مالا نے سختی سے حیدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا “کیا آپ میرے برے حالات، خراب رویے یا میری کسی بھی کمزوری کے باوجود میرا ساتھ دیں گے؟ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے؟ ”
اس کے اس قدر شدت سے پوچھے جانے والے سوال نے حیدر کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا اور اس نے مالا کے سوال کا جواب اثبات میں دیا “مجھے خوشی ہے کہ آپ نے دو ٹوک انداز میں مجھ سے پوچھ لیا۔ اب کہیں تو خون سے لکھ دوں کہ ہاں میں ہر حال میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ وعدہ رہا آپ سے۔ ”
مالا کے چہرے پر تناؤ کی کیفیت کچھ کم ہو گئی۔ اور اسکی جگہ ملائمت نے لے لی۔ حیدر کی بات نے اسے کافی پرسکون کر دیا تھا۔ اور مالا جو احمد کے دیے گھاؤ سے نڈھال تھی اب حیدر کی محبت پھاہا بن کر اس کا مرہم بننے والی تھی۔
* * * * * ۔
محبت کا پودا بھی عجیب ہے ۔۔اسے کاٹ ڈالو تو پھر سے سر اٹھا لیتا یے۔ اس پودے کی یہی خاصیت ہے کہ یہ سدا بہار ہے۔ بظاہر خزاں اسے ٹنڈ منڈ کر بھی دے مگر پھر بہار آتے دیر نہیں لگتی۔ یہ کبھی جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آبیاری ہوتے ہی اسکی کونپلوں پر ننھے منھے جذبوں کے شگوفے پھر سے روح مہکانے لگتے ہیں۔
مالا بھی آنے والے وقت سے بے خبر خود کو اس نئی اڑان کیلیے تیار کر رہی تھی۔
احمد کے چلے جانے کے بعد مالا کو ایک عجیب سا وہم ہو گیا تھا۔ جسے ٹوٹ کر چاہو اس سے جدائی توڑ دیتی ہے۔
احمد کے چلے جانے سے مالا کے اندر جس ویرانی نے ڈیرا ڈال لیا تھا اب حیدر کی موجودگی اس برف میں دراڑ ڈال رہی تھی
اس کے دل میں حیدر کیلیے کوئی گلاب نہیں تھا مگر ایک ننھا سا بیج ضرور بویا جا سکتا تھا جس کی آبیاری وقت کے حوالے۔
“مالا دیکھو تم سے ملنے کون آیا ہے؟ ”
مالا کی والدہ نے اسے اٹھایا۔ آنکھیں ملتی مالا نے پوچھا “کون آیا ہے؟ ”
اسکی امی مسکرا کر بولیں “خود ڈرائنگ روم میں جا کر دیکھ لو”
مالا اٹھی اور واش بیسن سے منہ دھو کر بال بنا کر ڈرائنگ روم کی طرف چل دی۔
اندر داخل ہو کر حیدر پر نظر پڑتے ہی مالا کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
“ارے آپ؟ سب ٹھیک ہے؟ خیریت سے تشریف لائے ہیں؟ ”
مالا نے اچانک ہی کہا تو حیدر مسکرا کر بولا “کیوں کیا میں ایسے ہی تشریف نہیں لا سکتا؟ ”
“نہیں نہیں ۔۔بالکل آ سکتے ہیں۔ بیٹھیے نا”
مالا نے خوش مزاجی سے کہا۔
حیدر بیٹھتے ہوئے بولا ” بس اس دن آپ نے جو کہا تھا وہ یاد آگیا اور میں آپ سے پورٹریٹ بنوانے آ گیا”
یہ بات سن کر مالا گڑبڑا سی گئی۔ “پورٹریٹ؟ آج؟ پھر کبھی بنا دوں گی”
حیدر اسکے تاثرات نوٹ کیے بغیر نہ رہ سکا “ارے بعد میں کیوں۔ آج کلینک سے چھٹی ہی اس نیک کام کیلیے کی ہے۔ آنٹی نے بتایا کہ آپ بھی گھر پر ہیں آج۔ سو اس نیک کام میں تاخیر کیسی؟ ”
مالا ایک منٹ چپ رہی۔ حیدر نے اسے کینوس لانے کا کہا جسے اس نے چالاکی سے منع کرنا چاہا مگر حیدر بھی آج ہی پورٹریٹ بنوانے پر بضد تھا ۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصادق مالا کو ہاں کرنی ہی پڑی اور اس نے حیدر سے کہا کہ وہ لان میں بیٹھے ۔۔وہ تب تک سامان لے کر باہر آتی ہے۔
حیدر لان میں چلا گیا اور مالا اسٹور روم میں ،جہاں اس نے پینٹنگ کا سامان رکھا ہوا تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد مالا واپس آئی ۔اس کے ہاتھ میں برش، رنگ اور بغل میں کینوس تھا۔
مالا نے حیدر کو سامنے بٹھایا اور سب سے پہلے نفاست سے اپنی پنسل کو تراش کرنے لگی۔ پینسل تراشنے کے بعد پھونک سے اس نے کچرا اڑایا اور کینوس کو سیدھا کیا۔
“چلیے اب تیار ہو جائیے۔ بالکل ہلنا نہیں ہے۔ جیسے بھی بیٹھنا ہے ایک دفعہ بیٹھ جائیے کہ بعد میں موقع نہیں ملے گا۔ سب سے پہلے میں پینسل سے خاکہ بناؤں گی پھر اس میں رنگ بھروں گی۔ اور آپ نے بالکل نہیں ہلنا”
مالا نے اسے ہدایات دینا شروع کیں۔ حیدر بے اختیار بولا ” ارے ارے سانس تو لے سکتا ہوں نا”
“ہاں وہ بے شک لے لیجیے مگر پیٹ زیادہ اوپر نیچے نہیں کیجیے گا”
مالا نے مسکراہٹ دبا کر شرارت سے کہا۔ اسکی بات سب کر حیدر بے اختیار قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا۔” ارے واہ آپ بھی کبھی کبھی ہنسی مذاق کی بات کر لیتی ہیں”
اس نے کہا تو مالا نے مسکراتے ہوئے کینوس سیدھا رکھا اور پنسل لے کر اس پر جھک گئی۔
مالا بار بار ماتھے پر آتی لٹ کو پیچھے کرتی اور زبان دانتوں میں دبائے کبھی حیدر کو دیکھتی اور کبھی کینوس کو۔
حیدر اشتیاق بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں اس نے اسکیچ مکمل کر لیا اور اس میں بھرنے کے لیے رنگ بنانے لگی۔
حیدر نے آگے ہو کر تصویر دیکھنا چاہی مگر مالا نے تصویر مکمل ہونے تک اسے دیکھنے سے منع کر دیا۔
رنگوں کے اسٹروکس لگاتی مالا حیدر کے دل کے نہاں خانوں میں اپنی جگہ بناتی گئی۔ حیدر اسے اس توجہ کے ساتھ تصویر بناتے دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا۔
بالاخر تصویر مکمل ہوئی۔ مالا نے حیدر سے کہا “اپنی آنکھیں بند کیجیےحیدر نے آنکھیں بند کر لیں۔ مالا نے تصویر کا رخ اس کی طرف کر کے کہا “آنکھیں کھولیے”
حیدر نے آنکھیں کھولیں تو دو منٹ مبہوت تصویر کو ہی دیکھتا رہا “ماشاءاللہ ۔۔۔قدرت نے کیا ٹیلنٹ بھرا ہے آپ کے ہاتھوں میں۔ جی چاہتا ہے کہ بے اختیار ان ہاتھوں کو چوم لیا جائے۔ اس قدر بہترین تصویر تو کیمرہ بھی نہیں لے سکتا تھا جس قدر بندر نما انسان آپ نے مجھے اس تصویر میں دکھایا ہے۔ واللہ یہ معجزہ بلاشبہ آپ کے دستِ مبارک سے ہی ممکن تھا “۔
حیدر نے اتنے اعتماد کے ساتھ کہا کہ مالا کنفیوز ہو گئی۔ “مگر یہ کیڑا سا کیوں چل رہا ہے میرے منہ پر؟ ”
حیدر نے شرارت بھری مصنوعی حیرت سے پوچھا۔ مالا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا “یہ مونچھیں ہیں”
“اللہ آپ وہی ہیں نا جو پکاسو کی رشتہ دار ہوا کرتی تھیں پھر یہ کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے ”
حیدر نے بمشکل ہنسی چھپاتے ہوئے مالا سے پوچھا تو مالا ہار ماننے والے انداز میں بولی “وہ نہ اس دن آپ نے کہا کہ آپ بہت اچھا گا لیتے ہیں۔ بس پھر میں نے بھی ایسے ہی کہہ دیا کہ میں پینٹنگ اچھی بنا لیتی ہوں۔ مگر سچ یہی ہے کہ مجھے کیڑے مکوڑے ہی بنانے آتے ہیں ۔ بچپن میں گڑیا بناتی تھی تو سب اسے بکری سمجھتے تھے اور ایک بار ارمانوں کیساتھ تتلی بنائی تو سب نے پوچھا یہ کون سے ملک کا جھنڈا ہے؟ بس تب سے توبہ کر لی۔ یہ سامان دراصل میری دوست نور کا ہے۔ اسے ہمارے لان میں لگے ایک درخت کو پینٹ کرنا تھا اس لیے یہاں رکھ گئی۔ اور مجھے بھی کچھ نہیں سوجھا تو آپ کو ایسے ہی کہہ دیا۔ ”
مالا نے سچائی کیساتھ صاف گوئی سے کام لیا۔حیدر پر بے ساختہ ہنسی کا دورہ پڑھ گیا۔ وہ دیر تک ہنستا ہی رہا۔ اور مالا اسے شرمندگی اور حیرت سے دیکھتی رہی۔
مالا نے دیکھا ہنسنے سے اس کے گالوں پر گڑھا پڑتا تھا جو اسکی وجاہت میں مزید اضافہ کرتا تھا ۔اس دن کے بعد مالا اور حیدر میں فاصلہ کافی کم ہو گیا۔ اب وہ اکثر حیدر سے فون پر بات کر لیا کرتی تھی۔ ایک دن مالا نے حیدر کو فون کیا۔ فون کسی خاتون نے اٹھایا ۔ مالا نے اس سے حیدر کے بارے میں استفسار کیا تو جواباً خاتون نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ جس پر مالا برہم ہو گئی۔ “کیا مطلب میں کون ہوں؟ آپ کون ہیں اور کس حق سے میرے ہونے والے منگیتر کا فون اٹھایا آپ نے؟ آپکی جرات بھی کیسے ہوئی انکا فون اٹھا کر سننے کی”
مالا نے غصے میں کہا۔ جواب میں خاتون نے معذرت کر کے فون بند کر دیا۔ مالا کو لگا جیسے کسی نے اس کے دل میں کیل چبھو دیا ہے۔
شام کو حیدر گھر پر پھول لے کر پہنچ گیا۔ مالا کا منہ سوجا ہوا تھا . حیدر نے مالا کو کہا کہ” بھئی تم پوری بات تو سن لیتیں۔ وہ فون نرس نے اٹھایا تھا۔ میں نے ہی ایمرجنسی میں فون باہر کاؤنٹر پر رکھا تھا اور ان سے کہا تھا کہ اگر سکرین پر مالا کا نام آئے تو فون اٹھانے میں دیر نہ کریں اور تمہیں بتا دیں کہ میں ایمرجنسی میں مصروف ہوں۔ مگر تم نے انہیں اتنا ڈرا دیا کہ انہوں نے فون ہی بند کر دیا۔”
حیدر نے صفائی دی جو مالا نے مانتے ہوئے خفگی کیساتھ پھول قبول کر لیے۔
“ویسے میڈم آپ کا حق جتانا مجھے اچھا لگا”
حیدر نے آواز میں محبت سمو کر کہا۔ اس کی بات سن کر مالا کے چہرے پر حیا کی لالی دوڑ گئی۔ اور اس نے اپنی نظریں نیچے کر لیں۔
“ارے ارے شرما بعد میں لینا پہلے میرے ایک سوال کا جواب تو دو اے حسینہ” حیدر نے چہک کر کہااور مالا نے کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں اسے دیکھا ۔
جواباً حیدر نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جب نکالا تو اس کے ہاتھ میں ڈبیا تھی۔ “کیا تم ساری عمر کیلیے مجھ پر حق جتانا چاہو گی؟ ”
حیدر نے ڈبیا کھول کر مالا کے آگے کر دی۔
ڈبیا میں انگوٹھی تھی۔ مالا نے بھی فورا ہاتھ آگے کر دیا۔
*** *** ***
حیدر نے انگوٹھی مالا کی انگلی میں پہنا دی۔ مالا کے چہرے پر قوس قزاح پھیل گئی۔
محبت ایک بار پھر جیت گئی۔۔۔۔ نئی کونپلوں نے جو سر اٹھایا تھا ان پر اب ننھی کلیاں مسکرا کر بہار کی نوید دینے لگی تھیں۔
“مالا رہنے دو نا منگنی۔ سیدھا شادی کرتے ہیں” حیدر نے بھاری آواز میں کہا تو مالا کی پلکیں جذبات کی شدت سے بوجھل ہو کر جھک گئیں۔
” جیسے آپ کہیں”
مالا نے کہا اور واپس اندر بھاگ گئی۔ حیدر کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ مالا اسے بے حد اچھی لگی تھی اور اس نے مالا کو دیکھتے ہی اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر وہ چاہتا تھا کہ جس بھی لڑکی کو وہ ہمسفر چنے وہ بھی اسی شدت کے ساتھ اسے اپنائے۔ اور یہ اس کے جذبات کی سچائی ہی تھی کہ آج بالاخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب مالا نے بھی دل و جاں سے ہاں کر دی تھی۔
محبت پھر جیت گئی۔۔۔
عشق کے ہزار رنگوں نے اپنے لیے لال اوڑھنی کو چن لیا!!!!
اب دلِ بیتاب تھا۔۔آرزوئے جاناں تھی اور جذبوں کی بہار تھی۔
حیدر نے بڑوں سے بات کرنے میں دیر نہ لگائی۔ مالا کی والدہ خود مالا کی شادی کیلیے آرزومند تھیں۔ یہ خبر ان کے لیے بھی خوشگوار تھی۔
فورا سے پہلے تمام انتظامات مکمل کیے گئے۔ اور
ایک پروقار تقریب میں مالا اور حیدر کا نکاح کر دیا گیا ۔ رخصتی کی تاریخ چھ ماہ کے بعد رکھی گئی۔
یوں مالا اپنی تمام تر محبتوں کے ساتھ حیدر کی زندگی میں خوشی بن کر اتر گئی۔
*بپ بپ*
مالا کے موبائل پر رات کو میسج موصول ہوا۔ مالا نے میسج کھولا۔ اس میں شاعری تھی
“تجھے میں نے کہا نا
شبِ ہجراں مجھے
تنگ کرتی ہے
مجھے تیری تمنا تنگ کرتی ہے
کتابوں اور خوابوں میں
کہیں کھونے نہیں دیتی
مجھے آرام سے شب کو
کبھی سونے نہیں دیتی
سرھانے کو دبوچے جا رہا ہوں میں
تجھے بستر پہ سوچے جا رہا ہوں میں
تجھے بستر پہ سوچے جا رہا ہوں میں ”
میسج پڑھ کر مالا کے گال لال ہو گئے۔ یہ حیدر کا میسج تھا۔ اتنے دنوں میں پہلی دفعہ حیدر نے اسے اس طرح سے محبت بھرا کوئی میسج بھیجا تھا۔
مالا نے میسج ٹائپ کیا “جناب یہ کہاں سے کاپی پیسٹ کیا ہے؟ ”
اور بھیج دیا۔
بمشکل تیس سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ دوبارہ بیپ بجی۔ مالا نے فورا میسج فولڈر کھولا۔
“ہاہاہا انٹرنیٹ سے۔۔۔پر ہے میرے دل کی آواز۔ ویسے بھی یہ میسج میری زوجہ محترمہ کیلیے ہے۔”
“وہ کون” مالا نے شرارت سے دوبارہ میسج ٹائپ کر کے بھیجا۔ فورا ہی جواب آ گیا
“وہ جو اس وقت ہاتھ میں موبائل پکڑے میرا میسج پڑھ کر دھیمے سے شرماتے ہوئے مسکرا رہی ہیں”
مالا ایسے جھینپ گئی جیسے اسکی چوری پکڑی گئی ہو۔
“سو جائیے”
مالا نے جواباً میسج بھیجا۔
دوبارہ ریپلائی آ گیا “آپ کے بغیر مشکل لگ رہا ہے”
مالا مسیج پڑھ یوں شرما گئی جیسے حیدر اس کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا ہو۔
“چلیئے پھر چھ مہینے انتظار کر لیجیے”
حیدر نے میسج پڑھا اور ایک نیا میسج لکھ کر سینڈ کر دیا
“کتنی حسیں وہ رات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
پیار کی کوئی بات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
کلی کلی ہو کھلی ہوئی ، روش روش ہو سجی ہوئی
ہاتھ میں ڈالے ہاتھ ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
نرم نرم چھائوں ہو میٹھی میٹھی نیند ہو
سپنوں کی بارات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
چاہتوں کی گرمیاں ،جذبوں کی ہوں نرمیاں
پیار کی سوغات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
گرم گرم جسم ہوں ، سرد سرد ہو سماں
دھیمی دھیمی برسات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
منزلوں کا ہو ارماں ،ساتھ نبھانے کا پیماں
سفر کی یوں شروعات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
تنہا تنہا چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں
تُم سے اک ملاقات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو۔”
میسج پڑھ کر مالا کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ پہلی بار اسکی زندگی میں اظہار کے جذبوں کو اتنی شدت کے ساتھ حق جتانے والا ملا تھا۔ وہ اب حیدر کی منکوحہ تھی۔ اور یہ احساس اس کے روم روم سے خوشبو دینے لگا تھا۔ کسی ہمسفر کے ساتھ کا نشہ ہی کچھ اور ہے ۔ اور مالا اس نشے میں پور پور ڈوبی جا رہی تھی۔