دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دِکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔ پھَٹ پھَٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمعرات کا دن تھا۔ مہادوُ آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کی ایک دوکان سے پانچ انچ لمبے بارود کے رول کے تین ٹکڑے کر کے کپڑے کی چھوٹی سی تھیلی میں لایا تھا۔ یہ چھوٹے بم وہیں آس پاس کے گھروں میں بنائے جاتے تھے اور کوئی سوا سو ڈیڑھ سو روپیوں میں بڑی آسانی سے مل جاتے تھے۔
مہادو نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی کپڑے کی تھیلی کو دونوں پیروں کے پنجوں کے درمیان دبایا۔ ہونٹوں میں بیڑی پھنسا کرماچس کی تیلی سے سلگایا۔ جھُک کردائیں ہاتھ سے تھیلی میں سے بارود کا ایک ٹکڑا نکالا۔ ہونٹوں کی سُلگتی بیڑی کو بائیں ہاتھ میں لیا۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے بارود کے فیتے کو آگ دکھائی اور سُرسُراتے ہوئے بارود کو پھرتی کے ساتھ ندی میں پھینک دیا۔ پانی کی لہروں میں ’’ پھَٹ پھَٹ‘‘ کی آواز کے ساتھ ڈھیر ساری مچھلیاں اچھلیں اور پانی کی سطح پر مَری ہوئی مچھلیاں دکھائی دینے لگیں۔ مہادو نے مچھلیوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ پانچ چھ انچ کی بڑی مچھلیاں اُس نے آسانی سے پانی کی سطح سے سمیٹیں اور کمر میں اُڑسے ہوئے ایک تھیلے کو نکال کر اس میں بھر لیں۔ پھر کمر کمر پانی میں اتر کر ندی کی اُتھلی سطح سے اور مچھلیاں نکال نکال کر کنارے رکھے اپنے سامان کی طرف پھینکنے لگا۔ اب تک کچھ مچھلیاں ندی کے پانی میں تڑپ اور اچھل رہی تھیں۔
ندی کے تین حصوں میں مہادُو نے اسی طرح بارود لگا کر مچھلیاں اکٹھا کیں اور تھیلے میں بھر لیں۔ دوپہر کے تین بج چکے تھے۔ مہادو نے آسمان کی جانب دیکھ کر اندازہ لگایا۔ صبح پی ہوئی تھوڑی سی دیسی شراب کا نشہ اتر گیا تھا۔ اس نے مچھلیوں سے بھرا ہوا تھیلا اٹھایا اور اپنے بائیں کندھے پر ڈال لیا۔
ممبئی سے تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر سینٹرل لائن پر لوکل ٹرین کا آخری اسٹیشن کرجت ہے۔ کرجت سے پندرہ کلو میٹر دور نسرا پور گاؤں تینوں طرف ندیوں سے گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب اُلہاس ندی دھیمی رفتار سے بہتی رہتی ہے اور دوسری جانب پیج ندی کی رفتار کچھ زیادہ ہے۔ پیج ندی میں خوب مچھلیاں ہوتی ہیں۔ نسرا پور کے تیسری جانب یہ دونوں ندیاں ملتی ہیں اور اچھی خاصی رفتار کے ساتھ ایک ہو کر بہتی ہیں۔ اُلہاس ندی سے مِل کر پیج ندی اپنا نام کھو دیتی ہے۔
مہادو پیج ندی کے کنارے ’واکس‘ گاؤں سے لگی ہوئی ’واکس واڑی‘ میں رہتا تھا۔ اِس علاقے میں چار باڑیاں ہیں۔ واکس، کلمبولی، سالوڑ اور ایکسل۔ چاروں قریب قریب ہیں۔ یہ جنگلاتی علاقہ ہے۔ مہادُوا سی طرح مچھلیاں پکڑ کر شام کونیرل کے بازار میں بیچنے چلا جاتا تھا۔ ’واکس واڑی‘ قریب پچیس گھروں سے آباد تھا۔ وہاں کے لوگ لکڑی کی پتلی ڈالیوں سے گھر بناتے ہیں اور اس پر گوبر لیپتے ہیں۔ اِن سیدھے سادے آدیواسی قبائلیوں کو قدرت کی گود میں ہی سکون ملتا ہے۔
صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ مہادو باکس کے رِکشہ اسٹینڈ کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ سیاہ بال دھُول سے اٹے ہوئے۔ تبھی ایک لڑکا کالج کا بیگ کندھوں پر لٹکائے ٹیبل کی طرف بڑھا۔ مہادو نے اسے شوق سے دیکھا۔ لڑکا اس کے پاس نہیں بیٹھا۔ اُسے شراب کی بوٗسی محسوس ہوئی تھی۔ پیچھے دو ٹیبل چھوڑ کر بیٹھا۔ ناشتہ ختم کر کے لڑکا کاؤنٹر پر پہنچا۔
’’کتنے ہوئے؟‘‘
’’وڑا پاؤ اور چائے۔ بیس روپئے۔‘‘
’’ پرس بھول آیا ہوں بھائی! کل لا کر دے دوں گا۔‘‘ وہ لڑکا کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے ہوٹل والے سے دھیرے دھیرے کہہ رہا تھا۔
’’کھانے سے پہلے دیکھ لینا منگتا تھا نا!‘‘
’’معاف کرو۔ غلطی ہو گئی بھاؤُ۔‘‘
’’تیرے جیسا بہت دیکھیلا ہے۔‘‘ ہوٹل والے نے کہا، ’’سیدھے سیدھے پیسے نکال۔ نہیں تو جانے نہیں دوں گا۔ سمجھتا ہے کیا خود کو!‘‘
’’کالج جانے کی جلدی میں نکل گیا بھاؤ! پرس بھول گیا تھا۔ کل پکّا چُکا دوں گا۔‘‘
’’ایسا نہیں چلنے والا۔ ایڑا سمجھا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں نہیں بھاؤُ، بہت غلطی ہوئی۔‘‘
’’کائے کا بھاوُ ٔ!‘‘
’’مازے کِتی زالے؟‘‘ مہادو لڑکے کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ لڑکا ذرا دور ہٹ گیا۔
’’وڑا پاؤ چائے۔ بیس روپئے۔‘‘
’’ہے گھے چالیس روپئے۔ یاچے پَن گھے۔‘‘ (یہ لو چالیس روپئے۔ اِس کے بھی لے لو۔) مہادو نے لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہا اور پیسے دے کر جلدی سے ہوٹل کے باہر آ گیا۔
’’میں تم کو کل پیسے لا کر دے دوں گا۔ کہاں ملو گے؟کل اِسی وقت اِسی جگہ ملو گے؟‘‘ لڑکا تیزی سے مہادو کے پیچھے باہر آیا تھا۔
مہادو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
’’دیکھو بھاوُ ٔ!‘‘
مہادو نے پلٹ کر لڑکے کی طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں پہچان کی چمک تھی۔ اُس نے سوچا، ’’ اِسے تو یاد بھی نہیں کہ گاؤں کی شالا میں ہم دونوں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ میں کِدھر رہ گیا … اور یہ … !‘‘
’کوئی بات نہیں ‘کے انداز میں دایاں ہاتھ اُٹھا کر اپنے کان تک لایا۔ انگلیوں کو جھٹکا اور چپ چاپ نکل گیا۔
سالوڑ کے قریب جامن کے گھنے پیڑوں کو لگی ہوئی سڑک کے کنارے زمین پر مہادوُ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔ آج بازار میں مچھلیوں کی فروخت اچھی ہوئی تھی۔ دونوں نے خوب پی تھی۔ مہادو نے ٹین کے خالی ڈبّے کے ٹھوکر سے اڑائے جانے والی آواز سے اپنی سُرخ سُرخ آنکھیں کھول دیں۔ کالج جاتے ہوئے لڑکے نے اسے آواز دی، ’’او بھاؤ! اُدھر جھاڑ کے نیچے سوؤ نا!‘‘
’’تُجھیا باپا چا کائے جاتو اے رے سالا؟(سالا تیرے باپ کا کیا جاتا ہے بے … ؟)، مہادو نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے اسے گالی دی۔
’’ارے! یہ تو وہی ہے۔ وڑا پاؤ چائے کے پیسے دے دوں؟‘‘ لڑکے نے پہچانا۔
’’ مگراِس پرتو نشہ سوار ہے۔‘‘ لڑکا بُدبُدایا اور جلدی سے سڑک پار کر کے وہاں سے نکل گیا۔
شام کو مہادوُ جب اپنے چھوٹے سے جھونپڑے میں لوٹا تو اُس کے پاس پیسے برائے نام ہی بچے تھے۔ اس نے دال چاول کے علاوہ کچھ گھریلو سامان سے بھری ہوئی تھیلی اپنے صاف سُتھرے جھونپڑے میں ایک طرف رکھ دی۔
’’ایوڑھیا اُشیر؟‘‘ (اِتنی دیر لگا دی؟)، اس کی بیوی نے ٹھہر ٹھہر کر پوچھا۔ مہادو کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ سنبھل کر ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر پاس پڑی چٹائی پر لیٹ گیا۔
اُس کی دُبلی پتلی، اُسی کی طرح چھوٹے قد اور رنگ روپ والی بیوی پدما نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُسے سہارا دیا اور پوچھا، ’’جے اُون گھے چل، بکریا چا مٹن بَنوَلَے‘‘ (کھانا کھا لے۔ بکرے کا مانس بنایا ہے )
’’ہو، جیبھ، ماسے، گھر چا انگنا تلی کومبڑی آنی رانٹی سسا یا پیکشا ویگلی مجا ماگت ہوتی‘‘ (ہاں، جیبھ مچھلی، گھر کی آنگن والی مرغی اور جنگلی خرگوش سے الگ مزا مانگ رہی تھی) وہ کہنا چاہتا تھا لیکن نیند اور نشے میں زبان نے لفظوں کا ساتھ نہ دیا۔ مہادو نے کروٹ لے کر بیوی کی جانب دیکھا۔ مسکرایا اور پوچھا:
’’پورگا کُٹھے ہائے؟‘‘ (بچہ کہاں ہے؟)
پدما نے اشارہ کیا۔ مہادوُ نے مِچمِچاتی ہوئی آنکھوں سے دوسری چٹائی پر سوئے ہوئے بچے کو دیکھا اور کچھ بڑبڑاتا ہوا نیند کی گود میں چلا گیا۔
پدما نے جھونپڑے میں بنی لکڑی کی پھلی پر رکھے مِٹّی کے ٹِمٹِماتے ہوئے دیئے میں اُس کے پاس رکھی بوتل سے تیل اُنڈیلا۔ کمرے میں روشنی بڑھ گئی۔ سرکار گھر کُل کی اسکیم کے تحت گھر اور شوچالیہ بنانے کے لئے پیسے دیتی تھی۔ پیسے تو انہوں نے لے لئے تھے لیکن یہ اپنے پرانے گھروں میں ہی خوش رہتے تھے۔ پیسے تو کب کے خرچ ہو چکے تھے۔
پدما نے جھونپڑے کے کنارے چھت سے لٹکتے چھینکے میں دودھ کا برتن رکھ دیا۔ وہ بھی آج دیر سے لوٹی تھی۔ کمر سے پِنڈلی تک بندھی گول ساڑی پر لپیٹا ہوا تولیہ نکال کراس نے دیوار سے بندھی رسی پر ٹانگ دیا۔ بلاؤز کے اوپر سینے پر ساڑی کے پلّو کے بجائے دوپٹّے کی طرح اوڑھے ہوئے تولیے کو خود سے الگ کر کے بچے پر اڑھا دیا اور مٹی سے پُتی ہوئی زمین پربیٹھ کر برتن میں کھانا نکال کراکیلے ہی کھانے لگی۔
پدما ایک کواری میں کام کرتی تھی۔ پیسے والے لوگ پہاڑ خرید لیتے اور اُسے بارود سے پھوڑ کر عمارتیں بنانے کے لئے ٹھیکیداروں کو بیچ دیتے۔ دھیرے دھیرے اس پتھر کے کان والی زمین استوار ہوتی جاتی۔ یہاں فارم ہاؤس بنتے تو ان کی دیکھ بھال کا کام بھی کسی نہ کسی آدیواسی پریوار کو مل جاتا اور ان کی زندگی ’روز کنواں کھودو، روز پانی پیو ‘والی چاکری سے چھوٹ جاتی۔ موسم کے مطابق کچھ قبائلیوں کو پھل بیچنے یا باغبانی کے کام بھی مل جاتے تھے۔ ویسے ان کو مہینے کی تنخواہ والے کام پسند نہیں ہوتے۔ یہ لوگ گاؤں کے بڑے لوگوں کے پاس کام کرتے ہیں۔ ندی کی ریت گھمیلے میں بھر کر اینٹ بنانا، ریت چھلنی میں ڈالنا جس سے ریت سے بڑے پتھر الگ ہو جائیں، ٹریکٹر میں بھرنا … بس اِسی طرح کے کام کرتے۔ دن بھر کی کڑی محنت کے بعد شام کو انہیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں اور پیسے مل جائیں تو وہ خوش رہتے۔ کل کی بھی نہیں سوچتے۔ اِن کو روز پیسے چاہئیں۔ آج کا کام ختم، آج کا پیسہ ختم … جس دن اچھے پیسے ملیں، اُس دن عید۔
صبح سویرے پدما نے اُٹھ کر کھانا بنایا۔ تینوں نے کھانا کھایا۔
’’توُ شالیت جا؟‘‘ (تو اسکول جا؟)‘ اُس نے اپنے چار سال کے بیٹے سے پوچھا۔
’’نائے۔ ٹیچر آمالا ورگات بند کرتات۔‘‘ (نہیں۔ ٹیچر ہم کو کلاس میں بند کر دیتے ہیں۔)
’’کا؟‘‘ (کیوں؟)
’’کھِڑکی تُون آمی بگھتو۔ تے اِکڑے تِکڑے پھِرتات۔‘‘ (کھڑکی سے ہم دیکھتے ہیں۔ وہ اِدھر اُدھر گھومتے ہیں۔)
’’کائے کاہی شِکوت نائے کا؟‘‘ (کیا کچھ پڑھاتے نہیں؟‘‘)
’’نائے‘‘ (نئیں)
’’آنی مُلے کائے کرتات؟‘‘ ( اور لڑکے کیا کرتے ہیں؟)
’’مُلَا مارتات۔‘‘ ( لڑکے مارتے ہیں)
سبھی باڑیوں میں اسکول نہیں تھے۔ واکس واڑی میں چوتھی تک اسکول تھا۔ ایک ہی کمرے میں چاروں کلاسیں پڑھائی جاتی تھیں۔
پدما پاس کے گھر کے آنگن میں بغیر پلوّ والی پیروں کے درمیان سے لپیٹی ہوئی چھوٹی کاشٹا ساڑی اور بلاؤز میں کھڑی ہوئی بُڑھیاساس کواپنا چار سال کا بچہ سونپ کر مہادوکے ساتھ کام پر نکل گئی۔ پدما پہاڑی کی طرف چلی گئی اور مہادو ندی کی جانب۔
ندی پر پہنچ کر مہادو نے اپنے کیچڑ رنگ آدھی آستین کے شرٹ اور پتلون کی جیبوں کو ٹٹولا۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے بم کی باتی کو بائیں ہاتھ کی بیڑی سے آنچ دکھائی۔ وہ اسے تیزی کے ساتھ ندی میں پھینکنے لگا کہ اچانک بم پھٹ گیا۔ کہنی سے کوئی چار پانچ انچ نیچے سے دایاں ہاتھ ٹوٹ کر زمین پر آ گرا۔ راستے میں پی ہوئی شراب کا نشہ اچانک اتر گیا۔ زمین پر تڑپتے ہوئے ہاتھ سے نکلنے والے خون پر اس نے ایک نظر ڈالی، گردن میں پڑے ہوئے رو مال کو کھینچ کر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کے کٹے ہوئے حصے کو لپیٹا، دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے اسے کس کر پکڑا اور تیزی سے دوڑنے لگا۔ اسے پتہ تھا، اسے اسپتال جانا ہے۔ اسپتال دور تھا۔ لگ بھگ پانچ کلو میٹر دور۔ رکشہ کے انتظار میں کچھ دور دوڑنے کے بعد وہ ایک جھونپڑی میں گھُس گیا۔ جھونپڑی کیا تھی دارو کا اڈّہ تھی۔ زمین پر بیٹھے ہوئے دو بڑی عمر کے مرد اور گاؤن پہنے ہوئے ایک جوان عورت شراب پی رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی سب ہڑبڑا کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک آدمی کے ہاتھ سے اس نے بھرا ہواگلاس لیا اور غٹا غٹ پی گیا۔ اس کے شراب پینے کے دوران وہاں موجود نشے میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اس کے کٹے ہوئے ہاتھ سے ٹپکتے ہوئے خون کا راز سمجھ میں آنے لگا۔ ہاتھ کا پنجے والا حصہ وہ ندی پر چھوڑ آیا تھا۔ ایک رکشہ والا بھی وہاں پینے آیا ہوا تھا۔ وہ اور دو مرد مہادوُ کو رکشہ میں بیٹھا کر اسپتال کی طرف چلے۔
مہادو پیج ندی کے کنارے کافی دیر سے کھڑا ہوا سورج کو ہلکی ہلکی لہروں پر جگمگا تے دیکھ رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اس کی پلکوں کو بار بار جھپکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ مچھلیاں بڑے سکون سے پانی کی مختلف سطحوں پر لہراتی، بل کھاتی، ایک دوسرے سے بتیاتی گُنگُنا ہوتے ہوئے پانی کا مزا لے رہی تھیں۔ اُس حادثے کے کئی مہینے بعد آج مہادو دوبارہ پیج ندی کے کنارے آیا تھا۔ اُس نے زور سے سانس لے کر تازہ ہوا کا مزا لیا۔ قریب ہی پڑے ہوئے کچھ پتّھروں کے بیچ کچھ سوکھے پتّے اکٹھا کر کے اس نے ان میں لائٹر سے آگ لگائی۔ تھیلی سے دس بارہ انچ کی لکڑی کا ایک سِرا آگ میں تپایا۔ وہ آنچ دینے لگا۔ کٹے ہوئے دائیں ہاتھ کی کہنی کے موڑ پر لکڑی کو اس میں پھنسا دیا۔ اب وہ لکڑی کے سُلگتے ہوئے ٹکڑے سے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑے بارود کی باتی کو آگ دکھا رہا تھا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ اُس کے ہاتھ کا زخم پوری طرح سے سوکھ گیا تھا۔
’’آج ماجھیا گھری بکریا چا مٹن شِجیل!‘‘ (آج میرے گھر میں بکرے کا مانس پکے گا! ) بارود پھینکتے ہوئے وہ بڑبڑا رہا تھا۔
پانی کی لہروں میں پھَٹ پھَٹ کی آواز کے ساتھ ڈھیر ساری مچھلیاں اچھلیں اور پانی کی سطح پر مَری ہوئی مچھلیاں دکھائی دینے لگیں۔ اس نے جھُک کر کچھ مچھلیوں کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور چلّایا۔ ’’ایکلا تُمہی ماشیان نو! آج ماجھیا گھری بکریا چا مٹن شِجیل!‘‘ (سنا مچھلیو! آج میرے گھر میں بکرے کا مانس پکے گا! )
٭٭٭