی کہ ہوا چل پڑے تا کہ سانس لینے میں جو گھٹن ہو رہی تھی وہ دور ہو سکے … کیسا قبولیت کا لمحہ تھا کہ ہوا چلنے لگی گرم جھکّڑ سا اٹھنا شروع ہوا جو ہوا کی ہر لہر کے ساتھ دہکتا چلا گیا۔ ہوا گرم ہو کے گردا گرد پھیلتی پھر اوپر کو اٹھتی اور اس کی جگہ لینے کے لیے آس پاس کی ہوا تیزی سے بڑھتی اور اپنے ساتھ گرد و غبار کو بھی جمع کر لیتی تھی۔ انھیں ہوا کی تندہی کا اندازہ جنگلی پرندوں کی ہراساں پروازوں سے ہوا لیکن وہ دشمنوں سے بچنے کے لئے موسم کی سختی جھیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ یکا یک انھیں محسوس ہوا جیسے دنیا کی ہر شے اجنبی اور نامانوس ہو گئی ہے دونوں نے ٹھٹھک کے اطراف دیکھا ابھی تو وہ علاقے کی سرحد سے باہر بھی نہیں نکلے تھے ریگستان اپنا رنگ تیزی سے بدل رہا تھا دور دور تک بادل نہیں تھے کچھ اور سفر کرنے کے بعد انھیں سورج کی برہمی بڑے رئیس کے مظالم سے بڑھ کے لگنے لگی لیکن واپسی کا ہر راستہ اڑتی تہہ پہ تہہ لگاتی ریت میں دبتا جا رہا تھا بس ایک ہی خوف ان کے ذہنوں پر مسلط تھا کہ ریت کا طوفان انھیں گھیر نہ لے وہ دونوں خاموش تھے اور خوف کے مارے اپنے اندیشوں کا اظہار ایک دوسرے سے نہیں کر پا رہے تھے انھوں نے صحرائی آندھیوں سے ہونے والی تباہی کی سینہ بہ سینہ چلتی داستانیں سن رکھی تھیں کہ ریگستان کے طوفان بسا اوقات کئی کئی دن تک متواتر چلتے رہتے ہیں یہ چونکہ ساحلی علاقوں سے اٹھتے ہیں اس لیے اپنے ساتھ ریت کے نہ ختم ہونے والے انبار بھی لے آتے ہیں طوفانی انداز سے حرکت کرتے یہ بگولے اپنے گھیراؤ اور تنگ دباؤ میں کسی لحیم شحیم شتر کو بھی پھنسا لیں تو اسے اوپر اٹھا کے یوں پٹختے ہیں کہ اس کی ہڈیاں بھی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں ان ریتیلے طوفانوں نے بستیاں الٹ کے رکھ دی تھیں۔
ساحلی ریت تندوتیز جھکڑّوں کے ساتھ اڑتی چلی آ رہی تھی۔ بگولے اوپر کو اٹھنے لگے سارنگ نے رک کر ہر اساں بختاں کو دیکھا پھر بمشکل اس کی ٹوٹتی بکھرتی آواز بختاں تک پہنچی … “تو فکر نہ کر…بس میرا ہاتھ تھام لے میں تجھے کسی بگولے کی زد میں نہیں آنے دوں گا اگر ایسا ہوا تو یہ ریت کے ذرّے پہلے میرا بدن کاٹیں گے …”
بختاں نے بمشکل سارنگ کو دیکھا اور بے بسی سے سوچا بے رحم بگولوں کی چمکتی چبھتی کاٹتی ریت اپنے گھیراؤ دباؤ میں لینے سے پہلے سارنگ کی محبت کونہیں تولے گی پھر ہم تو خود ریت کا کفن اوڑھنے کے لیے بڑھے جا رہے ہیں۔
زرد ریت کی تہہ میں نجانے کتنی بستیاں سو رہی تھیں ریگستانی دنیا کی پر اسراریت بڑھتی جا رہی تھی۔ حیات و موت کی جنگ جا رہی تھی گرم جھکڑّوں میں متبّدل ہوتی ہوائیں اور ہواؤں کا دم گھوٹنے والا شدید دباؤ تھا …مسافروں کو بھٹکانے والے، اپنا رنگ اور مقام تیزی سے تبدیل کرنے والے ریت کے ٹیلے، سمتوں کی شناخت مٹا رہے تھے۔ یکایک ارتعاش پیدا کرتی آندھی آئی جو لہروں پر لہریں ڈالتی ہوئی چہار اطراف ڈول رہی تھی یوں کہ آواز کا سماعتی مظہر واقع نہیں ہوپا رہا تھا ہوا اتنی تیز تھی کہ سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
دور کسی مضطرب سمندر کے ریتیلے ساحل نے موت کی گانٹھ بنانے کی تیاری کی پہلے ریت کے کھربوں ذرّوں کو یکجا کیا پھر دائروں پر دائرے بناتا بگولہ طوفانی رفتار سے بختاں اور سارنگ کی طرف بڑھنے لگا مرکزے میں ہوا کے کم دباؤ نے انھیں جو مہلت دی تھی وہ ختم ہونے لگی گردباد کے بگولے اُن کے گرد گھومتے گھومتے اپنا حجم تنگ کرنے لگے اتنا تنگ کہ سارنگ اور بختاں کو خوف نے ساکت کر دیا …اگرچہ ان کے درمیان حائل ریت نے ان کی اشکال دھند لاوی تھیں لیکن محبت اور زندگی کی چاہ نے سارنگ کے ساکت بدن میں اک حرارت سی بھری اس نے بے تابانہ بختاں کو چمٹا لیا یوں کہ جیسے وہ بختاں کے گرد اک حصار سا بنا رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک تندوتیز غیبی بگولہ ان کے گردہالہ ڈالنے آیا جس نے ان کے جسموں کو یوں علیحدہ کیا کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ ہو جانے کا احساس ہی نہ رہا گھٹتی دبتی سانسوں میں اپنی گھلتی مٹتی زندگی کی اذیتّ انھیں تڑپانے لگی۔ بس کچھ ہی دیر گزری۔ اس کے بعد بگولے کے اندر پھنسی ریت کا رنگ خاکستری سے سرخی مائل ہوا جلد ہی مزید رتیلے طوفان نے یہ سرخی بھی مٹادی اب وہاں کچھ نہ تھا۔
٭٭٭٭
شیدی اللہ وسایا اپنی جھونپڑی میں بے سدھ پڑا تھا۔ دکھ نے اس کی روح میں چھید ڈال دیئے تھے ہر موئے بدن پر درد کے آبلے تھے۔ پشیمانی تھی کہ وہ ریگستانی ہو کے ریگستان کے تیورنہ پہچان سکا۔ پہلے اس کے دل و دماغ کو رئیس کے خوف نے جکڑا ہوا تھا اب رئیس اسے حقیر کیڑے جیسا لگ رہا تھا اسے یہ آگہی ہی نہیں تھی کہ تقدیر کے طمانچے کی ضرب اتنی کاری ہوتی ہے۔ رات بھر اسے بختاں کی پکاریں سنائی دیتی رہیں۔ کبھی وہ اسے ساحلِ غلامان سے پکارتی کبھی گردباد میں پھنسی یوں پکارتی کہ سمت کا تعین ہی نہ ہو پاتا اور کبھی اللہ وسایا کو یوں لگتا کہ رئیس کی حویلی میں جلتی سلگتی کسی بھٹّی سے ایسے ارتعاشات اٹھ رہے ہیں کہ دہکتی لکڑیوں کی چٹخ میں بختاں کی آواز کا گمان سا ہو رہا ہے۔
جس وقت ریتیلا طوفان آیا تھا اللہ وسایا اس وقت دوڑا تھا کہ کسی طرح وہ ان بگولوں سے اپنی لختِ جگر کو بچا لائے لیکن ماچھی نصیر نے اسے زبردستی روک لیا تھا اور اس کے بے جان بے حواس جسم کو گھسیٹ کے اڑتے لرزتے جھونپڑے میں لے آیا تھا جہاں اللہ وسایاصحرا کی ٹھنڈی رات میں بھی جھُلستے ہوئے بگولوں کی تپش محسوس کرتارہا تھا۔ جنوبی سندھ کے ساحل کی ہوائیں بھی افریقہ کے ساحلِ غلامان کی طرح ظالم و سفاک نکلیں۔
٭٭٭٭
ریتیلے طوفان کے بگولوں کو قرار سا آ گیا تھا اب ریگستانی فضا پر بادل بچ کر گزرنے کی بجائے ٹھہرنے لگے تھے۔ موسمِ گرما کی طوالت اور پانی کی نایابی اپنے عروج پر تھی کہ برسات کی بوندوں نے اپنے آنے کی نوید دی۔ ٹوبھے آہستہ آہستہ بھرنے لگے خورد رو پو دوں کتڑن، پھوگ کھار اور لانٹریں سے اٹھتی بناتاتی مہک فضا میں بکھرنے لگی۔
شہزادی نے باغ میں جھولاڈلوایا۔ لونڈیاں اس کے گرد آکے کھڑی ہوئیں بختاں کی موت کا غم شہزادی بہت جلد بھول گئی تھی حالانکہ بختاں اسے سہلیوں کی طرح عزیز تھی لیکن خدمتگاری کے لیے لونڈیوں کی کمی تو نہ تھی۔ اس نے کڑھائی والے کرتے پر رنگین چنری اوڑھی ہوئی تھی اس کے گلے میں چاندی کی ہنسلی پڑی تھی جس میں چھوٹی چھوٹی ڈھولکیاں بنی ہوئی تھیں ہاتھوں میں کہنیوں تک چوڑیاں پھنسی تھیں وہ جھولے میں بیٹھی تھی لونڈیاں پیں گیں بڑھا رہی تھیں شہزادی برسات کا لطف لے رہی تھی لیکن اس کی نگاہ اپنے دلارے مور پر ٹکی ہوئی تھی جس کی گہری ابھری چمکدار لیکن جھکی آنکھوں کا اسرار آج کچھ سوا ہی تھا اس کے پروں پر بنے دائرے یوں تھے جیسے جہانیاں کی آنکھوں کی لاتعداد شبیہیں ہوں اور جو فقط شہزادی کو جھانک جھانک کے دیکھ رہی ہوں شہزادی نے ان دائروں کے بیچ کالے رنگ پر اپنی نظر جمائی ہوئی تھی اچانک بارش کی پھوار تیز ہو گئی بوندوں نے مور کے جسم کو کیا چھوا کہ اس کے اندر ایک تھر تھراہٹ سی بھر گئی جو شہزادی کی روح تک کو چھو آئی۔ مور اپنے لابنے حسین رنگین پَروں کو پھیلا چکا تھا اور دھیرے دھیرے بدمست ہو رہا تھا اس کے ناچ کی رفتار کو سبک انداز سے بڑھتے دیکھ کے شہزادی کو جہانیاں کا ناچنا اور علاقائی گیت سنانا یاد آ گیا وہ جھولا جھولتے جھولتے گانے لگی۔
اوڑے موریا موریا ڑے
تو نے دل لیا دل لیا ڑے
دکھ دیا دکھ دیا ڑے
اوڑے موریا موریا ڑے
سارا علاقہ جانتا تھا کہ وہاں کی روایت کے مطابق مور کو محبوب سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن یہ کوئی کوئی ہی جانتا تھا کہ اس مور میں شہزادی کو اپنے محبوب شیدی غلام جہانیاں کی روح سانس لیتی محسوس ہوتی ہے مور کا نیلا بدن پر اسرار شعاعوں سے بھرگیا تھا اور فضا کو منّور کرنے لگا تھا اس کی نیلی گردن اپنے حسن کے تکبّر سے اکڑی ہوئی تھی اس کا بھاری بدن پَروں کا گھنا پن اور اس پر اس کی بڑھتی بدمستی اس کی تھرک چلت پھرت انسانی نگاہ کے زاویے سے باہر ہونے لگی یوں لگ رہا تھا جیسے ہر سمت وہی ناچ رہا ہو اک عجب شان سے چہکتے اور ناچتے ہوئے فضا میں ہلکا سا بلند ہوتے ہوئے اس کی دُم برسات کی پھوار اور دھوپ کی آنکھ مچولی میں جو اہرات کی طرح دمک رہی تھی وہ رہ رہ کے کوک کو اس قدر ٹہوکیں مار رہا تھا کہ حویلی گونجنے لگی کیھو کیھو، یا پیھو پیھو کہتی اس کی غیبی آواز جب پلٹ کے آتی تو شہزادی کو جہانیاں کلام کرتا محسوس ہوتا اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باتیں جو جہانیاں اپنی زندگی میں شہزادی سے نہیں کہہ پایا تھا اب مور بن کے کہہ رہا تھا اس عجب طلسمی ماحول میں شہزادی تو کیا لونڈیاں بھی اپنی اصل نسل بھول کے مسحور ہو گئی تھیں۔
بڑا سائیں برسات کی آمد پر بہت خوش تھا لیکن اس کی حقیقی خوشی کی وجہ سارنگ کی عبرت ناک موت تھی جس کے لیے اسے بھٹّی سلگانے کی ضرورت نہیں پڑی اس کام کا اہتمام عناصرِ فطرت نے کر دیا تھا۔ وہ سارنگ کو اپنا رقیب تصور کرنے لگا تھا۔ بے شک بختاں سائیں کی نہ بنتی لیکن اس کے بخت پر سائیں کی اجارہ داری تو رہتی۔ اُس کے لیے نہ سہی اُس کے یار کو تحفے میں دینے کے لیے وہ زندہ رہتی تو اچھا تھا یہ کسک اس کے دل میں رہ گئی تھی۔ کامدار کے کہنے پر جب وہ برسات کے نظارے کے لیے باغ والے حصے میں آیا تو شہزادی کو جھولا جھولتے جھومتے گاتے دیکھ کے اس کی روح سُرور سے بھر گئی وہ وہیں ٹھہر کے اپنی چہیتی بیٹی کو پیار سے دیکھنے لگا یکلخت اس کا دل دکھ سے بھر گیا اس نے سوچا … ” کیا کمی ہے میری بیٹی میں؟؟ اتنی دولت وراثت کے ہوتے ہوئے بھی تنہا زندگی گزار رہی ہے اب تک اس کے جوڑ کا رشتہ نہیں ملا اور نہ ہی اس کی دماغی حالت ایسی رہی ہے کہ اب اس کا بیاہ کیا جا سکے۔ میرے ملکیتی علاقے میں جب میری بیٹی سکھی نہیں رہ سکتی تو پھر اور کوئی کیوں من پسند خوشیوں بھری زندگی گزارے …”؟؟
یک بیک بارش تیز ہو گئی بڑے سائیں نے گھبرا کے شہزادی کو دیکھا اس کے اشارے پر کامدار دوڑا اور اس نے لونڈیوں کو سائیں کا حکم دیا کہ وہ شہزادی کو اندر لے جائیں کہیں وہ بھیگ کے بیمار نہ پڑ جائے۔ لونڈیوں نے شہزادی کو سہارا دیکے جھولے سے اتارا اور اپنے جلو میں اندر لے گئیں۔ چکّر دھاری طاؤس کی شکل والے بستر پر نیم دراز ہونے کے بعد شہزادی نے اکتاہٹ کا اظہار شروع کر دیا اور بولی… “میرا دل مورناچ سے ابھی نہیں بھرا ہے یہ اور بات ہے کہ میرا موریا ناچ ناچ کے بہت تھک گیا ہو گا اب تم سب مورچال چلو تا کہ میرا دل بہلے۔ لونڈیاں مورچال کا ناچ ناچنے کے لیے فرش پر پنجوں کے بل بیٹھ گئیں اور ٹانگیں اونچی کر کے دونوں ہاتھوں کے بل فرش پر گھومنے لگیں۔ شہزادی انھیں دیکھ کے خوشی سے قہقہے لگانے لگی مور چھل سے ہوا جھلنے والی لونڈیوں نے مور کے پَروں کا پنکھا تیز ہلانا شروع کر دیا۔
٭٭٭٭
اللہ وسایا اپنی جھونپڑی میں کھجور کے بان کی چٹائی پر منہ لپیٹے پڑا تھا اس کے جسم کا خون آنسوؤں میں ڈھل کے ہر لمحے اس کی آنکھوں سے ٹپکتا رہتا تھا دنیا کی کوئی شے اسے صبر و قرار دینے کے لائق نہیں رہی تھی۔ اچانک بڑے رئیس کے خاص کامدار نے چق اٹھائی اور بے دھڑک اندر آ گیا۔
” اٹھ اللہ وسایا…کب تک سوگ منائے گا بختاں تو اب آنے سے رہی …” اللہ وسایا اُسی طرح لیٹا رہا کامدار کو حیرت ہوئی کہ اللہ وسایا حسبِ سابق لرزتا کا نپتا ہاتھ باندھ کے کھڑا نہیں ہوا اس نے اس کے کرخت اور متکبرانہ لہجے کو سنا ان سنا کر دیا تھا وہ اور زیادہ تڑخ کے بولا … ” سن او غافل غلام … بڑے سائیں کا قرض ابھی تجھ پر باقی ہے داجَل گائے کا تیرے ہاتھوں مرنا وہ بھولا نہیں ہے سزا تو تجھے مل کر رہے گی…اور تو ہے کہ اٹوٹی کھٹوٹی لیے پڑا ہے … بڑے سائیں نے کئی بار بلاوے بھیجے تو نے نافرمانی کی اور ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا…کیا تو چاہتا ہے تجھے بھی بختاں کے پاس پہنچا دیا جائے؟؟”
اللہ وسایا جست مار کے اٹھ بیٹھا اور روتے ہوئے کہنے لگا……
” ہاں … مجھے بھی کوئی بختاں کے پاس پہنچا دے …”
اس کی بے خوفی تھی یا اسکے چہرے پر کندہ غم کی تحریریں کہ کامدار ششدر رہ گیا پھر بولا “او … پگلے …تیرا وقت جب آئے گا تب آئے گا پہلے سے کیوں مرتا ہے … چل تجھے بڑے رئیس نے بلوایا ہے اگر اب بھی نہیں گیا تو وہ تیرے پاؤں کٹوادے گا پھر پڑا رہنا یہیں پر …”
کامدار نے اسے گھسیٹا اور تقریباً کھینچتا ہوا حویلی کی طرف چل پڑا……
٭٭٭٭
حویلی میں ایک کہرام تھا۔
شہزادی کا محبوب مور بارش کی بوچھاڑوں میں کہیں بھاگ گیا تھا یا کھو گیا تھا۔ بہتّر انچ لمبی دُم والے مور نے اپنے پیچھے ایک پَر بھی سراغ کے لیے نہ چھوڑا۔ حویلی کے تمام غلام لونڈیاں اور کامدار حویلی کا چپہّ چپہّ کئی بار دیکھ چکے تھے باہر دور دور تک بھی اسے ڈھونڈا گیا تلاش کی اس مشقّت نے اگر کچھ دیا تو بس یہی ایک سوال کہ وہ کہاں جا سکتا ہے۔؟؟
شہزادی پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے طبیب اس کے سرہانے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے …… ” گہرے صدمے کا اثر ہے … ازالہ کریں … ورنہ “… بڑے رئیس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ شہزادی اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی وہ تو اس کے لیے ایک پورا مورستان بناسکتا تھا لیکن جانتا تھا کہ شہزادی اپنے خاص مور کو کس روپ میں دیکھتی ہے وہ کسی اور مور کو قبول نہیں کر پائے گی۔ مزید کوئی صدمہ سہنے کی اس کے دل و دماغ میں اب طاقت بھی نہیں ہے۔ کیا خبر وہ مکمل حواس کھو بیٹھے … کیا خبر خود کو نقصان پہنچا دے …
بہت وحشتیں، اندیشے اور وسوسے تھے جو رئیس کو دیوانہ کئے ہوئے تھے اپنے ذہنی خلفشارکا اظہار اس نے غلاموں اور لونڈیوں پر چمڑے کا ہنٹربرسا کے کیا۔ مور کے خدمتگار کا بدن لہو لہان کر دیا اب اس کی جاں بخشی مور کے مل جانے پر طے تھی۔
شہزادی بین کر رہی تھی سینہ کوٹ رہی تھی اس نے اپنے گانے گہنے اتار پھینکے تھے بال کھول کے بکھرادیئے تھے اور فرش پر گر کے ماۂی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کے دہائی دے رہی تھی۔
” یہ محلّات اور ماڑیاں بھاڑ میں جائیں مجھے تھر بھیج دے بابا۔ میرا موریا وہیں گیا ہو گا وہاں موروں کے جھنڈ میں حیران واداس کھڑا ہو گا… میرے دل کے ٹوبھے میں غم بھر گیا ہے میں اپنے موریا کے بنا جی نہیں پاؤں گی۔ “
رئیسانی اسے سنبھالتے سنبھالتے بے حال ہوئی جا رہی تھی لیکن شہزادی کی فریادیں کم نہیں ہو رہی تھیں۔
” ارے کوئی تو کانگل (کویّ) کو کھنڈ چوری کھلاؤ کہ وہ کاں کاں کرتا آئے اور مور پیاکے آنے کی خبر کرے … او میرے موریا… موڑ مہاراں …”
شہزادی کو پڑنے والے غشی کے دوروں میں شدت آ رہی تھی طبیب مضطرب ہو کے راہداریوں میں چل پھر رہے تھے سکون آور ادویات بھی کا رگر ثابت نہ ہوئیں غلاموں کا مداروں کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں سب کی روٹی مانی بند تھی…
اچانک بڑے رئیس کی نظر اپنے خاص کامدار پر پڑی جو شیدی اللہ وسایا کو گھسیٹتا ہوا لا رہا تھا وہ دانت کچکچاتا ہوا آگے بڑھا اور اللہ وسایا کو مخاطب کر کے بولا۔
” میں تیرے ہاتھ پاؤں کٹوا دوں گا تجھے کتّوں کے آگے ڈال دوں گا۔ میرے بار بار بلانے پر بھی تُو نہیں آیا بڑا پھنّے خان بنتا ہے …ابھی تو میری داجل گائے کا بدلہ پورا نہیں ہوا تھا کہ تو نے بختاں اور سارنگ کو بھگانے کی سازش کی یہ جرم ہے جرم…وہ نہ مرتے تو میں انھیں مار دیتا … ” بڑا سائیں غصّے میں پاگل ہوا جا رہا تھا۔
“بڑے سائیں۔ میں اب بھی مشکل سے اسے لایا ہوں یہ نہیں آ رہا تھا۔ اسے اس کی نافرمانی کی سزا ملنی چاہیے۔ اس کے تمام جرم ناقابلِ معافی ہیں …… ” کامدار نے کہا۔
” سو وہ تو ہیں … لیکن…اگر… اگر …”! بڑے سائیں کا لہجہ اچانک ہی بدل گیا تھا۔ کامداروں اور غلاموں نے حیرت سے دیکھا سزا کا حکم صادر کرتے کرتے “اگر” کالفظ کہاں سے آیابڑا سائیں تو اپنے فرمان میں اگر، لیکن جیسے لفظ استعمال نہیں کرتا تھا اضطراب بھرے تجسّس سے وہ سائیں کا منہ تکنے لگے …
” میں اسے معاف کر سکتا ہوں … اگر … یہ میری شہزادی کے مور کو ڈھونڈ لائے …”
” واہ … واہ بڑے سائیں … آپ بہت دل والے ہیں۔ “ایک کامدار نے کہا۔
“اتنا بڑا مجرم اور سزا بس اتنی سی …”؟؟
خوشامدیوں نے مزید سزا کے لیے اکساتے ہوئے کہا لیکن یہ تو بڑے سائیں کو معلوم تھا کہ مور کا ملنا نہ ملنا شہزادی کی حیات و موت کا مسئلہ ہے اور شہزادی کی حیات و موت رئیس کی اپنی حیات و موت کا فیصلہ ہے۔
٭٭٭٭
حویلی سے باہر نکل کے اللہ وسایا نے سر اٹھا کے برستی بارش کو حسرت ویاس سے دیکھا اور بڑ بڑایا… ” او … ظالم آسمان…تُو اُس وقت کیوں نہیں برسا جب ریت کا طوفان میری بختاں کو گھیر رہا تھا … آگ لگے تیرے بادلوں کو …” وہ روتا ہوا اپنی دھن میں چلتا چلا جا رہا تھا یونہی بھٹکتے بھٹکتے، بے ارادہ چلتے وہ جھوک سے دور نکل آیا …کیسا مور…؟ کہاں کامور؟؟اسے کسی کی تلاش نہیں تھی وہ تو خود ہی گم ہو چکا تھا۔ صحرا کی خورد روجھاڑیاں کرڑ، کنڈا اور پوئی کثرت سے اُگی ہوئی تھیں ریگستانی پودوں سے ہٹ کے صحرائی ٹیلوں کی مخالف سمت میں ایک جنگل تھا خار دار زہریلے پودوں سے بھرا ہوا … وہاں سانپ بچھوؤں اور زہریلے حشرات کی بہتات تھی لمبے کانٹوں والے ببول کے درختوں کے سلسلے تھے جب اللہ وسایا کے پھٹے بوسیدہ کپڑے جھربیری اور کیکر کے کانٹوں میں الجھنے پھنسنے لگے تو اس نے سراٹھا کے دیکھا…… سامنے جنگل تھا۔
بے خیالی میں جنگل کی حدود میں اس کا داخل ہو جانا محض اتفاقیہ نہیں تھا اس جنگل کی ہری بھری دنیا سے اس کی انسیت اور شناسائی پرانی تھی یہ جنگلی ماحول ہمیشہ اسے بے کنار سکون و طمانیت سے مالا مال کرتا تھا یہاں وہ بچپن سے آتا تھا اپنے باپ کے ساتھ … اس کا باپ اسے یہاں اگنے والی جڑی بوٹیوں کے خواص سے آشنا کرتا تھا … جب کبھی جھوک میں کسی کو سانپ ڈستا یا بچھو ڈنگ مارتا تو اللہ وسایا اسی جنگل کارخ کرتا اور تھوہر کی جڑ اکھاڑ کر لے جاتا پھر اسے زہر کے توڑ کے طور پر استعمال کرواتا تھا لیکن اب خود اس کے اندر غم کا جو زہر اترا تھا اس کا تریاق کہیں نہیں تھا وہ ایسی موت جی رہا تھا جواس کے لیے حقیقی موت سے زیادہ المناک تھی جنگل کے مرکزے میں آنے کے بعد سستانے کے لیے وہ بوہڑ کے ایک قدیم درخت کی ابھری جڑوں پر بیٹھ گیا بوہڑ کی چھال نرم بھورے رنگ کی تھی اور سدا بہار بلند و بالا شاخیں بے حد گھنی تھیں جن پر اس کی جڑیں آویزاں تھیں اور زمین کو چھورہی تھیں۔ پرندوں کی چہکار تھی مغنی چڑیاں اونچی آواز میں گا رہی تھیں۔ شجرگیر پرندے بارش کی وجہ سے باہر آنے والے حشرات کو اپنے تیز چنگل میں دبوچ رہے تھے۔ چاق و چوبند مینائیں اِدھر سے اُدھر پھُدک رہی تھیں ان کا رنگ گہرا بھورا تھا ٹانگیں اور چونچ زرد تھیں وہ ہلکی پھوار میں اپنے نرخرے سے ایک ہی بارمیں مختلف سُر نکال کے کراری آواز میں پورا جنگلی ماحول سر پر اٹھا رہی تھیں۔
جنگل کا یہ مرکزی حصّہ، کشادہ اور جنگلی حیات سے مالا مال تھا… پرندوں کی خوش الحانی اور نایاب جڑی بوٹیوں سے بھری جنگلی جھاڑیوں سے مہکتی ہوا نے اللہ وسایا کے مضطرب دل و دماغ کو سکون بخشا۔ اب وہ بے خیالی میں بوہڑ کے درخت کی پتلی جھومتی جھولتی جڑوں کو ہاتھ میں لے کر مڑور رہا تھا قریب ہی ناگ پھنی کی کانٹے دار جھاڑی سرخ و زرد پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ یکایک اسے خیال آیا کہ بوہڑ کی قدیم جڑوں میں زہریلے ناگ رہتے ہیں کیوں نہ وہ خود کو کسی ناگ سے ڈسوا کے اس عذاب بھری زندگی کا خاتمہ کر لے اور خود بھی اس جنگل کے رازوں میں سے ایک راز بن کے رہ جائے۔
اچانک اسے پیھو پیھو کی گونجیں سنائی دیں اس نے دیکھا چند سفید نیلے مور اور گلابی گردنوں والی مورنیاں بھاگ بھاگ کے جنگل کے کھلے حصّے میں جمع ہو رہے تھے وہ مور جو درختوں کی بلند شاخوں پر بیٹھے موسم کا لطف لے رہے تھے وہ بھی انھیں دیکھ کے نیچے اتر آئے بارش کی بوندیں ان کے سبز سنہری پَروں کو چھیڑ چھیڑ کے کھول رہی تھیں اور وہ بدمست ہو رہے تھے۔ یکدم اسے غیر معمولی قدوقامت کا اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والا حسین و چوکس نیلا مور دکھائی دیا جس کے بدوضع پاؤں گھنگھرؤں اور رنگین چھلّوں سے بھرے ہوئے تھے وہ اپنی لمبی پتلی نیلگوں گردن ادائے دلنشینی سے گھما کے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا جنگل بھی اپنے ایسے حیوان پرنازاں تھا جو سب سے زیادہ خوبصورت چاق و چوبند تیز رفتار اور جنگلی بلّے کی طرح گھات کا ماہر تھا اور اب تو اس کے کئی ساتھی بھی تھے جو برسات کی بوندوں کی جادوئی کشش میں مبتلا ہو کے بدمست ہوتے جا رہے تھے جنگل میں منگل تھا درختوں پر بیٹھے پرند، زمین پر چرتے چرند حیران تھے کہ جنگل میں قوس و قزح کے کیسے منظر اتر آئے ہیں۔ جو انِ رعنا مور آزادی کے نشے میں جھوم رہا تھا شیدی اللہ وسایا نے اسے ایک ہی نگاہ میں پہچان لیا تھا یہ شہزادی کا مور تھا۔
وہ اپنی آزادی کے تفاخر میں یوں مبتلا تھا کہ اس کی چال ڈھال بھی بدلی ہوئی سی لگ رہی تھی اس کے آزادانہ تیور دیکھ کے اللہ وسایا کے دل میں اک ہُوک سی اٹھی اسے اپنا غلام وجود اِس آزاد پرندے سے بھی کمتر محسوس ہوا۔ اس نے دیکھا کہ مور، مورنیوں کے گرد پیلیں ڈال رہے تھے یہ ملاپ کا موسم تھا شہزادی کا چہیتا مور ایک گلابی مائل گردن اور زرد بھورے حاشیے پڑی مورنی کے گرد دیوانگی سے چکرّ کاٹ رہا تھا اس کے رقص میں بے خودی بڑھتی جا رہی تھی ایسی سپردگی تو اس نے اپنی نازبر داریاں اٹھاتی شہزادی کے سامنے کبھی نہ دکھائی ہو گی۔ وہ اپنے سنہری نیلے سبز پروں کو ہر زاویے سے لہرا کے مورنی کو اپنی جانب راغب کر رہا تھا اللہ وسایا کو وہ شہزادی کا محبوب موریا نہیں بلکہ فقط ایک جنگلی مور لگ رہا تھا جو اپنی مورنی کے گرد پیلیں ڈالتے ہوئے اپنے اصل مقام پر حسین ترین لمحات جی رہا تھا۔ اس مورنی کے مقابل شہزادی کی پذیرائی اور خدمتگاری کتنی ہیچ تھی شہزادی کی انہونی محبت کی قید سے آزادی نے مور کے پَروں میں بجلیاں بھر دی تھیں وہ اپنی فطرت کی طرف لوٹ رہا تھا اورصرف اپنی مورنی کے لیے ناچ رہا تھا اسی میں اس کی بقا تھی … شہزادی اس کی خود پسندی اور تکبّر کو سراہتی تھی مورنی اپنی بے التفاتی اور بے نیازی سے اس کے دل کو لبھا رہی تھی شہزادی کے مقتول محبوب جہانیاں سے مماثل ادا و فطرت رکھنے والا اور حویلی میں رئیس زادوں کی طرح پرورش پانے والا مور، ایک بے پروا مورنی کو رُجھانے کے لیے اپنے پروں کو آسمان تک پھیلا دینے کی خواہش میں پاگل ہوا جا رہا تھا اس کے والہانہ رقص سے اس کے جسم کے کس بَل دکھائی دے رہے تھے اللہ وسایا محویت سے اسے دیکھنے لگا۔ یک دم اس کی نظریں پیشِ نظر سے کٹ کے کسی ماورائی منظر سے جڑ گئیں یہ اس کے رنج و مُحن کا صلہ تھا یا کوئی لمحہ اسے ایسا مل گیا تھا کہ اِلقاجیسی کرامت لیے ہوئے ایک نیا منظر نامہ اس پر کھلا وہ یوں کہ اللہ وسایا نے مور اور مورنی کی جگہ سارنگ اور بختاں کو رقص و سرور میں بیخودپایا۔ جنگل کی آزاد فضا میں آزادی کے دو متوالے اس نے یوں دیکھے جیسے واقعی انھیں دیکھ رہا ہو پس اسی لمحے سارا جنگل سُروں میں ڈھل گیا اور گیتوں سے گونج اٹھا۔
اچانک بوہڑ کے درخت کی کھوہ سے ایک دراز سیاہ و نقشین کو برا رینگتا ہوا نکلا اس کی نہایت تیز چمکدار مسحور کرتی آنکھیں شیدی اللہ وسایا پر مرکوز ہو گئیں۔ ساون کا زہر بھرا کو برا بیتابی سے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ اللہ وسایا اپنی بیخودی سے ہڑ بڑا کر باہر آیا کو برا نے اس کے قریب پہنچ کے کنڈلی مار لی اور اپنے شکار کو گھورنے لگا۔ اللہ وسایا کسی سحرزدہ کی طرح اس کی طرف دیکھتا رہا۔ بوہڑ سے ہٹ کے جنگل کے کھلے حصّے میں پیلیں ڈالتے شہزادی کے حسین مور نے اچانک ہی اپنی نیلگوں صراحی دار گردن گھمائی اور کوبرا کو دیکھتے ہی بجلی کی سی سرعت سے اس کی طرف لپکا زہر یلا ناگ اپنے زہر سے بیتاب ہو کے باہر تو نکل آیا تھا لیکن مور کی سرحد پر اس کا آ جانا زندگی کو داؤں پر لگانے کے مصداق تھا مور کے قریب آنے سے پہلے اس نے کنڈلی کھولی اور رینگتے ہوئے کھوہ میں گھسنے کو تھا کہ اس کے سر کے ذرا نیچے مور نے اپنی نوکیلی چونچ سے ایسی پر قوّت ٹھونگ ماری کہ کو برا تڑپ کے رہ گیا۔ چوکس و توانا مور برق رفتاری سے اسے ٹھوں گیں مار رہا تھا وہ کوبرا کو سنبھلنے یا بھاگنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ سیاہ ناگ نے بچاؤ کے لیے اپنی لمبی دوشاخہ زہر سے نیلی زبان باہر نکالی لیکن مور اس پر قابوپا چکا تھا اس نے اتنے کچو کے لگائے کہ سانپ کا کچو مر نکل گیا بالّاخرنیلے جسیم مور نے ادھ مرے کو برا کو اپنی نوکیلی چونچ میں پھنسا کے تیزی سے نگل لیا…
شیدی اللہ وسایا نے ایسا منظر پہلے نہیں دیکھا تھا اس کے دماغ کی بھٹّی اب ایک اور رُخ پر سلگ اٹھی تھی غلامی کا غلاف توچیتھڑے ہو کے پہلے ہی گرچکا تھا لیکن اس منظر نامے میں اسے کچو کے کھاتا سانپ اپنے اندر ڈھلتا محسوس ہوا تھا اورچیتے کی طرح چوکس بے رحم حملہ آور نیلا مور اس کے لیے بڑے سائیں کی مماثلت اختیار کر چکا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں دبی بوہڑ کی جڑیں جھٹکے سے کھینچ کے توڑیں پھر ان کا بڑا سا پھندا بنایا اور مور کی طرف اچھال دیا…… شہزادی اور حویلی کے غلاموں کی محبت سے کی گئی نگہداشت نے اس پالتو مور کو انسانوں سے بے خوف کر دیا تھا کوبرا کو مار نے اور کھانے کے عمل نے اسے تھکا کے سست کر دیا تھا پھندا اس کے پاؤں میں الجھنے لگا مور نے حیرت سے اللہ وسایا کو دیکھا لیکن اب اس کے سامنے زمینی رینگتا کیڑا نہیں دنیا کا ذہنی طور پر طاقتور ترین حیوان تھا اللہ وسایا نے پھندے کو پوری قوت سے کھینچا اس کا نشانہ اس کی ناچتی ٹانگیں ہی تھیں رنگین چھّلے اور گھنگھرو بجنے لگے مور زمین پر گر چکا تھا اللہ وسایا نے پھندا کسنا شروع کیا مور کا جسم پھڑکنے لگا ٹانگیں چھڑانے کی جد و جہد میں اس کے نیلے سنہری سبز پَر ٹوٹ کے گرنے لگے اور لحیم شحیم سراپا جھٹکے کھانے لگا اللہ وسایا کے اندر گور پت (بجّو) جیسی پھرتی اور لچک بھر گئی اب وہ ایک بوڑھا مظلوم غلام نہیں تھا ایک مشّاق حملہ آور تھا پھر اللہ وسایا نے اپنے کندھے پر پڑی کھیس نما چادر اتاری اور مور کے چھوٹے سے منہ اور نوکیلی چونچ کے اوپر ڈال دی نیلا مور اپنے دشمن کو دیکھنے سے بھی محروم ہو گیا…
کیھو کیھو کی بھدّی اور ناقابلِ سماعت گونج پھیلنے لگی…جنگلی حیات چونک گئی۔ پرندے سہم کے اڑنے لگے مور مورنیوں نے جھاڑیوں کی طرف دوڑ لگا دی دیکھتے ہی دیکھتے سماں بدل چکا تھا اللہ وسایا مور کے قریب بیٹھ گیا اس نے اپنی چادر کا پھندا بنا کے مور کی گردن میں تنگ کرنا شروع کیا مور کی صوتی لرزشیں گھٹنے بڑھنے لگیں۔ بالآخر مور مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔ اللہ وسایا نے دیکھا جنگل کا مرکزی حصہ ویران ہو چکا ہے گلابی گردن والی مورنی سب سے آخر میں وہاں سے مڑی……
اللہ وسایا بڑبڑایا………
“میری بختاں اور سارنگ کی سہمی سہمی خوشیاں بھی انھیں راس نہ آئیں اور بڑے سائیں کی بیٹی کے مور کی ایسی کھلی ڈلی خوشیاں …! کہ یہ اپنی مورنی کے گرد پیلیں ڈالے تو پورا جنگل اس کے ساتھ ناچنے لگے …میری بختاں اور سارنگ بڑے رئیس کے ظلم کے خوف سے بھاگے اور طوفانی بگولوں میں پھنس کے جان دے دی…بڑا رئیس میری بیٹی کی حیاتی، عزّت اور خوشیوں کا سوداگر بنا رہا اور میں اس کی بیٹی کی خوشی کی خاطر اس مور کو اس تک پہنچاتا؟؟
شہزادی اس مور کے لیے تڑپے گی اتنا کہ مر جائے گی پھر اُس کے غم میں بڑا رئیس تڑپے گا اتنا کہ مر جائے گا …میں تو ریگستان کا کوبرا بن چکا ہوں کئی نسلوں کا زہر میرے سر کے اندر جمع ہوتے ہوتے گٹھلی سا بن گیا ہے بڑا رئیس چاہتا تو مہرو محبت سے اس زہریلی گٹھلی کو منکا بنا دیتا لیکن اس نے اسی زہریلی گٹھلی پر وار کیا زہر بہہ نکلا ہے اب سب گھل گھل کرمریں گے …”
مور کی گردن پر لگائی گئی گرہ کَسی ہوئی تھی اور مور کا بدن پھڑک رہا تھا۔ گرہ پر زور لگانے سے اللہ وسایا کی گردن کی رگیں پھُول کے سرخ ہو گئی تھیں سات سیر سے زیادہ وزن کا جوان طاقتور جانورجب ٹھنڈا ہونے لگا تواللہ وسایا نے اپنی خون آلود چادر جھاڑی اور اٹھ کھڑا ہوا پھر اُس نے جنگل کو چاروں جانب گھوم کے دیکھا اب جنگل اسے کچھ اور ہی طرح دکھائی دے رہا تھا اسے محسوس ہوا جیسے اس کے اندر سے کوئی محبوس پرندہ پھڑ پھڑاتا ہوا باہر آیا ہے اور کھلی فضا میں آزادی سے پرواز کرنے لگا ہے پھر یکا یک پرندے کا رخ ساحلِ غلامان کی جانب ہو گیا لیکن اب ساحلِ غلامان کا منظر ہی بدل چکا تھا وہاں کے ساحلی درختوں پر لٹکتی زنگ آلود لوہے کی کڑیاں ٹوٹ کے گر چکی تھیں اگر کچھ تھا تو سایہ دار و مہربان درختوں کے اپنی جانب بلاتے سلسلے تھے۔ افریقہ کے ساحلوں سے اٹھنے والے طوفان جو سندھ کے صحرا کے ساتھ مل کے صدیوں سے بین کر رہے تھے اب خاموش ہو چکے تھے۔
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید