مریم ابھی ابھی اسکول سے واپس آئ تھی۔ایک تو گرمی سے بُرا حال اوپر سے آتے ساتھ ہی وہی ٹی وی کی اونچی آواز نے اُسکا پارا ہائی کر دیا تھا۔۔کیا ہے یار اگر آواز آہستہ کر لو گی تو تمھیں گناہ ملے گا کیا مریم نے آتے ساتھ ہی اپنی تھکاوٹ اور گرمی کا غصہ سدرہ پر نکالا ۔۔یار آپی آتے ساتھ ہی مجھ بیچاری پر چڑھ دوڑتی ہو ایک تو اللہ کسی کو کچھ بھی بنا دے پر گھر کا چھوٹا نا بناۓ۔
۔ سدرہ نے بھی چڑتے ہوے جواب دیا تھا۔ جاو جاو رونے تو ایسے رو رہی ہو جیسے بڑا چپ کر کے سارے کام کر لیتی ہو ایک تو سو باتیں بناتی ہو اوپر سے ہر کام کے چارجز الگ لیتی ہو ۔۔مریم نے بھی اگلے پچھلے سب حساب بے باک کر دئیے تھے۔ پر آگے بھی سدرہ نامی بلا تھی جو برا بہت کم ہی مانتی تھی ۔۔
تو اور کیا پیٹرول کا خرچہ بھی نا لوں۔ سدرہ نے اگلے پچھلے سب معصومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوے بیچارہ سا منہ بنایا کیسا پیٹرول کہاں کا پیٹرول تمہاری کونسی گاڑیاں چل رہی ہیں آئ وڈی ٹرانسپورٹر ۔۔ مریم نے طنز کرتے ہوے کہا ۔
پر اگلی نے بھی اسی کی بہن ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا میری پیاری بہن یہاں پر پیٹرول سے میری مراد میری چاٹ اور گول گپوں کا خرچہ ہے اب اتنا کام کرتی ہوں تو اتنا تو بنتا ہے نا ۔سدرہ نے اپنی معصوم شکل کو مزید معصوم بناتے ہوۓ کہا اور مریم سے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا۔۔ کتنا بڑا ڈرامہ ہو تم یار مریم نے اسکے شانے پر دھپ رسید کرتے ہوے کہا۔چلو اٹھو شاباش پانی پلاؤ۔اچھا لا رہی ہوں پر پلیز چینل چینج مت کرنا ۔اچھا نہیں کرتی پانی تو لاو۔
ایک تو پتا نہیں ان ٹرکش ڈراموں میں تمھیں کیا نظر آتا ہے مریم نے بے زاریت بھرے لہجے میں کہا۔سدرہ نے پانی لاتے ہوۓ کہا۔میں کونسا ڈرامے کے لیے دیکھتی ہوں مجھے تو اس ڈرامے کا ہیرو پسند ہے سدرہ یہ بتاتے ہوے ایسے شرما رہی تھی جیسے وہ ہیرو واقعی میں اسے دیکھ رہا ہو ۔۔
حد ہے یار ایک تو تم اور تمھارے ہیرو ۔ مریم نے تو باقاعدہ اپنا سر ہی پکڑ لیا ۔اچھا اب یہ شرمانا بند کرو اور یہ بتاؤ امی کہاں ہیں۔۔ امی تو پھوپھو کے گھر گئی ہیں ۔سدرہ نے لا پرواہی سے کہا ”جب کہ مریم کو تو پانی پیتے ہوے باقاعدہ اچھو ہی لگ گیا۔۔ کیااااا امی کہاں گئی ہیں تمھیں کیا ہوا بتایا تو تھا پھوپھو کے گھر ۔۔امی پھوپھو کے گھر کیسے چلی گئیں۔
اپنی ٹانگوں سے اور کیسے سدرہ نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوے بتایا ۔اُف ایک تو یہ لڑکی کبھی تو کوئ جواب سیدھا دے دو حد ہے مریم کو غصہ کرتے دیکھ سدرہ اب سب شرافت سے بتانے لگی۔۔۔
یہ گھرانہ فرید صاحب کا ہے فرید صاحب جو کراچی کے ایک قدرے بہتر علاقے میں رہتے ہیں۔انکے ساتھ انکی اہلیہ رضوانہ اور انکی دو بیٹیاں مریم اور سدرہ ہیں ۔۔
مریم اپنی گریجویشن کے بعد سے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہے۔مریم ایک سلجھی ہوئ لڑکی ہے۔اور اپنی پھوپھو کہ بڑے بیٹے احمد کو پسند کرتی ہے۔اور اپنے ابو کی لاڈلی ہے۔اور اُنکی چھوٹی بیٹی سدرہ بالکل مریم کی اُلٹ ہے اور ُاُسکی زندگی کا محور کھانا اور ٹرکش ڈرامہ دیکھنا ہے۔۔۔ رضوانہ صاحبہ ایک مشرقی عورت ہیں جنہیں بیٹا نا ہونے کا بہت افسوس ہے اور وہ آج تک اس دکھ سے باہر نہیں آسکیں کے اللہ نے انھیں اس نعمت سے محروم رکھا ہے ۔وہ اپنی اکلوتی نند سے آج تک اس لئے بیر پالے ہوۓ ہیں کے انکے دو بیٹے ہیں شاید ان کے بےوجہ حسد نے اس قدر انہیں اندھا کر دیا ہے کے انھیں اپنی نند کی اچھائیاں کبھی نظر ہی نہیں آئیں۔
پر رضوانہ بیگم نے بیٹوں والے سارے چاؤ اپنے اکلوتے بھتیجے پر پورے کیے ہیں۔انکے میکے میں انکی ایک عدد تیز طرار ماں ایک بھائ اور ایک بھاوج ہیں۔۔۔۔۔
اصل میں آج فہد کا رزلٹ آنا تھا اور امی کو پورا یقین ہے کے وہ جتنا لا پروا ہے ضرور ہی ایک یہ دو پرچوں میں اُڑا ہوگا اس لئے پھوپھو کو اُنکی لاپرواہیوں پر سنانے گئ ہیں۔۔۔ سدرہ نے تفصیلاً سب بتایا۔ ایک تو امی بھی نہ کتنی شرمندگی ہوتی ہے مجھے احمد کے سامنے ان کہ رویہ پر کہ پوچھو ہی مت مریم نے تاسف سے کہا۔۔۔۔ہاں نہیں پوچھ رہی جائیں جا کرچینج کریں سدرہ نے اپنی پرانی ٹون میں واپس آتے ہوے کہا۔مریم بھی اُٹھ گئ اب تو امی ہی آ کر بتائیں گی کہ وہاں کتنی گولا باری کرکے آئ ھیں ۔۔۔۔۔
تم کن تکلفوں میں پڑھ گئ ہو ثروت میں فھد کا رزلٹ پوچھنے آئ تھی رضوانہ صاحبہ نے لٹھ مار انداز میں پوچھا۔۔ ویسے بھی وہ بہت کم ہی انھیں مخاطب کرتی تھیں۔بھابھی وہ تو بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہے راضیه نے چاۓ کے ساتھ مٹھائی رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔
رضوانہ کا تو منہ ہی بن گیا یہ سن کر۔۔وہ ۔ پھر سے منہ کہ زاویے بگاڑتے ہوے بولیں۔۔
سی گریڈ لے کر ہی پاس ہوا ہوگا ایسے پاس سے تو بندہ فیل ہی بھلا جُھکنا تو اُنہوں نے کبھی سیکھا ہی نہیں تھا ۔۔اور یہ عادت ہو بہو انکی ماں پر تھی۔
نھی تو بھابھی ماشاءالله A+ آیا ہے راضیه نے بغیر انکے چہرے کے اُڑتے رنگوں کی طرف دیکھے وضاحت کی۔ ۔۔فھد کا اے پلس تو مانو اُنھے آگ ہی لگا گیا۔
اچھا مریم آگئ ہوگی کب سے یہاں بیٹھی ہوں اب گھر کو دیکھوں یہ بولتے ہی وہ اٹھ گئیں نا دائیں دیکھا اور نہ ہی بائیں۔۔جبکہ راضیہ اُنہیں روکتی ہی رہ گئیں۔۔۔
دھڑ دھڑ باہر دروازہ بہت زور سے دھڑ دھڑایا جا رہا تھا۔۔۔۔سدرہ بھاگتے ہوۓ دروازے تک پُہنچی۔۔ارے کون ہے صبر کرو کتے پیچھے لگے ہیں کیا یہ کہتے ہوۓ جب دروازہ کھولا تو سامنے ہی امی کھڑی تھیں کیا ہوا ہے امی باتھ روم جانا ہے کیا۔۔۔ سدرہ کی زبان میں بھی غلط وقت پر ہی کھجلی ہوئ تھی۔
۔ آۓ ہاۓ آگے سے تو ہٹو۔۔ رضوانہ نے تقریباً دھکیلتے ہوۓ سدرہ کو ہٹایا
جب تک مریم بھی کمرے سے باہر آ چکی تھی کیونکہ وہ بھی جاننا چاہتی تھی کے اب اُسکی امی کون سا نیا شوشا چھوڑ کے آئی ہیں۔۔۔۔۔
رضوانہ بیگم غصہ سے لال پیلی ہوتی ہوئ صوفے پہ گرنے کہ انداز میں بیٹھ گئیں۔۔کیا ہوا امی آپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں پھوپھو تو ٹھیک ہیں نا۔۔۔لو ایک اور آگئ پھوپھو کی ہمدرد مریم کہ منہ سے راضیہ کا ذکر سن کر اُنہیں مزید غصہ آگیا۔
امی اب بتا بھی دیں ہوا کیا ہے آخر اب کی بار سدرہ نے پوچھا۔۔ہونا کیا ہے وہ منحوس پاس ہو گیا ہے وہ بھی A+ لیکر رضوانہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا اُن کا تو صدمہ ہی ختم نہیں ہورہا تھا۔۔
واہ یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے سدرہ نے چہکتے ہوۓ کہا۔۔۔کیا خوشی کی خبر ہاں اب
کی بار تو وہ اپنے سٹائل میں آتے ہوۓ ہاتھ
نچا نچا کر بولنا شروع ہو چکی تھیں۔۔میں نے تو سوچا تھا کہ وہ موا ہر وقت کدکڑے لگاتا پھرتا ہے یقیناً فیل ہوا ہوگا۔۔اور یہ بات تمھارے باوا کو بتا کر اُنکا خرچہ پانی بند کروا دونگی پر یہ پاس کیسے ہوگیا کمبخت میں بھی جب تک اُسکا رپورٹ کارڈ نہیں دیکھ لیتی ماننے والی نہیں ہوں۔
مارک شیٹ سدرہ نے آہستہ سے کہا پر واہ ری قسمت کوئ بات ہو اور رضوانہ کو سُنائ نہ دے ایسا مشکل ہی سے ہوتا تھا رضوانہ کے گھورنے پر سدرہ نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...