مریم بالکنی میں پڑی ہوئی کُرسی پر کسی ہاری ہوئی مورت کی طرح سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔۔دوپہر کہ بارہ بجے اچھی خاصی دھوپ تھی اور اس وقت یہاں بیٹھنا پاگل پن سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
پر جب دل کا موسم ہی اُجاڑ ویران ہو تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دھوپ ہے کہ بارش۔۔
(تبھی مریم نے خودکلامی کی)
میں ابھی تک یہی سمجھ نہیں پارہی کہ مجھے زیادہ دکھ کس بات پر ہے(مریم کہ اندر ایک الگ ہی جنگ چھڑی ہوئی تھی)
عادل سے شادی ہونے پر؟؟
یہ احمد کہ مجھے اتنی آسانی سے چھوڑ دینے پر۔۔مجھے یقین کیوں نہیں آتا۔۔
اُف میرے خُدا مریم نے اپنا سر اپنے ہاتھوں پر گرا دیا تبھی اُسے احمد کہ ساتھ کیا اپنا سفر یاد آگیا جو اُس کہ لئیے سب سے یادگار تھا۔۔۔اور جو شاید آخری بھی ثابت ہوا تھا۔۔
مریم۔۔
ہممم
تم خوش ہو نہ؟؟؟
ایسی ویسی میں تو بہت خوش ہوں مریم نے سر جھکا لیا ۔۔
بائیک اشارے پر ابھی رُکی تھی۔
میں بھی بہت خوش ہوں مجھے آج یقین ہو گیا ہے کہ خُدا مجھ سے بھی محبت کرتا ہے تبھی میری دعائیں اپنی بارگاہ میں قبول کیں۔۔مریم مسکراتے ہوۓ سر جھکا گئی۔۔اسے اپنا آپ ہوا میں اُڑتا محسوس ہوا۔۔
تبھی ایک بھکارن موٹرسائیکل کہ پاس آکر فریاد کرتے ہوۓ بولی ۔۔۔
کچھ دے دے صاب۔۔
تینوں رب دا واسطہ صاب ۔۔۔
خدا تیری جوڑی سلامت رکھے صاب۔۔۔
مریم نے ابھی تک اُسے اس بھکارن کو اگنور کرتے دیکھا تھا۔۔پر اس دعا پر احمد نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو بھی نوٹ ہاتھ میں آیا بنا دیکھے پکڑا دیا تبھی اشارہ کُھلا اور وہ آگے چل دئیے۔۔ تم نے ہزار روپے ہی دے دئیے احمد؟؟؟مریم کو حیرت نے گھیرا انکا تعلق جس طبقے سے تھا اس میں ہزار روپے دے دینا بہت بڑی بات تھی۔۔۔
اس نے مجھے تمھارے ساتھ رہنے کی دعا بھی تو دی تھی کیا تم نے یہ نہیں سُنا؟؟؟
پر پھر بھی کوئ سو پچاس پکڑا دیتے۔
ہزار ہی دے دئیے؟؟؟
اُسکی اس دعا پر تو میں کچھ بھی دے سکتا تھا اُسے۔۔۔
تبھی کچھ لمحے کہ لئیے خاموشی چھا گئ اور اس خاموشی کو توڑتے ہوۓ مریم نے بات شروع کی۔۔
ویسے احمد تمھیں کیا لگتا ہے نانو مجھ سے کیوں ملنا چاہتی ہیں۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ پر جو بھی ہو یار اُنکی وجہ سے ہمیں ملنے کا موقع تو ملا ہاہاہاہا احمد کہ قہقہے پر وہ اسے صرف بدتمیز ہی کہہ سکی تھی۔۔۔
تبھی باہر گاڑی آکر رُکی اور مریم اپنے خیالات سے چونکتی ہوئ اُٹھی اور اپنے کمرے میں چل دی۔۔۔۔۔۔
***************
احمد کب سے جاگ چکا تھا پر اُٹھ کر باہر جانے کی ہمت نہیں تھی تبھی اندر بیٹھا سیگرٹ پھونک رہا تھا۔۔
بار بار اُسکی نظر کھڑکی کی جانب اٹھتی یہ کھڑکی مریم کہ کمرے کی طرف کھلتی تھی جہاں پر دونوں اکثر کھڑے اشارے کرتے پاۓ جاتے تھے۔
اس کھڑکی کو دیکھ کر دل کی جلن مزید بڑھنے لگی تھی تبھی احمد اُٹھا اور زور سے کھڑکی کہ پٹ بند کر دئیے
بھائ۔۔۔۔۔۔
بھائ۔۔۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے فہد کیوں شور کر رہے ہو۔
احمد کی لال آنکھیں دیکھ کر بہت عجیب لگا تھا فہد کو ۔۔
پھر سوچا شاید دیر سے سونے کی وجہ سے ہو۔۔
ماموں ملے تھے ابھی نیچے۔۔ ماموکا ں سُن کر ہی حلق تک کڑواہٹ گھل گئ تھی۔۔
کہہ رہے تھے کہ آپ بائیک چابی سمیت ہاسپٹل ہی چھوڑ آۓ تھے ان کی نظر پڑی تو وہ لے آۓ تو یہ چابی دی ہے ۔۔
بھائ۔۔ آپ اتنے لاپرواہ کب سے ہوگۓ کوئ اور لے جاتا تو کتنی محنت سے پیسے جمع کرکہ لی تھی آپ نے۔
اور ۔۔۔۔۔اچھا بس!!
ابھی فہد نے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ اس نے چُپ کروا دیا ۔۔چلو جاو یہاں سے تنگ مت کرو۔۔
آپ تو منگنی کروا کہ مغرور ہی ہو گۓ ہیں بھائ۔۔
شٹ اپ دفعہ ہو جاو۔۔پر بھائ
سُنا نہیں تم نے دفعہ ہو۔۔چلےجاو۔۔
فہد حیران ہوتا باہر چلا گیا۔۔۔۔
*************
آپی ۔۔۔
آپی۔۔۔۔۔
سدرہ آتے ہی مریم کہ گلے لگ گئ۔۔
اتنی دیر سے جو سب اب تک بداشت کررہی تھی کسی اپنے کا کندھا پاتی وہ پھر سے رونا شروع ہو چکی تھی سدرہ بے بھی روتے روتے مریم کو تسلی دی اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی کیا سکتی تھی۔۔
اب دونوں چپ چاپ بیٹھی تھیں جیسے الفاظ ڈھونڈ رہی ہوں۔۔
آپ نے یہ نکاح کیوں کیا آپی آپ نے انکار کیوں نہیں کیا اور احمد بھائ نے یہ سب کیسے ہونے دے دیا؟؟؟
احمد تو مجھے وہاں چھوڑ کر غائب ہی ہو گیا تھا اور میرے انکار کو تو کوئ خاطر میں ہی نہیں لایا۔۔ ایک بار پھر سے اپنی بے بسی رلا گئ۔۔
اب کیا سوچا ہے آپ نے؟؟
فی الحال تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا پر یہ بات تو بالکل کنفرم ہے کہ یہاں تو میں کسی صورت نہیں رہونگی۔۔۔
تو پھر کیا کریں گی آپ؟؟؟
تبھی ہانپتی کانپتی ریحانہ اندر داخل ہوئیں
مریم وہ۔۔
جی ممانی کیا ہوا
وہ ہاسپٹل سے فون آیا ہے تمھارے ماموں کا تمھاری نانو انتقال کر گئ ہیں ۔۔
***************
ممتاز بیگم کی تجہیز وتکفین کر دی گئ تھی۔۔
پر نہ ہی احمد آیا اور نہ ہی راضیہ ۔۔صرف فہد آیا تھا۔۔ اور سب کو یہ ہی کہا کہ امی کی طبیعت صحیح نہیں ہے اوا احمد ان کہ ساتھ رُک گیا ہے۔۔
مریم اور عادل کے نکاح کا بھی خاندان میں پتہ لگ چُکا تھا اور ساتھ ہی یہ بات بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تھی کہ احمد سے منگنی بھی رہ چُکی ہے۔۔اور اس سب کہ بعد تو الامان جتنے منہ اتنی ہی باتیں بنی لوگ افسوس کم کرتے رہے جبکہ مریم کو زیادہ گھسیٹتے رہے۔۔
کسی کا کہنا تھا کہ وہ احمد کو پسند کرتی تھی کسی کا یہ کہنا تھا کہ کسی اور کہ ساتھ بھاگنے والی تھی تبھی ماں باپ نے جلد سے جلد سر سے اُتار پھینکا۔اور حد تو تب ہوئ جب ایک رشتے کی خالہ بولیں۔۔
کہ عادل کہ ساتھ رنگ رلیاں مناتے باپ نے دیکھا تو نکاح ہی پڑھوا دیا۔۔
اور بھی جسکا جو دل کیا الزام دھر دیا۔۔
اور افسوس تو اس بات کا تھا کہ کسی نے بھی ادھر اُدھر دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ پیچھے ہی مریم بیٹھی ہے وہ بھی سن رہی ہو گی پر کسی کو بھی بھلا اس سے کیا غرض تھی۔۔
آج سوئم تھا سب لوگ کھا پی کہ جا چکے تھے۔۔
اور رضوانہ بھی بین کر کر کہ اب نڈھال سی بیڈ پر لیٹی ہوئ تھیں۔۔سدرہ پاس بیٹھی اُنہیں تسلی دے رہی تھی اور ریحانہ کھانے کی ٹرے لئیے منتیں کررہی تھیں۔۔ تبھی مریم اندر آئ اور سائیڈ پر ہو کر بیٹھ گئ جیسے کسی سے کوئ تعلق ہی نہ ہو۔۔وہ تو ابھی تک خود پر لگاۓ الزامات کو ہی ہضم نہیں کر پائ تھی۔۔
ہاۓ میری ماں مجھے بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ گئ وہ پھر سے رونے لگی تھیں ۔۔روتے روتے ایک دم سے وہ چُپ ہوئیں اور اُٹھ کر بیٹھ گئیں سب ہی حیران ہوۓ کہ پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔
آۓ ہاۓ لو بھئ کیا قیامت ڈھے گئ مجھ پر اور ایک تمھاری پھوپھو ہیں آنا تو دور کی بات جھوٹے منہ فون تک نہ کیا ہاۓ میری ماں کن دوغلے لوگوں میں اکیلا چھوڑ گئ مجھے۔۔۔ ہاۓ میری ماں چلی گئ۔۔۔
اُف میرے تو سر میں ہی درد کردیا ہے آپ نے امی اب بس بھی کر دیں۔ مریم کی بات نے تو چھکے ہی چھوڑوا دئیے تھے اُنکے ۔اپنی بھابھی کے سامنے اُنھیں بہت سُبکی محسوس ہوئ ۔۔کچھ دیر تو گھورتی رہیں
اور پھر چُپ کرکے دوبارہ لیٹ گئیں۔۔
************
یہ کیا کہہ دیا آپ نے آپی امی کو۔۔
ابھی تو وہ چُپ ہیں پر بعد میں تو وہ چھوڑئیں گی نہیں آپ کو۔۔ سدرہ نے مریم کو ڈراتے ہوۓ کہا۔
بس بہت ہوگیا سدرہ اب اور نہیں اب میں امی کو انہی کی بیٹی بن کر دکھاونگی اب سب دیکھیں گے۔۔
اب دیکھنا تم میں سب کی ناک میں کیسا دم کرتی ہوں۔۔سب کو کیا لگتا ہے مجھے برباد کرکے میری بربادی کا تماشہ دیکھینگے نہیں ایسا نہیں ہوگا صرف میں ہی برباد نہیں ہونگی میں سب کو اپنی بربادی کی لپیٹ میں لے لونگی دیکھنا تم۔۔(مریم کمرے میں ٹہلتے ہوۓ اُونچا اُونچا بول رہی تھی)
چھوٹی بی بی وہ آپکی پھوپھو اور کزن آۓ ہیں میں نے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا ہے جی گھر کی ملازمہ نے آ کر بتایا۔۔کونسا کزن فہد تو یہیں ہے
جی وہ تو یہیں ہیں کوئ احمد ہیں جی۔۔ ملازمہ نے عاجزی سے کہا۔۔
اوہ تو بھگوڑا آیا ہے پھر تو ملنا بے حد ضروری ہے چلو مریم آو تمھیں تماشا دیکھاوں سر پر ڈوپٹہ ڈالتے وہ کمرے سے باہر چلی گئ۔۔
************
ڈرائنگ روم میں پھوپھو احمد فرید اور رضوانہ پہلے سے ہی بیٹھی ہوئ تھیں۔۔
خیال آگیا تمھیں کہ بھابھی کو افسوس ہی کر دوں۔۔۔انکے گلے شکوں کا سیشن شروع تھا اور راضیہ کی منمناہٹیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔۔ تبھی مریم اندر آئ۔۔۔
السلام علیکم۔۔
کیسی ہیں پھوپھو آپ مریم چہرے پر خوشی بکھراۓ ان سے لپٹ گئ تھی اسکے چہرے پہ بکھرے رنگوں کو دیکھ کر سب حیران تھے۔۔ احمد تو بالکل شاک تھا وہ تو آنے سے پہلے خود کو مریم کی بکھری حالت اور اُسکے پوچھے جانے ولے سوالوں کہ لئیے تیار کرتا رہا تھا پر یہاں پہ تو کایا ہی پلٹی ہوئ تھی۔۔
اوراحمد تم کیسے ہو ؟؟
اب کہ مسکراتے ہوۓ سوال داغا گیا تھا۔۔
میں۔۔۔میں ٹھیک۔
ہمممم اچھی بات ہے
تبھی عادل اور فہد بھی آگۓ جو شاید باہر تھے کسی کام سے تبھی مریم بولی۔۔
اوہ عادل آپ آگۓ؟؟
مریم نے اپنے ساتھ جگہ بناتے آنکھیں جھپکاتے ہوۓ کہا عادل تو عادل وہاں بیٹھا ہر شخص اپنی اپنی جگہ حیران تھا۔۔
ہاں وہ باہر کچھ کام تھا عادل کہتے ہوۓ بیٹھ گیا۔۔ اوہ میں پانی دیتی ہوں آپکو مریم نے جھٹ سے پانی پیش کیا عادل تو منہ کھولے حیرت میں تھا۔۔۔
احمد سے مزید سب برداشت نہ ہوا تو اکسکیوز کرتا باہر چلا گیا۔۔مریم بھی اب آرام سے بیٹھ گئ کیونکہ جو کچھ وہ۔دکھانا چاہتی تھی وہ دکھا چُکی تھی۔۔۔
****************
رضوانہ کو جب سے پتہ چلا تھا کہ مریم الگ کمرے میں رہ رہی ہے تبھی انہوں نے بہت
شور ڈالا ساتھ ہی ریحانہ کو بھی لپیٹ لیا کہ انہوں نے مریم کو عادل کہ کمرے میں جانے کو کیوں نہیں کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ وہ ایک ظالم ساس ہیں جو بیٹے اور بہو میں دوریاں ڈالنا چاہتی ہیں۔۔
تبھی مریم نے انہیں اپنی ماں سے بچانے کہ لئیے اپنا سامان عادل کہ کمرے میں شفٹ کرلیا تھا ۔۔
پر گھر میں مہمانوں کی وجہ سے وہ ابھی تک اس کمرے میں نہیں آئ تھی پر کب تک دروازے پہ کھڑی رہتی اب تو اندر جانا ہی تھا۔۔
تبھی وہ دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوئ سامنے ہی عادل بیڈ پر لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا ہوا تھا۔ اوہو بڑے بڑے لوگ آۓ ہیں واہ کیا بات ہے۔۔عادل کہ طنز شروع ہو گۓ تھے۔۔ تبھی مریم نے کمرے پر تفصیلی نظر ڈالی سامنے ہی ایک ڈبل بیڈ تھا ڈریسنگ ,رائٹنگ ٹیبل ایک کاوچ اور ایک چھوٹے قالین پر پڑے دو فلور کشن اُف کہاں سوونگی میں ۔۔
کیا ہوا ملکہ عالیہ کیا آپکو یہ کمرہ اپنے شایان شان نہیں لگا ؟؟
ہممممم بنتے تو تم بہت ہو پر کمرہ دیکھو اپنا کسی بھنگی کا لگ رہا ہے مریم نے اردگرد پڑے گندے کپڑوں کو دیکھتے ہوۓ چوٹ کی۔۔
اور یہ کیا ننگے لگاۓ ہوۓ ہیں دیواروں پر
اوہ ہیلو یہ فیمس ریسلر ہیں اور تم میرے ہی کمرے میں کھڑی میرے ہی کمرے کی برائیاں نہیں کرسکتی سمجھی؟؟عادل نے اُنگلی اُٹھاتے وارن کرتے ہوۓ کہا۔۔
اور ویسے بھی اب میری بیوی آگئ ہے وہ میرے ساتھ ساتھ میرے کمرے کو بھی سنبھال لے گی کیوں صحیح کہا نہ میں نے ؟؟
عادل نے اپنا کندھا اتنی زور سے مارتے ہوۓ ہوچھا کہ وہ گرتے گرتے بچی۔۔
بدتمیز انسان بالکل تمیز نہیں ہے تمھیں اب کہ مریم نے اپنے کندھے کو سہلاتے ہوۓ کہا۔
اچھا چھوڑو یار سب لڑائ جھگڑے ویسے بھی شام میں تم صلح کا پرچم لہرا ہی چکی ہو تو کیوں نہ ہم اچھے میاں بیوی کی طرح ہنسی خوشی رہیں۔۔
عادل نے مسکراتے ہوۓ کہا ویسے بھی وہ ایسی بیوی چاہتا تھا جو اسکی ماں کی ڈھال بنے اور مریم میں یہ خصوصیت دکھی تھیں اُسے۔۔۔
اوہ ہیلو کس خوش فہمی میں ہو تم ہاں میں اور تمھارے ساتھ رہونگی۔۔
تو کس کے ساتھ رہو گی تم جو بھی جیسے بھی پہلے سب تھا پر اب تم میری بیوی ہو۔مریم۔۔
شٹ اپ۔۔
جسٹ شٹ اپ
میں نہیں ہوں تمھاری بیوی یہ سب دھوکا ہوا ہے میرے ساتھ زبردستی پڑھایا گیا ہے یہ نکاح میں نہیں مانتی سمجھے تم۔۔
میں نے آج تک صرف احمد کو چاہا ہے اس کہ علاوہ کسی کا تصور بھی گناہ سمجھتی ہوں میں۔
بکواس بند کرو کیسی لڑکی ہو تم اپنے ہی شوہر کہ سامنے اپنے معاشوقی کہ قصے سنا رہی ہو۔۔عادل کی رگیں غصے سے تن چکی تھیں۔۔
منگیتر ہے وہ میرا اب کہ مریم نے چلا کر کہا۔
منگیتر تھا اور میں شوہر ہوں سمجھی تم اب کہ عادل نے بے حد مضبوطی سے اُسکا منہ جکڑ لیا۔۔
میں تو اپنا جوتا کسی کو نہیں دیتا تم تو پھر میری بیوی یو چاہے جیسے بھی حالات میں بنی ہو بیوی بیوی ہوتی ہے۔۔ سمجھی تم۔۔عادل نے غصے سے کف اُڑاتے ہوۓ کہا
مجھے شوہر بننے پر مجبور مت کرو لڑکی۔۔
عادل نے اسے پیچھے دھکیلا اور خود باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
وہ مریم کہ اندر کیسی آگ لگا گیا تھا اس بات سے وہ بالکل انجان تھا۔۔۔
تبھی مریم کمرے سے باہر نکل کر لان میں آگئ کچھ دیر تک لمبی لمبی سانس لیتی رہی ۔۔
اور روتے ہوۓ فون ملایا جو پہلی ہی رِنگ پر اُٹھالیا گیا تھا۔۔۔
****/*****/**/***