گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وہ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی، دور سے ہی نقاب سے جھانکتی آنکھوں سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔ جس کے باہر لشکر جما تھا۔
” یہاں کیا ہو رہا ہے؟ ”
اس نے خوفزدہ نظروں سے گھر کے باہر کھڑے لوگوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ ایسا ہی منظر کراچی سے لاہور آنے کے بعد اس نے دیکھا تھا۔ اور تب اس نے اپنی شناخت کھو دی تھی۔ پر آج کھونے کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اب وہ اپنے باپ کا قرض نہیں اُتار سکتی تھی۔ اب وہ خود کو بیچ نہیں سکتی تھی۔
” ادھر ہی روک دو۔”
” جی بیگم صاحبہ۔” رحیم کے “بیگم صاحبہ” کہنے پر چونک کر اس کی طرف دیکھا مگر بولی کچھ نہیں۔
گھر سے کچھ قدم کے فاصلے پر گاڈی رکوا کر وہ باہر نکل آئی۔ ایک ایک قدم اُٹھاتی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی، لوگوں کی آوازیں بھی صاف اس کے کانوں میں پہنچ رہی تھیں۔
” لگتا ہے کسی نے دشمنی میں زہر دیا ہے۔”
وہاں کھڑی ایک عورت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
“ارے بس بہن ایسے لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ کہتے ہیں نہ اللّٰه کی لاٹھی بے آواز ہے۔”
“صحیح کہہ رہے ہیں بھائی آپ۔ گناہ گاروں کا انجام آخر کو یہ ہی ہوتا ہے۔”
آئینور کے لیے مزید سنا دشوار ہو گیا۔ اسے لوگوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کسی انہونی کے گزر جانے کا خوف۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھتی لوگوں کی بھیڑ کو چیرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ لوگوں کے آنے جانے کے باعث دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر سے آتی رونے کی آواز سے یوں لگ رہا تھا کہ ابھی دل بند ہو جائے گا۔ جیسے ہی اس نے قدم بڑھا کر چوکھٹ کو پار کرنا چاہا سامنے پڑی باپ کی لاش کو دیکھ کر وہیں ساکت رہ گئی۔ لاش کے برابر میں بیٹھی رخسار بیگم بین کرتی آنسو بہا رہی تھیں۔
“پپ۔۔۔ پاپا۔” وہ چیختے ہوئے اپنے باپ کی طرف بھاگی جو اب بے جان پڑا اپنی آخری آرام گاہ میں اُترنے کو تھا۔
۔************۔
“بیٹا مجھے لگتا ہے۔ تمہیں بھی اس کے پاس جا کر مل آنا چاہیے۔ آخر کو اُس کا باپ مرا ہے۔” کردم جو سیڑھیاں چڑھتا اُوپر جارہا تھا۔ سیما خالہ کی بات پر وہیں رک گیا۔
“جس عورت نے میری پرواہ نہیں کی، میں اُس کے مرے ہوئے باپ کی فکر کروں؟ ” وہ مڑے بغیر ہی بولا۔
“دیکھو بیٹا میں نہیں جانتی کہ بات کیا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ بچی غصّے کی تیز ضرور ہے، بولتے ہوئے بھی یہ نہیں دیکھتی سامنے والے کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ مگر وہ دل کی بُری نہیں ہے۔ اور جس طرح اُس کے گھر والوں نے اُس کی پرورش کی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ لڑکی کوئی غلط کام نہیں کرسکتی۔” سیما خالہ جھجھکتے ہوئے بولیں۔
ان کی بات پر آئینور کا سراپا اس کے سامنے لہرایا۔ ایک دم دل نے سیما خالہ کی بات پر اتفاق کیا تھا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ بنا کچھ کہے سر جھٹکتا اپنی خواب گاہ کی جانب بڑھ گیا۔
سیما خالہ بھی اس کو جاتے دیکھ واپس کچن میں چلی گئیں۔
۔************۔
” کیا واقعی کوئی غلط فہمی ہے۔ کیا ایسا نہیں جیسا نظر آ رہا تھا۔ پر اس نے بھی تو کوئی جواب نہیں دیا تھا میرے پوچھنے پر۔” وہ کھڑکی سے باہر جگمگاتی عمارتوں پر نظریں جمائے کھڑا آئینور کو سوچ رہا تھا۔
آج صبح ہی رخسار بیگم کی کال آئینور کے موبائل پر موصول ہوئی تھی۔ انہوں نے ہی کردم کو اسلم کی وفات سے آگاہ کیا تھا۔ مگر موت کی وجہ نہیں بتائی تھی۔
سب جانے کے بعد اسے پہلی فکر آئینور کی ہوئی تھی۔ جس نے اپنے باپ کی جان بچانے کے لیے اپنی پرواہ تک نہ کی تھی۔
” کاش وہ سب غلط فہمی ہی ہو نور۔ ورنہ شاید اب میں یہ سب برداشت نہ کر پاؤ۔ کیونکہ تمہیں کھونے کی ہمت میں اپنے اندر مفقود پاتا ہوں۔”
۔************۔
گاڑی کو تھوڑا فاصلے پر روک کر، وہ سامنے بنے اس درمیانی طبقے کے گھر کو دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ تبھی دو عورتیں اسے گھر سے باہر نکلتی نظر آئیں۔ وہ سر گاڑی کی سیٹ سے ٹکائے ان کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ عورتیں اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں، وہ گاڑی سے نکلتا سیدھا گھر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔ وہ ہاتھ سے دروازے کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ گھر میں خاموشی کا راج تھا۔ آگے بڑھتا دائیں جانب بنے کمرے کے پاس سے گزر ہی رہا تھا کہ اسے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ بنا کسی آہٹ کے دروازہ کھول کر دیکھا تو آئینور گھٹنوں پہ سر ٹکائے دبی دبی آواز میں رو رہی تھی۔
کسی کی موجودگی کو محسوس کر کے اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے کردم تھا۔
آئینور کا آنسوں سے تر چہرہ دیکھتے ہی وہ جو بے اختیار ہو کر اس کی طرف قدم بڑھ رہا تھا۔ اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کے تاثرات دیکھ کر قدم خود بخود وہیں رک گئے۔
” کیا یہ مجھے اپنے باپ کی موت کا زمہ دار سمجھ رہی ہے؟ ”
رحیم کے زریعے اسے معلوم ہو گیا تھا، اسلم کو کسی نے زہر دیا ہے۔ مگر اُس کی موت کا زمہ دار اسے ہی سمجھا جا سکتا ہے، یہ اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
“نور میں۔۔۔”
ابھی وہ آگے بول ہی رہا تھا کہ عقب سے آتی آواز پر رک گیا۔ کوئی پیچھے کھڑا اس سے سوال کر رہا تھا۔
” کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ ”
مردانہ آواز پر کردم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رخسار بیگم کے ساتھ ایک نوعمر لڑکے کو کھڑا دیکھ کر چونکا۔ وہ چہرے سے ہی پندرہ سولہ سال کا لگ رہا تھا۔ لیکن سنے والا اس کی آواز سن کر اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا ہے۔ اس کی بھاری آواز سے کسی بھرپور مرد کا ہی گمان ہوتا تھا۔
” تم۔۔۔” رخسار بیگم کو اسے یہاں دیکھ کر حیرانی ہوئی۔
” آپ اس آدمی کو جانتی ہیں؟ ”
” آں !! ہاں عادی وہ۔۔۔” رخسار بیگم کو سمجھ نہ آیا اسے کیا جواب دیں۔
ادھر کردم ان کے عادی کہنے پر چونک اُٹھا تھا۔ اس لڑکے کو غور سے دیکھتے یکدم اسے پچھتاوے نے آن گہرہ تھا۔ آئینور کے ساتھ اپنا کل رات کا رویہ یاد کر کے اسے ندامت محسوس ہوئی۔
” تو اس کا فون آ رہا تھا کل رات۔۔۔ لیکن یہ ہے کون؟ ”
” تم کون ہو؟ ” سوچنے کے ساتھ ہی کردم نے سوال داغا۔
” یہ سوال میرا ہے۔۔۔ تم کون ہو؟ ”
” آاااہ !! بیٹا یہ عدیل ہے۔ نور کا بھائی۔۔۔ اور عادی یہ کردم دا۔۔۔ میرا مطلب یہ کردم ہے۔ نور کا شوہر۔”
بات بگڑتی دیکھ رخسار بیگم نے فوراً تعارف کرایا۔
کردم جہاں حیران سا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہیں عدیل شاکڈ سا کبھی اسے تو کبھی آئینور کو دیکھ رہا تھا۔
” آپی کیا یہ سچ ہے؟ ”
اس نے آئینور کو مخاطب کیا جو ان سب سے بے نیاز بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ وہ بغیر کوئی جواب دیئے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
” آپی۔۔۔ آپی۔۔۔”
عدیل فوراً اس کے پیچھے لپکا۔
” بیٹا تم کھڑے کیوں ہو۔۔۔ آؤ بیٹھو۔”
ان دونوں کے جاتے ہی رخسار بیگم کردم سے مخاطب ہوئیں۔
“نہیں میں بیٹھنے نہیں آیا۔۔۔ اسلم کی موت کا پتا چلا، سن کر افسوس ہوا۔”
اس کی بات پر رخسار بیگم حیران ہوتی اسے دیکھنے لگیں۔ جو پیسوں کی خاطر اُس کی جان لینے جا رہا تھا۔ آج کھڑا اُس کی موت پر اظہارِ افسوس کر رہا تھا۔
ان کے اس طرح دیکھنے پر کردم کو اپنا آپ احمقانہ لگا۔
” بس بیٹا جیسی اللّٰه کی مرضی۔”
رخسار بیگم اپنی حیرت پر قابو پاتی فوراََ بولیں۔
” کچھ معلوم ہوا آپ کو۔۔۔ کس نے زہر دیا؟ ”
” نہیں !! اب اس سے فرق بھی نہیں پڑتا۔ جانے والے کونسا واپس لوٹ آئینگے۔”
” آپ چاہیں تو میں معلوم کروا سکتا ہوں۔ پھر آپ جو چاہیں اسلم کے قاتلوں کو سزا دیں۔”
کردم کی بات پر رخسار بیگم مسکرا دیں۔
” نہیں بیٹا !! ہم انسان کون ہوتے ہیں کسی کو سزا دینے والے۔ یہ اختیار تو صرف اللّٰه کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بہتر سزا تجویز کرے گا، اسلم کے قاتلوں کی۔”
رخسار بیگم کی بات پر وہ خاموش ہوگیا۔
” تم نور کو لینے آئے ہو؟ ”
اس کو خاموش کھڑا دیکھ رخسار بیگم نے پوچھا۔
” وہ میں۔۔۔”
کمرے سے آتی چیخوں کی آواز پر کردم یکدم بولتے بولتے رکا۔ آواز آئینور کی تھی۔
“نکلو۔۔۔ اکیلا چھوڑ دو مجھے۔”
اس کی چیخ و پکار سن کر دونوں جلدی سے دوسرے کمرے کی طرف بڑھے۔
” نور کیا کر رہی ہو۔۔۔ سنبھالو خود کو۔”
اندر آتے ہی رخسار بیگم نے آئینور کو پکڑا، جو عدیل کو دھکے دیتے ہوئے کمرے سے نکال رہی تھی۔
” آپی یہ کیا کر رہی ہیں؟ میں بھائی ہوں آپ کا۔” عدیل بےبسی سے بولا۔
” اس بھائی لفظ کے ساتھ سوتیلا اور ناجائز جیسے الفاظ لگانا مت بھولا کرو۔”
آئینور کی بات پر وہاں موجود سارے نفوس ششدر رہ گئے۔
عدیل آنکھ میں آنسو لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اتنی تکلیف آئینور کے لفظوں نے نہیں دی تھی۔ جتنی تکلیف ایک باہر سے آئے شخص کے سامنے اپنی زات کی تذلیل پر ہوئی تھی۔
رخسار بیگم تاسف سے اسے دیکھتی عدیل کے پیچھے چلی گئیں۔
کردم ساکت کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ آیا کہ واپس چلے جائے یا یہاں رک کر آئینور کو چپ کرئے۔ جو اب زمین پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
۔************۔
” تم یہاں چھت پر منہ لٹکائے بیٹھے ہو اور میں تمہیں نیچے ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔”
رخسار بیگم کہتے ہوئے اس کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔ عدیل نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے۔
” عادی !! تم جانتے ہو نا۔ وہ غصّے کی تیز ہے۔ غصّے میں یہ نہیں دیکھتی کے کیا بول گئی ہے۔”
” مجھے معلوم ہے۔ آپی کی بات کا بُرا نہیں لگا۔” رخسار بیگم کی بات پر عدیل فوراً بولا۔
” تو منہ لٹکائے کیوں بیٹھے ہو۔”
” آپی نے اُس آدمی سے شادی کرلی اور آپ لوگوں نے مجھے بتایا تک نہیں۔” عدیل خفگی سے بولا۔
” تمہیں بتا کر کیا ہو جانا تھا۔۔۔؟ ویسے بھی نور نے اسلم کی جان کی خاطر اس شخص سے شادی کی تھی۔”
” معلوم ہو گیا مجھے آپی سے۔”
” تو پھر پریشانی کیا ہے؟ ”
رخسار بیگم کو اس کے غصّے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔
” ہر بار آپی ہی کیوں تکلیف اُٹھائیں۔ اس سے تو اچھا تھا۔ وہ پاپا کو ہی مر جانے دیتں۔ کم از کم کچھ تو برائی اس دنیا سے ختم ہوتی۔”
“عادی شرم کرو۔ بولنے سے پہلے سوچ لو۔ اپنے مرے ہوئے باپ کے بارے میں بات کر رہے ہو۔” اس کی بات رخسار بیگم کو غصّہ ہی چڑھ گیا۔
آپ مجھے خاموش نہیں کرا سکتیں۔”
وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔ ان کے غصّے کو خاطر میں لائے بغیر بولا۔
“تم دونوں بھائی بہن کا کوئی علاج نہیں۔” رخسار بیگم کہتی واپس نیچے چلی گئیں۔ جانتی تھیں دونوں کو سمجھانا دیوار میں سر مارنے کے مترادف ہے۔
۔************۔
وہ صوفے پر بیٹھا دھیرے دھیرے شراب کے گھونٹ بھر رہا تھا۔ اسلم کے گھر سے وہ کچھ ہی دیر پہلے واپس آیا تھا۔ اپنا وہاں جانے کا فیصلہ ہی احمقانہ ثابت ہوا تھا۔ ابھی بھی وہ بیٹھا اُنہی کے بارے ميں سوچ رہا تھا۔
“عجیب خاندان ہے۔ پہلے وہ اسلم جس کو دیکھ کر لگتا تھا آگے پیچھے کوئی نہیں۔ مگر پھر اس کی بیوی اور بیٹی منظر پر آئیں، اور اب ایک ناجائز بیٹا بھی نکل آیا۔ نہ جانے اور کون کون سے رشتے دار اس کے چھپے بیٹھے ہیں، جو ایک ایک کر کے باہر آئینگے۔”
کردم سوچتا ہوا اُٹھ کر کھڑکی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ گلاس ابھی بھی اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔
“نور کا بھائی وہ بھی سوتیلا۔۔۔ پتا نہیں اس لڑکی سے جڑے اور کونسے راز سامنے آنا باقی ہیں۔ اس کی زات ایک پہیلی سی ہے۔ جس کو ہل کرنا انتہائی مشکل لگتا ہے۔”
کردم بڑبڑاتے ہوئے شراب کے گھونٹ لیتا افق پر نظر آتے ماہتاب کو دیکھنے لگا۔ جس کے نور میں وہ آئینور کو تلاش کر رہا تھا۔
۔************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...