(Last Updated On: )
آج خلافِ توقع لندن کا موسم بہت اَچھا تھا۔ اَیسا بہت کم ہوتا ہے کہ لندن میں اِیک دو دِن کے لیے دَھوپ نکلے اَور بارش نہ ہو۔ وَرنہ لندن کے موسم کے لیے مشہور ہے کہ اِسے سلیٹی موسم کہتے ہیں۔ یعنی گرے وَیدھر۔ آج موسم اَچھا ہونے کے ساتھ ساتھ لندن میں بینک ہالیڈے بھی تھا۔ عطا ء سخی کالے رَنگ کے چمڑے کے صوفے پر بیٹھے بیٹھے اُچھل پڑے۔ وہ اَبھی اَبھی کام سے وَاپس آئے تھے۔ اُنہوں نے جُرابیں اُتار کے اَپنے جوتوں میں گھسیڑدِی تھیں۔ اُن کی جرابوں کی بدبو کے بھبھوکے اُن کی ناک میں گھُس رَہے تھے۔ اِس کی وَجہ اُن کا جرابوں کا نہ دَھونا تھا۔ اُن کے خیال میں جرابیں دَھونے کے لیے وَاشنگ مشین چلانی پڑتی ہے جو کہ بجلی سے چلتی ہے اَور اِس طرح بجلی کا بل زیادہ آتا ہے۔ پانی کا اِستعمال ہوتا ہے اَور اِس کا بل بھی آتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ کپڑے دَھونے وَالا پاؤڈر بھی اِستعمال ہوتا ہے جو کہ اُن کی مرضی کے بغیر کوئی نہیں اِستعمال کرسکتا تھا۔ اُنہوں نے اِیک خاص قسم کا چمچہ رَکھا ہوا تھا جس سے وَاشنگ مشین کے اُس خاص ڈَبے میں پاؤڈر ڈَالنے سے باہر نہیں گرتا تھا۔ عطا سخی کنجوسوں کے اِمام تھے۔ اُنہیں لندن میں رَہتے ہوئے چالیس سال ہوچلے تھے۔ اُن کے دو مکان تھے جو کہ خاص اِنگلستان میں بسے پاکستانیوں کی زُبان میں فری ہولڈ تھے۔ یعنی اُن کی مورگیج ادا کی جاچکی تھی۔ اُنہوں نے مالیت بھی لگا رَکھی تھی۔ پاکستانی روپوں میں دونوں مکانوں کی قیمت تقریباً پندرہ کروڑ تھی۔ اِس کے علاوہ اُن کے پاس کئی دوکانیں اَور پاکستان میں بھی بے شمار جائیداد تھی۔ جس کا حساب کرنے کو آئیں تو سات نسلیں بیٹھ کے کھاسکتی ہیں لیکن نہ جانے اُنہیں کنجوسی کرنے میں کیا مزہ آتا تھا۔ دو جگہوں سے پنشن بھی آتی تھی۔ اِس کے علاوہ سوشل سیکورٹی (بیروزگاری آلاؤنس) بھی وَصول کرتے تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اِیک دوکان پر غیرقانونی طور پر کام بھی کرتے تھے۔ وہ و ُ ہاں سے ہزار سے لے کر پندرہ سو پاؤنڈ تک کما لیا کرتے۔ پیسے سے وہ اِتنا پیا ر کرتے تھے جتنا کسی شخص کو زِندگی سے پیار ہوتا ہے۔ اِس کے باوجود وہ جرابوں کی تعفن زَدہ بُو برداشت کرسکتے تھے کیونکہ تعفن زدہ بُو سے اُنہیں بچت کی بھینی بھینی خوشبو آتی تھی، یعنی پونڈوں کی۔ وہ ہفتے میںاِیک دَفعہ نہاتے کیونکہ صابن، پانی، گیزراَور بجلی کا نقصان وہ کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ مَیں کہانی کہاں سے کہا ںلے گیا۔ صوفے پر بیٹھے بیٹھے وہ اُس لیے اُچھل پڑے تھے کیونکہ اُنہیں بھی اِیک عدد چھٹی تھی اَور موسم کا حال سُنتے اَور دِیکھتے ہی وہ اُچھل پڑے تھے کیونکہ کل پورا دِن سورج نکلنا تھا۔ موسم تو آج بھی اَچھا تھا اَور بینک ہالیڈے بھی تھا لیکن اُنہیں دُگنی دِھاڑی کا لالچ تھا اِس لیے کام پر چلے گئے تھے۔ اُنہوں نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے اَپنی بیگم کو آواز دِی،
’’بیگم صا حبہ کل ہم سیر کو چلیں گے‘‘۔
بیگم کو بڑی حیرت ہوئی کہ اِن کے شوہرِ نامدار نے خرچے کی بات کی ہے۔ اُنہوں نے اَپنی بیگم سے کہا، ’’کھانا کھا کر مَیں اَپنے اُسی پٹرول پمپ پر جاؤں گا کیونکہ و ُ ہاں پٹرول بنا ملاوَٹ کے ملتا ہے اَور بازار سے پانچ پینی سستا بھی ملتا ہے‘‘۔
بیگم نے باورچی خانے سے ہی جواب دِیا،
’’لیکن وہ پٹرول پمپ تو پینتیس کلومیٹر دور ہے۔ آپ کا پٹرول بھی خرچ ہوگا‘‘۔
اُنہوں نے جواب دِیا،
’’اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خالص پٹرول سے گاڑی خراب نہیں ہوتی‘‘۔
بیگم نے مزید پوچھا،
ــ ’’لیکن اُس پٹرول پمپ میں اَیسی کون سی خاص بات ہے‘‘۔
تو اُنہوں نے کہا،
’’بیگم! و ُ ہاں سے اَسمبلی کے ممبران پٹرول بھروَاتے ہیں۔ اِس لیے و ُ ہاں پر ملاوٹ کی گنجائش نہیں‘‘۔
’’لیکن یہاں لندن میں کون ملاوٹ کرتا ہے‘‘۔ بیگم نے مستعجب ہوکر پوچھا۔
سخی صاحب نے مزید پکا کرنے کے لیے کہا،
’’د ُ نیا میں ہر جگہ ملاوٹ ہوتی ہے۔ لندن کوئی زیادہ نرالا نہیں‘‘۔
اِس کے بعد میز پر کھانا چُن دِیا گیا۔ سخی صاحب سَر سَری سے ہاتھ دَھو کر کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔ جب کھانے کی میز پر اُن کی نظر کوکا کولا پر پڑی تو بیوی پر برس پڑے،
’’بیگم اِتنی مہنگی کوکا کولا لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ڈِیڑھ پاؤنڈ کی دو لیٹر وَالی بوتل۔ تمہیں کتنی دَفعہ کہا ہے وہ سستی وَالی کوکا کولا لایا کرو۔ وہ دو لیٹر کی کوکا کولا سترہ پینی کی آتی ہے اَور اَب تو اُنہوں نے سپیشل آفر بھی لگا دِی ہے، تیرہ پینی‘‘۔
بیگم نے کہا،
’’مَیں گئی تھی لیکن دوکاندار کہنے لگا، پورا کنٹینر منگوایا تھا۔ آج ہی ختم ہوا ہے‘‘۔
’’سٹور میں بھی تو پڑی ہوئی ہے۔ وہ نکال لیتیں‘‘۔
’’وہ تو کب کی خراب ہوچکی ہے۔ اُس کی تہہ میں چینی صاف نظر آتی ہے اَور اُوپر کالا کالا پانی۔‘‘
’’اَری بیوقوف ! اُس کو شیک کرکے پیا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں جب تک کھلیں نہ، خراب نہیں ہوتیں۔ اَرے ہاں یاد آیا۔ حاتم کدھر ہے اَور باطن بھی نظر نہیں آرَہا‘‘۔
’’وہ دونوں عشاء کی نماز پڑھنے گئے ہوئے ہیں‘‘۔
’’وہ کھانا کب کھائیں گے‘‘۔
’’وہ دونوں کہہ رَہے تھے، ہم لوگ یا تو ڈَونر کھا لیں گے یا فش اَینڈ چپس‘‘ ۔ (fish and chips)۔
’’بیگم تمہیں کتنی دَفعہ کہا ہے اِن باتوں کا خیال رَکھا کرو۔ یہ فضول خرچی ہے۔ گھر میں ہر چیز موجود ہے۔ آٹا، چینی حتیٰ کہ کوک بھی‘‘۔
’’اَچھا اَب چھوڑیں بھی، اِتنی بھی کیا بچت کرنی‘‘۔
’’بیگم تم نہیں جانتی۔ اِس طرح فضول خرچی کرنے لگے تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہوجائے گا‘‘۔
’’آپ تو خواہ مخواہ بچوں کے پیچھے پڑے رَہتے ہیں۔ اَب تو وہ دونوں شادی شدہ ہیں‘‘۔
’’اَچھا خیر، جب وہ آئیں تو اُنہیں کہہ دِینا کہ کل ہم لوگ سیر کو جائیں گے‘‘۔
سخی صاحب نے جلدی جلدی کھانا کھایا اَور باہر جاکے گاڑی کی حالت دِیکھنے لگے۔ اچانک اِن کے کانوں کو بیوی کی بلند و بالا آواز سنائی دِی،
’’آپ کا ٹیلی فون آیا ہے‘‘۔
اُنہوں نے باہر سے ہی جواب دِیا،
’’کہہ دَو گھر پر نہیں ہوں‘‘۔
’’آپ کے بڑے بھائی صاحب کا فون ہے‘‘۔
سخی صاحب جھٹ سے گھر میں دَاخل ہوئے اَور رَسیور ہاتھ میں لے کر بات چیت کرنے لگے۔ اُن کی عادت تھی اَگر کوئی دوسرا شخص فون کرے تو لمبی بات کیا کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اِن کا بل نہیں آئے گا۔ بات ختم کر کے رَسیور چونگے پر رَکھتے ہی کہنے لگے، ’’اَرے بھئی کل بھائی جان بھی اَپنے بچوں کے ساتھ سیر کو چلیں گے۔ اُنہوں نے اِسی لیے فون کیا تھا۔ اَور ہاں وہ پکوڑے، سموسے اَور رَوٹیاں بنارَہے ہیں۔ تم بھی اَیسا کرو، پراٹھے اَور اِس کے ساتھ کوئی چیز بنا لو۔ فنگر چپس اَور شامی کباب ضرور بنانا۔ اِتنا کچھ ہو کہ اَگر دوپہر میں ہم لوگوں کو بھوک لگے تو پیٹ بھر کے کھا سکیں۔ جو بچ جائے گا وہ ہم لوگ شام کو کھا لیں گے۔ تمہیں تو پتا ہے رَاستے میں کھانے پینے کی چیزیں کتنی مہنگی ہوتی ہیں۔ اِیک بڑا کارٹن دو لیٹر وَالی پانی کی بوتلوں کا بھی رَکھ لینا۔ ہاں یاد آیا، ساتھ تین چار تینتیس لیٹر (چھوٹی پانی کی بوتل) وَالی خالی پانی کی بوتلیں بھی رَکھ لینا۔ اَب ہر جگہ بندہ بڑی بوتل تو اُٹھاکے نہیں جاسکتا نا۔ اَب مَیں چلتا ہوں۔ باطن اَور حاتم جب آئیں اُنہیں کہنا تیار رَہیں۔ اُن سے کہنا اَیسے کپڑے پہن کر جائیں جو اِستری نہ کرنے پڑیں۔ تمہیں تو پتا ہے اِستری سے بجلی کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ میٹر بہت تیز گھومتا ہے۔ خواہ مخواہ بل میں اِضافہ ہوتا ہے‘‘۔
’’اَب جائیں گے بھی یا باتیں ہی بناتے رَہیں گے‘‘۔
’’اَچھا بھئی جاتا ہوں۔ پہلے تم مجھ سے بات کرنے کو ترسا کرتی تھی اَب جان چھڑاتی ہو‘‘۔
’’پہلے کی بات اَور تھی‘‘۔
’’اَور اَب‘‘۔
’’اَب خدا حافظ‘‘۔
دَروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔
***
صبح سویرے عطا سخی صاحب کے باورچی خانے میں کھڑ کھڑ شروع ہوگئی۔ سیر پر جانے کے لیے چند چیزیں تو تیار ہوچکی تھیں اَور باقی اُن کی بیگم تیار کررَہی تھیں۔ عطا سخی صاحب کوکا کولا کی سستی بوتلیں لینے گئے ہوئے تھے۔ وہ دوکان پر کنٹینر کے اِنتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جس دوکان سے یہ سستی تیرہ پینی وَالی دو لیٹر کی کوکا کولا ملتی تھی نہ وہ دوکان کھلی تھی نہ ہی کنٹینر آیا تھا۔ سخی صاحب کو چار گھنٹے کے اِنتظار کے بعد اُن کی مطلوبہ کوکا کولا ملی۔ اَب تک دَس بج چکے تھے اَور سارے گھر وَالے اُن کا اِنتظار کررَہے تھے۔ اُن کے بیٹے، بہوئیں، اُن کے بچے۔ سخی صاحب کی گاڑی کے اِنجن کے بند ہونے کی آواز آئی۔ جیسے ہی سخی صاحب وَارد ہوئے سب نے جلدی جلدی اَشیائے خورد و نوش گاڑی میں رَکھنی شروع کردِیں۔ گھر سے اِن کے قافلے کو نکلتے نکلتے گیارہ بج چکے تھے۔ اَب تک کوئی نہیں جانتا تھا کہاں جانا ہے۔ اِس لیے سخی صاحب نے نکلنے سے پہلے سب کو بتا دِیا تھا کہ ،’’ہم لوگ برائیٹن (Brighton)جارَہے ہیں۔ اِس لیے جانے کے لیے اِیک اَیسا رَاستہ اَختیار کرنا ہوگا جہاں رَوڈ ٹیکس نہیں دِینا پڑے گا۔ رَاستہ تھوڑا لمبا ہے لیکن چار گاڑیوں کا رَوڈ ٹیکس، آنے جانے کا قریباً چالیس پاؤنڈ بنتا ہے۔ اِس لیے جو رَاستہ مَیں اِختیار کروں تم مجھے فالو کرتے جانا‘‘۔ لندن سے برائیٹن جانے کے لیے اِیک گھنٹہ لگتا ہے لیکن جو رَاستہ اُنہوں نے اِختیار کیا تھا وہ لمبا بھی تھا اَور یہاں بہت زیادہ ٹریفک بھی تھی۔ برائیٹن پہنچتے پہنچتے اِنہیں تین بج چکے تھے۔ جب یہ لوگ برائیٹن پہنچے تو سب کا تھکن سے برا حال تھا۔ لیکن سخی صاحب نے اِیک فضیحتا اَور کھڑا کردِیا کہ ،’’وہ اِیک اَیسی جگہ جانتے ہیں جہاں فری پارکنگ کی جاتی ہے‘‘۔ اَب سب نے گاڑیاں سٹارٹ کیں اَور لگے فری پارکنگ ڈَھونڈنے۔ قریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تگ و دو کے بعد اِنہیں فری پارکنگ مل گئی۔ اَب اِنہیں یہاں سے پیدل چل کے بیچ (سمندر کا کنارہ) کی طرف آنا تھا۔ تقریباً دو کلومیٹر کا رَاستہ تھا۔ سب لوگ پانی کی بوتلیں، پکوڑے، سموسے، جو کچھ بھی کھانے کو تھا اور چٹائیاں، اِن ساری چیزوں کے ساتھ لدے پھندے چلتے رَہے۔ ٹھیک اِیک گھنٹہ یہ لوگ اِس تکلیف دِہ حالت میں چلتے رَہے اَور بالآخر بیچ پر پہنچ گئے۔ چٹائیاں بچھائیں اَور رَوٹیاں، پراٹھے، سستی کوکا کولا، اِن ساری چیزوں کو دَسترخوان پر چُن دِیا گیا۔ رَوٹیاں اَور پراٹھے ہاٹ پوٹ میں پڑے پڑے نَمی کی وَجہ سے گیلے ہوچکے تھے۔ فنگر چپس، شامی کباب، سموسے اَور پکوڑے بھی خراب ہوچکے تھے۔ کوکا کولا شکر کولا بن چکی تھی۔ سب کو بھوک اِتنی سخت لگی ہوئی تھی، دَسترخوان پر کوئی چیز نہ بچی۔ جیسے ہی سب نے کھانے سے فراغت حاصل کی سخی صاحب نے فرمان جاری کیا، ’’وَاپس چلنا ہوگا، کیونکہ گاڑیں دَور کھڑی کی ہیں اَور اُن تک پہنچتے پہنچتے اِیک گھنٹہ لگے گا‘‘۔ طوحاً وکرحاً سب نے اِس نادر شاہی حکم پر عمل کیا اَور خالی کاغذ، بوتلیں، ڈِبے اِنہوں نے بِن کی نظر کئے اَور چٹائیاں لپیٹ کے اِنہوں نے بغل میں دَاب لیں۔ اِس طرح یہ قافلہ دوبارہ گاڑیوں کی طرف روانہ ہوا۔ جیسے ہی گاڑیوں کے پاس پہنچے، سب نے خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ اَب یہ لوگ ڈِیڑھ گھنٹے میں پہنچے تھے۔ گاڑیاں سٹارٹ کیں اَور گھر کی رَاہ لی۔ جب گھر پہنچے تو رَات کے گیارہ بج چکے تھے۔ باطن اَور حاتم اَپنے بیوی بچوں کے ساتھ اَپنے گھر کو ہولیے اَور عطا سخی کے بھائی جان بھی اَپنے بچوں کے ہمراہ اَپنے گھر کو رَوانہ ہوئے۔