اسے بچپن ہی سے اِدھر اُدھر سے پڑھنے کا چسکا تھا۔ پھول اور کلیاں، تعلیم و تربیت، خزانے کی تلاش، ہزار داستان، چاند( پیر جنگلی علیہ ما علیہ)، نسیم حجازی، ابن صفی بی۔ اے، پریم چند، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، ڈپٹی نذیر احمد، غرضیکہ جس کی تحریر ہتھے چڑھی اس نے پڑھ ڈالی۔ بس ایک چسکا لگ گیا تھا پڑھنے کا۔
کتاب جہاں نظر آتی چاٹ جاتا۔
اردو فارسی کے اساتذہ اچھے ملے۔ لکھنا لکھانا سیکھ گیا۔ بزم ادب کا رواج تھا۔ بولنے کی شدبد بھی آ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سکول میگزین، چھوٹے موٹے مقامی اخبار اور پھر گاہے گاہے تحصیل، ضلعی سطح کے مقامی ادبی جریدوں میں چھپنے لگا۔ یونین کونسل کے بی۔ ڈی ممبرز کے انتخابی جلسوں کے سٹیج سیکریٹری کا کام بھی اکثر اوقات اسی کو ملتا۔
ثقیل مضامین جیسے طبیعات، کیمیا، الجبرا سے وہ ایسے گھبراتا جیسے کوئی عفریت ہوں۔ سائنس لیبارٹری کے قریب تک نہ پھٹکتا۔ یہ دور وہ تھا کہ ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ تھا اور خال خال۔ ایک گھر میں ٹی وی ہوتا تو شام کو سارا محلہ دیکھنے آتا۔ جس دن بادل چھا جاتے ٹی وی پروگرام زیادہ واضح دکھائی دیتا اور مزہ دو چند ہو جاتا۔ ریڈیو اور عرض، عروض ناموں والے سستے ڈائجسٹ گھر بیٹھی نیم خواندہ خواتین، درزیوں کی دوکانوں، فٹ پاتھوں پر بہت مقبول تھے۔ اس نے عامیانہ رومانوی داستانوں سے وہ شہرت پائی کہ رہے نام اللہ کا۔ ٹیلی فون تک رسائی ہر کسی کی تھی نہیں۔ غلط سلط سطحی جذباتی خطوط جن میں املا کی اغلاط اور بے وزن شعروں کی بہتات ہوتی، پلندوں کے پلندے موصول ہوتے۔ ہر دس میں سے نو خطوں میں کم و بیش ایک ہی پیرائے اور ایک ہی سے بے رنگ ڈھنگ اشعار سے مزین عشق نامہ تحریر ہوتا۔ یہ بھی بہت عام دعویٰ تھا کہ کاتب کا نام فرضی ہے، کیونکہ سخت روایتی گھرانہ میں فتنہ و فساد کا خطرہ ہے۔
اسی اثنا میں ہوتے ہواتے ہلکی سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک ہوا اور ایک، کسی زمانہ میں اچھے مگر حال کے ماٹھے، کالج میں ایم اے میں داخلہ لے لیا، جو گرتے پڑتے مکمل بھی ہو گیا۔ اسی اثنا میں روزی روٹی کے لئے گئے گزروں کو ٹیوشن پڑھائی اور بالآخر نئے نئے قائم شدہ پرائیویٹ سکول میں مدرس ہو گیا۔ یہاں سے کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اسی چھوٹے شہر کے ایک اخبار نویس کی یاد اللہ لاہور کے ایک فلم ساز سے تھی، جو کہانی کار اور ہدایتکار بھی عموماً خود ہی ہوتا تھا۔ وہ ایک دن فاتحہ کے لئے اس شہر وا رد ہوا تو دوست اخبار نویس نے اس کا تعارف ہدایتکار سے بطور علاقہ کے معروف شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم کے کروایا جو ناقدری کا شکار تھا اور سارا علم نافع ضائع جا رہا تھا۔ فلمساز و ہدایتکار کو ایسے ہی جوہر نایاب کی تلاش تھی جواُس کی گنڈاسہ مارکہ فلموں کے مکالمے ’’ٹھیک‘‘ کر سکے، سو وہ اسے لاہور لے آیا۔
یہ ہجرت میرے دوست کو بہت راس آئی اور سو دَر کھلنے کا سبب بنی۔ فلموں کو زوال آیا تو گھٹیا تھیٹر کا دور شروع ہوا، جو اسے خوب بھایا۔ نام بھی بڑا ہوا اور دام بھی کمائے۔ اس میدان میں باقی جملہ جو بھی فوائد متوقع ہو سکتے ہیں وُہ بھی بلا جھجک حاصل کئے۔
وقت بدلا۔ ایک سرکاری ٹی وی تھا تو معیار کا غلغلہ تھا۔ گنے چُنے، پڑھے لکھے، رکھ رکھاؤ والے لوگ ہی رسائی پاتے تھے۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا سیلاب آ گیا۔ رنگ برنگے کچے پکے ڈراموں کے لئے علیحدہ علیحدہ چینل کھل گئے۔ روزی روٹی کے سلسلے وافر ہوئے اور ہر آڑھا ترچھا، اچھا برا لکھنے بولنے والے پر الیکٹرانک میڈیا کا کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا در ضرور وا ہوا۔
اور پھر آیا سوشل میڈیا کا رنگ رنگیلا چم چم کرتا میلہ۔ ادب و فنون کا سیلاب فیس بک پر بھی امڈ آیا۔ رنگ برنگی دنیا موبائل فون کی چند انچ کی سکرین پر سمٹ آئی۔ ہمارے صاحب نے بھی خوب نام کمایا۔ قسمت نے اور یاوری کی تو ایک انتہائی کم دیکھے جانے والے ٹیلی ویژن نے ایک نیم مزاحیہ نیم ادبی پروگرام کا اینکر بنا دیا۔ آمدن میں اضافہ تو ہوا سو ہوا، دانشوری اور مستحکم ہو گئی۔
ہم ایک دوسرے کو لڑکپن سے جانتے ہیں۔ کل ملاقات ہوئی۔ بڑی باتیں ہوئیں۔ پوچھا، کہاں گھر بنایا ہے؟ بولا اللہ کے فضل سے صحافی کالونی والے پلاٹ پر اچھا گھر بنایا ہے۔ بچے اچھی تعلیم پا کر ٹھکانے لگ گئے۔ تمہاری بھابھی کے بعد زندگی کا مزہ نہیں ہے، اگرچہ دوسری نے میری کم خدمت نہیں کی۔
پھر ذرا چپ ہو گیا اور دکھ سے بولا، ’’یار ہم نے زندگی ایسے ہی نہیں گزار دی؟ ‘‘
میں نے کہا، ’’ایسے ہی کیا مطلب؟ ‘‘
بولا
’’فضول۔ بس یار رائیگانی ہے۔ رائیگانی‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا اور کوئی جواب نہ سوجھا۔
یہ سوال مجھ سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ عام لوگوں کی عام زندگیاں کہیں، ’’ایسے ہی‘‘ تو نہیں گزر رہیں۔ فضول۔ رائیگانی ہی رائیگانی
کسی دن فارغ وقت میں اپنی داستان بھی سناؤں گا۔ پھر آپ سے رائے لوں گا۔ اس نکتۂ نظر سے دیکھوں تو میں نے بھی زندگی میں کوئی بڑے کارنامے انجام نہیں دئیے۔ میری زندگی میں بھی کوئی لمبے چوڑے راز نہیں ہیں۔ نہ گہرائی ہے نہ گیرائی۔ بس ’’ایسے ہی‘‘ گزار دی ہے۔ میری تشویش کم نہیں ہو رہی۔ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کیا رکھا ہے عام آدمی کی زندگی میں؟ نہ گہرائی نہ گیرائی، نہ رنگ نہ راز۔ نہ تشبیہہ نہ استعارہ۔۔ ۔
بس گزر جاتی ہے۔ ’’ایسے ہی‘‘ ۔
’’رائیگانی ہی رائیگانی‘‘
٭٭٭