ہمارے بچپن میں رواج تھا کہ رات سونے سے پہلے بزرگ بچوں کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ یہ کہانیاں عموماً بادشاہوں، جنوں پریوں، پچھل پائیوں، جنگلی جانوروں، پرندوں، اللہ کے نیک اور سخی بندوں کی ہوا کرتی تھیں۔ زیادہ تر کہانیاں دلچسپ ہونے کے علاوہ سبق آموز بھی ہوتی تھیں۔ وہ زمانہ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سمارٹ فون سے قبل کا تھا۔ کہانی سنتے ہوئے بچے اپنے بزرگوں کے بہت قریب ہو جاتے اور بہت کچھ سیکھ لیتے۔ کہانیوں سے اپنی دلچسپی کو میں اسی دور سے منسوب کر سکتا ہوں۔
نصاب کے علاوہ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ سکول کی لائبریری کی شاید ہی کوئی دلچسپ کتاب پڑھنے سے بچ گئی ہو۔ بڑے ہوئے تو خصوصی قربت اپنے سب سے چھوٹے ماموں سے تھی جو اُردو ادب سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔ انہوں نے خود بھی منظور احمد ممتاز اور پھر احمد منظور کے نام سے لکھے جو اُس وقت کے معروف ادبی رسائل میں چھپے۔ اُن کے ہاں کتابوں کی الماریاں کلاسیکی اُردو ادب، انگریزی، فرانسیسی اور روسی نثر پاروں کے اُردو تراجم سے بھری رہتی تھیں اور یہ خزانہ میری دسترس میں تھا جس سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہی ماموں کے ساتھ میں نے اوائل عمری ہی میں متعدد بار پاک ٹی ہاؤس جا کر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس دیکھے اور بڑے بڑے نامور ادبا اور شعراء کے درشن کئے۔ شومیِ قسمت کہ میرے عزیز ماموں جوانی ہی میں فوت ہو گئے اور اُردو ادب اُن کی مزید تخلیقات سے محروم رہ گیا۔
مجھے سائنس کے مضامین سے کم رغبت اور اُردو، انگریزی اور فارسی سے خصوصی لگاؤ نے انگریزی ادب کے میدان میں پہنچا دیا۔ گریجوایشن تک جناب امان اللہ خان آسی ضیائی رامپوری اور جناب شہرت بخاری صاحب جیسی نابغۂ روزگار شخصیات سے اکتساب کا شرف حاصل ہوا۔
لکھنا اوائل عمری ہی میں شروع کر چکا تھا جو اس وقت کے اخبارات کی زینت بنا اور کالج میگزین وغیرہ میں بھی چھپتا رہا۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا پھر مقابلہ کا امتحان پاس کر کے نوکری جو شروع کی تو خاصی دیر لکھنا بالکل موقوف رہا۔ کچھ سال پہلے بیوروکریسی کی آخری سیڑھی بھی چڑھ گئے تو دوبارہ لکھنے کی طرف توجہ دینا شروع کی۔
میں کسی مجبوری میں نہیں لکھتا۔ دل سے لکھتا ہوں اور دل کے کہنے پر لکھتا ہوں۔ اپنے ملک کے ہر صوبہ میں کافی لمبے عرصہ تک رہنا نصیب ہوا، درجنوں ملک دیکھے۔ سو وہ لکھتا ہوں جس کا مجھے پتہ ہو۔ کہانی میں جی کر لکھتا ہوں۔ مزہ لے کر لکھتا ہوں۔
میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اپنی تحاریر جناب اسد محمد خان اور شکیل عادل زادہ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کے سامنے پیش کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ انہوں نے کمزوریِ صحت کے عذر کے باوجود کمال مہربانی اور شفقت سے میرے پڑھے اور رائے سے نوازا۔ مستند و معروف نقاد جناب حمید شاہد صاحب نے فلیپ تحریر فرمایا۔ معروف شاعر، افسانہ نگار محقق، نقاد، ایف۔ سی کالج یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار صاحب نے سبپڑھے اور تعارف تحریر فرمایا۔ معروف و مستند افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، محقق اور نقاد جناب اصغر ندیم سید، معروف و معتبر ناول نگار جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی اور میرے پسندیدہ نثرنگار جناب عرفان جاوید نے کمال محبت اور مہربانی سے مفصل تنقیدی تحاریر سے نوازا۔ اِن اکابرین کا لکھا میری کتاب کے ماتھے کا جھومر اور میرے لئے باعثِ فخر و مباہات ہے۔
معروف شاعر اور ناشر جناب خالد شریف نے کتاب کی نوک پلک درست کی اور ان کے مؤقر ادارہ ’’ماورا‘‘ سے یہ میری دوسری کتاب چھپ رہی ہے۔
کتاب کی ترتیب و تزئین میں میرے ساتھی صغیر حسین کی دلچسپی اور محنت کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ میں سب احباب و اکابرین کی محبت کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جاوید انور
(لاہور)
۸ اپریل ۲۰۱۷ء