یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔ اِس ڈِیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ اُسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں کی لال مِٹّی پر سپرِنگ اسپرے سے ہر شام پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔
ماڈرن جھونپڑی کی شکل والے کینٹین کے کھپریل کی چھتوں پر امرود کے لدے ہوئے درخت جھُکے ہوئے تھے۔ کینٹین کے باہر اینٹوں کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر گول کِناروں والے بے ڈھب پتھر اچھے لگ رہے تھے۔ کینٹین کے کونے میں پڑے ہوئے پتھر کے ایسے ٹیبلوں پر لڑکے لڑکیاں کہیں جوڑے بناتے ہوئے راز و نیاز میں مشغول تھے اور کہیں گروپ مباحثے میں۔ کینٹین کے اندر داخل ہوتے ہوئے سوپنالی اَگھن کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔
’’ایک پرابلم ہے اَگھَن!‘‘
’’مجھے جلدی ہے۔ پھر کبھی۔‘‘ اِگھن نے کینٹین کے کاؤنٹر پر مِسّل پاؤ اور چائے کے تیس روپئے رکھے، بولا، ’’کل کے پیسے۔‘‘ اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازے تک پہنچتے پہنچتے اُسے سوپنالی کی فکرمند آواز نے پلٹنے پر مجبور کیا۔
اَگھن نے پلٹ کر دیکھا، سوپنالی کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ اس کا دل ایک منٹ کو پگھلا لیکن وہ پلٹ کر وہاں سے نکل گیا۔
ہاسٹل کے اپنے چھوٹے سے کمرے میں وہ چائے کا کپ ہاتھوں میں لئے کچھ دیر بیٹھا رہا مگر دل نہ مانا۔ اٹھا اور گیراج سے بائک نکال لی۔ اگلے دس منٹوں میں وہ کینٹین میں تھا۔
سوپنالی اب بھی وہیں بیٹھی تھی۔ اگھن کو دیکھتے ہی نظریں چرانے لگی۔ ساتھ بیٹھی لڑکیوں نے اسے اشارہ کیا پھر بھی کینٹین کی دیوار کے اسٹینڈ پر سجی سائیں بابا کی چھوٹی سی مورتی پر ٹمٹماتے ہوئے دئے کا اثر ڈالے ہوئے بلب کو دیکھتی رہی۔
’’سوپنالی ذرا سننا تو!‘‘ اگھن نے آواز دی اور سائیں بابا والی دیوار کے نیچے خالی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ سوپنالی نے ان سنی کر دی۔ کچھ لمحوں بعد اگھن اٹھ کر سوپنالی کے پاس آیا۔ پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘ سوپنالی نے سہیلی کی طرف دیکھ کر اگھن کو شاکی نظر سے دیکھا۔
’’تم کچھ کہہ رہی تھیں؟ مجھے ضروری ڈرافٹ بنانا تھا۔ ہاسٹل چلا گیا تھا۔‘‘
’’اوکے۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ انجان بن کر پھر سے اپنے گروپ کا حصہ بن گئی۔ اگھن لوٹ کر اپنے ٹیبل پر چلا آیا اور خاموشی سے جالی کی دیوارسے باہر سڑک پر جانے والی ٹرکوں کو گننے لگا۔
’’بولو!‘‘ تھوڑی دیر بعد سوپنالی اگھن کے ساتھ اس کے ٹیبل پر بیٹھی اس کی محویت کو توڑ رہی تھی۔
’’کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ اگھن خوش ہو گیا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’ارے رو کیوں رہی تھیں؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا؟‘‘
اگھن چپ ہو گیا۔ سوپنالی کی آنکھیں پھر امڈ آئیں۔
’’دیکھو بتا دو۔‘‘
’’او کے۔ ایک پرابلم ہے۔‘‘ نہ گلہ کیا نہ شِکوہ، وہ سیدھے اپنی بات پر اتر آئی۔
’’او کے۔ بتاتی ہوں۔ سنو!‘‘
’’یہاں داخلہ لینے سے پہلے میں ممبئی کے ایک لاء کالج میں تھی۔‘‘
’’کئی بار سن چکا ہوں وکیل صاحبہ!‘‘
’’دیکھو مذاق میں اُڑا رہے ہو آرکیٹیکٹ صاحب!‘‘ سوپنالی ہنس دی، ’’اب ذرا دھیان سے سنو نا! مسئلہ گمبھیر ہے۔‘‘
’’نہیں، اب کچھ نہیں بولوں گا۔ میں بہت سیریس ہو گیا ہوں۔‘‘ اگھَن نے بیمار ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے آنکھیں اور کندھے ڈھیلے کر لیے لیکن اس کے رخسار اس کے اندر کی شوخی سے چمک رہے تھے۔ سوپنالی نے اس کی اس ادا پرکوبی ردّ عمل نہیں دیا۔
’’پورے دھیان سے سنو ورنہ میری پرابلم کا حل ڈھونڈھنے میں کوئی مدد نہیں کر پاؤ گے۔‘‘
اَگھَن خاموش تھا۔ اب وہ چست ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
’’جنتا جونیئر سے بارہویں کامرس پڑھنے کے بعد میں نے ممبئی کے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ بارہویں کے بعد وکالت پانچ سالوں کا کورس ہوتا ہے۔ میں نے اسکالر شپ فارم بھرا تھا اس لیے فیس برائے نام تھی مگر پہلے سال میں ہی لاجک اور لیگل لینگویج دو سبجیکٹس میں فیل ہو گئی۔ مجھے اے ٹی کے ٹی لگ گیا۔ اب راستہ یہی تھا کہ میں فرسٹ ایئر کے دو سبجیکٹس کو لے کر ہی لاء کے دوسرے سال میں داخلہ لے لوں۔‘‘
’’او کے۔ پھر لیا کیوں نہیں! یہاں کے کامرس میں کیوں آ گئیں؟‘‘ اَگھَن سے چپ نہ رہا گیا۔
’’میں نے سوچا، دوبارہ اے ٹی کے ٹی لگ گئی تو! … اس طرح پانچ سالوں میں تو نہ گریجویشن ہی پورا ہو گا اور نہ جاب ہی کر پاؤں گی … دِل لاء سے ہٹ گیا۔ بس فیصلہ کر لیا کہ تین سالوں میں بی کام کر لوں۔ اس کے بعد ایل ایل بی جوائن کروں گی تو تین ہی سالوں کا کورس کر کے ایڈوکیٹ بن جاؤں گی۔ … اور میں نے یہاں بی کام کے لیے ایڈمیشن فارم بھر لیا۔‘‘
’’نہ کرتیں تو مجھ سے کیسے ملتیں!‘‘ اَگھن نے اپنی کالر سیدھی کی۔
’’اس سب میں کچھ وقت لگا۔‘‘ سوپنالی نے اگھن کی شرارت کی جانب دھیان ہی نہیں دیا، ’’جب میں لاء کالج چھوڑ کر اِس کالج پہنچی۔ تو کامرس کے داخلے ختم ہو چکے تھے۔ اس پر میرے بارہویں کامرس کے نمبر صرف پچاس فی صد ہی تھے۔‘‘
’’اوہ!‘‘
’’بی کام کا دروازہ بند تھا لیکن بی اے میں ابھی داخلے ہو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے جلدی سے ذات کے سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی دے کربی اے کے پہلے سال میں داخلہ لے لیا۔
کچھ دن بعد اسکالر شپ فارم نکلے۔ میں سائبر کیفے میں فارم بھرنے گئی۔
’’ کمپیوٹر ایرر دکھا رہا ہے۔ اسے اپنے کالج میں دکھا کر پوچھ تاچھ کر لو۔‘‘ سائبر کیفے والی لڑکی نے مجھے اس ایرر کا ثبوت والا پیپر پکڑا دیا۔
’’پھر!‘‘
’’ ایسے کیسے ایرر آ سکتا ہے!‘‘ کالج کی کلرک میڈم نے مجھ سے ہی سوال کیا۔
میں نے انھیں بتایا۔
’’اپنے علاقے کے سماج کلیان کے علی باغ آفس جاؤ۔ وہاں کے افسر سے جا کر ملو۔ تمہارا کام ہو جائے گا۔‘‘ کلرک میڈم نے مجھے آفس کا پتہ دیا۔
سماج کلیان آفس میں گئی توافسر نے پوری بات سن کر کہا، ’’تم اپنے پچھلے کالج جا کر، وہاں کے کلرک سے کہو کہ تمہارا اسکالر شپ لاک کرے تاکہ اِس کالج میں اسکالر شپ شروع ہو سکے۔‘‘
’’میں دوبارہ لاء کالج گئی۔ کلرک میڈم نے اپنے ہاتھ کا کام چھوڑ کر میرا کام میرے سامنے ہی کر دیا۔ میں خوشی خوشی بی اے کے پہلے سال کا اسکالر شپ فارم بھرنے کے لیے دوبارہ سائبر کیفے پہنچی۔
سائبر کیفے والی لڑکی نے چیک کر کے بتایا۔
’’تمہارا فارم تو بھرا ہوا ہے۔ تم تو لاء کے سیکنڈ ایئر کا فارم بھر چکی ہو۔ اب بی اے کے پہلے سال کا فارم کیسے بھر سکتی ہو!‘‘ میں نے گھبرا کر فوراً سماج کلیان آفس کے افسر کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ، ’’ لاء کالج کی کلرک میڈم نے لاء کالج سے میرا نام کٹوانے کی بجائے میراسیکنڈ ایئر کا ایڈمیشن فارم بھر لیا ہے۔‘‘
’’ارے! یہ تو بڑی گڑبڑ ہو گئی! ایسے کیسے ہوا؟‘‘ وہ بولے۔
’’شاید انھوں نے میری بات سمجھی ہی نہیں تھی۔‘‘ میں نے انھیں جواب دیا۔
’’تم نے اپنی بات ٹھیک سے نہیں کہی ہو گی!‘‘ اَگھن جھنجھلا کر بولا۔
’’اگھن، میں سماج کلیان آفیسر کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی، ’’کچھ کیجئے نا سر!‘‘
انہوں نے مجھے سمجھایا، ’’دیکھو، اب اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہی لاء کالج والے کر سکتے ہیں۔ میں تمہاری پرابلم سمجھتا ہوں۔ تم کئی بار یہاں اس کام کے لیے آئی ہو۔ فون بھی کرتی ہو، لیکن ایک وقت میں دو جگہ کی اسکالر شپ نہیں مل سکتی نا! تم لاء کالج کی کلرک سے کہو کہ وہاں کا اسکالر شپ فارم کینسل کر ڈالے۔ ابھی تمہارے اسکالر شپ فارم پرنسپل کی کیبن میں ہی ہوں گے۔ ابھی وہ یونیورسٹی نہیں گئے ہیں۔ ابھی اُس کی ڈیٹ باقی ہے۔‘‘
’’او کے … او کے‘‘ اگھن نے کہا۔
’’میں پھر ایک بار لاء کالج کی کلرک کے سامنے کھڑی تھی۔‘‘ سوپنالی نے بات آگے بڑھائی، ’’ مجھے دیکھتے ہی کلرک میڈم کے چہرے پر تناؤ چھپانے کی کوشش صاف دکھائی دینے لگی تھی۔ بولیں، ’ایک کام کرو، تم اسکالر شپ فارم ابھی مت بھرو۔ اگلے سال بھرو‘۔‘‘
’’میڈم پلیز!‘‘ میں نے ان سے درخواست کی۔
’’سوپنالی، تم جانتی ہو نا، ہمارے پرنسپل غصے والے ہیں۔ تم جانتی ہو نا! یہاں ایک سال پڑھی ہو نا تم!‘‘
’’پلیز میڈم! سماج کلیان والے افسر بھی یہی کہہ رہے تھے کہ آپ ہی کو کینسل کرنا ہو گا۔ فارم ابھی پرنسپل سر کی کیبن میں ہی ہیں نا؟‘‘
’’نہیں تو!‘‘ وہ صاف مُکر گئیں۔
’’ذرا دیکھ لیجئے میڈم۔‘‘ انہوں نے ’نہ‘ میں سر ہلایا۔
’’مجھے پوری فیس بھرنی پڑے گی۔ … ‘‘ میں نے پھر بِنتی کی۔
’’اب بھری ہے کہ نہیں؟‘‘
’’ہاں رعایت والی فیس … ساڑھے تین سو روپئے بھرے ہیں۔ اوپن والوں کے لیے فیس ساڑھے پانچ ہزار ہے۔ نہیں … فارم نہیں بھرا تو … لیکن … دو سال … تین سال کے تو … اتنے پیسے … !‘‘
’’میں بولتی ہوں نا تمہارے کالج میں۔ … تم چِنتا کیوں کرتی ہو؟‘‘
’’ہاں میڈم، پلیز آپ ہمارے کالج آفس میں اس بارے میں بتایئے۔‘‘
’’ہاں ہاں … اچھا ذرا سماج کلیان والے افسر کو فون تو لگانا۔ پہلے اُن سے بات کر لوں۔‘‘
میں نے فون لگایا تو وہ میرا موبائل لے کر اور مجھے ٹھہرنے کا اشارہ کر کے آفس کے کوریڈور میں چلی گئی۔ پھر کچھ منٹوں میں لوٹ کر میری بات اُس افسر سے کروا دی۔‘‘
’’تم اگلے سال سیکنڈ ایئر بی اے میں اسکالر شپ فارم بھر لینا۔ ابھی مت بھرو۔‘‘ افسرمجھ سے بولے۔
’’چل جائے گا؟‘‘
’’ہاں چل جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر۔‘‘ میں نے بھی اِس معاملے کو یہیں چھوڑ دیا۔ سوپنالی نے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اپنے ہونٹوں سے لگا لی اور غٹ غٹ خالی کر دی۔
’’تو اَگھن! اب اس سال میں بی اے کے سیکنڈایئر میں پہنچ گئی ہوں نا!‘‘ سوپنالی بیتی یادوں سے لوٹ آئی۔ ’’اسکالر شپ فارم کی تاریخیں آ چکی ہیں۔ فارم لینے اپنے کالج کے آفس گئی تھی۔‘‘
’’تم نے پچھلے سال بھی اسکالر شپ فارم نہیں بھرا تھا۔ اب دوسرے سال میں کیسے بھرو گی اور پھر اس سال سے طریقہ بدلا ہے، یہ کہ اب پہلے سال ہی اسکالر شپ فارم بھرنا ہو گا۔ وہی آخری سال تک چلے گا۔ پچھلے سال تک کا طریقہ الگ تھا۔ پہلے ہر سال فارم بھرنا ہوتا تھا۔‘‘ اگھن نے اس کی بات اُچک لی۔
’’ہاں ہاں … بالکل یہی کہا گیا آفس میں۔‘‘ وہ بولی۔
’’اب اِس سال بھی ایسا ہی ہو گا۔ فیس نہیں بھر پاؤ گی۔ اسکالر شپ فارم بھرنے کا آج آخری دن ہے۔ کیا کروں؟ وہ کہتے ہیں کہ پرانا اسکالر شپ کینسل نہیں کروایا اور یہاں فارم نہیں بھرا تو گریجویشن کے پورے تین سالوں کی فیس بھرنی پڑے گی … ہے نا!‘‘
’’ہاں اَگھن! میں اِتنی ساری فیس کیسے بھروں؟ وہ بھی اوپن کی!!‘‘ اس کی آنکھیں گنگا جمنا ہو گئیں۔
’’ارے ایک سال سوتی رہی تھیں کیا؟مجھ سے اب کہہ رہی ہو!‘‘ اگھن بھونچکّا رہ گیا، ’’دیکھنا چاہئے تھا کہ کلرک کیا کر رہی ہے۔ تمہاری غلطی ہے۔‘‘
’’ہاں ہے تو۔‘‘
’’تم اپنے ڈیڈی سے کہو نا یہ سب!‘‘
’’وہ ٹرک چلاتے ہیں۔‘‘
اگھَن چپ چاپ سوچتا رہا۔ پھر اٹھا اور کاؤنٹر سے اپنے من پسند مِسّل پاؤ کی پلیٹ لے کر لوٹا۔
’’پہلے پیٹ پوجا۔ پھر دماغ چلے گا۔‘‘ اس نے پلیٹ میں رکھے دو چمچوں میں سے ایک سوپنالی کو پکڑا دیا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے اگھن۔ سہیلیوں کے ساتھ کھا چکی ہوں … ‘‘ اُس کے سپاٹ چہرے پر اجنبیت سی آ گئی تھی۔ شاید وہ اپنے اندرون میں کچھ کھوج رہی تھی، ’’سنو اَگھن! کل میں اسٹیشن پر بنچ پر بیٹھی ٹرین کا انتظار کر رہی تھی۔
’’دسویں پاس ہونا؟‘‘ بنچ پرپاس ہی ٹرین والے کاکا کب آ بیٹھے، پتہ نہیں چلا۔ پتہ تب چلا جب انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا۔ میں نے انھیں حیرت سے دیکھا۔ وہ رکے، ’’ … ایک سال کا ڈیزل میکینک کا کورس کرنا ہو گا۔‘‘
’’ایسا کرو … سائبر کیفے میں آئی ٹی آئی کا ڈیزل میکینک کا فارم ملتا ہے۔ ایک سال کاکورس ہے۔ وہ بھر دو۔ لسٹ لگتی ہے۔ اگر نمبر لگ جائے تو پنویل، کرجت، لوَجی … میں سے کسی کالج میں ایڈمیشن لے لو۔ ٹرین چلاؤ گی ٹرین! تمہیں ٹرین جاب ضرور ملے گا۔‘‘
اور میں سوچ رہی تھی کہ اس بوڑھے شخص نے کیسے جان لیا کہ میں پریشان ہوں! اب میں بھی بی اے، ایم اے کر کے یہ وہ کورس کہاں کرتی پھروں گی! نوکری کہاں ملتی ہے!‘‘
سوپنالی نے چمچ بھر مِسّل اپنے منہ میں رکھ لیا۔
اگھن حیرت میں غرق اپنی پسندیدہ ڈش کا مزہ لینا بھول گیا۔ پلیٹ میں چمچ رکھا۔ ایک لمحہ سوچا اور بولا:
’’تم ایک کام کروسوپنالی، پاٹل سر ابھی لیکچر میں ہیں۔ دس منٹ میں باہر آئیں گے۔ اُن سے مل لو۔ علی باغ میں ان کا گھر ہے۔ وہاں ان کے بیوی بچے رہتے ہیں۔ ان کا رسوخ بھی ہے۔ میرے آرکیٹکچر کے پروفیسرہیں۔ تم نِراش تو نہیں ہونے لگیں بہادر لڑکی؟چلو میں ہی تمہیں لے چلتا ہوں۔‘‘ اَگھن نے کہا۔
’’نہیں، پہلے میں جا کر بات کرتی ہوں۔‘‘ وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
’’تم ہفتہ بھر لیٹ ہو چکے ہو اَگھَن … !‘‘ پروجیکٹ دیکھ کر پروفیسر پاٹل نے کہا۔
’ساری سر! آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے، کیا کمال پروجیکٹ لائے ہو؟دیکھیں!!‘‘ انہوں نے اُس پر احسان جتایا اور ٹیبل پر اگھن کے پھیلائے سفید شیِٹ کی ڈرائنگ پر نظر دوڑاتے ہوئے بولے، ’’پریزینٹیشن شروع کرو۔‘‘
’’کرجت کے پیچھے، پہاڑیوں میں، آدیواسیوں کے کئی قبیلے روزی روٹی کے جُگاڑ میں لگے رہتے ہیں، میں نے اُن پر پروجیکٹ بنایا ہے۔ اُس علاقے کی نوآبادی … ‘‘
’’تمہارا ان سے کوئی تعلق ہو تو بات کرو، ورنہ کوئی اور سبجیکٹ لو۔‘‘ پروفیسرپاٹل نے اُس کی بات کاٹ دی، ’’ جھوٹے پروجیکٹوں کی بھرمار سے تنگ آ چکا ہوں۔ امتحان سر پر ہیں اور سرپھرے، کام چور طلبا کسی کا پرانا پروجیکٹ، کسی سے لکھوا کر سبمِٹ کر رہے ہیں۔ ایماندار طلبا کم ہیں۔ پرانے پروجیکٹوں سے ہی کام چل جاتا ہے۔ ہے نا لیٹ جو ہو ہو جاتے ہیں، کیوں؟‘‘
’’میں انہیں آدی واسیوں میں سے ایک ہوں۔‘‘ پروفیسر کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بولا:
’’لگتے تو نہیں!‘‘ وہ چپ رہا۔
’’او کے۔ اب اپنا پریزینٹیشن شروع کرو۔‘‘ پروفیسر نے اپنی خجالت اور حیرانی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔‘‘ اگھن نے پریزینٹیشن دیتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری ماں کیا کرتی ہیں۔‘‘ پروفیسر اس کی ذاتی زندگی میں دلچسپی دکھانے لگے تھے۔
’’جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچتی ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ہوٹلوں، بھٹیار خانوں میں … اور بھی بہت سی جگہیں ہیں … جس دن یہاں نہ بکیں، مارکیٹ میں بیٹھ جاتی ہیں۔‘‘
’’اور تمہارے بابا؟‘‘
’’کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور فصل کٹائی کے بعد کے مہینوں میں اینٹ بھٹی میں کام کرتے ہیں۔‘‘
’’یعنی جس دن کام ملا، اُس دن چولہا جلتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس کی آواز میں کوئی درد نہیں تھا، جیسا کہ پروفیسر محسوس کر رہے تھے۔ یہ تو اس کی روزانہ کی زندگی تھی!
’’تم نے کبھی کھیت میں کام کیا ہے؟‘‘
’’ہاں کیا ہے، بلکہ کرتا ہوں۔ گرمیوں میں اور اکتوبر کی چھٹیوں میں تو کرتا ہی ہوں … کچھ پیسے آ جاتے ہیں۔ کالج جاتا ہوں … جوتوں، کپڑوں، موبائل وغیرہ کا خرچ انھیں پیسوں سے کرتا ہوں۔‘‘
’’ماں باپ نہیں مانگتے؟‘‘
’’نہیں۔ سمجھتے ہیں نا! کالج کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔‘‘
’’یعنی خوش ہوتے ہیں!‘‘
’’ہاں کبھی کبھی نہیں بھی ہوتے۔‘‘
-یہ تمہارا آخری سال ہے۔ اُس کے بعد کیا کرو گے؟ … میرا مطلب ہے اپنی برادری والوں کے لئے … ؟‘‘
’’یہاں تو نہیں رہوں گا۔‘‘
پروفیسر اس کا منہ دیکھنے لگے۔
’’کیوں تمہیں اپنی ذات برادری والوں کے لئے کچھ کرنا نہیں چاہئے؟؟‘‘
’’جی سر!!‘‘ پروفیسر کی بات سُن کر اَگھَن ہڑبڑا گیا تھا۔ جلدی سے بات بدل کر بولا:
’’سر سوپنالی … !‘‘
’’ہاں وہ میرے پاس آئی تھی … تمہارا نام لے کر … !‘‘ پروفیسر عجیب سے معنی خیز انداز میں مسکرائے تھے۔
’’سر وہ او بی سی ہے … بھٹکی جماعت … ‘‘
’’ہاں تو!! پروفیسر نے ناک بھوں چڑھائی، ’’جانتا ہوں کس طرف اِشارہ کر رہے ہو! … ‘‘
’’وہ آپ ہی کی تو … ‘‘
اِگھَن اُن کا چہرہ دیکھنے لگاجس سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اور اب کا چہرہ کرختگی اختیار کر رہا تھا۔
’’ہاں تو!! … ہم ٹیچر ہیں … ہمارا فرض سب کے لئے ہے۔ ہم اپنے اپنے تو نہیں کر سکتے نا!‘‘
’’برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں سر!!‘‘
’’بے جھجک کہو۔‘‘
’’ پڑھے لکھے آدی واسی کی حیثیت سے، مجھ سے یہ سوال کرنے والوں سے میں ہی پلٹ کر پوچھتا ہوں، آپ بھی تو پڑھے لکھے ہیں، آپ اپنی ذات برادری والوں کے لئے کیا کرتے ہیں؟ … کیا مجھ جیسے آدی واسی سے کچھ الگ کرتے ہیں؟؟ نوکری ڈھونڈھ کر اپنی زندگی ہی بہتر بناتے ہیں نا! کہ پورے سماج کی؟‘‘
پر وفیسر اس کا منہ دیکھنے لگے۔ ’پروجیکٹ سبمٹ کرنے والے طلبا تو خوب مکھن لگاتے ہیں۔ یہ کیسا لڑکا ہے!‘ ان کی آنکھیں شرارے اگلنے لگیں۔ اَگھن ان کی تاب نہ لا سکا۔ نظریں جھکا کر بولا:
’’سر، سوپنالی نے کالج سے نام کٹوا لیا۔‘‘
٭٭٭