(Last Updated On: )
یہی کوئی دس سال کی عمر ہو گی، جمعرات کی شام تھی، امی نے چراغ جلایا۔ اگر بتیاں سلگائیں اس طاق دیوار کے سوراخ میں اڑس دیں، جس کے چھوٹے سے دروازے پر گوٹا ٹکا سبز ریشمین کپڑے کا پردہ ٹنگا تھا جہاں دکھائی کچھ نہیں دیتا لیکن گھر کے سب ہی بزرگ کہتے تھے کہ اس میں سید بابا رہتے ہیں۔ یہ معمول برسوں سے چلا آ رہا تھا کہ اگر گھر میں کوئی آفتِ نا گہانی آ جاتی تو ہفتہ واری عمل روزانہ میں تبدیل ہو جاتا اور اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ آفت سے نجات نہیں مل جاتی، پھر ایک نئے سبز رنگ کا پردہ سیا جاتا اور پرانا بدل دیا جاتا۔ ایک جمعرات کو امی اگر بتی جلانا بھول گئیں اور مجھے بہرا بھوت بخار چڑھا۔ رات کو عجیب عجیب طرح کے خواب دکھائی دئیے۔ ایک مکروہ صورت بڈھیا جس کے چہرے پر سلوٹیں، گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ میرے سرہانے بیٹھ جاتی اور میری گردن کو پوری طاقت سے دباتی، میں چھڑا کر زینے کی جانب بھاگتا۔
بڈھیا مجھے اپنی تیز رفتاری سے دبوچ لیتی، پورے مکان میں چوہے بلی کا یہ کھیل چلتا۔ خوف کے سبب پسینہ میں شرابور ہو جاتا۔ اس کی گرفت سے نکلنا میرے لئے محال ہو جاتا، یہاں تک کہ میرے منہ سے چیخ نکل جاتی، قریب سوئی ہوئی امی چونک کر جاگ جاتی اور مجھے ہلا جھلا کر اٹھا کر بٹھاتی … جلد از جلد پانی کا گلاس لاتی اور کہتی ’’کیا ہوا؟‘‘ … میں خواب کی تفصیل سناتا … وہ مجھے سمجھاتی ’’ڈرو نہیں بیٹا … سید بابا کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں‘‘ ۔ آخر کار کافی انتظار کے بعد جمعرات آئی، اگر بتیاں جلائی گئیں۔ بتاشوں پر فاتحہ لگی اور بخار اتر گیا۔ کم عمری کمزوری کا نام ہے اس لئے حفاظتی امور کا بڑھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کیونکہ چار دہائیوں قبل انسانوں کی آبادی کم تھی اور بھوٗتوں کی تعداد زیادہ۔ جوں جوں آبادی بڑھی، بھوتوں نے شہر چھوڑ کر سنسان علاقوں کو اپنی قیام گاہ بنا لیا ہے۔ یہ باریک بات میرے اب سمجھ میں آئی ہے کہ جب سے انسان بھوٗت ہو گئے ہیں، بھوتوں نے سنسان علاقے چھوڑ دئیے ہیں۔ اس لئے وارداتیں بڑھ گئیں ہیں انسان کے خوفناک ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ وہ واردات کرتے وقت، آبادی میں بھی نہیں چوکتا۔
اس وقت میرے بزرگوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ انسانوں سے خطرات بڑھنے کے امکانات قوی ہیں۔ جب بھی خوف کا ذکر ہوا تو انہوں نے سورج طلوع و غروب ہونے، سورج کے نصف النہار ہونے اور نصف رات کے بعد بھورے سید والی گلی سے گزرنے پر پابندی لگا دی چونکہ وہاں بد روحیں رہتی ہیں۔ بھورے سید مسلمانوں کا قبرستان ہے جو پاک روحوں کی آباد گاہ ہے۔ بد روح وہی بنتی ہے جو انسان حالتِ ناپاکی میں مرے۔ مسلمان استنجا کرتا ہے۔ سنت طریقے سے غسل کرتا ہے، ہر وقت پاک رہتا ہے پھر بھی نجس حالت میں مر جائے تو گندی روح آسمان کی جانب دوڑ لگاتی ہے اور فرشتوں کے کوڑے کھاتی ہے۔ میں سوچتا بھورے سید کا قبرستان بد روحوں کا مسکن کیوں کر بن گیا۔؟
’’بار بار موت کو یاد کرنے کا ذکر، قبرستان میں دعا درود پڑھنے کا حکم کیوں ہے؟‘‘ عہد طفلی میں سوال کیا
’’سوالات کم کیا کرو؟‘‘ ایسا امی نے بولا
میں خاموش ہو گیا۔ اس بات کی مکمل احتیاط رکھی کہ ضروری کام کی وجہ سے بھی اس راستے سے کبھی نہیں گزرا کیونکہ بھوت قبرستان میں ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل پر ضرور بیٹھ گیا تھا جو اکثر و بیشتر کسی نہ کسی موقع پر دل سے باہر نکل کر میرے چاروں طرف منڈلانے لگتا اور اس وقت تک غائب نہ ہوتا جب تک کہ طاق کے گدی نشین سید بابا کی فاتحہ خوانی ہو کر بچوں میں شیرینی تقسیم نہیں ہوتی۔
چار دہائی قبل، چاروں اطراف لق و دق میدان تھے، کھیت تھے مکان کی چھت سے اوپر کوٹ میں واقع جامع مسجد آسانی سے نظر آتی تھی، گھر کا نوکر بارہ دری بازار سے سودا سلف لینے جاتا دادی دور تک نظر رکھتی، مجال نہیں کہ نوکر اپنے فرائض سے لاپرواہی کرے۔ بھورے سید کے قریب وسیع و عریض میدان تھا۔ میدان میں ہڈی کا گودام، ہڈی کا گودام نیم کے درختوں سے ڈھکا تھا۔ حمید صاحب کے نزدیک لحیم شحیم نیم کے درخت پر اکثر مغرب کے آس پاس اور شب و روز کے بارہ بجے کے درمیان چھم چھم چھم چھن چھن چھن کی آواز آتی تھی۔ مذکورہ اوقات میں بچوں کی مجال کیا بڑے بھی گزرنے سے ڈرتے تھے … حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آواز سب ہی کو سنائی دیتی تھی لیکن دکھائی صرف ان کو دیتی جن پر وہ عورت سوار ہو جاتی تھی۔ بزرگوں نے بتایا نیم کے درخت کے نیچے ایک چھوٹی سے کٹھریا میں ایک مہتر اور مہترانی کافی عرصہ سے رہ رہے تھے محلے کی خدمت گزاری کے عیوض رہنے کے لئے جگہ دیدی گئی تھی … ویسے بھی نیچ ذات کو کون منہ لگاتا ہے؟ یہ بد نصیب لوگ، گوشت خوری کی نسبت سے یا مسلمان گندی قوم کہلانے کی وجہ سے کثیر مسلم علاقوں میں ہی ملیں گے خیر وجہ جو بھی ہو بہر حال وہ جوڑا بہت خوش و خرم تھا۔ عورت خوبصورت ہو تو مہترانی بھی رانی ہو جاتی ہے۔ مجھے خوب یاد ہے رادھے شیام گپتا جی جو چھوٗت چھات کے بے حد قائل تھے۔ پیاز کے چھلکوں پر دھرم بھرشت ہو جاتا تھا مگر مہترانی ان کے دل کی مہارانی تھی۔ ایک رات کے اندھیرے میں لوگوں نے ان کو اس حالت میں پکڑا تھا۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان جنس اور جسم کا فرق مٹ جاتا ہے۔ دن میں گپتا جی کے چھونے کی، بات دور کی سایہ پڑنے سے بھی اَپوتر ہو جانے پر اشنان کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن اچانک سوبر(ڈلیوری) کی حالت میں زچہ بچہ دونوں ہی مر گئے … گویا ناپاکی کی حالت میں وہ آنجہانی ہو گئی اور آخر کار وہ گندی روح، چڑیل بن گئی جو دیکھنے میں مہترانی کی طرح خوبصورت تھی، میٹھی میٹھی باتوں میں پھسلا کر انسانوں سے خصوصی طور سے مردوں سے اپنے پرانے حساب چکاتی۔ لوگ کہتے ہیں چونکہ اس کے خوبصورت جسم پر مردوں نے بدصورت نگاہیں ڈالی ہیں، اپنے بستر گرم کئے ہیں اس لئے ایک ایک لمحہ کا بدلہ لینے کے لئے وہ درخت سے اترتی ہے۔ آج تک میری یہ سمجھ میں نہیں آیا معاملہ جب راضی با رضا کا ہوتا تو بدلہ لینے کی کیا تک ہے؟ اسمیں مردوں کا کیا قصور؟ مگر قصور تو اس عورت کا بھی نہیں چونکہ جوانی اور خوبصورتی کا امتزاج ایک ایسا طوفان برپا کرتا ہے کہ انسانی قدریں اور مذہبی دیواریں سب ٹوٹ جاتی ہیں۔ مردوں کو جب کوئی خوبصورت عورت رجھاتی ہے تو وہ عورت کے پیروں کو نہیں دیکھتا کہ وہ پیچھے مڑے ہیں، یا پیٹ کی جانب مڑے ہیں بہکے قدم سے کیا لینا دینا عورت تو پھر عورت ہے۔
نیم کے درخت کی شاخیں حمید صاحب کے مکان کی طرف جھکی تھیں، چڑیل کا سایہ ہونے کے سبب مرد نکمے ہو گئے، گھر میں لڑکیاں کیا جوان ہوئیں، چڑیل کا شکنجہ کس گیا۔ آئے دن دورے پڑنا اس گھر کا معمول بن گیا تھا۔ شب و روز کے درمیان کسی بھی وقت ’’ہائے ہائے‘‘ کی آوازیں دیواریں پھوڑ کر کانوں میں داخل ہونے کے لوگ عادی ہو گئے تھے۔ چڑیل کیا چاہتی تھی، کسی کو پتہ نہیں تھا۔
ایک روز حمید صاحب کی بڑی بیٹی کو بیہوشی کا شدید دورہ پڑا … ’’ہائے ہائے آئیں آئیں … ہائے ہائے‘‘ کی درد انگیز صدائیں آ رہی تھیں۔ ان کے گھر میں خاندان اور محلے والوں کا ہجوم تھا۔ کمرے میں پٹ لیٹی سدھ بدھ کھوئے ہوئے تھی، بال بکھرے ہوئے تھے۔ قریب ہی قاری صاحب کے بیٹے عدبد الرحمن گدی نشین کسی سریع الاثر عمل کا ورد کر رہے تھے۔ استاد کی اجازت سے وظائف اور عملیات پر مکمل عبور حاصل کرنے کے بعد۔ اس پیشہ میں مہارت اور مقبولیت حاصل کر لی تھی، جس طرح استاد کے حجرہ میں بیماروں کی بھیڑ رہتی تھی اسی طرح عبد الرحمن کے کمرے میں جماؤ رہتا۔ قاری صاحب نے عبد الرحمن کو بیٹے کی طرح پالا تھا زندگی بھر استقرارِ حمل کے تعویذ دیتے رہے لیکن برائے امساک خود کو کوئی تعویذ کارگر ثابت نہیں ہوا یہ مشہور ہے کہ کوئی ڈاکٹر اپنا علاج نہیں کر سکتا کچھ ایسا ہی حال بزرگ قاری صاحب کا تھا۔ مولوی عبد الرحمن کی بزرگی کا کارنامہ دیگر لوگوں کی طرح میں بھی کمرے کے باہر حواس باختہ سن رہا تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں … م … یں … دلاری ہوں‘‘ منمنانے کی آواز
’’کہاں سے آئی ہے‘‘
’’ہڈی کے گودام سے‘‘
قریب بیٹھے ایک شخص نے دوسرے کے کان میں آہستہ سے کہا ’’بڑے پہونچے ہوئے ہیں … ‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ رات کے بارہ بجے کے بعد شاہ جمال کے قبرستان جا کر ہفت پیکر کا برسوں وِرد کر کے موکل قبضہ میں کیا ہے‘‘ دوسرے شخص نے جواب دیا
’’جاتی کیوں نہیں‘‘ چیخنے کی آواز
’’نہیں جاؤں گی … یہ لڑکی مجھے اچھی لگتی ہے‘‘ منمنانے کی آواز
’’تو عورت ہو کر، عورت سے عشق کرتی ہے، بے حیا … بے شرم‘‘
مرد بھی تو مرد سے عشق کرتے ہیں‘‘ منمنانے کی آواز
’’تجھے کوئی حق نہیں؟‘‘
’’انسانوں کو حق ہے‘‘؟ استفہامیہ انداز
یہاں مولوی صاحب چاروں خانے چت دکھائی دئیے، آواز میں لکنت تھی، گھگھیاتے ہوئے بڑے مشکل سے بولے، ’’تو کیوں ستا رہی ہے‘‘ ۔
’’جب انسان انسان کو ستاتے ہیں، تو دنیا تماشہ دیکھتی ہے‘‘ منمنانے کی آواز
انسانی تہذیب پر یہ کاری ضرب مجھے برداشت نہیں ہوئی۔ میں نے کمرے میں جھانک کر دیکھا منظر وہی تھا مولوی صاحب زبان زد وظیفہ پڑھ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور سر سے کمر، کمر سے پیروں تک ہاتھ پھیرتے۔ لڑکی کبھی کبھی گردن اٹھا کر بولتی اور ٹھوڑی زمین پر رکھ دیتی … تھک جاتی تو چت لیٹ جاتی … ہائے ہائے کی آواز سے کمرا بد ستور گونج رہا تھا … ہائے ہائے بند ہونے پر خاموشی طاری ہو جاتی۔ کم عمر میں اس قدر خوفناک منظر کو دیکھنا مرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ پتہ نہیں میرے جسم کے کون سے حصّہ میں گدگدی کا احساس ہو رہا تھا؟ یہ گدگدی بھی بڑے ہی عجیب شے کا نام ہے، زندگی ایک معمہ ہے تو گدگدی بھی ناقابل بیان دیوانہ کا خواب ہوتی ہے۔ لیکن چڑیل بھوت اور آسیب کی بھی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ ان کے اتحاد کا اس سے بڑا نمونہ اور کیا ہو گا کہ یہ مخلوق آپس میں کبھی نہیں لڑتی، ان میں اتفاق ہوتا ہے نہ کینہ و حسد۔ ان کی کائنات میں اصلاح کے لئے نہ کوئی مسیحا آیا، نہ مدر ٹریسا اور نہ ہی کوئی امن کا دیوتا سوائے سلیمان علیہ السلام کے۔ اور انسانوں کی اصلاح کے لئے آدم علیہ السلام سے پیارے نبی تک لاکھوں نبیوں کا ایک سلسلہ ہے۔
تین دہائی قبل، میں جوان ہو گیا تھا۔ دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومنا، موج و مستی کرنا، ہواؤں میں اُڑنا، لڑکیوں کو تاکنا، خواب و خیال کی دنیا سجانا۔ اب رات میں کوئی مکروہ صورت عورت نہیں ڈراتی تھی، لیکن خواب میں خوبصورت لڑکیاں آتی تھیں، یہ خواب جاگتی آنکھوں کے تھے، یہ خواب سوتی آنکھوں کے تھے۔ فکر اور عشق جیسے امراض راتوں کی نیند چھین لیتے ہیں۔ ایک رات اپنی محبوبہ سے ملاقات کر کے امیر نشان سے آ رہا تھا … عشق کی عظمت اور قوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ امی کی سخت ہدایت کے باوجود بھی رات میں لال ڈگی روڈ سے گزرنا عشق کی مجبوری تھی، جہاں نٹ رہتا تھا جو صرف مردوں کو پریشان کرتا تھا۔ چونکہ عشق بھی ایک بھوت ہوتا ہے جب وہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو اس کی تپش سے آ ہنی دیواریں بھی سیال ہو جاتی ہیں۔ رات سنسان اور بھیانک تھی۔ لال ڈگی سڑک کالے اژدھے کے مانند پڑی تھی، سخت سردی سے سڑک کے دونوں کنارے پر کھڑے درخت آسمان پر لگے ستاروں کی طرح ٹھٹر رہے تھے جب ستارے ٹھٹرتے ہیں تو تقدیر بھی سکڑ جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں طرف گڈھے میں بھرا پانی سنگھاڑوں کی بیلوں سے سیاہ مائل ہو رہا تھا۔ اسی جانب تانگہ کے قریب ایک شخص کالا کمبل اوڑھے سردی سے سکڑ رہا تھا
’’تانگہ خالی ہے‘‘
’’ہاں بابوجی … بیٹھو‘‘
تانگہ سڑک پر دوڑنے لگا … کھٹ کھٹ بگ ٹٹ پگ ٹٹ کی آوازیں خاموشی کو توڑ رہی تھیں منظر کی خوفناکی وصل محبوب کے سرور میں دھندلی ہو گئی اچانک عشق کا طلسم اس وقت ٹوٹ گیا جب کوچوان کے بائیں ہاتھ پر نظر گئی جسمیں لگام تھی۔ عجیب بھیانک ہاتھ جس پر بڑے بڑے بال اگے ہوئے تھے سیاہ ہاتھ پر لمبے لمبے ناخون
’’یہ کیا‘‘؟ اچانک میرے زبان سے نکلا
کوچوان نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کا کمبل اتر چکا تھا … لمبوترا چہرہ، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، دانت بڑے بڑے، اس مکروہ چہرے کو دیکھ میں خوف زدہ ہو کر بیہوش ہو گیا۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔ میں کہاں چل رہا ہوں؟ کس طرح گھر آیا؟ … سخت ترین بخار میں مبتلا ہو گیا، دہشت زدہ چہرہ زرد پڑ گیا … جسم لاغر ہو گیا۔، ڈاکٹر اور حکیم کو دکھایا، جوں جوں علاج ہوا، مرض بڑھتا گیا … سب جتن کر لئے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ آخر کار شہر کے مشہور اور قیمتی ڈاکٹر سمیع حمید کو دکھایا گیا۔ بڑے دلچسپ اور پُر مذاق انسان تھے، اندازِ گفتگو ایسا کہ مرض آدھا رہ جائے۔ نہایت زندہ دل اور بے تکلف تھے۔ شراب کے بے حد شوقین تھے، مشہور تھا کہ بغیر پیئے مریض کو دیکھتے نہ ہی آپریشن کرتے ان کے پیشے کے ساتھ شراب ایسے گھل مل گئی تھی کہ مریضوں کو ان کے پیشہ پر اسی وقت اعتبار ہوتا جب وہ نشہ میں ہوتے۔
’’بہت دن کے بعد آئے‘‘ انہوں نے اس انداز سے کہا جیسے کوئی پرانی آشنائی ہو۔
’’ڈاکٹر صاحب، کتنے ہی ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھا دیا‘‘ والد صاحب نے کہا
’’تو مرض بڑھا کر آئے ہو‘‘ ڈاکٹر صاحب نے نبض ہاتھ میں لی اور میرے چہرے کو بغور دیکھنے لگے۔
’’ڈاکٹر صاحب میں نے ’مولوی‘ سیانا، پنڈت کو بھی دکھایا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا‘‘ والد صاحب نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا
’’گھبرائیے نہیں، مرض کا علاج ڈاکٹروں کے پاس ہوتا ہے‘‘
’’ڈاکٹر صاحب جب ہر طرف سے مایوسی ہوتی ہے تب ہی انسان فلیتے اور تعویذوں پر یقین کرتا ہے‘‘
’’اس کے بعد خدا یاد آتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکرائے
’’لال ڈگی کا میں ہی تو نٹ ہوں‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب اتنا زور سے ہنسے کہ مطب گونج گیا
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیوں مذاق کر رہے ہیں آپ؟‘‘ والد صاحب نے انکساری سے کہا۔
’’تمہیں معلوم ہے، جب انسان پر دولت کمانے کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ خود بھوت بن جاتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے یقین دہانی کرائی
ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ان کے مزاج کے عین مطابق تھی اس لئے ہمارے لئے قابل یقین نہیں تھی چونکہ بہت سے امراض کے علاج انسان کی نفسیات سے جُڑے ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے اپنے نٹ ہونے کا اقرار کیا۔ بہر حال میرا علاج ہوا اور مجھے شفا ہوئی اور یہ شفا میرے نصیب میں تھی یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں تھی۔ امی نے سید بابا کے سامنے منت بولی تھی تین جمعراتوں کو حلوے پر فاتحہ لگی اور اگر بتی متواتر ہر روز جلی۔ سید بابا کے سامنے ڈاکٹر صاحب کی حیثیت ہی کیا ہے۔ سید بابا خدا کے نیک بندے اور ڈاکٹر صاحب ایک دنیا دار انسان، اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ سید بابا کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ عام خیال یہ تھا کہ سید بابا نے ایک ہفتہ کے اندر رو بہ صحت کر دیا … ان کی عظمت پر اعتماد پختہ تر ہو گیا۔
اب سے دو دوہائی قبل میری عمر تقریباً تیس سال کی ہو گی۔ شادی، تعلیم، مشاہدہ اور تجربوں نے سوچ و فکر میں سنجیدگی پیدا کر دی تھی۔ میں نائٹ شو دیکھ کر بھورے سید والی سڑک سے لوٹ رہا تھا۔ جیسے ہی سبزی فروش والی مسجد عبور کی قبرستان کی سر حد میں داخل ہوا۔ عجیب ہو کا عالم تھا۔ چاروں طرف سناٹے کو میرے قدموں کی چاپ توڑ رہی تھی۔ لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی تعاقب کر رہا ہو۔ مڑ کر دیکھا دور تک سڑک کالے بھوت کی طرح پڑی ہوئی تھی۔ آدم نہ آدم زاد۔ دو فرلانگ لمبی سڑک کی مسافت اسقدر طویل ہو گئی تھی کہ پیروں میں سمٹنا مشکل ہو گئی تھی۔ قدم بہت بھاری ہو گئے تھے۔ اچانک کھڑ کھڑ کھڑ کی آواز آئی … چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ بائیں جانب گو تم تیاگی اسکول کے آ ہنی گیٹ پر نظر گئی وہ ہل رہا تھا … کھٹک کی آواز سے سنّاٹاٹوٹ گیا۔ ایک اینٹ اتنی زور سے گری کہ میں خوف زدہ ہو گیا۔ شاید بلی کودی ہو … قدموں کی آواز پر کتے بھونکنے لگے … سنسان سڑک کے خاموش منظر کو کھڑ کھڑڑ ڑ اور بھوں بھوں اوں اوں کی آوازوں نے بہت خوفناک بنا دیا تھا … دائیں جانب قبرستان میں اگے پیپل کے درخت سے چھُن چھُن چھُن کی آواز نے چونکا دیا … سوچنے لگا چڑیل ہڈی والے گودام میں نیم کے درخت پر رہتی ہے … یہاں کیسے آ گئی؟ چند لمحے میں چھن چھن کی آواز کو پھڑپھڑاہٹ نے چاٹ لیا۔ پرندے ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔ خوف میرے جسم میں سرایت کر گیا تھا۔ بدن میں کپکپاہٹ پیدا ہو گئی۔ سخت سردی پڑنے کے باوجود پسینہ کی بوندیں پیشانی اور مونچھوں پر ابھر آئیں … میں گھبرایا ہوا سڑک پر چل رہا تھا۔
اچانک میری نظر دُور سامنے گئی ایک کالا سایہ جس کی لمبائی تقریباً چالیس گز ہو گی یہ حساب میں نے اس طرح لگایا کہ مرحوم عبد الاحد کے مکان سے شروع ہو کر رشید ٹھیکیدار کے کارخانہ تک ختم ہو رہا تھا … وہ سایہ آگے کی جانب جھُکا … اس کی لمبائی سکڑ گئی … اس کا دایاں ہاتھ مڑا … اچانک ہاتھ کا سایہ کی لمبائی پھر بڑھ گئی … ہاتھ میں کوئی بھاری پتھر سا محسوس ہوا … خوف اور سردی سے جسم پر لرزہ طاری تھا … چُرمُر … چُرمُر … کی آواز سن کر پیچھے مڑ کر دیکھا … لال ڈگی کا نٹ سر پٹ سر پٹ پیچھا کر رہا تھا۔ پیپل کے درخت سے چھُن چھُن کی آواز میرا تعاقب کر رہی تھی۔ ہڈی والے گودام کی چڑیل میری پشت پر منمنا رہی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی، کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ بھاگنے کی کوشش کی لیکن قدم بھاری ہو گئے تھے۔ سامنے نظر گئی وہ کالا سایہ نالی کے قریب کھڑا تھا اس کے دونوں ہاتھ ستر پر رکھے تھے … اچانک سایہ اسقدر سکڑ گیا جیسے غایب ہو رہا ہو۔ ایسے بھیانک منظر کو دیکھ کر حافظہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے … بہت کوشش کے بعد یاد آیا پیارے حبیب پر جب سخت جادو کر دیا گیا تھا تو معوذ تین نازل ہوئی تھیں۔ میں نے زور زور سے وِرد شروع کر دیا … اس کی برکت سے سایہ وہیں جامدوساکت کھڑا ہو گیا … قدم تیزی سے پوری کوشش کے ساتھ آگے بڑھائے … قبرستان پیچھے رہ گیا اور مرحوم عدبد الاحد کے مکان سے دس قدم پیچھے ہی تھا۔
’’بشیر صاحب اتنی رات گئے کہاں سے آ رہے ہیں‘‘ فضا میں ایک آواز گونجی خوف کی وجہ سے میری گھِی گھِی بن گئی۔ چاروں طرف نظر دوڑائی جواب دینے کے بجائے میرے اوپر سکتہ سا طاری ہو گیا۔
وہ سایہ دو قدم آگے بڑھا … میرے شانہ کو زور سے حرکت دی ’’کہاں کھو گئے میں آپ ہی سے پوچھ رہا ہوں‘‘
’’ہوں‘‘ میں نے چونک کر دیکھا ’’ارے سعید صاحب آپ ہیں‘‘
’’ہاں، پیشاب کرنے آیا تھا … آپ کو دیکھ کر رُک گیا‘‘
ایک ہی لمحہ میں وہ خوفناک منظر میری نگاہوں سے غائب ہو گیا اور سوچنے لگا ڈاکٹر سمیع حمید کے مرنے کے بعد لال ڈگی کا نٹ بھی مر گیا تھا۔
٭٭٭