(Last Updated On: )
اب فردوس میرے سامنے ہے لیکن اس سے پہلے ایک طویل عرصہ تک آتشِ فرقت سے میری آنکھیں پگھلتے ہوئے غم میں نم ہوتی رہی تھیں۔ وہ جو کبھی مرکز نگاہ تھی، میری منزل تھی اب خوابِ منزل ہے، خواب جو حقیقت کے پسِ پشت ہوتا ہے۔ حوٗر کا وجود اور اس کا خوبصورت ہونا اس لیے حقیقت ہے کہ وہ میری مسہری پر سوئی ہے اور مجھے بیدار کر رہی ہے لیکن میری بیداری کے عالم میں بھی وہ ہمیشہ دسترسِ نگاہ سے دور رہی ہے شاید اس لیے کہ ہمارے راستے الگ منزلیں لاپتہ، تہذیبی حدود ایک، سیاسی سرحدیں جدا۔ میرے ساجن اس پار، میں اس پار۔ او میرے مانجھی لے کر چل ندیا پار۔۔ وہ ندی کی طرح سیدھی سادی، بہتے پانی کی طرح نرمل اور شیتل، لہروں کی مانند نازک اندام، زیر آب ڈوبی ہوئی آفتاب کی پہلی کرن، میرے اندر چبھن سی ہے کہ کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے عجلت میں لکیر بنائی پہلے دلوں کے بیچ ریکھا کھینچی ہوتی۔ اِس وقت یہاں وہاں سائیں سائیں کا شور ہے اور چاروں طرف سنّاٹا ہے۔ بیڈروم کی خاموش دیواریں بول رہی ہیں باہر سے ہواؤں کی چاپ اور سردی اندر داخل ہو رہی ہے۔ میں نے سگریٹ سلگایا فضا میں دھوئیں کی لکیریں دنیا کے نقشہ کا جال بننے لگیں زندگی کے دھندلے رنگ گہرے ہونے لگے۔ کل اور آج کا فرق مٹ گیا ہے جیسے گزرے وقت اور موجودہ لمحات کے درمیان کی دیوار ٹوٹ گئی ہو۔ تقریباً تیس سال پہلے کا پھونس بنگلہ جو اب سمنٹ کا بن گیا ہے لیکن اب بھی پھونس بنگلہ ہے جیسے تہذیب کی جڑیں روایت میں اور جدت کا رشتہ قدامت میں پیوست پھر نیا کیا اور پرانا کیا؟ شناخت تو وہی ہے جو اس کی بنیاد ہے۔
پھونس بنگلے میں پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس تھومس ایک خوش مزاج، بے تکلف اپنی تہذیب کی پروردہ خاتون تھیں۔ میں انٹرول میں ان کے ساتھ چائے کی پیالیوں میں تھکن اور بچوں کی چیخ پکار انڈیلتا لیکن فردوس کا چائے میں شریک نہ ہونے کا رویہ باعث تشویش تھا شاید اس رویہ کا میرے اوپر گہرا نقش اس لیے ہوا کہ مغربی اثرات کی ہوا اسے نہیں لگی تھی حالانکہ پچھادیہ ہواؤں کی زد میں پورا ایشیا ا ایسا کراہ رہا ہے کہ مغربی اور مشرقی فاصلہ قرب و بعد میں تبدیل ہو کر یہ پہچان بھی ختم ہو گئی ہے کہ مغرب کیا اور مشرق کیا ہے؟
فردوس آسمانی رنگ کی بیڈ شیٹ پر آسمانی مخلوق کی طرح مجھے جگا رہی ہے عمر کے اس ڈھلان پر بھی کھنڈرات، عمارت عظیم ہونے کی دعوے داری آج بھی کر رہی ہے اور کل بھی کرتی تھی۔
’’تم ندی جیسی معصوم ہو‘‘
’’ندی کی معصومیت – طہارت میں چھپی ہے‘‘
’’کبھی کبھی اس میں کٹاؤ بھی آتا ہے‘‘
’’جب ساحل کمزور ہوتا ہے‘‘
کھڑکی پر ٹنگے پردوں کی سرسراہٹ سے چونک گیا ادھر ادھر نگاہیں گھمائیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہاں سچ کہا تھا ساحل جب کمزور ہوتا ہے تب ہی ہلکے سے طوفان کی آہٹ سے پانی ادھر ادھر نکاسی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور ندی بے قابو بھی ہو جاتی ہے۔ میں اس وقت یہی سوچتا تھا کہ اگر وہ ندی ہے تو ساحل کے مضبوط ہونے کا اشارہ میری طرف ہے اگر وہ خود ہی ساحل ہے تو میں یہ کیوں بھول جاؤں کہ عورت ہوتی ایسی ہی ہے؟ پھر وہ تو فردوس ہے جو رات اور دن فردوس کا خواب دیکھتی ہے۔ وہ اِس وقت بھی گہری نیند میں محو خواب ہے دائیں ہاتھ رخسار کے نیچے دائیں کروٹ دونوں پاؤں میں ہلکا سا خم، کمر کا جھکاؤ دوج کا چاند جیسے ہالے میں بدن کے نشیب و فراز سمیٹے ہوئے میرے سامنے روحانی خوشی کاسبب ہے۔
میرے دیکھنے کا اشتیاق روز افزوں بہانے تلاش کرتا تھا لیکن فردوس کا پردہ سے باہر ہونا مذہبی روایت کے ٹوٹنے کا اندیشہ ستاتا تھا۔ مگر دل ہے کہ ہر دیوار کو توڑنے کے لیے کوشاں تھا۔ ایک روز اچانک کھڑکی کے پٹ کھلے تھے سرد ہواؤں کے جھونکے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھی طلباء میں مصروف، اپنے حسن سے بے پرواہ تھی۔ شاید اس کو یہ گمان ہو کہ تنہائی کی آنکھ نہیں ہوتی اور تیرِ نگاہ کے نشانہ سے بھی دور، اس کا یقین تھا۔ چاند چہرے پر گیسو چلمن کی طرح بکھر گئے تھے ان کو ہٹانے کا خیال جیسے ہی ذہن میں آیا دبی سگریٹ کے شعلے سے میری انگلی جل گئی تھی اور اس وقت ایک ٹیس سی میرے سینے میں اتر گئی تھی۔ آج اس سے مل کر دل کی بیتابیاں اور بڑھ گئی ہیں۔ اچانک بِن اطلاع ملاقات ہونے سے میری زبان گنگ اور منھ کھلا رہ گیا۔
’’اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔
’’جب تم گئی تھیں تب بھی تم نے حیران کر دیا تھا‘‘
’’زندگی ’’حیرانی‘‘ کا نام ہی ہے۔ اس میں جو کچھ ہوتا ہے اچانک ہوتا ہے‘‘
گئی کیوں تھیں‘‘
’’والدین کی مرضی سے‘‘
’’آئی کیوں ہو؟‘‘
اپنی مرضی سے‘‘
’’ڈر نہیں لگتا‘‘
’’اب یہ عمر ڈرنے کی نہیں ہے، دوسرے شادی کے بعد عاشق سے ملنے میں عورت کو کوئی خوف بھی نہیں ہوتا‘‘
’’مطلب شادی عورت کے لیے آمد و رفت کا پاسپورٹ ہوتا ہے‘‘
وہ مسکرائی۔۔ ۔۔ میں اس کی مسکراہٹ میں کھو گیا سوچنے لگا۔ فردوس اعلیٰ حسب و نسب کی آسمانی مخلوق نیچ ذات زمینی مخلوق کے بستر پر دراز دنیا سے بے خبر سوئی ہوئی ہے لیکن اس آخری رات کو جب وہ ملاقات کرنے آئی تو دنیا سوئی ہوئی تھی۔
’’نیچ ذات سے مجھے عشق کرنے کا حق نہیں‘‘ اس نے کہا تھا
’’تو کیا اپنی مرضی سے انسان اعلیٰ ذات میں پیدا ہوتے ہیں‘‘
’’تمہیں تو ہماری طرف دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرنی چاہئے‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ نائی چھوٹی ذات کے ہوتے ہیں، ایسا ابّا کہتے ہیں‘‘
’’تم کیا کہتی ہو‘‘
’’دھرتی اور گگن کا ملن آنے والے بھونچال کی سوچنا ہے‘‘ اس نے کہا
’’ایک دھوکا ہے۔۔ ۔۔ ہر طرف‘‘ اچانک میرے منھ سے نکلا
چاروں طرف خاموشی طاری ہو گئی آسمان چپ تھا اور زمین گوں گی ہو گئی تھی۔ اس وقت تلملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا جی چاہتا تھا کہ ان صحیفوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں جن میں انسانوں کی اس قدر بے حرمتی اور تذلیل کی گئی ہو۔ سوچتا تھا جب تک راز رہے سلسلہ عشق جاری رہتا ہے۔ افشاں ہونے پر بدنامی اور ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ میری محبت بھی آزار جاں بن گئی۔ فردوس نے اطلاع دی تھی تم سے دور کرنے کے لیے میری شادی پاکستان میں پھوپھیرے بھائی سید ثروت سے کر دی گئی ابّا کا خیال ہے عشق وہ آگ ہے جس میں قریبی پہلے جھلس جاتے ہیں خاکستر میں دبی چنگاری بھی بنا پھونکے شعلہ بن جاتی ہے۔
اس نے کہا ’’ایک تو غم جلا وطنی کا۔۔ ۔۔ ۔۔
’’دوسرا‘‘
’’بڑا غم اپنا وطن مان کر بھی بے وطنی کا احساس رہتا ہے‘‘ اس کی آنکھیں بھیک رہی تھیں
’’وہ تو اپنوں کا وطن ہے‘‘
’’لیکن مہاجروں کا نہیں۔۔ ۔ اپنوں ہی کے ہاتھوں مرتے ہیں‘‘ اس نے کہا
’’یہاں اپنا وطن ہوتے ہوئے جلا وطنی کی زندگی گزارتے ہیں‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’فرق اتنا ہے کہ غیروں کے ہاتھوں مرتے ہیں‘‘
’’خیر سے شہید تو کہلاتے ہیں‘‘ طنزیہ مسکرائی
’’عجیب تذبذب کا عالم ہے کہ آدمی فردوس چاہتا ہے اور مرنا بھی نہیں چاہتا‘‘
اس نے میری جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی جس کے کوئی معنی نہیں تھے
’’تمہارا شوہر کیا کرتا ہے‘‘
’’مکانات بناتے ہیں کنسٹرکشن کا کاروبار ہے‘‘
’’ڈی کنسٹرکشن بھی کرتے ہوں گے‘‘ میں نے اس کی کھوئی ہوئی آنکھوں میں جھانکا ’’ڈی کنسٹرکشن کی کوکھ میں کنسٹرکشن ہوتا ہے، جسے وہ تلاش کرتے ہیں‘‘ اس نے پہلو بدلا۔
مجھے اس کی یہ حمایت بری لگی۔ فردوس کا کسی سے اس قسم کا تعلق نہیں تھا لیکن تعلق تو میرا بھی نہیں تھا کسی اور سے۔ پھر بھی عاشقی میں رقابت اور محبت کا جذبہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ انتہائے شوق کا کمال یہ بھی ہے کہ اس کے بطن میں ’’حسد‘‘ کا پودا بِنا تخم ریزی کے اگ آتا ہے۔ لیکن اس وقت دل کی زمین اتنی زرخیز نہیں تھی کہ کوئی کڑوا بیج بغیر دیکھ ریکھ کے اگ آئے۔ پہلی نظر کا کمال یہ تھا کہ کھڑکی کے قریب بیٹھی فردوس میرے دل و دماغ پر ایسی چھا گئی تھی کہ جب میں نے اس دھندلے عکس کو رنگوں کی زبان دی تو کینوس پر ایسی تصویر ابھر آئی جو حقیقت سے زیادہ خوبصورت تھی آرٹ کے معنی یہی ہیں کہ فنٹاسی حقیقت کا روپ لے لے اور حقیقت فنٹاسی کی صورت اختیار کر لے اس وقت کچھ ایسا ہی ہوا کہ جیسے سخت گرمی کے بعد ریگستان میں جب پہلی بارش ہوتی ہے تو مٹی کی سگندھ فضا میں اس طرح پھیل جاتی ہے کہ پتھر دل بھی ہرن کی طرح مست ہو جاتا ہے۔ وہ اس لمحہ خلا میں اس طرح قدم رکھ رہی تھی جیسے ہواؤں پر پرندے رقص کر رہے ہوں۔ اس موجود لمحے کائنات اس قدر پر اسرار ہو گئی ہے کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ فردوس میرے سامنے سو رہی ہے اور میں جاگ رہا ہوں۔ سونے سے پہلے اس نے کہا تھا باب سید سے تھوڑی دور آگے کم آباد علاقے تھے لیکن پھر بھی چاروں طرف زندگی پیر پسارے تھی ہر جگہ بیداری تھی، پیڑ پودے تھے، ہوا تھی، صاف و شفاف آسمان پر جھومتے بادل تھے اب تو ہر طرف انسانوں کا جم غفیر ہے لیکن قبرستان جیسی خاموشی ہر جانب ہے، پر تکلف اور تصنع آمیز زندگی ہے ٹیں ٹیں، پوں پوں کے شور کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ اونچی اونچی عمارتیں گوں گی اور بہری ہو گئی ہیں۔ گولی چلے کان پڑی آواز سنائی نہ دے اور قتل ہو جائے۔ یہ بیچارے تہذیب یافتہ لوگ نہ گالی دیتے ہیں۔ نہ لڑتے ہیں۔ خاموشی کا سانپ ان کے سرپر سوار ہے۔ یہ بے حس بازارِاساس کی پوش کالونی جہاں جذبات کا لین دین تول سے ہوتا ہے۔ علم سے بھرا تنگ ذہن دوسروں کی نجی زندگی اور تنہائی اور آزادی میں مخل نہیں ہوتا، مانو سب دماغ سے ہوتا ہے۔
کل میں تمہارے پرانے شہر اپنی پھوپھی سے ملنے گئی تھی۔ کچھ نہیں بدلا۔ وہی تکلف اور بناوٹ سے عاری زندگی، بد تمیز لوگوں کی زندہ بستی، چلتے پھرتے، چیختے چلاتے بھوکے لوگ جو ایک دوسرے کا غم مفت میں بانٹتے ہیں۔ بے علم، بے دماغ، منھ پھٹ نہ رونے میں تکلف نہ ہنسنے پر پابندی۔ ہر آنے جانے پر نظر، ایسی نظر جو جدید طرز کا لباس پھاڑ کر چھپے اعضاء کی بھی پیمائش کر لے۔ گفتار گالی گلوج جیسی، نگاہ گدھوں جیسی قوت شامہ کتوں جیسی چاروں طرف کتے بھونکنے کی آوازیں، کبوتروں کی غٹرغوں، بلی کی میاؤں میاؤں سے سونے والے جاگ جائیں، یہ سب دل سے ہوتا ہے۔ میرا دل بے چین ہو گیا ہے۔ فردوس سو رہی ہے میری آنکھیں جاگ رہی ہیں۔ سونے سے پہلے اس نے کہا تھا کافی عرصہ کے بعد اپنے ملک میں گہری نیند سوئی ہوں ورنہ خوف اور خدشات نے آنکھوں کی نیند چھین لی تھی۔ کراچی حادثاتی شہر ہے صبح کا نکلا شام کو حفاظت سے لوٹ آئے تو غنیمت جانیے۔
’’پاکستان بھی عجیب و غریب ملک ہے جس کی بنیاد مذہب پر ٹکی ہے‘‘ میں نے کہا
’’ہندوستان بھی عجیب و غریب ہو گیا ہے جبکہ اس کی اساس سیکولیرزم ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’در اصل فساد اور دہشت گردی مذہب سے جڑی ہے‘‘
’’یہ سب قصور دانشوری کے زعم میں کئے گئے غلط فیصلے کا ہے‘‘
’’اسی لیے مقتدر اعلیٰ کی زمین پر زمین کے لیے فساد ہوا‘‘
’’ہاں وہ سلسلہ دہشت گردی کی شکل میں آج بھی دراز۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’دہشت گردی ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے‘‘
’’وہ چاہے زبانی ہو یا عملی، دہشت پسندی ہے‘‘
’’فسادات خود دہشت گردی کے ہم معنی ہیں کیونکہ اس میں معاشی اور معاشرتی دونوں ہی نقصان ہوتے ہیں‘‘
’’سلطان بننے کی کوشش میں یہ انسان نہیں رہتے‘‘ اس نے کہا
’’سلطان ہونے کے لیے پہلے انسان بننا ضروری ہے‘‘ میں نے کہا
خاموشی کی کالی چادر میں رات آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہے دیوالی ہو چکی ہے گلابی سردی نے اپنے پر پھیلا دیئے ہیں۔ فردوس کی مسہری کھڑکی کے قریب ہے خنک ہوا کے سبک جھونکوں پر اس کے گیسو محو رقص ہیں۔ میں نے چہرے سے بکھرے بالوں کو ہٹایا اور اپنے ہونٹوں کو جیسے ہی پیشانی پر رکھنے کی کوشش کی اس کی آنکھ کھل گئی وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ میں نے گداز ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹنا چاہا وہ مسہری سے فرش پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گئی۔ خوف اور خفگی کے ملے جلے احساس کے باوجود بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی اور پھر دوسرے ہی لمحے اس نے کہا ’’سرحدیں صرف ملکوں کی نہیں ہوتیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ ہی اچھی لگتی ہے۔ میں ثروت کی عزت کی امانت دار ہوں‘‘
میں بت بنا، ہونٹوں پر جبر یہ مسکراہٹ کے ساتھ گونگے بہرے کی طرح اسے تکے جا رہا تھا۔
٭٭٭