(Last Updated On: )
تماش بینوں کا ہجوم گھیرے میں کھڑا تھا۔ مداری ڈگڈگی بجا بجا کر چاروں طرف گھوم رہا تھا۔
’’ہاں تو مہربان، قدردان یا تو اپنی مرضی سے جموڑے بنو … … ورنہ ہمیں جموڑے بنانا آتا ہے‘‘ اس نے نظر گھمائی ڈگڈگی کو تیزی سے بجانے لگا۔
’’بھائیو جموڑہ ہماری مرضی سے چلے گا، اٹھے گا، بیٹھے گا … ہم جو دیں گے وہی لے گا … آگے مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہو گا‘‘ وہ مسکرایا چاروں طرف نظر گھمائی، دھوتی پہنے کثیر الجسامت شخص کی طرف اشارہ کیا … آگے بڑھ کر اس کے کان میں کچھ کہا وہ نہیں کرتے ہوئے، ہجوم سے نکل گیا۔
مداری نے قہقہہ لگایا، زور زور سے ڈگڈگی بجائی ’’دھوتی والا بابو ڈر گیا … جو ڈر گیا وہ مر گیا … ‘‘ مداری نے کہا۔
تماش بینوں نے ایک ساتھ ہنسنا شروع کر دیا اور آواز گوٗنج گئی
’’ہاں تو بھائی جان، قدردان، ذرا سی دھمک سے ڈر جاتے ہیں، خون دیکھ کر ڈرنے کی تہذیب کو ہم اسی وقت ختم کر سکتے ہیں کہ اڑتی چڑیا کو پکڑ کر ذبح کرنا سیکھیں‘‘ مداری نے اعلان کرتے ہوئے ڈگڈگی بجائی۔
مداری نے گھیرے کے اندار چاروں طرف گھومتے ہوئے تماش بینوں پر نگاہیں گھمائی زور سے تالی بجائی ’’ہاں تو بھائی جان‘‘ ایک پینٹ شرٹ والے نو جوان کی جانب اشارہ کیا ’’ہمیں بہادر جموڑا چاہئے … ‘‘ میں … میں کی آواز ہجوم میں گونجنے لگی ایک کالی ڈاڑھی والا آگے بڑھا … مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’ہمیں بکرا نہیں چاہئے … ہمیں جموڑا چاہئے … بکرا تو ہم خود بنا لیں گے … ڈاڑھی والا ڈر کر پیچھے ہٹ گیا … ہجوم کے درمیان ناراضگی کی بھنبھناہٹ پھیل گئی … مداری کی جانب سخت نگاہوں سے دیکھا اور مجمع چھوڑ کر چل دیا … ۔
تماش بینوں نے قہقہہ لگایا … مداری نے آواز لگائی بچہ لوگ تالیاں بجاؤ ’’قہقہہ اور تالیوں کی گونج میں مداری کا جملہ ’’اگر کسی نے اپنی زمین چھوڑی تو زمین چھوٹ ہی جائے گی‘‘ … مداری نے ڈگڈگی زمین پر رکھی اور میلے کچیلے جھولے سے پیتل کی بانسری نکالی … منہ سے لگائی اور سریلی آواز فضا میں پھیل گئی … کچھ لوگ کرشن کی مرلی پر جھومنے لگے اس کے سرور میں آنکھیں بند ہو گئیں … باقی لوگ وہم و گماں لئے واپس ہو گئے … مداری گھیرے میں گھوم گھوم کر مرلی بجا رہا تھا … اب اس کے دائیں ہاتھ میں ڈگڈگی بھی تھی۔ مرلی اور ڈگڈگی کی آوازوں میں کوئی مناسب سنگم نہ ہونے کے باوجود ہجوم میں کھڑے تماش بین اس بے لطف منظر میں شریک ہونے کی شعوری کوشش کر رہے تھے چونکہ مداری کے خوفناک سحر میں مبتلا ہو گئے تھے۔
مداری نے اپنی فطرت کے مطابق آواز لگائی ’’ہاں تو بھائی جان، قدردان، زمین پر بیٹھ جاؤ … سب کو مٹی میں ملنا ہے راضی راضی غیر راضی‘‘ اس نے ڈگڈگی بجانا بند کر دیا اور مرلی کو اپنے جھولے میں رکھ لی۔
’’یہ مرلی نہیں صور ہے … جو سور ہے، ہمیشہ کے لئے سو جائیں، ورنہ جبراً سُلا دیا جائے گا‘‘ مداری نے بلند آواز میں کہا
فضا میں قہقہوں کا شور گونج گیا … تماش بین مداری کی جانب دیکھ رہے تھے ’’بڑھتی ہوئی آبادی کو کچل دیا جائے گا … بھائی جان، قدردان آبادی کا طوفان خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ کھانے کو ہے نہیں دانے، اماں چلی بھنانے‘‘ ڈگڈگی گھوم گھوم کر بجانے لگا، کچھ لوگ جیسے ہی چلنے کو ہوئے اس نے زور سے آواز لگائی، کہاں جاتے ہو بھائی جان … کوئی نہیں ہے تمہارا نگہبان … میں ہوں تمہارا قدردان … جو ڈالے گا دان وہی بنے گا بھگوان‘‘ بچہ لوگ زور سے تالیاں بجائیں۔
مداری نے ڈگڈگی اٹھائی اور چہار جوانب بجانی شروع کر دی
آگے قطار میں کھڑے تماش بینوں نے ایک ساتھ آواز لگائی ’’مرلی بجاؤ‘‘
مداری نے جھولی سے مرلی نکالی اور ڈگڈگی رکھ دی … مرلی کی سریلی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ اگلی قطار کے لوگ اس کے جادو میں کھو گئے، پچھلی قطار میں کھڑے لوگ مرلی کی زہریلی سُر کو اپنے جسم کی رگوں میں سرایت ہوتی ہوئی محسوس کرنے لگے جب بے رُخی سے چلنے کے لئے مڑے۔ مداری نے غصّہ سے بھرے لہجہ میں آواز لگائی ’’زمین مت چھوڑو ورنہ ایسی آگ میں جھونک دیا جائے گا نہ جلو گے، نہ مرو گے … بلکہ مرنے سے بدتر ہو جاؤ گے‘‘ آواز جانے والوں کا پیچھا کرتے کرتے فضا میں گم ہو گئی۔
مداری نے ڈگڈگی بجائی اور آواز لگائی ’’بھائی جان یہ پاپی پیٹ نہ ہوتا تو کوئی پاپ نہ ہوتا، نہ کوئی باپ ہوتا نہ بیٹا‘‘ فضا میں قہقہے گونجنے لگے۔
’’بچہ لوگ تالیاں بجائیں ’’بچوں نے تالیاں بجائیں اور کھلکھلا کر ہنس پڑے ’’ہنسنا بند کرو، سوچو، سوچنا ضروری ہے۔ ہمیں نوٹ چاہئے۔ ہاں تو بھائی جان، قدردان، نوٹ ہوں گے تو ووٹ بھی ہوں گے۔ پاپ ہوں گے تو باپ بھی ہوں گے … ‘‘ مداری گھوم گھوم کر ڈگڈگی بجا رہا تھا اور قافیہ پیمائی کر رہا تھا۔
’’جو چلے گئے۔ ان کو بتا دینا یا تو اپنی مرضی سے جموڑے بن جائیں، نہیں تو تماش بین بنا دیا جائے گا‘‘ ۔ مداری نے زمین پر چادر بچھا دی، پیٹ پر ہاتھ مارا ’جتنا بڑا پیٹ ہو گا اتنا ہی ویٹ ہو گا اور ویٹ ووٹ سے بڑھتا ہے، پیٹ نوٹ سے بڑھتا ہے … ہاں تو قدر دان تالیاں بجائیں۔ دل کھول کر دان دیں اور مان کمائیں‘‘ ۔
کچھ بیٹھے ہوئے تماش بین چل دئیے۔ مٹھی بھر لوگ رہ گئے۔ مداری نے اپنی چادر سمینٹی، جھولی کندھے پر رکھی، ڈگڈگی ہاتھ میں لے کر چل دیا اس کے پیچھے معصوم بچے اور چند لوگ چلنے لگے۔
مداری کو اس بات کا مکمل احساس تھا کہ ڈگڈگی کی آواز پر بھیڑ جمع کرنے میں ناکام رہتا ہے لیکن مرلی کی سر تال پر قدرے بھیڑ میں اضافہ ہوتا ہے۔ تمام سعی و محنت کے باوجود وہ آمدنی اور بھیڑ کی قلت کی طرف سے فکر مند رہتا۔ اس نے پیشہ کی نزاکت اور نکات پر غور و خوض کیا اپنے بزرگ مداریوں سے مشورے کئے اور اس نتیجے پر پہونچا جب تک تعداد میں اضافہ نہ ہو گا پیشہ کی لگام ہاتھ میں نہیں آ سکتی۔ ڈگڈگی کا کھیل فرسودہ ہو گیا اس کی آواز پر لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان نہیں۔ اس نے نئے تماشے کی جانب توجہ دی اور مرلی کی آواز پر بندر نچانے پر ریاض شروع کر دیا اور جب اس کھیل کو لے کر اس نے گلی کوچوں میں چکر لگائے تو تماش بینوں کی بھیڑ میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ تماشہ کا یہ منظر کہ کرشن کی مرلی پر ہنومان ناچے‘‘ ایک نیا اور انوکھا منظر ہے۔
تماش بینوں نے اس نئے منظر کو بڑے شوق سے دیکھا اور بہت سوں نے تعریف کی۔ سائنسی دور نے جو مذہبی جذبہ کی وقعت کو کم کر دیا تھا وہ ترو تازہ ہو گیا تھا۔ یہ منظر ایسا تھا کہ تماش بین اس ادھیائے کو رامائن اور مہا بھارت میں تلاش کرنے لگے۔ لیکن مداری نے نئے پرانے مداریوں کی ایک ایسی جماعت بنا لی تھی کہ تماش بینوں کے درمیان اس نئے منظر کو دُہرا دُہرا کر رامائن اور مہابھارت کا ایک جُز بنا دیا تھا اس نئے منظر کو دیکھ کر تماش بینوں کی مختصر جماعت مداریوں میں شامل ہو گئی اور کچھ لوگوں نے جموڑے بننے کے لئے سر تسلیم خم کر دیا۔ مداری اور جموڑے مل کر تماش بینوں کو اپنی فطرت کے مطابق بیوقوف بناتے رہے۔ اب کوشش اس بات کی تھی کہ ایک ہیجڑوں کی سینا بنے جو تانڈو ناچے اور تماش بین خوف زدہ ہو کو نوٹوں کی بارش کر دیں۔ تاریخ کا وہ باب ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ انہوں نے ازبر کر لیا تھا۔
مداری نے بانسری اور ڈگڈگی کے بے سرے امتزاج کی تال چھیڑی، بھیڑ جمع نہ ہوئی، پھر بانسری کی سر تال چھیڑی، تماش بین جمع ہو گئے۔ بانسری کی آواز پر بندر نچانا شروع کیا۔ مگر امید کے مطابق لوگ جمع نہ ہوئے اور جو لوگ جمع ہوئے گھیرے میں کھڑے ہو گئے۔
’’ہاں تو بھائی جان … آگے والے بیٹھ جائیں … پیچھے والوں کا دھیان رکھیں … ہاتھ جوڑ کر ہندوؤں کو رادھے شیام، مسلمان بولیں جے سیا رام … بچہ لوگ تالی بجائیں‘‘ بانسری اور ڈگڈگی کی ملی جلی آوازیں گونجنے لگیں … بیٹھنے والے کسی مذہبی آہنگ میں کھو گئے۔ مداری نے بندر کو بانسری پر نچایا۔ آواز لگائی‘‘ کھڑے ہوئے بھائیوں میں سے کوئی آئے، گھیرے کے درمیان اکڑوں بیٹھ جائے‘‘ ۔
کھڑے ہوئے تماش بینوں نے اپنے چہروں سے خفگی کا اظہار کیا اور چل دئیے، مداری کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔ ’’جو دھرتی چھوڑے، وہ سودائی کہلائے … ہمارے بزرگوں نے لڑائی لڑی، ہمیں آزادی ملی، دودھ کی نہریں بہائیں گے۔ آزادی بچائیں گے خون کی نہریں بہائیں گے۔ بولو جے دھرتی کی … بولو جے دھرتی ماتا کی‘‘ ایک خوفناک آواز گونجی، اور فضا میں دہشت سی پھیل گئی، تماش بین سہم گئے۔ گولائی میں بیٹھے لوگوں میں کچھ لوگ خوف اور نفرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ چل دئیے۔
مداری ڈگڈگی اور بانسری پر بندر نچاتا رہا … جانے والے تماشائی بڑبڑائے ’’دھرم میں یہ نیا ادھیائے … ایک اختراع ہے‘‘ ۔
مداری نے اپنے غصّہ کا اظہار اپنی جبراً مسکراہٹ سے کیا۔
مداریوں کی ایک نشست میں غور و فکر ہوا، چہار جوانب سے مایوسی اور ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہیجڑوں کی سینا تشکیل دینے اور مضبوط بنانے کا جنگی منصوبہ تیار کیا جائے۔ اس نئے کھیل کے لئے ایک رتھ بنایا اس میں دھارمک تصویریں لگائی گئیں، مداریوں کی منڈلی کے درمیان مداری ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا رتھ کے پیچھے ہیجڑے تالیاں پھٹکار رہے تھے، ٹھمکے لگا کر تماش بینوں کو رجھا رہے تھے، نگہبان دونوں اطراف قطاریں بنائے، ہیجڑوں کی عصمت کی حفاظت کی خاطر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔
ہیجڑوں کا قافلہ ناچتے گاتے ٹھمکے لگاتے فحش بیانی کرتے آگے بڑھ رہا تھا، مداری نے آواز لگائی ’’ہاں تو بھائی جان، یہ ہیں ہمارے نگہبان … شمال سے جنوب تک مشرق سے مغرب تک ہماری دھرتی، ہماری کھیتی … بچہ لوگ تالیاں بجائیں‘‘ ۔
ہیجڑوں نے تالیوں کی تال پر ٹھمکے لگائے۔ تماش بینوں کی بھیڑ بڑھتی گئی، ہیجڑے تانڈو ناچتے رہے … مداری ڈگڈگی بجاتا رہا … دھرتی آنسوؤں اور خون سے گیلی ہوتی رہی تماش بینوں کی جیبیں خالی ہوتی رہیں، گلے کٹتے رہے … جان بچانے کے لئے جانوں کی بازیاں لگاتے رہے …
’’ہاں تو بھائی جان … تماش بینوں کو سبق سکھانا ہے، جب تک جموڑے نہیں بنیں گے … ہیجڑے آتنک پھیلاتے رہیں گے‘‘ مداری نے ڈگڈگی زور زور سے بجانا شروع کر دیا۔
چاروں طرف خوف و ہراس کے بادل چھا گئے … تماش بین مداریوں کی جانب مایوس نظروں سے دیکھتے، کبھی جموڑوں پر مترحم نگاہیں ڈالتے، ہیجڑوں سے جان و مال کی بھیک مانگتے مگر نراش ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مطمئن ہو جاتے۔
’’جموڑے نہ بننا خود آتنک کو بڑھاوا دینا ہے، جو جموڑا نہیں وہی آتنک وادی ہے‘‘ مداری کی آواز گونجی۔
تماش بین چونک کر مداری کو دیکھنے لگے۔ ایک تماش بین نے ہمت سمینٹ کر کہا ’’اس طرح آتنک سے آتنک ختم کرنے کے لئے یہ دھرتی آتنک سے بھر جائے گی‘‘ ۔
مداری غصّہ سے تلملا گیا اور آنکھوں سے اشارہ کیا ’’تماش بین وہیں ڈھیر کر دیا گیا‘‘ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، منڈلی چاروں دشائیں گھومتی رہی … ہیجڑوں کی اکثریت بڑھتی رہی اور مداریوں کی ٹولی اقلیت میں آ گئی … ۔
مداری شش و پنج میں آ گئے۔ ایک نامعلوم خوف کے بادل سر پر گھر آئے، مداری تماش بینوں کو رجھانے کی کوشش میں مسلسل ڈگڈگی بجاتے رہے …
ایک دن ہیجڑوں کو اپنی طاقت کا احساس ہو گیا اور انہوں نے مداریوں پر دھاوا بول دیا … شیر کے منہ جب آدم کا خون لگ جاتا ہے تو وہ شہر کی جانب رخ اختیار کر لیتا ہے … مداریوں کے ہاتھوں سے لگام چھوٹ گئی اور اقتدار ہیجڑوں کے قبضہ میں آ گیا رتھ پر سینا براجمان ہو گئی … ہیجڑے ہاتھ میں ڈگڈگی لئے بجانے لگے … ’’ہائے ہائے۔۔ سج رہی، تیری اماں سنہری گوٹے میں … مداریوں کی منڈلی ہائے ہائے … کھل گئی کنڈلی ہائے ہائے … ‘‘ ۔
ہیجڑوں کے تانڈو ناچ نے وقت کی رقاصّہ کے قدم موڑ دئیے تھے، مداریوں کی منڈلی، جموڑوں میں بدل گئی تھی … ل … کن … لیکن تماش بین کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ہیں …… … ۔
٭٭٭