(Last Updated On: )
وہاں کے رہنے والوں نے ایسی باتیں صرف قصّوں میں سنی تھیں۔ شاید پہلے کبھی ایسا ہوا ہو مگر کسی کو یاد نہ تھا۔ کھیت، کھلیان، پنگھٹ، مزار، برگد سب مہر بہ لب تھے۔ ابھی فیصلہ ہونا تھا۔ سب کو انتظار تھا۔ بہت کچھ گزر چکا تھا۔ بہت کچھ گزرنا تھا۔ گمان کی آخری حد پہ کھڑی میراں نے وریام اور شمشاد کو پیغام بھجوایا۔۔۔
“آ کے مل لیں۔ ” مگر دونوں میں سے کوئی اب تک نہ آیا تھا۔ گلیوں، چوپالوں اور بیٹھکوں میں اس کا نا کردہ گناہ کسی زنگولے کی مانند رقصاں تھا۔
ملنگ شاہو چوپال کے قریب بوڑھے برگد تلے ایک پردیسی مجذوب کے مزار پر دھمال ڈال رہا تھا۔
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
دئیے منڈیروں پر جلنے کو تھے کہ شمشاد آئی۔ چہرے پر عجب سی دمک۔ ہونٹوں پر غیر مرئی تبسم۔۔۔۔۔۔۔ میراں تو سمجھی تھی کہ اس کی سہیلی اس کے غم میں پیلی پڑ گئی ہو گی لیکن۔۔۔۔۔ یہ رنگ بھی قدرت کا عجب اسرار ہیں۔۔۔
وہ بولی “وریام گلی کے پچھواڑے ہے۔ تیرے لیے جانا مشکل ہو گا۔۔۔۔۔۔ کچھ کہنا ہو تو بتا۔ “
“ایک دفعہ ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ ” میراں اپنی گھٹی گھٹی آواز سن کر خود حیران رہ گئی۔
شمشاد کی آنکھوں میں امڈتے تمسخر نے کہا۔۔۔۔۔ اب فائدہ؟۔۔۔۔۔ لیکن وہ آگے کو چلی اور میراں پیچھے پیچھے۔
اس کی اونچی پگ کا طنطنہ اب بھی ویسا ہی تھا۔ میراں کو لگا جیسے وریام اپنی سفید گھوڑی پر سوار ہو کے نیزے کا رخ اس کی جانب کرنے کو ہے۔ وہ اس کے قریب ٹھہر گئی اور شمشاد کچھ پیچھے۔۔۔۔
وریام کی چپ اس کے دل میں اَنّی کی طرح اترنے لگی۔ آخر وہ خود بولی۔
“فیصلہ جانے کیا ہو؟ لیکن سب جانتے ہیں میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔۔۔۔۔ “
وہ خاموش رہا۔
وہ پھر بولی۔۔۔۔۔۔ “تو کیا کہتا ہے وریامے؟”
وہ اب بھی خاموش تھا۔ میراں نے دیکھا اس کی نظریں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں اور چہرہ ٹھہرے پانی کی طرح۔۔۔۔۔ وہ اپنی اونچی پگ سنبھالنے لگا۔ پھر کھنکھارتے ہوئے بولا،
” کوئی اتنا زور آور نہیں ہوتا کہ مقدر سے لڑ سکے۔ “
“تو کیا۔۔۔۔۔ تو میرا ساتھ۔۔۔۔؟؟۔ ” وہ بھک منگی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
” میں چاہتا تو ہوں کہ تیرا ساتھ نبھاؤں لیکن یہ لوگ! “
“بس کر وریامے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہی غافل تھی۔ کوچ کی آواز نہ سن سکی۔ میرا پنّوں تو دور نکل چکا ہے۔۔۔۔۔ “
اتنا کہہ کے وہ پلٹ گئی۔ فیصلے سے پہلے فیصلہ ہوا۔ شاید وہ کسی گمان میں تھی۔ مگر ہوائے دوستاں تو رُخ بدل چکی تھی اور سناٹا ایسا کہ اپنی ہی آواز نفس لرزا دے۔
کبھی کبھی کسی خانہ بدوش قافلے کا پڑاؤ ادھر ہوتا تو جیسے راتیں جاگ اٹھتیں۔ الاؤ کے درمیان قافلے کے ساتھ بستی والے بیٹھ جاتے اور ان سے دور دراز زمینوں کے قصّے سنا کرتے۔
سرد راتوں میں کھلے آسمان کے نیچے جب آتش اپنا سحر جگائے تو آس پاس بیٹھے ہوؤں کی روحیں پل دو پل اپنے مکان سے باہر آ جاتی ہیں۔ زمین و زماں سے وراء، وریام اور میراں کی روحیں جب الاؤ کے گرد رقصاں ہوتیں تو انہیں نہ شمشاد کا خاکستر چہرہ دکھائی دیتا اور نہ ہی میراں کے بھائی سجاول اور خالہ زاد سکینہ کے انجان رستے پر نگاہ جاتی۔ بستی والے ملنگ شاہو کے دھمال میں محو ہوتے۔ اس کی جوانی اور عالمِ سرشاری پر قافلے والے حیران ہو کے پوچھتے “یہ ملنگ پیدائشی ایسا ہے یا بعد میں؟۔۔۔۔۔۔۔ “
“اللہ لوک ہے اللہ لوک۔ “بستی کے بزرگ سوال کی کنجی دور پھینک دیتے۔۔۔۔۔۔ اور قافلے کا سردار افریقہ کے مخصوص رقص کا ذکر چٹخارے لے کر سنانے لگتا کہ جب چودھویں کی رات کو اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے انسانی جان کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے تو شرط یہ ہوتی ہے کہ قربان کیا جانے والا غیر قبیلے سے ہو۔۔۔۔۔
میراں لرز جاتی اور شکر کرتی کہ اس کی بستی میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔
جب خانہ بدوش عورتیں صحرائی گیت الاپتیں جس کا مطلب کچھ یوں ہوتا کہ رات میں چمکنے والے تاروں کا بھید کوئی کوئی جانتا ہے، تو وہ سوچ میں ڈوب جاتی۔۔۔۔۔ اور کسی شام گھنے کھیتوں کے درمیان گزرتے ہوئے وریام سے پوچھتی۔۔۔۔ “ہمارے مقّدر کے تارے ایک ہی سمت میں ہیں یا دور دور کھڑے ہیں۔۔۔۔ “
وہ حیران ہوتا۔ ایسی باتیں وہ کیسے سوچ لیتی ہے۔ پھر ہنس دیتا۔ “کہیں تو انہی سوچوں میں نہ رہ جانا اور میں۔۔۔۔۔۔ “وہ چونک اٹھتی اور اسے جملہ پورا نہ کرنے دیتی۔
وہ صبح بستی پر رات کی طرح طلوع ہوئی۔
سجاول اور سکینہ رات کے کسی پہر بستی چھوڑ گئے تھے۔ کھوجی بھی ان کا نشان نہ پا سکے۔ قیامت ہی قیامت کو جنم دیتی ہے۔ شام ابھی پوری طرح بجھنے نہ پائی تھی کہ سکینہ کے خاندان کے مرد سجاول کے گھر حملہ آور ہوئے۔ وہ چار اسلحہ بردار مرد تھے۔ میراں کے بوڑھے ماں باپ ان کے قدموں پر گر کر بیٹے کے گناہ کی معافی مانگتے رہے لیکن گھڑ سوار۔۔۔ بھائی کے جرم میں بہن کو آنگن سے گھسیٹ کر لے گئے۔ نہتے ہاتھ والوں میں وریام بھی تھا جسے اپنی نیزہ بازی پر، اپنی شجاعت پر بڑا مان تھا لیکن آتشیں اسلحے کے آگے ڈٹ جانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔
اس نے بین کرتے ہجوم میں خود کو چھپا لیا۔
بستی کا بھیم بھرم خاک ہو گیا تھا۔ میراں کی چیخوں کی بازگشت، اس کے ماں باپ کی فریادیں، رات بھر بستی میں گونجتی رہیں۔۔۔۔۔۔ سب جاگتے رہے۔ میراں نہیں لوٹی۔ وریام کبھی بے چینی سے سکینہ کی بستی کی جانب تکتا، کبھی باہم مشورہ کرتے خمیدہ کمر بوڑھوں کی سن گن لیتا۔ بادام و سرس کی خوشبوئیں بھیس بدل کے جا چکی تھیں۔ سبز پگڈنڈیوں کے بیچ سے آتی میراں کی سرگوشیاں وریام کے آس پاس گھیرا ڈال رہی تھیں۔ چوپال کے بڑوں نے سکینہ کے خاندان والوں سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ تیسرے دن نیم بے ہوش میراں کھیتوں میں مل گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی لاش ملتی لیکن اس کی سانس کی ڈوری نے اس کے ماں باپ اور وریام سمیت تمام بستی کو الجھا دیا۔
ہوش میں آنے کے بعد میراں کو سب سے پہلے وریام کا خیال آیا۔۔۔۔۔ اپنی ہمزاد شمشاد کا خیال آیا لیکن جب وقت کے سدھے گھوڑے کی باگ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو مٹی میں رلنا ہی پڑتا ہے۔ منظر وہی تھے لیکن بدل چکے تھے۔ لوگ وہی تھے مگر ان کے چہروں پر لکھی تحریریں اور تھیں۔ تین دن میں تو اس کے ماں باپ بھی عہد فراعنہ کی پتھریلی مورتیوں میں ڈھل چکے تھے۔ اب بستی میں کوئی تازہ کھدا گڑھا، کوئی اندھا کنواں ہی اس کا منتظر ہو سکتا تھا۔
رسوائی کے زہر کو مارنے کے لیے زہر مہرے کی ضرورت تھی اور زہر مہرہ بننا آسان تو نہیں۔
وریام نے اپنی کلف لگی پگ درست کی اور چوپال سے اٹھ آیا۔ بھلا اس کے ماں باپ اکلوتے چاند کا گہن کیسے برداشت کر سکتے تھے۔
دلوں کے بھید گہرے تھے اور وقت کا ہرکارہ چوٹ پر چوٹ لگا رہا تھا۔
بالآخر فیصلہ ہوا۔ کہنے کو تو اس کے حق میں ہوا۔۔۔۔۔ کوئی تازہ گڑھا نہیں کھدا۔۔۔۔۔ کوئی اندھا کنواں نہیں بھرا۔ البتہ رسوائی کے زہر کو مارنے کے لیے ایک زہر مہرہ ہاتھ آ گیا۔
ملنگ شاہو۔۔۔۔۔ بس وہی ایک زہر مہرہ تھا پوری بستی میں۔۔۔۔ وہ یہ بھی نہ کہہ سکی کہ ہر ہر نفس پہ موت لکھنے کی بجائے ایک بار سج دھج سے موت کا انتظام کر دو۔ وہ لہولہان پاؤں لیے جلتے صحرا میں بھاگتی رہی۔ اس کا ستارہ وریام کے ستارے سے بہت دور تھا۔ پھر ایک مدار میں دونوں کیسے آتے۔ اس کاوہ غم جو بستی والوں سے اوجھل تھا اس کے دل کے زانو پہ سر رکھے روتا رہا۔ روہی کے صحرا اور دور افتادہ جنگلوں اور گہرے پانیوں کی پراسراریت اس کے وجود میں اترتی چلی گئی۔ وہ ایسی مٹی کی مانند گھلنے لگی جس کے گھلنے کا علم پاس والی زمین کو بھی نہیں ہوتا۔
یہی ملنگ شاہو تھا جس کے لیے وہ وریامے سے کہتی تھی، “اس بیچارے کو تو پتا ہی نہیں کہ انسان کے نصیب میں مزارکے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ “
دھمال ڈالتے ڈالتے اچانک وہ چونک اٹھتا اور میراں کے قریب آ کے راز داری سے بس اتنا کہتا۔۔۔۔۔۔ “تاروں سے ان کا بھید لے لو۔ “
پھر ایک دن وہ بھی ہوا جس کا ہونا باقی تھا۔
پوری بستی زنگاری ہو گئی!
ہوائے چَرخ کچھ اس رخ پہ چلی کہ گلیاں اور چوبارے نیلے تھوتھے میں نہا گئے۔ وہ بستی والے جو پہلے دن اس کے دکھ میں روئے تھے مگر اس کے آنے کے بعد انہوں نے اپنے چہروں پر بیگانگی کی تختیاں لٹکا لی تھیں اب اپنے دلوں پر جمے زنگ کو انہوں نے اپنے چہروں پر مل لیا تھا۔ زنگاری چہرے والوں کی بارات ڈھول باجوں کی گونج میں بڑھتی آ رہی تھی۔۔۔۔۔
بارات کا دولہا سفید گھوڑی پر اونچی پگ لیے وریام تھا۔ اس کے ساتھ والی گھوڑی دلہن شمشاد کی تھی۔ جس کے پھولوں اور مہندی کی مہک سبز پگڈنڈیوں تک پھیل گئی تھی۔ وریام نے گھڑی دو گھڑی میراں کو دیکھا جو غم کی سیاہ بدلی میں گہنائی ہوئی تھی اور سر پر پرانی پھٹی اوڑھنی ڈالے میلے ننگے پاؤں لیے مزار والے برگد کے نیچے بیٹھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے زنگاری چہروں کو دیکھ رہی تھی۔
باراتی رقصاں تھے۔ افریقہ کے جنگلی قبیلے کا رقص جاری تھا۔ بھینٹ کے لیے انہوں نے میراں کو منتخب کیا تھا۔ اپنی ہی بستی کے انسان کو۔۔۔۔ رقص میں ملنگ شاہو بھی شامل تھا۔
یکایک ڈھول باجوں کی آواز گھٹنے کی بجائے بڑھنے لگی۔ اتنا بڑھی اتنا بڑھی کہ میراں کو کھیتوں سے، سبز پگڈنڈیوں سے، گلیوں، چوباروں، پنگھٹ سے، اور پھر خود اپنے اندر سے ڈھول بجنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ قیامت اٹھاتی یہ آواز اس کی روح کے تاروں سے الجھ گئی۔ وہ سحر زدہ سی اٹھی اور دھمال ڈالتے ملنگ شاہو کے قریب جا کھڑی ہوئی۔ پل دو پل اسے تکتی رہی۔ پھر اسی کی طرح دھمال ڈالنے لگی اور بے خود ہو کر باراتیوں کے رقص میں شامل ہو گئی۔
٭٭٭