سلیمان کو اپنی بیوی کسی جزدان میں لپٹے ہوئے مذہبی صحیفے کی طرح لگتی تھی جسے ہاتھ لگاتے وقت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے لیکن وہ اب بھی سلیمان سے بہت کھلی نہیں تھی ۔سلیمان اس کو پاس بلاتا تو پہلے ادھر ادھر جھانک کر اطمینان کر لیتی کہ کہیں کوئی ہے تو نہیں ۔۔۔۔۔خاص کر بچوں کی موجودگی کا اس کو بہت خیال رہتا تھا ۔جب تک یقین نہیں ہوجاتا کہ بچے گہری نیند سوچکے ہیں وہ سلیمان کو پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتی تھی۔
سلیمان کو شروع شروع میں سلطانہ کے اس رویہ سے بہت الجھن محسوس ہوئی ۔ اس کو لگا اس کے ساتھ صحبت کرکے وہ کسی گناہ لازمی کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن اس کی زندگی میں جب رضیہ داخل ہوئی تو اس پر عقدہ کھلا کہ بیوی اور محبوبہ میں فرق ہے اور یہ کہ زندگی میں دونوں کی اپنی الگ اہمیت ہے۔
رضیہ ، سلیمان کی محبوبہ تھی اور اس میں وہی گن تھے جو محبوبہ میں ہوتے ہیں ۔ وہ بوسے کا جواب بوسے سے دیتی تھی۔ سلیمان جب اس کو اپنی بانہوں میں بھینچتا تو اسی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتی بلکہ اکثر بوس و کنار میں پہل کر بیٹھتی اور جب وہ آہستہ آہستہ سر گوشیاں سی کرتی کہ۔۔۔۔۔جانی۔۔۔۔کہاں رہے اتنے دن۔۔۔۔۔تو سلیمان پر نشہ سا چھانے لگتا تھا۔ لذت کی یہ گراں باری سلطانہ کے ساتھ کبھی میسر نہ ہوئی تھی۔ سلطانہ اس کو بند گٹھری کی طرح لگتی تھی جس کی گرہیں ڈھیلی تو ہوجاتی تھیں لیکن پوری طرح کھلتی نہیں تھیں ۔ جب کہ رضیہ اس کے برعکس تھی ۔ وہ بیڈ روم میں شیلف پر رکھی ہوئی اس کتاب کی طرح تھی جس کی ورق گردانی وہ اپنے طور پر کرسکتا تھا اور جب بھی اس نے رضیہ کی کتاب الٹی پلٹی تھی تو لذّت کا ایک نیاباب ہی اس پر کھلا تھا ۔۔۔۔۔رضیہ کہتی بھی تھی ۔۔۔۔۔یہی فرق ہوتا ہے جان من ، بیویاں حق زوجیت ادا کرتی ہیں اور محبوبہ خزانے لٹاتی ہے۔
رضیہ کا خیال تھا کہ عورت صرف محبوب کی بانہوں میں ہی خود کو پوری طرح آشکارا کرتی ہے۔۔۔۔شوہر اگر محبوب ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ فرض نبھاتی ہے ۔۔۔۔۔اس کے پیار میں فرض کا احساس غالب رہتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
اس بات پر سلیمان نے ایک بار اس کو ٹوکا تھا۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے شوہر سے پیار نہیں کرتیں۔۔۔۔۔‘‘
رضیہ اپنی بانہیں اس کی گردن میں حمائل کرتی ہوئی بولی تھی۔
’’میری جان ۔۔۔۔میں شوہر سے پیار کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں ۔۔۔۔اس لیے اپنا فرض نبھاتی ہوںلیکن پیار فرض نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس پر سلیمان نے اس کا طویل بوسہ لیا تھا۔
’’پھر پیار کیا ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’ یہ ہے پیار۔۔۔۔۔۔۔ایک مرد اس طرح اپنی بیوی کو نہیں چومتا۔۔۔۔پیار بندھن نہیں ہے۔‘‘
’’پیار کا مطلب ہے تمام بندھنوں سے ماورا ہوجانا۔۔۔۔۔‘‘
’’واہ کیا بات ہے!‘‘سلیمان ہنسنے لگا۔
’’دیکھو۔۔۔۔ہم کتنے فری ہیں۔۔۔۔۔۔کتنے آزاد ۔۔۔۔۔ میاں بیوی کا بندھن ملکیت کا بندھن ہے جس میں مالک کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔دونوں ہی غلام ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کاایک دوسرے پر قبضہ ہے ۔۔۔۔۔ اور پیار قبضہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
سلیمان لاجواب ہوگیا۔
ٍ ’’ایک بات بتاؤں ۔۔۔۔؟‘‘یکایک رضیہ مسکرائی اور پھر شرما گئی۔
’’بتاؤ۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں بتاتی۔۔۔۔‘‘
’’بتاؤ میری جان۔۔۔۔!‘‘ سلیمان نے اس کے گالوں میں چٹکی لی۔
’’جب میں اپنے شوہر کی بانہوں میں ہوتی ہوں تو تصور تمہارا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔تمہارا تصور میرے لیے محرک ہے۔۔۔۔۔۔ تب جاکر کہیں میں ۔۔۔۔۔۔‘‘
سلیمان نے اس کو بے اختیار لپٹا لیا۔
’’اور میری بانہوں میں۔۔۔۔؟‘‘
’’تمہاری بانہوں میں مکمل آزادی محسوس کرتی ہوں ۔۔۔۔۔کوئی حجاب نہیں رہتا۔ میں ہوتی ہوں، ایک سیل رواں ہوتا ہے ۔۔۔۔ندی کی تیز دھار ہوتی ہے ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔ اور پھر سیل رواں بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ندی بھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔میں بھی نہیں ہوتی ۔سلیمان رضیہ کی اس بات پر عش عش کر اٹھا تھا۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سلطانہ سے اس کے تعلقات خو ش گوار تھے ۔بلکہ جوں جوں رضیہ سے اس کی وابستگی بڑھتی گئی سلطانہ کی قدرو قیمت بھی اس کے دل میں بڑھتی گئی اور یہ محسوس کرنے لگا کہ سلطانہ شرم و حیا کی پابند ایک وفا شعار بیوی ہے ،جس میں وہی تقدّس ہے جو ایک شوہر اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے۔ مثلاً سلطانہ کا ہمیشہ نرم لہجے میں باتیں کرنا۔۔۔۔اس کا ہر حکم بجا لانا۔۔۔۔سب کو کھلاکر خود آخیر میں کھانا ۔۔۔۔یہ سب ایک نیک طینت بیوی کے ضروری وصف ہیں جو سلطانہ میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔
سلیمان کو اکثر یہ سوچ کر حیرت ہوئی تھی کہ دس سالہ ازدواجی زندگی میں سلطانہ نے آج تک اس سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی، نہ ہی اپنے لیے کبھی ایسی کوئی فرمائش کی تھی جوسلیمان کو الجھن میں ڈالتی۔ شادی کے بعد شروع شروع کے دنوں میں اس نے ایک بار پوشاک کے معاملہ میں اس کو یہ مشورہ ضرور دیا تھا کہ وہ اپنے لیے پرنس سوٹ سلوائے۔ سلیمان نے گرچہ یہ محسوس کیا تھا کہ سلطانہ کی یہ خواہش تھی کہ وہ اس کو پرنس سوٹ میں دیکھے لیکن بند گلے کا کوٹ اس کو پسند نہیں تھا ۔ اس نے اس کی اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی اور سلطانہ نے پھر کبھی اصرار نہیں کیا تھا۔ انہیں دنوں وہ اکثر گڑ بھر کر کریلے کی سبزی بھی بناتی تھی۔ سلیمان نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ سلطانہ یہ سبزی بڑے چاؤ سے بناتی ہے لیکن کریلے کا ذائقہ اس کو پسند نہیں تھا ۔اس نے سبزی ایک دو بار صرف چکھ کر چھوڑ دی تھی۔
سلیمان اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن تھا ۔سلطانہ نے اس کو تین خوبصورت بچے دیے تھے۔ وہ امور خانہ داری میں طاق تھی اور گھر کا ہر چھوٹا بڑا کام خود ہی انجام دیتی تھی۔سلیمان خانہ داری کی رقم اس کے ہاتھ میں دے کر مطمئن ہوجاتا تھا ۔
رضیہ اکثر سلطانہ کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی لیکن وہ زیادہ باتیں کرنے سے گھبراتا تھا ۔ کبھی کبھی رضیہ کوئی چبھتا ہوا جملہ بول جاتی اور سلیمان کو لگتا وہ اس کا امیج توڑنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ایک بار جب وہ سلطانہ کی تعریفیں کررہا تھا کہ وہ کس طرح گھر کا کام نبٹاتی ہے تو رضیہ بر جستہ بول اٹھی تھی کہ …اس سے کہو ہر وقت دائی بن کر نہیں رہے…بیوی کو کبھی عورت بن کر بھی رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔سلیمان کو یہ بات لگ گئی تھی۔ اس کو احساس ہوا تھا کہ واقعی سلطانہ ہر وقت کام میں لگی رہتی ہے ۔ کبھی فرصت کے لمحوں میں اس کو اپنے پاس بلاتا بھی ہے تو کام کا بہانہ بنا کر اٹھ جاتی ہے لیکن پھر ا س نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر سمجھایا تھا کہ سلطانہ دراصل ایک سوگھڑ عورت ہے اور سوگھڑ عورتیں اسی طرح گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں ۔
ایک دن کپڑے کی خریداری کے لیے سلیمان بازار کی طرف نکلا۔ ساتھ میں سلطانہ بھی تھی ۔ ایک دو دکان دیکھنے کے بعد وہ ریمنڈ ہاؤس میں گھسنا ہی چاہ رہا تھا کہ سلطانہ کے قدم رک گئے ۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑی ہوگئی ۔ اس کا منہہ حیرت و استعجاب سے کھل گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ سلیمان نے پوچھا۔
’’یہ تو الیاس بھائی ہیں ۔‘‘ سلطانہ کا چہرہ تمتما رہا تھا ۔
سلیمان نے سامنے دکان کی طرف دیکھا ۔ پرنس سوٹ میں بلبوس ایک خوبرو آدمی کاؤنٹر کے قریب کھڑا تھا۔
’’یہاں سے چلیے۔۔۔۔۔۔‘‘سلطانہ آگے بڑھتی ہوئی بولی۔ چلتے چلتے سلیمان نے ایک بار مڑ کر پھر اس آدمی کی طرف دیکھا۔
سلطانہ آگے سنٹرل وسترالیہ میں گھس گئی۔
’’کون تھے؟‘‘
’’بھائی جان کے دوست تھے۔‘‘
’’اگر جان پہچان ہے تو ملنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’مجھے شرم آتی ہے۔۔۔۔۔‘‘
سلطانہ کے چہرے پر پسینے کی بوندیں پھوٹ آئی تھیں ۔ خریداری کے بعد دکان سے نکلتے ہوئے سلطانہ نے ایک دو بار گردن گھما کر ادھر اُدھر دیکھا۔ ریمنڈ ہاؤس کے قریب سے گذرتے ہوئے سلیمان نے ادھر اُچٹتی سی نظر ڈالی۔
راستے میں سلطانہ سبزی کی دکان پر رکی ۔ سبزیاں اور پھل خریدتے ہوئے وہ گھر لوٹے تو شام ہوگئی تھی۔ سلیمان ٹی وی کھول کر بیٹھ گیااور سلطانہ کھانا بنانے میں لگ گئی۔
خبریں سننے کے بعد سلیمان کھانے کی میز پر بیٹھا تو کریلے کی سبزی دیکھ کر اس کو حیرت ہوئی ۔ بہت دنوں بعد سلطانہ نے پھر گڑدار کریلے بنائے تھے۔ اس بار سلیمان نے پوری سبزی کھائی ۔ کھانے کے بعد کچھ دیر تک ٹی وی دیکھتا رہا ، پھر بستر پر آکر لیٹا تو سلطانہ ایک طرف چادر اوڑھ کر سوئی ہوئی تھی ۔سلیمان کو عجیب لگا۔ یہ انداز سلطانہ کا نہیں تھا ۔ کچھ دیر بغل میں لیٹا رہا پھر اس نے روشنی گل کی اور سلطانہ کو آہستہ سے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔۔وہ اس کے سینے سے لگ گئی۔ سلیمان کو اپنے سینے پر اس کی چھاتیوں کا لمس بھی پر اسرار لگا۔ اس کو حیرت ہوئی کہ اس کا بدن پہلے اتنا گداز نہیں معلوم ہوا تھا ۔ تب وہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ سلطانہ کی سانسیں کچھ تیز چل رہی ہیں ۔ کمرے کی تاریکی میں اس نے ایک بار سلطانہ کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی اور پھر اس کو اپنے بازوؤں میں بھر لیا ۔۔۔۔اور دفعتاً سلیمان نے محسوس کیا کہ سلطانہ کی سانسیں اور تیز ہوتی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ اور جیسے سانس کے ہر زیرو بم کے ساتھ بند گٹھری کی گرہیں اپنے آپ کھلنے لگی ہیں۔۔۔۔۔ کھلتی جا رہی ہیں۔۔۔۔۔
سلیمان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کو رضیہ کی یاد آئی ۔۔۔۔۔اور پھر اس کا چہرہ پسینے سے بھیگ گیا ۔سلطانہ کے بدن پر اس کے بازوؤں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔۔۔۔۔سلیمان کو لگا اس کی بانہوں میں سلطانہ نہیں ۔۔۔۔ کوئی اور ہے۔۔۔۔۔۔