زمین پر پڑتیں بارش کی بوندوں نے چاروں سو مٹی کی خوشبو کو پھیلا دیا تھا۔ کالے آسمان سے برستی بارش کا منظر دیکھنے والا تھا۔ ایسے میں نیند کی آغوش میں سوتی آئینور کے کانوں تک پہنچنے والی برستی بارش کی آواز نے خلل پیدا کیا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔
اپنے گرد پھیلا کردم کا بازو آہستہ سے ہٹا کر وہ اُٹھ بیٹھی۔ چہرہ موڑ کر اپنے دائیں جانب بنی کھڑکی کی طرف دیکھا، جہاں پوری آب و تاب سے بارش برس رہی تھی۔ اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی اور بیڈ سے اُٹھ کر وضو بنانے کی غرض سے باتھ روم میں چلی گئی۔
وضو بنا کر باتھ روم سے باہر آئی اور کمرے میں ہی جائےنماز بچھا کر تہجد کی نماز ادا کرنے لگی۔ بارش بھی مسلسل برس رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید تیزی آتی جا رہی تھی۔
آئینور نے نماز ادا کرکے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی باہر برستی بارش کی جانب اُٹھ رہی تھیں۔ دعا مانگ کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ جائےنماز اُٹھا کر ایک طرف رکھی پھر ایک نظر کردم پر ڈال کر، وہ شیشے سے بنے ٹیرس کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔
” رات ہو رہی ہے نور !! ”
” بارش میں نہیں نہاؤ۔”
” بیمار پڑ جاؤ گی اندر آؤ۔”
بچپن کی بہت سی یادیں زہن کے پردے پر تازہ ہوئی تھیں۔ تبھی بےاختیار اس کے قدم اُٹھے اور وہ ٹیرس کے بیچوں بیچ جا کھڑی ہوئی۔ بارش تیزی سے اسے بھگو رہی تھی۔
” کیوں اتنی جلدی چھوڑ گئے مجھے؟ ایک بار تو میرے بارے میں سوچا ہوتا ماما۔ اب کون ہے میرا خیال کرنے والا، مجھے روکنے ٹوکنے والا۔۔۔ کوئی نہیں، کوئی بھی تو نہیں۔ میں اکیلی رہ گئی ماما۔۔۔ میں اکیلی رہ گئی۔”
بارش کے ساتھ ساتھ آنسو بھی اس کے چہرے کو تیزی سے بھگو رہے تھے۔ دونوں ہاتھ اوپر اُٹھائے وہ بارش کے قطروں کو اپنے چہرے پر پڑنے دے رہی تھی۔ کتنا ہی وقت یوں ہی کھڑے گزر گیا، جب پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔
” یہاں کیا کر رہی ہو؟ چلو اندر بیمار پڑ جاؤ گی۔”
آئینور نے چہرہ موڑ کر دیکھا۔ ہاتھ میں چھتری لیے، کردم اس کے پاس آتا فکر مند لہجے میں بول رہا تھا۔
آئینور نے اپنے ہاتھ نیچے کر لیے اور پوری اس کی جانب مڑ کر کھڑی ہوگئی۔ اب وہ دونوں چھتری تلے کھڑے تھے۔
” اُٹھ کیوں گئیں؟ نماز پڑھنی تھی؟ ”
کردم نے پوچھنے کے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ وہ بارش کے قطروں میں بھی اس کے آنسوؤں کو پہچان سکتا تھا۔ آئینور اسے دیکھتی رہ گئی۔
” بتاؤ اُٹھ کیوں گئیں؟ ” وہ بہت نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
” نماز پڑھنی تھی۔” آئینور دھیرے سے بولی۔
” ٹھیک ہے !! چلو چل کر کپڑے بدل لو ورنہ بیمار ہو جاؤ گی۔” کہنے کے ساتھ ہی اس نے بائیں ہاتھ آئینور کے شانو پر پھیلایا اور اپنے ساتھ لگائے، چھتری تلے اندر کی جانب بڑھ گیا۔ آئینور بھی خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔ اس کا زہن ابھی کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔
۔*************۔
” چلو لڑکی یہ ناشتہ لیے جاؤ۔ کردم انتظار کر رہا ہوگا۔” آئینور سر ٹیبل پر جھکائے کرسی پر بیٹھی تھی جب سیما خالہ نے اس کے سامنے ناشتہ رکھا۔
” اچھا۔” وہ سر ٹیبل سے اُٹھا کر بولی۔
” تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیا طبیعت ٹھیک نہیں؟ ” اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر سیما خالہ فکر مند سی پوچھنے لگیں۔
” ارے !! کچھ نہیں ہوا، بس نیند پوری نہیں ہوئی اس لیے۔” اس نے ٹالنا چاہا۔ حالانکہ رات بارش میں بھیگنے کے باعث اسے حرارت محسوس ہو رہی تھی۔
” اچھا چلو !! کردم کے جانے کے بعد آرام کر لینا۔”
” نہیں میں آج گھر جاؤ گی تو وہیں آرام کر لوں گی۔”
” چلو ٹھیک ہے۔ اچھی بات ہے مل آؤ گھر والوں سے۔” سیما خالہ مسکرا کر بولیں۔
آئینور بھی جواباً ہلکا سا مسکرا کر ناشتے کی ٹرے اُٹھاتی کچن سے نکل گئی۔
۔*************۔
وہ اس وقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ جب آئینور ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔ ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر وہ اس کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔
کردم ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالتا اپنی تیاری میں لگا رہا۔ وہ جانتا تھا، آئینور اس سے کیا کہنے آئی ہے۔ کردم کے صبح اُٹھتے ہی وہ ایک ہی بات کو لے کر بیٹھی ہوئی تھی، جسے وہ کئی بار رد کر چکا تھا۔
” مجھے گھر جانا ہے۔” کردم کچھ نہ بولا تو آئینور نے ہی بات کا آغاز کیا۔
” اور میں بھی منع کر چکا ہوں۔” وہ اطمینان سے بولا۔ لیکن آئینور کے اطمینان کو غارت کر گیا۔
” کیوں میں کہیں بھاگ نہیں رہی ہوں واپس آ جاؤں گی۔”
” وہ تو تمہیں آنا ہی ہے۔ راہِ فرار کا راستہ جو نہیں ہے۔”
” تو پھر آج جانے دینا، میں پھر کبھی جانے کا نہیں بولوں گی۔” وہ بےبسی سے بولی۔
کردم نے ایک نظر اسے دیکھا جو دنیا جہان کی پریشانی اپنے چہرے پر لیے اسے اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کردم نے گہرا سانس لے کر بالآخر ہتھیار ڈال ہی دیئے۔
” ٹھیک ہے۔ میں رحیم کو گھر پر ہی چھوڑ جاؤں گا، اُس کے ساتھ چلے جانا اور۔۔۔ اپنا موبائل دو۔”
آئینور نے اس کی آخری بات پر الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا مگر بولی کچھ نہیں، خاموشی سے موبائل سائڈ ٹیبل سے اُٹھا کر اسے پکڑا دیا۔
کردم نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر اپنا نمبر اس میں ڈالا اور اس کے موبائل سے اپنے نمبر پہ بیل دے کر موبائل واپس اسے پکڑا دیا۔
” میں نے اپنا نمبر ڈال دیا ہے اور تمہارا نمبر بھی میرے پاس آ گیا، اب اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے فون کر دینا۔ ٹھیک ہے؟ ”
” ٹھیک ہے۔” آئینور نے کہتے ہوئے آنکھیں گھومائیں۔
” بھلا اپنے گھر میں کیسا مسئلہ؟ ” وہ سوچ کر رہ گئی پر بولی کچھ نہیں۔
۔*************۔
آنکھوں میں آنسو لیے وہ اسٹیشن پر کھڑی تھیں۔ وہ دونوں ساتھ لاہور آئی تھیں اور اب وہ اکیلے واپس جا رہی تھیں۔
” میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تمہیں یہاں اکیلے چھوڑ کر جانے کو۔” رخسار بیگم افسردہ سی بولیں۔
” آپ میری فکر نہیں کریں اور پھر میں روز کال کروں گی نا۔” آئینور بےبسی سے انھیں سمجھانے لگی۔ وہ کل فون پر کافی دیر انھیں سمجھاتی رہی، لیکن آج پھر رخسار بیگم وہی باتیں لے کر بیٹھ گئی تھیں۔
” کیا ہو گیا یہ نور، یہ تو نہ سوچا تھا۔”
” کیا کر سکتے ہیں، جو ہونا تھا ہوگیا۔ بس اب سب فکروں کو ادھر ہی چھوڑ جائیں اور ہاں اب عادی گھر پر ہی رہے گا۔ آپ ہاسٹل نہیں بھیجئے گا۔ وہ آپ کے ساتھ ہوگا تو اس طرح میں بھی بے فکر رہوں گی۔” آئینور کی بات پر انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
” آپی آپ بھی چلیں نہ ہم کہیں دور چلے جائیں گے، جہاں وہ ہمیں ڈھونڈ نہ سکے۔”
عدیل جو اتنی دیر سے خاموش کھڑا تھا، بالآخر بول اُٹھا۔
” نہیں عادی !! جہاں بھی جائینگے وہ ڈھونڈ نکالے گا، راہِ فرار بیکار ہے۔ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔”
” لیکن آپی۔۔۔”
” لیکن ویکن کچھ نہیں، بس اب جاؤ ٹرین چلنے ہی والی ہے اور ہاں ماما کا خیال رکھنا۔ میں روز فون کر کے پوچھا کروں گی۔”
” آپ فکر نہیں کریں میں خیال رکھوں گا۔ آپ بھی اپنا خیال رکھنا۔” وہ کہہ کر اس کے گلے لگ گیا۔ آئینور نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
ایک دو اور باتوں کے بعد وہ اس سے گلے ملتے ٹرین میں بیٹھ گئے۔ ٹرین چلنا شروع ہوئی اور آئینور نم آنکھوں سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔
” کون جانے کونسا سفر آخری ہو
کون جانے پھر ملاقات ہو نہ ہو۔”
۔***************۔
” اووو رحیم دادا !! واپسی کب کی ہے؟ ” رحیم آئینور کو اس کے گھر چھوڑ کر کچھ دیر پہلے ہی اڈے پر پہنچا تھا۔ کام سے فارغ ہو کر اب وہ تھوڑا آرام کرنے بیٹھا تو رحمت اور فاروق اس کے سر ہولیے۔
” کیا مطلب؟ ” رحیم نے ناسمجھی سے پوچھا۔
“چھوڑ آئے ہو بیگم صاحبہ کو تو واپس بھی تو لینے جاؤ گے۔ میں تو کہتا ہوں اڈوں کا کام چھوڑ کر تو اُس اسلم کی بیٹی کا ملازم بن جا، اُس کے ہر کام کے لیے تجھے یاد کیا جاتا ہے۔” رحمت اس کا مزاق اڑاتے ہوئے بولا۔
” ہاں !! صحیح کہہ رہا ہے رحمت۔ تو اور غفار واقعی دادا کے پورے چمچے بن چکے ہو، تبھی اب اُس لڑکی کی غلامی بھی شروع کر دی۔”
فاروق کے لفظوں کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے سے بھی ناگواری واضح ہو رہی تھی۔
” بکواس بند کرو تم لوگ اپنی۔ میں اُس لڑکی کے کام دادا کے حکم پر کرتا ہوں۔ کردم دادا کے ساتھ نمک حرامی نہیں کر سکتا، ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں اُس لڑکی کا ملازم بنے میں۔” رحیم غصّے سے انھیں گھورتے ہوئے بولا۔
” ویسے مجھے اب پکا یقین ہو گیا ہے۔”
” کس بات پر؟ ” رحمت کی بات پر رحیم نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا۔
“یہ ہی کہ دادا گیا کام سے۔ وہ اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا، تبھی تو یہ لڑکی یہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہی۔”
” بالکل۔” فاروق بھی رحمت کی تائید کرتے ہوئے بولا۔
” مجھے بھی یہ ہی لگتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے جتنی بھی لڑکیاں آئیں ایک رات سے زیادہ نہ ٹک سکیں۔ خیر !!
یہ دادا اور اُس لڑکی کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے دور ہی رہنا چاہیئے، ورنہ یہ ہمارے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوگا۔”
رحیم کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ ان کی باتوں میں کافی وقت گزر چکا تھا۔ اب وہ آرام کیا خاک کرتا۔
۔***************۔
شام کے سائے چاروں طرف پھیل چکے تھے۔ ایسے میں وہ اس بند گھر کے سامنے کھڑی خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ رحیم کے جانے کے بعد وہ رخسار بیگم اور عدیل کے ساتھ انھیں چھوڑنے اسٹیشن چلی گئی تھی۔ مگر اب ایک بار پھر وہ اسی گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ ان دونوں کو رخصت کر کے وہ واپس ادھر آگئی تھی۔ جہاں “ماہ نور” نے آخری بار سانس لی اور پھر ہمیشہ کے لیے ہی سانس لینا چھوڑ دی۔
” اووو ماما !! یہ کیا ہوگیا۔ آج یہ گھر بھی میری زندگی کی طرح ویران ہوگیا۔”
خیالوں میں ماں کو مخاطب کرتی، ساتھ ہی دروازے کو تالے سے آزاد کر کے وہ اندر داخل ہوئی۔ جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ موبائل کی مدھم روشنی میں وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اندھیرے اور سر درد کے باعث کچھ بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کا بخار بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ رخسار بیگم اور عدیل کو بھی جھوٹ بولا کر بھیلا پھسلا لیا تھا۔ مگر اب بخار شدت اختیار کر رہا تھا۔
وہ لائٹ جلانے کے لیے تیزی سے آگئے بڑھ رہی تھی، جب کسی چیز سے ٹکرا کر زمین بوس ہوگئی۔ موبائل بھی ہاتھ سے گر کر بند ہو چکا تھا۔
” آاااہ !! ” وہ کراہی۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی آنکھیں بند کر گئی۔
۔****************۔