چھت پہ جب بھی وہ ٹہلتا ہو گا
چاند کا دل بھی مچلتا ہو گا
عشق میں کسی کے ڈوبا ہو گا
اب وہ سورج بھی پگھلتا ہو گا
درِ دل پر ہے جو دستک دیتا
کوئی تھک ہار کے لوٹا ہو گا
عشق کو اب وہ خدا مانتا ہے
اس نے پتھر کو بھی پوجا ہو گا
گال چھونے کی تمنا لے کر
گھر سے آنسو ہی نکلتا ہو گا
تیری الفت میں ہے ، جو مارا گیا
کسی نے لاڈ سے پالا ہو گا
پھر کسی یاد کے بستر پہ ملک
اب کوئی خواب سسکتا ہو گا
__
*************
زندگی کی حقیقت جو مل گیا وہ بہترین ہے۔
جو نہ مل سکا اس میں بہتری تھی۔
یہ منظر کراچی شہر کے ایک فائیو سٹار ریسٹورنٹ کا تھا
تو تم ہو نتاشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے عجیب انداز میں سامنے والی پر تبصرہ کیا تھا اس نے
ہاں میں ہوں تو ۔۔۔ اس کے اس انداز میں جواب دینا سامنے بیٹھی لڑکی کو کچھ خاص پسّند نہ آیا
اپنی زندگی میں تو اور اگر نکل دو گی تو بہت آگے جاؤ گی نہیں تو سیدھی اوپر جاؤگی ۔۔۔۔۔ سامنے والے کا منہ بند کرنا ایسے اچھے سے آتا تھا ۔۔۔
مجھے جانتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ سامنے بیٹھی لڑکی نے اپنے بل جھٹکے تھے
آپ کو کیسے نہیں جانوں گی شاہنواز خانزادہ کی بیٹی ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نتاشہ کرسی سے ٹیک لگتی ہوئی بولی
سنا ہے خانزادہ پر مارتی ہو تم اپنے گلاسس اتار کر وہ ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔مگر آپ کو کیسے پتا ۔۔۔۔ نتاشہ حیرانگی سے بولی
مجھے سے سوال نہیں ۔۔۔۔۔۔ انداز میں وارننگ صاف تھی
کس ہت تک جا سکتی ہو اُسے پانے کے لیے ایک اور سوال حاضر تھا
میں نے ہر حد پار کی ہے مگر وہ کسی کو منہ نہیں لگاتا ابھی اسکے لیے میں نے خود خوشی کرنے کی کوشش کی تھی اور کیا رہ گیا ہے کرنے کو ۔۔۔۔۔ سامنے والی بینا اسکی طرف دیکھے بولے جا رہی تھی
شٹ اپ فضول بات نہیں جو پوچھا گیا ہے بس اتنا جواب دو ۔۔۔۔ اسکی فضول کی بک بک اس سے برداشت نہ ہوئی
ہر حد تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے جو میں کہوں بس اتنا کرنا خانزادہ تمہارا ۔۔۔ وہ اپنا چشمہ پہنتی ہوئی بولی
مگر آپ کو کیا ملے گا اس سب میں ۔۔۔۔ نتاشہ الہجتی ہوئی بولی
تمہیں خانزادہ چاہیے نہ بس وہی کرو جو میں کہ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کیا فائدہ ہوگا کیا ملیگا اس سے تمہارا کچھ نہ جاۓ ۔۔۔۔۔۔
اگر وہ پھر بھی نہ ملا ۔۔۔۔۔۔ نتاشہ اسکی طرف دیکھتی ہوئی بولی
تو سمجھ جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسکی طرف دیکھ کے ہستی ہوئی بولی
کیا ۔۔۔۔
وہ تمہارے لیے نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسکو دیکھتی کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم نے کچھ غلط کیا تو وہ ہمیں نہیں چھوڑے گا ۔۔نتاشہ اپنا ڈر ظاہر کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
میرا نام جیا خانزادہ ہے مجھے تو نہیں مگر تمہیں ضرور وہ جان سے مار دیگا جیا اسکی طرف عجیب انداز میں مسکرا کر دیکھتی سوچتی باہر نکل گی بینا اس کی بات کا جواب دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوقوف میری طرف سے تم دوزخ میں جاؤ مجھے کیا مجھے تو صرف اپنے کام سے مطلب ہے ۔۔۔۔۔ جیا سوچتی اپنی گاڑی تک آئی
چلو ڈرائیور جیا گاڑی میں بیٹھتی ڈرائیور کو حکم دیتی ہوئی بولی
دنیا جاۓ بہاڑ میں
میں مست ہوں اپنے آپ میں ۔
****************************
میں نے کتابوں میں پڑھا ہے
شہزادیاں شوق سے چائے پیتی ہیں۔
وہ جیسے ہی اپنے کیبن میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکی نظر نے جیسے دیکھا وہ اسکا خون جلانے کے لیے کافی تھا ۔۔۔۔
تم میرے کیبن میں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا
آو مسٹر خانزادہ آ گے آپ میٹنگ سے وہ جو اسکی چیر پر بیٹھی سکون سے چاۓ پی رہی تھی سٹائل سے بولی
میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے ۔۔۔۔۔ وہ چیختے ہوئے بولا
ہاہاہاہا آرام سے بہری تھوڑی ہوں وہ ہستی ہوئی ٹیک لگاتی ہوئی بولی ۔۔۔۔۔
نکلو یہاں سے جیا خانزادہ ۔۔۔۔۔ وہ انگلی سے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
کزن ۔۔۔۔۔۔ نہیں یار کزن کہونگی تو تمہیں عزت دینی پڑیگی اور تمہیں عزت میری جوتی بھی نہیں دیگی تو خانزادہ ۔حمدان شہیر خانزادہ میں یہاں اس وجہ سے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ انگلیاں آپس میں ملتی روکی
جو تم چار دن پھلے کارنامہ کرکے گے تھے اس وجہ سے میں فری تھی تو سوچا کیوں نہ دشمن کے آفس میں بیٹھا جاۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چیر کو ہلکا سہ گھوماتی ہوئی بولی
تم اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ میں تمہیں پھر کچھ نہیں کہونگا ۔۔۔۔۔۔۔ حمدان صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا
میں نے کیا کیا تھا جو تم نے مجھے یونیورسٹی سے ایک ہفتے کے لئے سسپینڈ کروا دیا ہاں اس دو ٹکے کے پروفیسر کے ساتھ مل کر تم نے مجھ پر الزام لگایا کی میں نے اس سے بدتمیزی کی ہے جس کی وجہ سے ڈیڈ نے مجھے ڈانٹا جیا زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی
پانچ دن پہلے جو تم نے میری فائل خراب کردی جان بوجھ کر یاد ہو تو وہ بھی پھر خانزادہ تھا حمدان خانزادہ پیچھے کیسے رہتا ۔۔۔
ہاہاہا خانزادہ اب تم اپنی عزت کا جنازہ نکلتے ہوئے دیکھنا اور تمہیں پتا ہے تمہیں وارننگ دینے کے بعد ہی میں کچھ کرتی ہوں بڑا ناز ہے نہ تمہیں اپنے کردار پے تو ثابت کر کے دکھانا اس ٹائم وہ واپس چیر پر بیٹھی ہوئی بولی
So just wait and watch khanzada
اگر تم نے کچھ الٹا سیدھا کیا تو یاد رکھنا جیا تمہیں تڑپا تڑپا کے مارونگا میں تم اپنے حشر کے لیے تیار ہو جانا پھر کچھ کرنے سے پہلے وہ اٹھ کر ٹیبل کے پاس آتا ہوا بولا
کل صبح تمہارا سرپرائز تمہیں مل جائے گا روک سکتے ہو تو روک کہ دیکھنا مجھے گھر والے کی نظر میں گرانے کی کوشش تو تمہاری ناکام ہی گئی مگر اپنی عزت کو بچا کر دکھاؤ اور اتنا تو کرنا میرا حق بنتا ہے آخر ہمدان خانزادہ کی کزن جو ٹھری۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مغرور لہجے میں کہتی ہو اٹھ کر اس تک آئی ۔۔۔
تمہیں پتا ہے نہ میں تم سے کتنی شدید نفرت کرتی ہو تمہیں گرانے کے لیے میں ہر حد تک جاؤگی یہ وعدہ ہے میرا تم سے جیا اسکے کولر ٹھیک کرتے ہوئے بولی
یاد رکھنا جیا خانزادہ میں تم سے زیادہ شدید نفرت کرتا ہوں تم سے اپنا حشر یاد رکھنا پھر جو میں کروں گا وہ اس دفعہ تم بھی برداشت نہیں کر پاؤ گی تو سوچ سمجھ کے حمدان وارننگ دیتا ہوا بولا ۔۔۔
I walk You come home to drink coffee , because if I have lost your life till morning, then you will not get time.
)خیر میں چلتی ہوں تم کافی پی کے گھرانہ کیونکہ صبح تک تمہارا جینا حرام کر چکی ہوگی تو تمہیں ٹائم نہیں ملےگا پینے کا)
بائے خانزادہ جیا اپنا موبائل اٹھا کر آفس سے باہر نکل گی ۔۔
تم بچ کے دکھاؤ حمدان خانزادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لفظ اور لہجے میں جیسے نفرت تھی موڑ کر آفس کی بلڈنگ دیکھتی اپنی کار کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔
محبت صرف خود سے کرنی چاہیے
نفرت کرنے کے لیے سارا زمانہ پڑھا ہے
*************************
شہیر خانزادہ اور شاہنواز خانزادہ دو بھائی اور ایک بہن نمرہ تھے اور ان دونوں کی شادی دونوں بہنیں خنسا اور خدیجہ سے ہوئی تھی
دونوں بھائیوں نے بہت محنت کرکے خانزادہ امپایر کھڑا کیا تھا دونوں کی کمپنی کا شمار پاکستان کی ٹاپ کمپنی میں سے ایک تھا ۔۔۔
شہیر خان اور خنسا کی دو اولاد تھی ایک بیٹا حمدان خانزادہ جو اپنے چاچو اور بابا کے ساتھ آفس سمبھلتا تھا
پر۔ ایک بیٹی دعا
اُکھڑ مذاج کا مگر کردار کا مضبوط وہ خوبرو مرد پانچ فٹ ساتھ انچ قد گورا رنگ ہیزل آنکھیں مغرور کھڑی ناک ۔۔۔۔۔۔۔ برانڈیڈ چیزیں یوز کرنے والا
صرف ایک چیز ایسے نہ قابلے برداشت تھی اور وہ تھی جیا خانزادہ جس کو دیکھ کر اسکا پارہ ہائی ہو جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی ایک دورسرے سے کبھی نہ بنی اور ان سب میں دعا پستی تھی
دعا جو جیا کی ہم عمر اور بیسٹ فرینڈ تھی عمر میں حمدان سے پانچ سال چھوٹی تھی اور حمدان کی جان تھی
شاہنواز خانزادہ اور خدیجہ کی بھی دو اولاد بڑا بیٹا زمان ایک بیٹی جیا خانزادہ تھا
زمان خانزادہ کو پیدا ہوتے ہی شاہنواز نے اپنی بہن کی گود میں ڈال دیا تھا کیوں کی وہ بے اولاد تھیں
زمان ۔حمدان سے دس مہینے چھوٹا تھا
گھر میں بڑوں کے علاوہ کسی کو یہ بات معلوم نہ تھی کے زمان ملک نہیں بلکے زمان خانزادہ ہے
زمان پیرس میں نمرہ ملک کے ساتھ رہتا تھا نمرہ ملک کے شوہر کا چھ سال پھلے انتقال ہوگیا تھا تب سے زمان انکا بزنس سمبھال رہا تھا
جیا خانزادہ
پانچ فٹ قد گورا پنک کلر نین نقش حسین چہرا سٹائل میں کوئی ثانی نہیں برانڈ خود بولتا تھا اسکا سب کو اپنی اوقات میں رکھنے والی اپنے فیملی سے محبت کرنے والی دعا پر جان دینے والی صرف ایک شخص سے نفرت تھی حمدان خانزادہ سے
بچپن سے اسکے معملے میں حمدان کا بولنا ایسے نہ گوار گزرتا ۔۔۔تھا جب وہ چیڑتی تو حمدان اور اسے جلاتا ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے ہی یہ بڑے ہوئے تھے
اس لیے دونوں ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے
*******************************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...