(Last Updated On: )
دیو قامت تخلیق کاروں کے عہد میں زندہ رہنا بیک وقت انتہائی خوش نصیبی اور اذیت ناک آزمائش ہے۔ ہمارا عہد قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کا عہد ہے۔ (میں صرف اردو فکشن کی بات کر رہی ہوں) اگر مجموعی طور پر تخلیقی ماحول کو لیں تو اس میں منیر نیازی ایسا کم یاب شاعر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ سو ایسے لوگوں میں اپنی تخلیقی کاوشوں کا دیا جلانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جب قارئین پر اُن لوگوں کا جادو چل رہا ہو تو کسی دوسرے کی کیا گنجائش، مگر تخلیقی تحریک کسی ظن و تخمین کی پابند نہیں ہوتی وہ اپنی سی کر گزرتی ہے۔ تناور درختوں کے سائے میں چھوٹے چھوٹے پودے بھی سر اٹھاتے اور رفتہ رفتہ بڑھتے پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ مستقل طور پر جڑ پکڑ لیتے ہیں۔
اُردو افسانے میں بھی وقتاً فوقتاً جگنو چمکتے دمکتے رہتے ہیں یہ نثری ادب کی مقبول ترین صنف ہونے کے باعث بہت جلد موضوعِ گفتگو بن جاتی ہے۔ کوئی لکھنے والا اپنے منفرد اسلوب کے باعث اپنا آپ منواتا چلا جاتا ہے۔ میں کوئی مفکر یا ادبی وکیل نہیں ہوں کہ ہر دم ادب کی نشو و نما کی فکر میں مبتلا رہوں۔ میری ضرورت یا خواہش صرف اچھی تحریر ہے جہاں بھی جس صنف میں بھی مل جائے اس لیے کہ ادب میرے نزدیک انسان کو زندہ رہنے کا حوصلہ اور آشوبِ ہستی کو تسلیم کرنے کا ظرف عطا کرتا ہے یہ انسانی زندگی کی چمک دمک کی تہہ میں مسلسل اُبلتی تاریکی کو کھیل کا لازمی حصّہ باور کرا کے اس کو برداشت کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔
نگہت سلیم کی کہانیاں ہمیں یہی پیغام دیتی ہیں۔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز۔ اگر آپ ادب کو محض وقت گزاری اور تفریح کا ہتھکنڈا نہیں سمجھتے بلکہ اس کے ذریعے اپنے ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے کی امید میں کوئی کتاب ہاتھ میں پکڑتے ہیں تو آپ کو یقیناً ” جہانِ گم گشتہ” کی کہانیاں مایوس نہیں کریں گی اور ہر کہانی اپنے اختتام پر یہ سرگوشی کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا ہوتا ہے۔
ان کہانیوں کا کینوس بہت وسیع اور بعض اوقات نامانوس بھی ہو جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ لکھنے والی ان تمام معاملات کو کسی ایک مقام یا زمین سے مخصوص نہیں سمجھتی ہے بلکہ جانتی ہے کہ یہ ہر جگہ ہر مقام اور ہر وقت کے معاملات ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ان افسانوں میں زمانے کی بھی کوئی قید نہیں ہے بلکہ یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ معاملات نہ جانے کب سے شروع ہوئے اور ان کا سلسلہ نجانے کہاں تک چلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ نگہت ہمیں اپنے افسانوں کے ذریعے بتاتی ہے کہ قدرت نے یہ دنیا کتنی وسیع بنائی ہے مگر انسان نے اسے انسان پر تنگ کر دی ہے۔
ایک آزاد سائیکی کس طرح انواع و اقسام کی پابندیوں میں زنجیر کی جاتی ہے اور اس کو تحفّظ کا نام دیا جاتا ہے۔ ……مِری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ” کوئلہ بھئی نہ راکھ” میں مولوی صاحب کے فتراک میں جو تین بیٹیاں اور ایک بیوی ہے، اسی تحفّظ کی اسیر نظر آتی ہیں۔ قدرت کی تخلیق کردہ اس لا محدود دنیا میں ایک دم گھوٹتا گم سم مقام ہے جو اپنی تنگی میں زنداں کو مات کرتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس تمام صورت حال میں کوئی بھی دشمن اور بد نیت نہیں۔ یہ ایک ان دیکھا آہنی شکنجہ ہے جس میں ایک طاقتور گروہ دوسرے کمزور اور اپنے رحم و کرم پر پڑے گروہ کو گرفتار کر لیتا ہے۔ اور پھر اس میں مقید لوگ اس قید کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ دروازے کھلے ملنے پربھی اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے اور اسی طرزِ زندگی کو جاری رکھتے بلکہ ورثہ کی صورت دے دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ اذیت ناک صورت حال تصور میں نہیں آ سکتی۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ نگہت سلیم بڑے ضبط و تحّمل اور فنی سوجھ بوجھ کے ساتھ کہانی کو اس قیامت خیز انجام تک پہنچاتی ہے اور مولوی صاحب کی بیٹی بالکل انہی کی طرح لوگوں کو پڑیوں میں کامرانیوں کا سفوف باندھ باندھ کے دیئے جاتی ہے جس سے وہ خود محروم ہے۔
یہ کہانیاں متمّدن شہری اور دیہاتی دونوں طرح کی زندگی پر محیط ہیں۔ کہیں آپ کو مخلوقِ خدا سے کلبلاتی شہری آبادی نظر آتی ہے تو کہیں پہاڑوں کی سر سبز وادیاں اور بلند و بالا درخت ہواؤں میں جھومتے ہیں۔ ماحول کا یہ تنوع ان کہانیوں کا ایک اہم جزو ہے۔
“محبت اور طاعون” میں جدید تنگ عمارات میں رہنے والے لوگ ہیں جن کی الماریاں ملبوسات اور قیمتی اشیاء سے لدی ہیں مگر چوہے صرف اور صرف کتابیں کترتے اور غارت کرتے ہیں اوراس معاشرے سے علم کو مفقود اور دولت کو موجود کرنے کے درپے ہیں۔ مگر “جشن مرگ” میں پہاڑوں کی کھلی فضا اور گھنے سر سبز جنگل ہیں۔ کبھی تاروں بھرے آسمان کی وسعتیں آپ کے سامنے آ جاتی ہیں اور کبھی انسانی ہاتھ کے سجائے گھر اور ان کے خانۂ باغ جن میں گلِ مہر جھومتے ہیں۔ فطرت کے ساتھ نگہت کی یہ وابستگی شاید وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحت الشعوری تمنا ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر عورت کے لیے وسعت اور آزادی کا استعارہ بن جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ نگہت نے پاکستانی یا برّصغیر کے معاشرے میں اس گھٹن کو خاص موضوع بنایا ہے جو عورت کے حصے میں آئی ہے۔ شاید ادبی نقاد اس کو نسائی حسّیت کا شاخسانہ قرار دیں مگر میرے نزدیک یہ ایک انسانی صورتِ حال ہے جو ہمارے معاشرے کے کسی بھی فرد پر عائد ہو سکتی ہے۔
اسی سے ملتا جلتا ایک احساس مجھے یہ بھی ہے کہ نگہت نے شاید شعوری طور پر اپنی کہانیوں کا ماحول بہت گمبھیر رکھا ہے۔ اس میں انسان کی روز مرّہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور محرومیوں پر فوکس نہیں کیا گیا جو جدید اردو افسانے کا امتیاز ہے۔۔ سن ساٹھ سے چلنے والے اس افسانے نے زندگی کی عام معمولی اور ناقابلِ توجہ اشیاء اور واردات کو اہمیت دے کر اسے شان و شکوہ عطا کیا۔ انگریزی میں یہ جیمز جوائس اور اردو میں انتظار حسین کے فن کی خصوصیت ہے روسی ادب میں چیخوف نے بھی عام زندگی سے فنی بصیرت کشید کی۔
مگر ہر رجحان اپنی مدت پوری کر کے پس منظر میں جانا شروع کر دیتا ہے یوں بھی بڑے لکھنے والے اپنا انداز اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور نئے لوگوں کو میدان میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ اب افسانہ زندگی کی گری پڑی چیزوں کے ساتھ وابستگی توڑ کے بڑے موضوعات کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اس کو آپ کلاسیکی رنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔
نگہت کے ہاں آپ کو یہ کلاسیکی رنگ نظر آئے گا۔ اس سلسلے میں اس کا ناولٹ، ” جہانِ گم گشتہ” نہایت اہم ہے۔ یہ ہماری تاریخ کے ایک ایسے دلدوز سانحے کو موضوع بناتا ہے جس کی اذیت کبھی کم ہوئی نہ ہو گی۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جس سے اب تک لہو ٹپکتا ہے اور ٹپکتا رہے گا۔ بڑے بڑے سانحات اپنے ساتھ ناقابلِ فہم وجوہات اور شاخسانے لے کر آتے ہیں جنھیں تاریخ مدّتوں سلجھاتی رہتی ہے۔
“سقوطِ ڈھاکہ” جس قدر اہم اور بڑا سانحہ تھا اس حساب سے اس پر بہت کم لکھا گیا۔ نگہت نے بڑی جرأت مندی اور تخلیقی بصیرت کے ساتھ اس پر قلم اٹھایا ہے یہ اس کی فنی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک ٹھوس اجتماعی واقعہ کو اس نہج سے تخلیقی پیرایہ بخشا کہ اس کی واقعیت پر کوئی حرف نہ آتے ہوئے ایک ماورائی کیفیت چاروں کھونٹ چھائی نظر آتی ہے۔ ابتدا میں یہ کہانی ایک کابوسی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ ابتدائیہ شہر راولپنڈی کے تاریخی پس منظر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے گلی کوچوں کا تذکرہ ہمیں دور دراز زمانوں میں لے جاتا ہے۔ مگر اچانک کچھ بھٹکے، شکست خوردہ پریشان و پشیمان کردار ظہور کرتے ہیں اور ہماری تاریخ کا ایک اندوہناک دروازہ وا ہو جاتا ہے۔ یہ ہزیمت زدہ تین افراد کی کہانی نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا سات پردوں میں چھپا دیا جانے والا سانحہ ہے جس کے بارے میں کبھی سر عام کھل کے گفتگو نہ ہوئی۔ ستاون کی جنگِ آزادی کا بخت خان ہتھیار نہیں ڈالتا اور جنگلوں بیابانوں میں نکل جاتا ہے مگر ڈھاکہ کا کرنل جلال شکست کا ناسور دل پر لئے تمام زندگی ایک نائٹ میئر کی صورت بسر کرتا ہے۔ خادم خوش فہم اور بد نصیب عوام کا وہ نمائندہ ہے جو اپنے دشمن کے بارے میں کسی واضح نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتا اور اپنی تباہی قبول کرنے پر مجبور ہے۔
میرے نزدیک یہ کہانی اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل کرنے کی مستحق ہے۔
اسی نہج پر اپنی دوسری طویل کہانی ” آسیبِ مُبَرم” میں نگہت نے ایک اور بہت بڑا موضوع اٹھایا ہے۔ انسانی معاشرے کی عجیب خصلت ہے وہ کسی بھی مختلف فرد کو قبول نہیں کرتا اور اس کے لیے زندگی جہنم بنا دیتا ہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ قدرت ہر نا انصافی کی بڑی فراخدلی سے تلافی کرتی ہے۔ کسی ایک نقص کا شکار انسان غیر معمولی صلاحیت سے مالا مال کر دیا جاتا ہے مگر آس پاس بسنے والے اُس جوہرِ قابل کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔
“حلقہ مِری زنجیر کا”۔۔۔۔۔۔۔ شرفِ انسانی اور احترام آدمیت کے تصّور پر ایک کاری ضرب ہے۔ نگہت اپنی اسی رستی بستی، خوش و خرم، چمکتی دمکتی دنیا کے ایک ایسے تاریک گوشے سے پردہ اٹھاتی ہے کہ ہم فوراً آنکھیں ڈھانپ لینا چاہتے ہیں۔ نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟؟ ہمارے آس پاس، ہمارے پہلو ہی میں ایسے منطقے ہیں جہاں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح خریدے بیچے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جن کی نسلیں وجود میں آنے سے قبل ہی پا بہ زنجیر ہوتی ہیں۔ شیدی غلاموں کی یہ کہانی جہاں ہمیں تلخ حقائق کی خبر دیتی ہے وہیں نہایت فن کارانہ جزئیات نگاری کے ذریعے ایک جیتا جاگتا ماحول تخلیق کرنے کی مثال بھی پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کہانی ختم ہونے پر جب ہم جبرو استبداد کے اس ماحول سے نکلتے ہیں تو کھل کر سانس لیتے اور تمنا کرتے ہیں کہ کاش یہ محض کہانی ہو۔۔۔۔۔۔۔
کہانی کے کلاسیکی انداز کی طرف مراجعت میں نگہت سلیم کی قصّہ نگاری ایک اہم قدم ہے اس کا مقصد ہماری آپ کی جانی بوجھی زندگی کے کچھ ایسے واقعات اور کرداروں کو سامنے لانا ہے جو ہمیں بتاتے ہیں کہ “سب اچھا نہیں ہے “۔ نیکی، انصاف یہاں تک کہ محبت کے زعم میں ہم ایک دوسرے کو پامال کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہانیاں ایک سوالیہ نشان بنی ہمارے راستے میں کھڑی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ زبان و بیان کی تمام تر متانت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔
ان کہانیوں کا تنوع ہمیں بتاتا ہے کہ نگہت نے اپنے آپ کو کسی ایک میدان تک محدود نہیں رکھا۔ دروں بینی کے ایک طویل وقفے کے بعد اردو افسانہ خارجی دنیا کے ساتھ تخلیقی رابطے دریافت کر رہا ہے۔ اِس مجموعے کی کہانیاں ہمیں یہی بتاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اجتماعی حسیّت رکھنے والوں کی تحریر پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک علمی سطح کا ہونا لازمی ہے۔ نگہت کی کہانیاں مقبول ادب میں شاید شامل نہ ہو پائیں مگر وہ اہم کہانیوں کی صف میں ضرور جگہ پائیں گی۔
تو بس ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اب افسانہ کلاسیکی مزاج کی طرف مائل ہے یہ اثرات زیر نظر مجموعے کے اسلوب میں نظر آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔ تو اب نگہت کی نثر پر بھی بات ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ جدید اردو افسانے کی زبان بول چال کے بہت قریب ہے اس میں عربی فارسی کی بجائے پاکستان کی مقامی زبانیں اور رنگ و آہنگ زیادہ ہے۔ اگر ہم اپنے دور کے آئیکون انتظار حسین کی نثر دیکھیں تو اس میں بھی بول چال کا آہنگ اور ہندی کے اثرات زیادہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جہاں کہیں انھوں نے داستانوی رنگ اپنایا ہے وہ الگ بات مگر ناولوں اور عام زندگی سے متعلق افسانوں کی زبان بول چال کے بہت قریب اور اسی حساب سے بہت جاندار ہے۔
نگہت کی زبان کلاسیکیت کی طرف مائل ہے جس میں فارسی کا رنگ چوکھا ہے۔ یوں کہہ لیجے کہ وہ ایک حد تک مشکل زبان لکھتی ہے۔ بعض مقامات پر تو مجھے بھی لغت کی مدد لینی پڑی مگر یہ اسلوب اس کی کہانیوں کے لیے نہایت مناسب نظر آتا ہے۔ اسی لیے اس کی کہانیاں ایک خاص علمی سطح رکھنے والوں کے لیے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ آج کے دور میں ہم کسی کی تحریر سے کچھ سیکھ سکیں۔
خالدہ حسین
(تَمغۂ حُسنِ کار کردگی)