(Last Updated On: )
’’زندگی میں کبھی کبھی ایسے پل بھی آتے ہیں کہ انسان بے حقیقت پریشان ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ خود کلام ہوتا ہے اور سوچتا ہے یہ کیسی رات ہے جو اضطراب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آلامِ روزگار، نہ غمِ عشق ہے۔ آلامِ روزگار ہے نہیں کہ جینے کا مقصد دنیا نہیں اس لیے کبھی احوالِ پریشان ہوئے نہ منتشر۔ غمِ عشق بھی نہیں کہ محبت ایسی سخت چیز ہے کہ جس کے ساتھ لگ جائے رفتہ رفتہ آدمی کو اسی کا بنا دیتی ہے۔ فقر کا خوف بھی نہیں کیوں کہ مجرد ہوں اس لیے ماکولات کی تنگی بھی نہیں — وہ نرم بستر سے حیران و پریشان اُٹھا اور بسترپر ایسے دونوں ہاتھ پھیرنے لگا جیسے شعلے سمیٹ رہا ہو۔ نیند تو کانٹوں کے بسترپر بھی آ جاتی ہے اگر جسم تھکا ہو۔ سارا دن سخت محنت کرتا ہوں۔۔ ۔ پھر نیند کیوں روٹھی؟ ہاں نیند تب ہی ناراض ہوتی ہے جب سکون روٹھ جائے۔ اس نے چاروں طرف نظر پھیلائی کوئی اس کا مساعد و مددگار نہیں تھا۔ وہ بستر پر چت لیٹ گیا، آنکھیں بند کیں کہ قدرے سکون مل جائے لیکن ندارد۔ اس نے بائیں جانب کروٹ لی تنگیِ دل اور خوف کے شدید غلبہ کے سبب اس نے اچانک آنکھیں وا کیں شاید جہنم کا ڈر اور میدانِ حشر کے سوال نے نیند اڑا دی ہو۔ ایک جھٹکے کے ساتھ اُٹھا دائیں جانب اسٹول پر رکھی ٹائم پیس پر نگاہ گئی۔ چار بجے تھے، کمرے سے باہر نکلا اوپر آنکھ گئی صاف و شفاف آسمان پر ستارے مسکرا رہے تھے۔ صبح کاذب کی ایک لکیر چمک رہی تھی۔ اجالا ہونے سے پہلے وہ سکینہ کی تلاش میں نکل پڑا۔۔ ۔ اس نے سوچا تابستان سے نکل کر سکونِ قلب کے لیے گلستان کو نکلوں تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوب صورت باغ ہے اس کی سیرکی جائے ممکن ہے مناظرِفطرت وجہ مسرت بنے۔
کالی سڑک تا حدِّ نظر پُرسکون لیٹی ہوئی ہے اسے انسان کی بے چینی پر ترس آیا۔ سڑک کے دونوں جوانب شٹر لگی دوکانیں خاموش ہیں۔ فٹ پاتھ کے اس طرف درختوں پر غنودگی طاری ہے۔ اکّا دُکّا ٹو وھیلر یا فور وھیلر اس کے برابر سے شٹ سے گزر جاتی خاموشی اس دوران بکھر جاتی وہ سڑک کے کنارے احتیاط سے چلتے ہوئے سہم جاتا اور چونکتے ہوئے ان کی آوازوں کی طرف دیکھتا اور پھر سیدھا دیکھنے لگتا۔ دائیں جانب مڑ کر ایک فرلانگ چلنے کے بعد باغ کے دروازے پر پھڑ بچھائے ایک سادھو چوکرات جمائے دھیان میں مگن ہے وہ بھی اس کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا۔
’’مہاراج میں پرماتما کو پانا چاہتا ہوں، مجھے راستہ دکھائیں۔‘‘ اس نے درخواست کی۔
سادھو نے آہستہ آہستہ گڑبہ آنکھیں کھولیں۔ ’’یہ بتاؤ کہ تم نے کبھی کسی سے پریم کیا ہے۔‘‘
’’مہاراج میں نے آج تک کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ میری تہذیب بچپن سے مذہبی ہے۔‘‘
’’سوچ کر بتاؤ کبھی کسی سے پریم کیا ہو، کسی کو چاہا ہو۔‘‘ سادھو نے پوچھا۔
’’میں نے پرماتما کے سوا کسی کو نہیں چاہا۔‘‘
سادھو نے تیسری بار بھی وہی سوال کیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
وہ سمجھ رہا تھا کہ سادھو کو اس کی بات پر یقین نہیں ہو رہا ہے، شاید سمجھ رہے ہیں کہ میں دنیا میں کسی نہ کسی موہ جال میں ضرور پڑا ہوں۔ اس نے بھی اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے ہر تعلق کو یاد کیا لیکن اسے ایسا کوئی پل یاد نہیں آیا جب وہ کسی کی طرف متوجہ ہوا ہو، اس نے پھر سختی سے انکار کرتے ہوئے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
سادھو مایوس ہو کر بولا ’’تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا جس نے کبھی سنسار میں کسی سے پریم نہیں کیا۔ وہ بھلا پرماتما سے کیسے پریم کر سکے گا؟ تمہارے بھیتر اگر پریم کی چنگاری موجود ہوتی تو میں اسے آگ میں بدل سکتا تھا۔ زندگی تو پریم کے بنا چل نہیں سکتی اور تمہیں اگر اس کا احساس نہیں ہے تو پرماتما جیسی غیرمجسم ہستی کے لیے تو اس کے بغیر راستہ اور بھی مشکل ہے۔‘‘
وہ اور زیادہ بے چین ہو گیا۔ وہاں سے اُٹھا، اضطرابی کیفیت لیے باغ کا دروازہ عبور کیا۔ سورج آسمان کی کھڑکی سے باکرہ کی طرح جھانک رہا تھا۔ کرنیں سونے اور چاندی کا برادہ درختوں پر بکھیر رہی تھیں، پرندوں کی چہچہاہٹ سے باغ گونج رہا تھا۔ درختوں کے درمیانی راستے سے گزر کر وہ فو ّارہ پر آ گیا۔ چہار راستے فوارہ پر ختم ہو رہے تھے۔ ان راستوں کے دونوں طرف گلاب، گیندا، چمیلی اور موگرا کی روشیں لگی تھیں۔ پھولوں کی خوشبو سے خوب صورت منظر مہک رہا تھا۔ پودوں کی پتیوں پر شبنم کے موتیوں سے ہیرے جیسے مختلف رنگ پھوٹ رہے تھے۔ سورج ثیبہ کی طرح جیسے ہی پردہ سے باہر نکلا وہ سوچنے لگا اگر پرماتما مل گیا تو سکونِ قلب کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس نے واپسی کے لیے لمبے لمبے ڈگ بھرے دوبارہ باغ کے دروازے پر سادھو کے قریب پہنچ گیا جس کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔
’’مہاراج پرماتما کی تلاش میں لوگ راج پاٹ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن میرے پاس چھوڑنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’غم تو چھوڑنے اور چھوٹنے پر ہوتا ہے۔‘‘ سادھو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھولوں کی مسکراہٹ اور مہک اس کی روح میں اُتر گئی اور وہ تلاش میں خالی ہاتھ نکل پڑا۔ سڑک ابھی تک سونی پڑی تھی، سادھو کے بول وچن لیے خاموشی سے فٹ پاتھ پر دھیرے دھیرے چلنے لگا۔ دماغ میں طرح طرح کے خیالات پرندوں کی طرح پھڑپھڑانے لگے۔ ’’تمہارے بھیتر اگر چنگاری موجود ہوتی تو میں اسے آگ میں بدل سکتا تھا۔‘‘ وہ سوچنے لگا عشق وہ دریا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا، عقل مند انسان بھی اس میں ڈوب جاتا ہے اور میں ایک بے عقل نا تجربہ کار۔۔ ۔ اس نے متذبذب خیالات کو ایک جانب جھٹکا۔ ہر جانب سے چشم پوشی کی، بائیں طرف گھر میں قدم رکھا۔۔ ۔ اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کیا۔ ذہن میں ارتکاز کی سعی میں سرکھپایا۔ خوب سے خوب ترکی تلاش میں نظر کائنات پر ٹھہری کیوں نہ ٹھہرتی؟ کائنات خوب صورت ہے! شاخِ گل کی طرح نازک، سرو قد، چاندنی بدن، بولے پھول جھڑیں، خوشبو اڑے، چلے صبا جیسی، روشنی کی طرح چنچل ایک محیرالعقول مخلوق جو بیان کی گرفت سے دور۔
’’کائنات تم بہت حسین ہو‘‘ اس نے کہا۔
وہ اپنی تعریف پر اترائی، ذرا مسکرائی پھر سوچنے لگی تخلیق کی تحسین سب ہی کرتے ہیں لیکن تخلیق کار کو بھول جاتے ہیں۔
’’میں اگر خوب صورت ہوں تو کیا؟ اور اس میں میرا کیا ہے؟ اگر میرا ذرّہ برابر بھی کچھ ہوتا تو میں دائم خوب صورت ہوتی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ میں سچ کہتا ہوں۔۔ ۔ مرد و زن سب ہی تمہاری خوب صورتی پر فدا ہیں۔‘‘
’’تو۔۔ ۔ پھر یہ دل کس کو دوں؟۔۔ ۔ (تھوڑے وقفہ کے بعد) مجبوری یہ ہے کہ ایک انار سوبیمار۔‘‘ وہ بڑی بے شرمی سے ہنسی۔
’’میر۔۔ ۔ ے۔۔ ۔ بارے میں۔۔ ۔ کیا خیال ہے؟‘‘ خوشامدانہ لب و لہجہ۔
’’خیال۔۔ ۔ صرف اس لیے کہ تم میرے اوپر فدا ہو۔ یہ فدائیت تو دوسروں میں بھی موجود ہے۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔۔ ۔ حکم کرو تو انسان سے شیطان بن سکتا ہوں۔‘‘
’’یہ تو۔۔ ۔ دوسرے بھی کر سکتے ہیں میرے حکم دیے بغیر بھی۔‘‘ وہ بے حیائی سے مسکرائی۔
چند لمحوں کے لیے سکوت طاری ہو گیا۔ کائنات چپ تھی، فطرت بول رہی تھی۔ دھوپ چٹک رہی تھی، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ آسمان صاف و شفاف تھا۔ دھنک خوش نما رنگوں کے ساتھ کمان کی طرح ایک کنارے پھیلی ہوئی تھی۔
اس نے نظر اُٹھا کر منظر کو دیکھا۔ وہ سوچتی ہے تخلیق کے حوالے سے کیا خالق کو نہیں پہچانا جا سکتا۔ فن کے حوالے سے فن کار کو سمجھنا مشکل ہے لیکن فن کار کے حوالے سے فن کو سمجھنا آسان ہے۔۔
’’تمہاری نرگسی آنکھیں مہ نوش کے سرور کو بھلا دیں، گلاب پنکھڑی ہونٹ فضا کو مہکا دیں، سیاہ زلفیں جہاں بکھر جائیں، پریم ورشا سے منظر خوش رنگ ہو جائے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے شراب کا نشہ عارضی، پھولوں کی خوشبو قلیل وقتی، سیاہ زلفوں کی ورشا کبھی کبھی۔‘‘ کائنات نے بے رخی سے جواب دیا۔
کائنات کی صاف گوئی سے اس کا چہرہ اُتر گیا۔ وہ سوچنے لگا صنف نازک کو اپنی توصیف بہت پسند ہوتی ہے۔ ایسے عاشق کے اوپر وہ دل و جان سے نچھاور ہو جاتی ہے اور وہ بھول جاتی ہے کہ سامنے والا اسے خلوصِ دل سے پیار کرتا ہے کہ خوب صورت فریب کرتا ہے۔ اسے تو بس یہ اچھا لگتا ہے میں بدصورت ہوں پھر بھی اسے خوب صورت لگتی ہوں۔ میرا حسن و جمال فانی ہے، پھر بھی اسے لافانی لگتا ہے۔
’’تم میرے ہوش و حواس پر چھا گئی ہو۔‘‘ اس نے گفتگو جاری کی۔
’’یہ میرے حسن و جمال کا کمال ہے، میرا اس میں کوئی دخل نہیں۔‘‘ کائنات نے کہا۔
’’تمہاری ادائیں آبِ رواں کی لہروں کی طرح ہیں۔‘‘
’’جب ہوا سبک خرام ہوتی ہے تب ہی لہر بنتی ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’پانی کی لہروں کا کوئی بھروسا نہیں۔۔ ۔ بظاہر سطح آب پر خاموش ہوتی ہیں لیکن لہروں کا بننا اور بگڑنا ہواؤں کا چلنا ہوتا ہے۔‘‘
’’وضاحت کرو۔‘‘
’’تمہاری نظروں کا کمال ہے۔۔ ۔ ورنہ جمال اور بے جمال میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔‘‘
’’بے شک جسد آب و گلِ ماں کی طرح طاہر، ممتا کی طرح پاکیزہ ہے لیکن سطح آب سے تہِ آب کا سفر کرو تو کائنات کے اس اندھیرے سے واقف ہو جاؤ گے جو طوفان کی مانند سیاہ اور تباہ کن ہے۔‘‘
وہ مایوس ہو کر حیران و پریشان منہ لٹکائے بیٹھ گیا اُسے سادھو پر بہت غصہ آیا۔ وہ سوچنے لگا کائنات اپنے حسن و جمال میں گرفتار کرتی ہے اور اپنی بے رخی سے اپنے وصال کے خواہش مندوں کو ہلاک کرتی ہے۔ یہ اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے۔۔ ۔ ’’لیکن کب تک بھاگے گی‘‘ وہ بُدبُدایا۔
اس نے بُدبُدانے کی آواز سن لی اور اسے گھور کر دیکھا۔
’’اگر تیری محبت میں نے اوڑھ لی تو میرے پاؤں ننگے ہو جائیں گے اور سرپر اوڑھنی نہ رہے گی۔ میں نے ننگ و نام ہو جاؤں گی۔‘‘ کرخت لہجے میں کہا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
وہ کائنات کے قریب سے اُٹھا۔۔ ۔ کھلے آسمان پر نظر ڈالی، نیلے آسمان کا لامتناہی سلسلہ صاف و شفاف پوری کائنات پر سائبان کی طرح لٹکا تھا۔ اس نے دن میں ستارے تلاش نے کی کوشش کی۔ ستارے توڑنے کے لیے کمر پر پیر رکھنا ضروری ہے۔ صرف محبت کی سیڑھی سے آسمان نہیں چھوا جا سکتا۔ وہ دوڑنے لگا۔۔ ۔ دوڑنے لگا۔۔ ۔ ایسی دوڑ جس میں پیچھے مڑنے کا موقع نہیں ملتا۔۔ ۔ اسے معلوم تھا۔۔ ۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے میں پتھر ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں۔۔ ۔ وہ سوچنے لگا اگر میرے پاس دولت و زر ہوئی تو شمس و قمر کو تسخیر کر لوں گا۔ آسمان کی بلندی پر چڑھ جاؤں گا۔۔ ۔ صبا میرے آگے پیچھے رقص کرے گی۔ چاندنی میرا تعاقب کرے گی اور روشنی میرے پیروں تلے ہو گی۔۔ ۔ پھر بھی یہ کائنات کے مثل نہیں۔۔ ۔ کائنات تو کائنات ہے۔۔ ۔ بلا کی خوب صورت ہے وہ ستارے اس کے بدن سے لپٹے ہیں۔ چاند و سورج ہالے کی صورت کانوں میں لٹکے ہیں۔ خوشبوئیں اس کے ہر عضو سے پھوٹتی ہے۔
اس نے فیصلہ لیا کہ اپنی محنت سے سنگلاخ زمین کو نرم و ہموار کر کے دم لوں گا۔ یہ انفرا اسٹرکچر کا زمانہ ہے کیوں نا تعمیرات کر کے کائنات کو خوب صورت بنایا جائے۔ اس نے دیہی علاقوں کی طرف نظر اُٹھائی، اس کی نظر کا تعاقب ایک دیہاتی شہری نما انسان نے کیا اور پہچان لیا کہ ایک معاشی حیوان شب و روز کے پھیر میں پڑ گیا ہے۔ اس دیہاتی نے کہا شہر مگرمچھ کی شکل میں دیہات کو نگلنے کے لیے بے چین ہے۔ آپ لوگ متحد ہو کر کھیتی بچاؤ آندولن شروع کریں۔ اگر فطرت میں مداخلت ہو گئی تو کائنات کا توازن بگڑ جائے گا۔ عمارتیں، صنعتیں کائنات کے خوش مناظر کو نگل جائیں گی، انسان تازہ ہواؤں سے، سورج کی روشنی سے، چاند کی چاندنی سے، بچوں کی معصوم کلکاریوں سے محروم ہو جائیں گے۔ سوچو پھر کیا ہو گا؟ کائنات بدصورت ہو جائے گی!
آبادی کے ساتھ عمارتوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کو نہ حکومت روک سکی، نہ فطرت، دولت مافیا تو حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر اور تجارت کے نفع و نقصان سے آگے تر کسی چیز کی جانب توجہ نہیں کرتے۔ اب چاروں طرف فلک بوس عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ کھیت کھلیان، پھل پھول، درخت پودے، چرند و پرند، شہد و شیر، باغات و نباتات غرض ہر شے ناپید کیا ہوئی کہ رشتے ناطے، انسانیت، تعلقات، اجتماعیت، دولت کے مول فروخت ہونے لگیں۔ وہ دوڑ رہا ہے۔۔ ۔ دوڑ رہا تھا، پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی اس نے قسم کھائی تھی۔۔ ۔ وہ دوڑ رہا ہے گر کبھی رُکتا تو صرف آسمان کو دیکھتا، تا حدِّ نظر سورج چڑھتے دیکھتا، زمین کو پیروں تلے روندتا۔ اس درمیان اسے کائنات کا خیال آتا۔۔ ۔ وہ بھول گیا کہ کائنات خوب صورت ہے پھر بھی اسے پانے کی جستجو تھی۔۔ ۔ آرزوئے کائنات ابھی زندہ۔۔ ۔ جب بھی زندگی سے فرصت ملتی اپنے عالی شان ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اس کے بارے میں سوچتا اور حیرت افسوس کرتا۔ ایک رات وہ بہت بے چین تھا۔ کائنات اس کے دل و دماغ پر سوار تھی۔ آسمان تلے ستارے جھلملا رہے تھے۔ اس نے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ اونچی اونچی عمارتوں کے روشن دانوں سے ہلکی ہلکی روشنی ٹمٹما رہی تھی جیسے زمین پر بھی ستاروں کا جال بچھ گیا ہو۔ یہ ستاروں کی کائنات عجیب و غریب ہے ان کی تاثیرات بھی حیرت افزا ہوتی ہیں۔ عالم علوی کے تابع کوئی ستارہ میرے لیے ایسا سعد ہوا کہ کام بنتے چلے گئے، لیکن عالم سفلی کا یہ کون سا نحس ستارہ ہے کہ میرا سکھ چین روٹھ گیا ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کائنات کو پانے کے لیے دیگر اشیاء جات کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی لیکن فکر سیم و زر کے علاوہ اب یہ کون سی فکر ہے کہ روز نے شب کو چاٹ لیا۔ رات بھی دن جیسی ہو گئی۔۔ ۔ دن ہے تو نیند نہیں، خواب نہیں۔ خواب نہیں تو زندگی نہیں۔۔ ۔ رات کی سیاہ چادر پھاڑ کر دن نمودار ہو تو شاید سکون ہو۔ وہ نرم بستر سے اُٹھا کھڑکی پر آیا۔ زمین کے ٹمٹماتے ستارے دیکھے جن کی روشنی غائب ہو چکی تھی۔ آسمان دیکھا، جھلملاتے ستاروں کے درمیان صبح کا تارا چمک رہا ہے۔ اسے قدرے سکون ہوا جیسے محشر کی رات سے نجات ملی ہو۔
صبح ہو چکی ہے، سورج رفتہ رفتہ بے پردہ ہو رہا ہے۔ اس نے زمین کو دیکھا۔ اسے لگا پیروں کے نیچے سے کسی نے زمین کھینچ لی ہے۔ خوب صورت مناظر غائب ہیں۔ خوش نما پھول، راحت افزا کھیت، دل فریب سبزہ ناپید ہے اسے محسوس ہوا آنکھوں کی بصارت چلی گئی۔ اسی لمحہ اس نے آنکھیں بند کر لیں، کان آسمان کی جانب لگا دیے، خوش گلو پرندوں کی چہچہاہٹ سے سماعت محروم ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور ہوا خوری کے لیے عمارت کی چھت پر چڑھ گیا۔ ہوا بند ہے لیکن اس کی ہوا بندھ گئی تھی کیوں کہ دیہات شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ چاروں طرف عمارتوں کے درمیان اس کی عمارت سب سے اونچی ہے، اس کی عمارت سے چار فرلانگ دور دائیں جانب مکانات اور جھونپڑے اسے بہت چھوٹے چھوٹے اور بدنما نظر آ رہے ہیں۔ کھیتوں پر عمارتوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ سوچ کر وہ زیر لب مسکرایا۔۔ ۔ اور چھت سے اُتر کر اپنے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔
کھیت نہ رہے، کھلیان بھی ختم ہو گئے۔ کسان بے دست و پا ہو گئے۔ ایک بڑا طبقہ غریبی کی بھٹّی میں سلگنے لگا۔
فادر اگسٹس موٹا نے جب ان لوگوں کی بدحالی دیکھی تو وہ تڑپ گئے۔ ’’تم لوگ بھوکے مرتے ہو، پیٹ کا ایندھن تلاش کرنے کے لیے ادھر اُدھر مارے مارے گھومتے ہو، تم سبھی کو خوش حال بنا دینے کے لیے تو یہ سیٹھ ہی کافی ہے۔‘‘ اس بیان پر اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔ ’’فادر یہ سیٹھ بہت بخیل ہے، اسے کسی کی فکر ہے ہی نہیں۔ چاہیں تو آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں۔‘‘
فادر نے کہا ’’کوشش کرتا ہوں۔‘‘
فادر نے سیٹھ کے دروازے پر دستک دی، اس نے باہر نکل کر فادر کے لیے احترام سے آنکھیں بچھا دیں۔ اپنے خوش حال اور خوش مستقبل ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی اور ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’کبھی کبھی تشریف لا کر میرے گھر کو عزت بخشیں۔‘‘
فادر نے کہا ’’میں ایک راہب ہوں، تاریک الدنیا ہوں، کچھ پاس میں رکھتا نہیں، پر ایک چیز میرے پاس ہے اس کے ہونے میں بہت پریشان ہوں۔ ایک سوئی ہے جو میں اپنے پھٹے کپڑے کو سلنے میں استعمال کرتا ہوں آپ اسے رکھ لیں۔ آپ بھی میری ہم عمر ہی ہیں۔ لگتا ہے دونوں کی رفتار ایک سی ہو گی، پھر آپ سے بہشت میں ملاقات ہو گی۔ تب آپ یہ سوئی مجھے واپس کر دینا۔
اس نے کہا ’’فادر آپ بھی مذاق کرتے ہیں۔ مرنے میں سب کچھ ساتھ نہیں جاتا۔ گیانی ہو کر بھی آپ اتنے بھولے پن کی بات کیوں کرتے ہیں؟‘‘
فادر بولے ’’گیان کی بات تم نے مجھے سمجھا دی، پر تم کیوں جمع کر رہے ہو۔ اس فانی کائنات کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘
وہ فادر کی بات کو سمجھ گیا اور کہنے لگا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کائنات میں سچ اور جھوٹ دونوں کو ٹھیک طورسے سمجھ لیں اسی میں حیات کی کامرانی ہے۔‘‘
فادر کی باتوں کا اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ سوچنے لگا جو کچھ کیا سب بیکار ہے، زندگی چاہے کتنی زیادہ ہو جائے بہرحال کم ہے۔ ایسی زندگی کے پیچھے پڑنا، پیچھے لگنا جو کسی طرح بھی اپنے پاس ہمیشہ نہیں رہ سکتی، بے وقوفی کی انتہا ہے۔ کائنات اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے، اپنے وصال کے خواہش مندوں کو ہلاک کرتی ہے۔ اس کی توجہ میں بھی آفت اور مصیبت سے امن نہیں ہے۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا، کائنات جمیل ہے لیکن رذیل ہے، کائنات خوب صورت ہے لیکن جبت (بے حقیقت) ہے۔
حیض و نفاس، بول و براز سے آلودہ یہ کائنات جس کی تخلیق گندے قطرے سے ہوئی تولد سے پہلے غلیظ کھانا، پھر بھی اس کا کیوں دیوانہ ہوا؟ لعنت اس کائنات پر! اس نے کائنات سے اپنے پروں کو سمیٹ لیا اور آمادۂ سفر ہوا۔۔ ۔ ایسے مقام کی تلاش میں جہاں قلب کو سکینہ، دل کو راحت اور روح کو طہارت نصیب ہو۔۔ ۔ اس نے کائنات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ گیان حاصل کر کے دھیان کے راستے نکل آیا۔۔ ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔۔ ۔ سوچتا رہا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے، آنکھ درست ہو تو سارا بدن روشن ہو جائے۔ اگر آنکھ خراب ہو تو سارا بدن تاریک ہو جائے، پس وہ روشنی مجھ میں ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا کائنات پیچھے چھوٹ گئی ہے آگے کی جانب نگاہ اُٹھائی —- دور سرمئی کہسار پر رُکا ہوا نیلا آسمان سفید بادلوں کی پوشاک زیب تن کیے تن کر کھڑا ہے، چاروں طرف دھوئیں کے مرغولے سائبان کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈھلان پر زیتون کی روشیں آبِ رواں کی لہروں جیسے پھیلی ہیں۔ پہاڑ کے قدموں کے نیچے سبز مخمل بچھی ہے۔ ایک فرلانگ کی دوری پر آئینہ کی طرح صاف و شفاف چشمہ میں آفتاب کی روشنی کا عکس ٹھنڈے پانی کے سنگ محو رقص ہے۔ ایک کنارے سے تھوڑے فاصلے پر ساگوان سے بنی کٹیا کشتی کی طرح زمین پر رکھی ہے، اس کے دروازے پر انگور کی بیل لٹکی ہے۔ چاروں طرف خوش گلو پرندوں کی نغمہ سرائی خوب صورت وادی میں شعلہ سا لپک جائے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ خوش منظر دیکھ کر اس کی بصارت لوٹ آئی اور خوش آواز سن کر جیسے سماعت لوٹ آئی۔۔ ۔ جلوۂ حق دیکھ کر اس نے خوش کلامی کی ’’سبحان اللہ! بادشاہت، قدرت اور جلالت ہمیشہ تیری تھی، تیری ہے، تیری رہے گی!‘‘
گوشہ نشینی کے لیے نگاہِ انتخاب کٹیا پر گئی اور کنجِ تنہائی میں مصلّیٰ بچھا دیا۔۔ ۔ چشمہ پر وضو کیا رب العزت کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔۔ ۔ اے معبود! کائنات کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ کائنات کا حسن و جمال فانی ہے تو لافانی ہے تیرا کمال و جمال لافانی ہے۔ زندگی کی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی میرے اندر بلند حالت پر پہنچنے کی فطری پیاس نے تو نس کی صورت اختیار کر لی۔ یہ غلطی ہے میری، رحم کر، درگزر کر دے۔ اے مالک جس بار کو اُٹھانے کی طاقت نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر۔ اے پروردگار اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔ رہبرِ معتبر جب تو ہمیں سیدھے راستہ پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو!۔۔ ۔‘‘
اس نے آنسوؤں کو پونچھا اور دست دعا کو چہرے پر پھیرا۔۔ ۔ یوں عبادت اور ریاضت میں لگ گیا۔ ایک عبادت گزار بندے کی طرح لوگوں سے الگ رہ کر ذکرِ خداوندی میں مشغول رہا کرتا۔ ایک طویل مدت تک اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتا رہا۔۔ ۔ پیاس لگتی چشمہ کا پانی پیتا، بھوک لگتی انگوروں سے مٹا لیتا۔۔ ۔ ایک عابد کی حیثیت سے اس کا شہرہ سارے عالم میں ہو گیا۔
ایک رات اُجلے نیلے آسمان پر ستارے اپنی جھلملاہٹ سے مسکراہٹ بکھیر رہے ہیں۔ چاندنی چاندی کی پرت کی طرح سبزے پر بچھی ہے۔ چاند کی روشنی درختوں سے چھن چھن کر بکھر رہی ہے۔ چشمہ کے اندر عکسِ ماہِ کامل رقص و سرور میں محو ہے۔ چاروں طرف سکون اور سکوت طاری ہے۔ موسم خوش گوار ہے۔ درخت سجدہ ریز محویت کے عالم میں ہیں۔
چاندنی کی قاشیں کواڑوں کی درازوں سے کٹیا میں داخل ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہے، اچانک دستک ہوئی۔۔ ۔
اس نے دروازہ کھولا۔ چاندنی کا سایہ اندر پھیل گیا۔ دروازہ پر ایک حسین و جمیل عورت آستانہ کے قریب کھڑی ہے۔
’’میرا گھر کافی دور ہے لہٰذا مجھے اپنے گھر میں آج کی رات پناہ دے دو۔‘‘
اس نے نگاہ اوپر اُٹھائی، عورت سجی سنوری مسکرا رہی ہے۔ اس کے ملبوسات سے خوشبو پھوٹ رہی ہے۔
’’کائنات۔۔ ۔‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
’’یہ زیب و زینت میں نے آپ کے لیے اختیار کی ہے اور نگاہِ التفات اس پر ڈالی۔‘‘
وہ خاموش رہا۔۔ ۔
’’تیرا عشق میری خاموشی اور اعراض کا سبب بنا۔ کوشش کی یہ راز رہے لیکن بے سود رہا۔‘‘ کائنات نے اظہار کیا۔
وہ پھر بھی خاموش رہا۔۔ ۔
اس نے اپنے لباس کو بدن سے جدا کیا اور عابد کو اپنے خوب صورت بدن کی جانب دعوتِ نظارہ پیش کرنے لگی۔
اس نے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔۔ ۔ فضا میں تکدّر آمیز سکون پھیل گیا۔۔ ۔ خاموشی کی سائیں سائیں سانپوں کی طرح پھنکارنے لگی۔۔ ۔ نگاہِ طلب آسمان کی جانب اُٹھائی۔۔ ۔ آسمان پر بجلی سی تڑکی۔۔ ۔ ربّ ذوالجلال کی نگاہِ کرم ہوئی۔۔ ۔ اس نے نگاہِ جلال کائنات پر ڈالی۔۔ ۔ اچانک شعلے لپکے۔۔ ۔ چاروں طرف آگ ہی آگ۔۔ ۔ وہ جل کر خاک ہوئی اور خاک میں مل گئی۔ وہ اپنے مقامِ عبادت سے اُٹھا۔۔ ۔ باہر نکلا روشن چمک دار رات ہے، چاندنی کھل رہی ہے، ستارے مسکرارہے ہیں۔۔ ۔ موسم خوش گوار ہے اس نے مغرب کی جانب دیکھا ایک نور سا چمکا اور وہ اس نور میں سر تا پا ڈوب گیا۔
٭٭٭