رات بوڑھی ہو چکی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ درخت جھاڑیاں مکان سیاہ عفریتوں کی طرح پیچھے کو بھاگ رہے تھے۔ اندھیرا جیسے اونگھ رہا تھا۔ مجھے تھکن سی محسوس ہونے لگی۔ گاڑی اسی بے ڈھنگی رفتار سے پٹڑیاں بدل رہی تھی۔ میں نے ثریا کی طرف دیکھا وہ بے سُدھ پڑی سو رہی تھی۔ ننھا ارشد اس کے سینے سے لپٹا ہوا تھا۔ تینوں بچیاں دوسری سیٹ پر بے ترتیب پڑی تھیں۔ میں سگریٹ پھونکتا رہا اور سوچتا رہا کہ ثریا بہت پیار کرنے والی بیوی ہے اور بہت اچھی ماں بھی۔ میں نے پھر اُسے نظر بھر کے دیکھا۔ کتنی آسودگی اور اطمینان تھا اس کے چہرے پر۔ ویسا ہی جیسا منزل پر پہنچے کسی مسافر کے چہرے پر ہوتا ہے۔ گاڑی آہستہ ہو رہی تھی۔ ملتان آ گیا تھا۔ مسافر اُترے، چڑھے ہمارے ڈبے میں کوئی نہیں آیا۔ گاڑی روشنیوں کو پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ ملتان دُور ہوتا جا رہا تھا۔ ملتان جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جہاں میرا سکول تھا، کالج تھا، گھر تھا، محلے کے لوگ تھے اور خالہ جہاں آرا اور ان کی بیٹی زہرہ تھی۔ وہی زہرہ جو قلفیاں تو مجھ سے لے کر کھاتی تھی مگر ڈولی میں کسی اور کی جا بیٹھی۔ خودغرض کہیں کی! کہتی تھی صرف تیرے نام کی مہندی رچاؤں گی اور جونہی میں جیل گیا کسی اور سے شادی رچا لی۔ میرے دل میں تلخی کا احساس جاگ اُٹھا۔
گاڑی پھر رُک گئی تھی۔ ہوائیں خاموش تھیں۔ میرے دل میں آندھیاں چلتی رہیں۔ گاڑی پھر چل پڑی۔ ہاں تو زہرہ نے کسی اور کا گھر بسا لیا اور میرا دل اُجاڑ دیا تھا۔ مجھے اس دن پولیس نہ پکڑتی تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ نہ میں اس دن جلوس کا تماشا دیکھنے کھڑا ہوتا نہ پولیس کے لاٹھی چارج سے بھگدڑ مچتی نہ میں گرفتار ہو کر جیل پہنچتا اور نہ زہرہ کسی دو ٹکے کے کلرک سے بیاہی جاتی۔ مگر قصور شاید میرا ہی تھا کیونکہ میں تو ان دنوں دو ٹکے کا کلرک بھی نہیں تھا۔ بلکہ کلرک بننے کے لیے جوتیاں چٹخاتا پھر رہا تھا۔
اس دن میں ایک دفترے سے ’’کل آنا‘‘ کا سندیسہ لیے واپس آ رہا تھا۔ زہرہ کے سکول کے پاس جلوس نظر آیا تو میں کھڑا ہو گیا۔ چھٹی ہونے میں ایک گھنٹہ پڑا تھا۔ اماں نے مجھے جو تین روپے دئیے تھے اس میں سے سوا روپیہ ہی بچا تھا۔ چار آنے کے میں نے دل چاول کھا لیے اور باقی جیب میں رکھ لیے کیونکہ زہرہ قلفیاں بہت کھاتی تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس پیچھے بھاگی میں اس طرح کھڑا تھا کہ نکلنے کا راستہ نہ تھا اور پتا اس وقت چلا جب پولیس نے میرے سمیت دس بیس کو اپنی ویگن میں بھر لیا۔ میرا واویلا کسی نے نہ سنا۔ میری تو سائیکل بھی وہیں رہ گئی تھی اور زہرہ کے سکول میں چھٹی ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے بال نوچ لیے۔
میں نے دو دن کچھ کھایا نہ پیا۔ بس آنسو پیتا اور غم کھاتا رہا۔ اماں کیا سوچتی ہوں گی۔ زہرہ نے تو رو رو کر آنکھیں سُرخ کر لی ہوں گی۔ مگر انہیں کون بتاتا کون تسلی دیتا۔ دوسرے دن ہمیں ایک شخص ملنے آیا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا۔ درمیانی عمر کا بھاری بھرکم شخص تھا۔ اسے دو پولیس والے ہمارے قریب چھوڑ گئے تھے۔ اُس نے دونوں کو بیس بیس روپے دے کر چلتا کیا۔ وہ کسی پارٹی کا کارکن تھا۔ میں نے اپنی بے گناہی کے بارے میں اسے بتانا چاہا مگر افضل نے اشارے سے مجھے چپ کرا دیا۔ وہ بولتا رہا، ہم سنتے رہے۔ اس نے ہماری جلد رہائی کا وعدہ کیا اور یہ بھی کہا کہ جیل میں رہنے تک ہمیں تین سو روپے ماہوار ملتے رہیں گے۔
دوسرے دن ماں آ گئی۔ اس نے رو رو کر بُرا حال کر لیا تھا۔ نہ جانے کہاں کہاں روئی ہو گی۔ وہ روتی رہی، میں چُپ رہا۔ میں نے اُسے رونے دیا۔ سوچا ذرا بوجھ ہلکا کر لے تو بتاؤں گا کہ مجھے جیل میں بیٹھے بیٹھے کیسی اچھی نوکری مل گئی ہے۔ مگر اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں اُبھرا۔ وہ روتی رہی اور آنسو بہاتی ہوئی چلی گئی۔ میں نے افضل کے دامن میں مُنہ چھپا لیا۔
ایک سال گزر گیا۔ ہم میں سے آدھوں کی رہائی ہو گئی تھی۔ کچھ دوسری جیلوں میں منتقل ہو گئے تھے مگر مجھے لینے کوئی نہ آیا۔ میری ماں خیراتی ہسپتال میں خون تھوک تھوک کر مر گئی مگر کسی نے نہ سوچا کہ اس کی کھلی آنکھیں کسی کی راہ تکتی ہیں اور زہرہ کسی اور کی ڈولی میں جا بیٹھی اور کسی نے شہنائیوں کی چیخیں نہ سنیں۔۔۔
پھر افضل بھی چلا گیا۔ جاتے ہوئے مجھے تسلیاں دے رہا تھا مگر مجھے بیزاری سی ہونے لگی۔ کوئی بات اچھی نہیں لگتی تھی۔
وقت جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ اب میں لاہور جیل میں تھا۔ پھر وقت کے گندے اور ٹھہرے ہوئے پانی میں کہیں سے پتھر آ گرا۔ میری ضمانت ہو گئی تھی۔ وہ کون ہو سکتا تھا۔ جسے مجھ سے ایسی ہمدردی تھی۔ مجھے رہائی مل گئی مگر میں اُسے نہ دیکھ سکا۔ اُس نے کہا تھا کہ وہ گیٹ پر ہی موجود ہو گا مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ باہر کی دنیا بڑی عجیب لگ رہی تھی۔ دو سال کے بعد آزاد فضا میں سانس لیا تھا۔ مجھے بے اختیار اپنے مُحسن پر پیار آنے لگا۔ مگر یہ سب یک لمحاتی تھا۔ اگلے ہی لمحے مجھے احساس ہوا کہ اس نے تو مجھے گھر بدر کر دیا تھا۔ مجھ سے میرا ٹھکانہ چھین لیا تھا۔ دو وقت کی روٹی چھین لی تھی۔ باہر کی دنیا میں میرے لیے رہ ہی کیا گیا تھا۔ جوں جوں سوچتا گیا اس سے پیار کا احساس کم ہوتا گیا۔ نفرت بڑھتی رہی۔ جی چاہا ابھی کسی کا سر پھوڑ کر واپس ہو لوں مگر پھر ماں کا چہرہ سامنے آ گیا جو ہمیشہ ایسے کاموں سے روکتی تھی۔ میری آنکھیں دھُندلانے لگیں۔
آج دوسرا دن تھا۔ میں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ایک چھوٹی سی پوٹلی جس میں کچھ کپڑے اور پیسے تھے، رات کسی نے سوتے میں اُچک لی تھی۔ آنتوں میں بُری طرح اینٹھن ہو رہی تھی۔ میں راوی کی طرف نکل گیا۔ زندگی بڑی بے کیف اور پھیکی لگ رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے جی چاہا کہ اپنا بوجھ لہروں کے حوالے کر دوں۔ قریب تھا کہ میں ایسا کر گزرتا کہ دفعتاً مجھے اپنے قریب آہٹ سی محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا کوئی سزا یافتہ مجرم ہو گا کیونکہ ان میں سے کئی میری جیل کی زندگی کی وجہ سے مجھے اپنا ساتھی بننے کی دعوت دے چکے تھے۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ وہ افضل تھا۔ میں نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔
اس نے مجھے یاد دلایا۔ مجھے جھنجھوڑا۔ مجھے طمانچے مارے۔ بزدلی کے طعنے دئیے مگر میں بے حس بنا رہا۔ وہ سمجھا میں اس سے ناراض ہوں صفائیاں پیش کرتا رہا کہ اگر چچی کی طبیعت اچانک خراب نہ ہو جاتی تو وہ مجھے جیل ضرور لینے آتا۔ میں نے اس سے کچھ نہیں کہا کچھ نہ پوچھا۔ مجھے تو اپنی ہی خبر نہیں تھی۔ وہ روتا رہا۔ میں اسے ایک ٹک دیکھا کیا۔ مجھے اپنا وجود بے وزن لگ رہا تھا۔ وہ مجھے تقریباً اُٹھا کر اپنی کار تک لایا۔ گاڑی کہاں کہاں سے گزری مجھے کچھ ہوش نہیں۔ گھر میں کون کون تھا مجھے یاد نہیں۔ میں نے تو اپنا تماشا بنا لیا تھا۔ سب کچھ بے معنی سا لگتا تھا۔ افضل نے ان دنوں مجھے خوب رُلایا تھا۔ میری ماں کی موت اور میری بے گناہی کا خوب تذکرہ کیا تھا۔ زہرہ کا میں نے اسے نہیں بتایا تھا۔ بتاتا بھی تو وہ کیا کر لیتا۔ جب وہ خود ہی کچھ نہ کر سکی۔ آنسو میری آنکھ سے نکل کر ہاتھوں پر گرے تو میں چونک گیا۔
ثریا ابھی تک سو رہی تھی۔ رات ویسی ہی سیاہ تھی اور گاڑی کا انجن چیخ رہا تھا۔
پھر ثریا سے میری شادی ہو گئی۔ وہ افضل کی سالی اور اس کے چچا کی لڑکی تھی۔ وہی تو تھی جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی تھی کہ لحاف کہیں میرے بستر سے نیچے تو نہیں گر گیا۔ میں نے کپڑے بدلے ہیں یا نہیں۔ کھانا کھایا ہے یا بھوکا ہی سو گیا ہوں۔ میں جو سارا دن کوچہ گردی کرتا تھا جب رات گئے گھر آتا تو وہی میرے لیے کھانا گرم کرتی اور مجھے زبردستی کھلاتی تھی۔ جب میں نہ کھاتا تو خود بھی نہ کھاتی تھی۔ میں انہیں کیا کہتا۔ وہ جو میرا اتنا خیال رکھتے تھے۔ چچی اپنی جگہ۔ افضل، رقیہ، سب۔ افضل جب شام کو دکان سے آتا تو میرے لیے خوشبوئیں، کپڑے نہ جانے کیا کیا اُٹھا لاتا۔ مگر میں ہمیشہ اس وقت غائب ہوتا۔ مجھ سے کبھی اس کا شکریہ بھی ادا نہ ہوا۔ بس مجھ سے اس کا سامنا نہیں ہو پاتا تھا۔ چچا کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ وہ فوت ہوئے تو افضل کو لاہور آ کر ان کا ٹائروں کا کاروبار سنبھالنا پڑا تھا۔ ملتان میں وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس رہتا تھا جو آج کل گلف میں تھا۔ ایک دو بار اس نے مجھے دکان پر لے جانے کی کوشش کی مگر مجھے اس کے پیار اور لگاؤ سے وحشت سی ہونے لگتی تھی۔ کبھی کبھی میرا جی چاہتا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں منہ کر جاؤں۔ مگر پھر ثریا پاؤں کی زنجیر بن جاتی تھی۔ اور پھر یوں ہوا کہ مجھے افضل کے سامنے اور ان سب لوگوں کی محبتوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ثریا سے میری شادی ہو گئی اور میں نے افضل کے ساتھ دکان پر جانا شروع کر دیا۔ شاید اسی طرح ان کی محبتوں کا خراج ادا ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔
مجھے وہ رات ابھی تک یاد ہے۔ وہ رات میں نے سگریٹ پھونک پھونک کر گزاری تھی۔ بڑی اندھیری رات تھی۔ میرے نصیبوں کی طرح سیاہ۔ ہواؤں نے اس رات خوب خوب بین کیے۔ کھڑکیوں سے سر پٹک پٹک کر روئیں۔ جب دُور کہیں کتے بھونکتے تو اُڑتے پتوں کی سرسراہٹ سے ایسے لگتا جیسے ان گنت چڑیلیں بال کھولے نوحہ کناں ہوں۔ میری اپنی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے اور سینے میں جیسے آندھیاں چل رہی تھیں۔ میں نے اس لال گٹھڑی کی طرف دیکھا جسے ثریا کہتے تھے۔ ایک پل کے لیے وہ غائب ہو گئی تھی اور وہاں زہرہ آ بیٹھی تھی۔ اس کی شوخ نگاہیں مجھے اپنے پاس بلا رہی تھیں۔ میں اس کے پاس جا بیٹھا۔ اسے دیکھتا رہا۔ اسے چھونا چاہا تو وہ غائب ہو گئی۔ وہاں صرف ثریا تھی۔ میرا بڑھا ہوا ہاتھ نیچے آ گیا۔ وہ پریشان ہو گئی۔ سمجھی میری طبیعت خراب ہے۔ میرا سر دبانے لگی۔ میں نے اپنا سر اس کی گود میں دے دیا۔ وہ میرا سر دباتی رہی۔ میں سگریٹ پھونکتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
ایسی کئی راتیں گزر گئیں۔ بہت دن گزر گئے۔ رفتہ رفتہ سب احساس مٹ گئے۔ اب تو بچے بھی بڑے ہو گئے تھے۔ بڑی بیٹی عذرا تیرہ سال کی تھی۔ لبنیٰ گیارہ سال کی اور آمنہ سات سال کی۔ ارشد ابھی دو سال کا تھا۔ ثریا بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی۔ بچوں کی تربیت اس نے بہت اچھے طریقے سے کی تھی۔ عذرا تو بالکل اپنی ماں پر گئی تھی۔ اب وہ آٹھویں میں پڑھتی تھی۔
گاڑی رُکی تو میرے خیالات کی رو بھی تھم گئی۔ گاڑی رحیم یار خان پہنچ چکی تھی۔ ہلکی ہلکی سفیدی پھیل رہی تھی۔ چائے والوں کے شور سے ثریا اور ارشد جاگ گئے تھے۔ بچیاں ابھی تک سو رہی تھیں۔ انہیں بھی اٹھایا۔ ان کے لیے ناشتہ لیا اور خود چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پرانے اخبار پر نظر دوڑانے لگا۔ دھیان پھر زہرہ کی طرف چلا گیا۔ اب تو اس کے بچے بھی کافی بڑے ہو گئے ہوں گے اور اس کا خاوند شاید وہ اب ہیڈ کلرک ہو گیا ہو۔ رقابت کا جذبہ پھر سر اُٹھانے لگا۔ اب اگر اسے معلوم ہو کہ میں کاروبار کرتا ہوں اور میرے پاس رہنے کو بنگلہ اور آنے جانے کے لیے کار ہے تو حیران تو ضرور ہو گی۔ اور شاید پچھتائے بھی۔ یہ سب لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ مطلب کی بنی ہوئی مورتیاں۔ وعدے کسی اور سے، شادی کسی اور سے کرتی ہیں۔
ثریا نے خود بھی کپڑے بدل لیے تھے اور بچوں کو بھی تیار کر دیا تھا۔ اب وہ مجھے آواز دے رہی تھی۔ میں نے بھی لباس تبدیل کیا۔ گاڑی روہڑی کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ ثریا کی خالہ اور خالو ہمیں لینے آ گئے تھے۔ وہ تو کئی دفعہ ہمارے یہاں آ چکے تھے مگر ہم پہلی بار آئے تھے۔ اس لیے بہت زیادہ دعوتیں ہوئیں۔ تقریباً ہفتے بعد واپسی کا پروگرام بنا۔ اس دوران دو دفعہ افضل کا فون آ چکا تھا۔ وہ لوگ بہت اُداس تھے۔ بمشکل اجازت ملی وہ لوگ ہمیں اسٹیشن تک چھوڑنے آئے۔ وہی راستہ تھا۔ وہی گاڑیاں، وہی لوگ۔ روہڑی میں پروگرام بنا کہ واپسی پر کچھ دیر ملتان ٹھہرا جائے۔ ثریا حیران تو ضرور ہوئی مگر وہ جانتی تھی کہ مجھے اپنا پرانا گھر اور محلہ دیکھنے کی کتنی آرزُو تھی۔ اس لیے وہ بخوشی رضامند ہو گئی۔ بچیاں بھی خوش تھیں۔
ملتان کافی بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ سترہ سال کچھ کم نہیں ہوتے۔ ہمارے محلے میں کافی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ جب ہم تانگے سے اُترے تو آس پاس کی کھڑکیوں سے کئی چہروں نے ہمیں جھانکا۔ ہمارا مکان جو ایک کمرے اور کچے صحن پر مشتمل تھا قرض خواہوں نے نیلام کروا دیا تھا۔ اب وہاں کوئی اور رہ رہا تھا۔ یہ بات ہمیں خالہ جہاں آرا نے بتائی جو اب بہت زیادہ بوڑھی ہو گئی تھیں۔ وہ میری ماں کی یاد میں آنسو بہا رہی تھیں۔ ثریا بھی رو رہی تھی۔ بچیاں بھی مغموم تھیں۔ زہرہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ شاید اپنے سسرال میں ہو گی۔ مگر پھر خالہ جہاں آراء کے پاس کون رہ رہا تھا؟ گھر کی حالت کافی سدھری ہوئی تھی۔ سامان بھی پہلے سے زیادہ تھا۔ اشیا کا قرینہ کسی دوسرے کی موجودگی کا پتہ دیتا تھا۔ میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ دفعتاً کمرے کے دروازے پر کھٹکا سا ہوا۔ میں نے پیچھے دیکھا تو ساکت رہ گیا۔ وہاں زہرہ کھڑی تھی۔ وہ بھی جیسے کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ مجھے اپنی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی دفعتاً خالہ جہاں آرا کی آواز گونجی۔
’’زہرہ بیٹی! آگے آؤ، دیکھو تو کون آیا ہے؟ یہ آصف ہے زینب کا بیٹا۔‘‘ مگر وہ وہیں چپ چاپ کھڑی رہی۔ مجھے لگا جیسے وہ زہرہ نہیں ہے۔ زہرہ تو مجھے دیکھ کر کھل اُٹھتی تھی مگر وہ تو مرجھائی ہوئی تھی۔ زہرہ کا رنگ تو میدے جیسا تھا مگر اس کے چہرے پر ہلدی سی ملی ہوئی تھی۔ زہرہ کی تو سیاہ گھنیری زُلفیں تھیں مگر اس کے بالوں میں دھوپ اُتر آئی تھی۔
دفعتاً اس کے ہونٹ ہلے شاید اس نے سلام کیا تھا۔ پھر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اس نے میری خیریت پوچھی۔ میں نے ثریا کو اس کے بارے میں بتایا۔ زہرہ اس دوران چپ رہی پھر میں نے زہرہ کو ثریا کے متعلق بتایا وہ سنتی رہی اور ویران آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ مجھے ایسا لگا جیسے ٹمٹماتے اور بجھتے ہوئے دئیے کی لَو کچھ دیر کے لیے تھم گئی ہو۔ اس کے چہرے پر ایسے ہی تاثر تھے۔ پھر ایسی کیفیت اُبھری جیسے دئیے کی لَو تھرتھرا رہی ہو اور پھر مجھے اس کی آنکھوں میں دھُوئیں سے لہراتے نظر آئے۔ اس کے لبوں پر بجھی بجھی سی مسکراہٹ تھی۔ مجھ سے وہاں بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے زہرہ سے اس کی شادی کا تذکرہ نہیں کیا۔ خالہ جان اور ثریا کی وجہ سے جھجک محسوس ہو رہی تھی۔ خالہ جہاں آراء نے بتایا کہ زہرہ سکول میں سروس کرتی ہے شام کو گھر میں بچوں کو پڑھاتی ہے۔ بے چاری تھک جاتی ہے۔ مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی ظاہر ہے کلرک کی تنخواہ ہی کتنی ہوتی ہے مگر اسے کس نے کہا تھا کہ کلرک سے شادی کرے۔ دو دن میرا انتظار نہ کر سکتی تھی۔ خودغرض۔ اب بھگتے بیٹھ کر۔ اب میری بیوی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ شاید اس کی قسمت پر رشک کر رہی ہو۔ رشک کیا۔ جل رہی ہو گی۔ اور پھر میں نے اس کو جلانے کے لیے ثریا سے خوب خوب باتیں کیں۔ بچوں سے بات بے بات پیار جتلایا۔ اسے خوب خوب دِکھایا سمجھتی کیا تھی اپنے آپ کو۔ کیا وہی رہ گئی تھی اس دنیا میں۔۔۔ پھر محلے کی کچھ عورتیں آ گئیں۔ جہاں آراء ان کے ساتھ مصروف ہو گئیں۔ میں باہر نکل آیا۔ سوچا چند پرانے شناساؤں سے مل لوں۔ لوگوں سے ملتے گھومتے پھرتے شام ہو گئی جب واپس آیا تو اندھیرا کافی پھیل چکا تھا۔ کھانا کھایا۔ کچھ دیر نیچے بیٹھا پھر اوپر آ گیا۔ زہرہ ہمسایوں کے ہاں چلی گئی تھی۔ ہمارے بستر اوپر ہی بچھے تھے۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد ثریا سو گئی مگر مجھے نیند نہیں آئی۔ زہرہ آ کر سامنے کھڑی ہو جاتی تھی۔ یہی چھت تھی جہاں میں اور وہ تپتی دوپہروں میں گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔ یہیں ہم دونوں ملتے تھے اور نصیب ملانے کی باتیں کرتے تھے۔ اور یہیں اپنے آپ کو ایک دوسرے کی ہاتھوں کی لکیروں میں تلاش کرتے تھے۔ دل میں اِک ٹیس سی اُٹھی۔ میں کروٹیں بدلتا رہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اب بھی میرے دل کے کسی گوشے میں موجود تھی مگر اعتماد کے شیشے کو تو اسی نے چکناچور کیا تھا مگر اس کی حالت بتاتی تھی کہ وہ اب بھی خوش نہیں ہے۔ نہ جانے اس کا خاوند کیسا تھا؟ وہ ہمیں نہیں ملا تھا۔ شاید کہیں باہر ہو اور اس کے بچے؟ اور مجھے ایک دم خیال آیا کہ زہرہ کے بچے تو کہیں دکھائی ہی نہیں دئیے تھے! شاید اسے یہی غم ہے۔ میں نے سوچا تبھی تو میرے بچوں کو اتنے پیار سے دیکھتی تھی۔
آج زہرہ نے مجھ سے زیادہ بات نہیں کی تھی اور مجھے بھی ثریا کی وجہ سے جھجک رہی تھی لیکن میں اس سے باتیں ضرور کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اس سے بہت سے شکوے کرنا تھے۔ اگر وہ میرا کچھ انتظار کر لیتی اور مجھے ذرا بھی اُمید ہوتی تو میں سیدھا ملتان واپس آتا۔ مگر اس نے تو میرا انتظار ہی نہیں کیا تھا۔ بلکہ میری گرفتاری کے صرف چار ماہ بعد شادی کر لی تھی۔ ہاں۔ بالکل چوتھے ماہ منیر مجھ سے ملنے آیا تھا۔ وہ میرا کلاس فیلو تھا۔ زہرہ اسے بھی بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ تھی ہی ایسی۔۔۔ ایک روز وہ مجھے ملنے آیا۔ جب جانے لگا تو میں نے اسے ایک بند لفافہ دیا کہ کسی طرح زہرہ کو سکول کے باہر دے دے۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد وہ دوبارہ ملنے آیا تو مجھے اُس کے چہرے کا کرب نہیں بھولتا۔ اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔ خط مجھے واپس کرتے ہوئے وہ مجھ سے آنکھیں نہ ملا پا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ادھر کیا ہو گا۔ مجھ سے آگے نہ سنا گیا۔ میری آنکھیں جلنے لگیں۔ وہ نہ جانے کب واپس چلا گیا۔۔۔
سگریٹ ختم ہو گئی تھی۔ میں نے دوسری سُلگا لی۔ ساڑھے گیارہ ہو گئے تھے مجھے سخت پیاس لگ رہی تھی۔ حلق میں جیسے کانٹے چُبھ رہے تھے۔ میں پانی پینے کی غرض سے نیچے چلا گیا۔ سیڑھیوں کے ساتھ ہی غسل خانہ تھا۔ ٹونٹی سے تھوڑا پانی پیا۔ جی چاہا تھوڑی دیر زہرہ سے باتیں کروں شاید وہ جاگ رہی ہو۔ مگر دفعتاً خالہ جہاں آرا جو سامنے برآمدے میں سو رہی تھیں کروٹیں بدلنے لگیں۔ میں غسل خانے میں گھس گیا۔ شاید وہ جاگ گئی تھیں۔ میں کافی دیر دم سادھے اندر کھڑا رہا۔ پھر خود ہی باہر آ گیا آخر اس میں ایسی بات ہی کیا تھی۔ کوئی کسی بھی ضرورت کے تحت نیچے آ سکتا ہے۔ لیکن میرا خدشہ بے بنیاد رہا۔ وہ بے خبر سو رہی تھیں۔ زہرہ کی چارپائی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ صحن میں اندھیرا تھا۔ میں نے ذرا غور سے دیکھا۔ برآمدے کے ایک کونے میں ایک چارپائی نظر تو آئی مگر وہ خالی تھی۔ زہرہ وہاں نہیں تھی۔ شاید وہ کمرے میں سونے کی عادی ہو یا شاید کسی ضرورت کے تحت اُٹھی ہو۔ سوچا کچھ دیر رکوں اور انتظار کروں۔ مگر پھر مجھے کچھ اچھا نہ لگا اور میں واپس پلٹ آیا۔۔۔ بہت آہستگی سے سیڑھیوں پر قدم رکھتا میں اوپر جانے لگا مبادا ثریا کی آنکھ کھل جائے مگر اگلے ہی لمحے مجھے رُکنا پڑا۔ زہرہ میری چارپائی کے قریب کھڑی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ اس کی پشت میری طرف تھی۔ جی چاہا جلدی سے اس کے پاس جا پہنچوں۔ مگر پھر ثریا کا سراپا میری نظروں میں گھوم گیا اور میں اُلٹے پاؤں نیچے آ گیا۔ میرا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا۔ میں نے جلدی سے صحن کا دروازہ کھولا اور باہر آ گیا۔
باہر کی ہوا لگی تو سانسیں بحال ہوئیں۔ میں کافی دیر سڑکوں پر بے مقصد گھومتا رہا۔ چوک میں سینما کے پاس چند ہوٹل اور دکانیں ابھی تک کھلی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر ادھر بیٹھا، چائے پی، سگریٹ لیے اور واپس پلٹ آیا۔ ایک بج رہا تھا۔ میں نے صحن کے دروازے پر دباؤ ڈالا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے زہرہ کی چارپائی کی طرف نہیں دیکھا۔ خاموشی سے صحن پار کر کے اوپر آ گیا۔
ثریا ابھی تک بے خبر سو رہی تھی۔
صبح ہم جاگے تو سورج کا انار چھوٹ رہا تھا۔ جلدی جلدی تیار ہوئے اور ناشتے کی میز پر آ گئے۔ ناشتے پر زہرہ نے کافی اہتمام کیا تھا۔ فارغ ہو کر میں تانگہ لینے چلا گیا۔ سوا چھ بجے تھے۔ گاڑی ساڑھے سات بجے آنی تھی۔ تانگہ باہر کھڑا کیا اور میں خود سامان لینے اندر آ گیا۔ زہرہ ابھی تک چولہے میں لکڑیاں جھونک رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے بُری طرح پانی بہہ رہا تھا۔ ثریا نے پوچھا۔
’’تمہاری آنکھیں بہت دُکھتی ہیں۔ بہت پانی بہہ رہا ہے ان سے؟‘‘
’’ہاں وہ۔ وہ گیلی لکڑی دھُواں دینے لگی تھی نا۔ اس۔ اس لیے۔‘‘
اس کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں مزید دھُندلا گئیں۔ مجھ سے ادھر دیکھا نہ گیا میں جلدی سے باہر آ گیا۔ خالہ جہاں آراء دروازے تک آئیں اور دعاؤں سے ہمیں رخصت کیا۔ وہ دونوں دروازے میں کھڑی رہیں یہاں تک کہ تانگہ گلی کا موڑ مُڑ گیا۔
گاڑی لاہور کی طرف رواں دواں تھی۔ ثریا خالہ جہاں آراء اور زہرہ کے بارے میں باتیں کر رہی تھی۔
’’آخر اس زہرہ کو اپنی ماں پر ترس کیوں نہیں آتا۔ ماں نے منتیں کی ہیں رو رو کر سمجھایا ہے مگر کہتی ہے کہ زندگی بھر شادی نہیں کروں گی۔ اب تو ماں بھی سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہے۔‘‘
اور مجھے ایسے لگا جیسے گاڑی پٹڑی پر نہیں میرے سینے پر چل رہی ہو۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید