احمد نہیں جانتا تھا کہ وہ کب سے پیدل چل رہا ہے اور چلتے چلتے کہاں آگیا ہے۔
یہ سب جو کچھ ہو چکا تھا اُس کہ لئیے اس سب پر یقین کرنا بے حد مشکل تھا۔
وہ تو ابھی تک سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب ہوا کیا ہے؟؟
رات کہ اس وقت اکا دکا ہی کوئ ٹریفک تھی چلتے چلتے جب غور کیا تو یہی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ جگہ کون سی ہے اُسکی تو بائیک بھی ہاسپٹل کے پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی۔
تبھی موبائل کی آواز آئ تب اُسے خیال آیا کہ شاید یہ اسی کا فون ہے پاکٹ سے موبائل نکال کہ دیکھا تو فہد کی کال تھی۔۔
ابھی فون کان سے لگایا ہی تھا کہ دو موٹرسائیکل سوار آۓ اور موبائل چھینتے ہی رفوچکر ہو گۓ اور وہ پیچھے کھڑا دیکھتا ہی رہ گیا ۔جسکی زندگی ہی اُس سے چھین لی گئ تھی وہ موبائل چھن جانے کا کیا غم مناتا اب کہ وہ وہیں بیٹھ کر کسی چھوٹے بچے کی طرح رونے لگ گیا تھا۔
***************
ساجد علی اور ریحانہ اندر ہاسپٹل میں ممتاز بیگم کہ پاس تھے جبکہ رضوانہ اور فرید مریم کو باہر تک لے جا رہے تھے۔(رخصتی کہ لئیے) ساتھ ساتھ مریم کو نصیحتیں بھی کر رہی تھیں۔
اب شادی ہوگئ ہے اور تمھیں ہر صورت نبھانی ہے۔جو بھی مسئلے مسائل ہوں اپنے گھر تک رکھنا روز روز باپ کے گھر بھاگی بھاگی مت آنا۔ اور اپنی زبان قابو میں رکھنا مردوں کو زیادہ بولنے والی عورتیں پسند نہیں ہوتیں سمجھ رہی ہو نہ گرہ سے باندھ لو میری یہ باتیں مریم تو اس وقت بس یہی سوچ رہی تھی کہ کیا اس کی ماں کو یہ سب باتیں پتہ تھیں؟؟اگر ہاں تو اُنہوں نے خود کبھی ان سب پر عمل کیوں نہیں کیا۔۔
گاڑی کے پاس پہنچ کر مریم بنا اپنے ماں باپ سے ملے چُپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئ تھی۔ فرید صاحب نے یہ محسوس کیا تھا تبھی خود سے گاڑی میں بیٹھی مریم کے سر پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
جبکہ رضوانہ کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا وہ عادل سے مل رہی تھیں اور یہی بہت تھا اُن کے لئیے۔۔
اب کہ گاڑی میں بیٹھا عادل گاڑی آگے بڑھا لے گیا تھا اور باقی سب پیچھے رہ گیا تھا۔۔
***********
کیا ہوا بات ہوئی احمد سے ؟؟
کیا کہہ رہا ہے آئیگا کہ نہیں ؟؟
نہیں امی بات ہی نہیں ہوئ ماموں بھی کال نہیں اُٹھا رہے اور ممانی کا تو نمبر ہی بند ہے۔
اللہ خیر کرے اب تو مجھے ہول اُٹھ رہے ہیں۔پتہ نہیں کیوں میرا دل بہت پریشان ہے۔وہ دل پہ ہاتھ رکھے وہیں صوفے پر بیٹھ گئ تھیں۔
اوہو اب آپ اپنا بی-پی مت بڑھا لینا کیا پتہ بھائی کہیں ڈیٹ شیٹ مار رہے ہوں فہد نے آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔
اوۓ اوۓ۔۔۔
تم مارتے ہوگے ڈیٹ شیٹ میری بہن ایسی نہیں ہے سمجھے تم۔سدرہ اب کہ اپنے پنجے جھاڑ چکی تھی۔
تمھاری بہن نہ ہو ایسی پر وہ جو ساتھ گیا ہے وہ تو میرا ہی بھائ ہے فہد نے مزید چڑاتے دانت نکالتے ہوۓ کہا۔
او چپ کر بےہدیتا میرے معصوم شریف بچے پر الزام نہ لگا راضیہ بیگم پہلے ہی پریشان تھیں اب کہ مزید تپ کر کہا۔انکی ڈانٹ پر فہد کا منہ بن گیا تھا۔تبھی سدرہ فہد کی شکل دیکھ کر ہنستی چلی گئی۔
**********
آج کے دن شام میں منگنی ہوئی تو لگا جیسے سب کچھ پا لیا۔ اور اُسی ہی رات کسی اور سے نکاح پڑھوا دیا گیا اور اب رات کہ دوبجے رخصتی کیا یہ شادی ہے؟؟ یہ سوچتے ہی مریم کی ہچکی گونجی تھی (گاڑی میں اس وقت وہ اور عادل تھے مریم کی رخصتی ہو چکی تھی) ہچکی کی آواز پر عادل نے ناپسندیدگی سے مریم کو گھورا اور گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی۔اس وقت گاڑی میں اور سڑک پر ہو کا عالم تھا۔
اب باہر دیکھنے کہ بجاۓ سر نیچے جھکاۓ مریم نے اپنے خالی ہاتھوں کو گھورا تو دل کو مزید درد نے گھیرا۔۔
میں کیسی دُلہن ہوں کیا میں دُلہن ہوں ؟؟
اب کہ دل چاہا کہ گاڑی سے ہی کود جاۓ۔پر خود میں اتنی ہمت نہ پاتے ہوۓ پھر سے رونا آنے لگا۔ مرنے کی بھی ہمت نہیں ہے مجھ میں ایک بار پھر سے بے آواز آنسو بہنے لگے تھے۔
اُترو گاڑی سے گھر آگیا ہے۔ عادل کے کہنے پر مریم چُپ چاپ گاڑی سے اُتر گئ تھی اور وہ گاڑی بھگاتے ہوۓ لے گیا۔
ہیں یہ کہاں چلا گیا پر اب سوچنے کا وقت نہیں تھا رات کے ساڑھے تین بج چُکے تھے وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی جیسے ہی گیٹ تک پُہنچی تو دیکھا کے گیٹ پر تالا تھا۔یہ دیکھتے ہی اب تو اپنے پیروں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا تبھی وہ زمین پر گرنے کہ انداز سے بیٹھتی چلی گئ تھی۔۔۔
************
گیٹ پر بیٹھے ہوۓ ایک یہی سوال دماغ میں گونج رہا تھا کہ اب کیا کروں۔۔ یکدم ہی سب کچھ بھول گیا تھا اپنی قسمت اور بےبسی پر رونا سب اب یاد تھا تو صرف یہ کہ رات کہ کوئ ساڑھے تین بجے کھلے آسمان کے نیچے بے یارومدگار بیٹھی ہوں۔
کاش گھر سے نکلتے ہوۓ اپنا موبائل لے لیا ہوتا تو ابھی کسی کو کال ہی کر لیتی اب کیا کروں یااللہ تب نہیں میری فریاد سُنی تو اب ہی سُن لے تبھی مریم کی نگاہ سامنے کی طرف اُٹھی جہاں سے دو کُتے اُسے اپنی طرف بڑھتے یوۓ محسوس ہوۓ۔
کُتوں سے تو اُسے بچپن ہی سے بےحد ڈر لگتا تھا اگر گھر سے باہر بھی بھونکنے کی آواز آتی تو بھی یہی ڈر ہوتا کہ اندر نہ آجائیں۔۔
آج کا تو دن ہی منحوس تھا پتہ نہیں دن منحوس ہے کہ میں ؟؟
************
کافی آگے جا کر عادل کو خیال آیا کہ ہاسپٹل سے نکلتے وقت ابا نے گھر کی چابیاں پکڑائ تھیں کیونکہ گھر لاک تھا اور گھر پر کوئ نہیں تھا تبھی گھر لاک تھا۔
اُف میرے خدا مجھے تو غصے میں دھیان ہی نہیں رہا تبھی عادل نے یوٹرن لیا اور واپسی کہ لئیے گاڑی بھگانا شروع کردی۔
***********
کافی دیر رونے کہ بعد اب احمد کو گھر واپس جانے کا خیال آہی گیا تھا۔
تبھی رات کہ اس پہر ایک رکشہ پاس سے گزرتا دیکھ وہ جلدی سے کھڑا ہوا اس وقت (اتنی ویران جگہ پہ رکشہ ملنا ایک غنیمت تھا)اور رُکنے کا اشارہ دیکھ اس میں سوار ہوگیا۔۔۔
کیا ہوا بھائ آپ ٹھیک نہیں لگ رہے اگر آپ کہیں تو کسی ہسپتال کی طرف موڑ لوں رکشے والے نے انکساری سے کہا۔۔
پر ہسپتال کا سنتے ہی احمد کو خود پہ تیزاب کی چھینٹیں پڑتی ہوئ محسوس ہوئیں۔۔
تم سے مطلب اپنے کام سے کام رکھو سمجھے احمد نے بلا وجہ کا غصہ کیا جو کبھی بھی اسکی عادت نہیں رہی تھی۔ رکشے والا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔۔(اُسے یہ ہمدردی مہنگی پڑی تھی)
************
کتوں کو اپنے قریب آتا دیکھ مریم کی سانس رُکنے لگی تھی پر پھر بھی وہ کپکپاتے ہوۓ اُٹھی اور اب کہ گیٹ پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
اس نے اپنا ایک پاوں گیٹ پر اڑسا اور دوسرا پاوں بھی اوپر کر کے کھڑی ہوگئ اور وہ دونوں کتے نیچے کھڑے ہو کر بھونکنے لگ گۓ ۔کبھی ایک کتا کھڑا ہو کر اوپر چڑھنے کی کوشش کرنے لگتا اب کہ مریم نے باقاعدہ چیخنا بھی شروع کردیا تھا۔
آآآآآآ ۔۔۔۔۔۔کوئ ہے پلیز مجھے بچاو
کوئ ہے آآآآآآ۔۔۔۔۔۔
باباااااااا
سدرہ۔۔۔۔۔
کوئ تو آو اب کہ وہ وہیں کھڑے گیٹ پر سر ٹکاۓ رونے لگ گئ تھی۔
اتنے میں ایک کتے کہ منہ میں اسکی قمیض کا دامن آگیا تھا۔ اب وہ اسکو اپنی طرف کھینچنے لگا۔۔تبھی ایک طرف سے اُسکا دامن کھنچتا چلا گیا اور وہ نیچے آگری گرنے سے اُسکا پاؤں بہت بُری طرح سے مُڑ گیا تھا پر اس وقت درد کی کسے پرواہ تھی ابھی ہر چیز پر کتوں کا خوف حاوی تھا۔۔۔
ان میں سے ایک کتا منہ کھولے ابھی آگے بڑا ہی تھا کہ ایک گاڑی رُکی اور اس میں سے عادل نکلا ۔وہ کتے عادل کو دیکھ کر بھاگ چکے تھے۔۔
*************
فرید صاحب نے آخرکار فہد کی کال اٹینڈ کر ہی لی تھی۔۔
ماموں کہاں ہیں آپ لوگ کب سے کال کر رہے ہیں نہ بھائ اُٹھا رہے ہیں نہ آپ تبھی راضیہ نے فہد کہ ہاتھ سے فون لے لیا۔۔
سب ٹھیک ہے نہ بھائ؟؟
ہاں ہاں سب ٹھیک ہے اب تو ماں جی کی حالت بھی بہتر ہے۔
چلیں شکر ہے۔۔ وہ بھائ جان مریم وہیں رُکے گی کیا ؟؟اور احمد وہ کہاں ہے فون نہیں اُٹھا رہا؟؟ وہ سوال کر لیے گۓ تھے جن سے وہ بچنا چاہ رہے تھے پر آخر کب تک سامنا تو کرنا تھا۔۔
مریم یہیں ہے اور آنے والا ہوگا احمد یہاں سے تو نکل گیا تھا۔۔تم اس طرح کرو سدرہ کو اپنے گھر لے جاو یہ پھر ادھر ہی رُک جاو دیکھ لو جیسے تمھیں مناسب لگے۔۔۔اپنے گھر ہی چلی جاتی ہوں بھائ جان احمد آئیگا تو کھانا وغیرہ دونگی۔۔۔
چلوجیسے تمھیں مناسب لگے۔۔ اچھا ٹھیک ہے میں بھی صبح تک گھر آجاونگا چلو اب رکھتا ہوں اللہ نگہبان۔۔
جہاں تک وہ بات کو سنبھال سکے تھے فی الوقت اُنہوں نے سنبھالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
************
سدرہ فہد اور راضیہ جیسے ہی اپنے گھر کی طرف بڑھے اُنہیں احمد آتا ہوا دکھائ دیا۔
گرد سے اٹے ہوۓ بال اور کپڑے ٹوٹا بکھرا سا اُسے دیکھ کر تو راضیہ کے دل کو ہاتھ پڑ گیا تھا۔۔
تبھی فہد جلدی سے احمد تک پُہنچا کیا ہوا بھائ آپ ٹھیک ہیں احمد نے جیسے ہی عادل کو دیکھا تو اُسے سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ وہ کہاں ہے تبھی اس نے خود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی۔۔
میں ٹھیک ہوں وہ راستے میں دو لوگوں نے موبائل چھین لیا تو وہ بس تبھی تھوڑا یہ (ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس نے سمجھانے کی کوشش کی)۔اور آپی سدرہ نے اب کہ فکرمندی سے پوچھا احمد کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔
نہیں یہ تو ابھی آتے ہوۓ ہوا وہ ساتھ نہین تھی۔
چلو اندر تو لے چلو میرے بچے کو راضیہ کہ کہنےپر فہد احمد کو سہارا دیتے اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔
***********
عادل بھاگتا ہوا مریم کی طرف آیا تھا۔۔
کیا ہوا لگی تو نہیں ۔۔
عادل کو دیکھ کر مریم کو مزید رونا آنے لگا تھا۔۔
تبھی وہ اُس کہ پاس سے اُٹھتا ہوا لاک کھولنے لگا اُٹھو اندر چل کر نہر بہا لینا۔ مریم نے خونخوار نظروں سے اُسکی طرف دیکھا۔تبھی مریم نے جیسے ہی اُٹھنے کی کوشش کی اُسے درد کی شدید لہر نے جھنجھوڑ ڈالا۔۔۔کیا ہوا اُٹھ بھی جاو اب ۔۔عادل نی جھنجھلاتے ہوۓ کہا۔
میرے پاؤں میں موچ آگئ ہے۔
اب کہ عادل نے اپنی نظرِ کرم اس پر ڈال ہی لی تھی مریم سر جھکاۓ پاؤں پکڑے آنسو بہا رہی تھی۔
مجھ سے یہ بالکل بھی اُمید مت رکھنا کہ میں تمھیں گود میں اُٹھا کر اندر لے کر جاؤنگا۔
اکسکیوزمی!! نہ تو مجھے آپ سے ایسی کوئ اُمید یے اور نہ ہی خواہش سمجھے آپ ہممم (کہتے ہی مریم نے سر جھٹکا)
عادل کو پرانی والی مریم کی جھلک کافی دیر بات دکھی تھی۔۔میرا ہاتھ پکڑ لو میں تمھیں اندر چھوڑ دونگا۔۔
مریم نے بغور اس ہاتھ کو گھورا جسے وہ مر کر بھی پکڑنا نہیں چاہتی تھی پر ہاۓ رے قسمت ۔۔۔۔۔۔۔۔
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...