(Last Updated On: )
وہ دونوں دور آ چکے تھے۔ اب خطرہ نہیں تھا۔ ریل کا رات بھر کا سفر انہیں شہر کی حدود سے باہر لے آیا تھا۔ کاکو ڈبوں کے درمیانی راستے کے فرش پر اکڑوں بیٹھا تھا۔ چھوٹی چھوٹی سیاہ اور غیر معمولی چمکتی ہوئی آنکھوں والا کاکو گھنٹوں گم سم کیفیت کے بعد اچانک سیامی بلّی کی طرح چونک پڑتا اور شاہ عالم کو یوں دیکھتا جیسے اسے اس کے بچھڑ جانے کا خوف لاحق ہو۔
“کاکو۔۔۔۔۔ کیا وہ ہمیں تلاش کریں گے؟” شاہ عالم نے پوچھا۔ لمبے پتلے سیاہی مائل جسم کی چوڑی بے ہنگم ہڈیوں پر منڈھی چمڑے جیسی کھال میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ وہ حسبِ عادت خاموش بیٹھا رہا، پھر جیسے شاہ عالم کی نظریں اپنے چہرے سے ہٹانے کی خاطر دھیمے سے بولا، “انہیں کیا غرض؟” اور دوبارہ اپنی مخصوص کیفیت میں چلا گیا۔ کاکو کے اندر کوئی اجنبی روح تھی جو اس کے بدن سے مماثلت نہ رکھتی تھی۔ اس کے گھنٹوں عالمِ استغراق میں بیٹھے رہنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کوئی تپسیا کر رہا ہو۔
اس رات کا اندھیرا تمام راتوں سے زیادہ گہرا تھا۔ شاہ عالم پہلی بار گاڑی میں بیٹھا تھا۔ ریل کی چھک چھک کا ردم اس کے وجود میں کوئی انجانا سرور گھول رہا تھا۔ بہت دور ستارے تھے جو کھڑکی سے جھانک جھانک کر ہنس رہے تھے کہ وہ اُن سے باخبر ہیں مگر کائنات کی پراسراریت میں کوئی چیز تھی جو اس احساس کو ان کے گرد خوشبو کی طرح پھیلا رہی تھی کہ وہ جس سفر پر نکلے ہیں وہ نروان کا ہے اور یہ ریل سدھارتھ کے خاص گھوڑے کنتکا کی طرح ہے جو انہیں ان دیکھی منزل کی جانب لے جار ہی ہے مگر سدھارتھ کون تھا؟ کاکو یا شاہ عالم؟۔
“ہم کون ہیں کاکو؟” یتیم خانے کے گندے فرش کو ٹاٹ کے ٹکڑے سے رگڑتے ہوئے شاہ عالم اکثر پوچھا کرتا تھا۔
“ہم سماج کی نالیوں میں بہتے وہ کیڑے ہیں جن سے تعفّن پھیلتا ہے “۔ کاکو جواب دیتا۔ وہ شاہ عالم سے چھ سال بڑا تھا۔ وہ اکثر چپ رہتا لیکن کبھی بولتا تو چونکا دیتا تھا۔ مہتمم اس کی کاٹ دار باتوں کے سبب اسے ناپسندکرتے تھے وہ کون تھا یہاں کیسے آیا کسی کو یاد نہ تھا۔ اس کا نام کبیر درج تھا لیکن اسے کسی نے نام سے نہ پکارا تھا سب کو یقین تھا کہ وہ اپنی کم خوراکی، کم خوابی اور استخوانی ہیئت کی بناء پر بہت جلد مر جائے گا۔ خود اسے یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے لیکن اس کی روح یہاں رہنا چاہتی ہے۔ کوئی سوال تھا جس کی گرہ میں اس کی روح الجھ گئی تھی اور اب رہائی حاصل کرنے سے پہلے اسے ایک بہتر اور خالی مسکن درکار تھا۔ جہاں بیٹھ کر اسے اُس گرہ کو کھولنے کی مہلت حاصل ہو۔
ریل گاڑی رک گئی تھی۔ نسبتاً ویران جگہ تھی۔ اسٹیشن کا بورڈ بھی نہیں تھا۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ دونوں اتر گئے۔ شاید وہ دسمبر کے آخری دن تھے زرد پتوں کا جال زمین پر بچھا تھا۔ ہوا میں اضطراب کی سی کیفیت تھی مگر وہ دونوں مطمئن تھے۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا فیصلہ تھا جو خوف اور انبساط کی ملی جلی کیفیت پیدا کر رہا تھا۔
کچرے سے کاغذ چن چن کر بیچتے ہوئے انہیں بہت دن ہو گئے تھے۔ کچھ رنگین اور صاف کاغذ وہ رکھ لیا کرتے اور رات کو کسی کھمبے کی روشنی میں انہیں پڑھنے کی کوشش کرتے۔ یتیم خانے میں دی گئی تعلیم ان کی واحد خوشگوار یاد تھی۔ پھر ایک دن کچرے سے انہیں ایک بوسیدہ سی ادھوری کتاب ملی، جس میں مقدرات کا ذکر تھا۔ عہدِ عتیق کی برباد تہذیبوں کے کھنڈرات میں بھٹکتی روحوں کا احوال تھا۔ انسان کی ازلی و ابدی محرومیوں پر اٹھائے گئے کچھ سوال تھے۔۔۔۔ یہ سب کچھ ان دونوں کی سمجھ میں تو نہ آتا تھا لیکن حرف حرف ان کی روح میں جذب ہوتا جاتا تھا۔ وہ کتاب دونوں کی دوست بن گئی۔ دونوں کا خیال تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ اس کا مفہوم پا لیں گے۔
ایک روز کچرے کے ڈھیروں میں کاغذ ناپید تھے۔ بھوک جب ان کی آنتیں چبانے لگی تو مجبور ہو کر وہ پرانی کتابوں کی ایک دکان میں گھس گئے اور اپنی کتاب پیش تختے پر رکھ دی۔ دکان کا بوڑھا مالک بھی کسی بوسیدہ کتاب کی مانند تھا، تھکا تھکا سا اور وقت سے بہت پیچھے رہ جانے والا۔ وہ ہنسنے لگا، کبھی انہیں دیکھتا اور کبھی کتاب کو۔ شاید وہ مدتوں بعد ہنسا تھا، اس لیے ہنستا چلا گیا۔
بوڑھا اپنی نوجوانی میں جہاں گرد رہ چکا تھا۔ ان دونوں کو دکان پر نوکر رکھ لینے کے بعد اس نے یہی بتایا تھا۔ وقت نے اسے کب اور کہاں ٹھوکر ماری، یہ اسے یاد نہیں تھا۔ عمر کی کچھ نقدی عجلت میں گر گئی تھی یا پھر منسوخ ہو گئی تھی۔ اب جو وقت اس کے ہاتھ میں تھا اس کی قدر و قیمت بازار میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ جی رہا تھا بس جئے جا رہا تھا۔ ان دونوں کے آنے سے پرانی کتابوں کی دکان میں جو کسی قدیم پراسرار قلعے کا تہہ خانہ لگتی تھی، کچھ روشنی سی پھیلنے لگی تھی۔ کاکو زیادہ وقت دکان کے ایک کونے میں بیٹھا سوچتا ہوا گزار دیتا۔ شاہ عالم پرانی کتابوں کی جھاڑ پونچھ کرتا۔ بوڑھے جہاں گرد کے ساتھ گاہکوں سے نبٹتا، پھر خالی وقت میں کوئی کتاب لے کے بیٹھ جاتا اور پڑھنے کی کوشش کرتا۔ پڑھے گئے لفظ رات کو خواب میں مجسم ہو کر اس کے گرد ناچنے لگتے تھے۔ سویرے اٹھتے ہی وہ کاکو سے بہت سے سوال کرتا۔ اسے یقین تھا کہ خاموشی کے خول میں بند کاکو کے وجود میں ایسی بھیانک چیخیں ہیں جن کی گونج سے آتش فشاں ابل سکتے ہیں۔ شاہ عالم کو کاکو کے بغیر اپنا وجود نامعلوم سمت کی ان دیکھی کھونٹی پر ٹنگا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
وہ شام ان کے درمیان ٹھہر گئی تھی۔ کتابوں کی دکان سے نکل کر وہ ایک ویران باغ کی بینچ پر جا بیٹھے۔ کاکو نے غور سے پہلی بار دیکھا تو شاہ عالم اسے ایک مضطرب نوجوان لگا، شاہ عالم چونک اٹھا، کاکو مسکرا رہا تھا، شاید پہلی مرتبہ اس نے کاکو کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن یہ مسکراہٹ اس کے چہرے کو بھیانک بنا رہی تھی۔ “کاکو مجھ سے باتیں کرو۔۔۔۔۔ میں تم سے محروم ہوں۔۔۔۔۔ یہ محرومی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ “شاہ عالم دکھ سے بولا۔۔۔۔ “مجھے بے چارگی سے نفرت ہے کچھ کر سکتے ہو تو کرو”۔۔۔۔ کاکو سختی سے بولا۔
مگر کیا۔۔۔۔۔۔؟
“اپنے نام کے معنی سمجھو شاہ عالم، یہ نام اس تختی سے اترا ہے جس میں تمہارے نام کے علاوہ کچھ اور بھی لکھا جانا تھا لیکن وہ خالی ہے اسے تم نے بھرنا ہے۔ “
“کاکو۔۔۔۔۔ میں اپنی تقدیر۔۔۔۔۔۔ “
شاہ عالم نے اسے پہلی مرتبہ اتنی تیزی سے حرکت کرتے دیکھا تھا۔ باغ کی زمین پر اس کے قدموں کے نیچے خزاں رسیدہ پتے چر چرا رہے تھے اور وہ آسمان کو تک رہا تھا۔ “یہ ایک ایسی سازش ہے جو روزِ ازل ہمارے خلاف کی گئی ہے “۔۔۔۔ وہ بڑبڑایا۔
“مگر کاکو۔ ہم کیا کر سکتے ہیں “۔۔۔۔ شاہ عالم بھی کھڑا ہو گیا۔
“سب کچھ۔۔۔۔۔ “وہ گہری اور مضبوط آواز میں بولا۔
“ڈرے سہمے بے چارگی کے مارے لوگوں کو کوئی تو بتائے۔۔۔۔ کوئی تو بتائے “
وہ مٹھیاں بھینچتا آگے بڑھا اور ایک درخت کے تنے سے سر ٹکرانے لگا۔
“کاکو۔۔۔۔۔۔۔ ” شاہ عالم نے بڑھ کر اسے پکڑ لیا۔
“کچھ کہو کاکو۔۔۔۔ کچھ بولو۔۔۔۔ میں تم سے تمام باتیں سننا چاہتا ہوں تم جانتے ہو کہ تم میرے لیے کیا ہو؟”۔۔۔۔
کاکو مڑا۔ اب اس کے ہونٹوں پر پھر وہی مسکراہٹ تھی معنی خیزاور پراسرار۔ اس کی چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھوں کی روشنی آگ کی طرح خاکستر کر دینے والی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا سارا وجود نچڑ کر اس کی آنکھوں میں آ گیا ہو۔۔۔۔۔ شاہ عالم گھبرا کے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
“ہاں۔۔۔۔۔ “وہ گہری اور گمبھیر آواز میں بولا۔۔۔۔۔ “مگر تم نہیں جانتے کہ تم میرے لیے کیا ہو؟”
“میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ کاکو؟؟”شاہ عالم بے یقینی کی سی کیفیت میں اس کے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ کاکو نے اسے اٹھا کر کھڑا کیا وہ فراعنۂ مصر کے تخت پر متمکن کوئی مغرور اور خود پسند فرعون لگ رہا تھا۔ جسے اپنے ہونے کا یقین ہو اور یقین بھی ابد تک پھیلا ہوا۔
“کوئی راستہ ہے جسے دریافت کرنا ہے۔۔۔۔ اسے پانے کے لیے ہم دونوں کو ایک ہونا پڑے گا۔۔۔۔ ” کاکو نے کہا۔
“ایک۔۔۔۔؟؟” شاہ عالم حیرانی سے بولا۔
“ہاں۔۔۔۔ پاؤں تمہارے ہوں گے اور سر میرا۔ اس طرح ہم ایک ہو جائیں گے۔ پھر تمہارے پاؤں راستے پرچلیں گے اور میرا سر اُس راستے کی نشاندہی کرے گا۔۔۔۔۔ “
٭٭٭
بوڑھے جہاں گرد نے بڑبڑاتے ہوئے کاکو کے سامنے سے پھٹے کاغذوں کے ڈھیر کو ہٹایا۔ ” میں نہیں جانتا کہ تم دونوں کیا چاہتے ہو۔ اس دکان پر میں ایک دیوانہ کافی نہیں تھا جو تم دو کا بھی اضافہ ہو گیا”۔۔۔۔۔ وہ کتابوں کی الماریوں کی طرف آیا جہاں شاہ عالم کسی جنونی کی طرح کتابوں کو الٹ پلٹ رہا تھا۔
“کیوں بیٹا۔۔۔۔ یہ سارا سارا دن تم ان بوسیدہ کتابوں میں کیا تلاشتے ہو اور رات رات بھر وہ کون سی باتیں لکھتے ہو جنہیں پڑھتے ہی کاکو پھاڑ دیتا ہے۔۔۔۔ “
شاہ عالم نے ذرا کی ذرا رک کے اسے دیکھا اور بولا۔۔۔۔ “بابا جی تم سے کہا نا۔۔۔۔ کہ تمہارا کام میں پورا کر دیا کروں گا، بس تم کچھ پوچھا نہ کرو۔۔۔۔۔ “
“کاکو کیا ازل سے ابد تک بہنے والا دھارا، ہمیں یونہی نیست و نابود کرتا رہے گا “
وہ بے قراری سے اس کے پاؤں کے پاس آ کے بیٹھ گیا۔
کاکو خاموش رہا اور شاہ عالم اس کا چہرہ تکتا رہا۔ بالآخر کاکو بولا “۔۔۔۔ تم ان کتابوں کا سہارا مت لو۔۔۔۔۔ علم کے گرز سے مارے جاؤ گے “۔
“مگر کاکو۔۔۔۔ ہم سے پہلے بھی تو لوگ ہوں گے جو بقا کی خاطر۔۔۔۔؟”
کاکو نے اس کی بات کاٹی۔۔۔۔ “سارا مسئلہ ہی بقا کا ہے۔۔۔۔ “پھر یک بیک وہ اندیشوں کے جال میں پھنس گیا اس نے شاہ عالم کے دونوں کندھے پکڑ لیے۔ “میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔۔۔۔ کہیں تم اس راستے پر نہ نکل جاؤ جہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے رستے کی تو سمت ہی اور ہے۔۔۔۔ ” بولتے بولتے اس کی آنکھوں میں پھر وہی تند و تیز چمک کوندی۔ “اس رستے پر کبھی کوئی چلا ہی نہ ہو گا “۔۔۔۔۔
“مگر کاکو۔۔۔۔ یہ رستہ نجات کا تو نہیں۔۔۔۔ “
“نجات “۔۔۔۔ کاکو زور سے دھاڑا۔ “کسے چاہیے نجات؟؟؟میں اپنے ہونے کا پتہ چاہتا ہوں “۔۔۔۔ کاکو نڈھال ہو کے ایک طرف لڑھک گیا۔ شاہ عالم نے کاکو کے لاغر بدن کو اپنے کندھے سے لگایا اور بولا ” کاکو۔۔۔۔ میں تمہیں اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔ میں اپنی زندگی تمہارے نام کر چکا ہوں۔۔۔۔ میں نے تمہارے سوا کسی کو دیکھا ہی نہیں۔۔۔۔ کسی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔ تم جو چاہو گے میں کروں گا۔ “
کاکو نے سر اٹھایا اور بولا۔۔۔۔ “میرے بھائی۔۔۔۔ میرے بیٹے۔۔۔۔ میری روح۔ جو کچھ میں ہوں وہ تم ہو جو کچھ تم ہو وہ میں ہوں۔۔۔۔ ہمارے حصے میں کچھ ایسی غلطیاں آئی ہیں جو ہم نے نہیں کیں، لیکن ہمیں بھگتنا ہیں تو پھر کیوں نہ ہم بغاوت کریں۔۔۔ ایک ایسی بغاوت جو انسان کو اس کی محرومیوں پر نادم رکھنے کی بجائے سر اٹھا کے بات کرنے کا حوصلہ دے، آؤ کوئی ایسا کام کریں کہ موت کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے سے بچ جائیں۔۔۔۔۔ “
شاہ عالم نے اس کا پنجر نما ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولا “کاکو۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی مرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔ میں تمہارے ذہن کی وہ قیمت لگاؤں گا کہ رہتی دنیا اسے ادا کرتی رہے گی اور پھر بھی تمہاری مقروض رہے گی۔ ” کاکو نے سکون سے لمبی سانس کھینچی۔
وہ لکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اس کے ایک ہاتھ میں قلم تھا اور دوسرے میں کاکو کا نحیف لرزتا ہاتھ۔ رات کا پچھلا پہر ماں کی یاد کی طرح گداز و بے قرار تھا۔ ان دونوں کے قریب پھٹے کاغذوں کا ڈھیر تھا جو شاہ عالم نے لکھے اور کاکو نے ناپسند کر کے پھاڑ دیئے۔ لیکن اب وہ گھڑی آ گئی تھی کہ جب ذہن و دل کے بند دروازوں کے پٹ قیدی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگے تھے۔ ازلی وہ ابدی محرومیوں کی تنگ گلی سے وہ ایک دوسرے کو سہارا دیتے گزر رہے تھے۔
“لکھو۔۔۔۔ کہ مقدر۔۔۔۔ انسان کے خلاف کی گئی ایک سازش کا نام ہے “۔۔۔۔ کاکو نے کہا۔ شاہ عالم تیزی سے لکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ ” مقدر مطلق العنان بادشاہتوں کا وہ مکرو فریب ہے جو انہوں نے بے بس رعایا کو فلاکتوں میں مبتلا رکھنے کے لیے دیا۔۔۔۔۔ جنہوں نے اپنے من پسند سیاسی و معاشی نظام کو قائم رکھنے کے لیے نادار اور افلاس کے مارے لوگوں کو یقین دلایا کہ لوحِ تقدیر پر ان کے لیے سوائے صبر و قناعت کے کچھ نہیں لکھا۔۔۔۔ چند لوگوں کو صرف چند لوگوں کو، غیب سے یہ اجارہ داری دی گئی ہے کہ وہ مقدر کے نام پر جبرو تسلط اور بے چارگی و بے اختیاری کا کھیل جاری رکھیں۔ لکھو۔۔۔۔ لکھو۔۔۔۔ کہ انسان کے مقدر میں بالآخر بے چارگی ہی کیوں لکھی جاتی ہے۔۔۔۔۔ “
کاکو ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ شاہ عالم لکھ رہا تھا۔ رات ششدر و حیران کھڑی تھی۔ بوڑھے جہاں گرد کی مدد سے ان کی نامکمل کتاب کی قسطیں ایک رسالے میں چھپنا شروع ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔ اس انوکھے موضوع نے لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مقدرات کی زد میں آئے ہوئے محروم لوگوں نے اپنی ناتمام اور مجروح تمناؤں کا ذکر پڑھ کے الفاظ میں گھلے آنسوؤں کی نمکینی کو اپنے غم کا ہم ذائقہ پایا تھا۔
شاہ عالم خوش تھا۔۔۔۔۔ “کاکو۔۔۔۔۔ یہ وہ تخلیقی کارنامہ ہو گا جو ہمیشہ کے لیے تمہیں اور مجھے زندہ رکھے گا”۔۔۔۔ اس نے کہا لیکن کاکو کے چہرے کی پر اسراریت روز بروز گہری ہوتی جا رہی تھی۔ وہ گھنٹوں اکڑوں بیٹھے بیٹھے اچانک دونوں ہاتھ غیبی سمت بڑھا دیتا۔ کبھی کبھی وہ ہوا میں یوں مّکے مارتا جیسے کسی ان دیکھے دروازے پر دستک دے رہا ہو۔ اس کا نحیف بدن ہلکے ہلکے لرزتا رہتا۔ شاہ عالم سے اتنی قربت کے باوجود کاکو نے اپنے بارے میں اسے کبھی کچھ نہیں بتایا تھا سوائے اس کے کہ اس نے زندگی میں تین مرتبہ خود کشی کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کوششیں ناکام نہیں ہوئیں بلکہ وہ تینوں دفعہ تھوڑا تھوڑا مرا تھا، لیکن موت کا کچھ حصہ باقی ہے جس نے اسے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس لیے کہ وہ آدھی زندگی اِس دنیا میں گزار رہا ہے اور آدھی اُس دنیا میں۔ نہ یہاں کے منظر وہ پوری طرح دیکھ سکتا ہے نہ وہاں کے منظر اس پر مکمل طور پر کھلتے ہیں۔ تب شاہ عالم پر منکشف ہوا کہ وہ اسے کیوں اتنا چاہتا ہے۔ عالمِ ناسوت اور عالمِ اعراف کے درمیان اٹکے ہوئے اس ہیولے کو اپنی بے بسرعمر کی گٹھڑی رکھنے کے لیے کسی کا شانہ درکار تھا۔۔۔۔
اب وہ دونوں بوڑھے جہاں گرد کے کوٹھڑی نما گھر میں رہنے لگے تھے۔ جس کی خستہ حالی سے جہاں گرد کو گزرے وقت کی وہ سرائے یاد آ جاتی تھی جو کسی نامعلوم مقام کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تھی۔ اس نے اسی سرائے کی طرح لکڑیوں کا ایک آتش دان بنایا تھا۔
یخ بستہ شام بے مہر وقت کی طرح منہ موڑنے کو تھی اور سلگتی لکڑیوں کے شعلوں سے کوٹھڑی کی بوسیدگی پر عجیب و غریب سائے لرزنے لگے تھے۔ کاکو بہت دیر سے ان سایوں کو دیکھ رہا تھا اور شاہ عالم اسے کتاب کا لکھا جانے والا دوسرا حصہ پڑھ کے سنا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جس میں روحوں کا ایک اجتماع خدا کے سامنے مقد رات کے نظام کو بدلنے کی تحریک پیش کرتا ہے اور مقدر کے نام پر ملنے والی محرومیوں کا جواز مانگنے کی جسارت کرتا ہے۔ اچانک شاہ عالم پڑھتے پڑھتے خاموش ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے کاکو کی نگاہیں اجنبی سمت مرکوز ہیں۔ اچانک ہی اس کا چہرہ چمک اٹھتا جلد ہی ڈوبتی لو کی طرح مدھم ہو جاتا۔ یوں لگتا جیسے وہ کوئی کھیل دیکھ رہا ہے۔ پھر بے اختیار وہ بول اٹھا۔۔۔۔۔ “معلوم اور نامعلوم کے درمیان جو فاصلہ ہے اسے طے کرو میرے عزیز۔۔۔۔ تا کہ رازِ سربستہ پا سکو۔ “
“لیکن کاکو۔۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے جو ہم لکھ رہے ہیں وہ ہو بھی سکے ” اس نے کسی انجانی دہشت میں خود کو مبتلا پایا۔۔۔۔
“ہاں۔۔۔۔ کیوں نہیں “۔۔۔۔ کاکو نے بہت اعتماد سے کہا اور آگ سے بننے والے سائے دیکھتا رہا۔۔۔۔ “جب میں وہاں جاؤں گا تو یہ جسارت کروں گا۔۔۔۔ اور تم سے رابطہ رکھنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈوں گا۔۔۔۔ پھر تمہیں بتاتا رہوں گا۔ “وہ اسی کیفیت و بے خودی میں بولتا رہا۔۔۔۔
شاہ عالم نے اکثر و بیشتر محسوس کیا تھا کہ کاکو چارپائی پر گھنٹوں بے سدھ پڑا رہنے کے بعد اچانک اٹھ بیٹھتا ہے اور حیات بعد از مرگ کے معاملات جوش و خروش سے بیان کرنے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ شاہ عالم کو ایسا محسوس ہوتا جیسے کاکو کا کوئی قریبی عزیز ابھی ابھی اس سے بچھڑا ہے۔ نیند میں چلنے والے مریض جیسی کیفیت کے ساتھ کاکو گرد و پیش سے بے نیاز ہو کر سماعت و بصارت سے وراء ہو کے کسی گزرے زمانے میں پہنچ جاتا۔ ایسے میں شاہ عالم اس کی باتیں غور سے سننے کی کوشش کرتا لیکن اسے ان بے ربط جملوں کے ٹوٹے سرے جوڑنے میں بہت دقت ہوتی۔ اچانک یہ سلسلہ موقوف ہو جاتا اور کاکو لاتعلق سا ہو کے سر جھکا کے اکڑوں بیٹھ جاتا۔ شاہ عالم کے استفسار پر وہ اپنی کیفیت اورا پنی باتوں سے لاعلمی کا اظہار کرتا۔۔۔
کتاب کا دوسرا حصہ چھپتے ہی دبی دبی چہ مگوئیاں بلند آوازوں میں بدل گئیں مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات اٹھے اور رسالے کے مدیر نے آئندہ قسطیں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ یہ صورتِ حال شاہ عالم کے لیے پریشان کن تھی، لیکن کاکو جس کیفیت میں مبتلا ہو چکا تھا اس سے واپس آنا اس کے بس میں نہ تھا۔ البتہ کتاب کے بنیادی موضوع پر وہ اب بھی شاہ عالم کی مدد کرتا، لیکن شاہ عالم کواس کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا۔۔۔۔۔ بوڑھا جہاں گرد کچھ روٹھا روٹھا سا تھا۔۔۔۔ کاکو کو تو وہ نیم دیوانہ سمجھتا تھا لیکن شاہ عالم کے متعلق اس کا خیال تھا کہ اس نے اس کی دکان سے کئی قابل قدر کتابیں پڑھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بوڑھے جہاں گرد نے اسے اپنی مسافتوں کے احوال گھنٹوں سنائے تھے۔ انجان جزیروں اور بے آباد بستیوں سے لے کے حیرت انگیز ترقیوں اور سلطنتوں کے بننے بگڑنے کے عمل تک، دنیا کے کتنے نشیب و فراز سے اسے آگاہ کیا تھا اس کا خیال تھا کہ اس سب کے باوجود وہ کسی ایسے رستے پر عمل داری کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے جو ادھورے علم کے شر سے نکلتا ہے۔ بوڑھا جہاں گرد ملول تھا کہ اس کی نیکیوں کا غلط استعمال کیا گیا۔۔۔۔
لیکن شاہ عالم کے لیے کاکو ہی ہر سوال کا جواب تھا۔ کاکو جو اس کے لیے سادھو تھا سنت تھا درویش تھا مرشد تھا۔ اسے تو بس اتنا یاد تھا کہ کاکو نے کہا تھا کہ محروم لوگوں نے نیکی کو ابدی رنگوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے یہ ابدی رنگ انسان کی ابدی محرومی سے بنے ہوں۔۔۔۔۔
اس دن کاکو کا چہرہ خلاف معمول چمک رہا تھا اور آنکھیں اس سے زیادہ لو دے رہی تھیں۔ وہ ہوش مند دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔ اس نے شاہ عالم کو اپنے پاس بٹھایا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ سے بولا۔۔۔۔۔۔
“میرا کتبہ تیار کر دو، دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ “
شاہ عالم نے اپنا ہاتھ تیزی سے چھڑایا وہ لرز رہا تھا۔
“کاکو۔۔۔۔ تمہارے بغیر میں۔۔۔۔ “
کاکو مسکرایا۔۔۔۔۔ “تمہاری اور میری روح ایک ڈور میں بندھی ہوئی ہے۔ میں کہیں چلا جاؤں تم سے الگ نہیں ہو سکتا۔ “کتبے کی تحریر کاکو نے لکھوائی تھی۔۔۔۔۔۔
“اے یہاں سے گزرنے والو۔۔۔۔۔ اپنی امیدیں ترک نہ کرنا۔ جب میرے اور اس کے درمیان سے پردہ ہٹے گا تو میں انسان کی ازلی و ابدی محرومیوں پر اس سے ضرور سوال کروں گا۔۔۔۔ میں مقدرات کی غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج کروں گا۔۔۔۔ تم سے پہلے کے لوگ میرے ساتھ ہوں گے اور تم بھی جب ایک دن آؤ گے تو ان سوالوں کے جواب ہر سواد شہر پر مرتسم پاؤ گے “۔۔۔۔
کتبے کو دیکھ کے کاکو کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک پیدا ہوئی۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ اس نے گہری مگر دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔ “ہم نے اس دنیا کو بے چارگی اور بے بسی کی دلدل سے نکالنا ہے ان ازلی و ابدی فیصلوں کے خلاف دنیا والوں کو یکجا کرنا ہے جوان کے حق میں نہیں ہوئے “پھر وہ بولا۔۔۔۔ ” میں کتاب کا آخری حصہ وہاں جا کے لکھواؤں گا اور اسی آخری حصے میں بے چارگی سے نجات کا راز ہو گا۔۔۔۔ “
“لیکن کاکو” شاہ عالم اندیشوں میں گھرا ہوا تھا “اگر اگر تم مجھ تک نہ پہنچ سکے تو۔۔؟”کمرے میں چند ساعتوں کے لیے ہیبت ناک خاموشی چھائی پھر یکا یک کاکو چلّایا۔
“تم تک پہنچنے کاکوئی راستہ تو ہو گا۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی۔۔۔۔ “۔۔۔۔
شاہ عالم اٹھ کے اس کے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ “کاکو۔۔۔۔ میں اپنی تمام تر حسیات کو چوکنا رکھوں گا۔ میں ہر پل تمہارا منتظر رہوں گا۔ “
٭٭٭
وہ رات ہزار راتوں سے زیادہ گہری اور پراسرار تھی۔ زمین کے ہر آباد وبے آباد قریے پر سوسن کے پھول اگ آئے تھے۔ جو ایک ہی طرح کی سرگوشی کر رہے تھے ہواؤں کے جھکّڑ جہاں گرد کی چھوٹی سی کوٹھڑی کے گرد دیو ہیکل بگولوں کی صورت ناچ رہے تھے۔ اتنا شور تھا مگر پھر بھی تہہ خاک موجود خاموشی اپنا راج پاٹ دکھا رہی تھی۔ کاکو کا ہاتھ شاہ عالم کے ہاتھ میں تھا۔ جہاں گرد کوٹھڑی کے ایک کونے میں بیٹھا کاکو کے گرد دھمال ڈالتی اجل کے ٹل جانے کی دعا کر رہا تھا۔ کاکو کی آنکھیں چھت پر ٹکی ہوئی تھیں، چھوٹی چھوٹی سیاہ چمک دار آنکھوں میں ایسی وحشت ناک اور پراسرار چمک تھی کہ شاہ عالم کے بدن کا رواں رواں لرز رہا تھا۔۔۔۔ “کاکو۔ تم کس حال میں ہو۔۔۔۔ کیا تم بہت تکلیف میں ہو کاش تمہارے بدلے میں جا سکتا۔۔۔۔۔ “
کاکو بمشکل مسکرایا۔۔۔۔ اور سرگوشی میں بولا۔۔۔۔ “نہیں۔۔۔۔ جانا صرف مجھے ہے بہت دور کا سفر ہے مگر تم سے ملنے میں آتا رہوں گا تم وہ سب لکھ دینا جو میں نے تمہیں بتایا۔۔۔۔۔ “
آتش دان میں آگ جل رہی تھی ہوائیں درختوں سے سر ٹکرا رہی تھیں جنگلی جانوروں کے رونے کی آوازیں تیز ہوتی گئیں شاہ عالم نے آہستگی سے کاکو کا یخ بستہ ہاتھ بستر پر رکھ دیا۔۔۔۔
کاکو کی موت تھی یا کسی خاموش سمندر کی تہیں یک دم اپنی جگہ سے کھسک گئی تھیں۔ کسی گمشدہ دنیا میں اِستادہ چٹانیں چٹخ گئی تھیں وہ نہ سمجھ آنے والی پراسرار دنیا کی تہوں کو کھرنچنے میں اس کا ساتھی تھا۔ شاہ عالم کو اپنی انگلیاں کمزور ہوتی محسوس ہوئیں۔
شاہ عالم کا بس چلتا تو وہ کاکو کی تجہیز و تکفین کی رسومات عہد عتیق کی مصری قوم کی طرح کرتا لوبان کی دھونی دیتا خوشبو دار مسالوں کا سفوف جسد مردہ میں بھرتا اس کی ممی بناتا تابوت پر سونے چاندی کے پانی سے منظر کشی کرتا اور ممی کو تابوت میں بند کر کے کسی پراسرار اہرام کے اندر ترشے شاہی مقبرے میں پتھر کے مسطبوں سے دفن کر دیتا۔ مگر ایسا سب کچھ نہ تھا۔۔۔۔
سیاہ مقدری میں نقرئی خواب بے رحم دشمنوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ شاہ عالم نے اس پسماندہ نواحی علاقے سے باہر ایک چھوٹے سے جنگل میں اپنے ہاتھ سے قبر کھودی۔ کتبہ لگایا۔ کاکو کو لحد میں اتارا اور خاک کو خاک اوڑھا دی۔
یہ کیسی پر ہول تنہائی تھی۔ لگتا تھا جیسے کائنات کی ہر شے رخ موڑ کے کھڑی ہو گئی ہے۔ لوحِ محفوظ پر گری سیاہی شاہ عالم کے اندر اترنے لگی۔ وہ ادھوری کتاب اٹھائے گورستان آ گیا۔ پوری دنیا انسانوں سے خالی تھی چہار دانگ میں تنہائی کا کافور سلگ رہا تھا اس نے کاکو کی قبر کو بوسہ دیا۔۔۔
بلھّے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
رات بھر وہ قبر کے پاس بیٹھا رہا۔ پتوں کی سر سراہٹ میں آہٹیں تھیں۔ دھیمے سروں میں بہنے والی ہوا میں سرگوشیاں تھیں۔ ستارے تھے یا کسی کی آنکھیں موتی موتی کر کے آسمان کی چادر پر ٹانک دی گئی تھیں۔ وہ انتظار کے عمل سے گزر رہا تھا۔ بالآخر تھک کے اس نے قبر پر سر رکھ دیا اور سو گیا۔
جیسے بحری جہاز لنگر کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔ ویسے ہی شاہ عالم کاکو کے سہارے جی رہا تھا۔ اور اسے کاکو سے ایک انجانی قوت ملتی تھی۔ اب وہ تنہائی اور دیوانگی کے پانیوں میں اترتا جا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن کاکو نے اپنی محرومیوں کو قوت بنانے کے خبط میں اسے ایسے مہین اور نوکیلے تار پر کھڑا کر دیا تھا جس پر کوئی بڑے سے بڑا بازی گر بھی نہیں چل سکتا تھا۔ جس ماورائی اسرار کو پانے کی دھن میں کاکو اپنی ہی آتش میں بھڑک کے خاکستر ہو گیا تھا اس کا سرا کہیں نہیں ملتا تھا۔ بوڑھے جہاں گرد کے لئے اب شاہ عالم کا وجود ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔ زمانے بھر کی لعن طعن سے وہ بے حد خائف تھا اس نے شاہ عالم کو مجبور کیا کہ اس راستے کو ترک کر دے۔
رات گہری تھی اوراس کا سکوت بامعنی تھا۔ شاہ عالم خاموشی سے بستر سے اٹھا اس نے دیکھا، بوڑھا جہاں گرد دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا ہے۔ اس نے کتاب قلم اور ایک چراغ لیا، کوٹھری پر الوداعی نگاہ ڈالی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔
چاند کی ٹھنڈی روشنی ماحول کو پُر فریب بنا رہی تھی۔ شاہ عالم کا کو کی قبر پر سر رکھ کر نیم دراز ہو گیا اور چند قدم دور کہنہ سال برگد کی ہلتی لرزتی گرتی شاخیں دیکھنے لگا۔ جو کاکو کی انگلیوں سے مشابہ تھیں۔ وہ انگلیاں جو قلم تھامنا چاہتی تھیں لیکن کسی انجانی شدت میں مبتلا رہتے ہوئے اس مشقت سے بچنا بھی چاہتی تھیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے زیر زمین پھیلی برگد کی جڑیں کاکو کے جسد مردہ کو ہلکورے دے رہی ہیں اور تہہ خاک جاری مکالمے سطح پر لٹکتی شاخوں میں منتقل کرتی جا رہی ہیں۔ پھر رات کا کوئی ایسا پہر آیا کہ جب منطقہ ثقل کی ہر شے غنودہ ہو گئی۔ انہی ساعتوں میں شاہ عالم انتظار کی نامعلوم سولی سے اترا اور پھر نہیں معلوم کس طرف کھنچتا چلا گیا، بس ایسا تھا جیسے روح پر سے کوئی چولا سا اتر جائے اور سماوی کھڑکی نیم وا ہو جائے۔ اس نے دیکھا۔۔۔۔ ایک اندھیری تنگ گلی ہے جس میں کاکو ایڑیاں رگڑتا ہوا گزر رہا ہے۔ لگتا تھا جیسے جہان در جہان گزر جائیں گے اور وہ گلی ختم نہ ہو گی۔ لیکن۔۔۔۔ یکبارگی ایک اینٹ سرکی اور نور کی لکیر اندر اتر آئی۔ پھر اس نے دیکھا، کاکو کی نحیف ایڑیوں میں جان سی پڑ گ ئی ہے۔ اب وہ سیدھا کھڑا ہے اور نور کی لکیر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آگے دروازے ہیں بے گنتی اور مقفل۔۔۔۔ پھر ایک دروازہ کھلا اندر کچھ نہ تھا صرف ایک کتاب رکھی تھی۔ کاکو بے بصارت تھا۔ شاہ عالم نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں روشنی کے دو نقطے اٹکائے گئے اور کتاب اسے تھما دی گئی۔ کتاب پر کاکو کا اصلی اور مکمل نام درج تھا اور اس کے آخری صفحے پر ایک کنجی لٹک رہی تھی۔ کاکو نے اپنی معصوم اور بے ضرر زندگی کی محرومیوں سے مرقع کتاب پر سر رکھ دیا تھا۔ جب اس نے سر اٹھایا توپوری کتاب آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔ اب کاکو کے ہاتھ میں وہ چمکتی ہوئی کنجی تھی جس پر نور سے “محبت” لکھا تھا اس نے کنجی کو مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کے روبرو افلاک میں ملفوف پر اسرار دنیائیں تھیں۔ شاہ عالم حیران تھا کہ جان کنی کی سی کیفیت میں عمر بسر کرنے والا ناتواں کاکو کیسا توانا نظر آ رہا تھا۔ لگتا تھا، جیسے ابھی وہ بڑھے گا اور اپنی کنجی سے کوئی قفل کھول دے گا۔ کاکو کے قدموں کی بڑھتی دھمک اسے اپنی کنپٹی پر پڑتی محسوس ہوئی اور یکلخت اس کے ہاتھ سے کوئی ڈور سی چھوٹی۔۔۔۔ وہ ہڑ بڑا کے اٹھا برگد کے پتوں میں سر سراہٹیں تھیں اور تمام سمتوں سے یکبارگی سکون آمیز گہری سانسوں کی آوازیں آر ہی تھیں۔
***