رضوانہ اپنا سر ڈوپٹے سے باندھے ہاۓ ہاۓ کرتی ہوئیں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔۔
فرید صاحب شام کہ وقت سٹور سے کچھ دیر کو آرام کرنے کہ لئیے گھر آۓ تھے۔۔
تبھی رضوانہ کی دُہائیاں شروع ہوگئیں۔۔
ہاۓ میرے اللہ کیا ناکارہ اولاد دی ہے ایسی اولاد سے تو اچھا تھا تو مجھے بے اولاد ہی رکھتا۔۔
اہمممممم فرید صاحب نے اُنہیں احساس دلایا کہ یہ بات کافی غلط ہے پر اگلے میں احساس تھا ہی کب۔۔ وہ بے بسی سے اُنہیں گھورتے چاۓ کا کپ اُٹھاۓ بیڈ پر اُنکے برابر میں بیٹھ گۓ۔۔۔
آۓ ہاۓ دیکھو تو میری ہی بیٹی نے اُس کل کی لڑکی نے سب کے سامنے مجھے اتنا بے عزت کر ڈالا۔۔کتنے آرام سے اُس نے مجھے میری ہی ماں کہ گھر سے نکل جانے کو کہہ دیا۔۔
ہاۓ میرے خُدا یہ وقت بھی دیکھانا تھا مجھ بیچاری کو۔۔۔بیچاری کا لفظ سُنتے ہی فرید صاحب کو چاۓ پیتے ہوۓ اچھو لگ گیا تھا۔۔تبھی رضوانہ نے اُنھیں ناگوار نظروں سے گھورا۔۔۔
تم سُن رہے ہو نہ فرید میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔
ہاں۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔سُن رہا ہوں تم بولتی جاو۔۔۔۔ہیںںںں۔۔۔۔تم کہنا کیا چاہتے ہو کہ میں ہر وقت بولتی رہتی ہوں ارے پاگل سمجھا ہوا ہے کیا؟؟
نہیں نہیں میرا مطلب تھا تم بولو میں سُن رہا ہوں۔۔
میں مظلوم تو ہر طرف سے ہی ماری گئ۔۔نا اولاد کام کی ملی اور نہ ہی یہ شخص جس کہ ساتھ آدھی زندگی بیتا دی۔۔۔
ہک ہاااااا۔۔۔۔۔۔
ایک بھائ تھا ماں کہ مرنے کہ بعد وہ بھی اپنا نا رہا فوراً ہی بیوی کہ پلو سے جا بندھا۔۔۔ ہاۓ میں کس کس بات کو رووں میرے مالک۔۔
ارے تم کہاں جا رہے ہو؟؟
سٹور پر جا رہا ہوں بہت کام ہے تمھارے یہ مناظریں اور غزلیں رات میں آکر سُن لونگا ابھی میں چلتا ہوں۔۔۔ پیروں میں جوتے اڑستے وہ یہ جا وہ جا ہوۓ۔۔
پر رضوانہ نے اُنکی شان میں قصیدے پڑھنا بند نہیں کئیے تھے۔۔۔۔
************
عادل اور مریم جب سے گھر آۓ تھے تب سے اُنکا کمرہ بند تھا۔۔۔ اور ریحانہ بیگم عادل کو اتنا غصے میں دیکھ کر بہت پریشان تھیں۔
تبھی اُنہوں نے ساجد کو فون لگایا۔۔
ہیلو۔۔
ساجد۔۔۔
کیا ہوا ریحانہ تم اتنی پریشان کیوں ہو سب خیر تو ہے نا۔
کچھ بھی خیر نہیں ہے ساجد وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔مریم۔۔
کیا کر دیا اب اُس آفت نے(رضوانہ سے کی جانے والی بدتمیزی پر وہ مریم سے کافی نالاں تھے)۔۔۔
ساجد وہ جب سے آئ ہے تب سے آج ہی کہیں باہر گئ تھی پر گھنٹے بعد ہی عادل اُسے کھینچتا ہوا گھر لے آیا ۔۔
میرے پوچھنے پر بھی کچھ نہیں بتایا اور تب سے اب تک کمرہ بند ہے دونوں ہی اندر ہیں اور کوئ آواز بھی نہیں آرہئ اُنکی ۔۔مجھے تو اب ہول اُٹھ رہے ہیں۔۔۔
تم پریشان نہ ہو۔۔ عادل تھوڑا جذباتی ہے پر اپنے معاملات حل کرنا جانتا ہے تم فکر مت کرو وہ سب سنبھال لیگا۔۔
اچھا میں فون رکھتا ہوں۔۔۔ریحانہ اب چُپ چاپ بیٹھ کر اُنکا کمرے سے نکلنے کا انتظار کرنے لگیں۔۔۔۔۔
**************
مریم تب سے اب تک ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہوئ تھئ۔۔ باتھروم سے مسلسل پانی گرنے کی آواز آرہی تھی عادل تب سے باتھ روم میں ہی تھا۔۔۔
اور باہر مریم کو اُسکا ضمیر اپنی عدالت میں گھیرے ہوۓ تھا۔۔۔
کیا میں غلطی پر ہوں؟؟؟
کیا ساری غلطی صرف میری ہی ہے؟؟؟
پر ہر انسان اپنی خوشی چاہتا ہے اگر میں نے بھی اپنی خوشی چاہی تو اس میں کیا غلط ہے؟؟؟تبھی اُسے سدرہ کے کہے الفاظ یاد آۓ۔۔
(دو دن پہلے)۔۔۔۔۔
پر یہ سب غلط ہے آپی جو کچھ آپ چاہ رہی ہو۔۔۔۔اُس سب کہ بعد آپ کہ حصے میں کچھ آۓ یا نہیں پر آپکے دامن میں داغ ضرور بھر جائیں گے۔۔۔۔
اوہ بسسسسسس۔۔۔
بہت ہوا مجھے سمجھانا بند کرو۔۔جب میرے دل کو روندتے ہوۓ کسی کو میرا خیال نہیں آیا تو میں کیوں ان سب کی نام نہاد عزتیں سنبھالتی پھروں کیوں؟؟؟
میں بھی اب صرف اپنی خوشی دیکھونگی باقی سب جائیں بھاڑ میں۔۔۔
آپی آپ ایسی تو کبھی نہیں تھیں سدرہ نے افسوس سے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
ہاں نہیں تھی میں ایسی پر ان سب نے مل کر مجھے ایسا بنا دیا ہے۔۔مریم نے صوفے پر گرنے کہ سے انداز میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔
آپی بس کردو خود سے اور سب سے جنگ کرنا جو کچھ ہوگیا وہ سب قبول کیوں نہیں کر لیتی۔۔
تبھی باتھ روم کا دروازہ کھلا اور عادل باہر آیا۔۔(اور مریم اپنے خیالات سے چونکتی سیدھی ہو بیٹھی)وہ اپنی سگریٹ کی ڈبیا اُٹھاتا بالکنی میں جا کر کھڑا ہوگیا تھا
۔۔۔تبھی مریم نے ایک تفصیلی نظر عادل پر ڈالی۔۔۔۔
چھ فٹ سے نکلتا قد۔۔۔کالے گھنے بال جو گیلے ہونے کہ باعث بےترتیبی سے ماتھے پر پڑے ہوۓ تھے۔۔کالی آنکھیں جو فی الوقت سُرخی جھلکا رہی تھیں۔۔۔۔سفید ٹی شرٹ سے جھلکتے کسرتی بازو۔۔
ابھی وہ مزید اُس پر غور کرتی کہ تبھی عادل اُسکی طرف بڑھا۔۔اور اُسی کہ ساتھ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔۔
تبھی مریم نے بھی سر اُٹھاۓ حیرت سے اُسے دیکھا۔۔
ایسے مت دیکھو مریم یہ نہ ہو میں اپنا ارادہ بدل لوں۔۔ مریم نے پھر سے اپنا سر جھکا لیا۔۔
اب عادل مریم کہ جھکے ہوۓ سر کو دیکھتا ہو کہنے لگا۔۔
میں نے آج تک کبھی بھی کوئ بھی وہ چیز کسی کو چھونے تک نہیں دی جو ایک بار بھی میری ملکیت میں آئ۔۔پر افسوس کہ آج اپنی بیوی ہی کسی اور کو سونپنی پڑ رہی ہے۔۔۔مریم نے حیرت سے سر اُٹھاۓ عادل کو دیکھا۔۔پر اسکی آنکھوں سے جھلکتا حزن اُسے نگاہیں چُرانے پر مجبور کر گیا۔۔۔
میں مانتا ہوں یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئ نہ ہی مجھے تم سے کوئ طوفانی قسم کا عشق ہے پر میں پھر بھی یہ رشتہ نبھانا چاہتا تھا۔۔۔میرے لئیے شاید یہ آسان ہے کیونکہ میرے دل میں کبھی بھی کوئ نہیں آیا۔۔۔ پر تمھارے لئیے یہ بے حد مشکل ہے کیونکہ تمھارے دل میں کوئ ہے جو بہت شان سے براجمان ہے۔۔۔(مریم کو عادل کہ لہجہ میں چھپا درد محسوس ہوا تھا)
میں نہیں چاہتا کہ تم خود کو اس حد تک گرا لو کہ بعد میں کسی سے کیا خود سے بھی نظریں نہ ملا سکو۔۔۔عادل نے آج کی بات یاد دلاتے ہوۓ اس پر چوٹ کی
میرے لئیے میری انا اور ضد سے زیادہ میری عزت پیاری ہے جسے میں تمھیں روندنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔۔۔اب کی بار اسکا لہجہ مضبوط تھا
اس لئیے میں چاہتا ہوں کہ تم جو چاہے فیصلہ لو میری طرف سے تم بالکل آزاد ہو تم جب چاہے خلع لے لینا۔۔۔
مریم نے پھٹی پھٹئ آنکھوں سے عادل کو دیکھا تھا۔۔
تبھی وہ بنا کچھ کہے اُٹھا اور باہر چل دیا جبکہ مریم وہین بیٹھی رہ گئ ۔۔
***********
اگل صبح مریم وہاں پر بنا کسی کو کچھ کہے اپنا مختصر سا سامان اُٹھاۓ صبح ہی صبح اپنے گھر واپس آگئ تھی۔۔۔
دروزے پر ہی اُسکا سامنا رضوانہ سے ہوا۔۔
نہ اُنہوں نے اپنی ناراضگی کی وجہ سے کچھ پوچھا نہ ہی مریم نے کچھ بتانے کی زحمت کی۔۔۔
اپنے اور سدرہ کہ مشترکہ کمرے میں آکر سامان رکھتے ہی وہ سو گئ تھی۔۔۔پوری رات جاگنے کی وجہ سے با آسانی نیند اس پر مہربان ہوگئ تھی۔۔۔۔
دوپہر میں کالج اے آنے کہ بعد جب سدرہ کمرے میں داخل ہوئ تبھی مریم کو سوتا دیکھ وہ اُس پر چڑھ دوڑی۔۔۔
آپ کب أئیں آپی مریم کو زور زور سے پیار کرنے کہ بعد پوچھا۔۔۔
مریم بھی مسکراتی ہوئ اٹھ بیٹھی۔۔۔
میں تو صبح ہی آگئ تھی۔۔۔
اچھا عادل بھائ بھی آۓ ہیں۔
نہیں میں اکیلی آئ ہوں۔۔
وہ کیوں نہیں آۓ آپ شادی کہ بعد پہلی بار آئ ہیں اور اُنہوں نے آپکو اکیلے ہی بھیج دیا؟؟
میں کونسا رسم و رواجوں کہ تحت آئ ہوں جو وہ چھوڑنے آتا۔۔۔۔مریم نے تڑخ کر کہا
اوہ اب پلیز یہ مت کہنا کہ تم ناراض ہو کر آئ ہو؟؟
میں ناراض ہو کر نہیں ہمیشہ کہ لئیے آگئ ہوں۔۔۔
پر کیوں آپی۔۔۔
کیونکہ میں وہاں نہیں رہنا چاہتی۔
میں اس ان چاہے رشتے کو طوق کی طرح پوری زندگی اپنے گلے میں لٹکاۓ نہیں رہ سکتی۔
کیا مرضی مرضی لگائ ہوئ ہے آپ نے آپی ہم جس سوسائٹی میں رہتے ہیں نہ یہاں تقریباً ہر لڑکی کی شادی اُسکی ماں باپ کی مرضی سے ہی ہوتی ہے اور وہ نباہ کرتی ہیں آپ ۔۔۔آپ کوئ انوکھی نہیں ہیں۔۔۔
رہتی ہونگی میرا ان سے کوئ کنسرن نہیں ہے۔۔پر میں نہین رہونگی میں خلع لونگی
(رضوانہ جو کب سے دروزے سے کان لگاۓ کھڑی تھیں مزید برداشت نہ کر پائیں اور اندر داخل ہوئیں)
تم یہ کیا کہہ رہی ہو مریم۔۔۔
خبردار جو یہ لفظ دوبارہ اپنی زبان پر لائیں ہمارے خاندان میں آج تک کسی لڑکی کی طلاق نہین ہوئ سُنا تم نے؟؟؟
پہلے نہیں ہوئ ہوگی پر اب ہوگی۔۔
تبھی رضوانہ کا ہاتھ اُٹھا تھا جو مریم کہ گال پر نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔
بے شرم۔۔۔ کچھ تو حیا کر۔۔۔کیوں خاک ڈلوانا چاہتی یے ہمارے سروں میں۔۔
کیوں چُپ چاپ اور لڑکیوں کی طرح گزارہ نہیں کر لیتی۔۔۔
مریم جو تھپڑ لگنے کہ بعد سے گُم سُم کھڑی تھی تبھی پھٹ پڑی تھی۔۔۔۔کیوں چُپ چاپ کر لوں گُزارہ کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں۔۔
میرا لڑکی ہونا میرے لئیے عذاب مت بنائیں اممیی۔۔مریم چیخی تھی۔۔۔
ہمیشہ ایسے ہی ہوتا آیا ہے کوئ آسمان سے نہیں اُتری تم سمجھی۔۔۔(اب کی بار رضوانہ بھی چلائیں)
ہمارے خاندان میں نہیں ہوتا ایسا بیاہ دیا سو بیاہ دیا۔۔۔
اب وہیں رہو چاہے رو کر چاہے خوشی سے۔۔۔
کیوں گزارہ کروں کیوں کہ میں عورت ہوں کل کو کہیں گی گزارہ کرو اب تم ماں ہو۔۔چُپ کر کہ پی جاو سارے دکھ۔ دبا لو اپنی خواہشات اور احساسات قبر بنا لو اور دفنا دو سب کچھ اپنے اندر سیدھا سیدھا کیوں نہیں کہتیں کہ تو جاگیر ہے آدم کہ بیٹے کی چُپ رہ غلامی کر۔۔۔
بچپن سے آج تک ہر احساس اپنے اندر ہی تو چھپایا ہے۔۔ماں ہوتے ہوۓ ماں کہ لئیے ماں کہ لمس کو ترسے ہیں ہم۔۔
اپ نے کبھی توجہ دی ہم پر کبھی پوچھا ہمیں کیا چاہیے ہم کیا سوچتے ہیں کیا چاہتے ہیں نہیں کبھی نہیں کیونکہ آپ کبھی اپنی ذات کہ خول سے باہر ہی نہیں آئیں امی۔۔
اتنی ہی نفرت تھی بیٹیوں سے تو پیدا ہوتے ہی مار دیتیں اس پل پل کہ مرنے سے تو جان چھوٹ جاتی۔۔۔مریم کی آواز چلانے کی وجہ سے اب بیٹھنے لگی تھی۔۔۔
رضوانہ کو آج احساس ہوا تھا اپنی کوتاہیوں کا۔۔ کاش اُنہوں نے اہنی بیٹیوں کو سمجھا ہوتا توجہ دی ہوتی پر اب پچھتانا ہی مقدر تھا شاید۔۔۔
*************
عادل کافی دیر تک لاونج میں بیٹھے رہنے کہ بعد اب اپنے کمرے میں آنے کہ لئیے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں جانے سے ہی خوفزدہ تھا کہ کہیں مریم کی یاد اُسکے قدم نہ ڈگمگا دے۔۔
پر اپنے ہی کمرے سے وہ خود کب تک بے دخل رہ سکتا تھا؟؟؟
یہ وہ کمرہ تھا جہاں صرف چند دن ہی مریم نے بِتاۓ تھے۔۔سامان تو اُسکا فوراً ہی رضوانہ نے یہاں پُہنچا دیا تھا۔۔ پر وہ خود یہاں آنے سے ہر وقت بچتی بچاتی ہی رہتی تھی۔۔
جیسے ہی عادل نے کمرے کا دروازہ کھولا اُسے یوں محسوس ہوا جیسے مریم کی خوشبو اُسکے قدموں سے لپٹ گئ ہو کچھ دیر تو وہ دروازے میں سُن سا کھڑا رہا ۔۔
پھر قدم بڑھاتا الماری تک پہنچا الماری کہ پٹ جونہی کھولے الماری بالکل خالی تھی وہ کپڑے جنہوں نےعادل کی الماری کو مکمل طور پہ بھر دیا تھا اب وہاں موجود نہیں تھے۔۔اُسے وہ دن یاد آیا جب اُسنے اپنی الماری پہلی بار مریم کہ ساتھ شئیر کرنے پر ہنگامہ کیا تھا۔۔۔
مریم۔۔۔۔۔۔
مریمممم۔۔۔۔۔
کیا ہے کیوں چلا رہے ہو پتہ نہیں ہے کیا نیچے قرآن خوانی ہو رہی ہے اور تم ہو کہ اپنا بھونپو بجا رہے ہو۔۔۔
عادل نے آج پہلی بار اُسے مخاطب کیا تھا۔۔۔پر وہ نیچے سُنی گئ عورتوں کی باتوں پر پہلے ہی بھری بیٹھی تھی ۔۔
کہ اچانک عادل کے پکارنے پر وہاں کتنی استہزائیہ نظریں اُس پر اُ ٹھی تھیں۔
اب بولو بھی کیا مسئلہ ہے؟؟؟مریم نے تیوری چڑھاتے ہوۓ پوچھا۔۔
یہ تم نے کیا میری الماری کو کچرا کنڈی بنا دیا ہے ابھی کہ ابھی سب صاف کرو۔۔عادل نے اُسے بازو سے پکڑتے الماری کہ سامنے کھڑا کرتے ہوۓ کہا۔۔
مجھے کوئ شوق نہیں ہے اپنا سامان تمھاری الماری میں سجانے کا سمجھے یہ سب امی نے رکھوایا ہے۔۔
ایک تو یہ۔۔۔۔۔
تبھی ریحانہ اندر داخل ہوئیں تم یہاں ہو مریم سب بُلا رہے ہیں چلو دُعا ہونے والی ہے یہ ۔۔۔
یہ کیا یہ سب کیوں پھیلایا ہوا ہے۔۔۔
اپنے بیٹے سے پوچھ لیں۔۔۔یہ کہتے ہوۓ مریم باہر نکل گئ۔۔
یہ کیا ہے عادل ۔۔
دیکھیں ناں یہ اتنا کچھ اس نے میری الماری میں بھر دیا ہے۔۔۔
تو کیا وہ یہ سب محلے والوں کی الماری میں رکھواۓ حد کرتے ہو تم بھی۔۔۔ریحانہ نے اُس سمجھاتے ہوۓ کہا۔۔
اور یہ یاد رکھو کہ یہ سب تمھاری پھوپھو نے رکھوایا ہے۔۔۔ اور وہ ابھی یہیں ہیں۔۔
ویسے حد ہے امی ایسے تو لڑکیوں کی مائیں اُنہیں اُنکی ساسوں سے ڈراتی ہیں۔۔
جیسے آپ مجھے میری ساس سے ڈرا رہی ہیں۔۔عادل نے شرارتی نظروں سے اُنہیں گھورا تھا اور وہ اسے پیار سے چپت لگاتیں باہر چلی گئ تھیں۔۔۔
عادل الماری کھولے سب یاد کرکے مسکرانے لگا تھا کل جن باتوں پر اُسے غصہ تھا آج وہ سب ایک حسین یاد بن کر رہ گئ تھیں۔۔۔
تبھی عادل چلتا ہوا ڈریسنگ تک آیا۔۔۔
وہاں بھی کوئ بھی چیز مریم کی نہیں رکھی پوئ تھی سواۓ ایک پرفیوم کے۔۔عادل نے وہ پرفیوم اُٹھایا اور پھر پورے کمرے میں چھڑکاو کرتا ہوا بیڈ پر گرنے کہ انداز سے آکر لیٹ گیا۔۔(مریم کی خوشبو ہر جگہ بکھراۓ شاید اب نیند آجاۓ یہ سوچتے ہی اب اس نے آنکھیں بند کر لیں)
**************
رات کے دو بجے مریم اپنے گھر کے ڈرائنگ روم کی کھڑکی کہ پاس کرسی ٹکاۓ بیٹھی ہوئ تھی۔۔۔۔اُسے ہمیشہ سے یہاں بیٹھ کر باہر آسمان کو دیکھنا بہت پسند تھا۔۔
کراچی میں آسمان پر عموماً ستارے نہیں دکھتے سواۓ بادلوں کے پر اُڑتے بادلوں کو دیکھنے میں بھی الگ ہی مزہ تھا۔۔
صبج کہ واقعہ کہ بعد کسی نے بھی مریم سے بات نہیں کی تھی۔۔شاید سب اُسے سوچنے کا موقعہ دینا چاہتے تھے۔۔
کافی دیر سے باہر دیکھنے کہ بعد اب اُسے کسی کہ قدموں کی چاپ سُنائ دی تھی۔۔ پیچھے دیکھنے پر فرید صاحب کھڑے دیکھائ دئیے۔۔
بابا آپ۔۔ آئیں نا۔۔مریم نے سامنے پڑی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ اُنہیں بیٹھنے کا کہا۔۔
فرید صاحب بھی خاموشی سے آکر اُس کرسی پر بیٹھ گۓ۔۔اور چُپ چاپ باہر دیکھتی مریم کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
میں نے اپنی شادی کے اتنے سالوں میں آج پہلی بار تمھاری ماں کو اتنا کھویا کھویا اور خاموش دیکھا ہے۔۔۔
مریم نے چونکتے ہوۓ اُنکی جانب دیکھا۔۔
وہ جو بھی ہے بیٹا جیسی بھی ہے تمھاری سگی ماں ہے وہ۔۔۔تمھاری جنت اُسی کہ پیروں تلے ہے۔۔۔مریم بالکل ساکت بیٹھی اُنہیں سُن رہی تھی۔۔
خُدا ماں کے قدموں تلے جنت رکھنے سے پہلے یہ نہیں دیکھتا بیٹا کہ یہ عورت کیسی ماں بنے گی۔۔
اگر تمھیں یہ گِلہ ہے کہ اس نے کبھی تمھیں جاننے کی کوشش نہیں کی تو کیا تم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اُسکا رویہ ایسا کیوں ہے؟؟اُسکے لہجے میں اتنی تلخی کیوں ہے؟؟؟
تم میری پہلی اولاد ہو اور پہلی اولاد چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ہر انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے۔۔جب تم پیدا ہوئ تھی اور پہلی بار اپنی ماں کی گود میں گئ تھی اُسکی آنکھوں کی چمک آج بھی مجھے یاد ہے۔۔۔
جب تم چھوٹی تھی اور رات میں روتی تھی تو وہ تمھیں بنا ماتھے پر کوئ شکن لاۓ پوری پوری رات لئیے ٹہلتی تھی تمھیں لوریاں سُناتی تھی۔۔۔ماں باپ ہمیشہ اپنی اولاد کی بہتری چاہتے ہیں بیٹا۔۔۔فرید صاحب نے مریم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا جو خاموشی سے اُنہیں سُن رہی تھی اگر اُسے عادل تمھارے لئیے بہترین لگا تو تم اُسکو اس بات کی سزا نہیں دے سکتی۔۔۔
وہ ایک عورت ہے اور جانتی ہے کہ ایک عورت پہ اگر ایک بار طلاق کا دھبا لگ جاۓ تو اُسے صاف وہ مرتے دم تک نہیں کر پاتی۔۔۔
میں تمھارا باپ ہوں سمجھانا میرا فرض تھا۔۔ باقی ہمیں معاف کر دو کے تمھاری شادی بنا تمھاری اجازت کہ ہم نے کردی ۔۔
آگے جو بھی تم فیصلہ لوگی ہمیں منظور ہوگا اور ایک باپ ہونے کہ ناطے میں تمھارا ساتھ دونگا۔۔۔
فرید صاحب اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر زور ڈالتے ہوۓ کھڑے ہوۓ اور جاتے جاتے مریم کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے خوش رہنے کی دُعا بھی دے گۓ۔۔۔۔
*************
میرا آشیانہ ااااااااا۔۔۔۔
میرا آشیانہ ااااااااا۔۔۔۔
(یہ مریم کہ فیورٹ ڈرامے کا ost کی آواز تھی جو اُسکے فون کی رنگ ٹون ہے)
سدرہ نے ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھایا۔۔
ہیلو کون فارغ ہے اس وقت۔۔
ہیلو میں فہد۔۔
ہیں تمھیں رات کے دو بجے کس کیڑے نے کاٹا ہے؟؟؟
تم تو اپنے گھر ہو پھر مجھے کون سا کیڑا کاٹ سکتا ہے بھلا ۔۔۔
یہ کہتے ہہ فہد کا قہقہہ گونجا تھا۔۔
آہستہ ہنسو جن کہیں کے کان کا پردہ ہلا دیا میرا اور تم تو ناراض تھے اب کیا ہوا ۔۔
یار میں جانے والا ہوں بات تو سُن لو۔۔۔
تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے دنیا سے ہی جانے والے ہو۔۔۔اب کی بار ہنسنے کی باری سدرہ کی تھی۔۔
اچھا سُنو اب جب تک میں بات مکمل نا کرلوں تم درمیان میں نہیں بولوگی اچھا۔۔۔
اچھا ااااااا۔۔۔پر پلیز جلدی بولو میں نے سونا بھی ہے۔۔۔
سدرہ میں باہر جا رہا ہوں۔۔۔
کتنی دفعہ اپنے باہر جانے کا رُعب جھاڑو گے۔۔
فہد نے اب کی بار اس کہ بولنے کو اگنور کیا تھا۔۔
اور میں چاہتا ہوں کہ امی جب ماموں سے ہمارے رشتے کی بات کریں تو تمہارا جواب ہاں میں ہو۔۔۔
سدرہ کا جمائ لیتا ہوا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا تھا۔۔
سدرہ کی طرف سے اتنی دیر تک قائم خاموشی پر فہد کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔
سدرہ تم سُن رہی ہو نا؟؟؟
تمھیں میری بات کا مطلب تو سمجھ میں آگیا ہے نا؟؟
ہیلو سدرہ۔۔۔
کچھ تو بولو۔۔
تبھی سدرہ کے چلانے کی آواز فون پر گونجی
ہاۓےےےےےے
تم نے مجھے پرپوز کیا۔۔۔
ہاں میں نے وہی کیا ہے شاید۔۔۔
فہد اسکی آواز سے کچھ اندازہ نہین کرپایا کہ وہ حیرت سے چلائ ہے کہ غم سے۔۔
تو تم اس دن بھی یہ کہنا چاہتے تھے؟؟؟
ہاں یہی کہنا تھا۔۔
فہد کہ چھکے چھوٹ رہے تھے کیونکہ وہ بالکل بھی اندازہ نہیں لگا پارہا تھا کہ جواب کیا آنے والا ہے۔۔۔
تم گدھے۔۔۔۔
اُلو کے ڈیش۔۔
بندر کے ڈیش۔۔۔
ان ڈیشوں میں کیا فل کرنا ہے سدرہ؟؟عادل نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
سب سے گندا لفظ لگا لو جو بھی تمہارے دماغ میں آۓ۔۔
لاحول ولا۔۔۔
تم۔۔۔ عادل تمھیں یہ بھی نہیں پتا کہ کسی لڑکی کو پرپوز کیسے کرتے ہیں؟؟؟
ہاۓ میرے ننھے منے خواب سب ٹوٹ کہ چور چور ہوگۓ کیا سوچا تھا میں نے۔۔۔ سدرہ اپنی نیند اور رات کا وقت سب بھولاۓ اپنی ٹون میں شروع ہو چکی تھی۔۔۔
کہ کینڈل لائٹ ڈنر ہوگا sea view کہ کنارے غبارے پھول اور اپنے گھٹنوں پہ جھکے تم۔۔۔۔
تم نے تو میرے سارے سپنے ہی چکنا چور کر دئیے۔۔۔
ہاہاہاہا۔ (تبھی عادل کی جان میں جان آئ) اُف کتنی بڑی ڈرامہ ہو تم۔۔۔تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔یہ سب بھی ہو جائیگا پر میرے واپس آنے کہ بعد ابھی یہ سب اُتنے اچھے سے افورڈ نہیں کر پاونگا میں۔۔۔
سدرہ۔۔۔۔
ہمممممم۔۔۔
تمھیں میں پسند ہوں نا؟؟؟فہد نے جذبات سے بھرپور لہجے میں پوچھا؟؟
ہممممممممممم۔۔۔پسند تو خیر تم نہیں ہو۔۔۔ کیااااااا۔۔۔۔(عادل کو دُکھ ہوا)
پر کیا کروں پاکستان میں کوئ ٹرکش ہیرو جیسا ملے گا نہیں اور ترکی سے کوئ آئیگا نہیں سو گزارا کرنے کہ لئیے تم بھی بُرے نہیں ہو۔۔۔وہسے سدرہ نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوۓ کہا۔
تم سو جاو تمہاری نیند دماغ پر چڑھ گئ ہے شآید سو جاو شاباش۔۔۔ پاگل کہیں کی فہد نے مسکراتے ہوۓ کال کاٹ دی۔۔۔۔
سدرہ نے اپنے ساتھ والے بیڈ پر اب غور کیا تو مریم وہاں نہیں تھی۔۔وہ جانتی تھی وہ اس وقت کہاں ہوگی تبھی پُرسکون ہوتی ہوئ پھر سے سوگئ۔۔
************
مریم کو وہاں بیٹھے بیٹھے بہت دیر ہوگئ تھی۔۔۔ تبھی کہیں سے فجر کی آذان سُنائ دی۔۔ یااللہ میری مدد کر مجھے راستہ دکھا میرے دل کو سکون دے۔۔ مریم نے دل ہی دل میں دُعا مانگی۔۔
تھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوۓ مریم نے اپنا فون اُٹھایا اور احمد کو کال ملائ۔۔
تھوڑی دیر بعد فون اُٹھا لیا گیا
تبھی احمد کی نیند میں ڈوبی آواز گونجی
ہیلو مریم ۔۔
تم ٹھیک ہو نا؟؟؟احمد نے فکرمندی سے پوچھا
میں تم سے ملنا چاہتی ہوں احمد۔۔۔
ٹھیک ہے پر عادل؟؟
میں امی کی طرف آئ ہوئ ہوں اور تم سے بہت ضروری باتیں ڈسکس کرنا چاہتی ہوں۔۔
اوکے تو میں گھر آجاتا ہوں۔۔۔
نہیں گھر نہیں۔۔۔تم میرے سکول کے پاس والے کیفے میں ملو۔۔۔
پر مریم عادل کو بُرا نہ لگے لاسٹ ٹائم بھی یاد ہے نہ تمھیں۔۔۔
تم فکر نہ کرو اب اُسے بُرا نہیں لگے گا میں دوپہر تین بجے انتظار کرونگی تمھارا۔۔۔
باۓ۔۔۔
**************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...