یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسکول کی لائبریری کی چھوٹی چھوٹی رنگین کرسیوں پر بیٹھ کر بچوں کی کہانیوں، ڈراموں اور نظموں کی کتابیں لائبریری پیریڈ میں پڑھا کرتی تھی۔ نئی کتابیں ہاتھ لگتیں تو کھِل اٹھتی … اردو، ہندی اور انگریزی کی کتابوں کو اسکول کھُلنے سے پہلے ہی چاٹ جاتی۔ کتنی کہانیوں میں ڈوبی رہتی تھی میں! شاعری کی دنیا میں غرق رہتی! بعد میں کتابوں میں چھپا کر کہانیاں اور ناول پڑھنے کے شوق نے جکڑے رکھا۔
گھر میں نیم ادبی اخبار و رسائل آتے تھے۔ تب بڑے شوق سے اس کی کہانیاں، فلمی ستاروں کی زندگی اور سوال جواب کے کالم گھر میں پڑھے جاتے تھے۔ سب کو دلچسپی تھی۔ والدہ بہت ہنستی اور خوش ہوتی تھیں کہ میں شاعری بڑی دلچسپی سے پڑھتی تھی۔ والد نے میرے شوق اور ذوق کو تحریک دینے کے لیے کبھی کوئی کہانی سنائی اور اس کو اپنے طریقے سے لکھنے کو کہا اور کبھی موضوع دیے۔
’’ایک لہسن کی کہانی لکھو۔۔ ۔۔‘‘
’’آج ایک پیاز کی کہانی لکھو۔۔‘‘
’’۔۔ ۔ ایک کرسی کی۔۔ ۔‘‘
اب سوچتی ہوں تو تعجب ہوتا ہے کہ شاید وہ ایسا کروا کر مجھے ہر موضوع پر لکھنے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ کیسے شکریہ ادا کروں ان کا کہ اب دنیا میں نہیں … ممی اور نانی کی شاعری، ان کی زبانی کہی ہوئی کہانیاں جو کبھی شاعری کی کتاب، کبھی ڈائری بن جاتی تھی۔ والدہ نے کئی ڈائریاں لکھی تھیں لیکن پھر پھاڑ دیں۔ ہم نے وہ ڈائریاں نہیں پڑھیں۔ وہ اپنی سوچ کو اپنی حد تک محدود رکھنا چاہتی تھیں۔ بس یہی وجہ تھی کہ سب پُرزے خاک میں ملا دیے گیے … بی اے کے پہلے سال میں داخلے کے وقت صوفیہ کالج کی پرنسپل اور بابا کی رائے ایک ہی تھی کہ زبانوں میں اس کی دلچسپی لکھنے کے فن میں مدد کرے گی۔
مجھے بچپن سے ہی بڑے بوڑھے بہت اچھے لگتے ہیں کہ ان کے پاس تجربات کا خزانہ ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوس کے دو بزرگ کتابیں لے کر ہمارے گھر آتے تھے۔ وہ پڑھ نہیں پاتے تھے لیکن نسیم حجازی کے ناول بڑے شوق سے سنتے تھے۔ کسی کو تمیم انصاری مل گئی تھی۔ وہ کچھ اور بھی کتابیں خرید کر لاتے اور مجھ سے پڑھوا کر سنتے۔ یاد آتا ہے اپنی آپا سے بھی بچپن میں کہانیاں سننے کا لاڈ کروا لیا تھا۔ بابا کو کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ ان کے پاس ہر موضوع پر کتابوں کا انبار ہوا کرتا تھا۔ ان کو یاد کرتی ہوں تو ایزی چیئر پر لنگی اور بنیان پہنے ہوئے، چشمہ لگائے ہوئے ڈیل کارنیجی کی یا کسی نفسیات کی کتاب پڑھتے ہوئے … دکھائی دیتے۔ یاد ہے چوتھی کلاس میں، میں نے ان کا اس طرح کا اسکیچ بنایا تھا جس میں ان کی ذہین آنکھیں عینک میں سے کتاب میں غرق دکھائی دیتیں۔ کم عمر میں ہی انھوں نے زندگی جینے کے سارے گُر ہمیں سکھا دیئے۔ ان کو عملی جامہ پہنایا ممی نے۔ خیال آتا ہے کیسی زندگی جی لی انھوں نے! بچوں کے سوا انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ان کی پرورش، ان کا آج، ان کا مستقبل … کم عمر میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ ساری زندگی ماں باپ نے ہم پر لٹا دی۔
گھر میں ایک ’قصص الانبیاء‘ تھا۔ ہر رات کھانے کے بعد ہم سب ہال میں اکٹھا ہوتے تھے۔ میں اسے پڑھتی اور نانی اس کا خلاصہ کرتی جاتیں۔ کبھی کبھی وہ خود بھی پڑھ کر سناتیں۔ آہ نانی! انھوں نے ہی تو ماں کو روایت دی تھی بچوں کے لیے مر مٹ جانے کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں اور ساری زندگی شوہر کی ذمہ داریوں اور شوہر کے دیئے ہوئے بچوں کا خیال رکھنے کا وعدہ نبھاتی رہیں۔ پیغمبروں کے قصے میرے اندر اترتے گئے۔ ممبئی میں ڈگری کالج میں اردو کی لیکچرر شپ ایم اے کرتے ہی حاصل ہو گئی تھی لیکن اس وقت تک میں ایک ننھی منی سی بچی کی ماں بن چکی تھی۔ کھوپولی لوٹ کر ہندی پڑھاتے ہوئے مہابھارت اور رامائن کو جاننے کا موقعہ ملا۔ پہلے مجھے شکایت رہتی تھی، ایک چھوٹی سی جگہ پہنچا دئے جانے کی … لیکن بعد میں احساس ہوا۔ اب خدا کا شکر بجا لاتی ہوں کہ اس نے مجھے یہاں بھیجا۔ شاید میں بڑے شہروں کی زندگی میں محدود ہو کر رہ جاتی۔ یہاں کا ماحول، یہاں کے طالب علم، ملک کے الگ الگ حصوں اور خاص طور پر مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اساتذہ اور کرم چاری۔ میں نے طلبا سے بہت سیکھا۔ یقیناً آدیواسی تو مجھے کہاں ملتے۔ ان کا رہن سہن، ان کے گھر اور گاؤں، ان کے ریت رواج اور شادیاں، ان کے مسائل، ان کی، دلتوں کی، غریب مسلمانوں کی جھگّی جھونپڑیوں تک بھی میں پہنچ پائی … یہ علاقہ صنعتی علاقہ ہے۔ چھوٹے بڑے کارخانوں میں کام کرنے والی آبادی سے بنا ہوا۔ اچھے گھر کے پڑھے لکھے یا چھوٹے بڑے کاموں کے ہنرمند لوگ یہاں بستے ہیں۔ میں اکثر ہنستی ہوئی کہتی ہوں، ’’جو یہاں آیا، یہیں کھپ گیا، یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اچھا ہے کہ میں یہاں ہوں۔ یہاں اِن سب نے میری سوچ کو اُجالا دیا ہے۔ صادقہ آراء سحرؔ نے مضامین بھی لکھے، شاعری بھی کی اور افسانے بھی لکھے۔ رسالوں میں افسانے آئے، شاعری مسکرائی، اور مبارک باد کے ڈھیر سارے خطوط آنے لگے لیکن صادقہ نواب سحر کے پاس وقت کی تنگی ہو گئی۔ بچے بڑے کرتے ہوئے چھپنے کا سلسلہ تقریباً نا کے برابر ہو گیا۔ جب جب وقت ملا، ٹی وی سیریلوں اور سہیلیوں سے گپ بازی میں نہیں گزارا بلکہ کبھی لکھا کبھی پڑھا۔ جو جی میں آیا، کیا۔ بچے بڑے کرنے کے علاوہ جاب کی مصروفیات بھی ہوئی۔ ان دنوں شاعری میرے اظہار کا ذریعہ زیادہ تھی کہ وہ تو ذہن میں تیار ہونے کے بعد کچھ ہی منٹوں میں کاغذ پر اتر جاتی تھی لیکن شاعری کو چھپنے کے لیے کم بھیجا۔ اب بھی کم ہی بھجواتی ہوں۔ کئی اہم مشاعروں میں بھی شریک ہوئی۔ خوش قسمتی سے ایک شعری مجموعہ بھی آ گیا۔ یہ میری پہلی کتاب تھی۔ اس کتاب کو میں کہیں پہنچا نہیں پائی۔ کیا پتہ تھا کہ پہچانا بھی ہوتا ہے! ناشر قتیل راجستھانی صاحب نے مجھ سے کہا بھی کہ میں اسے غزل گائیکوں تک پہنچاؤں۔ پانچ سو کتابیں گھر میں پڑی رہ گئیں یا تحفوں میں چلی گئیں۔
شاعری کی طرف رخ ہوا، غزل سے زیادہ زندگی کی تلخ اور شیریں سچائیوں کو آزاد اور نثری نظموں میں اتارنے لگی۔ خلوصِ دل سے دنیا کو شاعری میں سمیٹا۔ ’تکمیل‘ نے ممبئی کے شعرا پر نمبر نکالا، مجھے شامل کیا۔ جینوئن شاعر مانی جانے لگی۔ مجروح سلطانپوری صاحب نے شعبۂ اردو کی سربراہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کی موجودگی میں مہاراشٹر کالج کے ایک مشاعرے میں کہا تھا، ’’اس لڑکی میں بہت جَس ہے۔‘‘
جرمنی سے شائع ہونے والے رسالے ’جدید ادب‘ نے ’صادقہ نواب سحرؔ کی دس دلت نظمیں‘ کے عنوان سے میری نظموں کو مان دیا۔ میں نے مان لیا کہ یہی میرا میدان ہے بس! لیجئے ایک عمر گزر گئی یہ سوچنے میں کہ میں کیا لکھنے کے لئے بنی ہوں۔ شاعری کی طرف رجحان ہوا تو نثر نے پسندیدگی پائی اور جب نثر کی طرف جھکی تو شاعری نے قارئین کو متاثر کیا۔ کچھ ایسا ہی ڈراموں کے ساتھ بھی ہوا۔
پھر پتہ نہیں کیا ہوا! ایک دن اچانک ایک خیال نے مجھ سے ایک ناول لکھا لیا۔ ۲۰۰۸ء میں پہلے ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ کی آمد نے احساس دلایا کہ میں فکشن کے لیے بنی ہوں … اور پھر کچھ پرانی کچھ نئی کہانیاں جمع کر کے ایک مجموعہ ’’خلش بے نام سی‘‘ تیار ہوا۔ دو سرا ناول ’’جس دن سے۔۔۔!‘‘ نے بھی پذیرائی حاصل کی۔ دو ناولوں کے، ایک افسانوں کے اور ایک ڈراموں کے مجموعے (’مکھوٹوں کے درمیان‘) فکشن کے نام پر میری جھولی میں آ گئے۔ ان پر لکھی گئی تنقیدی تحریریں ’’صادقہ نواب سحر: شخصیت اور فن (فکشن کے تناظر میں )‘‘ میں آٹھ سو صفحات میں سِمٹ گئیں۔ میرے شوہر اسلم نواب صاحب نے ہر قدم پر نہ صرف میرا ساتھ دیا بلکہ رہنمائی بھی کی۔ ملک بھر کی سیر کروائی۔ ہم نے بیرونِ ممالک کے تجربے بھی حاصل کئے۔ میری تحریروں کے لیے یہ تجربات بھی اساس بن گئے۔
’پیج ندی کا مچھیرا‘ میرا دوسرا افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اب سوچتی ہوں … اچھا ہے کہ فکشن کی طرف دیر سے آئی۔ اب رومانی، نیم رومانی زندگی میں اکیسویں صدی کی نئی دنیا گھل مل جو گئی ہے۔ دیر آید درست آید۔
صادقہ نواب سحرؔ
۲۲؍۲؍۲۰۱۸ء