“احمد یہ کیا ہو گیا تمہیں۔ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا تھا۔ مگر تم ہو کہ باز ہی نہیں آتے۔ اب دیکھا نا۔ تم۔۔۔تم بہت برے ہو ۔۔۔تمہیں تو مجھ سے محبت ہی نہیں ہے” مالا روہانسی ہو کر کہتی گئی۔ شدت غم سے اسکی آواز گلے میں رندھ گئی تھی۔
“اوہو مالا کیا ہو گیا۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ تم بیکار کی فکر مند ہو رہی ہو”
احمد نے اسے سنجیدہ ہو کر کہا تو مالا باقاعدہ چیخ پڑی “بیکار؟ یہ تمہارے سر پر گیارہ ٹانکے آئے ہیں ۔بازو پر پلستر چڑھا ہے۔ اور تم کم از کم اگلے ایک مہینے بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں رہے۔ بات مت کرنا تم مجھ سے۔ تمہیں شوق ہے نا مجھ سے دور جانے کا ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔تو میں خود ہی چلی جاتی ہوں۔ ” مالا تیزی سے اٹھی اور آنسوؤں بھرے چہرے کے ساتھ باہر بھاگ گئی۔ احمد اسے روکتا ہی رہا مگر وہ نہ رکی۔
پورا ایک مہینہ مالا نے احمد سے دور ناراض رہ کر گزارا۔ احمد کی کالز کے جواب میں اس نے اپنا فون بند کر دیا۔ ای میل تک چیک نہ کی۔ احمد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیسے وہ اپنے پلستر کی زنجیریں توڑ دے۔ بیماری بھی عجب آزمائش ہے۔ بندے کو بستر سے تو لگاتی ہی ہے پر بستر پر پڑے پڑے انسان کو ذہنی مفلوج بھی کرتی جاتی ہے۔ احمد کے دل میں بھی عجیب عجیب وسوسے آنے لگے۔ مالا اسے چھوڑ کر کیوں چلی گئی؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اب اس سے کبھی بھی بات نہیں کرے گی۔ اگر مالا نہ مانی تو۔ نہیں نہیں وہ ٹھیک ہوتے ہی سب سے پہلے مالا سے ملنے جائے گا۔ اسکی بیچارگی غصے میں تبدیل ہو جاتی اور غصہ مایوسی میں۔ مایوسی پھت اسے بیچارگی کی گود میں لا پھینکتی۔ کرب بھرا ایک مہینہ ختم ہوا تو احمد اڑ کر مالا تک پہنچا ۔ احمد کو دیکھ کر مالا کا ضبط بھی جواب دے گیا ۔ رو رو کر اسکی ہچکی بندھ گئی۔
“کیا تمہیں میری یاد نہیں آئی”؟
احمد نے خفگی سے پوچھا تو مالا آنکھوں میں آنسو لیے بولی ” احمد میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکوں گی۔ مجھے تمہاری اس جنونیت سے خوف آتا ہے۔ پلیز یہ سب چھوڑ دو۔ بہت مسیحا بھرے پڑے ہیں یہاں۔ میرا احمد ہی کیوں اس سب کی بھینٹ چڑھ جائے۔ ؟”
تبھی احمد نے اسکی بات نظر انداز کرتے ہوئے ہاتھ جیب میں ڈالا اور نکال کر مٹھی مالا کے سامنے لہرائی۔ ” بوجھو تو اس میں کیا ہے؟ ”
“مجھے نہیں پتہ۔ ” مالا نے اپنی بات کی یوں ناقدری دیکھ کر پیار بھری ناراضگی سے کہا تو احمد نے مٹھی کھول دی۔ اسکی ہتھیلی پر سفید موتیوں کی ایک مالا رکھی تھی۔ “سچے موتیوں کی مالا۔۔۔میری مالا کیلیے”
مالا کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخسار پر بہہ گئے۔ اور جلدی سے وہ مڑ کر کھڑی ہو گئی ۔ احمد نے مالا کی گردن اور دل دونوں کو موتیوں کی اس ڈور میں قید کر لیا۔
“یہ مالا ہمیشہ سنبھال کر رکھنا”
احمد نے سرگوشی کی تو مالا چہرے پر شرارت لا کر بولی ” ہاں جب تم اسی سال کے بوڑھے ہو جاؤ گے تو میں ایک رومانٹک کینڈل لائٹ ڈنر میں تمہارے ساتھ یہی مالا پہن کر جاؤں گی”.
اس کی بات سن کر احمد کی آنکھوں میں انتظار اور امید کے جگنو لو دینے لگے۔
“مالا آج تیار رہنا ۔ میں تمہیں پک کروں گی۔ پھر شام کو ڈنر پر چلیں گے۔ اور کوئی فضول بہانا نہیں چلے گا۔مجھے پتہ ہے تم آج فارغ ہو۔ بس کہہ دیا تو کہہ دیا۔ تیار رہنا۔ اوکے”
نور نے ہمیشہ کیطرح اپنی ہی سنائی اور فون بند کردیا تو مالا بڑبڑانے لگی۔ “عجیب پاگل لڑکی ہے۔ ہر جگہ مجھے گھسیٹے پھرتی ہے۔ آنے دو آج سیدھا کرتی ہوں اسے”
مالا کا باہر جانے کا دل نہیں تھا مگر تیار ہونا بھی ضروری تھا کہ نور نے کون سا باز آنا تھا۔
۔ مالا نے کپڑوں کا انتخاب کرنے کیلیے الماری کھولی۔ جامنی رنگ کا ایک سوٹ نکالا تو اچانک ایک یاد لہرائی “جامنی رنگ صرف تمہارے لیے بنا ہے”
مالا نے گھبرا کر سوٹ واپس رکھ دیا اسے وحشت سی محسوس ہوئی اور اس نے دوسرا سوٹ اٹھا لیا۔ پیلا رنگ اس پر جچتا تھا۔ سب سہیلیاں بھی یہی کہتی تھیں کہ پیلے رنگ میں وہ کسی بہار کی نوید لگتی ہے۔ یہ سوچ کر اس نے خود کو گویا تسلی سی دی۔ اور شاور لینے چل دی۔ تیار ہو کر نکلی ہی َتھی کہ نور آ دھمکی۔ اور اسے لےکر مطلوبہ ریسٹورنٹ میں آن پہنچی ۔ سارا راستہ نور کی چٹر پٹر سنتے گزرا۔ مالا آرڈر دینے ہی لگی تھی کہ نور نے اسکے ہاتھ سے مینو کارڈ چھین لیا۔ ارے صبر کرو اتنی جلدی بھی کیا ہے تمہیں آرڈر دینے کی۔ ”
مالا نے حیران ہو کر نور کو مخاطب کیا “کیا مطلب جلدی کیا ہے۔ بھوک لگی ہے۔ خود ہی انوائیٹ کیا ہے اور اب خود ہی کچھ منگوانے نہیں دے رہی “نور اسکی حیرت کو انجوائے کرتے ہوئے بولی ” ارے ایک مہمان اور بھی ہے۔ ”
مالا نے بھنویں اچکائیں “کون ہے؟ ہمارے پلان میں یہ مہمان تو شامل نہیں تھا۔ ”
“اسلام علیکم! شامل نہیں تھا تو اب کر لیجیے” احمد نے پیچھے سے اچانک آ کر کہا تو مالا نے حیران ہو کر نور کی طرف دیکھا “ارے ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ احمد ہمارے آج کے خصوصی مہمان ہیں۔ سرپرائز رکھنے کیلیے انہوں نے ہی کہا تھا”
مالا کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ مگر اس نے خود پر قابو پا لیا۔مالا سے بمشکل کھانا زہرمارہوا۔ احمد اور نور تو خوش گپیوں میں مصروف رہے مگر مالا خاموش چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتی رہی۔ ان دونوں نے بھی زیادہ زور نہیں لگایا۔ کھانے کے بعد نور کی فرمائش پر کافی کا دور بھی چلا۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ احمد ان دونوں کو گاڑی تک چھوڑنے آیا تو نور کو یاد آیا کہ وہ پرس ٹیبل پر چھوڑ آئی ہے۔ نور بھاگتی ہوئی اندر گئی۔ گاڑی کے پاس احمد اور مالا کھڑے رہ گئے۔ ان دونوں کے درمیاں خاموشی کا ایک طویل وقفہ رہا۔ بالاخر احمد نے ہی سناٹا توڑا “کچھ کہو مالا”
مالا چپ رہی۔ احمد نے چند لمحے توقف کے بعد پھر کہا
“چپ کیوں ہو مالا؟ کیا تمہیں کچھ نہیں کہنا”
کچھ نہیں کہنا؟ کیا تمہیں واقعی لگتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ مالا کے دل میں اک طوفان امڈ آیا ۔ کاش میں تمہارا گریبان پکڑ کر وہ سب کہہ سکوں جو مجھے کہنا ہے۔ مگر نہیں اب تو بہت دیر ہو چکی۔ اب کچھ کہنے سننے کو نہیں بچا۔ یہ سب باتیں ذہن میں سوچتے ہوئے مالا نے صرف اتنا ہی کہا
“مجھے یہ سب پسند نہیں آیا۔ آئندہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا۔ اور نہ ہی نور کو استعمال کرنا اپنے کسی مقصد کے لیے” مالا نے قدرے غصے بھری آواز میں کہا تو احمد دنگ اسکا چہرہ دیکھے گیا۔ یہ اسکی مالا نہیں تھی۔ پیلے کپڑوں میں کھڑی زرد رنگت والی یہ لڑکی اسکی مالا ہرگز نہیں ہو سکتی۔ وہ احمد کیساتھ بھلا کب ایسے بات کیا کرتی تھی؟۔اور وہ تو جب بولتی تھی تب اسکی آنکھوں میں جگنو دمکتے تھے۔ یہ اتنی ویران آنکھوں والی لڑکی اسکی مالا ہرگز نہیں تھی۔ اتنے میں نور آگئی اور وہ دونوں وہاں سے چلی گئیں۔ اس رات مالا نے ساری رات آنکھوں سے موتی ٹپکاتے گزاری۔صبح اٹھی تو آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
“پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ کوئی ڈانٹے اور پھر خود ہی روتا بھی رہے” مالا نے چونک کر دیکھا تو وہ اجنبی اسی کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ اور اس پر ڈھٹائی کی حد کہ بنچ پر عین وہیں بیٹھا تھا جس جگہ بیٹھنے کی وجہ سے بے آبرو ہو کر مالا نے نکالا تھا۔ “تم!”
“چلیے اچھا ہے آپ سے تم پر آ گئیں آپ۔ آہستہ آہستہ جان پہچان کی باقی رسمیں بھی طے ہوتی جائیں گی”۔
اجنبی نے ایسے کہا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ مالا تو اس دن اسے ڈانٹنے کے بعد اچھا خاصا احساس جرم میں گرفتار ہو گئی تھی۔ کہ اجنبی نہ جانے کیا سوچے کیا محسوس کرے۔ مگر یہاں تو رتی بھر بھی اثر نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چہرے پر اسی دمکتی مسکراہٹ کے ساتھ پھر سے وہیں بیٹھا تھا۔ بنچ کے اسی کونے پر ۔
“مجھے لگا آپ کو کچھ اثر ہوا ہو گا۔ مگر آپ تو بڑے ڈھیٹ ہیں”
مالا نے تنک کر کہا تو اجنبی نے بیچ میں ہی ٹوک دیا “ارے میں نے تو سوچا تھا کہ کہاں ایک سوری کے لیے مجھے ڈھونڈتی پھریں گی آپ۔ معافی ہی کی تو بات ہے تو چلیے مابدولت خود آپ کے آستانے پر تشریف لا کر آپ کیلیے عام معافی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ مگر یہاں آ کر دیکھتے ہیں کہ آپ کا تو ہرگز ارادہ تک نہیں لگتا معافی مانگنے کا۔ ”
مالا کچھ کہنے ہی والی تھی کہ چپ ہو گئی۔ اور سر نیچے کر کے رونے لگی ۔ “ارے آپ تو رونے لگیں۔ قسم لیجیے میرا ارادہ ان نینوں سے گوہر نایاب بہانے کا ہرگز نہیں تھا۔ . اچھا چلیے اب میں اب کچھ نہیں کہوں گا۔ میری طرف سے ہی معافی قبول کریں۔ ”
اجنبی مالا کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد مالا اٹھ کر چلی گئی۔
تیسری بار بھی مالا اور اجنبی اس بنچ پر ایسے ہی بیٹھے رہے کہ اجنبی نے منہ دوسری طرف کیے رکھا۔ نہ مالا نے کچھ کہا اور نہ اجنبی نے۔ بس خاموشی ہی انکے درمیان موضوعِ گفتگو رہی۔
چوتھی بار ایسا نہ ہوا ۔اس بار مالا نے اٹھ کر جانے سے پہلے لب ہلائے ۔۔۔۔ “سوری” اور پھر اٹھ کر تیز تیز قدموں سے چل دی۔ اجنبی نے مڑ کر دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ وہ مالا کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
اب انکا اکثر یہی معمول رہتا۔ مالا بھی اسی بنچ پر بیٹھی پارک میں باقی لوگوں کو تکتی رہتی اور وہ اجنبی بھی بیٹھا سامنے دیکھتا رہتا۔ ایک دو دفعہ نظریں ملنے پر مسکراہٹ کا تبادلہ بھی ہوا۔ مگر اس سے زیادہ کچھ پیش قدمی دونوں طرف سے نہ ہوئی۔
“ارے اس لڑکی کو تو اللہ ہی عقل دے۔ ذرا جو اسے فکر ہو اپنے مستقبل کی۔ ”
امی نے اسے دیکھتے صلواتیں سنانی شروع کر دیں۔ “اچھا امی اب بس بھی کریں۔ کیا ہر وقت ایک ہی رٹ لگائی ہوتی ہے آپ نے۔ کیا شادی کے بغیر لڑکی کی کوئی زندگی نہیں ہوتی؟ آپ بھی نا۔۔حد ہی کرتی ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے میری پیاری امی جان۔ باہر نکل کر دیکھیں”
مالا نے امی کی گردن میں بانہیں ڈال دیں تاکہ انکا غصہ کچھ کم ہو سکے۔ مگر آج وہ کچھ زیادہ ہی ناراض تھیں۔ مالا نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ رشتے کیلیے آئی ایک خاتون کو ایسے جواب دیے کہ انہیں بھاگنا ہی پڑا اور مالا کی امی سخت افسردہ ہو گئیں۔ اتنا اچھا رشتہ چلے جانے کا غم ایک طرف اور مالا کی اس حرکت پر وہ لوگ کیا سوچتے ہوں گے۔ یہ دکھ ایک طرف۔ مگر مجال ہے جو مالا کو کچھ سمجھ آتا ہو۔ وہ تو بس پڑھنا چاہتی تھی۔ جاب کرنا چاہتی تھی۔اونچا ہواؤں میں اڑنا چاہتی تھی۔ اسے اپنا آپ منوانا تھا۔ اور شادی ۔۔۔وہ تو صرف احمد کیلیے بنی تھی۔ اس کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی اسکے لیے محال تھا۔ گو ابھی انکے رشتے کو چھپانا مالا کی مجبوری تھی۔ گھر میں بتانے کا صحیح وقت نہیں آیا تھا مگر احمد کو وہ دل جان سے قبول کر چکی تھی۔ویسے بھی دل کے رشتوں کو کب کسی کی اجازت کی ضرورت ہوئی ہے۔ مگر ابھی اس میں اتنی سمجھ بوجھ تھی کہ مناسب وقت پر پڑھائی ختم کر کے ہی وہ کوئی قدم اٹھانا چاہتی تھی۔ اور ادھر امی تھیں کہ انہیں مالا کے رشتے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ ہر مشرقی ماں کی طرح انہیں بھی بیٹی کا بیاہ ہی اسکی زندگی کا حاصل کل لگتا تھا۔مائیں بھی نا!!! ایسی ہی ہوتی ہیں۔ یہی سوچ کر مالا انکی بات ادھر ایک کان سے سن کر ادھر دوسرے کان سے نکال دیتی۔
“احمد امی نے پھر آج رشتے والی کسی خاتون کو گھر پر انوائیٹ کر لیا ہے۔ ”
مالا نے یونیورسٹی کلاس ختم ہونے کے بعد گراونڈ میں بیٹھتے ہی احمد سے بات کرنا چاہی۔
“اوہو تو جناب آج ٹرالی میں چائے لے کر جائیں گی”
احمد چہک کر بولا تو مالا کے چہرے پر خفگی صاف دکھائی دینے لگی۔ اس نے منہ پھلا لیا۔
“اچھا بابا! تم بھی نا۔۔سیریس ہی ہو جاتی ہو۔ کہو تو مابدولت ہاتھ میں تلوار پکڑ کر عین جائے واردات پر کود پڑیں کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ مالا صرف میری ہے۔ ”
احمد نے باقاعدہ ہاتھ میں تلوار پکڑ کر کودنے کی ایکٹینگ کی تو مالا ہنس دی۔
“ارے نہیں ۔ بس یونہی تمہیں بتا رہی تھی۔ تا کہ بات تمہارے علم میں رہے۔ کل کلاں تمہیں شادی میں ٹینٹ لگانے پڑ گئے تو؟ ”
مالا آواز میں شرارت بھر کر بولی تو اس بار احمد سنجیدہ ہو گیا
“دیکھو مالا! محبت کے رشتوں کو کسی چنگاڑ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تو چپ چاپ دلوں میں نمو پاتے ہیں ۔ ہم دونوں جس ڈور سے بندھے ہیں وہ ہمارے دلوں کو ہی نہیں ہماری سانسوں کو بھی جوڑتی ہے۔ مالا مالا نہیں احمد ہے اور احمد احمد نہیں اب مالا ہے۔ کہو تو کل ہی بارات لے کر آجاؤں۔ مگر ہم دونوں نے باہمی رضامندی سے ہی پڑھائی ختم ہونے کے بعد اس رشتے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تو پھر کیسی مشکل؟ ”
مالا احمد کی اس صفائی پر نازاں و مغرور سی ہو گئی۔ چہرے پر گلابی چمک اور ہونٹوں پر مسکان پھیل گئی۔ فرط جذبات سے معمور ہو کر مالا بس اتنا ہی کہہ پائی ” نہیں ۔۔اور کچھ نہیں سننا احمد! بس یہ تمہاری پیاری سی صفائی ہی چاہیے تھی ۔ اچھا لگتا یے تمہارا یوں مجھ پر حق جتانا۔ ہم دونوں کا رشتہ بتانا۔۔۔بس تم یوں ہی کہتے رہا کرو اور میں سنتی رہا کروں۔ ”
اس بات پر احمد نے اتنا شدت سے نظر بھر کر مالا کو دیکھا کہ مالا نے نظریں جھکا لیں۔
“مالا احمد کو کچھ لڑکے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے ہیں”
سند س تقریبا روہانسی ہو کر بولی۔۔۔تیز تیز قدموں کیساتھ چلنے کیوجہ سے اسکی سانس کافی پھولی ہوئی تھی ۔پورے ڈیپارٹمنٹ میں وہ مالا کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ مالا نوٹس بنانے کیلیے لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھی جب سندس نے اسے آکر یہ اطلاع دی۔
“کیا مطلب لڑکے لے گئے ہیں ؟ کون لڑکے؟ کیا کہہ رہی ہو تم ؟” پیلے پڑتے چہرے کیساتھ مالا نے استفسار کیا تو سندس نے جواب دیا” مجھے نہیں معلوم مالا مگر وہاں جو کچھ لوگ کھڑے تھے انکے مطابق احمد کو کسی مذہبی جماعت والے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
مالا نے لائیبریری کے اصولوں کا خیال کیے بغیر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
سندس، نور، سدرہ، عثمان، زبیر ۔۔۔۔۔مالا کے گروپ میں کوئی بھی احمد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ مالا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ لڑکیاں مالا کو سنبھالنے میں لگ گئیں ۔ لڑکوں کے چہرے پر بھی پریشانی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
آنا فانا ایک یونیورسٹی نوجوان کی گمشدگی کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
مالا کا رو رو کر برا حال تھا۔ گھر والے اسے دوست کی جدائی سمجھ رہے تھے مگر مالا کے دل کی حالت کون جانے۔ مالا کی تو سانس رکی جا رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔
جان کنی کا عالم بھی کیا مشکل ہوتا ہو گا جدائی کے غم سے؟ ۔ جدائی بھی تو موت ہی ہے۔ محبت کی موت انسان کی روح مار دیتی ہے ۔ روح کا لاشہ اٹھائے جسم چلتا پھرتا ہے۔ آنکھیں دنیا کی روشنیاں دیکھتی ہیں مگر دل کی دنیا میں اندھیر رہتا ہے۔
سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی تک۔۔ ہر جگہ احمد کی گمشدگی کی خبر چلائی گئی مگر کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ احمد کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق اسے ساتھ لے کر جانے والے نوجوانوں کو وہ نہیں پہچانتے تھے۔ وہ نوجوان یونیورسٹی کے طالبعلم نہیں تھے۔ اور یہ اور بھی زیادہ فکرمندی کی بات تھی۔ نامعلوم افراد کا یوں منہ اٹھائے یونیورسٹی چلے آنا اور احمد کو اٹھا کر لے جانا کسی گہری سازش کی بو لگ رہی تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ بھی اپنی شہرت کو لے کر پریشان تھی۔ اس واقعے سے انکی اچھی خاصی بدنامی ہوئی تھی۔ اور میڈیا میں انکا نام اچھالا جا رہا تھا۔ احمد کے سب دوستوں کو شامل تفتیش کیا گیا۔ مالا سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ احمد کو اٹھا لیے جانے کی ایک ہی معقول وجہ سامنے آ رہی تھی وہ تھی اسکی شعلہ بیانی ۔۔مذہب سے لے کر سیاست تک۔ احمد جب بولتا تو سب سنتے۔گو اسکا جارحانہ انداز بہت سوں کو کھلتا بھی تھا مگر بہت سے لوگ شوق سے اسکی تقاریر سنا کرتے تھے۔ وہ یونیورسٹی کا بہترین مقرر تھا ۔ کئی انعامات اور شیلڈز جیت چکا تھا مگر یہ تقاریر وہ انعامات یا شیلڈز کیلیے نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اسے معاشرے میں مثبت بدلاؤ لانے کا شوق تھا۔ وہ ان نوجوانوں میں سے تھا جو معاشرے کو کچھ کر دکھانا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ یونیورسٹی کے اندر اور باہر دونوں جگہ ہی شدت پسند لوگ اس سے خار کھائے بیٹھے تھے۔
مگر اسے کس بات پر یوں غائب کر دیا گیا۔ کون لوگ اسے اٹھا کر لے گئے تھے ؟ یہ بات وثوق سے کسی کو نہیں پتہ تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...