اسلم کے انتقال کو تین دن گزر چکے تھے۔ آئینور اب بھی ادھر ہی تھی۔ اُس دن کے بعد سے کردم دوبارہ نہیں آیا تھا۔ مگر آج اس نے سیما خالہ کے زریعے آئینور تک پیغام پہنچا دیا تھا کہ رحیم آج اسے لینے آرہا ہے۔ اُس کے ساتھ اب واپس آجائے۔ مگر عدیل کو جیسے ہی بات کا علم ہوا، وہ اس کے سر پر جا پہنچا۔ اور اب بھی وہ آئینور کے کمرے میں موجود مسلسل اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
” آپی سمجھتی کیوں نہیں ہیں؟ اب آپ اس شخص کے پاس واپس نہیں جائینگی۔”
” میں نے تم سے تب بھی کہا تھا عادی اب بھی کہہ رہی ہوں۔ میرے معاملے میں دخل اندازی مت کرو۔ مجھے اتنا غصّہ نہ دلاؤ کہ۔۔۔”
” کہ آپ پھر سے مجھے ناجائز اور سوتیلا بھائی بول دیں۔ یہ ہی کہنا چاہتی ہیں نا آپ۔۔۔؟”
عدیل فوراً اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔ وہ بیڈ پر بیٹھی بس اسے گھور کر رہے گئی۔
” دیکھو عادی وہ جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، اب میرا شوہر ہے۔ مجھے اب اُس کے ساتھ ہی رہنا ہے، تم سمجھتے کیوں نہیں؟ ”
عدیل خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے پوچھا۔
” آپ اس کو پسند کرنے لگی ہیں؟ ”
اب کی بار خاموش رہنے کی باری آئینور کی تھی۔ کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھتے، وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
” ہاں !! کونسی ایسی بیوی ہوگی جو اپنے شوہر کو پسند نہیں کرے گی؟ ”
” لیکن میں صرف آپ کی بات کر رہا ہوں۔ کسی دوسرے کی نہیں؟ ”
” تم۔۔۔ تم میرے معاملات میں مت پڑو۔” وہ جھنجھلا اُٹھی۔
” آپی آپ سمجھتی کیوں نہیں؟ میں اب آپ کو کھو نہیں سکتا۔ اگر اُس آدمی نے آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو؟ میں کیا کروں گا۔” اس کے لہجے میں کچھ بے بس سا تھا۔
” تم فکر نہیں کرو۔ وہ جلد ہی مجھے اس رشتے سے آزاد کر دے گا پھر میں واپس تم لوگوں کے پاس آ جاؤ گی۔”
یہ کہتے ہوئے اسے اب خود بھی یقین نہیں تھا ” کہ واقعی۔۔۔ کیا وہ واپس آ جائے گی؟ ” وہ بس سوچ کے رہ گئی۔
اور نرم مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے عدیل کو دیکھا جو آنکھوں میں اُمید لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
” تم جا کر اپنی پڑھائی کرو۔ میں زرا ماما سے بھی مل لوں۔” وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ عدیل بے بسی سے بڑبڑاتے ہوئے وہیں بیڈ پر لیٹ گیا۔
۔***********۔
رخسار بیگم ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں۔ جب وہ خاموشی سے کمرے میں آ بیٹھی اور ان کی نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ رخسار بیگم نے سلام پھیرا اور چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو بیڈ پر بیٹھی یک ٹک انھیں ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ دعا مانگ کے جائےنماز کو اُٹھا کر رکھتیں اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
” کیا ہوا؟ ”
” کچھ نہیں۔” اس نے نفی میں سر ہلایا۔
” پھر !! ”
” میں چاہتی ہوں اب آپ عدیل کے ساتھ کراچی واپس چلے جائیں۔ اب یہاں کچھ نہیں رکھا۔”
وہ دکھ سے بولی۔ اور بار بار پلکیں جھپکاتی آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسوں کو پیچھے دھکیلنے لگی۔ رخسار بیگم کا غم بھی کم نہیں تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
” اور تم؟ ”
” میں بھی آجاؤ گی بعد میں۔”
” کیا وہ تمہیں اب واپس آنے دے گا؟ ” ان کے سوال پر اس نے نظریں چرائیں۔
” پتا ہے نور !! جب میں نے پہلی دفعہ اُسے دیکھا تھا تو اُس کی آنکھوں میں تمہیں حاصل کر لینے کی چاہ تھی۔ مگر اب۔۔۔ اب اُن آنکھوں میں تمہارے لیے کچھ اور جزبات دیکھے ہیں میں نے۔۔۔”
” ایسا کچھ نہیں ہے۔” وہ فوراً ان کی بات کاٹ گئی۔
” تم نہ مانو نور مگر ایسا ہی ہے۔ وہ اب تمہیں خود سے الگ نہیں کرے گا۔” وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولیں۔ جیسے کچھ ڈھونڈنا چاہ رہی ہوں۔
” میں یہاں یہ باتیں کرنے نہیں آئی۔” وہ زچ ہوئی۔ رخسار بیگم خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں کہ تبھی باہر سے گاڑی کے ہارن بجانے کی آواز آئی۔
” لگتا ہے آگئے۔ میں چلتی ہوں۔ ” آئینور کے کہنے پر رخسار بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ ان سے مل کر گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔
۔************۔
” تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ ”
کردم آج گھر پر ہی موجود تھا۔ جب غفار نے آکر اسے پاشا کے آنے کی اطلاع دی۔
” کچھ ضروری بات کرنی تھی، کردم دادا۔”
پاشا اس کے مقابل آکر بولا۔ کردم نے ایک نظر غور سے اس کو دیکھا پھر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔ خود بھی اس کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہو گیا۔
” کہو کیا کہنے آئے ہو؟ ”
” میں یہاں تم کو خبر دار کرنے آیا ہوں۔” اس کی بات پر کردم نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
” جانتے بھی ہو کس سے کیا بات کہہ رہے ہو؟ ”
” بہت اچھے سے جانتا ہوں۔ میں اس وقت کردم دادا سے مخاطب ہوں۔” پاشا اطمینان سے بولا۔ اور جیب سے موبائل نکال کر اس کے سامنے کیا۔
” کیا۔۔۔؟ ”
“اس میں جمشید کی ویڈیو ہے۔ ہمارے جھگڑے کے بعد وہ میرے پاس آیا تھا۔ تاکہ وہ میرے ساتھ مل کر تمہیں نقصان پہنچا سکے۔”
پاشا نے کہہ کر وہ ویڈیو چلا دی۔ جمشید اور پاشا کی گفتگو، جس میں بہت صفائی سے ردوبدل کر کے جمشید کے خلاف کر دیا تھا۔ ویڈیو کے ختم ہونے تک کردم خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ ویڈیو ختم ہوئی تو اس نے نظر اُٹھا کر پاشا کی طرف دیکھا۔
” مجھے یہ سب بتانے کا مطلب؟ تمہیں اس سب سے کیا فائدہ حاصل ہونے والا ہے؟ ”
” مجھے کیا فائدہ حاصل ہونا ہے؟ میں نے جو غلطی کی تھی بس اُس کو سدھارنے کی چھوٹی سی کوشش ہے۔ آخر کو ہم ان اختلافات سے پہلے بہت اچھے دوست تھے۔”
پاشا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ کردم جانچتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا کہ اسی سمے اس کا فون بج اُٹھا۔
“میں ابھی آیا۔”
موبائل ہاتھ میں لیے وہ ایک سائڈ پر ہوگیا۔ پاشا نظر دوڑاتا گھر کا جائزہ لینے لگا کہ تبھی اس کی نظریں دروازے پر ٹھر گئیں۔
آئینور برقعہ ہاتھوں سے اُٹھائے ارد گرد سے بے نیاز دروازے سے داخل ہوتی سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں چلی گئی۔ یہ جانے بغیر دو آنکھیں حیرت اور دلچسپی سے اسے ہی دیکھ رہی ہیں۔
پاشا نے بند دروازے سے نظر ہٹا کے کردم کی طرف دیکھا جو ابھی بھی فون میں مصروف اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔ واپس نظروں کا رخ بند دروازے کی جانب موڑا جہاں ابھی ابھی آئینور گئی تھی۔
” یہ کون ہے؟ اور کردم دادا جیسے بندے کے یہاں اس کا کیا کام؟ ” وہ پُر سوچ نظروں سے دروازے کو دیکھ رہا تھا کہ کردم کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا۔
” یقیناً تم یہاں کچھ کھانے تو نہیں آئے تھے۔ اور اب جب تم اپنی بات کہہ چکے ہو تو ضرور یہاں سے جانا چاہ رہے ہوگے۔ صحیح کہہ رہا ہوں نا؟ ”
کردم جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا، مسکراتے ہوئے بولا۔ پاشا اس کی بات کا مطلب سمجھ کر فوراً کھڑا ہوگیا۔
“ہاں !! اب میں چلتا ہوں۔”
اس نے کہہ کر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا جسے کردم نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔ پاشا نے ایک نظر بند دروازے پر ڈال کر باہر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
۔************۔
وہ بیڈ پر لیٹی سوچوں میں غرق تھی، جب کردم دروازہ کھول کر اندر آیا۔
آئینور کو بیڈ پر لیٹا دیکھ وہ ٹھٹھک گیا۔ کردم کی طرف اس کی پشت تھی۔
” تم کب آئیں؟ ”
کردم کے سوال پر آئینور نے چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
” ابھی کچھ دیر پہلے۔” جواب دے کر چہرہ واپس موڑ لیا۔ کردم کو اس کی آنکھوں میں اجنبیت کے تاثر دکھائی دیئے۔ وہ چلتا ہوا اس کے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
” تمہیں لگتا ہے، تمہارے باپ کو میں نے مارا ہے؟ ”
وہ خاموش رہی۔
” کچھ پوچھ رہا ہوں میں۔” اب کی بار وہ سخت لہجے میں بولا۔
آئینور نے نظریں ترچھی کیے اسے دیکھا اور اُٹھ بیٹھی۔
” میں نے ایسا کچھ کہا تو نہیں۔”
” ہاں !! پر تمہاری نظریں تو کہہ رہی ہیں۔” وہ اس آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
” میرے پاپا جس گناہوں کے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے پر یہ جاننا مشکل ہے، کون آپ کا دوست ہے اور کون دشمن۔ کوئی نہیں جان پاتا کہ دوست کی شکل میں کتنے آستین کے سانپ چھپے ہوئے ہیں۔ اس لیے میں آپ پر شک نہیں کر رہی۔”
آئینور کی بات پر اسے یکدم پاشا کا خیال آیا۔ وہ بھی کبھی اس کا دوست ہوا کرتا تھا، اور اب وہ ہی اسے ڈسنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔
” اب اگر آپ کی اجازت ہو تو میں کچھ دیر آرام کر لوں؟ مجھے بہت تھکن محسوس ہو رہی ہے۔” کردم کا جواب سنے بغیر ہی اپنی کہہ کر واپس لیٹ گئی۔
کردم بیٹھا خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ جسے باپ کی موت نے چند دنوں میں ہی صدیوں کا بیمار بنا دیا تھا۔
۔************۔
غفار گاڑی کے بونٹ کھولے جھک کر انجن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا، جب وہ تینوں اس کے پاس چلے آئے۔
” ہہہہم !! کیسے ہو غفار دادا؟ ” گلا کھنکھار کر رحیم نے بات کا آغاز کیا۔
غفار نے سر اُٹھا کر ایک اُچٹتی سی نظر ان تینوں پر ڈالی، اور ” ٹھیک ہوں” کہتا واپس اپنے کام میں لگ گیا۔
” ہمیں تم سے کچھ بات کرنی تھی۔ میرا مطلب کچھ پوچھنا تھا۔” فاروق ڈرتے ہوئے جلدی سے بولا۔
” کوئی کام کی بات ہے تو پوچھو، لیکن اگر بکواس کرنے آئے ہو تو واپس جا سکتے ہو۔” انجن پر جھکے ہی جواب دیا۔
” وہ ہمیں پوچھنا تھا، یہ لڑکی واپس کیوں آگئی؟ آخر چکر کیا ہے؟ ”
رحمت جو ان دونوں کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ فوراً آگے آکر اشتیاق سے پوچھنے لگا۔
غفار نے ایک بار پھر سر اُٹھایا اور مسکراتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا مگر۔۔۔ اگلے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ سمٹی اور چہرے پر خونخوار تاثرات لیے، پیچھے لگی گن نکال کر ان پر تان دی۔
” ہاں تو اب بتاؤ، کیا پوچھنا ہے؟ ”
اس کے ہاتھوں میں گن دیکھ کر تینوں گڑبڑا گئے۔ رحمت واپس ان دونوں کے پیچھے چھپ گیا۔
” دیکھو !! تمہیں لگتا ہے کہ یہ گن دیکھا کے تم ہمیں ڈرا سکتے ہو۔۔۔؟ تو تمہیں بالکل ٹھیک لگتا ہے۔ ہم واقعی ڈر گئے، بس اب اسے نیچے کر لو۔” رحیم گن کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
” آئندہ اگر کچھ پوچھنا ہو تو میرے پاس آنے کے بجائے سیدھا کردم دادا کے پاس جانا تاکہ وہ تمہاری آخری خواہش کو ضرور پورا کریں۔ اب جاؤ یہاں سے۔”
غفار کے کہتے ہی وہ کسی بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو گئے۔ اس میں کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ ان پر گولی چلا دیتا۔
غفار بھی سر جھٹکتا گن رکھ کر واپس اپنے سابقہ کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ جان سے جا سکتا تھا مگر کردم دادا کی بات کے خلاف نہیں۔
۔************۔
رات کے آخری پہر وہ ٹیرس میں لگے جھولے پر بیٹھی افق پر نظر آتے چاند کو تک رہی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے موبائل کی اسکرین مسلسل جگمگا رہی تھی۔ وہ کبھی نظریں جھکائے موبائل کی اسکرین کو دیکھتی تو کبھی چاند کو۔
آئینور جب سے واپس آئی تھی بستر کی ہو کر رہ گئی تھی۔ سیما خالہ سے بھی بس رات کے کھانے پر ملاقات ہوئی، اس کے بعد وہ واپس کمرے میں بند ہو کر رہ گئی۔ دن بھر آرام کے بعد اب نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
” اب تو میں بالکل اکیلی ہوگئی۔ کوئی بھی تو نہیں رہا اب میرے پاس۔ آپ بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں اور اب پاپا بھی۔ گوکہ اُن کا ساتھ تو نہ ہونے کے برابر تھا مگر۔۔۔ تھا تو، لیکن اب کوئی نہیں۔”
نظریں چاند پر جمائے۔ وہ خود سے بڑبڑا رہی تھی، جب کردم اس کے برابر آ کر بیٹھا۔
آئینور کے چہرے پر نظریں جمائے وہ بغور اسے دیکھنے لگا۔ جو اس کی آمد سے یکسر انجان تھی۔ چاند کا نور اور جلتی اسکرین کی روشنی سیدھا آئینور کے چہرے پر پڑ کر اسے روشن کر رہی تھیں۔
کردم نے نظریں جھکا کر اس کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھا۔ جس کی اسکرین پر ایک مسکراتی ہوئی لڑکی کی تصویر نظر آ رہی تھی۔ جسے کسی البم کی تصویر میں سے اُتارا گیا تھا۔
” یہ کون ہے؟ ”
کردم کی آواز پر آئینور نے چونک کر اسے دیکھا، پھر ہاتھ میں موجود موبائل کو۔
” آپ کب آئے؟ ”
” کافی دیر پہلے۔” کردم نے جھوٹ بولا۔
” اچھا۔”
آئینور نے کہہ کر چہرہ واپس سامنے کر لیا۔ کردم غور سے اس کو دیکھ رہا تھا، جو اتنی بے نیاز بیٹھی تھی کہ اس کی آمد کی خبر تک اسے نہ ہوئی۔ کردم نے پھر سر جھکا کر تصویر پر نظریں جمائیں۔
” تم نے بتایا نہیں۔ کون ہے یہ؟ ”
“میری ماں۔”
آئینور کے جواب پر کردم نے جھٹکے سے سر اُٹھا کر اسے دیکھا، مگر وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ نظریں سامنے جمی تھیں۔
” لیکن تمہاری ماں تو۔۔۔”
“وہ میری پھوپھو ہیں۔”
کردم حیران ہوتا کبھی موبائل کو دیکھتا تو کبھی اس کو۔ آئینور اور اس تصویر میں نظر آتی لڑکی کافی مشابہت رکھتی تھیں۔
” نام کیا تھا ان کا؟ ”
“ماہ نور !! ”
” صرف شکلیں نہیں نام بھی ملتے ہیں۔”
کردم بڑبڑایا اور گہرا سانس لیتے خود بھی سامنے دیکھنے لگا۔ افق پر نظر آتا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
” اب کہاں ہیں یہ؟ کیا اسلم کو چھوڑ کر چلی گئی تھیں؟ ”
” صرف پاپا کو نہیں، ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ وہاں جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔”
آئینور کے اندر چھپا دکھ لہجے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔
” بیمار تھیں؟ ”
” نہیں !! خودکشی کی تھی۔”
کردم نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ جو کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اس کے سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔
” کیوں؟ ”
کردم کے سوال پر اس نے گہرا سانس لے کر خود کو پُرسکون کرنا چاہا پھر آہستہ سے بتانا شروع کیا۔ وہ تلخ باب جس نے اس کی ہستی ہلا کر رکھ دی تھی۔
“ماما نانا نانی کی ایک لوتی اولا تھیں، بلکہ نانا جان کی تو جان بستی تھی اُن میں۔ ماما کراچی میں پلی بڑھی تھیں۔ جبکہ پاپا دادی جان اور پھوپھو کے ساتھ لاہور میں۔”
اتنا کہہ کر آئینور خاموش ہوگئی جیسے آگے بولنے کے لیے ہمت جمع کر رہی ہو۔
” پھر؟ ” اس کو خاموش دیکھ کردم پوچھ بیٹھا۔
“پھوپھو کی شادی اُن کے خالہ کے بیٹے “ارسل” سے ہوئی تھی۔ جو کراچی کے رہائشی تھے۔ شادی کے بعد پھوپھو کراچی چلی گئیں۔ چونکہ نانا جان اور ارسل انکل کی فیملی ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔ اس لیے وہ بھی اس شادی میں شریک ہوئے اور وہیں ماما پھوپھو سے ملیں۔ شادی کے بعد بھی ماما اکثر ان کے گھر جایا کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں ماما اور پھوپھو کی اچھی دوستی ہوگئی اور اسی دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے پھوپھو نے دادی جان سے ماما پاپا کے رشتے کا زکر کر دیا۔ چونکہ وہ بھی ماما کو شادی میں دیکھ چکی تھیں اور پسند بھی کرلیا تھا اس لیے سب رشتہ لے کر نانا جان کے پاس پہنچ گئے۔
نانا جان کو بھی ان کی فیملی اچھی لگی۔ وہ لڑکے کے بارے ميں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ارسل انکل کے کہنے پر کہ اسلم ایک اچھا لڑکا ہے۔ اس کی زمہ داری وہ اُٹھانے کے لیے تیار ہیں تو نانا جان مطمئن ہوگئے، اور اس رشتے کے لیے ہامی بھر دی۔
شادی میں نانا نے کوئی کثر نہیں رہنے دی تھی۔ شادی کے بعد بھی سب اچھے سے گزر رہاتھا کہ ایک دن ارسل انکل کی موت کی خبر ملی۔ پھوپھو کے ساتھ صرف چھ ماہ گزار کر وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی موت نے سب کو دکھ سے دوچار کر دیا تھا، خاص کر پھوپھو کو۔ تاہم کہتے ہیں نہ وقت کا کام ہے گزر جانا تو وقت بھی گزر گیا۔ ان کی موت کا دکھ کم تو نہیں ہوا لیکن بس اللّٰه کی رضا سمجھ کر صبر کرلیا۔
پھر اس دوران میری پیدائش ہوئی جو سب کے لیے خوشی کا باعث بنی۔ لیکن خیر وقت گزرتا رہا اور میں بڑی ہوتی گئی۔ اس دوران نانا اور دادی جان کا بھی انتقال ہوگیا تھا، اور دادا جان وہ تو پاپا کے بچن میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے۔۔۔”
آئینور پھر خاموش ہوگئی لیکن اس بار کردم بھی خاموش رہا۔ کیونکہ آج آئینور بولنا چاہتی تھی اور کردم سننا۔
” ہماری زندگی میں سب ٹھیک چل رہا تھا یا شاید مجھے لگ رہا تھا۔ بچی تھی نا اس لیے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور انسانی رویوں سے ٹھیک طرح واقف نہیں تھی۔ مگر وہ رات مجھے بارہ سال کی عمر میں اس دنیا سے واقف کرا گئی۔”
وہ رکی گہرہ سانس لے کر اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنا چاہ۔
“ماما اور پاپا کی اکثر لڑائی ہوتی رہتی یا یوں کہنا ٹھیک ہوگا کہ اکثر پاپا ماما کو اپنی مردانگی کا ثبوت دکھاتے رہتے، انہیں مار کر۔ وہ میرے سامنے ایسا نہیں کرتے تھے۔ لیکن ماں کے چہرے پر موجود نشان مجھے ان پر بیتی ازیت کا بتا جاتے مگر۔۔۔ پھر وہی بات میں چھوٹی تھی اس لیے ماما کے جھوٹے بہانوں کو سچ مان جاتی تھی۔ تاہم ایک دن ہم نانی جان کے یہاں گئے۔ ان دنوں اُن کی بہت زیادہ طبیعت خراب تھی۔ وہاں پہنچ کر ہم سب سے ملے اور اُس کے بعد میں سیدھا ماما ساتھ کمرے میں سونے چلی گئی۔ سفر کی وجہ سے تھکن جو سوار ہو گئی تھی۔ لیکن جب میں جاگی تو ماما میرے پاس موجود نہیں تھیں۔ میں اُٹھ کر کمرے سے باہر آئی تو برابر والے کمرے سے مجھے باتوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے آگے بڑھ کر کمرے میں جانا چاہا مگر۔۔۔ ماما کو روتا دیکھ میں دروازے پر ہی رک گئی۔ اُن دونوں کی میری طرف پشت تھی۔ اس لیے وہ مجھے وہاں کھڑے دیکھ نہیں پائیں اور میں نے سب سن لیا۔ کیسے پاپا ماما کو مارتے تھے، پوری پوری رات گھر سے باہر گزارتے۔ اور ماما کیسے اُن کی راتیں پاپا کے انتظار میں جاگ کر گزرتی تھیں۔
خیر !! یہ سب تو معمولی سی باتیں تھیں ماما کے نزدیک کیونکہ وہ سب برداشت کر سکتی سوائے بے وفائی کے۔۔۔”
آئینور خاموش ہوگئی۔ ضبط کے مارے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ لاہور کی یخ بستہ ٹھنڈی ہواؤں میں بھی اس کے چہرے پر پسینہ نمایا نظر آ رہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر کردم اسے روکنا چاہتا تھا مگر۔۔۔ آج وہ نہ بولتی تو اس کے اندر کا غبار کبھی باہر نہیں نکلتا۔ وہ یوں ہی گھٹ گھٹ کے مر جاتی۔ اس ہی لیے کردم نے اسے بولنے دیا۔ اور ایک بار پھر آئینور نے خاموشی کو توڑا۔
” نانی جان کے یہاں کچھ دن گزار کر ہم لاہور واپس آگئے۔ پھوپھو نے ماما سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت نکال کر پاپا سے بات کرینگی۔ لیکن نہ وہ وقت آنا تھا نہ آیا۔ کراچی سے واپسی پر ہمیں رات ہوگئی تھی۔ گوکہ پاپا رات میں گھر نہیں ہوتے تھے، اس لیے ہماری واپسی کی خبر ماما نے پاپا کو نہیں دی تھی۔
وہ رات بہت اندھیرے میں ڈوبی تھی۔ نہ جانے رات کا اندھیرا تھا یہ گناہوں کا۔۔۔
ہم رات کے تقریباً دو بجے گھر واپس لوٹے تھے۔ ماما کے پاس ہمیشہ گھر کے تالے کی دوسری چابی ہوتی تھی، اس لیے تالا کھول کر ہم گھر میں داخل ہو گئے۔ گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سفر کی تھکن نے بُرا حال کر دیا تھا۔ میں باہر ہی رکھے صوفے پر لیٹ گئی۔ ماما سارے گھر لائٹس جلاتیں سامان رکھنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اُن کی چیخ و پکار گھر کے درو دیوار نے سنی تھی۔ ماما کی آواز سن کر میں کمرے میں گئی مگر۔۔۔”
ایک موتی ٹوٹ کر آئینور کی آنکھ سے بہہ گیا۔ خود پر کیا ضبط جواب دے گیا تھا۔ کردم افسوس سے اسے دیکھتا رہا۔
“پاپا وہاں اکیلے نہیں تھے۔ ایک عورت بھی ان کے ساتھ تھی۔
یہ دیکھتے ہی ماما وہاں سے چلی گئیں اور خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ مجھے اُس عورت پر بہت غصّہ آ رہا تھا، جس کی وجہ سے ماما رو رہی تھیں اور خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا۔
ماما کے جاتے ہی وہ عورت بھی فوراً گھر سے چلی گئی۔ پاپا اور میں کافی دیر تک کمرے کا دروازہ پیٹتے رہے پر ماما نے نہیں کھولا۔ تب پاپا نے دروازے کو دھکے مار کر دروازے کا لاک توڑا۔ دروازہ کھلتے ہی میں فوراً اندر بھاگی تو۔۔۔ ماما کو فرش پر پڑا پایا، ارد گرد خون پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی نس کاٹ کر اپنی جان دے دی تھی۔”
آئینور کہتے ہوئے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھنے لگی۔ یوں جیسے ان پر ماہ نور کا خون لگا ہو۔ کردم اس کے چہرے پر رقم اذیت کو پڑھ رہا تھا۔ اسے یاد آیا کیسے وہ اس کے ہاتھ پہ جمے خون کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اور جب کردم نے اُس آدمی کو گولی ماری تھی۔ وہ ڈر کر بستر میں چھپ گئی تھی۔
“ماما کی خودکشی کی خبر نانی جان برداشت نہیں کر سکیں اور وہ بھی دل کا دورہ پڑنے سے مر گئیں۔ پل بھر میں مجھے لگا سب ختم ہو گیا۔ ماما کے جانے کے بعد میں بہت اداس رہنے لگی تھی۔ کسی چیز میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔ ماما کی موت نے مجھے بُری طرح سے بدل کر رکھ دیا تھا۔ میری حالت کی وجہ سے پھوپھو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ میں اسکول میں بھی سب سے الگ اور خاموش رہنے لگی تھی اور رہنا چاہتی بھی تھی۔ مگر علینہ نے میری اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ وہ زبردستی میرے پاس آ کے بیٹھ جاتی مجھ سے باتیں کرتی، کچھ ہی عرصے میں وہ میری بہت اچھی دوست بن گئی تھی۔ اور اتفاق سے وہ رہتی بھی ہمارے گھر کے پاس ہی تھی تو اکثر اس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میں ماما کی موت سے باہر تو نہیں نکلی تھی۔ مگر اس کی صحبت میں اپنا غم ضرور بھول جاتی تھی۔
ایک دن وہ اسکول کے کام کے لیے میرے پاس آئی تھی۔ کام پوچھ کر وہ واپس چلی گئی۔ مگر اپنی کتاب گھر پر ہی بھول گئی۔ شام کے وقت میں وہی واپس دینے پھوپھو کے ساتھ اس کے گھر گئی تو۔۔۔”
آئینور نے اپنے لبوں کو آپس میں پیوست کر لیا کہ مزید آگے کچھ نہیں کہنا چاہتی ہو۔ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔ اس کو خاموش دیکھ کر کردم سے رہا نہ گیا تو پوچھ بیٹھا۔
” تو؟ ”
” میں کبھی اپنی زندگی میں ایک باپ کی ایسی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ جو شراب کے نشے میں یہ تک بھول گیا سامنے کھڑی لڑکی اس کی اپنی بیٹی ہے۔ اُس کے پاپا بھی میرے پاپا کی طرح شرابی، جواری، زانی تھے۔ اس دن میں نے اپنی سب سے پیاری دوست کو بھی کھو دیا تھا۔ یہ سب دیکھنے کے بعد پھوپھو مجھے اپنے ساتھ کراچی لے گئی تاکہ میں اس ماحول سے باہر نکل سکوں۔”
آئینور نے اپنے آنسو صاف کیے اور کردم کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
” تو تب سے تم ان کے ساتھ رہتی ہو؟ ”
“ہاں پاپا کی وجہ سے سب رشتے داروں نے تعلق توڑ لیا تھا بس ایک پھوپھو تھیں جنہوں نے مجھے سنبھالا۔ ان کی اپنی کوئی اولاد جو نہیں تھی۔”
“انہوں نے شادی کیوں نہیں کی دوبارہ؟ ” کردم کی بات پر آئینور تلخی سے مسکرا دی۔
“وہ انکل سے بہت محبت کرتی ہیں۔ عورت ہی ہوتی ہے جو شوہر کی وفات کو برسوں گزر جانے کے بعد بھی تا عمر بیوہ کی چادر اوڑھے رکھتی ہے۔ اس کی جگہ کسی اور کو نہیں دیتی۔ یہ مرد ہی ہوتا ہے جو مرحوم بیوی کا کفن بھی میلا نہیں ہونے دیتا اور شادی کرلیتا ہے۔”
” اور عادی کیسے، مطلب۔۔۔؟ ” کردم نے بات بدلنی چاہی مگر صحیح الفاظ نہ ملے۔
“کراچی آنے کے بعد پہلی دفعہ پاپا سے ملنے لاہور واپس گئے تھے تو ایک عورت گھر آئی تھی۔ جو عادی کو پاپا کا بیٹا بتا رہی تھی۔ کہہ رہی تھی وہ تھک گئی ہے۔ ان کے بیٹے کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے۔ اب وہ اپنا بھی بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ وہ بیمار ہے۔ اس لیے اب وہ اپنے بچے کو سنبھال لے۔ مگر پاپا کو پرواہ ہی کس کی تھی۔ اس لیے پھوپھو نے اسے بھی اپنی آغوش میں لے لیا۔”
آئینور خاموش ہوگئی۔ کافی پل یوں ہی خاموشی کے نظر ہوگئے۔ آئینور چاند کو دیکھ رہی تھی اور کردم سر جھکائے موبائل میں نظر آتی تصویر کو۔ اس کی نظر تصویر میں ماہ نور کی ناک میں چمکتی لونگ پر تھیں۔ کردم نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ اب وہ لونگ اب آئینور کی ناک میں پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔
” تو یہ لونگ تمہاری ماں کی ہے؟ ”
” ہاں !! ایک یہ ہی اُن کی آخری نشانی میرے پاس ہے۔ اس لیے پہن لی۔ ورنہ مجھے ان سب چیزوں کا شوق نہیں۔”
” کیوں؟ لڑکیوں کو تو بہت شوق ہوتا ہے۔”
“ہوتا ہوگا پر مجھے نہیں ہے۔ کبھی ہوا بھی تو میں نے انہیں دبا دیا تھا۔ میری ساری خواہشات میری ماں کے ساتھ دم توڑ گئیں۔ جب بھی میں کسی کو سج سنور کر تیار دیکھتی ہوں مجھے اس عورت کا چہرہ یاد آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے میری ماں نے خودکشی کرلی۔ زہر لگتی ہیں ایسی عورتیں جو سج سنور کر نامحرم مردوں کو پھنسا کر دوسری عورتوں کی زندگی خراب کر دیتی ہیں۔”
آئینور کی آنکھیں پھر اپنی ماں کے زکر پر برسنا شروع ہوگئی۔ کردم کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ اسے چُپ کرواتا۔ اس نے آئینور کے شانے پر ہاتھ رکھ کر خود سے لگا لیا۔ آئینور بھی اس کے کندھے پر سر رکھتی مزید آنسو بہانے لگی۔
“میں ماما کو کبھی بھلا نہیں سکی۔ میں نے کبھی کسی سے ان باتوں کا زکر نہیں کیا پھوپھو سے بھی نہیں۔
پھوپھو نے مجھے بہت محبت دی۔ لیکن یہ بات میرے دل سے نہیں نکلتی کہ ماما کی حالت کی زمہ دار وہ بھی کہیں نا کہیں تھیں۔ وہ پاپا کے بارے ميں سب جانتی تھیں۔ پھر بھی انہوں نے ماما کی شادی پاپا سے کرا دی۔ یہ نہیں سوچا ان کے اس عمل سے کسی زندگی خراب ہو رہی ہے۔”
وہ کردم کے ساتھ لگی روتی رہی آنسو بہاتی رہی۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ کسی سے اپنے دل کی بات کر رہی تھی۔ وہ بھی ایسے شخص سے جس سے وہ اپنی آزادی چاہتی تھی۔ یوں ہی بیٹھے نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ہوش تب آیا جب دور کہیں مسجد سے فجر کی اذان دینے کی آواز سنائی دی۔
آئینور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ گلے میں پڑے دوپٹے کو سر پر لیا۔ کردم کی ساری توجہ اس کے چہرے پر تھی۔ جس پر نور ہی نور تھا۔ ہار سنگھار نہ کسی میک اپ کے وہ کتنی پرکشش لگی تھی۔ نور ایسے ہی نہیں ملتا دل کو مارنا پڑتا ہے۔ اس نے بھی اتنی کم عمری میں اپنی خواہشات کو مارا تھا۔ جس عمر میں لڑکیاں سج سنور کر گھومتی ہیں۔ اس عمر میں اس نے خود کو چھپا لیا تھا۔ پھر اللّٰه وہ کشش، وہ نور کیوں کر اپنے بندے کو نہیں دیتا، جس نے اُس کے حکم کے آگے سر جھکایا تھا۔
آئینور اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کردم کا تسلسل ٹوٹا۔ وہ چہرہ اُٹھائے اسے دیکھنے لگا۔
” مجھے نماز پڑھنی ہے۔” اتنا کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔ کردم وہیں آسمان تلے بیٹھا رہا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ بنا لڑے ان کے درمیان اتنی لمبی گفتگو ہوئی تھی۔ ورنہ ہر گفتگو کا انجام جھگڑا ہی نکلتا تھا۔
کون کہتا ہے وقت کے ساتھ انسان سب بھول جاتا ہے۔ محبت سچی ہو تو یادیں سمندر کی لہروں جیسی ہو جاتی ہیں۔ کبھی آہستہ مانو ہیں ہی نہیں، تو کبھی اتنی زور آور جیسے سب بہا لے جائینگی۔ ہاں اتنا ضرور ہوتا ہے، انسان وقت کے ساتھ ان لہروں کا سامنا کرنے کے قابل ضرور ہو جاتا ہے۔ اور جو بھول جائے تو سمجھ لے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔
آئینور کی محبت بھی اپنی ماں کے لیے ایسی ہی تھی۔ کچے زہن پر لگی ضربیں اپنا بہت گہرا اثر چھوڑ گئی تھیں۔
۔*************۔