سیمی نار کا ایک موسم ہوتا ہے۔اس موسم میں ملک کے مختلف شہروں میں پھل پک کر تیار ہوتے ہیں۔فصل کی کاشت کاری سے لے کر کٹائی تک کے معاملات کا یہ دورانیہ کئی مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس موسم کی ابتدا سے کئی ماہ قبل، صاحبِ ثمر حضرات کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی فصل اگا ئیں تاکہ معینہ میعاد پر اُن کی فصل پک کر تیار ہوجائے اور معقول اجرت سے نوازے جائیں۔اجرت کی کئی قسمیں ہوتی ہیں لیکن اس سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ (موسم سے مراد سیمی نار،پھل یا فصل سے مراد فرمائشی اور بے مواد مضامین،کاشت کار سے مراد فن کار،زمیندار سے مراد مقالہ نگار یا بقراط ناقد اور اجرت سے مراد وہ رقم جس کی وجہ سے سیمی نار کا انعقاد کیا جاتا ہے)تو بات زیادہ واضح ہوجائے گی۔باصلاح حضرات معقول اجرت سے نوازے جاتے ہیں۔ان میں بعض حضرات اجرت کی مقدار دیکھ کر ہی کاشت کاری میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔اگر معقول اجرت نہیں تو محنت نہیں۔البتہ نووارد حضرات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اجرت کی فکر نہ کرکے فقط کاشت کرنے کے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔بعضے زمین دار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا ہر سیمی نار میں غلبہ ہوتا ہے۔وہ جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں اپنی کاشت اگا سکتے ہیں اور اُگانے پہنچ جاتے ہیں۔فکشن کی فصل ہو یا نان فکشن کی،غزلیہ شاعری کا ذائقہ ہو یا نظمیہ شاعری کا،ان کا وہاں پہنچنا باعث تبرک تصور کیا جاتا ہے۔ایسے زمین دار کم کم ہی ہیں لیکن ہمارے اردو ادب میں ہر فن کار خود کو کاشت کار اور ہر ناقد اپنے آپ میں زمین دار ہوتا ہے۔کاشت کار اور زمیندار کے مابین سر جنگ ایک زمانے سے چل رہی ہے ۔ہندوستانی ادبیات ہی نہیں بلکہ یونانی،فرانسسی،روسی اور انگریزی ادبیات میں بھی اس طرح کے واردات رونما ہوتے رہے ہیں۔کبھی کاشت کار خود کو بر تر سمجھنے کی جتن کرتا ہے تو کبھی جاگیردار اپنے کو بڑا بننے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے۔خیر!یہ بات متفق علیہ ہے کہ دونوں حضرات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔جملۂ معترضہ کے طور پر عرض یہ کرنا ہے کہ ناچیز کو کسی موسم میں پٹنہ جانے کا اتفاق ہوا تھا جس میں خواتین فکشن نگاروں کا بازار گرم ہونے والا تھا۔موسم کے ظہرانے میں معروف افسانہ نگار شوکت حیات سے ملاقات ہوئی ۔اس سے قبل بھی ان سے ایک دلچسپ ملاقات علی گڑھ میں ہوئی تھی۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ اپنے اکلوتے مجموعے ’’گنبد کے کبوتر‘‘کی تقریب رونمائی کے لیے دہلی اور علی گڑھ تشریف لائے تھے۔چائے کی چسکیوں کے دورانیے میں شوکت حیات نے ایک آنے والے لحیم شحیم بزرگ شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں اردو فکشن کے معتبر دستخط سے ملوانا چاہتا ہوں۔(ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ شوکت حیات صاحب اپنے سامنے کسی فن کار کی تعریف کرتے ہوں) میں متجسس نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا تو معلوم ہوا ایک شخص چائے کی چسکیوں کے ساتھ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے آرہے ہیں۔سرو قد،لحیم شحیم بدن،سر پر لمبے بال اور پیل مست بے زنجیر کے مصداق شموئل احمد ہمارے درمیان چلتے آرہے تھے۔سگریٹ کے کش اور چائے کی چسکیوں کے ساتھ جب وہ حالات حاضرہ اور موسم پر تبصرہ کرتے ہوئے گالیوں کی بوچھار کرتے تو غالب کے مصداق’ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا‘اُن کی باتیں مزہ دیتیں۔
ظہرانہ ختم ہوااور لوگ منتشر ہونے لگے ۔باقی ماندہ لوگوں میں شموئل صاحب رہ گئے تھے۔ان کی مجھے ایک زمانے سے تلاش تھی۔پی ایچ ڈی کے دورانیے میں اُن سے رابطے کی کئی کوششیں کیں جو ناکام رہیں۔لوگوں میں افواہیں گرم تھیں کہ وہ پٹنہ چھوڑ چھاڑ کر بن باس کی زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ کے لیے پونے ہجرت کر گئے ہیں۔رابطے کی کوئی صورت نہیں تھی اور آج اچھا موقع میسر ہاتھ لگا تھا ۔میں نے سوچا کہ آج کے بعد کہیں اور نہ غائب ہو جائیں لہٰذا میں نے ان کے ہمراہ اُن کے گھر کی راہ لی۔اپارٹمنٹ کے گراؤنڈ فلور میں اُن کا ذاتی مہمان خانہ ہے جس کا انھوں نے ’’جیوتشی کیندر‘‘کا نام دے رکھا ہے۔تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس مخصوص کمرے کا استعمال آرام فرمانے کے علاوہ تمام چیزوں کے لیے ہوتا ہے کیوں کہ ان کے نزدیک آرام حرام ہے۔اس مخصوص کمرے کا استعمال مطالعہ کرنا،تصنیف و تالیف کا کام کرنا، دوستوں اور غیر دوستوں سے پر تکلف باتیں کرنا،علم نجوم پر خامہ فرسائی کرنا اور بے وقوف لوگوں پر اُس کا تجربہ آزمانا۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کمرے میں ادب کے علاوہ تمام کتابیں ہوتی ہیں۔خصوصی طور پر علم نجوم کے حوالے سے مستند کتابیں اُن الماریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔اردو کتابوں کا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اردو نواز ،نئی کتاب کو دیکھتا ہے تو مطالعے کی ایسی ضد مچاتا ہے کہ وہ پہلی ہی فرصت میں کتاب کو چاٹ کھائے گا اور کتاب لے کر اس پر غاصبانہ حق جتاتا ہے اور کبھی واپس نہیں کرتا۔جیسا کہ ایک مثل مشہور ہے کہ اپنی کتابیں دوسروں کو دینے والا بے وقوف ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بے وقوف وہ ہوتا ہے جو کتابیں پڑھ کر واپس کردے۔ اسی لیے شموئل احمد بے وقوف بننے والا کام نہیں کرتے۔میری خوش نصیبی تھی کہ میں جیوتشی کیندر میں بیٹھا اردو فکشن کے اہم رائٹر سے باتیں کر رہا تھا۔اس کیندر میں ادبی اور غیر ادبی ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں۔میں تو اُن کی تحریروں سے پہلے ہی واقف تھا ،آج ان کی شخصیت نے مجھے اور بھی مرعوب کیا۔ شام کا سورج اپنی شعاؤں کو سمیٹ لینے کی تیاریاں کر ہی رہا تھا کہ میں نے بھی ان سے اجازت لے کر اپنے قیام گاہ کی راہ لی اور اُن کے افسانوں سے متعلق مواد جمع کرتا رہا۔دو ماہ گزر جانے کے بعد میں نے ایک چھوٹا سا مضمون لکھا جو میرا پہلا مضمون تھا ۔ظاہر ہے وہ مضمون ڈھیر ساری غلطیوں کا ملغوبہ تھا۔یہ مضمون سہیل،گیا اور چہار سو،راولپنڈی میں شائع ہو اتھا۔دو چار سالوں کے دورانیے میںشموئل احمد کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان کے افسانوں کو ایسا انتخاب شائع ہو جو نوجوان طالب علموں کی رہنمائی کرسکے۔ان کے افسانوں پر گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی شخصیت اور فن کے ادوار کا ایک سرسری جائزہ لیاجائے۔
ززز
شموئل احمد4؍ مئی 1943ء کو صوبۂ بہار کے مردم خیز ضلع بھاگل پورمیں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم بھاگل پور ہی میں حاصل کی۔1958ء میں گیا سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔1960ء میں انٹر اور 1968ء میں جمشید پور سے سول انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا اور ڈگری حاصل کی۔1973ء کے اوائل میں بوکارو میں بہ حیثیت انجینئر نوکری کا آغاز کیا اور چیف انجینئر کے پوسٹ سے 31؍ اکتوبر2003ء میں سبک دوش ہوئے۔شموئل احمد نے اوائل عمری سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردی تھی۔ان کی ابتدائی دو کہانیاں اس وقت شائع ہوئیں جب وہ درجہ ششم کے طالب علم تھے۔ظاہر ہے وہ کہانیاں اُن کی ادنا سی کوشش تھی اور اس بات کا اشاریہ بھی،کہ ان کا ذہن باغیانہ ہے اور کج روی اُن کی شخصیت کا ایک انمول حصہ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا جب پہلا افسانہ شائع ہوا تو سماج سے بغاوت کی بو موجود تھی۔ان کا پہلا افسانہ’’ صنم‘‘ پٹنہ میں ’’چاند کا داغ ‘‘ کے عنوان سے نومبر۔دسمبر 1962ء میں شائع ہوا۔اس کی کہانی بڑی معنی خیز تھی جو ان کے باغیانہ ذہن اورخلقانہ قدرت کا پتا دیتی تھی۔اپنی سوانحی کتاب ’’اے دلِ آوارہ‘‘میں اس کہانی کی کہانی وہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میری زندگی کے سبھی بڑے فیصلے میرے بزرگوں نے لیے۔صرف ایک فیصلہ میں نے اپنے لیے محفوظ رکھا۔۔۔۔وہ ہے ۔۔۔۔میری تحریر۔۔۔۔۔۔میری پہلی دو کہانیاں پٹنہ کے صدائے عام میں شائع ہوئیں تب میں ساتویں درجے کا طالب علم تھا۔میرے والد کہانی پڑھ کر بہت خوش ہوئے تھے،سب کو دکھاتے پھرتے تھے۔ میں جب انٹر میں پہنچا تو ایک اور کہانی لکھی۔’’چاند کا داغ‘‘ جو ماہنامہ ’صنم‘پٹنہ میں شائع ہوئی۔والد پڑھ کر تردد میں مبتلا ہوئے۔دن بھر آنگن میں ٹہلتے رہے۔ایک ہی بات کہتے تھے’’اُس نے اس طرح کیوں لکھا؟کہاں سے یہ بات دماغ میں آئی؟‘‘ کہانی میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ والد کی نیند اُڑ جاتی۔پھر بھی ان کے اپنے ویلوز تھے جن کی میں نے نفی کی تھی۔یہ کہانی ایک عورت کی تھی جسے بچہ نہیں ہو رہا تھا۔ایک دن بچہ ہوا تو دادی بہت خوش ہوئی۔بیٹے کو پوتے کا منہہ دکھا کر کہنے لگی کہ گھر میں چاند اتر آیا ہے لیکن بیٹا اداس تھا۔وہ دیکھ رہا تھا کہ بنجر زمین پر اُس کے پڑوسی شوکت میاں ہل چلا رہے ہیں۔وہ ماں سے کہنا چاہتا تھا کہ گھر میں چاند نہیں چاند کا داغ اتر آیا ہے۔‘‘
یہ افسانہ کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔اس افسانے کے بعد اُن کی افسانہ نگاری کا سلسلہ چل نکلا۔1962ء میں شموئل احمد نے افسانہ نویسی کی دنیا میں قدم رکھ تو دیا لیکن اس کے بعد وہ کچھ عرصے تک چپی سادھ لی اور تلاش معاش میں سرگرداں رہے۔لکھنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن وہ صحرا نوردی کرتے ہوئے کہانیوں کے موضوعات کے لیے مواد جمع کرتے رہے۔جب حالات سدھرے تو انھوں نے اپنے ذہن کو ادب کی خدمت کے لیے مجتمع کیا اور کہانیوں کی جانب دوبارہ راجع ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ کافی تاخیر سے شائع ہوا۔’’بگولے‘‘ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جسے سرخاب پبلی کیشنز،پٹنہ نے 1988ء میں بٹے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔اس کتاب میں چودہ افسانے شامل ہیں جن کے مشولات درج ذیل ہیں:
1۔قصبہ کا المیہ 2۔قصبہ کی دوسری کہانی 3۔مرگھٹ 4۔باگمتی جب ہنستی ہے 5۔سبز رنگوں والا پیغمبر 6۔آخری سیڑھی کا مسافر 7۔ٹوٹی دشاؤں کا آدمی 8۔وہ 9۔عکس عکس 10۔ایک اور عکس 11۔عکس تین 12۔عکس چار 13۔آدمی اور مین سوئچ 14۔بگولے
اس مجموعے کی کئی کہانیوں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔سبز رنگوں والا پیغمبر،عکس سیریز کی کہانیاں،آدمی اور مین سوئچ،بگولے وغیرہ اسی ضمن کی کہانیاں ہیں۔اس مجموعے میں کئی کہانیوں کو علامتی کے ضمن میں بھی رکھ سکتے ہیں جسے حالات کے تقاضے والی کہانیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ کہانیاں اس عہد میں رقم کی گئیں جب فن کاروں کے مابین یہ تصور عام تھا کہ علامتی افسانے ہی ایک فن کار کو زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا اس ’بلا‘سے آنکھیں ملانے کے لیے کئی افسانہ نگاروں نے علامتی اور نیم علامتی کہانیاں لکھیں جو ظاہر ہے مقبول نہ ہوسکیں۔ترقی پسند افسانہ نگار بھی اس زد سے نہ بچ سکے۔شموئل احمد کی کہانیوں کو مکمل علامتی نہیں کہہ سکتے بلکہ انہیں نیم علامتی کوشش کہہ سکتے ہیں۔
صنف افسانہ میں اپنی ہنر مندی کا ثبوت پیش کرنے کے بعد شموئل احمد نے ناول نگاری میں بھی قدم رکھا اور اُن کا ناولٹ ’’ندی‘‘1993ء میں شائع ہوا جسے موڈرن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی نے شائع کیا۔اس ناولٹ کی حد سے زیادہ تعریف ہوئی،اہم ناقدین کے مضامین لکھے،تبصرے کیے اور خطوط کی شکل میں اپنی آرا سے نوازا۔اس ناولٹ کے تاہنوز پانچ ایڈیشن شائع ہو کر مقبول خاص وعام ہوچکے ہیں۔انگریزی ایڈیشن River کے عنوان سے2012ء میں Just Fiction,German سے شائع ہوا۔علاوہ ازیں ڈاکٹر قنبر علی نے ایک کتاب ترتیب دی جس کا عنوان’’ندی:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘رکھا جس میں ندی کے متن کے ساتھ وہ مضامین اور تبصرے بھی شامل تھے جو وقتاً فوقتاً مشاہیر نے نوازے تھے۔مختصر یہ کہ شموئل احمد کا یہ ناول انسانی رشتوں کی پاسداری،شادی کے بعد عورتوں کی زندگی کا دوسرا پہلو اور مَردوں کی جانب سے ہونے والی بے اعتنائی کے خلاف احتجاج ہے۔یہاں عورت کھلے طور پر مزاحمت تو نہیں کرتی البتہ اس کے اندر مزاحمتی رویّہ ضرور ہے لیکن شوہر پرستی کا خیال کرتے ہوئے جھجھک محسوس کرتی ہے گویا وہ ایک مکمل مشرقی عورت ہے جس کے لیے معاشرے نے ایک حد مقرر کیا ہوا ہے۔مزاحمت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عورت سب کچھ سہہ کرخاموش رہنا اور اپنے شوہر سے دور دور رہنا زیادہ پسند کرتی ہے اور دوسری یہ کہ وہ گھر کا تالا بند کرکے،چابی پڑوسی کے حوالے کر کے ،اپنے شوہر کو بنا کچھ بتائے اپنے پا پا کے پاس چلی جاتی ہے۔
شموئل احمد کا دوسرا افسانوی مجموعہ’’سنگھاردان‘‘کے عنوان سے1996ء میں منظر عام پر آیا جسے معیار پبلی کیشنز،نئی دہلی نے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔اس مجموعے میں دس کہانیاں شامل ہیں۔مجموعے کی ٹائٹل کہانی ’سنگھاردان‘ ناقدوں اور فن کاروں کے درمیان کافی شہرت کا باعث بنی۔پروفیسر طارق چھتاری نے اس افسانے کا خوبصورت تجزیہ کیا۔اس کے علاوہ بھی اس افسانے کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔اس مجموعے میں مندرجہ ذیل کہانیاں شامل ہیں:
1۔سنگھاردان 2۔آنگن کا پیڑ 3۔بہرام کا گھر 4۔بدلتے رنگ 5۔ٹیبل 6۔برف میں آگ 7۔جھاگ 8۔کہرے 9۔بگولے 10۔آدمی اور مین سوئچ
تیسرا مجموعہ ’’القمبوس کی گردن‘‘2002ء میں نقاد پبلی کیشنز،پٹنہ سے شائع ہوا جس میں نو افسانے شامل ہیں۔اس جموعے میں سابقہ مجموعوں کے چند افسانے بھی شامل ہیںجن کی پذیرائی خاطر خواہ ہوئی۔تیسرے مجموعے کے بعد شموئل احمد نے دوسرا ناول ’’مہاماری ‘‘کے عنوان سے 2003ء میں رقم کیا جسے نشاط پبلی کیشنز،پٹنہ نے شائع کیا۔اس ناول کا دوسرا ایڈیشن 2012ء میں عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دہلی سے شائع ہوا۔سیاسی نوعیت کا یہ ناول لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بن سکا جس طرح ’’ندی‘‘نے شہرت حاصل کی تھی۔ سیاسی و سماجی رسہ کشی کے حوالے سے بُنا ہوا یہ ناول الگ معنویت لیے رکھتا ہے۔اس ناول کا موازنہ پہلے ناول سے کریں تو دونوں کے موضوعات میں کافی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ایک کا بنیادی حوالہ ازدواجی رشتے سے ہے تودوسرابالکل سیاسی نوعیت کا ہے ۔ اس ضمن میں پہلاناول ندی ہے جودراصل ایک مشینی زندگی کے تحت مرداورعورت کے ختم ہوتے رشتے کااستعارہ ہے ۔دومتضاد کیفیت کاباہمی تصادم اوراس کے ذریعے ختم ہوتی ،بکھرتی اورٹوٹتی ازدواجی زندگی کاالمیہ ہے ۔ مردجومشینی زندگی کی علامت ہے ،وہ اسی خوش فہمی میںمبتلاہے کہ یہ رویّہ اس کی زندگی میں شادمانی وکامرانی عطا کرے گاجب کہ عورت اس کرب کوبری طرح جھیل رہی ہے ۔دیویندراسرنے اس حوالے سے نہایت موزوں بات کہی ہے ۔ ان کے بہ قول:’’ندی ایک مرداورایک عورت کے انٹی میٹ رشتے کی داستان ہے جوجنسی کشش سے شروع ہوتی ہے اورروحانی کرب میں ختم ہوتی ہے ۔‘‘
شموئل احمد کا چوتھا اور آخری افسانوی مجموعہ ’’عنکبوت‘‘کے عنوان سے 2010ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی سے شائع ہوا جس میں نئے پرانے گیارہ افسانے شامل ہیں۔اس مجموعے میں درج ذیل افسانے ہیں:
1۔عنکبوت 2۔ظہار 3۔سراب 4۔اونٹ 5۔مصری کی ڈلی 6۔محمد شریف کا عدم گناہ 7۔جھاگ 8۔کاغذی پیرہن 9۔چھگمانس 10۔منرل واٹر 11۔القمبوس کی گردن
ناولٹ’’ندی‘‘کے علاوہ Just Fiction,German نے شموئل احمد کے نمائندہ تیرہ افسانوں کا انتخاب2012ء میںThe Dressing Table کے نام سے شائع کیا۔افسانوں کا ترجمہ بہ ذات خود شموئل احمد نے کیا۔انگریزی کے علاوہ اُن کے افسانوں کا ترجمہ ہندی،پنجابی اور دوسری زبانوں میں بھی ہوچکا ہے۔’’مرگ ترشنا‘‘پنجابی ترجمے کا انتخاب ہے جسے بھی کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
شموئل احمد کا تیسرا ناول ’’گرداب‘‘کے عنوان سے جمشید پور سے نکلنے والے ادبی رسالے’’راوی‘‘کے دوسری جلد میں شائع ہو ا ہے ،ساتھ ہی الگ سے کتابی صورت میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی سے۲۰۱۶ء میں اشاعت سے ہمکنار ہوچکاہے۔ایک شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے ناجائز رشتے سے متعلق یہ ناول مطالعے کا متقاضی ہے۔فکشن کے باب کے علاوہ شموئل احمد کی تالیفات اور خود نوشت کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔اس ضمن میں ’’اردو کی نفسیاتی کہانیاں‘‘قابل ذکر ہے۔اس کتاب میں شموئل احمد نے اردو کی چند نفسیاتی کہانیوں کو یکجا کیا ہے اور مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے۔کتاب میں شامل افسانے کچھ اس طرح سے ہیں:
1۔ننگی آوازیں ۔سعادت حسن منٹو 2۔شہزادہ۔کرشن چندر 3۔انوکھی مسکراہٹ۔سید محمد محسن 4۔افعی۔غیاث احمد گدی 5۔ماتھے کا تل۔ممتاز مفتی 6۔اس کی بیوی۔غلام عباس 7۔کبھی کھوئی ہوئی منزل۔ضمیر الدین احمد 8۔استفراغ۔سلام بن رزاق 9۔گومڑ۔عبد الصمد 10۔نماز پڑھو۔اقبال کرشن 11۔گلوب۔طارق چھتاری 12۔کرچیاں۔جاوید نہال چشتی 13۔برف میں آگ۔شموئل احمد
اس انتخاب کے علاوہ شموئل احمد کا ایک اور انتخاب’’پاکستان:ادب کے آئینے میں‘‘بھی قابل قدر ہے۔یہ کتاب بھی 2014ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں صاحبِ کتاب نے پاکستان کے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور چند افسانوں کو یکجا کیا ہے جس سے وہاں کی ادبی و سیاسی صورتحال بھی واضح ہوجاتی ہے۔ہندوستان میں اس قبیل کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔اس ضمن میں شموئل احمد کی کتاب’’اے دلِ آوارہ‘‘جسے سوانحی کو لاژ اور خود نوشت بھی کہا جا سکتا ہے،قابل قدر ہے۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی سے2015ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کو قارئین نے خوب سراہا۔خودنوشت سوانح چوں کہ عمر گذشتہ کی کتاب ہوتی ہے اور پوری ایمانداری،دیانت داری اور یادداشتوں کے البم کو قرینے سے سجانے کا کام بڑا ہی صبر آزما،تھکا دینے والا اور الجھن والا ہوتا ہے۔ فن کار ایک عمر گزر جانے کے بعد ایسی یادوں کو مجتمع کرتا ہے جب یادِماضی عذاب بن جاتی ہے اور عقل سلیم بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے،بڑا ہی صبر آزما ہوتا ہے۔اس کتاب کو شموئل احمد نے کئی ابواب میں تقسیم کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔سماجی رسہ کشی اور فن کا ر 2۔تعلیم اور گھریلو ماحول 3۔سیاست، ملازمت اور کرپشن 4۔آبا و اجداد 5۔جنسی رویّے اور عورت۔6۔علوم ، نجوم اور فن کار کا تصادم 7۔ملازمت ، جیوتش اور ہم پیشہ لوگ 8۔شراب نوشی ، عورت اور سماج 9۔ادب اور ادیبوں کے سرقے 10۔ادبی عناد و ادبی صورتِ حا ل 11۔فسادات اور مذہب
شموئل احمد کی مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ کئی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہونے ہوالی ہیں جن میں علم نجوم پر ایک ضخیم کتاب،دہشت گردی کا فسانہ اور افسانوی صورتحال،عالمی افسانوں کا ایک انتخاب اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ بہ عنوان’’کیکٹس کے پھول‘‘سر فہرست ہیں۔
شموئل احمد کی کئی کہانیاں ہند وپاک کے مختلف انتھالوجیز میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے کئی رسالوں کے خصوصی نمبر قابل ذکر ہیں ۔چہار سو (راولپنڈی)،نیا ورق(ممبئی)اورمژگاں(کلکتہ)اس سلسلے میں اہم ہیں۔اردو کے علاوہ ہندی میں بھی شموئل احمد مقبول رہے ہیں۔ہندی کے رسالے’ سمبودھن‘نے بھی اُن پر خصوصی گوشہ شائع کیا۔اُن کے فن کے حوالے سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تاہنوز نصف درجن سے زائد تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں جن میں ایک تحقیقی مقالہ ہندی میں بھی قابل ذکر ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود شموئل احمد کو دوحہ قطر کا (عالمی اردو ایوارڈ)کے علاوہ کسی بھی ایوارڈ سے سرفراز نہیں کیا گیا ہے۔
ززز
شموئل احمدکاتعلق اردوافسانہ نگاری کے اس عہدسے ہے جب جدیدیت کارجحان طلوع ہورہاتھااوراپنی شعاعیں اردو دنیا پرمسلّط کرنے کے درپے تھا۔یہ وہی عہدہے جب علامت وتجریدکوبہ طورِفیشن برتاجارہاتھااورقاری کارشتہ افسانے سے ٹوٹ رہا تھا ۔شموئل احمدنے ایسے ہی عہدمیںافسانہ نویسی کی ابتداکی ۔ان کی دوراندیشی کہیے یامصلحت پسندی ، انھوں نے کسی تحریک یا رجحان کاتتبع نہیںکیابل کہ اپنی راہ خودنکالی ۔اس سے ان کوکتنافائدہ یانقصان ہوا،یہ الگ مسئلہ اورادب کے الگ باب کا متقاضی ہے ۔
شموئل احمدکی پچاس سالہ افسانوی زندگی کابہ نظرغائرمطالعہ کیاجائے تواندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے افسانوی موضوعات کسی ایک نہج پرمرکوز نہیںہوتے بل کہ دنیاجہان کے مسائل ،سیاسی وسماجی حالات اوراسی طرح کے دوسرے مسائل کی بھرپورعکاسی ہوتی ہے ۔ان کے پچاس سالہ افسانوی سفر میں کئی اہم موڑ آئے اور اسالیب و موضوعات کی سطح پر بھی تبدیلیاں واقع ہوئیں لہٰذا شموئل احمد نے اپنے عہد میں نمو پانے والے اکثر موضوعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔اگر اُن کے اسلوب کی بات کی جائے تو اُن کے تہہ دار بیانیے کا قائل ہر قاری و ناقد ہے البتہ انھوں نے چند علامتی افسانے بھی لکھے ہیں لیکن کہانی کے جو ہر کوپوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔نیم علامتی کہانیوں کی فہرست میں آخری سیڑھی کا مسافر،عکس سیریز کی کہانیاں،سبز رنگوں والا پیغمبرکو رکھا جا سکتا ہے۔اسی طرح موضوعات کی بات کریں تو سیاسی و معاشرتی تشدد کے ذیل میں باگمتی جب ہنستی ہے،سنگھاردان،آنگن کا پیڑ،بدلتے رنگ، چھگمانس،گھر واپسی، سراب اور عدم گناہ کورکھ سکتے ہیں۔علم نجوم سے شموئل احمد کو خاص مناسبت ہے۔اس’’ہنر‘‘ نے انھیں ایک خاص عزت و شرف سے نوازا ہے۔اردو کے کم ہی فکشن نگار ہوں گے جنھیں علم نجوم سے مناسبتِ خاص ہو۔جنھیں مناسبت ہے بھی،وہ اپنی تحریروں میں اس فن کو بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں۔شموئل احمد نے ’نجوم ‘کا فائدہ اٹھا کر اپنے متن کو بامعنی اور جانداز بنایا ہے۔ چھگمانس،القمبوس کی گردن،مصری کی ڈلی اورنملوس کا گناہ وغیرہ افسانوں میں اس علم کی واضح صورتیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ناول ’’ندی‘‘ اور ’’گرداب‘‘میں بھی کہیں کہیں اس فن کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
جنس ،انسانی زندگی کا ایک ایسا باب ہے جسے کسی بھی طور پر فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو کے تقریباً ہر بڑے فکشن نگار نے جنس کو موضوع بنا کر فن پارہ تخلیق کیا ہے۔منٹو،ممتاز مفتی،محمد حسن عسکری سے لے کر شموئل احمد،انیس رفیع،علی امام نقوی،اسرار گاندھی،م ناگ،احمد رشید،شاہد اختر،شبیر احمد،صغیر رحمانی اور اشتیاق سعید تک ایسے کئی اہم لکھنے والوں کی فہرست ہے جن کے فن پارے کو جنس زدہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔شموئل احمد کا نام اس بھیڑ میں اپنی الگ ہی شناخت رکھتا ہے۔ان کے فن پارے پر جنسیت کا الزام لگا ،حضرت ناصح نے ایسے نازیبا حرکات سے باز رہنے کی تاکید کی لیکن بہ قول فیض’’ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب۔۔۔وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے‘‘کے مصداق انھوں نے بھی اس سے کنارہ کشی تو نہ کی بلکہ ان کے فن پارے میں اس سے مزید نکھار آگیا۔بگولے،مصری کی ڈلی،منرل واٹر، عنکبوت،ظہار،اونٹ،عکس ۔۳، بدلتے رنگ، کایا کلپ،جھاگ جیسی کہانیوں کو محض جنسیت کا الزام لگا کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔سر دست شموئل احمد نے چند افسانوں پر گفتگو کی جائے تاکہ اُن کے موضوعات کا بہ خوبی اندازہ ہو سکے۔
شموئل احمدکے پہلی قسم کے افسانوں کا تعلق سیاسی حوالے سے ہے جن میںانہوںنے بالواسطہ اوربلاواسطہ دونوں طریقوںسے طنزکانشانہ بنایاہے ۔ان کے ابتدائی دورکے افسانے سیاست پرطنزکی ردامیںلپٹے ہوئے نظرآتے ہیں۔اس حوالے سے وہ اپنی بات کہنے میںمکمل طور پرکامیاب ہیںاورکہیںبھی جذباتی ہوتے نظرنہیںآتے جب کہ سیاست ایک ایسامکروہ شعبہ ہے جس پرخامہ فرسائی کرتے ہوئے بہت سے فن کارجذبات کے رومیںبہہ جاتے ہیںاورافسانویت مجروح ہوجاتی ہے ۔ شموئل احمدنے جب افسانہ نگاری کی ابتداکی توسیاسی حالات اوراس کے نتیجے میںزبوں حالی کاذکرشدیدطورپرکیا۔ ’’چھگمانس‘‘، ’’ٹیبل‘‘،’’قصبہ کا المیہ‘‘، ’’مرگھٹ‘‘، ’’قصبہ کی دوسری کہانی‘‘،’’گھر واپسی‘‘اور’’باگمتی جب ہنستی ہے‘‘جیسی کہانیاںاسی زمرے میںآتی ہیں۔ان کہانیوںمیںکہیںسیاسی حالات کابے باکانہ نقشا کھینچا گیا ہے توکہیںسیاست کی رسّہ کشی کابیان ، کہیںایک ہی سیاست داںدوسرے کوزیرکرنے کی تدابیر پر غوروخوض کررہاہے توکوئی فسادبرپاکرکے اقتدار قائم کرنے کے درپے ہے ۔مجموعی طورپرایک سیاست داںجسے ملک کی ترقی کے لیے کوشاںہوناچاہیے، وہ قصباتی فضاکومکدّرکیے ہوئے ہے۔’’قصبہ کا المیہ‘‘، ’’قصبے کی دوسری کہانی‘‘اور’’مرگھٹ‘‘میںیہی فضا اپنے پرپھیلائے ہوئے ہے جس سے بنی نوعِ انسان خوف زدہ ہے اورایک دوسرے سے یہی سوال کررہاہے کہ آیامرنے والااس کارشتہ دارتونہیں؟اگرنہیںہے تو کیامعلوم اگلی باری اسی کی ہواوراُسے احساس تک نہ ہو۔ان افسانوںکاتانابانااسی فضا میں بُنا گیاہے کہ آدمی دہشت کے عالم میںسانس لینے پر مجبورہے اورکچھ مفادپرست لوگ یہ دہشت زدہ ماحول بنائے ہوئے ہیںکہ ان کی روزی روٹی کا انتظام اسی پرمنحصرہے ۔ ’’قصبہ کی دوسری کہانی‘‘میںایک شخص یہ ارادہ کرتاہے کہ وہ جب بھی اپنے قصبے کی باگ ڈورسنبھالے گا،سب سے پہلے امن بحال کرے گا، لوگوںکے دلوںسے خوف و دہشت کونکال باہرپھینکے گالیکن جب وہ عملی میدان میںقدم رکھتاہے تب اسے یہ احساس ہوتاہے کہ پوراسسٹم ہی کرپٹ ہے ۔وہ افسوس کا اظہارکرتاہے لیکن اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیںہے سوائے اس کے کہ وہ بھی اسی ماحول میںڈھل جائے اوراپنے آپ کو اس کے حوالے کردے ۔ جوشخص وقت اورحالات کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیںکرتا، وہ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے اوریہ اصول اُس خلیفہ کواچھی طرح معلوم ہے ۔
اسی طرح افسانہ ’’باگمتی جب ہنستی ہے‘‘میںشموئل احمد نے ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس کی دو شکلیں ہیں۔ایک طرف سماج میں ناگہانی آفات کے ہر خاص و عام کی زبان پر ورد ہو رہے ہیں،جہاں لوگ سیلاب (باگمتی) کی وجہ سے پریشان ہیں،کچھ لوگ بھوکوں مر رہے ہیںتو کچھ کے احباب اُن سے جدا ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہیں۔وہ بھی ایسی جگہ پر جہاں اُن کے رہنے کا کوئی معقول نظم نہیں ۔مصیبت زدہ لوگوں کو سرکاری امداد کی ضرورت ہے اور سرکار اس کی جانب توجہ بھی نہیں دیتی ہے لیکن دوسری جانب سیاست کی رسہ کشی کے نتیجے میں بانٹنے کا کام بھی مشکل سے ہی ہو رہا ہے۔لوگوں میں راحت کا سامان جیسے چوڑا،گڑ،موم بتی اور ماچس صحیح طور پر نہیں پہنچ پارہے ہیں۔لوگوں میں چے می گوئیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن سپر وائزر کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے۔ ’’ہریا ‘‘گاؤں کا کڑیل جوان ہے ،وہ صدائے احتجاج بلند کرتا ہے تو سپر وائزر کا متا پرشاد کی نظر اُس پرجا ٹکتی ہے۔وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ پاتا۔وہ موقعے کی نزاکت کو بھانپ کر اُسے کنارے لے جا کر ہری بابو!! ہری بابو!! جیسے القاب سے نوازتا ہے اور بڑی شفقت سے پوری بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’ہری بابو…آپ جیسے سجگ نوجوان کی دیش کوضرورت ہے ‘‘۔
’’ہری بابو……‘‘۔
ہریاکے کانوںمیںہری بابوکالفظ عجیب کیفیت پیداکررہاہے ۔جیسے کامتاپرشادجی دیسی مشین میںولایتی پرزے لگارہے ہوں۔
’’ہری بابو۔تھوڑی بہت چوری تویہ لوگ کرتے ہی ہیں…‘‘ ۔ کامتا پرشاد مسکرا کر کہتے ہیں۔
ہریاچپ ہے ۔اب کیاکہے ؟وہ ہریاسے ’’ہری بابو‘‘بن گیاہے ۔
’’ویسے بی ۔ڈی ۔اوآدمی اچھاہے ۔آپ کی بھی مددکرے گا‘‘۔
ہریا سے ہری بابو کا لقب اُس کے کانوں میں رس گھول دیتا ہے۔شموئل احمدسیاست کی اس زنجیر کی بھی وضاحت کرتے ہیں اور اس بات کی بھی کہ ہر شخص غلامی کے پٹے میں بندھا ہوا ہے اور کسی کے ماتحت مجبور ہے۔ اس کے بعد ہریا ماحول کے نزاکت کو سمجھنے لگتا ہے۔کامتا پرشاد جی اسے ناؤ چلانے کا مشورہ دیتا ہے تاکہ آمدنی کا مستقل ذریعہ بھی نکل آئے اور یہ بات اُسے بہت اچھی لگتی ہے۔ہریا کے کانوں میں ہری بابو کا سرور اس طرح گھل رہا ہے کہ اب ظلم اور برائی کے خلاف وہ احتجاج تک نہیں کرتا اور اس طور پر کامتا پرشاد کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ہمارے افسانہ نگار نے اس کہانی میں سیاست کے مختلف شیڈس کو اس طرح ظاہر کیا ہے کہ وہ پوری طرح بے نقاب ہوجاتے ہیں اور قاری بھی ان اشاروں کو سمجھ لیتا ہے۔رشوت خوری اور لوٹ گھسوٹ کے معاملات کو ہمارے افسانہ نگار نے بہ ذات خود جھیلا اور قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔
سیاست پرطنزکی واضح مثالیںافسانہ ’’ٹیبل‘‘اور’’چھگمانس‘‘میںبھی ہیں۔’’ٹیبل‘‘ میںتوسرکاری معاملات میںرشوت خوری کے گرم بازارکوموضوع بحث بنایاگیاہے تو ’’چھگمانس‘‘میںکانگریس اوراس کے سابق حکم راںراجیوگاندھی پربراہ راست طنز ہے ۔ افسانے کے عنوان کی بات کریںتوچھگمانس(چھگ+ مانُس )کامطلب ہی ہوتاہے Sub Humanیعنی وہ انسان جو ارتقا کی نچلی سیڑھی پر کھڑا ہواور جس شخص کاکوئی وجودنہ ہو۔اس افسانے میںبھاگل پورفسادکاوہ کریہہ منظرپیش کیاگیاہے جس میں سیاسی جماعتوںکادخل کلی طورپرتھا۔ سیاست ایساغلیظ لفظ ہے جس سے ہرذی شعورشخص پریشان ہے اوران کی زبان سے سیاست دانوںکے نام سن کرگالیاںہی نکلتی ہیں۔پھربھی سماج کے کچھ ایسے اشخاص ہوتے ہیںجواُن کے دام میںآجاتے ہیںاورایسی غلطیاںسرزدہوجاتی ہیںجن کاخمیازہ انہیںتاحیات بھگتناپڑتاہے۔افسانہ ’’چھگمانس‘‘کا پس منظر بیان کرتے ہوئے شموئل احمد اپنے سوانحی کولاژ ’’اے دلِ آوارہ‘‘میں یوں لکھا ہے:
’’جب بابری مسجد مسمار ہوئی تو جہاں سب ذمے داری سے بچ رہے تھے وہاں ٹھاکرے خم ٹھوک کر سامنے آئے۔۔۔۔۔میں نے توڑی مسجد۔۔۔۔میرے آدمیوں نے توڑ ی۔حکومت ہمیشہ اُن کے آگے گھٹنے ٹیکتی رہی ہے۔ٹھاکرے کے ساتھ لوگ نریندر مودی،پروین توگڑیہ اور اشوک سنگھل وغیرہ کا نام لیتے ہیں اور کانگریس کو بھول جاتے ہیں۔کانگریس اتنی ہی کمیونل ہے۔سورن مندر کا سینہ کانگریس نے ہی گولیوں سے چھلنی کیا،سکھوں کا قتل عام کیا،بابری مسجد کے ٹوٹنے کی فضا تیار کی۔بھاگلپور میں تو سب سے شرمناک رول ادا کیا۔وہاں فساد ہوا تو ایس پی ذمے دار تھے۔بہار کے ہوم سکریٹری نے اُن کا تبادلہ کردیا تھا لیکن راجیو گاندھی حالات کا جائزہ لینے گئے تھے۔بی ایم پی کے جوانوں نے تبادلہ کے خلاف احتجاج کیا۔احتجاج تھا ،قتل عام کے لیے کھلی چھوٹ ملے اور راجیو گاندھی نے ایس پی کا تبادلہ ردّ کیا اور الیکش مہم میں ایودھیا چلے گئے۔دوسرے دن لوگائی گاؤں میں قتل عام شروع ہوا۔لاشیں کنویں میں پھینکی گئیں۔۔۔۔چیل کوّے منڈلانے لگے تو کنویں سے نکال کر کھیتوں میں دفن کر دی گئیں اور اُن میں گوبھی کے پودے لگادیے گئے ۔ راجیو نے ایودھیا میں مجمع سے خطاب کیا کہ ہمارے ہاتھ مضبوط کیجیے۔۔۔۔ہم رام راجیہ لائیں گے۔۔۔۔۔! یہ کیسا رم راجیہ ہے جہاں کٹے ہوئے سروں سے پھول کھلتے ہیں ۔ میری کہانی ’’چھگمانس‘‘اسی المیے کو بیان کرتی ہے۔‘‘
اسی طرح افسانہ ’’گھر واپسی‘‘نئی صدی کی سیاسی بے چہرگی کو بے نقاب کرتا ہے۔یہ ایسی صدی کا بیان ہے جب اقلیت کے لیے پوری دنیا تنگ پڑرہی ہے،مسلم کے نام پر لوگوں کو در بہ در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔ایسے میں عظیم ملک ہندوستان کے مسلمانوں کی قومیت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور انہیں گھر واپسی کا سبق دیا جا رہا ہے۔
سیاسی حوالوںکی بات کریںتویہ مناسب ہوگاکہ سردست شموئل کے ان افسانوں کا ذکربھی کردیاجائے جن میںفسادات کو موضوع بناکرافسانے کابیانیہ Narrationملحوظ نظررکھاگیاہے ۔ان کے دوسرے حصے کاتعلق انہی افسانوںسے ہے جوفسادات کے پس منظرمیںرقم کیے گئے ہیں۔خاص طورپراُن افسانوںمیںاقلیت کے مسائل کوموضوع بحث بناکر یہ بات کہی گئی ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میںہی ایسے فسادکیوںبرپاہوتے ہیں ۔ یہاںشموئل احمدقاری کے ذہن پرایک سوال قائم کرتے ہیں۔ ظاہرہے اس سوال کاجواب توہے لیکن کوئی حل نہیں۔’’بہرام کاگھر‘‘اور’’بدلتے رنگ‘‘جیسے کاموضوع فسادہی ہے جو اُن کے دوسرے مجموعے ’’سنگھاردان‘‘میںشامل ہیں۔’’بہرام کاگھر‘‘توFalsh Backکی تکنیک میںہیں جن کا راوی خود مصنف ہے جوواحدغائب کاصیغہ استعمال کرکے پیڑاوربہرام کے دوست کی کہانی سناتاہے ۔اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے آگ ہندئوںنے بھڑکائی ہے اور مسلمانوںکواُس کی سزابھگتنی پڑی ہے ۔ ان کاقصورصرف اورصرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ فسادات میںمارے جانے والے لوگوںکی اکثریت وہ ہوتی ہے جو فقط نام نہاد مسلمان ہیں،ان کوبنیادی چیزوںسے بھی کوئی دل چسپی نہیںہوتی بل کہ اگرنام ہٹادیے جائیںتوکوئی ہندومسلم کا فرق محسوس نہیںکرسکے گا۔لیکن جب صورتِ حال سنگین ہوتی ہے توگیہوںکے ساتھ گھُن بھی پس جاتے ہیں۔بہرام کا گھر امن،سکون اور محبت کا گہوارہ ہے اسی لیے بڑھیایعنی مقتول کی ماںآخروقت تک بہرام کاگھردیکھناچاہتی ہے ۔ بڑھیا یہ اندازہ لگانا چاہتی ہے کہ تشدد اور عدم تشدد میں کتنا فاصلہ رہ گیا تھا۔اگر وہ بہرام کے گھر تک پہنچ جاتا تو وہ بچ سکتا تھا ۔اس افسانے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے شموئل احمد یوں رقم طراز ہیں:
’’کہانی بہرام کا گھر‘‘بھی بھاگلپور فساد کی کہانی ہے۔ہمارے محلے میں ایک نوجوان تھا ۔۔۔۔اسلم۔۔۔۔۔وہ فساد میں شہید ہوا۔وہ بہرام کے گھر جانا چاہتا تھا جہاں محفوظ رہتا لیکن وہاں تک پہنچ نہیں سکا۔فسادیوں نے اُسے چوک پر ہی گھیر لیا ۔۔۔۔۔۔۔کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ اُس کی لاش کنویں میں پھینکی گئی ہے۔کنویں سے جب لاش نکالی جا رہی تھی تو اسلم کی ماں چوک پر پہنچی اور بہرام کے گھر کا پتا پوچھنے لگی۔وہ جاننا چاہتی تھی کہ بہرام کا گھر چوک سے کتنی دور رہ گیا تھا کہ بچہ وہاں پہنچ نہیں سکا۔اس کی آنکھوں میں حسرت تھی اور کہانی یہیں پر تھی۔۔۔۔۔تشدد سے عدم تشدد کی دوری۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ ’’بدلتے رنگ‘‘کامنظرنامہ دوسرے فسادات پرلکھے گئے افسانوں سے مختلف اس طورپرہے کہ اس کازمان ومکان رکمنی بائی کاکوٹھاہے اورشہرمیںجب بھی دنگاہوتاہے توسلیمان وہی کوٹھا پکڑتاہے ،اس کے ساتھ وہسکی پیتا اور دنگائیوںکوموٹی موٹی گالیاںدیتاہے ۔ رکمنی بائی جواُس سے میٹھی میٹھی باتیںکرتی ہے اورپولیس کو ’’بھڑوی کی جنی‘‘کہتی ہے ۔سلیمان کومذہب سے کوئی دل چسپی نہیںہے ۔اس کی اپنی Philosphyہے اور اپنا نظریہ ہے ۔وہ یہی کہتاہے کہ مذہب آدمی کونہیں جوڑتا جب کہ سلیمان آدمی کوجوڑنے کی بات کرتاتھا۔اس کی بیوی کواُن باتوںسے کوفت ہوتی ۔جب وہ سلیمان سے ایمان ویقین کی باتیںکرتی تواُسے یہ حسرت ہوتی کہ کاش !کوئی ایساآدمی ملے جومذہب کارونانہ روئے بل کہ آدمی کی بات کرے ۔لے دے کے رنڈیاںہی تھیںجوذات پات کے جھمیلے سے آزادتھیں…سلیمان کوان کی یہ اداپسندتھی اسی لیے جب کہیںدنگاہوتاتوسلیمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
شہرمیںیکایک دنگے کے آثارنمایاںہوتے ہیںتوسلیمان کوٹھے کی طرف چل پڑتا ہے لیکن آج وہ محسوس کرتاہے کہ اس کے سمجھنے میںغلطی ہوگئی ہے ۔رکمنی بائی دروازے پرتن کے کھڑی ہے ۔وہ عاجزی کررہاہے کہ پلیزمجھے اندرآنے دو، یہی توایک جائے امان ہے ۔اگرتم نے مجھے پناہ نہیںدی تومیںکہاںجائوںگا۔کسی طرح سے وہ اندرجانے میںکام یاب ہوجاتا ہے اوریہ رازکھلتاہے کہ پنچایت نے یہی فیصلہ کیاہے کہ …ملاحظہ ہویہ اقتباس:
’’اوردفعتاً سلیمان کومحسوس ہواکہ وہ واقعی کٹواہے …اپنے مذہب اورفرقے سے کٹاہوا… وہ لاکھ خودکوان باتوںسے بے نیازسمجھے لیکن وہ ہے کٹوا…۔اورسلیمان کوعدم تحفظ کاایک عجیب سااحساس ہوا…اس نے جلتی ہوئی آنکھوںسے رکمنی بائی کی طرف دیکھا۔وہ اسی طرح ہنس رہی تھی …اورسلیمان کادل غم سے بھرگیا۔وہ یکا یک اس کی طرف مڑااوراس کے بازئوںمیںاپنی انگلیاں گڑائیں ……۔ رکمنی بائی دردسے کلبلائی…۔
سلیمان نے بازئوںکاشکنجہ اورسخت کیا…۔
رکمنی بائی پھرکلبلائی۔
دفعتاًاس کومحسوس ہواجیسے رکمنی بائی طوائف نہیںایک فرقہ ہے …اوروہ اس سے ہم بسترنہیںہے …وہ اس کاریپ کررہا ہے …۔
سلیمان کے ہونٹوںپرایک زہرآلود مسکراہٹ رینگ گئی‘‘۔
اس کے کچھ دیربعدرکمنی بائی باتھ روم میںچلی جاتی ہے اورسلیمان کواپنادم گھٹتا سا محسوس ہوتا ہے۔وہ بسترسے اٹھتا ہے اوررکمنی بائی کی ساڑی کوجلدی جلدی اپنے بیگ میںٹھونس کر گھر کی جانب چل پڑتا ہے۔ایساکرتے ہوئے اسے طمانیت کااحساس ہوتا ہے گویا رنڈی کو،جس کی شناخت ہی ننگاپن ہے ،ہمیشہ کے لیے ننگاکردیاہواور’’بھڑوی‘‘کہہ کرآہستہ سے مسکراکراپنے مکان کی طرف چل پڑتا ہے۔
عورت کا موضوع ہمارے ادب میں ہمیشہ سے جاذب نظر رہا ہے۔شاعری ہو ، افسانہ ہو یا دوسری اصناف،تمام میں سرّاً و اعلانیاً یہ موضوع زیر بحث رہا ہے۔افسانوں کے ذیل میں شموئل احمد کی کہانیوں میں بھی عورت کا موضوع کثرت سے ہوتا رہا ہے لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں عورت کی جانب سے کی جانے والی محبت کا موضوع بدلا ہوا ہے، جہاں عورت فرسودہ روایات اور مذہبی آزادی کی جانب زیادہ مائل نہ ہو کر دنیا سے آنکھیں ملانے کی سکت رکھتی ہے اور انہیں کوئی بھی مات نہیں دے سکتا۔شموئل احمد کی کہانیوں میں وہ عورت بالکل نہیں جنہوں نے ماحول کے شکنجے میں اپنے آپ کو محصور کر لیا تھا اور پوری زندگی اپنے آقاؤں (شوہروں)کی خدمت میں صرف کر دیا تھا لیکن شموئل احمد کے ہاں عورت ، ہتھیاروں سے معمور ہیں اور مردوں کو قابو میں کرنے کا خوب ہنر جانتی ہیں اور اُن کے پاس وہ اوزار نہیں جن سے مردوں کو جانی نقصان ہو بلکہ وہ ذہنی طور پر مردوں کو اپنے قابو میں کرنے کا ہنر خوب جانتی ہیں ساتھ ہی انھوں نے سامنے والے کو زیر کرنے کے سارے حربے زمانے سے مستعار لیے ہیں اور کچھ انٹر نیٹ کی دنیا نے انہیں یہ ہنر بخشا ہے۔
اب ضروری معلوم ہوتاہے کہ شموئل احمدکے اُن افسانوںکاتذکرہ کیاجائے جن کے حوالے سے ان کی شناخت ہے کیوںکہ ان افسانوںکاتعلق ہمارے اردگردمعاشرے میںپھیلی برائی سے ہے اوریہ حقیقت توسب پرعیاںہے کہ دنیامیںجتنے بھی فسادات ہوتے ہیںجتنی بھی خوںریزیاںہوتی ہیں،ان سب کاتعلق بھوک سے ہے ۔بھوک ایک جبلّت اورزندگی کا ناگزیرحصہ ہے جس سے ہرشخص نبردآزماہوتاہے ۔یہاںیہ بات وضاحت طلب ہے کہ بھوک کی دوقسمیںہوسکتی ہیںیاہوتی ہیں۔ایک کاتعلق پیٹ سے ہے تو دوسرے کاپیٹھ سے ۔ جب دونوںطرح کی بھوک شدت اختیارکرجائے توانسان صحیح وغلط ،حرام وحلال اورمثبت ومنفی پہلوئوںکونظرانداز کرکے ،بھوک کی اس آگ میںکودپڑتاہے ۔جنس کی بھوک زیادہ خطرناک ہے ۔کوئی شخص جب اس جرم کاارتکاب کرلے توپورے معاشرے میںوہ معتوب سمجھاجاتاہے اوراس کااثرمعاشرہ کے ہرذی شعورپرپڑتاہے ۔شموئل احمدکے افسانوںکابنیادی حوالہ جنس ہی ہے جسے موضوع بناکروہ معاشرہ کی کھوکھلی ریاکاری اور جنسی بے راہ روی پرنظرڈالتے ہیں۔ان کے بیش تر افسانوں میںجنس کی کارفرمائی نظرآتی ہے ’’بگولے‘‘ ، ’’سنگھاردان‘‘، ’’ظہار‘‘، ’’جھاگ‘‘، ’’برف میں آگ‘‘،’’عنکبوت‘‘،’’منرل واٹر‘‘اورکئی دوسرے افسانے اس کی واضح مثالیں ہیں ۔
اردوادب میںکوئی فن کارجنس کوحوالے کے طوپراستعمال کرتاہے توسب سے پہلے اس پرمنٹوکی نقالی کاالزام لگتاہے اوراس کا ادب ثانوی اختیارکرجاتاہے ۔یہاںپرمنٹوسے شموئل احمدکاموازنہ مقصودنہیںبل کہ صرف یہ بتاناہے کہ منٹوکی کہانیاںایک خاص طبقے کے اردگردہی گھومتی ہے جب کہ شموئل احمدنے عام انسانی زندگی میںرونماہونے والے واقعات کوجگہ دی ہے ۔جنس ایک ایسا موضوع ہے کہ قاری متن کے نشیب وفرازمیںالجھ کررہ جاتاہے اورفن پارہ کی تہہ تک پہنچنے کی زحمت گوارانہیںکرتا۔اس لیے ان افسانوںکی تفہیم کے لیے باصلاح قاری کی ضرورت ہوتی ہے جواُس کی تہہ تک پہنچ سکے ۔ ایک فن کارکایہ کمال ہے کہ وہ قاری کی ذہنیت کا خاص طورپرخیال رکھے اوراس کے ذہن کوبھٹکنے نہ دے ۔اتنااختیارتوایک فن کارکوہے ہی ۔البتہ اندازالگ ہوسکتاہے اورمسائل بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔ایسابھی ضروری نہیںکہ فن کارکی تمام چیزیںایک قاری کوپسندآہی جائیں۔
افسانہ’’بگولے‘‘پر بحث سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شموئل احمد کے اُس متن پر سرسری نظر ڈالی جائے جس میں انھوں نے اس افسانے کا پس منظر بیان کیا ہے۔وہ اپنی سوانح ’’اے دلِ آوارہ‘‘کے ابتدائی صفحات میں اس افسانے کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں:
’’بگولے،مجھے وانچی جانے والے بس میں ملی،تب میں طالب علم تھا اور رات کی بس سے رانچی جا رہاتھا۔میری سیٹ کھڑکی سے قریب تھی۔آگے کی سیٹ پر تین عورتیں آپس میں چہل کر رہی تھیں۔ان میں سے ایک نے مڑ کر دیکھا بھی ۔۔۔۔ مجھے اس کی نظر عام سی نہیں لگی۔بس چلی تو کنڈکٹر نے روشنی گل کر دی ۔وہ عورت میری طرف پھر مڑی اور پوچھا وقت کتنا ہو رہا ہے؟وقت پوچھتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں میں چمک سی دیکھی۔بس دور چلی تو وہ پھر مڑی اور پوچھا کہ ہسڈیہہ کب آئے گا؟سوال بے تکا تھا لیکن آنکھوں کی چمک بے تکی نہیں تھی۔یہ نزدیک آنے کا اشارہ تھا۔۔۔۔۔اور عورتیں اسی طرح کے اشارے کرتی ہیں۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اُس کو چھونے کی کوشش کی۔مجھے یقین تھا وہ برا نہیں مانے گی ۔ میں نے اپنی انگلیوں کے پوروں پر اُس کی کمر کا لمس بہت صاف محسوس کیا۔۔۔۔۔اور اس نے جھک کر اپنی سہیلی سے کچھ کہا اور ہنسنے لگی۔سہیلی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ معنی خیز تھی۔میں نے ہات نہیں ہٹایا۔مجھے اپنے دل کی دھڑکن تیز سی محسوس ہوئی۔اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پیٹ پر بھینچ لیا ۔۔۔۔میں سہر اٹھا۔میری سانس جیسے رک گئی ۔۔۔۔ایک تھرل۔۔۔۔۔ایک اجنبی عورت کا رسپانس۔۔۔۔۔ایسی سہرن میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔بس سڑک پر تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ اندر سرمئی اندھیرا تھا اور باہر ہیڈ لائٹ کی روشنی میں پیڑ لبِ سڑک جھوم رہے تھے۔ہوا میں پتوں کی سر سراہٹ دل کی دھڑکنوں میں گھل رہی تھی۔وہ میرا ہاتھ سہلانے لگی اور مجھے لگا کہ سمندر کے کنارے کھڑا ہوں اور لہریں میرے پاؤں بھگو رہی ہے۔میری انگلیوں کی پوروں پر چیوٹیاںسی رینگنے لگیں۔۔۔۔۔میں ہوش کھونے لگا۔۔۔۔!
اچانک بس رکی۔۔۔۔۔کوئی اسٹاپ تھا۔کنڈکٹر نے روشنی کی۔میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔وہ ہنسی اور سہیلی سے کچھ بولی۔میں چائے پینے نیچے اترا۔چائے پی کر واپس آیا تو ایک شخص میری جگہ بیٹھ گیا تھا۔اس نے مجھ سے کہا کہ اُس کی طبیعت متلا رہی ہے ،اس لیے وہ کچھ دیر کھڑکی کے پاس بیٹھنا چاہتا ہے۔میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس کی جگہ بیٹھ گیا۔اصل میں وہ کیفیت ابھی بھی طاری تھی اور میں اس احساس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔بس چلی تو پھر اندھیرا ہوگیا۔سیٹ کی پیٹھ سے ٹک کر میں اسی ترنگ میں ڈوب گیا کہ اس نے کس طرح میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔
اچانک وہ زور سے چلائی۔گاڑی روکو!گاڑی روکو!!
کنڈکٹر نے روشنی کی۔۔۔۔۔بس رک گئی۔وہ اس شخص کی طرف مڑی اور برس پڑی۔
’’حرامی۔۔۔۔۔مجھے چھوتا ہے۔۔۔۔۔سوؤر کا جنا۔۔۔۔۔!‘‘
کہانی ’’یہاں ‘‘تھی۔اس کا رِی ایکٹ کرنا۔۔۔۔۔’’کیا میں اتنی بری ہوں کہ مجھے ہر کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے۔۔۔۔؟‘‘اسی جذبے کو لے کر میں نے کہانی ’’بگولے لکھی۔
’’بگولے‘‘ایک ایساافسانہ ہے جس میںلتیکارانی اپنی جنسی خواہش کومٹانے کے لیے کسی بھی مرد کا شکارکرسکتی ہے اوراپنی سہیلیوںسے موازنہ بھی کرتی ہے ۔اسے یہ چیزبہت اذیت دیتی ہے کہ اس کی سہیلی کا محبوب اس کاکیوںنہیں ہو سکتا ۔جس کے لیے وہ مال ومتاع لٹانے کے لیے پوری طرح سے تیارہے لیکن اس کام کے لیے بھی سلیقے کی قائل ہے ۔کوئی مرد پیارومحبت سے ہرچیزحاصل کرسکتاہے شرط یہ ہے کہ جلدبازی سے کام نہ لے کیوںکہ وہ محض جنسی آسودگی کے لیے ہی رسم وراہ بڑھاتی ہے ۔اس دفعہ جس لڑکے کواپنے دام میںپھنسایاہے وہ نادان ہے ، اس معاملے میںصفرہے اورجلدبازبھی ۔ لتیکا یوں تو فاحشہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہرکوئی اسے فاحشہ سمجھے یا رنڈی کی طرح برتاؤ کرے ۔یہ عورت کے اَناکی کہانی ہے اور کل کے لونڈے نے اس کی اَنا پر وار کیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ لتیکارانی اُسے باہربھگادیتی ہے۔افسانہ ’’جھاگ‘‘میںیہ اشارہ ہے کہ رشتے مرجھاجاتے ہیں،مرتے نہیںہیں۔ راوی کا پرانا پیار، جسے وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی پسندکرتاہے،اچانک راستے میںمل جاتی ہے اورباتوں باتوں میںراوی اسے گھرآنے کی دعوت بھی دے دیتاہے۔جس کے بعدراوی کوسخت ندامت ہوتی ہے کہ اس نے بیوی کااعتبارکھودیاہے ۔
افسانہ ’’سنگھاردان‘‘کا پس منظر بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔اس کے المیاتی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے شموئل احمد لکھتے ہیں کہ:
’’کہانی سنگھاردان مجھے راحت کیمپ میں ملی۔بھاگلپور فساد میں طوائفوں کا بھی راحت کیمپ لگا تھا۔وہاں ایک طوائف نے رو رو کر مجھے بتایاتھا کہ دنگائی اس کاموروثی سنگھاردان لوٹ کر لے گئے۔۔۔۔یہی تو ایک چیز آبا واجداد کی نشانی تھی۔۔۔۔کہانی یہاں پر تھی۔۔۔۔موروثی سنگھاردان کا لٹنا،اپنی وراثت سے محروم ہونا۔۔۔۔۔۔پہلے جان و مال کے لٹنے کا خوف تھا ،اب وراثت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔میں نے کہانی شروع کی تو بچپن کا ایک واقعہ میرے تخلیقی عمل میں شامل ہوگیا ۔ میری عمر سولہ سترہ سال کی رہی ہوگی۔ اپنے بھائی سے ملنے’’ بتیا‘‘ گیا تھا۔سردی کا موسم تھا۔ٹرین رات تین بجے پہنچی۔اسٹیشن سے باہر آیا تو دیکھا ایک جگہ خیمہ گڑا تھا۔معلوم ہوا نوٹنکی چل رہی ہے۔میں اندر بیٹھ گیا۔ایک بالا ناچ رہی تھی۔عمر دس بارہ سال ہوگی۔وہ لہک لہک کر گارہی تھی،اس کا جسم سانپ کی طرح بل کھارہا تھا،اس نے بالوں میں گجرا لپیٹ رکھا تھا،ہاتھ مہندی سے سرخ تھے اور آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر کچھ اس طرح سے کھنچی ہوئی تھی کہ نین کٹاری ہوگئے تھے۔سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا اس توبہ شکن کا جسم۔۔۔۔۔گھنگھروؤں کی رن جھن،مہندی سے لہکتے ہوئے ہاتھ اور تیکھی چتون۔۔۔۔رات جیسے ٹھہر سی گئی تھی اور میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔اس کا رقص ختم ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی عورت اسٹیج پرآئی اور عجیب بھدے طریقے سے کمر لچکانے لگی۔اس کی آواز بھونڈی تھی اور کولہے بھاری تھے۔اس نے بھی بالوں پر گجرا لپیٹ رکھا تھا۔وہ اسٹیج پر زورسے پاؤں پٹکتی اور کولہے مٹکاتی۔میرے دل و دماغ میں دھواں سا اٹھنے لگا۔۔۔۔جیسے کسی نے گلاب کی کلیوں پر باسی گوشت کا لوتھڑا رکھ دیا ہو ۔۔۔۔۔اور جب اس نے اپنی بھونڈی آواز میں گانا شروع کیا کہ ’بھرت پور لٹ گیوہائے موری اماں!!‘تو میں نے الجھن سی محسوس کی اور وہاں سے اٹھ گیا۔گھر آیا تو طبیعت مکدر تھی۔میں برسوں اس کیفیت سے آزاد نہیں ہوسکا۔جب بھی اس بالا کو یاد کرتا ، وہ عورت گلاب میں آیو ڈن کے قطرے ملانے لگتی۔مجھے نجات اس وقت ملی جب کہانی سنگھاردان لکھی۔‘‘
افسانہ ’’سنگھاردان‘‘میںایک لوٹی ہوئی ذات جسے ہم طوائف کہتے ہیں،کوافسانے کاموضوع بناکریہ بتایاگیاہے کہ فساد میں رنڈیاںبھی لوٹی گئی تھیںاوربرجموہن کونسیم جان کا سنگھاردان ہاتھ لگاتھا۔جسے زبردستی اس نے حاصل کیاتھاجب کہ نسیم جان کایہ موروثی سنگھاردان تھا۔سنگھاردان سے نسیم جان کو برجموہن نے اس کی وراثت سے محروم کردیا۔یہ افسانہ وراثت سے محرومی کا نوحہ ہے اسی لیے وہ بہت گڑگڑائی تھی مگربرجموہن نے دھکے دے الگ کردیاتھااوروہ سہم سی گئی تھی ۔برجموہن کے گھرمیںبیوی بیٹوںنے سنگھاردان کوکافی پسندکیا لیکن کچھ ہی دنوںبعد برجموہن نے محسوس کیاکہ سب کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے ہیں۔ بیٹیاں اب چھت پہ تانک جھانک کیاکرتی ہیںاورعجیب عجیب حرکتیںبھی کرنے لگی ہیں۔کئی بار تو برجموہن خودشرمندہ ہوگیاتھا۔اس کے علاوہ برجموہن نے اپنی بیوی کے منہ سے ’’اوئی دیّا‘‘اور ’’ہائے راجا‘‘جیسے الفاظ آج سے پہلے کبھی نہیںسنے تھے ۔ آخر میں سنگھاردان نے برجموہن پربھی اپنانقش چھوڑہی دیااوربرجموہن آنکھوںمیںسرمہ لگایا۔ کلائی پرگجرالپیٹااورگلے میںلال رومال باندھ کرنیچے اترگیااورسیڑھیوںکے قریب دیوارسے لگ کربیڑی کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔’’سنگھاردان‘‘شموئل احمد کا وہ افسانہ ہے جس نے اردو افسانے میں دھوم مچادی۔اردو کے اہم ناقدین نے اس افسانے کو کافی سراہا۔ اس ضمن میںطارق چھتاری کایہ قول زیادہ موزوں معلوم ہوتاہے ۔ان کے بہ قول:
’’میرے لحاظ سے شموئل احمداپنے مقصدمیںپوری طرح کام یاب ہیں ۔ برجموہن نے سنگھاردان لوٹاتھامگرشموئل احمدنے اردوکے قارئین کو سنگھار دان تحفے میں د یا ہے ۔ایک خوب صورت تحفہ ۔اورلوٹی ہوئی چیزکے اخلاق پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تحفے میںملی ہوئی شے کے نہیں‘‘۔
افسانہ ’’منرل واٹر‘‘کابنیادی موضوع کنزیومر کلچر کی کہانی،دوطبقوںکے مابین تصادم اوران کے سوچنے کا اندازہے ۔ایک عام حیثیت کاکلرک جسے منیجرکی جگہ دلی تک کاسفرکرناہے اوراسے سفرکازیادہ تجربہ بھی نہیںہے۔وہ بھی راجدھانی ایکس پریس سے جس میں بورژواطبقے کے لوگ سفرکررہے ہوںگے۔ اسے یہ سوچ کرگھبراہٹ ہوئی کہ اس کے پاس توپہننے کے لیے کپڑے بھی نہیںہیں۔خیروہ سفرکے لیے آمادہ ہوجاتاہے لیکن پورے سفر وہ بورژواطبقے سے اپناموازنہ کرتارہاہوتا ہے۔اتفاق کی بات یہ کہ اس کے سامنے والی سیٹ پرایک خاتون بیٹھی ہے جو بورژواطبقے کی نمائندہ مثال ہے ۔ اب کلرک اپنااوراپنے اردگردکے ماحول کاموازنہ اس عورت سے کرنے لگتاہے۔اس عورت کودیکھ کرٹی وی پردیکھے گئے ’’ایڈ‘‘یاد آنے لگے کہ ٹی وی میںایک عورت لرل صابن کااشتہارکرتے ہوئے کس اداسے اپنے بال لہراتی ہے ۔رات ہوچلی ہے اورتذبذب کا شکار ہے جورات کاکھاناکھاکرسونے کی تیاری کرنے لگاہے۔سامنے والی عورت سے اس کی کوئی بات نہیںہوئی ہے لیکن رات کے سناٹے میںوہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بورژواعورت اس کے پہلومیںہے اوروہ بوس وکنار میں مشغول ہے ۔خاتون اس پرجھکی ہوئی ہے اوراس نے اپنے بازو پھیلادیے ہیںاوروہ جیسے سکتے میںآگیاہے۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’اس عالم میںاس نے باربارآنکھیںکھول کرخاتون کی طرف دیکھا ۔ اس کوجیسے یقین نہیںتھاکہ ایک بورژواحسینہ کاتن سیمیں اس کی بانہوںمیںمچل رہاہے ۔ اورایساہی تھا…بورژواخاتون کامرمریںجسم اس کی بانہوں میں تھا ، لب و رخسار کے لمس جادو جگارہے تھے ۔ہرلمحہ اس کا استعجاب بڑھ رہاتھا۔یہ لمحہ خودقدرت نے انھیں عطاکیاتھا۔یہ خالص فطری ملن تھاجس میںارادے کوکوئی دخل نہیں تھا ، دونوں انجان تھے‘‘۔اس طرح کلرک نے محسوس کیاکہ کیبن کے فرش پرسوٹ کیس کافرق بے معنی ہوگیاہے ۔
یہ افسانہ بورژوا اور پرو لتاری طبقے کے درمیان فرق کوسمجھنے کاعمدہ نمونہ ہے ۔انسان اذلی طورپرایک ہے لیکن ہماراسماج ان کے مابین تفریق پیدا کرتاہے ۔اسی طرح افسانہ ’’عنکبوت‘‘جدیدتکنیک سے پھیلی برائیوںکی طرف واضح اشارہ کرتاہے ۔ایک طرف ٹکنالوجی کے فوائد ہیں تودوسری طرف نقصانات بھی ۔نوجوان طبقہ اس میںاتناملوث ہے کہ وہ سرتاپا ڈوباہواہے۔افسانہ ’’عنکبوت‘‘ سائبرکی دنیاسے تعلق رکھتاہے جہاںسچ اورجھوٹ گڈمڈ ہوتے ہیںاورجنہیں ایک دوسرے سے الگ بھی نہیںرکھاجاسکتاہے ۔ سائبرورلڈ میں پیدا شدہ رشتے کی مثال اس مکڑے کے جالے کی طرح ہے جس کاکوئی مستقل وجود نہیںاوراس کی بنیادی وجہ وہی فریب ہے جس میںایک شخص کاوجودوہاںوہ نہیںہے جوحقیقی دنیامیںہے یاہوسکتاہے ۔کیوںکہ یہی صارفی کلچرکا تقاضاہے ۔محمدصلاح الدین انصاری کوبھی چنددنوںسے یہی چسکالگاہے کہ وہ حقیقی دنیاسے نظریںچراکر سائبرسیکس سے لطف اندوز ہوسکے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ کیفے جاتاہے لیکن وہاںفری محسوس نہیںکرتاہے ۔خاص طورپرپورن سائٹس سے لطف اندوز ہوناوہاںذرا مشکل ہے اسی لیے گھرپرہی کمپیوٹر اور نٹ کااستعمال کرنے لگاہے لیکن یہاں اس کی بیوی نجمہ اس کام دخل اندازی کرنے لگی ۔وہ بڑے اشتیاق سے اسکرین کوگھوراکرتی ہے توصلاح الدین نے دوبارا کیفے کاہی سہارالیاہے تاکہ سکون سے چیٹ کرسکے ۔چیٹنگ روم میںداخل ہوکرخودکورلیکس محسوس کرے ۔مادھری سکسینہ اس کی فرسٹ سائبرلو Cyber Loveہے جس سے وہ کافی مانوس ہوچکا ہے ۔اس کے ساتھ چیٹ کرتے ہوئے وہ یوںمحسوس کرتاہے گویا ایک بسترمیںہم آغوش ہوں۔اسی اثنانجمہ کے بھی پَرنکلنے شروع ہوگئے ہیں اوراس نے بھی بیوٹی ان چین کے نام سے فیک آئی ڈی بنائی ہے جس کاانکشاف سیکس چیٹنگ کے بعدہوتاہے ۔رازکھلنے کے بعد اس کے لب سل گئے ہیںجسم کانپنے لگاہے اورسکتہ طاری ہوگیاہے ۔نجمہ کے جھنجھوڑنے کے بعدوہ اچانک نیندسے جاگتاہے اورنشے کی حالت میںنجمہ سے یوں مخاطب ہوتاہے :
’’ہائے!بیوٹی اِن چین…!اورنجمہ کاچہرہ کالاپڑگیا۔
’’ٹائیگرووڈ ہیئر‘‘۔وہ چیتے کی چال سے اس کی طرف بڑھا۔وہ گھبراکے پیچھے ہٹی ۔
’’کم آن ڈارلنگ !آئی وِل اِن چین یو…!‘‘اس نے نجمہ کاہاتھ پکڑناچاہالیکن اس نے ہاتھ چھڑالیا۔
’’یہ آپ کوکیاہوگیاہے؟‘‘
’’ہولڈمائی ڈِک…!‘‘
نجمہ خوف سے کانپنے لگی ۔
’’فیل اِٹ‘‘۔وہ چیخا۔
’’اَن زپ یوربرا‘‘۔نجمہ کاگریبان پکڑکراس نے زورسے اپنی طرف کھینچا ۔ بلاؤز کے بٹن ٹوٹ گئے ۔نجمہ کی چھاتیاں جھولنے لگیں…اس نے زورکاقہقہہ لگایا‘‘۔
شموئل احمدنے یہاںصرف ایک پہلوکودیکھنے کی کوشش کی ہے اورانہیںاس بات کاشدت سے احساس ہے کہ سائبر کلچرسیکس کلچرہے جہاںتیسری دنیاکاآدمی پانی میںنمک کی طرح گھل رہاہے…ہرکوئی اپنے لیے ایک اندامِ نہانی ڈھونڈ تاہوا…!
اس ضمن میںان کے آخری اوراہم افسانے کاذکرنہایت ضروری ہے جس کاتعلق موجودہ سماج سے ہے جسے ہم گلوبل ایج بھی کہہ سکتے ہیں۔اس دورمیںانسان نے جتنی بھی ترقی کرلی ہولیکن انسانی رشتوںکے شکست وریخت کامسئلہ سب سے زیادہ خطرے میں ہے ۔ قرابت داری کاپاس ولحاظ ہے نہ رشتوںکے ختم ہونے کااحساس ۔اس زمرے میںان رشتوں کے اقداربھی پامال ہوگئے ہیںجن کی بنیادتیقن پہ ہے ۔افسانہ ’’مصری کی ڈلی‘‘اسی زبوںحالی کی طرف اشارہ کرتاہے ۔ہمارامعاشرہ کچھ تومغربی تہذیب کے اثرسے تنزل کا شکار ہے اورکچھ اپنی ہی خامیاںہیںاوران خامیوںنے پوسٹ کولونیئل ایج میںاپنے پَر زیادہ ہی پھیلارکھے ہیں۔
اس افسانے میںعثمان اورراشدہ ایک رشتے میںبندھے توہیںلیکن عثمان کاتعلق برج حمل سے ہے اورراشدہ پرستارہ زہرہ کا اثرہے ۔اسی لیے عثمان شریف طبیعت کامالک ہے اور راشدہ چلبلی۔ایک ایساشوہرجوبیوی کے علاوہ دوسری عورتوںکی طرف جھانکتابھی نہیں۔ویسے توہر انسان کے اندرجانوروںکی خصلت ہوتی ہے ،وہ خصلت عثمان میںبھی ہے ۔ وہ شیریا بھیڑیاتوہرگزنہیں البتہ خرگوش اورمیمناضرورہے ۔ اس کے برخلاف راشدہ چنچل اورپھکّڑ ہے ۔ اسے ہرفن مولا مردوںسے زیادہ دل چسپی ہے جو چھچھورے پن سے محبت کااظہارکرے اور دوسرے شغل بھی فرمائے ۔راشدہ کے اندرشیر اوربھیڑیے والی خصلتیںبھی ہیں۔ان تمام رازوںکاانکشاف عثمان پراس وقت ہوتا ہے جب ان کے پڑوس میںالطاف نام کانوجوان نیانیاواردہوتاہے ۔وہ کھڑکی پرکھڑاہوکرتانک جھانک کرتااورسگریٹ پیتاہے تویہ عادتیںراشدہ پسندکرتی ہے ۔ دھیرے دھیرے قرابت بڑھتی ہے اورسارے حدودوقوانین کوتوڑکروہ ایک دوسرے میںضم ہوجاتے ہیں۔عثمان ان حرکات وسکنات کواپنی آنکھوںسے دیکھتابھی ہے لیکن وہ کچھ نہیںکرسکتا۔عورت ’’تریا چرتر‘‘ کی عمدہ مثال ہے جس کا انکشاف اس وقت ہوتا ہے جب راشدہ ایک غیر محرم الطاف کے ساتھ رات گزارتی ہے اور الطاف کے پوچھنے پر کہ وہ شوہر کو کیا منہ دکھائے گی،کھل کھلا کر ہنس پڑتی ہے۔یعنی اس کے لیے یہ کام معمولی ہے اور اپنے شوہر کو بہ آسانی جھانسا دے سکتی ہے۔اس نکتے کوشموئل احمدنے یوںبیان کیاہے کہ پہلی مرتبہ جب عثمان کے گلے میںمچھلی کاکانٹا پھنستاہے تواس کی بیوی خودچاول کا نوالہ بناکراُسے دیتی ہے تاکہ چاول کے ساتھ کانٹابھی نکل جائے لیکن جب دوسری باریہ ہوتاہے توعثمان خود نوالہ بناکرگلے سے کانٹانکالنے پرمجبورہے۔اس کایہ فعل اس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ وہ اب ایسی زندگی پر قناعت کرنے والاہے جب کہ الطاف صاحب اسی کے بیڈ روم میںآرام فرمارہے ہیں۔
مندجہ بالا افسانوں کی روشنی میں یہ بات بلا تامل کہی جاسکتی ہے کہ شموئل احمد نے اپنے فن پاروں میں آج کے سماج کی بہتر طور پر عکاسی کی ہے اور جہاں جنس کا اظہار کیا گیا ہے ،وہ بے معنی اور قاری کے ذہن کو اپنی جانب کشید کرنے کے لیے ہر گز نہیں ہے بلکہ سماجی معاملات کی نقاب کشائی کے لیے ہے۔ہم ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں جنسی مسائل ایک ناسور کی شکل میں موجود ہے،دنیا ایک خاص ہدف کی جانب رواں دواں ہے جس کا احساس چند ہی لوگوں کو ہے اور اپنے فن پاروں میں اس کا بر ملا اظہار کرتے رہے ہیں ۔شموئل احمد بھی انہی فن کاروں میں ایک ہیں۔ان کی کہانیوں کو اس حوالے سے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔امید ہے کہ شموئل احمد کے بائیس افسانوں کا یہ انتخاب قارئین کو پسند آئے گا۔
محمد غالب نشتر