مجھے یاد ہے آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور ستارے میرے جسم میں چیونٹیاں بن کر داخل ہو گئے تھے اور وہ چیونٹیاں میری رگوں میں رینگ رہی تھیں۔ میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ یہ رونگٹے کسی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک نا معلوم جذبہ کے اثر سے کھڑے ہو گئے تھے اور قابوس بستر پر سو رہا تھا۔۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں جاگ رہا تھا۔ کہ میں اس کی حفاظت کروں لطف کی بات یہ ہے کہ اس ککا مقام ’’خدا‘‘ کا تھا۔ پھر بھی اسے یہ ڈر تھا ’’غلام گروہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو اس کی سلطنت پر طوفان بن کر چھا جائے گا‘‘ ۔ یہ پیشین گوئی ایک نجومی نے کی تھی اور اس نے یہ کہا تھا ’’اس ماہ فلاں تاریخ میں جمعہ کی شب فلاں ساعت میں اس کا جنم ہو گا‘‘ ۔ قابوس اپنے نرم بستر پر سو رہا تھا۔۔ شاید جاگ رہا تھا۔۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں بے چین تھا اور میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا یہ کیسا خدا ہے جس کی جان کی حفاظت میں کرتا ہوں؟ سونے اور جاگنے میں اس کی زندگی میری مٹھی میں ہوتی ہے۔ پھر تو خدا میں ہوا۔ اچانک جسم میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اس کو اپنے آپ پر غصّہ آنے لگا۔ وہ سوچنے لگا یہ بے معنی سا جذبہ کس قدر قوی ہے جو میرے اوپر سوار ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے پھر میں خدا کیوں کر ہو گیا! سنا ہے خدا کے اوپر کوئی دوسری قوت نہ تو حاوی ہوتی ہے اور نہ ہی قابض۔۔ ۔ ا۔۔ و۔۔ ر۔۔ اور میں ایک نامعلوم خواہش کا غلام۔۔ اچانک قابوس کے کروٹ لینے سے وہ چونک گیا اسے اپنے فرض کا احساس ہوا اور بلّم لے کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔۔ قابوس سو رہا تھا۔۔ نہیں۔۔ نہیں بے چین تھا۔ بے چین تو وہ اسی روز ہو گیا تھا جب کہ منجم نے پیشین گوئی کی تھی۔ قابوس نے حکم دیا ’’قطرے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کی تقدیر میں فنا لکھ دو۔۔ اور عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کے درمیان حکم تھا کہ کسی قطرے کے تخلیقی وجود میں آنے سے پہلے اس کو مٹا دو تاکہ وہ زندگی کا منہ نہ دیکھ سکے‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔۔ سارے ملک میں خیمے گاڑ دیے گئے۔ لوگوں کو اس کے حکم پر عمل کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ باپ کو حقِ پدری سے محروم کیا گیا۔۔ ۔ ماؤں کو لذّت مادری سے ترسایا گیا۔ اسقاطِ حمل کی خبریں تیزی سے گشت کرنے لگیں۔ محافظانِ قوم نے اس کا ریہ کو سپھل بنانے کے لئے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اپنے اپنے حصہ کا کوٹا پورا کر کے انعامات لئے۔ نہ جانے کتنے معصوم زندگی سے محروم ہو گئے۔ عورت اور مرد صحبت کے لطف سے محروم ہو گئے۔ اس نے آسمان کو دیکھا، ستارے معمول کے مطابق چمک رہے تھے۔ جسم میں چیونٹیاں رینگ رہی ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے گروہ میں ہی وہ شخص پیدا ہو گا۔ ایک تو ہم بمقابلہ قومِ قبطی جس کی نسل میں سے خود قابوس ہے تعداد میں کم ہیں اور دوسرے قابوس نے ہماری پوری ایک نسل کو قتل کر دیا۔ ممکن ہے اس شخص کے پیدا ہونے کے خوف سے یا اس لیے کہ غلام گروہ کہیں تعداد میں قبطی قوم کے برابر نہ ہو جائے۔ وہ سوچتا ہے اگر وہ شخص پیدا ہو گیا تو وہ تنِ تنہا قابوس اور اس کی سلطنت کے لیے بھاری ہو گا۔ وہ مسکرا اٹھا۔ اس کی نظر قابوس پر گئی جو خرّاٹے لے رہا تھا۔ وہ سوچتا ہے یہ سالا تو سو رہا ہے۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور ہاتھ اوپر اٹھائے ’’اے بادشاہوں کے بادشاہ بھیج تو اس روح کو اس زمین پر جو میرے قوم کو قابوس کے ظلم سے نجات دلائے، میری مختصر سی قوم کو جو اس کے ظلم و ستم کے سبب اور بھی مختصر ہو گئی ہے۔ کب تک میری قوم تباہ و برباد رہے گی اور قابوس کا شکار رہے گی؟ اے خدا ہم لوگ شکار ہیں جو قابوس کے جال میں اپنی مرضی سے پھنستے ہیں۔ ہماری فریاد قابوس کے کانوں تک نہیں پہونچتی اے خدا ہم قابوس کی طرح خدا نہیں بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں انسانوں جیسا بنا دے۔ ہمیں تو اس ذلّت سے نجات دلا۔ تو بھیج اس روشنی کو جو ہمارے درمیان کے اندھیرے کو کاٹ دے اور ہم قابوس کو سمجھ سکیں اس کے فریبوں کو پہچان سکیں‘‘
’’کون ہے؟‘‘ قابوس چونک کر بولا۔
’’کوئی نہیں سرکار‘‘ اس نے بھی چونکتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوہ تم۔۔‘‘
’’ہاں سرکار‘‘
’’اچھا اچھا۔ ہم رفع حاجت کریں گے۔‘‘
چند لمحے بعد بستر خالی ہو گیا اور اس کی بیوی اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، رگوں میں چیونٹیاں رینگنے نے ایک دوسرے کو باہوں میں سمینٹ لیا۔ دونوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو گئیں اور جب کھلیں تو وہ قابوس کے بستر پر بے حس و حرکت برہنہ پڑے ہوئے تھے۔ دونوں نے خوف زدہ آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی بیوی نے کپڑے درست کیے اور خاموشی سے خواب گاہ سے نکل گئی۔ اور وہ بلّم لے کر دروازہ پر تعینات ہو گیا۔
قابوس آیا۔۔ اور بستر پر دراز ہو گیا
اس حادثہ کے بعد مجھے میری بیوی نے بتایا ’’قطرہ نے وجود میں تبدیل ہونے تک فاصلے طے کر لیا ہے‘‘ میں یہ خبر سن کر سہم گیا۔ سوچنے لگا قابوس کی بہیمانہ ظلم سے میں کیسے بچوں گا؟ اور وہ وجود جو میرے وجود کا ایک حصہ ہے اور میری بیوی کے رحم میں روشن ہے تو میں اس روشنی کو کیسے چھپاؤں گا؟ کیسے اپنی حفاظت کروں گا؟ کیا کروں گا؟ اے خدا مجھے راستہ دکھا کہ مجھے دکھائی نہیں دیتا حالانکہ میری آنکھیں ہیں اور تو خدا تجھے سب کچھ دکھائی دیتا ہے جبکہ تیرے آنکھیں نہیں ہیں‘‘ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کو چاروں طرف اندھیرا سا دکھائی دیا اور جب اس نے اپنی آنکھوں سے ہاتھوں کا پردہ اٹھایا تو ایک بجلی سلی اس کے ذہن کے آسمان پر کوندی اور کالے کالے بادلوں میں روشنی دکھائی دی، ہوا کے دوش پر رم جھم رم جھم بارش کی بوندیں ناچتی ہوئی محسوس ہوئیں اور وہ لیلا جو اس کی بیوی کے شکم میں پل رہی تھی، مرلی بجاتی ہوئی سنائی دی اس کی گونج میں وہ مست ہو گیا۔ اور جھوم گیا اس نے اپنی بیوی کو ملک کے قانون سے دور ایک پوشیدہ مقام پر بھیج دیا اور آخر کار وہ مہ، ماہِ کامل بن کر نمودار ہوا۔ منجم نے قابوس کو اطلاع دی ’’حضور سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہے۔ اب ہمارے سروں کی خیر نہیں‘‘
قابوس آگ بگولہ ہو گیا۔ قریب رکھے شمع دان پر اس نے اس زور سے ہاتھ مارا کہ وہ چکنا چور ہو گیا۔ دربار میں سناٹا چھا گیا ’’آج کی شب تولد ہونے والی اولادِ نرینہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے‘‘ قابوس نے سخت آواز میں حکم دیا۔ سارے ملک میں نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گیا، لوگ سر پر ہاتھ رکھے اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہو اور زمین آگ کا گولا ہو گئی ہو۔
وقت گزر گیا۔ قابوس کا دماغ ٹھنڈا ہو گیا۔ سورج اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ زمین ٹھنڈی ہو گئی۔ ایک روز قابوس اپنی اہلیہ کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھا تھا۔ موسم خوشگوار تھا۔ خشک ہواؤں کے جھونکوں پر اس کی بیوی کے بال رقص کر رہے تھے۔ اور کبھی کبھی اس کے خوبصورت رخسار کو مس کر جاتے۔
’’یہ گیسو مجھ سے رقابت نبھا رہے ہیں‘‘ اس نے انگلی سے ان کو ہٹاتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے رخسار پر رکھ دیے۔ اس کی بیوی اس کی باہوں میں جھول گئی۔ اس کے قریب ایک حسین و جمیل بچہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ جس کے چہرے پر فرشتوں جیسی پاکیزگی تھی۔ آنکھوں سے زار و قطار آنسوں بہہ رہے تھے۔ اس کی بیوی اس لڑکے کی آنکھوں اور حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی۔ اس نے مترحم نگاہوں سے اس بچہ کو دیکھا ’’کون ہے یہ بچہ، کس کا ہے یہ؟‘‘
قابوس کی آنکھ پھڑکی، لیکن بیوی کی ضد کے سامنے اس کی ایک نہیں چلی ’’دیکھو جی ہمارے پاس کوئی اولاد نہیں، آپ کے بعد کون اس ملک و مال کا مالک ہو گا۔ اس عظیم الشان سلطنت کے لیے ایک ولی عہد کی بھی ضرورت ہے‘‘
قابوس خوشی سے جھوم اٹھا اور اس نے اس بچے کا نام قینان رکھا اس کی پرورش بڑی شان و شوکت کے ساتھ ہوئی ناز و نعم سے اس کو پالا گیا۔ جنگ و جدل کے تمام فنون شہہ سواری، شاہانہ طور طریقے اس کو سکھائے گئے۔ آخر کار وہ پودا پروان چڑھا اور تناور درخت بن گیا۔ اس درخت کے سائے میں بھٹکے ہوئے مسافر پناہ تلاش کرنے لگے۔ ان پناہ گزینوں کو قینان نے اپنا پہلا درس دیا ’’لوگوں! تمہارا اتحاد قابوس کے لیے طوفان ہو گا اور تمہاری نیکی تمہاری طاقت ہو گی‘‘
یہ پیغام قابوس کے کانوں میں زہر بن کر داخل ہوا تواس کو ایک نا معلوم خوف کا احساس ہوا اس نے اس احساس کو دباتے ہوئے کہا ’’غلام گروہ کے درمیان پھوٹ ڈال دو، یہی ہماری فلاح کا راستہ ہے‘‘
’’حضور گستاخی معاف ہو۔۔ ۔ یہ حکومت کرنے کا کون سا طریقہ ہے‘‘؟ ایک درباری نے پوچھا!
’’ہاں یہ طریقہ ہمارے بزرگ حاکموں سے ہمیں ورثہ میں ملا ہی۔۔ ۔ وہ تو چلے گئے لیکن ہمیں۔۔ ۔۔
’’لیکن حضور اب غلام گروہ میں یہ چال کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ قینان کا اثر لوگوں کے دلوں پر چھا گیا ہے‘‘
’’تو قبطی قوم کو کھلا چھوڑ دو کہ وہ غلام گروہ پر موت بن کر چھا جائے۔۔ ۔۔ اور ملک کے محافظوں سے کہو کہ وہ انہیں اس قدر ماریں کہ غلام گروہ کے آنسو نکل پڑیں۔ اور راعیانِ حکومت سے کہو کہ وہ بعد میں ان آنسوؤں کو اس طرح پونچھیں کہ ان کی خود کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہوں‘‘
اور پھر ایسا ہی ہوا جیسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ لوگوں نے قینان سے مدد چاہی مگر وہ مجبور تھا اس کے پاس سوائے آنسوؤں کے کچھ نہیں تھا۔
’’ہمیں ان آنسوؤں کا کیا کرنا ہے‘‘ ایک بوڑھے نے جھنجھلا کر کہا
’’میرے نسلی بھائیوں! قینان اور قابوس کے آنسوؤں میں فرق محسوس کرو‘‘ قینان نے روتے ہوئے کہا۔
لوگوں میں سکوت سا طاری ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
قینان نے لوگوں کو خطاب کیا ’’ہم مجبور ہیں اور مجبور اس لیے ہیں کہ راعیانِ قوم اور محافظانِ ملک میں غلام گروہ کا کوئی شخص بھی داخل نہیں۔ آؤ ہم اس امر پر غور کریں۔
قابوس، قینان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ڈرنے لگا تھا اس نے حکم جاری کیا۔ ’’راعیانِ قوم اور محافظانِ ملک میں غلام گروہ کے لوگوں کو شامل کر لیا جائے۔ راعیانِ قوم کے لیے فوراً عمل در آمد ہونا چاہیے لیکن محافظانِ ملک میں شامل کرنے کے لیے اسے محض حکم سمجھا جائے‘‘
غلام گروہ کے جو لوگ راعیانِ قوم میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کو قابوس نے بلایا ’’ہم نے تمہیں منصب دیا۔ اس کے عیوض تمہارے آنسوؤں کو خرید لیا ہے اب تم غلام گروہ کے افراد نہیں بلکہ راعیانِ حکومت کے اعضاء ہو تمہیں صرف اپنے منصب ہماری منشاء اور ہماری زندگی کی حفاظت کرنی ہے‘‘
تمام لوگوں نے حلف اٹھایا اور وہی کرنے لگے جو قابوس چاہتا تھا۔ قابوس نے غلام گروہ کے نام ایک اعلان جاری کیا ’’اے غلام گروہ کے لوگو! ہم نے وہی کیا جو تم نے چاہا حالانکہ تمہاری نسل کے بزرگوں سے ہم نے تم کو خریدا تھا۔ مگر پھر بھی ہم نے تم کو راعیانِ قوم میں شامل کر کے برابری کا حق دیا اس کے صلے میں ہم یہ چاہیں گے کہ تم کسی کے بہکاوے میں نہ آؤ بلکہ ہمیں تسلیم کرو‘‘
یہ اعلان آگ کی طرح ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ ہر شخص قابوس کے گن گانے لگا اور قینان سے قطع تعلق کرنے لگے۔ قینان یہ دیکھ کر افسردہ ہو گیا۔ مگر مایوس نہیں ہوا۔۔ ۔ اس نے اپنی تمام قوتوں کا مجتمع کیا۔ اور سوچنے لگا میری قوم کے لوگ بڑے معصوم ہیں۔ جاہل ہیں۔ اس لیے انہیں روشنی کی ضرورت ہے۔ اس نے جگہ جگہ شمع روشن کی ’’اے لوگوں میں تمہاری فلاح چاہتا ہوں، میں تمہاری عزت کے لیے مرتا ہوں۔ تم لوگ علم حاصل کرو کہ انسان اور حیوان کا فرق کر سکو‘‘
قابوس گھبرا گیا۔ اس نے راعیانِ قوم کی مجلس بلائی اور کہا ’’اے غلام گروہ کے لوگو تمہاری قوم بڑی احسان فراموش ہے۔ تم لوگ اگر اپنے منصب کی خیر چاہتے ہو تو اپنی قوم کی تہزیب اور معاشرت کو کچل دو۔ یہ تمہاری وفاداری کا امتحان ہے‘‘
’’اے قابوس تو مجھ کو خرید نہیں سکتا۔ میری زبان تیرے پاس گروی نہیں ہے‘‘ قینان نے کہا
قابوس غصّے سے سرخ ہو گیا۔ مگر اس نے غصہ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ’’تم چاہتے کیا ہو، میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟‘‘
’’مجھے تجھ سے کوئی بیر نہیں۔ میں تجھے روشنی دکھانے آیا ہوں، میرا وجود تیرے ظلم و ستم پر چھا جائے گا‘‘
یہ سن کر قابو گھبرا گیا ’’لیکن میں تمہارا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دوں گا‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔ ج
’’اس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ وقت بہت بڑا منصف ہے‘‘
’’چلے جاؤ‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔
’’آیا کون تھا؟ یہ کہتے ہوئے قینان واپس لوٹ گیا‘‘
اس رات قابوس سو نہ سکا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ اپنے نرم اور گداز بستر پر بہت بے چین تھا۔ ایک پل اس کی آنکھ نہ جھپکی۔ جب بھی وہ اپنی آنکھیں بند کرتا اس کو ڈراؤنے خواب و خیال نظر آتے اس کو محسوس ہوتا کہ قینان اس کے سرپر تلوار لئے کھڑا ہے اور وہ بے بس پرندہ کی طرح اس کے سامنے پڑا ہوا ہے۔ اور غلام گروہ تالیاں بجا رہا ہے۔ اس نے سوچا صبح ہوتے ہی راعیانِ قوم کا اجلاس بلائے گا۔ مگر رات تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی۔ وہ کمرے سے باہر نکل آیا آسمان پر چمکتے ستارے اس کو سینکڑوں افعی کی آنکھیں معلوم ہوئیں جو اس کا تعاقب کر رہی ہیں۔ وہ ڈر کر واپس اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کے کاندھے بھاری ہو گئے تھے اس کو لگا کوئی ہے مگر وہ شکل اس کا گلا گھونٹ رہی ہے۔
صبح ہوئی، قابوس نے راعیانِ قوم کا اجلاس بلایا اور قانون پاس ہوا ’’قاتل کو بھی سزائے موت اور قتل کے لئے اکسانے والے کو بھی موت کی سزا دی جائے گی‘‘
’’لیکن حضور ایسا قانون بنانے سے فائدہ‘‘ ایک راعی نے دریافت کیا
’’تم نہیں جانتے قینان کی طاقت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے مجھے خوف ہے کہ وہ اگر مجھے مارنے میں کامیاب نہ ہوا تو کہیں دوسرے سے قتل نہ کروا دے‘‘
تمام راعیانِ قوم نے قابوس کی عقل کی داد دی۔ قابوس مسکرا دیا۔ وہ سوچنے لگا اب مجھے کوئی نہیں مٹا سکتا۔ ’’میں منجم کی پیشین گوئی کو جھوٹا ثابت کر دوں گا۔ میں تقدیر کی لکیروں کو مٹا دوں گا‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا ’’قینان کے حامیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے‘‘ اس نے محافظانِ قوم کو حکم دیا۔
’’حضور محافظانِ ملک قاتل بن جائیں، یہ کہاں کا انصاف ہے‘‘؟ غلام گروہ کے راعیان نے زیرِ لب اعتراض کیا۔
’’ہمارا انصاف یہ ہے کہ تم سب میری حفاظت کرو‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔
مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ اور ملک میں افرا تفری پھیل گئی۔ محافظانِ ملک کے مظالم کا لوگ نشانہ بنے۔ مگر اس بار غلام گروہ سامنے آ گیا۔ اور مقابلے پر اتر آیا اس نے ظلم کے منھ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ قابوس کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایوانِ حکومت کے پائے لرزتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وہ قینان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ڈرنے لگا۔ منجم نے پیشین گوئی کی تھی ’’غلام گروہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو اس سلطنت پر طوفان بن کر چھا جائے گا‘‘ اس نے چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ اس نے محسوس کیا کہ قینان کی آواز اس کا تعاقب کر رہی ہے ’’میرا وجود تیرے ظلم و ستم پر چھا جائے گا۔۔ ۔ نہیں نہیں‘‘
’’لوگو! اب عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انقلاب کے لیے تیار ہو جاؤ۔ قابوس کا پایۂ تخت لرزنے لگا ہے۔ قینان نے اعلان کیا۔ تمام مجمع نے ’’انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا۔ محل کے درو دیوار ہلنے لگے۔ قابوس ڈر گیا خوف کے بادل منڈلا رہے تھے۔
’’اب ایوان حکومت کو گرانے کے لیے کمر کس لو‘‘ قینان نے بلند آواز میں کہا۔ انقلاب زندہ باد کا فلک شگاف نعرہ فضا میں گونجنے لگا۔ قینان کی رہنمائی میں پورا مجمع آگے بڑھنے لگا۔ اب اس جم غفیر نے طوفان کی سی شکل اختیار کر لی تھی۔ آناً فاناً وہ طوفان قابوس کے محل میں داخل ہو گیا۔
قابوس گرفتار کر لیا گیا۔ قینان تخت نشین ہوا۔ قینان کی عدالت میں قابوس کے خلاف مقدمہ چلا۔
منصف نے فیصلہ دیا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ قابوس نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔ لیکن اس نے ہمیشہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اکسایا ہے۔ اس لیے اس کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے۔‘‘
’’قابوس! جس قانون کو تو اپنا محافظ سمجھتا تھا۔ وہی تیرا قاتل ہے‘‘ قینان نے کہا۔
وقت کا دیوتا کہہ رہا تھا کہ جب جب کنش پیدا ہوں گے ان کے ادّھار کے لیے کرشن آتے رہیں گے۔
٭٭٭