میں اس قدر ذہنی تناؤ کا شکار تھی کہ لگتا تھا میرا برین ہیمبرج ہو جائے گا۔ رو رو کر دُعائیں مانگتی کہ میرا تبادلہ کہیں اور ہو جائے۔ یا کوئی ایسا بندہ قصبے میں وارد ہو جو بدمعاش مچھل کو نکیل ڈال سکے۔ اس نے ہمارا جینا حرام کر رکھا تھا۔
میں، مس نائلہ اور مس صدف دوسرے شہروں سے تعلق رکھتی تھیں۔ روزانہ سفر کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے ہم نے اسکول کے پچھواڑے دو کمروں کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ وہ بدمعاش ہماری گلی ہی میں رہتا تھا۔ اسکول جاتے ہوئے اس کے گھر کے سامنے سے گزرتیں تو خون خشک ہونے لگتا۔ اس سے سبھی ڈرتے تھے۔ دیکھنے میں خاصا ڈراؤنا سا تھا۔ لمبا تڑنگا، کالا سا۔ حبشیوں جیسے نقوش، موٹی موٹی سُرخ ڈوروں والی آنکھیں جیسے کسی مشتعل بیل سے مستعار لے کر چہرے پر فٹ کر لی ہوں۔ اس نے یہ بڑی بڑی مونچھیں پال رکھی تھیں جنہیں ہر وقت بل دیتا رہتا۔ نام عبدالمجید تھا مگر گل مچھوں کی بنا پر اسے سب مچھل کہتے تھے۔ عمر پینتیس چھتیس سال ہو گی۔ گھر میں اس کی اچھی بھلی قبول صورت بیوی تھی اور تین کم سن بچے۔ جوان بیوہ بہن اور والدین ساتھ رہتے تھے۔ ہائشی مکان کے علاوہ اس سے متصل دو دوکانیں اس کی ذاتی ملکیت تھیں۔ گویا شرافت کی زندگی گزارنے کے جملہ اسباب موجود تھے مگر بدبخت شریفوں کی روش پر چلنے اور کوئی حلال ذریعۂ رزق اپنانے پر آمادہ نہیں تھا۔ منشیات، ناجائز اسلحہ اور جعلی کرنسی کا دھندا کرتا تھا۔ اس کاروبار کے سلسلے میں مہینے میں پندرہ بیس دن پشاور اور قبائلی علاقے میں گزارتا۔ جب گھر آیا ہوتا تو زیادہ وقت دکانوں کے اوپر چوبارے پر دکھائی دیتا جس کا رُخ ہمارے اسکول کی جانب تھا۔ اسے اس نے بالا خانہ بنا رکھا تھا۔ گھر کے کسی فرد کو چوبارے پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
ہمارے اسکول کی عمارت نہایت خستہ حال تھی۔ خاص طور پر سردیوں میں چھوٹی کلاسوں کی بچیوں کو سین زدہ کمروں میں بٹھانا صریحاً ظلم لگتا۔ باہر دھُوپ میں ان کی کلاس لیتے ہوئے میں حتی الوسع کوشش کرتی کہ اوپر چوبارے کی طرف نگاہ نہ اُٹھاؤں۔ لیکن بھولے سے بھی نگاہ اُٹھ جاتی تو وہ نامراد کوئی فحش اشارہ کر دیتا۔ پہلے پہل میں نے یہی سمجھا کہ فقط میں ہی اُس کی بے ہودگی کا نشانہ بنتی ہوں۔ مگر جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو بھی سامنے آ جائے وہ خبیث معاف نہیں کرتا۔ جا بجا خارش کرتا ہے اور معنی خیز حرکات سے بیمار ذہن کی گندگی اچھالنے لگتا ہے۔ باہمی مشورے کے بعد ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ باہر اکٹھی کلاسیں لگائیں گی اور دوبارہ اس نے کوئی بے ہودہ اشارہ کیا تو خاموش نہیں رہیں گی۔
ایک دن جب ہم تینوں نے پہلی، دوسری اور تیسری جماعت باہر صحن میں لگا رکھی تھی، وہ بدمست انسان دھوتی بنیان میں نمودار ہوا اور فحش حرکتیں شروع کر دیں۔ ہم نے تینوں جماعتوں کی بچیوں کو اندر بھیج دیا اور خود چار دیواری کے قریب چلی گئیں۔ وہاں سے ہمارا اور اس کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ پچاس فٹ ہو گا۔ میں نے اُونچی آواز میں اُسے مخاطب کیا: ’’کچھ شرم کرو۔ تمہارے گھر میں ماں، بہن نہیں ہے؟‘‘
بڑی بے ہودگی سے ہنستے ہوئے بولا:
’’بالکل ہیں۔ مگر وہ گھر پر ہی رہتی ہیں۔ دو ٹکے کی نوکری کے لیے باہر ماری ماری نہیں پھرتیں۔ تمہیں مہینے کی جتنی تنخواہ ملتی ہے اس سے ڈبل مجھ سے لے لیا کرو اور مہینے میں بس ایک دو مرتبہ میرے چوبارے پر۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کر۔ لعنتی۔ کتے!‘‘
میں نے چِلّا کر کہا اور اپنی جوتی اُتار کر تلوا دکھا دیا۔ مس نائلہ اور صدف نے بھی میری پیروی کی۔ ہمارا خیال تھا کہ جوتیاں دکھانے پر غیرت کھائے گا اور پسپائی اختیار کرے گا۔ مگر اس بے شرم شخص نے یک لخت انسان سے حیوان کا رُوپ دھار لیا۔
ہماری تو چیخیں نکل گئیں۔ دوڑتی ہوئی ہیڈ مسٹریس کے کمرے میں پہنچیں اور رو رو کر رُوداد سنائی کہ کیسے شیطنت کو بے لباس ہوتے دیکھا ہے۔ میڈم نے اُٹھ کر دفتر کا دروازہ بھیڑ دیا۔ شیلف سے جگ گلاس اُٹھا کر اپنے ہاتھ سے باری باری ہمیں پانی پلایا۔ پھر یاس انگیز لہجے میں کہنے لگیں:
’’کیا بتاؤں۔ تم سے پہلے میں خود سب کچھ بھگت چکی ہوں۔ میرے ابا جی نے تھانے جا کر رپورٹ کی تو ایس ایچ او نے کہا: ’بزرگو! اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ شریف لوگ بدمعاشوں کے منہ نہیں لگتے۔ بیٹی سے کہیں اپنے منہ دھیان نوکری کرے۔ رپورٹ درج کروانے کی ضد کریں گے تو میں ابھی منشی کو حکم دیتا ہوں، لیکن بعد میں بھگتنا آپ ہی نے ہے۔ مچھل جیسے لوگوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ ہم آپ کی بیٹی کے لیے چوکی تو نہیں بٹھا سکتے۔ آگے آپ سیانے بیانے ہیں۔‘‘
میں نے اباجی کو روتے دیکھا تو میرا کلیجہ پھٹ گیا۔ دل میں فیصلہ کر لیا کہ پنی آگ میں خود ہی جلنا ہے۔ دم سادھے اس دنیا میں دوزخ کا سا عذاب سہہ رہی ہوں۔ خاوند مفلوج ہو کر چارپائی پر پڑا ہے۔ چار کم سن بچوں کی کفالت کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ اس معاشرے میں شریف انسان کی رتی بھر وقعت نہیں۔ کبھی تو ایمان ہی متزلزل ہونے لگتا ہے۔ کیا ہمیں تا ابد غنڈوں، بدمعاشوں اور زور آوروں کے رحم و کرم پر ہی جینا ہے؟ مجھے پتا ہے سٹاف نے میرے نام ڈال رکھے ہیں۔ سڑیل، بھیڑی بوتھی اور میڈم قبضی۔ مگر کیا کروں۔ میں اس حرام زادے کا بگاڑ ہی کیا سکتی ہوں۔ تم بھی نظریں نیچی کر کے نوکری کرو۔ دل کو سمجھا لو کہ مچھل ایک ذہنی مریض ہے۔ شکر کرو چند روز کے لیے آتا ہے اور دفع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ صرف استانیوں ہی کو چھیڑتا ہے۔ لڑکیوں کے سامنے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کرتا۔ ورنہ اب تک شہر میں فساد برپا ہو جاتا اور ہمارے خواہ مخواہ کے بکھیڑے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ سکینڈل بن جاتے۔‘‘
میڈم نے اپنی بے بسی کا رونا رو کر ہمیں وقتی طور پر لاجواب کر دیا۔
یہی دن تھے جب مس چودھری کا تبادلہ گجرات سے ہمارے اسکول میں ہوا۔ وہ استانی عمر میں ہم سے دو چار سال ہی بڑی ہو گی۔ اونچی لمبی، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں والی قبول صوت اور بڑی سی جی دار لڑکی تھی۔ بلکہ اسے عورت کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ویسے نسوانیت سے زیادہ اس کی شخصیت سے ایک مہربان مرد کی سی وجاہت جھلکتی تھی۔ اس نے رُخصتی سے پہلے ہی طلاق لے لی تھی۔ اس کا آوارہ مزاج چچا زاد جس سے بی اے کے نتائج آنے سے پہلے نکاح ہوا تھا، کسی بد چلن عورت کے ساتھ ملوث پایا گیا تو مس چودھری سیخ پا ہو گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ شریعت کے مطابق ازدواجی زندگی گزارنے کی ضرورت تو با کردار لوگوں کو ہوتی ہے۔ بدکردار انسان سے نکاح جیسا مقدس بندھن باندھنا اسے کیموفلاج کی سہولت مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ مس چودھری نے بغاوت کی تو مرد کی غیرت جاگ اُٹھی۔ اپنے تئیں باور کر لیا کہ عورت ذات ہی تو ہے اور پھر نکاح کا شرعی اور قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ کسی نہ کسی طرح جوہر مردانگی سے اس اتھری گھوڑی کی اَکڑ توڑ دی جائے تو تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ خاندان میں کسی بزرگ کا ماتم ہوا تو موقع پا کر حضرتِ مرد گھر میں گھس آئے۔ رُخصتی کا تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے شبِ زفاف منانے پر تُلے تو منکوحہ سے سر پھڑوا بیٹھے۔ بھلا ہو برادری والوں کا، جنہوں نے اس بدمعاش کا ساتھ نہیں دیا بلکہ تھپڑ جوتے مار کر طلاق لکھوا لی۔
یہ قصہ زندہ دل اور بے تکلف مس چودھری نے خوب مرچ مصالحہ لگا کر ہمیں خود سنایا تھا۔ وہ بھی ہم تینوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہنے لگی تھی۔ اس کی آمد سے پہلے ہم ایک طرح سے قیدیوں کی سی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی کنڈیاں تالے لگا لیتیں مگر پھر خواہ مخواہ لرزتی رہتیں۔ وہ آئی تو ہماری ہمت بندھ گئی اور ہمیں بھی ہنسنا کھیلنا یاد آ گیا۔ اسکول میں غیر نصابی سرگرمیوں کا آعاز بھی اُسی کے دم سے ہوا۔ بزمِ ادب، تقریری مقابلے، پی ٹی اور چھٹی کے بعد بیڈ منٹن کھیلی جاتی جس میں ہم جیسی استانیاں جو عیال داری کے جھن جھٹوں سے آزاد تھیں، اور کچھ بڑی کلاسوں کی لڑکیاں حصہ لیتیں۔ مس چودھری کمر سے دوپٹہ باندھ کر جوش و خروش سے بیڈ منٹن کھیلتی اور کھیل کے دوران بے ساختہ داد، جوشیلے نعرے اور پُر لطف جملے اُچھالتی تو کملائے ہوئے چہرے بھی کھِل اُٹھتے۔ اس نے آتے ہی اسکول کی یاس زدہ فضا کو محسوس کر لیا تھا۔ اس کے استفسار پر ہم نے اپنے اوپر بیتنے والی ہر بات بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ اس نے سب کچھ نہایت سکون سے سنا۔ پھر کچھ سوچ کر مسکرائی:
’’ہم ایک بدکردار اور بے اصل شخص کے خوف سے اپنی زندگیاں کیوں غارت کریں؟ خوش رہا کرو۔ کچھ وقت دو۔ ہو سکتا ہے کچھ بندوبست ہو جائے۔‘‘
اس کی آمد تو خوش گوار ہوا کا جھونکا تھا ہی، ان دنوں قسمت بھی ہم پر کچھ مہربان سی لگتی تھی۔ اُڑتی ہوئی خبر سننے کو ملی کہ مچھل پشاور میں پابند سلاسل ہو گیا ہے۔ یہ مژدہ سن کر اسکول کی فضا پر چھائی ہوئی رہی سہی اُداسی بھی چھٹنے لگی او ہمارے چہروں کی رونق پوری طرح بحال ہو گئی۔
سالانہ امتحانات ہوئے تو ہمارے اسکول کے نتائج غیر متوقع طور پر بہت اچھے آئے۔ ہمیں یقین ہونے لگا کہ ہم بھی زندہ ہیں۔
مس چودھری ڈیل ڈول کے اعتبار ہی سے پنجاب کی جٹی نہیں تھی بلکہ وہ روحانی طور پر بھی بڑی مضبوط تھی۔ ان تھک اور خوش باش۔ جس لڑکی کا دل چاہتا اپنا مسئلہ لے کر حاضر ہو جاتی۔ جس طالبہ کو کسی مضمون میں اضافی توجہ کی ضرورت ہوتی، وہ مس چودھری کو مدد کے لیے ہر دم آمادہ پاتی۔ سبھی لڑکیاں اس کی طرف کھنچی چلی جاتی تھیں۔ ہماری رہائش گاہ پر بھی پڑھنے کے لیے آ جایا کرتیں۔ کیا سکول اور کیا گھر ہر جگہ رونق لگی رہتی۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے ایک قابلِ بھروسہ سرپرست ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اسکول کی ہیروئن بن چکی تھی۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز پر داخلے اور باقاعدہ پڑھائی شروع ہوئی تو مس چودھری نے پہلی جماعت کا چارج رضاکارانہ طور پر لے لیا۔ وہ چھوٹی بچیوں کے ساتھ یوں پیش آتی جیسے ان کی ماں ہو۔ بچیاں اس کی صحبت میں خوش رہتیں۔ ذرا بھی اکتاہٹ محسوس کرتیں تو وہ انہیں صحن میں لے جا کر کھیل کود میں لگا دیتی۔ شازیہ نام کی ایک پھول سی بچی کو وہ ہر وقت ساتھ لگائے رکھتی تھی۔ کلاس روم میں بھی اپنے پاس بٹھائے رکھتی۔ ایک دو مواقع پر مجھے خیال بھی آیا کہ اس کے بارے میں پوچھوں لیکن پھر یہ سوچ کر رُک گئی کہ پہلی سے آخری کلاس تک، ہر بچی کے ساتھ اس کا برتاؤ مشفقانہ ہی تو ہے۔ ایسے میں اس بچی کے بارے میں متجسس ہونے کا کیا جواز ہے؟
ایک روز صبح ہم نے چوبارے پر چارپائی بچھی ہوئی دیکھی تو ہول اُٹھے لگا کہ وہ شیطان جیل سے چھوٹ کر واپس نہ آ گیا ہو۔ گھر والوں کا تو یوں بھی چوبارے پر داخلہ ممنوع تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کئی بار نگاہیں اوپر اُٹھیں۔ غور سے دیوار کے خانوں میں سے دیکھا تو چارپائی پر لمبا تڑنگا بندہ سویا ہوا نظر آیا۔ کھلے در سے صرف چارپائی کی پائنتی اور سوئے ہوئے شخص کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔ ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ مچھل ہی ہے۔ مس چودھری کو بتایا تو وہ ایسے کھِل اُٹھی جیسے کوئی سگا رشتے دار عرصے بعد ملنے آ گیا ہو۔
اس روز صحن میں بیٹھنے کے لیے موسم ساز گار نہیں تھا۔ اس لیے کلاسیں کمروں میں لگی ہوئی تھیں۔ ہم اپنے اپنے کلاس روم میں چلی گئیں۔ میری میز دروازے کے سامنے تختۂ سیاہ کے آگے رکھی تھی۔ وہاں سے چوبارہ واضح دکھائی دیتا تھا۔ میں نے دائیں جانب گردن گھمائی تو کیا دیکھتی ہوں کہ مس چودھری نے چوبارے کے بالکل قریب دیوار کے ساتھ پہلی جماعت کی کچھ بچیوں کو کھڑا کر رکھا ہے اور انہیں اُونچی آواز میں سبق یاد کروا رہی ہے۔ میں اسے واضح طور پر سن سکتی تھی۔
’’جب تک ایک سے پچاس تک گنتی یاد نہیں ہو جاتی، آج کسی کو بھی چھٹی نہیں ملے گی۔‘‘
بچیاں سائے میں تھیں۔ جبکہ وہ چوبارے کی جانب رُخ کیے دھُوپ میں کھڑی تھی۔ ایک تو اس کا جسم ویسے ہی تنومند اور پُر کشش تھا۔ پانچ فٹ نو انچ قد۔ چوڑا بھرپور سینہ، اور بھرے بھرے کولہے۔ اس پر جب وہ کمر کے گرد کس کر دوپٹہ باندھ لیتی تو قیامت ڈھانے لگتی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آواز سن کر چار پائی پر سویا ہوا شخص اُٹھ بیٹھا ہے۔ لمحہ بھر بعد وہ دھوتی اڑستا ہوا کھلے در کے سامنے آیا۔ مس چودھری کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ اُبھری اور وہ جھانگوں میں خارش کرنے لگا۔ مس چودھری نے اوٹ میں کھڑی بچیوں کو اباؤٹ ٹرن ہونے کا کاشن دیا۔ جونہی انہوں نے
دیوار کی طرف رُخ کر کے زور زور سے گنتی دہرانی شروع کی، مس چودھری نے آگے بڑھ کر ایک بچی کو بائیں ہاتھ کی لپیٹ میں لے لیا۔ اسے اٹھائے ہوئے وہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹی اور اپنے دائیں پیر کی جوتی اتار کر تلوے کا رُخ مچھل کی طرف کر دیا۔ میری سانس حلق میں اٹکنے لگا۔ میں اضطراری حالت میں لپک کر دروازے میں آ گئی۔ جیسا کہ توقع تھی، اس پلید انسان نے پھر وہی شرم ناک حرکت کی۔ جونہی وہ بے ستر ہوا، مس چودھری نے بچی کو اُٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا۔ یہ وہی شازیہ نامی بچی تھی جسے وہ ہر وقت انگلی سے لگائے پھرتی تھی۔ وہ معصوم تو غالباً اپنی اچانک اکھاڑ پچھاڑ میں اوپر نہیں دیکھ پائی تھی مگر جونہی مچھل کی نگاہ اس پر پڑی، وہ بجلی کی سی تیزی سے مڑا اور غائب ہو گیا۔
بعد میں عقدہ کھلا کہ شازیہ مچھل کی بیٹی ہے جسے مس چودھری نے بڑی رازدای سے اپنی ذاتی کاوشوں کے بل بوتے پر پہلی جماعت میں داخل کروایا تھا۔ مچھل کی طویل غیر حاضری کے دوران وہ کئی مرتبہ اس کے گھر گئی تھی اور اس کی بیوی اور ماں سے دوستی کر لی تھی!
اس واقعہ کے بعد ہمیں مچھل دوبارہ کبھی چوبارے پر دکھائی نہیں دیا۔
ہفتوں بعد جمعہ کے روز ہم چاروں اسکول سے قدرے لیٹ چھٹی کر کے گھر واپس جا رہی تھیں۔ بازار سے گزرتے ہوئے مسجد کے دروازے کے پاس ایک اونچا لمبا کالا سا آدمی کھڑا نظر آیا۔ سر پر نماز والی سفید ٹوپی، چھوٹی سی داڑھی، قینچی سے کتر کر باریک کی ہوئیں مونچھیں۔۔۔ ہم پر نگاہ پڑتے ہی وہ تیزی سے پلٹا اور مسجد میں گھس گیا
٭٭٭