دروازہ کھلا اور گاڑی آگے بڑھتی سیدھا پورچ میں جا کر رکی۔ غفار فوراً گاڑی سے نکل کے کردم کی جانب گیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوگیا۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی اس کی نظر سیدھا دروازے پر جا رکی۔ ایک بار پھر وہ جگہ خالی تھی۔
” کیا وہ ابھی تک نہیں آئی؟ مگر رحیم تو اڈے پر سے کافی دیر پہلے ہی اُسے لینے کے لیے نکل چکا تھا۔ شاید اندر ہو۔” کردم سوچتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر سیما خالہ پر پڑی جو اپنے کمرے سے باہر نکل رہی تھیں۔
” بیٹا تمہارے ساتھ آئینور نہیں آئی؟ ” سیما خالہ بھی اسے اندر آتے دیکھ چکی تھیں، اس لیے فوراً پوچھ بیٹھیں۔
” کیا مطلب رحیم اسے لے کر نہیں آیا۔۔۔؟ جبکہ وہ تو پہلے ہی اُسے لینے نکل گیا تھا۔” کردم ماتھے پر بل ڈالے بولا۔ اسے غصّے میں دیکھ کر سیما خالہ گھبرا گئیں۔
” وہ میں نے رحیم کو کہا تھا، ابھی وہ آئینور کو لینے نہ جائے۔”
” کیوں؟ ” اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔
” وہ دراصل رحیم تو یہاں آیا تھا، اُسے لینے جانے کیلئے مگر آئینور نے کہا تھا، جب اُسے آنا ہوگا وہ فون کر کے بتا دے گی۔ اس لیے میں نے رحیم کو منع کر دیا۔ میں کافی دیر اُس کے فون کا انتظار کرتی رہی لیکن اُس کا فون ہی نہیں آیا۔ میں نے بھی کافی دفعہ کوشش کی فون کرنے کی پر اُس کا فون بھی بند جا رہا تھا۔” سیما خالہ ڈرتے ہوئے بولیں۔
” تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟ یا پھر رحیم کو ہی بھیج دیتی اُسے لینے۔” وہ چلا اُٹھا۔
” بیٹا اتنی رات ہوگئی تو مجھے لگا شاید تم اُسے لینے چلے گئے ہو۔” سیما خالہ بس رونے کو تھیں۔ ان کو مزید کردم کے سامنے کھڑے رہنا مشکل لگ رہا تھا۔
” ٹھیک ہے !! میں دیکھتا ہوں، آپ جائیں۔” سیما خالہ کی حالت دیکھ کر وہ کچھ نرم پڑا۔ سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی فوراً وہاں سے چلی گئیں۔
۔**************۔
گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ وہ پچھلی نشست پر بیٹھا مسلسل کال کرنے میں مصروف تھا۔ لیکن دوسری طرف سے فون کے بند ہونے کی خبر ہی مل رہی تھی۔
” تیز چلاو غفار۔”
” جی۔” اثبات میں سر ہلا کر غفار نے مزید رفتار تیز کر دی۔
تنگ گلیوں سے گزر کر گاڑی اس درمیانے طبقے کے گھر کے سامنے جا رکی۔
” تم یہیں رکو میں دیکھتا ہوں۔” کردم کہہ کر گاڑی سے اُتر گیا، اور اپنے قدم دروازے کی جانب بڑھا دیئے۔
دروازے پر پہنچ کر اس نے بیل بجائی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ وہ تھوڑی دیر کھڑا انتظار کرتا رہا لیکن جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو وہ خود ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ اندر قدم رکھتے ہی اندھیرے نے اس کا استقبال کیا تھا۔ کردم نے موبائل نکال لیا اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے لگا۔
” نور !! ”
” نور۔۔۔ عادی۔۔۔” وہ آوازیں دیتا آگے بڑھ رہا تھا کہ تبھی کسی چیز سے ٹکرا کر رک گیا۔ موبائل کی روشنی نیچے فرش پر ماری تو دنگ رہ گیا۔
” نور !! ”
آئینور کا تپتا ہوا، بے ہوش وجود زمین پر پڑھا تھا۔ کردم فوراً نیچے بیٹھ کر اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا، ساتھ میں اسے آوازیں بھی دے رہا تھا۔
” نور !! آنکھیں کھولو نور۔۔۔ نور۔ ”
کردم نے اسے کتنی ہی آوازیں دے ڈالیں مگر اس کے بے سود وجود میں زرا بھی جنبش نہ ہوئی۔
اس نے آئینور کو بازوؤں میں اُٹھا لیا اور تیزی سے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیئے۔
غفار جو گاڑی سے باہر کھڑا ان لوگوں کے گھر سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ آئینور کو کردم کے بازوؤں میں دیکھ کر فوراً گاڑی کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوگیا۔
کردم نے گاڑی کے پاس پہنچ کر آئینور کو پچھلی نشست پر لیٹا دیا، اور خود بھی وہیں بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
” جلدی گھر چلو۔”
” جی دادا۔”
غفار ان کی طرف کا دروازہ بند کرتا فوراً آ گے آ کر بیٹھ گیا اور گاڑی کو اسٹارٹ کر کے گھر کے راستے پر ڈال دیا۔
۔***************۔
وہ کوٹھری نما کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھا تھا سامنے ایک لکڑی کی ٹیبل موجود تھی، جس کے دوسری طرف ایک اور کرسی رکھی گئی تھی۔ ٹیبل کے اوپر ایک بلپ جل رہا تھا، جس کی روشنی محض ٹیبل تک موجود تھی۔
وہ سگریٹ کے کش لیتا غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے بیٹھا تھا، جب آہٹ پر چہرہ موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ جہاں سے وہ شخص چلتا ہوا اس کے پاس آرہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ اس نے اُس شخص کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
” پاشا بھائی !! تم یہاں۔۔۔”
” ہاں کیوں یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ” وہ ٹیبل پر کوہنیوں کو رکھ کر آگے کو جھکا۔
” میرا مطلب ہے۔ تم تو انڈیا چلے گئے تھے نا؟ ” سامنے بیٹھا شخص حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
کس نے کہا میں انڈیا چلا گیا۔۔۔؟ میں نے تو ایسا نہیں کہا۔” پاشا گہری مسکراہٹ لیے بولا۔
” تو پھر۔۔۔”
” میں نے تمہیں یہاں کام کے لیے بلایا ہے۔ یہ فضول باتیں کرنے نہیں۔” پاشا سامنے بیٹھے شخص کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
” کیسا کام؟ ” اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
” وہ لڑکی کون ہے؟ ”
” کونسی لڑکی؟ ”
سامنے بیٹھے شخص کو سمجھ نہ آیا پاشا کس کی بات کر رہا ہے۔
” وہ ہی لڑکی جو کردم دادا کے گھر پر موجود ہے۔”
” میں نہیں جانتا۔” سامنے بیٹھا شخص فوراً بولا۔
” جھوٹ مت بولو۔ مجھے معلوم ہے تم سب جانتے ہو۔” پاشا نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
” مجھے نہیں معلوم، اگر ہوتا بھی تو میں بھلا تمہیں کیوں بتاتا؟ ”
اب کی بار سامنے بیٹھے شخص کے ماتھے پر بل پڑے۔
” یاد ہے تمہیں، جب تمہاری ماں بیمار تھی اور تم اُس کے پاس جانا چاہتے تھے مگر۔۔۔ کردم دادا نے تمہیں اپنے اڈے کے کام سنبھالنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ دوسری طرف تمہاری ماں تمہیں یاد کرتی اس دنیا سے چل بسی۔ یاد ہے تمہیں؟ ”
پاشا کہہ کر واپس پیچھے ہوا اور کرسی سے پُشت ٹکا دی۔
” یاد ہے۔ لیکن اس سب کا ان باتوں سے کیا تعلق؟ ” سامنے بیٹھا شخص ناگواری سے بولا۔
” تعلق ہے، بہت گہرا تعلق ہے۔ تم چاہو تو کردم سے اُس بات کا بدلہ لے سکتے ہو۔ آخر کو ہم غنڈے بھی انسان ہوتے ہیں۔ دنیا والوں کے لیے کتنے ہی بے رحم سہی مگر گھر والوں کی پرواہ ہمیں بھی ہوتی ہے۔ کیا تمہارا دل تمہیں ملامت نہیں کرتا کہ کاش اپنی ماں کے آخری وقت میں تم اُن کے ساتھ ہوتے۔” پاشا نے اُسے جزباتی کرنا چاہا۔
وہ شخص خاموش رہا۔
” بولو چپ کیوں ہوگئے؟ ” اسے خاموش بیٹھا دیکھ پاشا پھر بولا۔
” اس سب سے تمہیں کیا فائدہ حاصل ہونا ہے۔۔۔؟ پاشا بھائی !! ”
سامنے بیٹھا شخص طویل خاموشی کے بعد گویا ہوا۔
” میرے نہیں اپنے فائدے کی سوچو۔ اگر تم میرے لیے کام کرنے کو تیار ہو جاؤ تو کردم دادا سے دوگنی رقم تمہیں ہر ماہ ادا کروں گا اور اس طرح اپنی ماں کا بدلہ بھی تم کردم دادا سے لیے سکو گے۔” کہنے کے ساتھ ساتھ پاشا مسلسل سگریٹ کے کش بھی لے رہا تھا۔
” مجھے کرنا کیا ہوگا؟ ” وہ خاموشی سے پہلے سوچتا رہا پھر بولا۔
” وہ لڑکی کون ہے اور کردم دادا سے اُس کا کیا تعلق؟ ” پاشا کے پوچھے گئے سوال پر سامنے بیٹھے شخص نے اسلم کے قصّے سے لے کر اب تک کی ساری باتیں (جو وہ جانتا تھا) اس کے گوش گزار کر دیں۔
” ٹھیک ہے !! تم بس کردم دادا اور اس لڑکی کی پل پل کی خبر مجھے دو گے۔ کردم دادا کے ساتھ رہ کر میرے لیے کام کرو۔ اس کے بدلے ہر ماہ تمہیں دوگنی رقم ادا کی جائے گی۔”
” اگر میں ایسا نہ کروں تو؟ ”
” تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔” پاشا کی بات پر وہ شخص خاموشی سے اسے دیکھتے رہا۔ یہ بات تو وہ بھی جانتا تھا۔ پاشا اپنا آپ اس کے سامنے کھول چکا تھا، اس لیے انکار کی صورت موت تھی۔
” ٹھیک ہے، میں تیار ہوں۔ تمہیں ان دونوں کی خبر دیتا رہوں گا۔”
اس کی بات پر ایک جاندار مسکراہٹ پاشا کے لبوں کو چھو گئی۔
” اب میں چلتا ہوں۔” سامنے بیٹھا شخص اُٹھ کھڑا ہوا۔
” ٹھیک ہے۔” پاشا اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
وہ شخص مصافحہ کرتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
پاشا سگریٹ کے کش لیتا اسے دور جاتے دیکھتا رہا پھر دھیرے سے بڑبڑایا۔
” اگر تم سونیا پر گولی نہ چلاتے تو شاید یہ لڑائی وہیں ختم ہو جاتی۔ مگر اب میں تمہیں کسی صورت نہیں بخشنے والا کردم دادا۔ بہت جلد تمہاری کمزوری میرے ہاتھ ہوگی اور تب تم بن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑپھڑاتے نظر آؤ گے۔”
۔**************۔
سیما خالہ لاؤنج میں پریشانی سے چکر کاٹ رہی تھیں، جب وہ آئینور کو بازوؤں میں اُٹھائے گھر میں داخل ہوا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔
آئینور کو یوں کردم کی بانہوں میں بے ہوش دیکھ وہ بھی ان کے پیچھے ہولیں۔
” کیا ہوا اسے بیٹا؟ ” وہ کمرے میں آ کر فکرمندی سے پوچھنے لگیں۔
” پتا نہیں۔ آپ نے ڈاکٹر کو فون کیا؟ ”
کردم راستے میں ہی انہیں فون کر کے ڈاکٹر کو بلانے کا بول چکا تھا، اس لیے پوچھ بیٹھا۔
” ہاں بس آتی ہی ہوگی، میں نیچے جا کر دیکھتی ہوں۔” سیما خالہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ وہ بیڈ پر بیٹھا سامنے بے سود پڑے آئینور کے وجود کو بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔
” کیا ہوگیا تمہیں نور۔۔۔؟ جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔”
وہ بڑبڑاتے ہوئے نہ جانے کتنی دیر ایسے ہی بیٹھا اسے دیکھتا رہا کہ تبھی سیما خالہ ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔
آئینور کے مکمل چیک اپ کے بعد ڈاکٹر دوائیاں لکھ کر انہیں ہدایت دینے لگیں۔
” چیک اپ میں نے کر لیا ہے۔ بخار اور ٹھیک سے خوراک نہ لینے کے باعث کمزوری ہوگی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوگئیں۔ میں نے انہیں انجیکشن لگا دیا ہے۔ آپ انہیں دوائی وقت پر دے گا اور ان کی خوراک کا بھی ٹھیک سے خیال رکھیے گا۔ انشاءاللّٰه جلدی ٹھیک ہوجائیں گی۔”
ڈاکٹر اپنے پیشہ وارانہ انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ سیما خالہ ڈاکٹر کو چھوڑ کر تھوڑی دیر بعد واپس کمرے میں آئیں تو ان کے ہاتھ میں دوائیوں کا شاپر تھا۔
” کیا یہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی؟ ” کردم نے انہیں اندر آتے دیکھ فوراً پوچھا۔
” بیٹا کھاتی تو ہے۔ لیکن بہت کم، دوپہر میں تو اکثر چھوڑ دیتی ہے۔” سیما خالہ آہستہ آواز میں بولیں۔ اب بھی ان پر کردم کے غصّے کا اثر تھا۔
” ایک تو اس کا حرام کمائی سے فوبیا۔”
کردم بڑبڑایا۔ اسے زرا دیر نہ لگی تھی، آئینور کے کھانا نہ کھانے کی اصل وجہ جانے میں۔
” ٹھیک ہے یہ دوائیاں یہیں رکھ دیں اور اب آپ بھی جا کر آرام کریں۔”
سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی دوائیاں رکھ کر فوراً وہاں سے نکل گئیں۔ ان کے جانے کے بعد کردم آئینور کے ساتھ ہی لیٹ گیا اور اس کی طرف کروٹ لے کر اس کے معصوم چہرے کو دیکھنے لگا۔
۔*************۔
” عادی میں کہہ رہی ہوں نا، تم آئینور کو فون لگاؤ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ وہ ٹھیک نہیں ہے۔”
رخسار بیگم پریشانی سے بولی۔ وہ ماں نہیں تھیں۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ ماں کی طرح ان کا خیال رکھا تھا۔
” ماما یہ آپ کا وہم ہے۔ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟ ” عدیل سمجھاتے ہوئے بولا۔
” نہیں !! میرا دل کہہ رہا ہے، وہ ٹھیک نہیں۔ تم۔۔۔ تم اُسے فون کرو، میری بات کروا دو۔”
” اچھا آپ فکر نہیں کریں، اتنی رات ہو رہی ہے اب تک وہ سو چکی ہونگی۔ میں کل صبح ہی آپ کی بات کرواتا ہوں۔”
دل تو نہیں مان رہا تھا، پر عدیل کی بات پر وہ خاموش ہوگئیں۔ ابھی وہ خود بھی سفر میں تھیں، اس لیے ناچار دل کو سمجھانا پڑا۔
۔**************۔
اس کی آنکھ دوپہر کے دو بجے کھلی۔ وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی کہ تبھی نظر صوفے پر بیٹھی سیما خالہ پر پڑی، جو ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھنے میں لگی تھیں۔
” سیما خالہ !! ” اس نے دھیرے سے آواز دی۔
سیما خالہ نے اس کی آواز پر فوراً مڑ کر اسے دیکھا اور اُٹھ کر اس کے پاس جا بیٹھیں۔
” اُٹھ گئی۔” وہ پیار سے بولیں۔
” میں اتنی دیر تک سوتی رہی آپ نے اُٹھایا کیوں نہیں؟ ” وہ اُٹھتے ہوئے بولی۔
“کردم نے کہا تھا تمہیں آرام کرنے دوں، اس لیے وہ تمہیں اُٹھائے بغیر ہی صبح چلا گیا۔”
” اچھا۔”
” تم منہ ہاتھ دھو لو۔ میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔” وہ اس کے سر پر پیار کرتیں، کھانا لینے چلی گئیں۔
آئینور بھی اُٹھ کر باتھ روم میں گھس گئی۔
۔***************۔
” تو تم آج واپس جا رہے ہو؟ ” کردم اس وقت آغا حسن کے ساتھ اڈے پر موجود تھا۔ آج وہ واپس انڈیا جا رہا تھا اس لیے کردم سے ملنے اڈے پر چلا آیا۔
” ہاں !! اس لیے سوچا تم سے مل لوں۔” وہ مسکراتے چہرے سے بولا۔
” اچھا کیا۔” کردم نے کہہ کر بائیں جانب دیکھا۔ جہاں رحمت، رحیم، فاروق اور باقی سارے ماتحت ٹرک میں سامان لوڈ کروا رہے تھے۔ وہیں دائیں جانب غفار مال اپنی زیرِ نگرانی میں اڈے کے ایک کمرے سے نکلوا کر ٹرکوں کی طرف رکھوا رہا تھا۔
” چلو آؤ یہاں بہت شور ہے۔ بیٹھک میں چلتے ہیں۔” کردم نے کہہ کر قدم بیٹھک کی جانب بڑھا دیئے۔ آغا حسن بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
” بیٹھک میں داخل ہو کر وہ دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
کچھ پینے کو ہی منگوا دو۔”
” دوپہر میں بھی تمہیں سکون نہیں۔”
کردم نے کہہ کر غفار کو کال ملا دی۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک ملازم ٹرے ہاتھ میں لیے داخل ہوا۔ جس میں شراب کی بوتل اور گلاس موجود تھے۔
” لو شروع کرو۔” کردم نے بوتل اور گلاس اس کے سامنے رکھ دیئے۔ آغا نے دو گلاس بھر کر ایک گلاس کردم کے آگے کر دیا۔
” شکریہ !! ”
کردم نے کہہ کر ہاتھ گلاس کی طرف بڑھایا کہ تبھی ایک جھماکے سے آئینور کی بات یاد آئی۔
” میں کبھی اپنی زندگی میں ایک باپ کی ایسی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ جو شراب کے نشے میں یہ تک بھول گیا، سامنے کھڑی لڑکی اس کی اپنی بیٹی ہے۔”
کردم نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ وہ تو اب آئینور کے ساتھ آگے بڑھ چکا تھا۔ اس کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی شروع کر چکا تھا۔ وہ ایک ایسا باپ نہیں بنا چاہتا تھا، جو کسی سانپ کی طرح اپنی ہی اولاد کو نگل لے۔
” کیا ہوا۔۔۔ تم پی نہیں رہے۔” آغا نے اسے ہاتھ پیچھے کرتے دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔
” نہیں !! مجھے کچھ طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔” کردم کو ایکدم گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔
” کیا ہوا۔۔۔؟ ابھی تو تم ٹھیک تھے۔”
” پتا نہیں۔ خیر !! اسے چھوڑو اور بتاؤ کتنے بجے تک انڈیا کے لیے نکلو گے؟ ” کردم نے موضوع بدل دیا۔ اب وہ دونوں آغا کے سفر کے متعلق بات کر رہے تھے۔
۔***************۔