(مائیکروفکشن)
دُلھن
اس نے اپنی ساری زندگی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے پیچھے بھاگتے گزار دی تھی۔
کبھی گھر میں بچی روٹی مل جاتی اور رات کا بچا سالن۔ بھائی کی ٹوٹی چپل ماں کی پھٹی ہوئی شلوار کے کار آمد حصے سے بنائی گئی ٹخنوں تک آتی شلوار، اور بس ایسے ہی باقی سب کچھ۔
آج جب اس کی شادی تھی تو کالا بھجنگ رالیں ٹپکاتا، بڑے دانتوں والا دولھا، چنے پلاؤ کھانے کے بعد ایک ایک روپے کے نوٹوں کے ہار جھلاتا اپنے تیرہ باراتیوں کے ہمراہ اسے لے کر غریب آباد کے بس سٹاپ پر آ کھڑا ہوا۔
وہ بھی عجیب سے لال رنگ کا جھوٹے تلّے والا سوٹ پہن کر اڈّے پر موجود سائیکل پنکچر کی دُکان کے گندے بنچ پر بیٹھ گئی۔
دور سے پرانے انجن کے زور پر گھرر گھرر کرتی لدی پھندی بس نکلی تو سب ہوشیار ہو گئے۔ بس بالکل قریب آ کر رُکنے لگی تو سب نے سیٹوں کے لئے دوڑ لگائی۔ وہ بھی اضطراری طور پر ہڑبڑا کر اُٹھی اور بس کی طرف لپکی۔
پیچھے سے خالہ کی کربناک آواز گونجی،
’’اری تم دُلھن ہو!!‘‘
٭٭٭
راجہ
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کی اصل حیثیت ہے کیا؟
اس نے سائیکل سے اتر کر ڈھیلی ہوتی گدی کو ہتھیلی کی ضرب سے سیدھا کیا۔
بائیں ہاتھ سے ہینڈل سنبھالے، دائیں ہاتھ سے کیرئر کو دھکیلتے ہوئے گھر کے شکستہ دروازے کی بوسیدہ دہلیز سے اگلا ٹائر اندر داخل کیا تو اس کا بڑا بیٹا اپنی کتابیں چھوڑ فوراً لپکا۔
سائیکل سنبھالی اور لے جا کر نیم پختہ دیوار کے ساتھ کھڑی کر دی۔ باپ کا ہاتھ پکڑ کر چارپائی پر بٹھایا۔
منجھلی بیٹی جلدی سے ربر کے چپل لائی اور پائنتی کے پاس رکھ کے دھول سے اَٹی گر گابی ہاتھوں سے صاف کرتی اندر لے گئی۔ ادھیڑ عمر بیوی پانی کا گلاس لے آئی۔
اسے یوں لگا کہ وہ ایک مقبول بادشاہ ہے جو کسی مہم سے فتح یاب واپس اپنی راجدھانی میں اترا ہے جہاں اطاعت گزار اور پیار کرنے والی رعایا اس کی خدمت میں جت گئی ہے۔
پھر اچانک اسے خیال آیا کہ آج ایک معمولی بات پر صاحب نے دفتر میں کس برے طریقے سے اسے بے عزت کیا تھا۔ بات ایسی نہ تھی جو آرام اور تحمل سے سمجھائی نہ جا سکتی۔ مغلظّات بکنے کی تو قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ پھر اس معاملے میں وہ تھا بھی بے قصور۔ صرف صاحب کا موڈ آف تھا اور ایک چھوٹی سی غلط فہمی۔
اس کی انا کو سخت ٹھیس لگی۔ اس کا دل دکھ سا گیا۔
اور اب جو وہ راجہ اپنی راجدھانی میں اپنے تخت پر براجمان تھا تو اسے دوپہر کا واقعہ یاد آ گیا جس نے اسے پھر غمگین کر دیا۔
ساری زندگی محنت کی حلال کمائی گھر لانے والے دیوتا کی آنکھ سے ایک خاموش آنسو ٹپکا، جو نہ جانے کس کا مقدر تاریک کر گیا۔
٭٭٭
جست
اس نے کہا، ’’میرے مالک میں کہاں آ گیا ہوں؟
یہ کیا قوت ودیعت ہوئی کہ میں نے اپنا جیون خود ہی دو بھر کر لیا؟ ‘‘
خلجان بڑھا تو وہ آبادی سے بھاگ نکلا اور جنگل میں پناہ لے لی۔
’’اوہ میرے مالک یہاں بھی تو طاقتور نے کمزور کو پھاڑ ڈالا۔ نہ رحم نہ خوف۔
اُف اُف اُف!!!!!
کیا ایسے ہی زندہ رہنا ہے؟ یہی حیات ہے؟ یہی فطرت ہے؟ یہی منشاء ہے اور یہی مقدر؟
تو پھر سوچ کیوں ودیعت ہوئی؟ دکھ کیوں تشکیل پایا اور احساس کدھر سے آ ٹپکا؟
سکوت؟ کیا سکوت ہی میں عافیت ہے؟ ‘‘
’’میں پاگل ہو رہا ہوں شاید‘‘ ۔ اس نے سوچا۔ ’’حقیقت سے دور ہوں۔ تبھی تو راز نہیں جان پایا کہ ایک کے دکھ میں دوسرے کا سکھ کیسے سکونت گزیں ہے۔
ادھورے علم سے ابھرنے والی سوچ عافیت کی قاتل ہے۔ محدود ہے اور مسدود!
ہے تو سہی لیکن نہیں کے مترادف!!
ادھورا علم مضر ہے تو پھر پورا علم؟ ‘‘
اچانک اس کے ذہن میں بجلی سی کوندی:
’’ہاں مجھے نکلنا ہو گا ’پورے علم‘ کی تلاش میں!‘‘
اس نے آنکھیں موند لیں اور خود میں ’جست‘ لگا دی۔
٭٭٭
جشن
اس سرخ بڑی دیگ میں میرا چھوٹا جسم صدیوں کڑھا تو ہڈیاں گوشت سے الگ ہوئیں۔
ریشہ ریشہ گوشت کی گفتگو ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ ہڈیوں کا گودہ بھاپ دیتا تھا۔ چکنائی زرد پانی کی سطح پر تیرتی، قہقہے لگاتی پھرتی تھی۔
میری کھوپڑی کی، لجلجے دماغ کے ساتھ، حال ہی میں، بس چند صدیاں قبل، خون کی تال پر ناچتے سرخ انگارہ دل کی مداخلت سے صلح ہوئی تھی۔
آنکھوں کے ڈھیلے بے قصور قرار دئیے جا چکے تھے جبکہ پتلیاں زیر حراست ہی رہیں۔
میری بھول بھی ابل کر ٹھنڈی ہو گئی تو سب شہوانی قوتیں ٹھہراؤ میں آ کر جبلتوں کی مہمان ٹھہریں۔
دیگ کے نیچے دہکتے انگارے ناچ ناچ کر تھک گئے تو رومانیت پسند ہو گئے۔
کوؤں اور چیلوں کے حصے میں سینہ آیا جو داغدار نکلا۔
گلہری نے گوشت خوری سے انکار نہ کیا اور درخت سے اتر آئی۔
اس سارے منظر پر ہاتھی کی پشت پر سوار چمگادڑوں نے غلبہ پایا جو اپنی معاملہ فہمی کے لئے سند یافتہ تھیں۔ کافی دیر گزری تو میں نے فیصلہ کیا کہ دیگ ہی میں چھپا رہوں۔
بادشاہ کے پیادے بستی میں پھیل گئے اور خوب تلاشی لی۔ میرے گھر والوں نے شادی کے نفیرے بجا کر میرا استقبال کیا اور خالی دیگ بھیڑیوں کے حوالے کر دی۔
نوجوان سردار نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ جشن کے ناکام رہنے کا اعتراف کیا اور تخت چھوڑنے کا فیصلہ سنایا۔
٭٭٭
روئے سخن
ایک بھرپور قہقہہ لگا کر میں نے کاغذ سمیٹا اور قلم دور پھینک دیا۔
تحریر مکمل ہوئی۔
’’کیا ہے یہ بھئی؟ ‘‘
ہمزاد بولا
’’تحریر ہے۔ بڑی زبردست۔ چمچماتی۔ بجلیاں گراتی۔ دیکھ نہیں رہے کتنی زبردست تحریر ہے‘‘ ۔
میں جوش سے بولا۔
’’حضرت تحریر تو ہے لیکن ہے کیا؟ کس صنف میں رکھیں گے اسے؟ کیا تخلیق کیا ہے؟ کیا لکھا ہے بھائی؟ افسانہ ہے؟ افسانچہ ہے؟ نثری نظم ہے؟
مائکروف ہے جو پہلے مائکرو فکشن تھا اور کچھ دیر مفکشن بھی رہا؟ علامچہ ہے؟ ملامتہ ہے؟
کیا لکھا ہے میرے دانشور؟
ہمزاد مصر رہا۔
’’اجی اچھا لکھا ہے۔ زور دار لکھا ہے۔ میں اتنی دیر سے لکھنے لکھانے ادب ادیب اور شعر و سخن ہی میں جھک مار رہا ہوں۔ ادب ہی کی خدمت میں زندگی گزر گئی ہے۔ ادب ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔ کاغذ قلم کتاب سے نکلتا ہوں تو سیل فون یا لیپ ٹاپ، ڈسک ٹاپ پر جا بیٹھتا ہوں۔ نشستیں کرواتا ہوں۔ تنقید میں جھنڈے گاڑتا ہوں۔ لوگوں کو لکھنا سکھاتا ہوں۔ ہمت بندھاتا ہوں۔ ملتا ملاتا ہوں۔ اِن باکس ساری ساری رات درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتا ہوں۔ سب فورمز پر حاضری بھرتا ہوں۔ دنیا بھر میں پھیلے اردو لکھنے والے میری انگلی کی پوروں پر ہیں۔ آپ شاید میری وقعت جانتے نہیں۔‘‘
میرا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
’’حضرت آپ کا سکہ چلتا ہے۔ آپ آج کے ادبی درباروں میں سے متعدد کے شہنشاہ معظم ہیں۔ ادبی غلام اور باندیاں لونڈیاں بکثرت موجود ہیں۔ آپ کا فرمایا مستند مانا جاتا ہے اور جو مستند نہ مانے وہ آن واحد میں بلاک بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ سب پتہ ہے۔ سب معلوم ہے۔ لیکن صاحب میں نے تو صرف یہ پوچھنے کی جسارت کی ہے کہ یہ الم غلم اور اوٹ پٹانگ جو آپ نے لکھا ہے یہ کیا ہے ۔‘‘
’’عجب ڈھیٹ آدمی ہو۔ ایک طرف دعوی ہے کہ مجھے جانتے سمجھتے ہو اور دوسری طرف اپنی حماقت پر اڑے ہوئے ہو۔ میری تحریر پر سوال اٹھا رہے ہو۔
دیکھ نہیں رہے کیا دھواں دھار لکھا ہے۔ بس قلم توڑ دیا ہے۔
یہ سب کوڑھ مغزوں کے لئے نہیں۔ یہ خواص کے لئے لکھا ہے۔ اس کی جہتیں ہیں۔ اس میں پرتیں ہیں۔ علامتیں ہیں۔ نفسیات، فلسفہ اور حکمت ہے ۔‘‘
’’ہیں جی؟
اچھا جی؟ ‘‘
’’ہاں جی۔
سٹریم آف کانشیسنس کا نام سنا ہے کبھی؟ سریلزم، ڈاڈا ازم کی الف ب کا پتہ ہے؟
تجرید علامت کو سمجھتے ہو؟
عالمی ادب کی تحاریک کا اِدراک ہے؟ پتہ ہے دنیا کہاں سے چل کر، کہاں کہاں سے ہو کر کہاں پہنچ گئی ہے؟
اردو کی پسماندگی کا اندازہ ہے؟ کچھ ہے اردو کے پلّے جو اس کا اپنا ہو، معیاری ہو اور عالمی سطح پر پیش کیا جا سکے؟
اردو کی تہی دامنی پر تشویش ہے؟ ‘‘
’’مگر بھائی میں نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ کیا گھسیٹا، معاف کرنا لکھا ہے ۔‘‘
’’دیکھو پہلے کچھ پڑھو لکھو۔ کسی قابل ہو لو تو بات کرنا، بچہ جی۔
قدم قدم چلنے والے سو میٹر کی دوڑ کے کھلاڑی نہیں ہوتے۔ پالنے میں لیٹ کر پہلوانوں کے اکھاڑوں کے سر بستہ راز اور استادانہ داؤ پیچ تو سمجھ میں نہیں آتے نا۔
دماغ میں کچھ ہو تو رسائی ہو۔ مطالعہ اور مشاہدہ چاہئے بھئی۔
لونڈوں کے بس کی بات نہیں۔
مبتدیوں کا میدان ہے نہ بساط‘‘ ۔
’’لیکن صاحب میں نے تو بس۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
’’اَبے گھامڑ، تیری تو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
جونہی میری لغویات اَپ لوڈ ہوئیں میری لے پالک مخلوق اس میں جہتیں پیدا کرنے اور نکالنے میں جُت گئی۔
میں نے اطمینان سے منطقی سگریٹ سلگا کر نفسیاتی کش لگایا اور علامتی دھواں تجریدی مرغولوں میں بدل دیا۔
٭٭٭
راطوطا صاحب
درختوں کے سائے درختوں سے بھی لمبے ہو گئے –
فخر اب غرور میں بدلنے لگا۔
پرندوں نے شام تک واپس آنے کا قصد تو کر رکھا تھا لیکن واپسی تک ٹھکانے ٹھکانہ نہ بدل چکے ہوں، اس کی یقین دہانی نہ ہو پائی۔
طوطا ہونا اس کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ وہ ایک بڑے جھنڈ کا حصہ تھا۔
بہرحال اس کے پروں کی بنیاد سرخ تھی جو اسے عام طوطوں سے ممیز کرتی تھی۔
سبز ہونا تو بس عامیانہ پن تھا۔ سرخ نشان امتیاز تھا۔
بھورے رنگ کا انبوہ کثیر عمیق گہرائیوں سے ابل ابل کر، ہمک ہمک کر نکلنے کے درپے تھا۔ پستیوں کے کنارے چکنے تھے اور کائی سے اَٹے پڑے تھے۔ کائی کی بوسیدگی کھٹی سی بو دے رہی تھی جو طوطوں کی پہنچ سے دور تھی۔
ویسے بھی طوطے گہرائیوں پر کیوں نظر ڈالتے امرود تو درختوں پر پک کر گل سڑ رہے تھے۔
اسے طوطیوں کا شوق تھا اور طوطیاں اس کے سبز پروں پر ٹنگی سرخی سے مرعوب تھیں۔
اسے لگا کہ دنیا اس کے پنجوں میں ہے اور اس کی خمدار نوکیلی چونچ بس امرود کھانے اور آم ٹھونگنے کے لئے ہے۔
طوطوں کے سردار کو ’’را طوطا صاحب‘‘ بولتے تھے۔ وہ بڑا گپ باز اور شو باز تھا۔ اپنی چونچ کے نوکیلے پن پر بڑا مان تھا اسے۔ سبزی خور ہونے کے باوجود اس کے پنجے خون سے لتھڑے تھے۔ اس کی ٹیں ٹیں کی تعریفیں اسے اس خوش گمانی میں مبتلا رکھتیں کہ وہ خوش گلو ہے۔
طوطوں کے لئے یہ باغ، جو ان کا آبائی اور ابدی ٹھکانہ ہو چلا تھا، ایک جنت سے کم نہیں تھا۔ عمیق گہرائیاں‘ کہ بھوتوں کا بسیرا بنتی جا رہی تھیں‘ باغ کے ایک کونے میں دھکیل دی گئیں۔ اس سے ان کی وسعت کم ہو گئی اور گہرائی مزید بڑھ گئی۔
طوطوں کے شور اور غل غپاڑے نے ایک بلے کو متوجہ کیا جس نے لالچی چوہوں کے لالچ کے بل بوتے پر را طوطا صاحب کو ورغلانا اور ڈرانا شروع کر دیا۔ بالآخر ایک سمجھوتا طے پایا کہ گلے سڑے امرود بانٹ لیے جائیں۔
بدہضمی کے معالج نواحی جنگل سے بھاگے چلے آئے۔ بلے نے اپنے سبزی خور نہ ہونے کا عذر پیش کیا تو طوطوں نے اپنے خون آشام پنجے اسے چاٹنے کے لئے پیش کر دئیے۔
اسے یہ بھی باور کرایا گیا کہ نظام ہضم کی درستگی کے لئے گاہے گاہے بلے گھاس بھی کھاتے ہیں۔
گلشن کا کاروبار تو چلا کیا لیکن بھوری مخلوق کی گہرائیوں سے ابھرتی آوازوں میں نقاہت آتی گئی۔ طوطوں کی ٹیں ٹیں بڑھتی چلی گئی۔
کچھ وقت گزرا تو بلے نے طوطوں کے پنجے چاٹ چاٹ کر سیاہ کر دئیے۔ مزید چاٹنے پر طوطوں کے پنجوں سے ان کا اپنا خون رس رس کر نکلنا شروع ہو گیا جو بلے کو لذیذ تر لگا۔ بِلّے کو سرخیاں بھاتی بھی تھیں اور راس بھی آتی تھیں۔
پرندے جب لوٹے تو سائے بہت ہی لمبے ہو کرتا ریکی میں ضم ہو چکے تھے۔
اب منظر کچھ بدل رہا تھا۔
را طوطا صاحب بلے کی گرفت میں کسمسا کر پھڑپھڑا کر باغ کی بیرونی باڑھ سے باہر کھسکنے کی تدبیر کر رہے تھے۔
گہرائیوں سے ابلتی بھوری مخلوق کی پست آوازیں اب جان کنی کے عذاب میں مبتلا قریب المرگ کی آخری خرخراہٹ سے مشابہ تھیں۔
٭٭٭
آخری بار
لگ رہا تھا کہ وہ دنیا کے آخری کونہ پر ٹکا ہے اور سامنے تحت الثریٰ ہے۔
وسیع، ویران پہاڑی سلسلہ میں سب سے اونچے پہاڑ کی جس نوکیلی چٹان کے آخری کنارے پر وہ ٹکا تھا اس سے آگے ہزاروں فٹ گہرا، مہیب خلا تھا۔
کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا تھا، حد نظر کے بس کی بات نہ تھی۔
معلق چٹان کا آخری انچ اس کے جوتوں کے نیچے تھا۔ ذرا سی تیز ہوا بھی اسے گراتی تو کہاں پہنچتا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔ ہزاروں فٹ نیچے یقیناً کوئی سنگلاخ چٹان ہی اسے اپنے دامن میں سمیٹتی۔۔ ۔ سرخ گوشت کے بھاپ دیتے، پھڑکتے ٹکڑوں کی شکل میں۔
چٹان کے آخری معلق سرے پر اگر وہ ذرا سا توازن بھی کھوتا تو اگلے ہی لحظے تیزی سے خلا میں گرتا چلا جاتا۔
’’ٹھیک ہے۔ یہی زندگی کا آخری لمحہ ہے۔
بہت ہو چکا۔
زندگی نے بہت ذلیل کر لیا۔
بس خاتمہ ہی علاج ہے۔
ایک انچ آگے، چند منٹ کی پرواز، ایک دھماکہ اور بس۔۔ ۔۔ ۔ نجات‘‘ ۔
اس کے اندر سے آواز آئی۔
’’زندگی کو ایک موقع دے کر دیکھو۔ آخری موقع۔ بس آخری موقعہ‘‘ ۔
ایک اور سرگوشی اندر ہی کہیں سرسرائی۔
یہ آخری لمحہ تھا آخری فیصلہ کرنے کے لیے،،،،، اور اور اور…اس نے زندگی کو آخری موقعہ دینے کا فیصلہ کیا۔
وہ پلٹنے ہی کو تھا تو کسی نے اسے آہستگی سے دھکیلا۔
ایک مہیب لمبی چیخ اس کے حلق سے نکلی اور وسیع و عریض پہاڑی سلسلہ میں گونج گئی۔
اس نے آخری بار مڑ کر پیچھے دیکھا تو اس کے خوف میں حیرت بھی شامل ہو گئی۔
٭٭٭
آسانیاں
نیلی، ہلکی پیلی اور گاڑھی سبز گولیاں نگل کر اس نے ناشتہ مکمل کیا۔ بٹن دبا کر لباس بدلا اور کونے میں لگی بائیو ریڈیو کنورٹر میں گھُس کر دفتر کی فریکوینسی کا بٹن دبایا تو فوراً ٹرانسمٹ ہو کر دفتر میں وصول ہو گیا۔
وہی سیکریٹری جو روز اسے دنیا کی حسین ترین عورت لگتی تھی آج قطعی نہ بھائی۔
اُسے حیرت ہوئی۔
اس نے داہنی جیب سے لفافہ نکالا۔ ایک نارنجی اور آدھی نیلی گولی زبان کے نیچے رکھ لی۔ نارنجی گولی سے متعلقہ ہارمونز میں تحریک ہوئی تو اسے سیکریٹری حسین لگنے لگی۔ آدھی نیلی گولی کے اثر سے متعلقہ غدود پر عمل سے حیرت بھی ٹھکانے پر آ گئی۔
جب سے یہ حقیقت سائنسدانوں نے جان لی تھی کہ خوشی، غم، حسد، بغض، کینہ، بھوک، جنس، غصہ، پیار سب کیمیائی مادوں اور ان سے تحریک پاتے ہارمونز کی مقدار و معیار پر منحصر ہیں اور ان کے عامل مرکبات دریافت کر لئے تھے زندگی بہت بدل گئی تھی۔ مصروفیت اور وقت کی قیمت نے انسانوں کو اس نہج پہ لا کھڑا کیا تھا کہ سب چیزیں کیمیائی کیپسولز، گولیوں اور بڑی شدید صورت میں مِنی انجیکشنز سے فوری کنٹرول کی جاتی تھیں۔ روزمرہ کے جذبات و احساسات و حسیات کو اپنے حسب منشا کنٹرول رکھنے کے لئے مجرب نسخوں سے بنی چھوٹی چھوٹی گولیاں تو ہر کوئی اندرونی جیب میں لئے پھرتا تھا۔
کام شروع کرنے سے پہلے اس نے دراز سے مُنی سی دھاتی بوتل نکال کر داہنے نتھنے میں ہلکا پف مارا تو دماغی چُستی میں سینکڑوں گنا اضافہ ہو گیا۔
باس کی ریڈیائی لہر بلاوا لے کر پہنچی تو احساس ہوا کہ باس کے جذباتی ہارمونز غیر معتدل ہیں۔
اس نے بلا تردد داہنی جیب ٹٹولی۔۔ ۔
٭٭٭
آخری رات
وہ ہزار بار مجھے یقین دلا چکا تھا کہ بھوت پریت، چھلاوے، پچھل پائیاں، چڑیلیں بد روحیں ایک حقیقت ہیں۔ مجھے کبھی بھی یقین نہ آیا۔
جب بھی خوفزدہ کرنے کے لئے وہ کوئی کہانی سناتا میں ذرا سی تحقیق سے سارے اسرار کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتا۔
سادہ حقیقت منہ چڑاتی سامنے آ کھڑی ہوتی۔
اس رات وہ شرط بد کر، رات کے پچھلے پہر ویران حویلی کے اس کھنڈر میں لے گیا جہاں اس کے خیال میں ایک مظلوم مقتولہ کی روح، انتقام کو ترستی، منڈلایا کرتی تھی۔
ہم دبے پاؤں کھنڈر میں داخل ہوئے اور اس کے تجویز کردہ نشیب میں دبک کر بیٹھ گئے۔
صدیاں گزر گئیں۔ نہ کوئی حرکت نہ آواز۔ خاموشی ایسی گہری کہ اپنے سانسوں کی آواز تک سُنائی دے۔
اور پھر برسوں بعد، اس پراسرار چاندنی میں ایک سایہ لہرایا۔ ایک غیر مرئی ہاتھ نے مجھے نرمی سے گرفت میں لیا اور اپنی طرف کھینچا۔ میں ہلکا ہو کراس کے ساتھ اٹھتا چلا گیا، اٹھتا چلا گیا۔۔ ۔
بہت دیر بعد۔۔ ۔۔ بہت بلندی پر پہنچ کر میں نے نیچے جھانکا۔
بہت دور نیچے چاندنی میں نہائے اس ویران کھنڈر میں زرد رو، لرزتا ہوا، سخت خوفزدہ اور مبہوت مَیں، منہ اٹھائے آسمان تک رہا تھا،
جہاں مَیں غائب ہوتا جا رہا تھا۔۔ ۔۔
اور پھر مَیں کبھی لوٹ کر نہ آیا۔
٭٭٭
طوفان
اس نے افسانہ لکھ کر مکمل کیا اور پھونک مار کر بکھیر دیا۔
محاورے منڈیر پر جا بیٹھے، تشبیہات صحن والے درخت پر چڑھ گئیں، استعاروں نے سیڑھیوں پر ڈیرہ جمایا اور علامتیں کپڑے سکھانے والی اُلنگھنی پر الٹی لٹک گئیں۔
سادہ لفظوں کو ڈھنگ کی جگہ نہ ملی تو فرش پر اوندھے لیٹ گئے۔ ایسے میں اضافتوں نے رونا شروع کر دیا کہ ہم کدھر جائیں۔
مبصر رونا نہ سن سکے اور اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ نرم دل خواتین تبصرہ نگاروں نے اضافتوں کو چمکارا۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور آنسو پونچھ کر فرش پر سادہ لفظوں کے سنگ لٹا دیا۔
مرد مبصرین نے چاروں طرف دیکھا۔ سونگھا اور اپنی اپنی پسندیدہ چیزیں چننے لگے۔ کسی کو جیب میں ڈالا، کسی کا منہ سرچوما، کسی کو دھول جمائی اور قہقہے لگانے لگے۔
یہ ہاہاکار اور دھما چوکڑی کوئی گھنٹہ بھر جما کی۔
رونے والے رو بسور کر چپ ہو گئے۔ ہنسنے والوں کی ہنسی رک گئی۔ دھول دھپا تمام ہوا۔ ماحول پر اک پژمردگی اور تھکی تھکی سی اداسی چھا گئی۔
افسانہ نگار، جو رات بھر جاگ کر لکھتا رہا تھا اونگھنے لگا۔
اتنے میں مہیب گڑگڑاہٹ، تیز آندھی کی چنگھاڑ یں، درختوں کے بڑے بڑے ٹہنے ٹوٹنے کی کڑکڑاہٹ، گدھوں کے رینکنے، گھوڑوں کے ہنہنانے، اُونٹوں کے بلبلانے، شیروں کے دہاڑنے اور انسانوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔
کمرے کے کواڑ زور زور سے جھولنے، بند ہونے اور کھلنے لگے۔ ہر طرف ہیبت چھا گئی۔ بجلی کے کڑکنے سے ایک پل چکا چوند ہوتی تو دوسرے پل گھپ اندھیرا چھا جاتا۔
سب دبک کر بیٹھ گئے۔ افسانہ نگار نے آنکھیں حیرت اور خوف سے پوری طرح کھول دیں اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ سجھائی دیا نہ دکھائی دیا۔
اس چیخم دھاڑ میں اچانک بوڑھی ضرب المثل ٹاٹ کی گیلی نچڑ تی بوری اوڑھے دھڑ سے کمرے میں داخل ہوئی اور چیخ کر کہا، ’’نقاد آئے ہیں‘‘ ۔
سب نے طوفان سے بے پرواہ ہو کر دوڑ لگائی اور باہر اندھیرے میں نکل بھاگے۔
افسانہ نگار نے بے چارگی سے دائیں بائیں دیکھا لیکن بھاگنے کا واحد راستہ، اکلوتا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
میری معیت میں ایک ہجوم ڈنڈے سوٹے، کُند چھریوں اور زنگ آلود کلہاڑیوں سے لیس اس تک پہنچا ہی چاہتا تھا۔
افسانہ نگار نے دائیں بائیں بے چارگی اور بے بسی سے دیکھا، پھر ہمارے بے رحم، مغرور چہروں کی طرف رحم طلب نگاہ دوڑائی اور بے بسی سے گردن جھکا کر آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭
رومان
چاندنی آج پھر چاند سے مفرور جیون آکاش پر بکھری اپنا سکون کشید کرنے کے درپے تھی۔
میں نے اندھیروں سے مہلت مانگ کر کہکشاؤں کی شاہراہ پر پھسلتے چاند نگر کی اس کٹیا میں پریم گھونسلا آباد کیا جو پریت گڑھ سے سانس بھر دوری پر تھا۔
چاندنی کی ٹھنڈک اور سحر میری رگ رگ میں اترتے جا رہے تھے۔ میری آنکھوں کے رستے، میری سانسوں کے ساتھ، میری جلد کے پور پور میں سرایت کرتے۔
یہ واردات میرے جسم تک محدود نہیں تھی۔ مسحور کن روشنی میری روح کے اندر تک گھستی جا رہی تھی۔
خوشبو دار روشنی سنی ہے کبھی؟
دیکھی ہے کبھی؟
محسوس کی ہے کبھی؟
ان شبنمی راتوں میں، میں نے چاندنی کی خوشبو سونگھی
اور
بادل کے آوارہ ٹکڑے چار سو …ناچا کئے۔
یہ رقص بسمل بے مقصد نہ تھا۔ چاند بادلوں میں ڈبکی لگاتا، چھپ کر نکلتا تو دھُلا دھلایا اور نکھرا نکھرا ہوتا۔
یہ ادا بادلوں کو بے قابو اور مست کر دیتی۔
وہ جھنجھلاتے، سر پٹکتے، گھمن گھیریاں کھاتے چاند کے گرد کبھی ہالہ بنتے اور کبھی چک پھیریاں کھا کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
بادلوں کا چاند سے ربط حسد اور رشک کے بیچ کا تھا۔
چاندنی کبھی شرماتی لجاتی تو کبھی چمک چمک جاتی۔ آکاش کے وسیع نیلگوں کینوس کی نیلاہٹ سیاہ پوش تھی۔ چاند نگر آکاش کے ماتھے کا جھومر تھا۔ پریت گڑھ کے قرب نے فضا مشکبار کر رکھی تھی۔
ابابیلیں طواف کو نکلتیں تو چکور تکتا رہ جاتا۔ چاندنی کی سحر طرازی چہار سو مؤثر تھی۔
دور کہیں ایک روزن وا تھا جس سے لگی دو نظر باز آنکھیں عجب بے نیازی سے سارے منظر کا احاطہ کئے تھیں۔
تماشہ جاری تھا، وارفتگی چھائی تھی۔ بے خودی کا رقص کمال جوبن پر، خوشبو پھیلی ہوئی اور چاند مست تھا، ٹھنڈی چاندنی مسحور، بادلوں کی ولولہ خیز سرمستیاں عروج پر اور کسی کی نظر بازیاں مستقل۔
’’زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا۔‘‘
٭٭٭
گھر
اس گھُپ اندھیری رات میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا اور خاموشی مکمل راج کرتی تھی۔ قبرستان میں احتیاط سے چلائی کدال بھی دبا دبا سا شور ہی تھی۔
وہ قبر کو مطلوبہ گہرائی تک کھودچکا تو اُس نے دکھتی کمر سیدھی کی۔
گیلی مٹی سے لتھڑی کدال سمیت قبر سے اچھل کر باہر نکلا تواس کی مقتول بیوی کی سرد اکڑی لاش میں حرکت ہُوئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
گھر چلیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ایک تیز سیٹی بجاتی آواز سناٹا چیر گئی۔
٭٭٭
تعلق
ہمارا آپس کا تعلق افسانہ سے زیادہ گہرا ہے۔ ہماری واقفیت چند ہی ماہ پہلے ایک ادبی فورم پر ہوئی تھی۔ ہر طرف بزعم خویش ادب کے سقراط بقراط ہڑبونگ مچائے کھڑے تھے۔ رنگا رنگ لفاظی سے نئے لکھنے والوں کو ڈرایا، دھمکایا، سہمایا جا رہا تھا۔ پُرانے اسلوب کو جہنم میں جھونک کر نئی اقسام دریافت کی جا رہی تھیں۔ چاروں طرف ادبی جنگیں چھڑی تھیں۔ بدتمیزی، بد تہذیبی اور کج بحثی سے کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ عدالتوں اور نالشوں کی دھمکیوں سے فضا دھواں دھار تھی۔ نظمیں اور غزلیں منظر سے بالکل غائب تھیں اور تنقید کی ہاہا کار مچی تھی۔
منظر سے کئی ہفتے غائب رہنے کے بعد وُہ مجھے ایک اِن باکس میں سسکتی ملی تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں نے اُسے چمکارا، تسلی دی، سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے کان میں تشفی آمیز سرگوشی کی،
’’ہمارا آپس کا تعلق افسانہ سے زیادہ گہرا ہے‘‘
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنھوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید