چھاؤنی کی حدود سے باہر مضافات کی طرف جانے والی سڑک کے ارد گرد، جہاں کبھی سرسبز کھیت اور اینٹ گارے سے بنے اکا دکا مکانات ہوا کرتے تھے، وہاں اب بے ہنگم رہائشی کالونیاں وجود میں آ چکی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب دور تک ہر طرح کی دکانیں، گودام، سی این جی اسٹیشن، تعمیراتی سامان کے بڑے بڑے سٹور اور ماربل فیکٹریاں بن گئی تھیں۔ راجا مشکور کا ’’آرکو آکشن مارٹ‘‘ بھی یہیں واقع تھا۔ پندرہ سولہ مرلے کے پلاٹ کے ایک تہائی حصے پر چند بڑے بڑے کمروں اور برآمدے پر مشتمل سادہ سی عمارت ہر طرح کے فرنیچر، برقی آلات، انواع و اقسام کے آرائشی سامان اور الم غلم اشیاء سے بھری ہوئی تھی۔ برآمدے میں گتے اور کاغذ کی ردی کے ڈھیر لگے رہتے۔ جبکہ صحن لوہے اور پلاسٹک کی بے کار چیزوں، کانچ کی بوتلوں اور ٹین ڈبوں سے اٹا پڑا تھا۔ کباڑ کے انبار ہمالہ آثار کے ساتھ جستی چادروں سے بنے شیڈ کے نیچے تلائی کے دو بڑے کانٹے اور باٹ رکھے تھے۔ اسی جگہ 70 سی سی کی ایک پھٹیچر موٹر سائیکل چھوٹے اسٹینڈ پر ترچھی کھڑی ہوتی۔ قریب ہی تین ٹانگوں والی کرسی پر بیٹھ کر سر تا پا لنڈے میں ملبوس راجا مشکور گاہکوں کی راہ تکا کرتا۔ سرسری نگاہ سے دیکھنے پر وہ خود بھی ارد گرد ڈھیر کاٹھ کباڑ کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ کرسی کی چوتھی ٹانگ لگوانے کی اس نے ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔ کئی برسوں سے اینٹیں جوڑ کر اسے سہارا دے رکھا تھا۔ کوئی بے تکلف بیوپاری یا گاہک اس حوالے سے عار دلاتا تو ہنستے ہوئے جواب دیتا:
’’اوجی! کام ہی چلانا ہے ناں! پانچ سالوں سے بہترین کام چل رہا ہے۔ ورنہ صحیح سلامت نئی کرسیاں اندر ڈھیر پڑی ہیں۔۔۔‘‘
’’کام ہی چلانا ہے ناں۔‘‘موصوف کا تکیہ کلام تھا اور اس کی مخصوص ذہنی ساخت، سوچ اور اپروچ کا مظہر۔ کام چلاؤ جی، کام چلنا چاہئے، گزارا کرو جی۔۔ اس طرح کے جملے کثرت سے بولتا۔ ’’سودا‘‘ کا لفظ بھی گفتگو میں بہت زیادہ استعمال کرتا۔ سودا ڈن ہو گیا، سودا فٹ ہو گیا، سودا خراب ہو گیا، سودا برابر آ گیا۔۔
عمر تیس برس سے زیادہ نہیں ہو گی۔ صحت اور صورت شکل بھی اچھی تھی مگر پھر بھی اپنے حلیے اور لباس پر بالکل توجہ نہ دیتا۔ شیو اکثر بڑھی رہتی۔ کئی کئی دن نہائے ہوئے گزر جاتے۔ اس کی تمام تر دلچسپیاں کاروبار تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ گھریلو سامان اور کباڑ کی فروخت یا خریداری کے لئے آنے والوں کا برابر گرم جوشی سے استقبال کرنے کے لئے ہمہ وقت مستعدرہتا۔ رہائش بھی کباڑ خانے کے ایک کمرے میں اختیار کر رکھی تھی۔ گھر بسانے کا جھمیلا ہی نہیں پالا تھا۔ جونہی کوئی گاہک احاطے میں قدم رکھتا اسے دیکھ کر لگا بندھا خیر مقدمی کلمہ ادا کرتا:
’’بسم اللہ۔ آؤ جی۔‘‘
کوئی مجبور انسان ایک ہزار روپے کی چیز بیچنے آتا تو اسے سو روپے کی پیش کش کرتے ہوئے کہتا:
’’کام چلاؤ جی۔‘‘
وہ احتجاج کرتا تو جواب دیتا:
’’اور کیا دوں؟ آخر مجھے بھی اپنا کام چلانا ہے!‘‘
خریدار کو چیز بیچتے ہوئے اس کی گفتگو اس قسم کی ہوتی:
’’یہ دیکھیں بالکل نئی نکور ہے۔ شو روم سے ہزار بارہ سو سے کم میں نہیں ملے گی۔ میں نے نو سو روپے میں خریدی ہے۔ آپ مجھے منافع نہ دیں۔ اپنا کام چلائیں۔۔‘‘
قدرت بعض لوگوں کو کسی مخصوص کام کے لئے دنیا میں بھیجتی ہے۔ راجا انہی میں سے ایک تھا۔ وہ فطری کباڑیا تھا۔ اگر خمیر میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ گھرکے عسرت زدہ ماحول نے پوری کر دی تھی۔ ابھی ماں کے بطن ہی میں تھا کہ باپ نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ جوان بیوہ اور نومولود یتیم کے ساتھ رشتہ داروں نے وہی سلوک روا رکھا جو اس معاشرے کا عام چلن ہے۔ جب کسی نے سر پر ہاتھ نہیں رکھا تو نادار عورت نے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنے کے لئے چھاؤنی کی دو تین کوٹھیوں میں کام شروع کر دیا۔ اکلوتے بچے کو پال پوس کر جوان کرنا اس کا واحد مقصد حیات تھا۔
ماں جو مشقت کرتی تھی اس سے دو وقت کی روٹی تو میسر آ جاتی تھی مگر دیگر ضروریات زندگی کے لئے اترنوں پر انحصار کرنا پڑتا۔ کرائے کے چھوٹے سے گھر میں ضرورت کی ہر شے رحم دل اور فیاض بیگمات کی بخشی ہوئی تھی۔ راجا جب پانچ چھ سال کا ہوا تو ایک بیگم صاحبہ کے سمجھانے بجھانے اور ذاتی کوشش سے اسے سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کی سکول یونیفارم، بستہ، کتابیں، عام کپڑے اور کھلونے بھی بیگمات کی عطا ہوتے۔ اس طرح اس نے نو جماعتیں پاس کر لیں۔ سکول آتے جاتے یا یونہی آوارہ پھرتے ہوئے اسے جہاں کہیں کوئی گری پڑی چیز ملتی اسے اٹھا لیا کرتا۔ یوں اس کے ذاتی اثاثے میں پرفیوم کی خالی خوش نما شیشیاں، ہر برانڈ کے سگریٹ کی ڈبیاں، رنگین تصویروں والی ماچسیں، کاسمیٹکس کی خوبصورت پیکنگز، چینی کے دیدہ زیب ٹوٹے ہوئے گل دان، استعمال شدہ مار کر اور بال پین، لوہے کے چھوٹے چھوٹے بے کار پرزے اور ایک دو مقناطیس بھی شامل ہو گئے تھے۔ بچپن میں اس نے ایک فوجی افسر کے بچے کی استعمال شدہ ٹرائیسکل چلائی تھی۔ جب دسویں میں پہنچا تو کہیں سے ایک پرانی بائیسکل بھی مل گئی۔ اس وقت تک اسے ردی اخبار، کاپیاں، کتابیں، گتے اور خالی بوتلیں بیچنے کا خاصا تجربہ ہو چکا تھا۔ جب کوٹھیوں سے لائی ہوئی انواع و اقسام کی بے کار چیزیں ذرا زیادہ جمع ہو جاتیں تو ماں بیٹا محلے کے کباڑیے کے ہاتھ بیچ آتے تھے۔ کبھی اپنا پسندیدہ مشروب فانٹا پینے کو جی چاہتا تو وہ خو دبھی سٹاک میں سے کوئی چیز اٹھا کر کباڑ خانے جا پہنچتا۔ دسویں جماعت میں ترقی پانے تک خان کباڑیے سے اس کی اچھی خاصی بے تکلفی ہو گئی تھی۔ اس کے مشورے پر وہ فارغ اوقات میں نزدیکی گنجان آباد بستیوں کا سائیکل پر چکر لگانے لگا۔ ابتداء میں جھجک اور شرم مانع ہوئی مگر جلد ہی گلی خالی پا کر صدا لگانے لگا:
’’چھان بورا بیچ، سوکھی روٹی بیچ، ردی اخبار بیچ، ٹین ڈبہ، لوہا پرانا، نائیلون کی جوتیاں بیچ۔۔‘‘
جب خان کی دی ہوئی نقدی ختم ہو جاتی اور سائیکل کے کیرئیر پر لٹکائے ہوئے دونوں بورے بھر جاتے تو وہ واپسی کی راہ لیتا اور کمیشن وصول کر کے شاداں و فرحاں گھر لوٹ جاتا۔ جلد ہی پیسوں کی کشش نے اسے سکول کا راستہ بھلا دیا۔ اس نے کباڑ خانہ چلانے کے لئے کاروباری رموز اتنی جلدی سیکھ لئے کہ ذاتی کاروبار کے خواب دیکھنے لگا۔ یہ سوچ کر اکثر حیرت میں ڈوب جاتا کہ کوڑیوں کے مول خریدی ہوئی اشیاء فوراً دگنے پیسوں میں کیسے بک جاتی ہیں! بڑے بڑے بیوپاریوں کے کارندے خود ہی مال اٹھانے کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ نقد و نقدی ادائیگیاں ہوتی ہیں اور فٹافٹ مال ٹھکانے لگ جاتا ہے!
تیس برس کی عمر کو پہنچنے تک راجا اپنا ذاتی کباڑ خانہ کامیابی سے چلانے لگا تھا۔ اگلے دو سالوں میں اس نے ’’آرکو آکشن مارٹ‘‘ کی بنیاد ڈالی تو اس کا بینک بیلنس اتنی تیزی سے بڑھا کہ وہ خود بھی حیران رہ گیا۔ ماں نے گذشتہ پانچ چھ سالوں سے کوٹھیوں میں کام چھوڑ کر مصلا بچھا لیا تھا۔ مگر خوش حالی آنے کے با وصف طبعاً شکر گزار عورت اپنی محسن اور مہربان بیگمات کو نہیں بھولی تھی۔ وہ ان سے ملنے اکثر بنگلوں پر جایا کرتی۔ بیگموں کو بتاتی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے لئے بے حد بے قرار ہے۔ خود راجا کا انگ انگ عورت، عورت پکارتا تھا۔ مگر کاروباری مصروفیات اور روز افزوں ترقی نے اسے اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ اس لازمے پر سوچنے کی اسے فرصت ہی نہ ملتی۔ ماں کبھی یہ قصہ چھیڑ بیٹھتی تو شادی کے لئے ضروری بری کے جوڑوں، طلائی زیورات اور ولیمے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے حوصلہ ہار جاتا۔ بیوی کو دو وقت کھانا کھلانے پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر شادی کے جملہ مصارف کا سوچ کر جان نکلنے لگتی تھی۔
راجا دھیلا بھی خرچ کرنے لگتا تو پہلے دس مرتبہ سوچتا۔ اس کا قول تھا کہ چیز اولاً ضرورت کے تحت خریدنی چاہئے، قصداً یا محض شوقیہ ہرگز نہیں۔ دوئم جس شے کی ضرورت ہو اگر وہ اچھی حالت میں سیکنڈ ہینڈ مل جائے تو نئی پر پیسہ برباد کرنا نری حماقت ہے۔ کسی دوست کو کوئی نئی شے خریدتے دیکھتا تو ناصحانہ انداز میں کہتا:
’’سیکنڈ ہینڈ سے کام چلاؤ جی۔۔ نئی کیا کرنی ہے۔ خواہ مخواہ کا خرچہ ہی ہے۔۔‘‘
اس کے اپنے استعمال میں جتی چیزیں تھیں سبھی سیکنڈ ہینڈ تھیں۔ موبائل فون، کلائی گھڑی، بٹوہ، موٹرسائیکل، پلنگ، ٹی وی ٹرالی، ٹی وی، الماری، قالین، پردے اور برتن سب پرانے تھے۔ حتیٰ کہ تن کے کپڑے بھی ہاتھی چوک کے قریب واقع ’’کراؤن امپورٹڈ کلودنگ سنٹر‘‘ سے خریدا کرتا۔
اپنی مستحکم مالی حیثیت کا بھید اس نے اپنی ماں کو بھی نہیں دیا تھا۔ اس نے باور کر لیا تھا کہ بیٹے کا کاروبار بظاہر پھیلا ہوا لگتا ہے، آمدن اتنی نہیں ہے۔ ایک روز مارٹ کے قریب ہی وہ بدنصیب عورت سڑک کے حادثے میں شدید زخمی ہوئی اور اگلے ہی روز بیٹے کا گھر بسانے کی حسرت دل میں لئے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔ تعزیت کے لئے قریبی رشتہ دار اور برادری کے لوگ آئے تو راجا نے ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اپنایا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ غربت کے دنوں میں جب ان لوگوں کی مدد کی ضرورت تھی تو کسی نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا تھا۔ اب وہ آسودہ حال ہے تو سب خواہ مخواہ بڑھ چڑھ کر اپنائیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ قریبی تعلقات استوار کرنے کی آڑ میں مال ہتھیانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں۔ صرف حلیمہ نامی ایک عورت اسے پر خلوص لگتی، جو اس کی رشتے کی خالہ تھی۔ وہ مرنجاں مرنج عورت اس کے کباڑ خانے کے قریب کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔ سڑک سے گزرتے ہوئے اکثر احوال پوچھنے آ جاتی۔ اسے دیکھ کر راجا کو اپنی مرحومہ ماں یاد آنے لگتی۔ ماسی حلیمہ بھی امیروں کی کوٹھیوں میں کام کر کے گزر اوقات کرتی تھی۔ راجا فارغ ہوتا تو اس کے سامنے پلاسٹک کی کرسیوں میں سے ایک گھسیٹ کر بیٹھ جاتی۔ چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کرتی اور پھر دعائیں دے کر رخصت ہو جاتی۔
راجا نے بارہا محسوس کیا تھا کہ ماسی جب بھی اس کے سامنے آ کر بیٹھتی ہے، اس کی کرسی کے نیچے جڑی ہوئی اینٹوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہے۔ بالآخر ایک روز دل کی بات اس کی زبان پر آ ہی گئی:
’’مشکور پتر۔ اب تم اتنے بڑے سیٹھ بن گئے ہو۔ اپنے بیٹھنے کے لئے نئی کرسی ہی خرید لو۔۔‘‘
راجا مسکرایا:
’’ماسی پہلی بات تو یہ ہے کہ میں سیٹھ ویٹھ بالکل نہیں ہوں۔ بس سمجھو کام چل رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سی نئی کرسیاں اندر پڑی ہیں۔ فرنیچر کی مرمت اور پالش کرنے والے کاریگر بھی شو روم کے پچھلے حصے میں کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس کرسی میں کوئی خرابی نہیں۔ اس کی سیٹ اور بیک میں بہترین فوم اور لیدر استعمال کیا گیا ہے۔ پانچ چھ سال سے فسٹ کلاس کام چل رہا ہے۔ جب یہ بیچاری مجھے کچھ نہیں کہتی تو میں اسے کیوں رد کروں؟‘‘
ماسی حلیمہ مسکرائی اور کسی گہرے خیال میں گم ہو گئی۔ قدرے توقف کے بعد کہنے لگی:
’’اچھا میں چلتی ہوں۔ تمہاری یہ جگہ بڑی ہی ٹھنڈی ہے۔ مجھے تو کمنی لگ گئی ہے!‘‘
اگلی صبح ابھی راجا بستر میں نیم دراز چائے پینے میں مشغول تھا کہ ماسی دوبارہ آ ٹپکی۔ راجا اس کی بے وقت اور غیر متوقع آمد پر حیران ہوا۔ اس کے چہرے پر فکر اور گومگو کی کیفیت دیکھ کر پوچھنے لگا:
’’ماسی خیر ہے نا؟‘‘
’’میرے پاس کچھ گھریلو سامان ہے جسے بیچ کر نئی نٹنگ مشین خریدنا چاہتی ہوں۔ اگر تم خریدنا چاہتے ہو تو چل کر دیکھ لو۔‘‘
ماسی نے سادگی سے کہا۔
راجا ہنسنے لگا:
’’بس ماسی! میں تو گھبرا ہی گیا تھا تمہیں پریشان دیکھ کر۔ لو چائے پیو۔۔‘‘پھر کہنے لگا ’’ماسی! میں کباڑیا ہوں۔ میرا تو کام ہی سیکنڈ ہینڈ مال ٹھکانے لگانا ہے۔ اس پیشے میں سوئی سے لے کر بحری جہاز تک ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے۔ بس جیب میں پیسہ ہونا چاہئے۔ ادھرسودا برابر آتا ہے، ادھر ڈن ہو جاتا ہے!‘‘
ماسی کی آنکھوں میں امید کی کرن نے چمک ماری۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کی جگہ نا امیدی کی دھند نے لے لی۔ چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتار کر بولی:
’’مشکور پتر! تم بڑی ہمت والے ہو۔ اللہ تجھے بحری جہاز خریدنے کی توفیق بھی ضرور دے گا۔ میرا مسئلہ حل کر دو تو تجھے دعا دوں گی۔۔ صبح صبح تکلیف دی ہے۔‘‘
راجا اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
’’کوئی بات نہیں ماسی۔ میں ٹرایڈنٹ کو کک مارتا ہوں۔ ابھی چلتے ہیں۔ اللہ کرے تیرا کام بن جائے اور میرا بھی۔ بالکل نئی نٹنگ مشین اندر رکھی ہوئی ہے۔ فکر نہ کرو صرف سودا ڈن ہونے کی دیری ہے۔۔‘‘
فرنیچر بہت معمولی قسم کا تھا۔ ویسے نیا مگر رگڑیں لگی ہوئیں۔ ایک ڈبل بیڈ، ایک صوفہ، ایک سنگھار میز اور برتنوں کے لئے چھوٹا سا شوکیس۔ سنٹرل ٹیبل زیر استعمال تھی۔ سارا سامان بارہ مربع فٹ کے کمرے میں ٹھنسا ہوا تھا۔ راجا نے گہری کاروباری آنکھوں سے اندازہ لگا لیا کہ سارا فرنیچر چالیس پچاس ہزار روپے دے سکتا ہے۔۔ ماسی کو دیکھ کر چونکہ ماں یاد آ جاتی ہے اس لئے پچیس فی صد یعنی دس بارہ ہزار کی رقم پیش کرنے سے خیر سگالی کا جذبہ خوب فروغ پائے گا۔ وہ ماسی کے ساتھ دروازے کی طرف پیٹھ کئے فرنیچر دیکھنے میں منہمک تھا کہ سینٹر ٹیبل پر برتن رکھنے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے چودھویں کا چاند کمرے میں طلوع ہو گیا ہو۔ بھرے بھرے جسم والی ایک خوبصورت اور پر شباب لڑکی ڈریسنگ سٹول پر بیٹھی دو پیالیوں میں چائے انڈیل رہی تھی۔ اس کے بدن سے پھوٹنے والی نسوانی کشش کی توانا لہریں راجا کا دل گرمانے لگیں۔ لڑکی نے ایک بار بھی پلکوں کی چلمن اٹھا کر اس کی جانب نہیں دیکھا تھا۔ مگر راجا کی نس نس سے ایک گرسنہ آنکھ پوری رغبت سے اسے تاڑ رہی تھی۔
’’یہ میری بیٹی کلثوم ہے۔‘‘ ماسی نے دھیرے سے کہا۔
راجا کو متوجہ پا کر لڑکی لجا گئی اور چائے انڈیل کر دروازے کی طرف لپکی۔ سرو قد لڑکی کا بدن پشت سے انتہائی پر کشش تھا۔ مگر یہ دیکھ کر راجا کو شدید ذہنی جھٹکا لگا کہ لڑکی ایک ٹانگ سے لنگڑاتی ہے۔ اس نے حیرت سے ماسی کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ بے کس عورت کی رنگت زرد پڑ چکی ہے اور وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر چبانے لگی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں تاجر حضرات دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ کائیاں اور معاملہ رس ہوتے ہیں۔ راجا کباڑیا جو عام تاجروں کا بھی باپ ثابت ہوا تھا فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔
ماسی حلیمہ ہلدی چہرے اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہہ رہی تھی:
’’بدنصیب کو بچپن میں پولیو ہو گیا تھا۔ ورنہ میری بچی کو اللہ نے ہزار صفتیں دی ہیں۔ اتنی سگھڑ بیٹی کوئی کوئی ہو گی۔ میں نے پائی پائی جوڑ کر اس کی شادی کی تھی۔ حرام زادہ جی پی او میں ڈاکیا ہے۔ چھ مہینے بعد ہی ماں کی باتوں میں آ کر اس نے شہدی کو طلاق دے دی۔‘‘ ماسی کے حلق سے چیخ سی نکلی۔ وہ رو رہی تھی۔
راجا کو ماسی پہ ترس بھی آیا اور پیار بھی۔ اس کے کاندھے کے گرد بازو ڈال کر ساتھ لگاتے ہوئے بولا:
’’ماسی تم میری ماں بجا ہو۔ مت روؤ۔ بس ڈن ہی سمجھو۔۔!‘‘
ماسی کی بلا جانے کہ ڈن کیا ہوتا ہے۔ وہ سمجھی کہ یونہی سعادت مندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تاہم ہمدردانہ لب و لہجہ محسوس کر کے اس کی ڈھارس بندھی اور وہ دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھنے لگی۔
راجا آہستہ آہستہ اس کے کندھے دباتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ سیکنڈ ہینڈ ہے تو کیا ہے؟ بالکل نئی جیسی ہے۔۔ ایک ٹانگ میں لنگ سہی مگر میاں بیوی کے باہمی تعلق میں ٹانگ کا عمل دخل ہی کیا ہے؟ میرے پاس کہاں اتنا وقت ہوا کرے گا کہ فوجی افسروں کی طرح بیگم کو ہمراہ لئے شام کو واک کے لئے نکلوں۔ ایسی بیوی بہت بڑی نعمت ثابت ہو گی جو کہیں آنے جانے سے گھبرائے اور گھر بیٹھنا پسند کرے۔ مجھے کام چلانا ہے اور وہ انشاء اللہ خوب چلے گا۔۔ اب یہ ہے کہ ماسی بات وارے کی کرے تو سودا ڈن کروں۔‘‘
راجائی سوچوں کا سلسلہ تب منقطع ہوا جب ماسی نے دوبارہ لب کشائی کی۔
’’جب سے اللہ بخشے سکینہ فوت ہوئی ہے، مجھے بھی وہم ہونے لگا ہے کہ میں جلد مر جاؤں گی۔ بیٹی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ بیٹے کو تو پروا ہی نہیں۔ جب کا نائیک بنا ہے چھٹی کم کم ہی آتا ہے۔ سوات میں ڈیوٹی ہے۔ چار چھ مہینے بعد چند روز کے لئے آئے بھی تو میری بہو، پنج پھلاں رانی، اسے ساتھ لے کر ماں کے پاس کہوٹہ چلی جاتی ہے۔ آج کل بھی دونوں وہیں گئے ہوئے ہیں۔ میری اپنی کمائی اتنی ہے کہ ہم ماں بیٹی کا خرچہ پورا ہو جاتا ہے۔ بیٹے سے میں کچھ نہیں لیتی۔ لیکن میری بہو کو نند سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ ظالم بدبخت بات کرتے ہوئے ذرا نہیں سوچتی۔ کہتی ہے وہ ساری زندگی لنگڑی کو کہاں سنبھالتی پھرے گی۔ حالانکہ میری بچی نے دستکاری سکول سے کام سیکھا ہوا ہے۔ ٹنچ بھاٹہ میں ریڈی میڈ کپڑوں کی بڑی دکانیں ہیں۔ میں نے دو چار دکانداروں سے بات کی ہوئی ہے۔ سوچتی ہوں میں مر گئی تو وہ اپنے ہنرسے گھر بیٹھی روزی کما لیا کرے گی۔۔‘‘
ماسی حلیمہ دل کی بات زبان پر لانے کی بجائے ادھر ادھر کی ہانک رہی تھی۔ زخم خوردہ ماں کے لئے اپنے منہ سے بیٹی کے رشتے کی بات کرنا اتنا سہل نہیں تھا۔ بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب کلثوم کنواری تھی تو درجنوں رشتے آتے تھے، مگر اکثر لوگ واپس مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔ آخر منتوں مرادوں کے بعد رشتہ ہوا بھی تو ایسا کہ کاش کبھی نہ ہوتا۔ اب تو طلاق کا داغ بھی لگ چکا ہے۔ اس معاشرے میں اچھی بھلی لڑکیوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کیا خبر کیا جواب سننے کو ملے؟ ادھر راجا کو بے چینی لگی ہوئی تھی کہ ماسی سیدھی سیدھی بات کیوں نہیں کر رہی۔ چالاک ذہن خود اسے پہل کاری سے روک رہا تھا۔ تاجرانہ ذہنیت اس پہلو پر غور ہی نہیں کر رہی تھی کہ ماں کا دل انکار سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ جب صبر کا یارانہ رہا تو وہ بول اٹھا:
’’ماسی!ہم دونوں خواہ مخواہ فضول باتیں کر رہے ہیں۔ تمہارا اور میر ادونوں کا کام چل سکتا ہے۔ ہم دونوں کے لئے یہ سودا وارے کا ہے۔ اس لئے ڈن کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہئے۔۔۔ جن کپڑوں میں تمہاری بیٹی بیٹھی ہے، مولوی کو بلا کر انہی کپڑوں میں میرے ساتھ کلمے پڑھواؤ۔۔ یہ سامان جہیز بھی ادھر ہی جائے گا جہاں مشین پڑی ہے۔ نٹنگ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بھلا میں اسے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکتا؟ تم اپنی بیٹی کو ظالم بہو سے بچاؤ۔۔‘‘
ماسی حلیمہ نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے راجا کا سر دونوں ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیا اور بولی:
’’اللہ تجھے بڑے بخت لگائے گا۔ انشاء اللہ ایک دن تو بحری جہاز بھی ضرور خریدے گا!‘‘
٭٭٭
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...