گودام میں داخل ہوتا وہ اس کے سامنے آیا جو رسی میں جکڑے کرسی پر بے سود پڑی تھی۔
کردم اس کے سامنے کرسی رکھتا بیٹھ گیا۔ ہاتھ اُٹھا کر غفار کو اشارہ کیا اس کے اشارہ کرتے ہی غفار نے پانی سے بھری بالٹی اُٹھا کر اس لڑکی پر پھینک دی۔ پانی چہرے پر پڑتے ہی وہ ہوش میں آئی تھی۔
اس نے آس پاس دیکھا گودام میں چند ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے سامان کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس کے سر پہ لگا بلب ادھر سے اُدھر جھول رہا تھا۔
جس میں سامنے بیٹھے کردم کا چہرہ بامشکل ہی نظر آرہا تھا۔ کردم کو اپنے سامنے بیٹھا دیکھ چہرے پر خوف کے سائے لہرائے تھے۔
” تمہاری رہائی کا وقت آگیا۔ چلو اب تمہیں آزاد کر کے باہر کی کھلی ہوا میں سانس لینے کا موقع دیا جائے۔” کردم کہتے ہوئے اُٹھا اور غفار کو دیکھتے ہوئے پھر گویا ہوا۔
” ہماری مہمان کو باحفاظت ان کے گھر چھوڑوا دینا۔” یہ کہہ کر وہ خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا مگر دروازہ عبور کرنے سے پہلے وہ رکا، پلٹا اور ایک دلخراش چیخ نے کمرے میں چھائے سکوت کو توڑ دیا۔
کردم کی پسٹل سے گولی نکی تھی اور اس کے بازو کو چھوتی ہوئی اسے خونم خون کر گئی۔ غفار اس کی رسی کھول چکا تھا۔ وہ بہتی آنکھوں سے کردم کی طرف دیکھتی خون کو مزید بہنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
” آئندہ کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے پاشا ہزار بار سوچے گا کہ کردم سے الجھنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔” وہ حقارت سے کہتا ہوا گودام سے باہر نکل گیا۔ غفار نے آدمیوں سے کہہ کر اس لڑکی کو گاڑی میں ڈلوایا اور پاشا کی جانب روانہ کر دیا۔
۔**********۔
دروازہ کھلا اور گاڑی گھر کے اندر داخل ہوئی تھی۔ غفار نے گاڑی کے رکتے ہی کردم کی جانب کا دروازہ کھولا۔ کردم نے باہر نکلتے ہی اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
سیما خالہ جو کچن سے باہر نکل رہی تھیں۔ کردم کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ ہکا بکا رہ گئیں۔
آج پہلی دفعہ تھا کہ کردم دوپہر میں ہی گھر آگیا تھا۔ ورنہ شام سے پہلے اس کی آمد ممکن نہ تھی اور کبھی تو پوری رات بھی گھر نہ آتا۔
کردم سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے میں داخل ہو کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کی متلاشی نظر اُس چہرے کو ڈھونڈ رہی تھی جو جانتی ہی نہیں تھی کہ کم بختی اس کی آمد کیلئے منتظر کھڑی ہے۔
اُسے کمرے میں موجود نہ پا کر وہ باتھ روم کی طرف بڑھا۔ مگر !! وہ وہاں بھی موجود نہ تھی۔ کردم کو یکدم ہی غصّہ چڑھا۔
” کہاں جا سکتی ہے؟۔۔ کہیں مجھے دھوکا دے کر باپ بیٹی کا بھاگ جانے کا ارادہ تو نہیں؟ ” کردم سوچتا ہوا کمرے میں لگے انٹرکام کی جانب بڑھا۔
” سیما خالہ فوراً میرے کمرے میں آئیں۔” اس کے کہتے ہی سیما خالہ کسی جن کی طرح حاضر ہوئی تھیں۔ کردم نے کبھی ایسے غصّے میں بات نہیں کی تھی اس لیے وہ پریشان ہوتی دوڑی چلی آئیں۔
” کیا ہوا بیٹا؟ ” کردم کو ادھر سے اُدھر ٹہلتے دیکھ انہوں نے پریشانی ہوتے پوچھا۔
” آئینور کہاں ہے؟ ” کردم کے چہرے اور لہجے کی سختی نے انھیں سُن کر دیا۔ آج سے پہلے کردم نے کبھی کسی کے بارے میں یوں نہیں پوچھا تھا۔ بلکہ اس سے پہلے آئی لڑکیاں رات گزرنے کے بعد کب گئیں۔۔۔ کیسے گئیں۔۔۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔
” وہ کچھ سامان لینے اپنے گھر گئی ہے۔” سیما خالہ نے بامشکل تھوک نگلتے ہوئے بتایا۔
” کس کے ساتھ گئی ہے؟ ” سختی ہنوز قائم تھی۔
” جی !! پتا نہیں۔ شاید ٹیکسی میں۔۔۔ گھر سے تو کوئی گاڑی لے کر نہیں گئی۔” سیما خالہ ڈرتے ڈرتے بتایا۔
” رحیم کو بولیں فوراً اسلم کے گھر جا کر اسے واپس لے کر آئے۔” کردم غصّہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔
سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
۔************۔
رخسار بیگم کمرے میں آئیں تو آئینور اپنا سامان سے بھرا بیگ جو وہ کل ہی کراچی سے لائی تھی کھولے بیٹھی تھی۔ سامان اب تک بیگ میں ہی تھا۔ ایک ہی دن میں اتنا کچھ ہوگیا تھا کہ سامان تک بیگ سے نکالنے کا وقت نہ ملا اور اب تو یہ بیگ وہ اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔ جس میں چند کپڑے اور کتابوں کے کچھ نہیں تھا۔
رخسار بیگم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا وہ لونگ ناک میں پہن چکی تھی۔ رخسار بیگم مسکراتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
وہ جانتی تھیں۔۔۔ اسے خود کو سنبھالنا آتا تھا۔ وہ جلد ہی اپنے دکھ درد کو چھپا لیتی تھی ابھی بھی بےتاثر چہرے سے اپنے سامان کو دیکھ رہی تھی۔
” اہمم !! تو اپنے شوہر سے پوچھ کر آئی ہو یا ایسے ہی آگئیں؟ ” رخسار بیگم نے گلا کھنکھارتے ہوئے پوچھا۔
آئینور ان کی بات کو نظر انداز کرتی الماری سے برقعہ نکالنے لگی۔
” میں نے کچھ پوچھا ہے۔ اپنے” شوہر ” کی اجازت سے آئی ہو؟ ” اس بار رخسار بیگم نے شوہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اور اس پر ہی آئینور کی ” بس” ہو چکی تھی۔ وہ ایکدم پھٹ پڑی۔
” کیا شوہر شوہر لگا رکھا ہے؟۔۔۔ نہیں ہے وہ میرا شوہر سن لیا آپ نے۔۔۔ نہیں ہے وہ میرا شوہر۔” آئینور نے چلاتے ہوئے کہا۔ چلانے کے باعث اس کا تنفس پھولنے لگا تھا۔ وہ گہرے گہرے سانس لیتی خود کو پُرسکون کرنے لگی۔
اچھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کل رات نکاح کر کے اُس کے ساتھ رخصت ہوئی تھیں۔ رخسار بیگم نے جتانے والے انداز میں کہا۔
” میرے نزدیک اس نکاح کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ مجھے بس اس کی ہوس کو پورا کرنا ہے اور کچھ نہیں۔” آئینور نے تلخی سے کہا۔
” واہ !! ابھی تو تم مجھے صرف ابرو بنوانے پر کبیرہ، صغیرہ گناہ کا فرق سمجھا رہی تھیں۔ اور خود کیا کر رہی ہو۔۔۔ اللّٰه کے بنائے ہوئے رشتے کی توہین۔” رخسار بیگم کی بات پہ آئینور نے اچنبھے سے ان کی طرف دیکھا۔
” توہین اور وہ بھی میں نے؟۔۔۔ آپ اچھے سے جانتی ہیں ماما۔۔۔ یہ نکاح کیوں ہوا ہے۔” آئینور کو رخسار بیگم کی بات پر غصّہ آنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی آواز میں تیزی در آئی۔
” ہاں میں اچھے سے جانتی ہوں کہ کیوں ہوا ہے لیکن۔۔۔ نکاح۔۔نکاح ہوتا ہے۔ جن بھی حالت میں ہوا ہو۔ کائنات میں بنے والا یہ پہلا رشتہ ہے جس کو اللّٰه نے اپنے خزانوں میں سے ایک ایک خزانہ کہا ہے اور تم۔۔تم کیا کر رہی ہو؟۔۔۔ اس رشتے کی توہین۔ کردم کی میں بات نہیں کرتی مگر تم تو تھوڑا بہت دین کو سمجھتی ہو نا؟ ”
رخسار بیگم اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولیں۔ آئینور بس خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی تو وہ پھر گویا ہوئیں۔
” جب تک اس کے نکاح میں ہو ایک بیوی ہونے کے سارے فرض ادا کرو پھر بھلے کردم تمہیں طلاق دے تو الگ ہوجانا مگر جب تک اس کے نکاح میں ہو اس رشتے کی عزت کرو تاکہ اللّٰه کے سامنے سرخرو ہو سکو۔” رخسار بیگم جانتی تھیں اسے کیسے سمجھنا ہے اس لیے اپنی بات اسی کے انداز میں سجھائی۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے وہ سمجھا رہی تھی۔
آئینور خفگی سے انھیں دیکھے جا رہی تھی کہ تبھی باہر دروازے پر لگی بیل بجکی آواز آئی۔
” میں دیکھتی ہوں۔” رخسار بیگم کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ آئینور بس انھیں جاتے دیکھتی رہی پھر سر جھٹکتی برقعہ پہننے لگی۔ اس کا ارادہ شام تک رکنے کا تھا مگر رخسار بیگم کی باتوں نے اسے الجھا کر رکھ دیا تھا۔ ابھی وہ برقعہ پہن ہی رہی تھی جب رخسار بیگم واپس کمرے میں بھاگتی ہوئی آئیں۔
” نور !! کردم نے اپنا آدمی تمہیں لینے بھیجا ہے۔” رخسار بیگم کے کہنے پر وہ حیران رہ گئی کیونکہ سیما خالہ اسے بتا چکی تھیں کہ وہ شام میں ہی گھر آتا ہے اور اب اچانک۔۔ حیران ہونا بنتا تھا۔
” ٹھیک ہے !! میں چلتی ہوں۔” آئینور ان کے گلے سے لگ کر بولی پھر ان سے الگ ہوتی اپنے قدم کمرے سے باہر کی جانب بڑھائے ہی تھے کہ ایک بار بھر رخسار بیگم کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
” مجھے یقین ہے تم میری بات اچھی طرح سمجھ گئی ہونگی کیونکہ۔۔۔ تم اس عورت کی بیٹی ہو جس نے خو ایک شرابی جواری اور زانی سے محبت کی۔”
الفاظ تھے یا نشتر جو رخسار بیگم نے آئینور کے دل پہ پیوست کیے تھے۔ وہ ضبط سے مٹھیاں بھیچے باہر نکل گئی۔ رخسار بیگم بس افسوس سے اسے جاتے دیکھتی رہیں۔
۔************۔
” کردم دادا تم نے اچھا نہیں کیا تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔” پاشا غصّے سے بھپرے ہوئے تھا۔ سامنے بیٹھی بھانجی کی حالت نے دل چیر کر رکھ دیا تھا۔ جو آنسو بہاتی بازو میں اُٹھتی تکلیف کو برداشت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
پاشا اس کے سامنے دوزانو بیٹھتے ہوئے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرلیا۔
” سونیا !! زیادہ درد ہو رہا ہے؟” پاشا نے نرمی سے پوچھا۔ اس نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
” تم فکر نہیں کرو !! میں اپنی گڑیا کی یہ حالت کرنے والے کو چھوڑوں گا نہیں۔ ایسی سزا دونگا کہ روح تک کانپ جائے گی اس کردم دادا کی۔” پاشا ہنکار بھرتا ہوا بولا۔ سونیا آنسو بہاتی پاشا کو دیکھنے لگی۔
۔***********۔
وہ برقعہ ہاتھ سے اُٹھائے کسی ریاست کی شہزادی کی طرح سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ یہ جانے بغیر اوپر کھڑے کردم کی خونخوار نظریں اس پہ ہی جمی ہیں۔ اس کو اوپر آتا دیکھ وہ کمرے میں چلا گیا۔
آئینور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی اسے کردم کھڑا نظر آگیا۔ اسے دیکھتے ہی رخسار بیگم کی باتیں آئینور کے دماغ میں گھومنے لگیں۔ وہ سر جھٹکتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ رہی تھی جب کردم نے بازو سے پکڑ کر اسے صوفے پر پٹخ دیا۔
” تم کس سے پوچھ کر باہر گئی تھیں۔ کان کھول کر سن لو آئندہ اگر بغیر اجازت ایک قدم بھی باہر نکالا تو تم سمیت تمہارے گھروالوں کو بھی نہیں بخشوں گا۔ سمجھی؟ ”
نقاب سے جھانکتی آنکھیں بےتاثر تھیں اور لب خاموش۔
کردم غصّے سے اسے گھورتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
آئینور خالی خالی نظروں سے بند دروازے کو دیکھنے لگی۔ اس نے کردم کی بات سنی ہی نہیں تھی۔ وہ تو ابھی تک رخسار بیگم کی باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔ جن کی باتوں نے اس کی دُکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا تھا۔
۔************۔
” آپ نے تو کہا تھا یہ جناب شام میں گھر آتے ہیں۔ تو آج کیا غروبِ آفتاب دوپہر میں ہی ہو گیا جو جلدی تشریف لے آئے؟ ” آئینور برقعہ اُتار کر سیدھا کچن میں آئی جہاں سیما خالہ کھانے بنانے میں لگی تھیں۔ کمر پر ہاتھ رکھے وہ انھیں گھورتے ہوئے گویا ہوئی۔
” مجھے تو لگ رہا ہے آج سورج ہی مغرب سے نکلا ہے کیونکہ آج تک جو نہیں ہوا وہ تمہارے آتے ہی ہونے لگا ہے۔
اے لڑکی !! سیدھے سیدھے بتا کوئی کالا جادو تو نہیں جانتی تو؟ ” سیما خالہ مشکوک نظروں سے اسے گھورتی ہوئی بولیں۔
” کیا بول رہی ہیں؟ کیا نہیں ہوا اب تک اور یہ جلدی کیوں آگئے؟ ” آئینور نے ناسمجھی سے سیما خالہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” باخدا !! میں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ کردم مجھ پر غصّہ کرے مگر آج تمہاری وجہ سے وہ بھی ہوگیا۔ یہ ہی نہیں آج سے پہلے کردم کبھی اتنی جلدی گھر نہیں آیا وہ شام کو آتا اور رات میں پھر نکل جاتا لیکن آج دوپہر میں ہی آ گیا اور تو اور آج سے پہلے اس نے کبھی کسی لڑکی کے بارے میں مجھے یوں ہدایت نہیں دی۔
ایک تم ہی ہو جس کے آتے ہی کایا پلٹ گئی۔ سچ سچ بتا کیا جادو کیا ہے؟ ” سیما خالہ واقعی آئینور کو لے کر مشکوک ہوگئی تھیں۔
” یہ سب اس لیے کہ باقی لڑکیوں کے ساتھ ان کا کوئی مالی لین دین نہیں پر مجھے یہاں پیسوں کے متبادل لایا گیا ہے تو جب تک یہ اپنے پیسے مجھ سے وصول نہیں کرلیتے تب تک شاید میری جان نہیں چھوڑنے والے۔” آئینور نے جل کر کہا۔
” ہاں !! شاید یہ ہی وجہ ہو۔” سیما خالہ سمجھتے ہوئے بولیں۔
” شاید نہیں پکا یہ ہی وجہ ہے۔ دیکھ لے گا آپ۔” آئینور کہتی کچن سے باہر نکل گئی۔ سیما خالہ بھی اپنے کام میں لگ گئیں۔
۔************۔
” دیکھا میں نے کہا تھا نہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ وہ لڑکی اپنے گھر چلی گئی تھی۔ لیکن کردم دادا نے گاڑی بھیج کر واپس بلا لیا۔” رحمت لان میں لگی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” یہ ہی نہیں آج تو دوپہر میں ہی گھر آگئے ورنہ شام سے پہلے واپسی ناممکن ہی ہوتی تھی ہماری۔” فاروق نے بھی لقمہ دیا۔
” صحیح کہہ رہے ہو اب تو ضرور غفار سے اگلوانا پڑے گا۔ آخر معاملہ ہے کیا۔” رحیم نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” بتا ہی نہ دے۔” رحمت نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
” میں بھی اگلواکے ہی دم لونگا۔” رحیم کہتا ہوا اُٹھا اور غفار کی جانب بڑھ گیا۔
” ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔چار اور یہ پانچ۔” رحمت ہاتھ میں پہنی گھڑی میں ٹائم دیکھتے بول رہا تھا۔ کہ جبھی اس کے پانچ بولتے ہی رحیم گال پر ہاتھ رکھے واپس آیا۔ گال پر ہاتھ کا نشان چھپا تھا۔ جو غفار کا عطا کردہ تھا۔
وہ دونوں اپنی ہنسی دباتے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور وہ غصّے سے کھولتا کرسی کو لات مارتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ مگر اپنے پیچھے ان کے اُبلتے قہقہوں کی آواز باخوبی سنی تھی۔
۔************۔
شام کے سائے پھیل چکے تھے۔ وہ نماز ادا کر کے کمرے میں آئی تو کردم کو سوتا پایا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی جو سات بجا رہی تھی۔ آئینور نے آواز دے کر کردم کو اُٹھانا چاہا مگر وہ نہ اُٹھا۔ وہ بیڈ کی طرف بڑھی اور ہاتھ سے اس کے شانے کو زور سے ہلایا۔
کردم نے آنکھیں کھولیں تو سامنے بےتاثر چہرہ لیے آئینور کھڑی تھی۔ کردم نے نظر پھیر کر گھڑی کی طرف دیکھا پھر آئینور کو۔
یہ پہلی دفعہ تھا کسی نے اسے یوں اُٹھایا تھا۔ ورنہ سیما خالہ ہی اسے دروازہ بجا کر اُٹھایا کرتی تھیں۔ وہ خاموشی سے اُٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔
کردم کے جاتے ہی آئینور نے اس کے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھے اور خود بھی کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ باتھ روم سے باہر نکلا تو اپنے کپڑے بیڈ پر دیکھ حیران ہوتا ڈریسنگ روم میں چلا گیا تھا۔ کپڑے بدلنے کے بعد واپس آیا کہ تبھی آئینور ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوتی دکھائی دی۔ صوفے کے سامنے رکھی ٹیبل پہ ٹرے کو رکھ کر وہ واپس جا ہی رہی تھی جب کردم کی آواز پر رک گئی۔
” یہ سب کرنے کی وجہ؟۔۔۔ کہیں تم نے اس نکاح کو سر پر سوار تو نہیں کر لیا؟۔۔۔ اگر تم یہ سوچ رہی ہو یہ سب کر کے اس گھر میں اور میرے دل میں جگہ بنالو گی تو یہ خیال دماغ سے باہر نکال پھینکو کیونکہ میں جلد ہی تمہیں فارغ کر دونگا۔”
کردم کی بات پر آئینور پلٹی۔ تیکھی نظریں اس پر جمائے، چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے وہ گویا ہوئی۔
“میں یہ سب اس نکاح کے احترام میں کر رہی ہوں۔ جو اللّٰه کا بنایا ہوا پاکیزہ رشتہ ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں ایک بدکردار آدمی کے دل میں اور اس حرام کی کمائی کے گھر میں جگہ بنانے کیلئے یہ کر رہی ہوں تو۔۔۔ یہ خیال اپنے دماغ سے باہر نکال پھینکے۔ کیونکہ میں جلد ہی یہاں سے فارغ ہونا چاہتی ہوں۔” اسی کے انداز میں جتاتے ہوئے باور کرایا کہ اس کے نزدیک اس کی کیا حیثیت ہے۔
اس کی تیز زبان کردم کو غصّے سے آگ بگولا کر گئی۔ کردم غصّے سے لب بھینچے اس کی جانب بڑھا بازوں سے تھام کر اپنے مقابل کیا۔ آئینور چہرہ اُٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔
” سمجھتی کیا ہو خود کو بہت پارسا ہو؟ میں چاہتا تو کل تم اور تمہارا باپ یہاں سے صحیح سلامت واپس نہیں جاسکتے تھے۔ ساری پارسائی کل ہی نکال دیتا لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
مگر !! اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ کر نہیں سکتا اب بھی چاہوں تو تمہارے باپ کو اس کی آخری آرام گاہ کا سفر کرا سکتا ہوں۔ یہ بات جتنی جلدی دماغ میں بیٹھالو اتنا اچھا ہے۔” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
” عزت، زلت، موت، زندگی خالق کے اختیار میں ہے خلق کے نہیں۔” وہ بےخوفی سے کہہ کر خود کو چھڑاتی باہر نکل گئی۔ کردم مٹھیاں بھینچے اس کو جاتے دیکھتا رہا۔ وہ چاہ کر بھی اس لڑکی کو نقصان نہیں پہنچا پا رہا تھا۔ نہ جانے کیسی بےخوفی تھی ان آنکھوں میں۔ وہ سر جھٹکتا صوفے پر بیٹھ گیا۔
۔*************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...