اردو افسانہ اپنے موضوعاتی تنوع کے ساتھ تکنیک اور ہئیت کے نئے زاویے دریافت کرتا رہا ہے، بیانیہ بدلتا رہا ہے، مزاج میں تجربات ہوتے رہے ہیں لیکن حقیقت پسندانہ اور زندگی آمیز تجربوں کا بیانیہ ہر بدلتے مزاج میں موجود رہا ہے۔ اب تو اردو کی تاریخ ایک سو سولہ سال تک جا پہنچی ہے، پھر بھی کہانی وہی مزہ دیتی ہے جو ہمارے مشاہدے اور تجربے کے قریب ہو۔ روزمرہ زندگی میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ قاری ان میں آسودگی محسوس کرتا ہے۔ البتہ عالمی فکشن میں مختلف زبانوں میں جو تجربے ہو رہے ہیں ان کے اثرات بھی ہمارے آج کے پر بے حد واضح ہیں۔
جاوید انور کے نئے افسانوی مجموعے ’برگد‘ کے افسانوں کا مزاج موضوعاتی اور حسیّاتی سطح پر اپنے معاشرتی فیبرک سے جڑا ہوا ہے۔ اس لئے ان افسانوں میں تکنیک کے نئے تجربے جو عالمی فکشن میں ہو رہے ہیں وہ موجود نہیں ہیں، لیکن آج کی زندگی سے یہ لبریز ہیں۔ جاوید انور نے اس مجموعے کا نام ’برگد‘ سوچ سمجھ کے رکھا ہے کہ تاریخی اعتبار سے برگد لوک دانش اور صوفیاء کے مسکن کی حیثیت میں اپنی علامتی پہچان رکھتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی زندگی بہت سی جہتیں اور بہت سی فکری لہریں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ جاوید انور نے اپنی زندگی کے تجربوں کو ذاتی مشاہدے کی بنیاد بناتے ہوئے معاشرے کے تضادات، منافقتوں اور خود فریبیوں کو کئی پہلوؤں سے دیکھا ہے۔ یوں تو ہمارا طبقاتی معاشرہ کئی سطحوں پر بٹا ہوا ہے اس لئے ہر طرف ایسے کردار موجود ہیں جو دو رُخی زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے بھی موجود ہیں جو خود فریبی میں پناہ لے کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس طرح طبقاتی سطح پر استحصال کی کئی شکلیں جاوید انور کے ان افسانوں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اب اگر ہم ان کا تجزیہ کریں تو پاکستان کا معاشرتی سفر اِن افسانوں میں سمٹ آیا ہے۔ اگر ہم اپنی ابتدائی زندگی میں دیہات اور قصباتی سطح پر کرداروں کو دیکھیں تو وہ زندگی اور اس کی بو باس بھی ذہنی مزاج کے ساتھ موجود ہے۔ نچلے طبقے کے کرداروں میں معاشی، اخلاقی اور معاشرتی سطح پر محرومی کی مختلف شکلیں دکھائی دیں گی اور پھر Urbanization کے نتیجے میں جو اضطراب اور شکست و ریخت پیدا ہوئی ہے اس کا تجربہ بھی ان افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اخلاقی اور روحانی گراوٹ کے کئی پہلو اپنے رُتبے، منصب اور اقتدار کی بنیاد پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر سطح پر انسانی استحصال کے نئے سے نئے طریقے ہماری سوسائٹی میں موجود ہیں۔
ایک خاص بات جو اِن افسانوں میں موجود ہے وہ بدلتی ہوئی زندگی میں ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا انقلاب ہے۔ جاوید انور نے آج ان کے استعمال کو زندگی میں بدلتی ہوئی اقدار کے حوالے سے دیکھا ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور موبائل فون کے انقلاب نے ہماری زندگیوں میں جگہ بنا لی ہے اور اس کے اخلاقی اور معاشرتی پہلوؤں نے ہمیں جتنا متاثر کیا ہے اسے ان افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہسادہ بیانیے میں لکھے گئے ہیں لیکن ان میں ایمائیت، ایجاز اور اشاریت سے کام لیا گیا ہے جو کسی بھی افسانہ نگار کی خوبی ہوتی ہے۔ اپنے قاری پر اعتماد کرتے ہوئے بہت کچھ اَن کہا رہنے دیا ہے جسے قاری آسانی سے سمجھ بھی لیتا ہے اور اس سے رمزیت کی فضا بھی قائم ہو جاتی ہے۔
ان افسانوں میں ایک نئی افسانوی دنیا کو ہم پا سکتے ہیں۔
اصغر ندیم سید