(Last Updated On: )
یہ واقعہ نو برس پرانا ہے، لیکن میں آج بھی اسے بہت وضاحت سے دُہرا سکتا ہوں۔ انسانی زندگی پر وقت، جگہ اور مادہّ عجیب طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم وقت کو صرف ایک رُخ سے دیکھ پاتے ہیں اور عمر بھر اس کی گنتی کرتے رہتے ہیں۔ دوسری چیز جگہ یا فاصلہ ہے جس کی حقیقت ایک ہی دائرے کے گرد چکر لگانے سے زیادہ نہیں ہے اور پھر مادہّ جس کا اندازہ ہم ناپ ناپ کے لگاتے ہیں۔ یہ اکائیاں ہمیں تھکاتی ہیں، ہمارے گزرنے کا احساس دلاتی ہیں۔ دادا کہتے تھے، قدرت بہت فطین ہے، وہ اپنے تخلیقی و کیمیائی اجزا کو بار بار استعمال میں لاتی ہے، انھیں ضائع نہیں ہونے دیتی۔ شاید دادا یہ راز پا گئے تھے اسی لئے انھوں نے خود کو ضائع ہونے سے بچا لیا لیکن میرے ماں باپ کو کبھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ دادا میرے سر پر ایک جادوئی چھڑی گھما کے خود میرے اندر حلول کر گئے ہیں۔ یہ جادوئی چھڑی ان کے روزنامچے پر مشتمل ایک دستی تحریر کردہ کتاب تھی۔
اُس وقت میں مغرب کی ایک معروف جامعہ میں اعلیٰ سند کے حصول کے لئے کوشاں تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ دادا اپنے آخری ایّام گاؤں میں گزارنے پر مصر ہیں، پھر معلوم ہوا وہ چند دن وہاں رہ کے اِس بود و نمود سے پردہ کر گئے ہیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اب میری خاک کے مقدر میں تا حیات اِس گاؤں کی اُترائیوں، پہاڑیوں اور جنگلوں میں رقصاں ہونا لکھا جا چکا ہے۔ کس طرح مجھ پر الف لیلوی دنیاکے دروازے بند ہوئے، کیونکر میں ایک دور افتادہ مقام کا دہقانی بنا۔ میری روح کے اجزائے ترکیبی میں شامل کون سا جزو اثر انگیزی میں غالب آ گیا؟ آج نو برس بعد بھی میں ان سوالوں کے جواب نہیں پا سکا ہوں لیکن اس تبدیلی کا محرک اس واقعے کو قرار دیتا ہوں جس سے دادا کا روزنامچہ ایک ڈور کی طرح بندھا ہوا ہے۔
وطن واپسی پر میرے ماں باپ نے نہایت بے دلی سے مجھے ایک سیاہ رنگ کی ملگجی سی کتاب دی جو ایک روزنامچہ تھا اور کہا کہ تمھارے دادا تمھارے لئے اور تو کچھ نہیں بس یہی چھوڑ گئے ہیں۔ مجھے دادا سے ہمیشہ محبت رہی۔ اپنے گھرانے کی مغربی بود و باش اور روز و شب کی بے معنی تگ و دو نے مجھے بچپن ہی میں احساسِ تنہائی دیا تھا۔ لیکن دادا کی زنبیل میں میرے لئے صدیوں پُرانی کہانیاں تھیں اور بہت سے ایسے خواب تھے جنھیں فقط لطفِ زندگی بنایا جا سکتا ہے۔
ان دنوں یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ مجھے اپنی اعلیٰ سند کی قیمت کہاں اور کتنی لگانی ہے، میرے پاس کچھ وقت تھا جسے میں مکمل فراغت سے گزارنا چاہتا تھا۔ ایسے میں دادا کے روزنامچے سے بہتر ہمدم کون ہو سکتا تھا۔ دادا نے اپنے لکھے ہر صفحے پر مجھے مخاطب کیا تھا۔۔۔ انھوں نے لکھا تھا کہ۔۔۔۔۔۔
“میں چاہتا تھا کہ میں جہاں گرد بنوں اور قدرت کا تماشا دیکھوں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میں چاہتا تھا کہ ہم سب مل کے اپنے گاؤں میں زندگی گزاریں لیکن تمھارے باپ نے کہا، ’یہ غیر متمدن علاقہ ہے۔‘ میں نے کہا، ’تمدن کا تعلق زمین سے نہیں انسانوں سے ہوتا ہے، اگر ہم چاہیں تو۔۔۔۔۔! ‘
لیکن تمہارا باپ امکانات کو حقیقت میں ڈھالنے کی سعی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے آرام دہ زندگی کی خاطر ہم نے بڑے شہر کا رخ کیا جہاں ہماری روحیں سارنگی سے طبلہ بن گئیں۔ ہم اس شور میں کب ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہمیں پتا نہ چلا۔ میں چاہتا ہوں تم مجھے ڈھونڈ لو۔۔۔۔ انسان کبھی کبھی ہجر میں نئے قیام کی طرف مڑ جاتا ہے یا خود اپنے اندر سے ہجرت کر جاتا ہے، اس فاصلے کو صرف تم طے کر سکتے ہو اور اس کے لیے تمہیں میرے گاؤں آنا ہو گا جہاں تمہارے بچپن کے ابتدائی دن اور وہ تمام بھرپور دن جنہیں میں ہمیشہ کے لیے قائم رکھنا چاہتا تھا، آج بھی تمہیں اس گھر میں ملیں گے جس کا دروازہ ہلکے سرخ رنگ کی مہاگنی سے بنا ہے۔ استوائی جنگل کے جھنڈ سے نکل کے جب روئیدگی آئے اور تمہیں فضا میں آڑو، خوبانیوں اور سیبوں کی مہک مسحور کرنے لگے تو سمجھ لینا کہ اس مظہری دنیا میں وہ مقام آ گیا ہے جہاں سے میرا تمہارا ما بعد الطبیعاتی رابطہ سہل ہو جائے گا۔ “
میں نے چرمی سفری تھیلے میں کچھ ضروری سامان اور دادا کی ڈائری رکھی اور پہاڑوں کے اُس طویل سلسلے کی طرف چل پڑا جس کے کشادہ دامن سے لپٹی وادیاں عہدِ سیلمانی کی کہانیاں سناتی ہیں۔ وہ غیر معروف اور دنیا سے تقریباً کٹا ہوا علاقہ تھا۔ مجھے آج بھی یا دہے، ایک مسافر گاڑی نے مجھے تنگ اور نیم پختہ سڑک پر اتارا اور دیکھتے ہی دیکھتے تہ در تہ پھیلے پہاڑی درّوں میں طاؤسِ بلقیس کی طرح غائب ہو گئی۔ میں اُس جنّاتی مقام پر فطرت کے جاہ و چشم کو محسوس کر کے سہم گیا تھا۔ میرا خیال تھا ہوائی مستقر سے علاقے تک کا راستہ شام سے پہلے طے ہو جائے گا لیکن پہاڑوں پر چھائے بادل، سمے کی رفتار اور فضا کی نقرئی سبز رنگت کو یوں اپنے اندر جذب کر رہے تھے کہ ہر شے کسی جادوئی پنجے میں جاتی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اب فاصلے کو ناپے بغیر چلنا ہے۔ کوہِ سبز پر پہنچ کے جو اُترائی آئے گی وہی علاقہ طلسم آباد ہے۔ راستے میں ملنے والے چروا ہے نے تنبیہی انداز میں کہا کہ اُترائی سے پہلے بڑا جنگل آتا ہے لہٰذا رات مجھے پہاڑی پر گزارنی چاہیے اور پھر میں اُس سرائے میں تھا جس کے ڈھنڈار کمرے میں بوسیدہ خاکستری تپائی پر قدیم جسیم ڈیوٹ کی بھڑکتی لو آسیبی ہیولے بنا رہی تھی۔ وہ سرائے ایسے رخ پر تھی کہ اُترائی میں آباد علاقہ صاف نظر آ سکتا تھا۔ دور چند گھروں کی ٹھٹھرتی زرد روشنی کی آڑی ترچھی لکیریں سہمی سہمی زندگی کا پتا دے رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا مجھے ان گھروں میں سے ایک گھر میں جانا ہے جہاں سالوں سے کسی نے روشنی نہیں کی ہو گی، جہاں آتے جاتے موسموں نے اپنی بے شمار نشانیاں دفن کر دی ہوں گی۔ مجھے نہیں یاد۔۔۔ وہ کوئی جھونکا تھا یا فریبِ خیال، عقب سے دادا کا لہجہ گونجا تھا۔۔۔
“۔ تو تم آ گئے؟”
میں تیزی سے پلٹا، جھولنے والی کرسی کے ڈھانچ پر میرا کوٹ پڑا تھا جس پر بارش کے قطرے چمک رہے تھے، کیا وہاں کوئی تھا۔۔۔۔۔؟ میں اخروٹ کی لکڑی سے بنے دروازے کو کھول کر اس نیم روشن کشادہ جگہ پر آ گیا جس کے فرش کے نیچے بھٹیوں میں سوکھی لکڑیاں سلگ رہی تھیں۔ ترکستانی قالین پر اصفہانی سماوار کے گرد سبز قہوے کے فنجان رکھے تھے اور سرائے کا مالک بھیڑ کی اون سے بنی ٹوپی اور گرم چادر لپیٹے، تنور سے خوبانی کے آٹے کی گرم خوشبو دار روٹیاں نکال رہا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ بوڑھا منگول بہت پُر شکوہ تھا۔ اس کی عمر اس پر یوں سج رہی تھی جیسے وہ فقط اسی عمر کو بسر کرنے اس جہانِ رنگ و بو میں آیا ہو۔ مجھے وہ شخص بھی نہیں بھولا جو سرائے میں مجھ سے پہلے موجود تھا جس نے قہوہ پینے کے بعد اپنی تُوتک اٹھا لی تھی، پہلے آہستہ پھر بہت زور سے اس کے سوراخوں میں پھونک مار کے وہ انگلیوں کے دروبست سے کسی قدیمی گیت کے سُر نکالنے لگا۔ چند لمحوں بعد لکڑی کا خرادا توتک اور وہ جوانِ رعنا یک جان و ہم ذات ہو چکے تھے۔ گیت کی بُنت نے ہمارے اطراف اَن دیکھا محمل اِستادہ کر دیا تھا جس میں ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ لیکن اپنے آپ سے دور نکل گئے تھے۔
برشگال کی رات اور توتک کے سُروں کا طلسماتی مرکب کیا کم تھا کہ میں نے دادا کا روزنامچہ بھی کھول لیا، لکھا تھا:
“میرے پوتے۔۔۔۔۔ میرے سکندر میرے لفظوں میں مجھے تلاش کرو اور اُس محبت کو بھی جو میں نے تم سے کی۔۔۔۔۔ ان ہری بھری چراگاہوں میں میری سانسیں آج بھی موجود ہیں جو میں نے لا حاصلی کے بوجھ تلے لی تھیں۔ میرے جسم کی راجدھانی میں فقط ایک جگہ سجی رہ گئی ہے وہ ہے میرا دل۔۔۔۔۔ جو اس روزنامچے میں یاں واں بکھرا نظر آئے گا۔ “
میں نے توتک کے سُروں میں دادا کی آنکھیں یاد کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے لکھا تھا، “لوگ آخری عمر کے تحفظ کے لیے مال و منال جمع رکھتے ہیں جب کہ آخر آخر میں محبت کی ضرورت رہ جاتی ہے، محبت جسے روز تازہ کرنے کے لیے لہو کا چھڑکاؤ ضروری ہے اور چھڑکاؤ کے لیے صحیح وقت اور صحیح مقدار کا تعین لازمی ہے لیکن ہر کسی کی حسّیات میں اتنی پیمائشوں کے آلے کہاں موجود ہوتے ہیں، کبھی کبھی تو انسان تا حیات محبت کرنے اور کروانے کے ہنر سے ناواقف رہتا ہے۔ بہر طور ایسے میں کہ جب آگے دیکھنا مشکل ہو جائے اور مڑ کے تکنا ہی روز و شب کا عمل بن جائے تب گزرے موسموں کے راز پانے اور پچھتاووں کی گرہیں کھولنے میں وقت اچھا کٹتا ہے۔ “
میں اپنے تختِ خواب پر آ گیا تھا اور اب پچھتاووں کی گرہیں کھول رہا تھا۔ گزرے برسوں میں، میں نے ان کی رسمی سی خیریت دریافت کی تھی اور بھول گیا تھا کہ انسانی زندگی میں مہلت کم سے کم ہوتی ہے۔ میں خود سے عہد کرنے لگا۔ میں صبح تاخیر کیے بنا وادیِ طلسم آباد جاؤں گا، سرخ مہاگنی کا دروازہ کھولوں گا۔ لا حاصلی کے بوجھ تلے دبی ان کی سانسیں محسوس کروں گا۔ ان کی قبر پر جاؤں گا جسے وقت کے گردباد نے بے نشاں کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ میں نے روزنامچے کے کھلے اوراق کو اپنے سینے پر رکھ لیا تھا۔ ہیبت ناک پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر وادیوں میں پھیلے سبزے تک ہر شے غنودہ ہونے لگی۔
وہ رات کا آخری پہر تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ قشرِ ارض مرتعش ہو رہی ہے، پل دو پل میں لکڑی کے تختوں سے بنی سرائے لڑکھڑانے لگی۔ میں کمرے سے نکلا۔ بوڑھے منگول نے مجھے دیکھتے ہی میرا بازو پکڑ کے باہر کی جانب گھسیٹا۔ اس کی ترچھی آنکھوں میں خوف تھا اور کلّے کی ہڈی زیادہ ابھری ہوئی لگ رہی تھی۔
توتک والا بڑبڑایا، “ہبوطِ ارضی! ! “
“نہیں۔۔۔۔۔ زلزلہ ہے۔ ” بوڑھے منگول نے کہا، “شاید اس کا زور وادی پر ہے۔۔۔۔۔ “
“وادی! “۔۔۔۔ یک دم میرے دماغ کا حسّیاتی حصہ چوکنا ہو گیا۔
ہم تینوں سرائے کے باہر پہاڑی پر کھڑے ہو گئے۔ چوٹی آہستہ آہستہ لرز رہی تھی لیکن ہم اندھیرے میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اترائی میں آباد وادی کی زرد روشنیوں کو بجھتے اور آہ و فغاں کے طوفان کو اٹھتے دیکھ رہے تھے۔ قدرت کتنی قاہر ہے، کس طرح انسان کو اس کے بے بس ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ زمین کی رگوں کو کھینچتی دُہری لہریں متوازی چلتی ہوئی طبقِ اوّل پر پہنچ کر شدید جھٹکوں کی صورت اختیار کر رہی تھیں اور وادی کا تار و پود مسل رہی تھیں، یہ سب کچھ ہوتا رہا، ہم تین اجنبی دہشت زدہ سے کھڑے دیکھتے رہے۔ ان لوگوں کے لیے اپنے لہو کو پانی ہوتا محسوس کرتے رہے جنہیں ہم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں مٹتا دیکھ کے خود مٹے جا رہے تھے۔ قدرت اپنے فیصلوں پر عمل کرنے میں دیر نہیں کیا کرتی ہے۔ چند لمحوں تک اَجل برے دنوں کی گردش کے ساتھ ہم رقص رہی پھر سکوتِ مرگ تھا۔
سورج کی اوّلین کرنیں پڑتے ہی ہم تینوں وادی میں اترے۔ اب وہاں ایک مرفوع اور غیر پیوستہ تودۂ زمین تھا۔ وادی اندر کی جانب سکڑ گئی تھی۔ بیس گھرانوں پر مشتمل زندگی کہیں نہیں تھی۔ خاموشی تھی، حیرانی تھی۔
گردا گرد پھیلے کئی ایکڑ جنگلات جو عمارتی لکڑی پر مشتمل تھے، تباہ ہو چکے تھے۔ مویشی ہلاک ہو گئے تھے اور چراگاہی زمینوں پر بھدّی، زرد خاکستری دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔ لکڑی کے ٹوٹے تختوں اور کثیر الزاویاتی پتھروں کے درمیان کسی کا آدھا چہرہ، کسی کی متوحش آنکھیں، کوئی خوابوں بھرا کاسۂ سر دکھائی دیتا تو ہم اس کی طرف لپکتے لیکن ہمیں کسی الجھتی ٹوٹتی سانس کی ڈور نہ ملی۔ سورج کی حدّت سے شاخِ کوہ پر جما پالا قطرہ قطرہ گریہ و زاری کرنے لگا۔ تنگ گھاٹیوں سے اطراف کی وادیوں کے لوگ دھیرے دھیرے آنا شروع ہو گئے تھے۔ کسی نے کہا ایسی قیامتِ صغریٰ چند سالوں کے وقفے سے کسی نہ کسی وادی میں آتی رہتی ہے۔ کسی نے بتایا ہلکے ہلکے جھٹکے تو سال بھر سے آ رہے تھے۔ بالآخر ایک مختصر امدادی جماعت پہنچی جس نے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے ملبے کے نیچے دبی لاشیں نکالنی اور زندوں کی تلاشِ بے سود کرنی شروع کی۔ ساری آبادی پتھروں سے کچلی ہوئی تھی جیسے کسی دیو ہیکل مخلوق نے ان پر سنگ باری کی ہو۔ آہ و فغاں کرنے کو کوئی باقی نہ بچا تھا۔
مدفون وادی میرے لیے پومپیائی شہر بن چکی تھی۔ جس کی تعمیر کا نقشہ دادا کے روزنامچے میں موجود تھا۔ مجھے اب بھی مہاگنی کے سرخ دروازے کی تلاش تھی۔ میرا دل ماننے کو تیار نہ تھا کہ دادا کی قبر شگافی وادی کی تہوں میں گم ہو چکی ہے۔ دادا سمجھتے تھے کہ اس قدیم بودھ علاقے میں آنے والے مسلمان راجے اور ان کی رانیاں اپنی تہذیب کی شمعوں سے وادی کو تاریخ میں امر کر دیں گی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ کس طرح یہاں آریائی بسے، کیونکر منگول ہجرت کر کے آئے ان کی آپس کی دشمنیوں نے آبادی کو کتنا نقصان پہنچایا پھر بالآخر انہوں نے انسانی بقا کی خاطر انتقام کی روایت کو ترک کیا، آپس میں شادیاں کیں۔ لیکن انتقام ان کے خون میں رچا ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح انتقام لے ہی لیتے تھے چاہے بیس برس بعد لیں۔ دادا کو ان لوگوں کی منتقم المزاجی پسند نہیں تھی۔ دادا کو کیا معلوم تھا کہ ایک سماوی لمحہ انہیں یکجہتی کی ایسی مثال بنا گیا ہے کہ ایک سو پچیس نفوس پر مشتمل آبادی قدم سے قدم ملائے ملکِ عدم سدھار گئی۔ اب وہاں شاخ بریدہ گلِ لالہ تھے، ہر سو داغ ہی داغ۔
شام کے اندھیرے میں لاشیں دفنائی جا رہی تھیں بقیہ تلاش اگلے دن پر مؤخر ہوئی۔ لوگ منتشر ہونے لگے جب دریا کا شور اور وادی کا سناٹا نبرد آزما ہوئے۔ ہمیں اپنے ہی قدموں کی چاپ چونکا نے لگی تب سرائے کا مالک، توتک والا اور میں سرائے کی طرف پلٹے۔ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ زندگی کی منظّم اور ناقابلِ فہم ترکیب کس طرح لمحے کے ہزارویں حصے میں منتشر ہو جاتی ہے، کس طرح کروڑہا سالمات کے خمیر سے اٹھنے بڑھنے والی زندگی بالآخر مٹی میں اتر کے مٹی ہو جاتی ہے۔ جی چاہتا تھا ان روحوں سے مکالمہ کروں جو ناگہاں ادھڑ جانے والے اپنے جسدوں کو حیرانی سے تک رہی ہوں گی اور خیاطِ ازل کی سوئی آسمان کی کسی پرت میں گم ہو گی۔
جس بستی کو دیکھنے کے لیے میں چاند تاروں کو مسخر کرنے والی دنیا سے آیا تھا وہ اب دادا کے روزنامچے میں، توتک والے کی یادوں میں یا بوڑھے منگول کی آنکھوں کی نمی میں باقی رہ گئی تھی اور ان تینوں حوالوں سے میری وابستگی عجب رنگ اختیار کر رہی تھی۔
وہ رات، پہلی رات سے مختلف اور بھاری تھی۔ اچانک نیم خوابیدگی میں مجھے ایک نئے زیاں کا احساس ہوا۔ دادا نے بچپن میں مجھے شہزادے اور پری کی کہانی سنائی تھی۔ اب ان کے روزنامچے میں درج ایسی ہی کہانی مجھے یاد آ رہی تھی۔ میں اندھیرے میں بستر پر چت لیٹا ہوا تھا اور روزنامچے کے بارہا پڑھے اور ازبر کیے ہوئے لفظوں کو کچھ ان کے، کچھ اپنے حساب سے جوڑ جمع کر رہا تھا جس کی ہیئتِ ترکیبی یوں میرے ذہن کی تختی پر اُترنے لگی:
“تم محبت کے اسرار جاننا چاہو تو آریائی نسل کے اس شخص سے ضرور ملنا جو محبت میں آسمان کو چھو لینے کو قوت رکھتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک بہت سے لوگوں کے لیے مشکل ہے کہ جس طرح زمین کی کشش کا مقابلہ کرنے کے لیے خلائی جہاز کو زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح محبت کی کشش سے یک طرفہ اثر پذیر ہوتے ہوئے زیادہ تیاگ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں خود کو ایندھن بنانے والے نہیں جانتے کہ اس عمل میں راکھ ہو جانے پر نیا ققنس جنم لے گا یا صرف راکھ رہ جائے گی۔ جب تم اس شخص سے ملو تو اصل نتیجے تک پہنچنے کی سعی کرنا، شاید تم پر فطرت کے کچھ راز منکشف ہوں۔۔۔۔ “
دکھ کی نئی لہر نے مجھے بستر سے اٹھا کے بٹھا دیا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں دادا کے کندھے پر سر رکھے بیٹھا ہوں۔ میں نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا شاید میں کہہ رہا تھا:
“دادا۔۔۔۔۔ تمہارے لفظوں کے رنگ رس میری دسترس سے دور ہو گئے ہیں۔ رنگریز کی تمام دکان الٹ گئی ہے۔ خاک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اترنے والا کاسۂ سر کسی دیوانے کا ہے یا فرزانے کا۔۔۔۔۔ “
مجھے محسوس ہوا جیسے دادا میرے اندر رو رہے ہیں، جیسے میں، میں نہیں ہوں۔ مجھے یہ سوچ کر لایعنیت کا احساس ہوا کہ میں دادا کی قبر کو دیکھنے یہاں آیا تھا۔ مجھے اپنی ہر شے کہیں پیچھے رہ جاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایسا لگا جیسے میری شکل، میرے خیال، چال ڈھال، دکھ محسوس کرنے کا انداز، سب دادا جیسے ہو گئے ہیں۔ میں ان کی طرح انسانوں کی ساختیات کی بجائے ان کے قوام پر غور کرنے لگا ہوں۔ کیا میں ان کا نقشِ ثانی تھا یا وہ کسی شعوری کوشش سے مجھے اپنا جیسا ڈھال گئے تھے؟ میں نے قصد کیا کہ صبح دادا کی نظر سے وادی کی باقیات دیکھوں گا۔
٭٭٭
وہ جنگل وادی سے ذرا ہٹ کے تھا۔ وہاں شکستہ غیر پیوستہ درختوں کے جھاڑ تھے جن سے مردہ جنگلی پتوں کی مہک اٹھ رہی تھی۔ جنگل کے پرندے جو زلزلے کی دہشت سے اڑ گئے تھے، اب تک لوٹ کے نہیں آئے تھے۔ ٹوٹی جڑی شاخوں سے لٹکتے گھنٹی نما جنگلی پھول ہوا کی تالی سے باہم ٹکرا رہے تھے۔ عجائب و غرائب سے آراستہ ماحول مجھے وحشت زدہ کرنے لگا۔ اچانک ٹوٹی شاخوں کے جھنڈ سے ایک سہما پرندہ پھڑپھڑاتا ہوا نکلا۔ میری نگاہ اس طرف گئی، مجھے محسوس ہوا جیسے وہاں کوئی ہے۔ میں توتک والے کے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔ کسی قدیمی درخت کی چوڑی محراب نما شاخ کے حصار میں ایک دُبلا پتلا انسانی جسم راج ہنس کی مانند پھنسا ہوا تھا، ہم تیزی سے اس کی طرف لپکے۔ رات بھر گرنے والے پالے نے اس کا جسم نیلا کر دیا تھا لیکن وہ زندہ تھا۔ حیرت اور خوشی سے ہماری چیخیں نکل گئیں۔ ہم لوگوں کو مدد کے لیے پکارنے لگے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہم اس شخص کو جھاڑیوں سے نکالنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ وہ فلک سے گرے تارے کی طرح بکھرا ہوا تھا۔ اس کی پسلیاں سردی سے جڑ گئی تھیں اور دانت بج رہے تھے۔ ابتدائی طبی امداد ملنے کے بعد اس کے اوسان بحال ہوئے۔ وہ کس تیزی سے مربوط و منظّم ہوا اسے بھی خبر نہ ہوئی۔ وہ بوڑھے منگول کے ہاتھ کا بنا گرم قہوہ پی رہا تھا۔ ہم اسے یک ٹک دیکھ رہے تھے اور منتظر تھے کہ اب وہ آبادی کے بارے میں سوال کرے گا لیکن وہ ہم سے تو کیا تباہ شدہ بستی سے بھی بے نیاز تھا۔۔۔۔ جب کچھ ہلنے جلنے کے قابل ہوا تو اٹھا اور اسی اجڑے جنگل کی طرف جانے لگا۔ میں نے بڑھ کے اسے روکا، “تمہیں معلوم ہے تمہارا گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے زندگی تو کجا قبروں کے نشان بھی نہیں رہے۔۔۔۔! “
اس نے لاتعلقی سے مجھے دیکھا پھر اعتماد سے لبریز لہجے میں بہت دھیرے سے بولا:
“ایسا تو ہونا ہی تھا۔ “اور چیڑ کے درختوں کی طرف چل دیا۔ میں عجب خجالت سے پلٹا۔ امدادی جماعت کے لوگ اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہو گئے تھے۔ سرائے کا مالک جا چکا تھا اور توتک والا۔۔۔۔۔؟ شاید وہ پہلے ہی چلا گیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں عجیب و غریب صورتِ حال میں پھنس گیا ہوں۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
“تو۔۔۔ تم۔۔۔ جانتے تھے کہ ایسا ہو گا۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ یعنی کہ وادی تباہ ہو جائے گی۔۔۔۔۔؟”میں اس کے روبرو آ گیا۔
اس نے اپنی شارک جیسی سرد اور بے رحم آنکھیں مجھ پر مرکوز کر دیں یوں کہ لمحے بھرکو مجھے اپنے اندر زلزلے کی تھرتھراہٹ محسوس ہوئی پھر مجھے باور ہوا کہ اس کی آنکھوں کی یاد کے ساتھ تمام تر تباہی کی یاد کو دُہرایا جا سکتا ہے۔ وہ آریائی خدوخال کا شخص تھا۔ اس کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس کے چہرے پر نوجوانی کے بیتے دن ٹھہرے ہوئے لگتے تھے، البتہ جسم اور چال ڈھال نے ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن ہر جنبش اشراف سے اس کے تعلق کی مظہر تھی۔ وہ کچھ دیر یوں کھڑا رہا جیسے کوئی فیصلہ کر رہا ہو۔ آہستہ آہستہ اس کی نگاہ اوپر اٹھتی چلی گئی۔ میں نے محسوس کیا، اس کا زاویۂ نظر پہاڑی چوٹی پر بنی عبادت گاہ نہیں ہے، وہ جہاں دیکھ رہا تھا، وہاں تک میں نہیں دیکھ سکتا تھا پھر اس نے یوں سر جھکایا اور ایسی محویت سے جھکایا جیسے اپنی نوکیلی نگاہ سے دنیا کی بنیاد میں پڑی مٹی کھرچنے لگا ہو۔ کچھ دیر کے لیے مجھے ہر شے متحجرات میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئی، حتیٰ کہ میں بھی اور وہ بھی۔۔۔۔۔ بالآخر اس کے نیلے ہونٹوں میں جنبش ہوئی، وہ کسی مکالماتی معرفت سے گزرتا ہوا، مجھ تک پہنچا اور بولا:
“محبت کرنے والے کی بد دعا سوئے ہوئے اجگر کی طرح ہوتی ہے جو کسی بھی لمحے جاگ کے سب کچھ نگل سکتا ہے۔ “
یک دم مجھے رات کو دُہرائے گئے دادا کے روزنامچے کے اوراق یاد آ گئے۔ کیا انہوں نے اسی شخص کے بارے میں لکھا تھا۔
میں کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ایک بعید از قیاس محبت کا رازِ سربستہ شکرے کی نوکیلی چونچ کی طرح مجھے ٹھونگیں مار رہا تھا۔
وہ جنگل سے گزرنے والے ایک پہاڑی چشمے کے قریب بیٹھ گیا تھا۔ شایداسے میری موجودگی ناگوار نہیں تھی۔
“کیا تمہیں کسی کے مرنے کا غم نہیں؟”
“کیا آبادی میں کوئی تمہارا بھی تھا؟”
میرے سوالوں کی پٹاری اس کے لیے اتنی ہی غیر اہم ثابت ہوئی جتنی کہ خارجی دنیا۔
“تم جانتے ہو مرنے والے اپنے پیچھے یہ خواہش چھوڑ جاتے ہیں کہ انہیں بھلایا نہ جائے۔ “کچھ سکوت کے بعد میں نے پھر راگنی چھیڑی۔
“انہیں کون بھول سکتا ہے۔۔۔۔ ” اس نے برجستگی سے جواب دیا۔
میں چونکا۔۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا، اب وہ بات کرنے پر آمادہ ہے۔
اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور بولا:
“جب رات ہو جائے تب تم تاروں کو غور سے دیکھنا۔ تمہیں محسوس ہو گا وہ بھی ہمیں دیکھتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو ان میں سے کوئی کوئی سرخ ہو جاتا ہے، جب ساری دنیا ہمیں چھوڑ دیتی ہے اور ہم تنہا رہ جاتے ہیں تو یہ ہم سے باتیں کرتے ہیں، جب ہم ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں تو ان میں سے جو ہمارا دوست ہوتا ہے وہ بھی ٹوٹ کر بکھرنے لگتا ہے، اُس رات بھی ایسا ہوا تھا۔ “اس نے گردن اتنی جھکا لی کہ ٹھوڑی اس کے سینے سے جا لگی۔
“تو کیا وادی میں زلزلہ نہیں آیا تھا، یہ تباہی تارا ٹوٹنے سے ہوئی تھی؟” میں نے پوچھا۔
“ہاں۔ ” اس نے براہِ راست میری آنکھوں میں دیکھا۔
میں نے محسوس کیا اس کا تیقن اور میرا تشکیک کا عمل ایک ہی لمحے میں حلول کر گئے ہیں۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے بھی مجھ جیسا راز دار پہلی بار ملا تھا۔ وہ بولا:
“جس نوجوان کو سب نے چھوڑ دیا تھا وہ جنگل میں تنہا بیٹھا تھا۔ اس کا دکھ اس کے دوست تارے سے دیکھا نہ گیا اور وہ ٹوٹ کے جشن بھری وادی پر گر پڑا۔ چشمِ زدن میں ڈھول باجوں کی آواز ختم ہو گئی۔ ” پھر وہ رکا، اس نے میری اپنائیت کی تصدیق چاہنے کے لیے مجھے پھر غور سے دیکھا اور راز داری سے بولا، “تم بھی تاروں سے دوستی کر لو۔ وہ انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ “اب کسی تامّل کے بغیر وہ اٹھا اور جنگل کی ایک ویران پیچیدہ پگڈنڈی کی طرف بڑھ گیا۔ میں شکست خوردہ لمحے میں ٹھہرے اُس شخص کی پرچھائیں کو پتوں کے پیچھے غائب ہوتا دیکھتا رہا۔
“سچ ہے، اس جہاں میں کوئی شے اپنی حالتِ محض میں نہیں ہے۔ ” میں نے سوچا۔
جب میں واپس سرائے پہنچا تو دیکھا توتک والا اپنے مختصر سے تھیلے میں سامان رکھ رہا تھا۔۔۔ کہنے لگا، “اب یہاں کیا رکھا ہے جس دوست سے ملنے آتا تھا وہی نہ رہا۔ “
“ہاں سوائے اُس جنگل والے کے۔ ” میں بے اختیاری میں بڑبڑایا۔
“وہ دیوانہ”۔۔۔۔۔ توتک والا ہنسا۔ “وادی والوں کو کہتا تھا کہ میری بد دعا سے تم سب خاک ہو جاؤ گے۔ اگر یہ سب اس کی بد دعا تھی تو بیس برس لگے اس بد دعا کو۔۔۔۔ لیکن اِس میں اُس کی اپنی عمر بھی تو خاک ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اس کے لیے وہ خود اور وادی بیس سال پہلے کے زمانے میں ٹھہری ہوئی ہے۔ ” توتک والا تھیلا ایک طرف رکھ کے توتک صاف کرنے لگا۔
“آہ۔۔۔۔ تو گویا خود نگری کے کھیل میں مبتلا اس شخص کے لیے وقت اتنا بے برکت ہو گیا تھا کہ اس کے سر پر پاؤں رکھ کر کچلتا چلا گیا اور اسے خبر ہی نہ ہوئی۔ ” میں نے کہا۔
“کبھی دیوانوں کو بھی پتا چلتا ہے؟” توتک والا بولا، “اسے تو بس ایک ہی خبط تھا کہ وادی والوں کو اپنی بد دعا کے اثر میں دیکھے۔ “
“لیکن کیوں؟” میں نے پوچھا۔
توتک والا توتک رکھ کے میرے پاس آ بیٹھا، اور بولا۔۔۔۔
“میرے دوست نے بتایا تھا، وہ لڑکی یہاں ہجرت کر کے آنے والی رانیوں کے گھرانے سے تھی۔ اس جنگل والے نے اپنے ایک منگول دوست کو راز دار بنا لیا جو لکڑی کا بڑا تاجر تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ منگول کی دولت نے لڑکی کو اور لڑکی کے حسن نے منگول تاجر کو تذبذب میں ڈال دیا تھا۔ جنگل والا اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود اس شطرنج میں ہار گیا۔ وادی والے بھی اس کی سادگی کی وجہ سے اس کا ساتھ نہ دے سکے۔ پھر شادی کی جشن والی رات یہ شخص وادی چھوڑ کے اپنے آبائی جنگل چلا گیا اور لوٹ کے وادی میں نہیں آیا۔ “
دادا کے روزنامچے کے ادھورے کردار کی ازلی و ابدی مثلث بنا کر توتک والا جا چکا تھا۔ مجھے اس مثلث سے دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس دیوانے کے تیقن نے تشکیک کے رانگ میں پگھلایا ہوا تھا۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ وہ حیاتِ گزشت بسر کرنے والا مکمل طور پر دیوانہ نہیں ہے اور یہ بھی کہ وہ بے حد ذمہ داری سے اس تباہی کو اپنے سر لے رہا ہے۔ یہ ایک جزوی دیوانگی ہے یا مکمل سپردگی۔
انسانوں کے لیے تین زمانے بنائے گئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سمجھوتے سے بالا ہو کر جینے والوں کے ہاں زمانوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ شاید اس کے ہاں بھی زمانوں کا توازن بگڑ گیا ہے، میں نے سوچا یک دم میرے ذہن میں کوندا سا لپکا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھ سے کہا ہو کہ اس کے ہاں زمانوں کا توازن بگڑا نہیں ہے بلکہ زمانے باہم ہو کے ایک قوت کے ساتھ اس سے جڑ گئے ہیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ مجھے کسی کی ضرورت ہے جو مجھ سے بات کر کے مجھے سوچوں کے اژدحام سے نکالے۔ میں نے دادا کا روزنامچہ اٹھا لیا اور صفحے الٹنے پلٹنے لگا۔ لکھا تھا:
“حیوانی سطح پر زندگی کا سب سے بڑا مقصد زندگی کو آگے چلانا سمجھا جاتا ہے لیکن انسان اس سطح سے بہت اوپر کی مخلوق ہے۔ وہ اپنے اندر ایسے کرشمے دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ قدرت اس کی ہم رکاب ہو جاتی ہے۔ بات فقط تار جوڑنے کی ہے۔ “
اگلے دن میں بھی جانے کا قصد کر چکا تھا لیکن جانے سے پہلے ایک دفعہ اور اُس سے ملنا چاہتا تھا۔ میں اُس کے آبائی جنگل کی طرف نکل گیا۔ پتوں کی سرسراہٹ میں، طاقت کا احساس دلانے والی اور اخروٹ اور چلغوزے کی لکڑی پیدا کرنے والی زمین پر کہیں بھی وہ نہیں تھا۔ اس شجریاتی فضا میں ایسا سکوتِ مرگ تھا جیسے مدتوں اس سے کوئی ہم کلام نہ ہوا ہو۔
بالآخر میں ٹوٹی ہڈیوں، شکستہ کھوپڑیوں اور مٹی میں رُلتی آنکھوں والی بے چراغ بستی میں آ گیا۔ مجھے دور سے محسوس ہوا کہ اجتماعی مقابر کے پاس کوئی ہے۔ وہ یوں بیٹھا تھا جیسے اُس پر تنویمی کیفیت طاری ہو۔ اُس نے گھٹنوں میں منہ چھپایا ہوا تھا، اس کی لمبی لمبی ٹانگیں کسی قدیم درخت کی جڑیں لگ رہی تھیں جو زمین کو زلزلے سے بچانے کے لیے گہرائی تک اتر گئی ہوں۔ اس کے کمزور بازوؤں کی رگیں، وریدیں یوں ابھری ہوئی تھیں جیسے ابھی ان سے شاخیں پھوٹیں گی اور اپنے آپ میں دفن شدہ زمین گل و گلزار ہو جائے گی۔ میں نے اسے بتانا چاہا کہ میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اس کے قریب پہنچ کے اچانک دور ہٹا، ایک لمحے کو مجھے محسوس ہوا کہ وہ زیرِ زمین کسی کی آہ و فریاد سن رہا ہے۔ پھر مجھے یوں لگا کہ وہ کسی ایسے عمل سے گزر رہا ہے جس میں فطین قدرت اپنے تخلیقی و کیمیاوی اجزا کو مختلف ڈھنگ سے بار بار استعمال میں لاتی ہے۔
میری واپسی کے ہر قدم کے ساتھ ہوا سرد ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دور جانے کے بعد میں نے پلٹ کر دیکھا، شام کے ملگجے میں وہ مجھے زمین میں خوفناک داغ ڈال دینے والے ٹوٹے تارے کی طرح دکھائی دیا۔ کچھ اور آگے جا کر میں پھر پلٹا، اسے دیکھا، اب مجھے پوری قوت سے کسی نے محسوس کروایا کہ وہ ٹوٹے تارے جیسا شخص، وہ گزشتہ زمانے میں منجمد شخص کسی نا دریافت عمل سے گزرتے ہوئے پھولوں اور ستاروں کے مابین مواصلاتی نظام کی طرح معلوم و نامعلوم سمتوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭