سیانوں نے سچ کہا ہے:
’’بڈھے کی مرے نہ جورو، بالے کی مرے نہ ماں۔‘‘
دونوں کے لئے زندگی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بالک سے زیادہ بالی کو ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر بوڑھے کے لئے بیوی کی جدائی سہنا دُشوار ہوتا ہے تو جوان مرد کے لئے یہ سانحہ کسی عذاب سے کم نہ ہو گا۔
نورخاجان پر جب یہ آفت ٹوٹی تو وہ تیس بتیس برس کا بھرپور جوان مرد تھا۔ بے چاری پلوشا جو بالک پن کے دور سے گزر رہی تھی ماں کی ممتا ہی نہیں، محافظت کے اس فطری حصار سے بھی محروم ہو گئی جو بچیوں کو فقط مائیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔
بیوی بچوں اور خاندان کے بیشتر افراد کو جنت کی راہ دکھا کر جب اس نے کارپٹ بمبوں کی زد پر آئی ہوئی اپنی سرزمین کو خیرباد کہا تو کم سن پلوشا اس کے کندھوں پر سوار تھی۔
دربدری کا دور اذیت ناک بھی تھا اور طویل بھی مگر بالآخر تمام ہوا۔ اب وہ میدانی علاقے کے ایک بڑے شہر میں اپنے ہم وطنوں کی بستی میں رہتا تھا اور روزگار سے لگا ہوا تھا۔ کپڑے کی تھوک مارکیٹ میں مدینہ کلاتھ ہاؤس سے نت نئے ڈیزائن کا کپڑا بائیسکل پر لاد کر مضافات کی طرف پھیری پر نکل جاتا اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں صدا لگاتا:
’’کاپڑا لے لو کاپڑا۔ باڑے کا ودیا کاپڑا۔‘‘
جس مرد نے برسوں پر محیط بھرپور ازدواجی زندگی گزاری ہو اس کے لئے مجرد رہ کر نفس کشی کرنا اتنا سہل نہیں ہوتا۔ خصوصاً نورخاجان جیسا مردجس کی ترکیب عنصری میں نفس بہیمی کی آمیزش کرتے ہوئے قدرت نے زیادہ ہی فیاضی برتی ہو، ہر وقت ہڑک میں مبتلا رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آتش شوق کو ہر رُخ سے ہوا مل رہی تھی۔ تھوک مارکیٹ جاتے ہوئے شہر کے انتہائی با رونق بازار سے گزرتا تو ایک سے ایک سجی سنوری عورت نظر آتی۔ مال بیچتے ہوئے بھی زیادہ واسطہ صنف نازک ہی سے پڑتا۔ اور جب واپس بستی میں پہنچتا تو پڑوس میں مقیم بابا سیاف کی بیٹی پری گل ٹاٹ کی اوٹ سے جلوہ دکھاتی۔ ایک شعلہ سا لپک جاتا۔
جھونپڑی میں ایک طرف گیارہ سالہ پلوشا نیند میں ڈوبی گڑیوں کے خواب دیکھ رہی ہوتی تو دوسری جانب اس کا باپ نورخاجان بے چینی سے کروٹیں بدل رہا ہوتا۔ پری گل تخیل کے دوش پر پرواز کرتی ہوئی اس کی آغوش میں آن گرتی تو ایک ولولۂ تازہ سے وصال کے مراحل طے کرتا اور مد ہوش ہو کر سو جاتا۔ اگلی صبح آنکھ کھلتی تو کپڑوں کی گٹھڑی سینے سے لگی ہوتی۔۔ کانوں میں اپنی ہی صدا کی بازگشت سنائی دینے لگتی۔ ’’کاپڑا لے لو کاپڑا۔۔‘‘دل و دماغ پر محرومی کا احساس قہر بن کر نازل ہوتا۔ ناحق غسل واجب ہو جاتا۔ ازسرنوحساب جوڑنے بیٹھ جاتا۔ جان توڑ مزدوری کر کے بھی وہ ابھی تک چالیس ہزار ہی جمع کر پایا تھا۔ بابا سیاف’ نو نقد نہ تیرا ادھار، جیسی ضرب المثل کا ایمان کی حد تک قائل تھا۔ ستر ہزار سے ایک پیسہ کم کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ اپنی جمع شدہ رقم اس نے بابا سیاف ہی کے پاس امانتاً رکھ چھوڑی تھی تاکہ اسے حوصلہ رہے۔ لیکن پری گل کا ہاتھ تبھی اس کے ہاتھ میں آنا تھا جب باقی رقم بھی ادا کر دی جاتی۔ پری گل کے شباب کا یہ عالم تھا جیسے پھل زیادہ پکنے پر پھوٹنے اور رس ٹپکانے لگے۔ نورخاجان کا پیمانۂ صبر لب ریز ہو رہا تھا، مگر کیا کرتا۔ مجبور تھا۔ رہ رہ کر دل میں وسوسے سر اُٹھاتے کہ کوئی اور طلب گار پہل نہ کر جائے۔ بستی میں کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ڈر تھا تو مقامی امیر زادوں سے جو گوری چمڑی پر مر مٹتے تو بے دریغ خرچ کر ڈالتے۔ بیشتر حرام کاری کے لئے ہر دم تیار دکھائی دیتے۔ جنہیں شریعت کا کچھ پاس تھا ان کے لئے دام چکا کر معین مدت کے لئے حبالۂ عقد میں لے آنے کا در کھلا ہوا تھا۔ نورخاجان کو ہر دو سے شدید نفرت محسوس ہوتی۔ وہ انہیں حرام خور کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتا اور دست بہ دعا رہتا کہ بابا سیاف کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہ آئے۔ اگرچہ وہ ابھی تک اپنے اسی موقف پر قائم تھا کہ شریعت کے برخلاف نہیں جائے گا مگر تا بہ کجا۔ اس کے کئی ہم جلیس مرغیاں ذبح کرنے کی بجائے بڑے مزے سے انڈے کھائے جا رہے تھے۔۔
جورو کی موت کا سانحہ ایک بڈھے پر بھی گزر چکا تھا۔ بوڑھا بونگ بھی نہیں بلکہ بوبک۔ پچاس کے پیٹے میں ہو گا مگر بتایا کرتا کہ اگلے سال چالیس کا ہو جائے گا۔ گذشتہ کئی سالوں سے تا حال اگلا سال اس کی عمر کو چھُو ہی نہیں پا رہا تھا۔ ذات کا جھبیل اور پیشے کے اعتبار سے ملاح۔ تاہم کشتی کھینا چھوڑ رکھا تھا۔ جب سے بیلہ اور کچے کا علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بنا تھا، اس کے تینوں بیٹے بھی کہنے کو ملاح اور مچھیرے تھے لیکن نہ جانے کیسے اور کہاں سے دولت میں خوب ہاتھ رنگ رہے تھے۔ بیٹوں کی اُچھلتی کمائی اس کی جیب میں بھی آئی تو یاد آ گیا کہ وہ سندھ کے کسی شاہی خاندان کا سپوت ہے، جس کے آباء و اجداد بہت پہلے نقل مکانی کر کے ادھر آباد ہو گئے تھے۔ اپنی تئیں شہزادہ سمجھ کر جام کہلانے لگا۔ کوئی نام پوچھتا تو مونچھوں پر بل دے کر بڑے فخر سے کہتا:
’’سائیں۔ جام سجن نام ہے میرا۔‘‘
ویسے اس قبیلے کو سندھ سے یقیناً کبھی کوئی نسبت رہی ہو گی کیونکہ وہ گھر میں جو بولی بولتے تھے اس کا غالب عنصر سندھی پر مشتمل تھا۔
سجن خاصا شوقین مزاج تھا۔ چہرے کی سانولی جلد اور زُلفیں چپڑ کر، آنکھوں میں سرمہ لگا کر مونچھوں کوبل دیتا ہوا پوری سج دھج سے نکلتا۔ سر پر بڑے بانکپن سے پگڑی باندھی ہوئی ہوتی۔ مچھیروں کی بستی سے باہر سڑک کے کنارے چھپر ہوٹل پر آن بیٹھتا۔
نورخا جان پر جلد از جلد مال اکٹھا کرنے کی دھُن سوار تھی۔ اس لئے مال بیچنے کے لئے اکثر بہت دُور نکل جاتا۔ ہفتے عشرے میں دریا کے قریب واقع مچھیروں کی بستی کا بھی چکر ضرور لگایا کرتا۔ سجن سے اس کی اچھی خاصی گپ شپ ہو گئی۔ وہ کھانے اور چائے سے اس کی تواضع ضرور کرتا۔ کئی باراسے اپنے گھر بھی لے گیا اور بلا ضرورت کپڑا خریدا۔ نورخا جان دیکھتا کہ اس کے گھر میں بڑی قیمتی اشیاء رکھی ہیں۔ اندازہ لگاتا کہ اس کے بیٹے خاصے مالدار ہیں۔ گھر میں سجن کی بوڑھی والدہ البتہ تنہا بیٹھی نظر آتی۔ ایک بار اس سے پوچھ ہی لیا کہ بیٹوں کی شادی کیوں نہیں کی: ’خان! بیٹے میرے پورے نواب ہیں۔ شاہی خون ہے۔ بستی اور آس پاس کے علاقے سے بڑے رشتے آئے۔ مانتے ہی نہیں۔ سچی بات بول دوں؟‘‘
نورخاجان نے استفسار طلب نگاہیں سجن کے چہرے پر جمائیں تو وہ کہنے لگا:
’’جب سے تم لوگ اس علاقے میں آئے ہو اور تمہاری لڑکیوں نے مقامی گھر آباد کئے ہیں، میرے بیٹوں کے بھی دماغ خراب ہو گئے ہیں۔ تم اپنی بستی میں کسی سیبات کرو ناں۔۔‘‘
نورخا جان نے جام سے اس کے بیٹوں کی عمریں پوچھیں تو اس نے بتایا کہ بڑا پچیس، منجھلا بائیس اور چھوٹا انیس سال کا ہے۔ ذرا توقف کے بعد بولا:
’’شادیاں تو تینوں کی کروں گا مگر پہلے صرف بڑے کی۔ کم بخت جس طرح پیسہ کماتے ہیں اسی طرح برباد بھی کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کس کے لئے جمع کریں۔ ابھی میرے پاس ایک کے لئے ہیں لیکن مجھے پتا ہے بڑے کی شادی ہوتی گئی تو دوسرے دونوں بھی چند دن میں دولت کا ڈھیر لگا دیں گے۔‘‘
نورخا جان مزید دس ہزار روپے پس انداز کر چکا تو بابا سیاف کے حوالے کرنے اس کے گھر جا پہنچا۔ پری گل سے نگاہیں چار ہوئیں تو اس نے آنکھوں سے پیغام دیا کہ اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا۔
بابا سیاف کہنے لگا:
’’نورخا جان! ہم وطن واپس جائے گا۔ مجبوری ہے۔ لیکن پہلے پری گل کا فرض ادا کرے گا۔ تمہیں تو پتا ہے وہاں کا حالات بہت خراب ہے۔ بیٹی کو ساتھ نہیں لے جائے گا۔ ابھی انارگل نے صاف صاف بول دیا کہ دس ہزار وہ لے گا تو ساتھ والا گاؤں کا زمیندار ہے۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ روپے کا بات ہو گیا ہے۔ نوے ہزار ہم کو ملے گا۔ تم کو پتا ہے کہ تھوڑا کوشش کرے تو پری گل جیسا لڑکی کا شادی اس ملک میں دو اڑھائی لاکھ روپے ولور پر کرنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن سچی بات ہے بیٹی کو غیروں میں دوں، دل نہیں مانتا۔ حالانکہ یہ بات اسلام کے خلاف ہے۔ مگر اللہ ہم کو معاف کر دے۔ بس تم ایک آدھ ہفتے میں نوے ہزار پورا کر دو، نہیں تو اپنی امانت ابھی واپس لے لو۔ اللہ کے حکم سے ہم شریعت پر چلے گا۔۔‘‘
نورخاجان کا دماغ سُن ہو کر رہ گیا۔ اس کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ آنکھیں کھولے، منہ پھاڑے بابا سیاف کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے بوڑھے کے دعوے کی سچائی پر کوئی شبہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چھوڑ کوئی دو دینے والا بھی پہنچ سکتا تھا۔ بستی میں کئی بچولیے اب خاصے سرگرم تھے۔ اب تک وہ آس پڑوس میں یہ تاثر قائم رکھنے میں کامیاب رہا تھا کہ اس نے بابا سیاف کو خرچہ مرچہ دے دیا ہے اور کسی بھی وقت دو بول پڑھوا کے پری گل کو اپنے گھر لا سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کسی نے اس سے پیشتر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی مگرجس بات کا خدشہ تھا وہ اب حقیقت کا روپ دھارے سامنے کھڑی تھی۔
رات اس نے کانٹوں پر بسر کی۔ بیداری میں پری گل کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے سرسراتا رہا اور پل بھر کے لئے آنکھ لگی تو عالم رویا میں وہ اس کی بانہوں کے حصار میں تھی۔ آج بہت عرصے کے بعد اس نے چرس کا دم بھی لگایا۔ ایک ایک پائی کا حساب لگاتا رہا۔ اس کے پاس ایساکوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے اتنی جلدی مزید چالیس ہزار روپے کا بندوبست ہو سکتا۔ خود کو لاکھ سمجھایا کہ پری گل کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے مگر یہ اس کے بس میں کہاں تھا؟ وہ جب سے اس کے حواس پر چھائی تھی فرصت کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اس کے ساتھ خلوت میں نہ گزارا ہو۔۔ وہ تو اپنے ملک اور ذات پر ٹوٹنے والی قیامت کے دُکھ بھی اس آس میں بھلا بیٹھا تھا کہ وہ راحت جاں عنقریب اس کے پہلو میں ہو گی۔
دن طلوع ہوا تو اس نے ٹوٹے ہوئے جسم کے ساتھ بائیسکل نکالی اور کپڑوں کا بنڈل کیریئر پر باندھ کر نکل پڑا۔ آج اس کے حلق سے آواز بھی ٹھیک طرح سے برآمد نہیں ہو رہی تھی۔ راہ میں آنے والی بستیوں میں نیم دلی سے مختصر سی صدا لگائی: ’’کاپڑا جی کاپڑا۔‘‘
پہلے جیسے ترنگ تھی اور نہ چوکسی۔ کسی گلی یا ڈیرے کی طرف نہیں مڑا۔ اِدھر اُدھر دھیان تک نہیں دیا کہ شاید کوئی بُلا ہی رہا ہو۔ کہیں رُکے بغیر تیز تیز پیڈل مارتا سیدھا نکلتا چلا گیا۔۔ اسے پتا ہی تب چلا جب مچھیروں کی بستی میں داخل ہو گیا۔
’’کاپڑا لے لو کاپڑا۔۔‘‘
سجن کے گھر کے سامنے پہنچ کر اس نے صدا لگائی۔ خلاف عادت وہ اس کے گھر کے سامنے سائیکل سے اُترا نہیں بلکہ زمین پر پاؤں ٹکائے کھڑا رہا۔ اسی اثنا میں گھر سے یکے بعد دیگرے تین مسلح نوجوان باہر نکلے اور تیز قدموں سے دریا کی جانب بڑھ گئے۔ باپ کی طرح ان کی رنگت سانولی تھی مگرجسم مضبوط۔ نین نقش عام سے، جیسے قدیم مقامی نسل کے ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے جام سجن بھی باہر آیا۔ نورخاجان کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور بیٹوں کو پکار کر پوچھا:
’’واپس کب تک ہو گی؟‘‘
بڑے نے بایاں ہاتھ فضا میں بلند کر کے نفی میں ہلایا گویا بتانا مقصود ہو کہ کوئی پتا نہیں۔ کسی نے پلٹ کر باپ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
جام سجن نے آگے بڑھ کر نورخاجان سے ہاتھ ملایا اور اسے گھر کے اندر لے گیا۔ پلنگ پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا:
’’کیا بات ہے خان آج کچھ بجھے بجھے دکھائی دیتے ہو؟‘‘
قدرے توقف کے بعد پوچھنے لگا۔ ’’اچھا پہلے یہ بتاؤ، کیا کھاؤ پیو گے۔۔؟‘‘
اس سے پیشتر کہ وہ کوئی جواب دیتا، سجن نے سامنے دیوار کے ساتھ نصب پڑچھتی کی طرف قدم بڑھائے۔ اس پر گھاس پیال سے بنا ہوا ایک پٹارا پڑا تھا۔ اس میں ہاتھ ڈال کر اس نے ایک لفافہ نکالا اور میز پر رکھتے ہوئے کہا:
’’لو کھاؤ۔ تلی ہوئی مچھلی ہے اور مرغ بھی۔۔ ساتھ کیا پیو گے؟‘‘
’’جو مرضی ہے پلا دو۔ آج سب کچھ پی لے گا۔۔ شراب، بھنگ، چرس، پوڈر موڈر۔۔۔‘‘
نورخاجان کا جواب سن کر سجن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ ایک لحظے کو کچھ سوچا اور کونے میں دھری جستی پیٹی پر رکھے صندوق کا ڈھکنا اُٹھا کر اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے لگا۔ واپس پلٹا تو ایک بوتل اس کے ہاتھ میں تھی جواس نے سامنے میز پر رکھ دی۔
*۔۔۔ *۔۔۔ *
پچھتر ہزار روپے نقد، بیس تولے کے طلائی زیورات اور سات قیمتی جوڑے اور جوتے جام سجن نے نورخاجان کے سامنے رکھے تو اس کی آنکھوں کی پُتلیاں پھیل گئیں۔ جام سجن اپنے میزبان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا:
’’خان۔ تم ذرا بھی فکر نہ کرو۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تمہاری بیٹی وڈیریوں سے بھی زیادہ عیش کرے گی۔ گھر میں کپڑا زیور اس سے دس بیس گنا زیادہ پڑا ہے۔ اپنی مرضی سے پہنے اوڑھے۔ جو بات منہ سے نکالے گی پوری کریں گے۔‘‘
نورخاجان بولا:
’’بس ہم نے تم کو اپنا بڑا بھائی مان لیا ہے۔ پلوشا جیسا ہمارا بیٹی ویسا تمہارا۔ تین چار مہینے میں بارہ سال کا ہو جائے گا۔ یارا ہم کو اپنی بیٹی سے بہت پیار ہے۔ ہم اس کا باپ بھی ہے اور ماں بھی۔ ذرا اس کا زیادہ زیادہ خیال رکھنا۔ چھوٹے سے نکاح ہو جائے تو اچھا ہے۔ نہیں تو بڑے سے بھی خیر ہے۔ اللہ کا حکم ہے۔ شریعت کے برخلاف نہیں۔۔ بس یارا۔ تم ابھی جلدی جلدی اس کو لے جاؤ۔ نہیں تو ہمارا ایمان کمزور ہو جائے گا۔‘‘ سجن نے اس کے شانوں پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور تسلی آمیز لہجے میں کہا:
’’خان۔ تمہاری بچی اتنی خوش رہے گی کہ تم کو بھی بھول جائے گی۔ یہ جام سجن کا تم سے وعدہ ہے۔ اچھا۔۔ بلاؤ اسے۔ کہاں ہے؟ میں نے باہر کرائے کی گاڑی کھڑی کر رکھی ہے۔‘‘
نورخاجان اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
’’بس میں ابھی لایا اس کو۔ بابا سیاف کے گھر تیار ہو رہی ہے۔‘‘
نورخاجان اب حوصلے میں تھا۔ جب جام سجن رخصت ہونے لگا تو اس کی قریب ہو کر آہستگی سے بولا:
’’جس بیٹے سے نکاح ہو جائے، اس کو سختی سے بول دو کہ ذرا زیادہ خیال رکھے۔۔‘‘
پلوشا ان بچوں میں سے تھی جن کی زندگی محرومیوں اور نارسائیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی کبھی پوری نہیں ہو سکی تھیں۔ مناسب خوراک، ڈھنگ کا لباس اور رہنے کو ایسی جگہ جہاں موسموں کی شدت سے محفوظ رہا جا سکے، ایسی نعمتیں تھیں جن کا اسے صحیح طور پر ادراک بھی نہ تھا۔ اس کے نزدیک تو وہ عورتیں بھی بڑی خوش نصیب تھیں جنہیں پانی جیسی نعمت با آسانی دستیاب ہو۔ بے وطنی کے دور، اس سے پہلے جنگ کی تباہ کاری اور در بدری نے اس ننھی جان سے اس کے خواب بھی چھین لئے تھے۔ وطن، گھربار، عزیز و اقارب، بہن بھائی اور ماں کی ممتا تو جنگ کے عفریت نے نگلی تھی مگر ایک خوبرو عورت کے لئے اس کے باپ کی جنون کی حدوں کو چھوتی ہوئی لٹک نے اسے شفقت پدری سے بھی محروم کر ڈالا تھا۔ وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ لڑکیوں کی شادی ہو جائے تو ان کی بہت سی خواہشیں پوری ہونے لگتی ہیں۔ پاس پڑوس میں کئی کم سن بچیوں کی بھی شادیاں ہو گئی تھیں۔ چنانچہ اب اس کی باری آئی تھی تو وہ جو اپنی فطرت میں بھی معصوم تھی، ڈھیروں کپڑے، نئے جوتے، طلائی زیورات اور بناؤ سنگھار کی بہت سی چیزیں دیکھ کر نہال ہو گئی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ کم عمر لڑکیوں کو بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ بھی بیاہ دیا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کوئی حیرت کی بات ہرگز نہیں تھی۔
گھر پہنچنے تک سجن کی ذات میں پوشیدہ درندہ پوری طرح بیدار ہو چکا تھا۔ ہڑک دماغ کو چڑھی تو بستی میں قدم رکھتے ہی اپنی قبیل کے چند لوگ اکٹھے کئے اور مولوی کی مٹھی گرم کر کے اسے ساتھ لے آیا۔ نکاح کی رسم شروع ہونے ہی والی تھی کہ غیر متوقع طور پر اس کے تینوں بیٹے اپنے مشن سے قبل از وقت ہی لوٹ آئے۔ بستی میں انہوں نے یوں بھی دہشت پھیلا رکھی تھی۔ ان کے ایک اشارۂ ابرو پرسارے مہمان چشم زدن میں گھر سے نکل گئے۔
*۔۔۔ *۔۔۔ *
پری گل کیا گھر میں آئی نورخاجان کی زندگی ہی بدل گئی۔ اسے خیال آتا کہ عالمی طاقت اس کے ملک پر حملہ نہ کرتی تو لطف و کرم اور کیف و سرور میں ڈوبے یہ لمحے اسے کبھی نصیب نہ ہوتے۔ تباہ حال بستیاں، اپنے ہم وطنوں اور پیاروں کی لاشیں، ذہن کے پردے پر نقش سب روح فرسا مناظر دھُندلا گئے۔ اس نے بڑی جان توڑ مزدوریاں کی تھیں۔ اب وہ کچھ عرصہ آرام کرنا چاہتا تھا۔ بابا سیاف کو نوے ہزار روپے کی ادائیگی کے بعد بھی خاصی معقول رقم اس کے پاس بچ رہی تھی، اس لئے پری گل کے ساتھ بھرپور انداز میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔
حیوانی جذبہ قدرے ماند پڑا تو نورخاجان کو بیٹی کی یاد ستانے لگی۔ وہ اس سے ملنے کی غرض سے مچھیروں کی بستی جا پہنچا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سامنے صحن میں پلوشا زرق برق لباس پہنے، سونے سے لدی پھندی پیڑھے پر بیٹھی تھی۔ دادی اس کے سر میں کنگھی کر رہی تھی۔ باپ پر نگاہ پڑتے ہی وہ کھل اٹھی۔ آگے بڑھ کر بے تابانہ لپٹ گئی۔
نحیف بڑھیا کے پوپلے منہ سے چند مبہم سے خیر مقدمی لفظ نکلے۔ باپ اور بیٹی دونوں نے اندر کمرے کا رُخ کیا۔ نورخاجان دو متضاد کیفیات کا شکار نظر آتا تھا۔ بیٹی کو دیکھ کر وہ بظاہر خوش تھا مگر اندر سے کچھ زخمی اور ملول بھی۔ پلنگ پر بیٹھ کر بیٹی کو پہلو سے لگایا اور دُلار سے پوچھا:
’’میرا بچہ خوش ہے؟‘‘
’’ہاں بابا۔ سب لوگ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘‘
’’کدھر ہے سب؟‘‘ اس نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’تینوں شکار پر گئے ہیں۔ صبح مجھ سے پوچھا کہ آج کیا کھانا ہے تو میں نے تیتر کے لئے بول دیا۔ ابھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’سجن کدھر ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
پلوشا قدرے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بتانے لگی:
’’پتا نہیں بابا وہ کدھر چلا گیا۔ جس روز میں ادھر آئی تو جھگڑا ہو گیا۔ میں تو ادھر اسی پلنگ پر تھی اور چھوٹا منٹھار میرے پاس تھا۔ ساتھ والے کمرے میں رات کو باپ اور دونوں بیٹے کچھ دیر جھگڑتے رہے۔۔ یہ جب آپس میں بات کرتے ہیں تو مجھے سمجھ نہیں آتی۔ پھر خاموشی ہو گئی اور دادی کے رونے کی آواز آئی تو بڑے نے زور سے کچھ کہا۔ وہ ایکدم چپ ہو گئی۔ اس دن سے آج تک میں نے سجن کو نہیں دیکھا۔‘‘
نورخاجان کے چہرے سے پریشانی جھلکنے لگی۔ لمحہ بھر توقف کے بعد پوچھا:
’’تمہاری شادی چھوٹے سے ہوئی ہے؟‘‘
’’بابا مجھے کوئی کچھ بتاتا ہی نہیں۔ دادی کو پوچھوں تو سر پر پیار کرتی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر آسمان کی طرف دیکھتی ہے۔ پھر جھولی پھیلا کر دعا کرتی ہے۔۔ تینوں بھائی پیار تو بہت کرتے ہیں مگر یہ پوچھوں تو ہنسنے لگتے ہیں۔۔‘‘
نورخاجان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ کچھ کہنا چاہا مگر حلق میں پھانس لگ گئی۔ کسی اندرونی بے چینی کے زیر اثر یکدم اُٹھ کھڑا ہوا۔ پلوشا نے اچنبھے سے کہا:
’’بابا بیٹھو ناں۔ وہ ابھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’نہیں میرا بچہ۔ ایک ضروری کام یاد آ گیا۔۔‘‘ وہ جیسے ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’پھر آؤں گا۔۔ تم اپنا خیال رکھنا۔‘‘
٭٭٭